حضرت شیخ
الہند پر تحریفِ قرآن کا باطل الزام
ماخوذ : مجلہ راہ ہدایت شمارہ 24
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
[ یہ مضمون قریبا ً بارا
سال پرانا ہے جو بندہ کے مسودات میں پڑا رہاہے۔ مضمون نامکمل تھا ،تکمیل کے
لئے آخر میں دو صفحات خالی چھوڑے ہوئے ہیں ۔بندہ نے اسے مکمل کرتے ہوئے کچھ حوالہ
جات کا اضافہ بھی کیا۔تکمیل کے بعد اسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے ۔ دعا
ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نافع بنائے ، آمین (رب نواز عفااللہ عنہ ) ]
علمائے اہلِ سنت دیوبند کثر اللہ
سوادھم میں ایک بزرگ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ ہیں جن کی علمی
بصیرت، جلالتِ قدر اور ان کے متبع حدیث ہونے کا مخالفین کو بھی اعتراف ہے۔
غیرمقلدین کے ’’ امام العصر ‘‘مولانا محمد اسماعیل سلفی نے ان کے متعلق لکھا:
’’حضرت مولانا کی علمی بصیرت
مسلم ہے اور ان کی جلالت قدر بھی معلوم ہے ۔ ‘‘
( رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز صفحہ ۶۰)
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ
امرتسری لکھتے ہیں:
’’ یہاں چوں کہ مولانا محمود الحسن صاحب ؒ کا ذِکر آ گیا ہے
اس لئے میں ممدوح کی شخصیت کے متعلق چند فقرے عرض کردوں تو بے جانہ ہوگا : موصوف
بڑے پائے کے عالم تھے ہر فن کی تعلیم دیتے تھے مگر حدیث کے ساتھ آپ کو خاص اُنس
تھا۔میرا چشم دید واقعہ بلکہ روز کے واقعات ہیں کہ آپ جس چوکی [ کتاب رکھنے کی
لکڑی ؍تپائی (ناقل )]پر حدیث کی کتاب رکھ کر پڑھاتے تھے منطق اور فلسفہ کی کتابیں
اس پرنہیں رکھتے تھے بلکہ نیچے رکھتے تھے، یہ واقعہ میں اپنی ساری مدت تعلیم میں
دیکھتا رہا بحق حدیث آپ کے حُسنِ عقیدہ کا اظہار ان اشعار میں کروں تو بجا ہے، آپ
گویا زبانِ حال سے فرماتے تھے
کیا تجھ سے کہوں حدیث کیا ہے۔
دُر
دانہ دُرج مصطفی ہے
صوفی و عالم و حکیم دینی
کرتے رہے اسی کی خوشی چینی
بابا کے ہاں سے کون لایا
جس نے
پایا یہیں سے پایا ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ
: ۱؍۴۶)
یہ تحریر ’’
حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری ‘‘ نامی کتاب صفحہ ۲۲۵ پہ بھی ہے ۔
غیرمقلد مصنف
فضل الرحمن بن میاں محمد لکھتے ہیں:
’’ دیوبند مدرسہ کے مدرس ِ اعلیٰ شیخ الہند مولانا محمود
حسن رحمۃ اللہ علیہ تھے ۔ ‘‘
(حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صفحہ ۳۶)
مولانا عبد
المجید سوہدروی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ آپ ...گرفتارہوئے اوراسیر مالٹا کہلائے ۔انگریز کی نگاہ
میں جرم یہ تھا کہ آپ ٹرکی،ایران اور افغانستان میں اتحاد پیدا کرکے ہندوستان سے
انگریزوں کا خروج اور اسلامی حکومت کا قیام چاہتے تھے ... آپ ہی ہیں جنہوں نے شیخ
الہند کا لقب پایا ۔‘‘
( سیرۃ ثنائی صفحہ ۱۲۰)
فضل الرحمن
بن محمد ( غیرمقلد ) نے ’’ تاریخ مسلماناں عالم ‘‘ کے حوالہ سے لکھا:
’’ جنگ آزادی کے دس سال بعد مدرسہ دیوبند کی ابتداء مولانا
محمد قاسم نانوتوی کی سرپرستی میں ہوئی جس کا نصب العین انگریز سرکار کی بجائے دین
و ملت کی خدمت تھا۔ وقت کے مشہور علماء کرام حضرت مولانا محمد قاسم ؒ ، حضرت
مولانا رشید احمدگنگوہیؒ، حضرت شیخ الہند محمود الحسن ؒ ، حضرت مولانا اشرف علی
تھانوی ؒاور حضرت مولانا سید انور شاہ کشمیری ؒنے مدرسہ کے نصب العین کو پانے کے
لئے اپنے زندگیاں وقف کردیں۔ ‘‘
( حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری صفحہ ۵۲)
یعنی دین و ملت کے لئے زندگی وقف کرنے والوں میں
ایک نا م حضرت شیخ الہند کا ہے رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ ۔
مذکورہ بالا بیانات سے درج ذیل باتیں ثابت ہوتی
ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ الہند کی علمی بصیرت مسلم ہے ۔
۲۔ وہ جلالت
ِقدر والے تھے ۔
۳۔ بڑے پایہ
کے عالم تھے ۔
۴۔ حدیث کے
ساتھ انہیں خاص انس تھا ۔
۵۔ حدیث کے متعلق اتنے مؤدب تھے کہ کتب حدیث کے
لئے منتخب تپائی پر منطق و فلسفہ کی کتابیں رکھنا تک گوارا نہ کرتے تھے ۔
۶۔ حدیث کے ساتھ ان کی حُسنِ عقیدت کو دیکھ کر
مولانا ثناء اللہ امرتسری عش عش کر اُٹھے اور جھوم کرمذکورہ بالا اشعار سے خراج
تحسین پیش کیا ہے ۔
۷۔ وہ ’’ شیخ الہند ‘‘ کے منصب پر فائز مانے گئے
۔
۸۔ وہ انگریزوں کے مخالف تھے جو دین ِ اسلام کے
دشمن ہیں ۔
۹۔ وہ مسلمانوں میں اتحاد کے داعی تھے ۔
۱۰۔وہ اسلامی حکومت کا نفاذ چاہتے تھے۔ اسی تگ و
دَو کے سلسلہ میں گرفتار ہوئے اور اسیر مالٹا کہلائے ۔
۱۱۔ دین و ملت کی خدمت کے لئے انہوں نے اپنی
زندگی کو وقف کر دیا وغیرہ ۔
اور بھی بہت سے غیرمقلدین نے شیخ
الہند حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کو خراج تحسین پیش کیا ہے حوالہ جات بندہ
کی کتاب ’ ’ غیرمقلدین کا علمائے دیوبند کو خراج تحسین ‘‘ میں منقول ہیں۔ یہ کتاب
مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے ایک سو اکیس
(۱۲۱) قسطیں شائع ہو گئی ہیں والحمد للہ ۔
متعدد غیرمقلدین کے تعصب کا عالم یہ ہے کہ وہ
مذکورہ بالا خوبیوں کے مالک، دین و وملت کی خدمت میں زندگی وقف کردینے والے عظیم
قائد پر تحریف ِ قرآن ا لزام لگاتے ہیں ۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے :
غیرمقلدین کے حلقہ میں ’’ وکیل اہلِ
حدیث ‘‘ کہلوانے والے مولانا محمد حسین بٹالوی نے فقہ حنفی کے خلاف فضا ہموار کرنے
کی غرض سے ایک اشتہار شائع کیا جو دس سوالات پر مشتمل تھا۔ یہ اشتہار دار العلوم
دیوبند میں بھی پہنچا۔ چوں کہ اساتذہ دار العلوم دیوبند تعمیری کاموں میں دل چسپی
رکھتے ہیں۔ وہ اس باہمی نزاع کو پسند نہ کرتے تھے اس لئے شروع شروع میں خاموشی
اختیار کی۔ لیکن جب اس اشتہار کے ذریعہ فضا آلودہ ہو نے لگی توشیخ الہند حضرت
مولانا محمود حسن رحمہ اللہ نہ چاہنے کے باوجود اس اشتہار میں کئے گئے سوالات کا
’’ ادلہ کاملہ ‘‘ کے عنوان سے جواب لکھا ۔ اس کی ابتداء میں تحریر فرمایا:
’’ جناب ِ من!اَب تک ہم بوجہ بے تعصبی خاموش رہے، آپ نے
میدان سُنسان پا کر ہاتھ پاؤں ہلانے شروع کئے، اَب آپ کی چھیڑ کی نوبت یہاں تک
پہنچی کہ اشتہار جاری ہونے لگے، ا س فتنہ انگیزی پرکوئی کہاں تک چُپ رہے ،اس لئے
سر دست ہم بھی کچھ عرض کرتے ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر آپ ہاتھ پاؤں ہلائیں گے تو پھر
ہم بھی ان شاء اللہ ہاتھ دکھائیں گے ورنہ خیر ہم خود اہلِ اسلام کے نزاع فیما بین
کو پسند نہیں کرتے ۔ ‘‘
( ادلہ کاملہ صفحہ ۲۱)
ادلہ کاملہ کے جواب کی بٹالوی صاحب کو
ہمت نہ ہو سکی اس نے اگرچہ اپنے اخبار ’’ اشاعۃ السنہ ‘‘ میں اس کے جواب لکھنے کا
وعدہ کیا مگر وہ اسے پورا نہ کر پائے ۔ اپنے عوام کو دلاسہ بھی دینا تھا اس لیے
خانہ پوری کرنے کے لیے اپنے فرقہ کے ایک مولوی ’’ احمد احسن امروہی ‘‘کو تیار کیا
گیا ۔ اس نے ’’ مصباح الادلۃ ‘‘ کے نام سے جواب دینے کی سعی ناتمام کی ۔
غیرمقلد مصنف قادیانی ہوگیا
احمد احسن امروہی غیرمقلدیت کے زینے
چڑھتا گیا یہاں تک کہ مرزائیت قبول کرکے ایمان کی پونجی گنوا بیٹھا ۔
مولانا مفتی
سعید احمد پالن پوری صاحب لکھتے ہیں:
’’ اس کی شامت اعمال نے وہی روزِ بد اِس کو دکھایا اور وہ
غیرمقلدیت سے ترقی کرکے مرزا قادیانی کے حلقہ درس میں داخل ہو گیا۔ اس طرح ائمہ
مجتہدین اوراکابر امت کی شان میں گستاخی اوربد زبانی کی پاداش میں دولت ایمان کھو
بیٹھا۔غلام احمد قادیانی نے اس مخذول کی دولت ِ ایمان تو لوٹ لی، مگراس کو جس طرح
ذلیل کیا وہ تماشا بجائے خود لائق عبرت ہے۔ غلام احمد نے اس شخص کے فقر و مسکنت کا
اظہار کرکے اس کے لئے ٹکے ٹکے کی خیرات جمع کرنے کا اشتہار دیا جو مرزا کے مجموعہ
اشتہارات میں نمبر: ۸۷ پر درج ہے جس کے نتیجہ میں بائیس افراد نے انیس روپے دو آنے
کا وعدہ کیا، اور مرزا نے ھل من مزید کے لیے دوبارہ اشتہار جاری کیا۔
حالاں کہ مرزا خود ’’ رئیس قادیان ‘‘ کہلاتا تھا، وہ چاہتا تو اپنی گرہ سے چالیس
پچاس روپے بآسانی بھجوا سکتا تھا، مگر قدرت کو مرزا قادیانی کے ہاتھ محمد احسن
امروہی کی ذلت و خفت کا اشتہار دلوانا منظور تھا۔ یہ تھا ائمہ ہدی اور صلحائے امت
کے خلاف ہرزہ سرائی کا انجام
بس تجربہ کریدیم ، دریں دیرِ مکافات
بادُرد گشاں ہر کہ
در افتاد بر افتاد ‘‘
(پیشِ لفظ :
ایضاح الادلۃ صفحہ ۳۹، قدیمی کتب خانہ کراچی )
امروہی صاحب
کے قادیانی بن جانے کا اعتراف غیرمقلدین کی تحریروں میں بھی ہے مثلا مولانا داؤد
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ادلہ کاملہ کا جواب مولوی محمد احسن امروہی ( جو نواب
صدیق حسن خان مرحوم کا ملازم تھا اوربعد میں مرتد ہو کر قادیانی ہوگیا) نے مصباح
الادلہ کے نام سے لکھا۔ ‘‘
( تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۵)
قوسین کے درمیان والی عبارت بھی مولانا داود
ارشد کی ہے اس کی خاطر ہم نے یہ اقتباس نقل کیا ہے ۔
مولانا محمد
حسین بٹالوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’کادیانی اور اس کے اَتباع نے جو مولوی کہلاتے ہیں جیسے
حکیم نور الدین بھیروی جمونی اور مولوی محمد احسن امروہی احادیث مسیح و دجال کو
ظنی و محل تاویل بنانے کے لئے جملہ احادیث متعلقہ اعتقاد کو غیر قطعی اور اپنے
ظاہری معنی سے مصروف ٹھہرادیا اور حکم و رتبہ اعتقاد کا کچھ لحاظ نہ کیا۔ کادیانی
پر تو چنداں افسوس نہیں کیوں کہ وہ علوم دینیہ سے محض امی و اجنبی ہے۔ حکیم نور
الدین اور مولوی محمد احسن پر سخت افسوس و تعجب ہے کہ انہوں نے کادیانی کی محبت
میں اندھے بہرے ہو کر اپنا تھوڑا بہت پڑھا پڑھایا سبھی بھلا دیا اور اپنی مولویت
کو ڈبو دیا اور علم کو خاک میں ملا دیا۔ ‘‘
( اشاعۃ السنۃ :جلد: ۱۴، نمبر :۵ صفحہ ۱۱۹بحوالہ
تاریخ ختم نبوۃ صفحہ ۲۶۴،مؤلفہ ابن انیس مولانا
حبیب الرحمن لدھیانوی)
غیر مقلدین
کی کتاب میں ایک مناظرہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا:
”مرزائیوں نے مولانا محمد احسن
امروہی کو بلایا مگر بوجوہات مولوی محمد احسن نے مناظرہ کرنے سے انکار کیا اور ان
کی جگہ منشی قاسم علی قادیانی مناظر مقرر ہوئے “
(تذکرۃ المناظرین ۱/۳۳۷ مرتبہ مولانا محمد مقتدی اثری
غیر مقلد)
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ نے ’’مصباح
الادلہ ‘‘کا جواب لکھا جو ’’ ایضاح الادلہ ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسے ایک صدی
سے زائد عرصہ گزر گیا ہے مگر غیرمقلدین اَب تک اس کا جواب نہیں لکھ سکے ۔ البتہ’’
ایضاح الادلہ ‘‘میں سہوقلم کے نتیجہ میں آیت غلط درج ہو گئی تو اس کے خلاف انہوں
نے خوب شور و غل کیا کہ دیوبند ی عالم نے قرآن میں تحریف کر دی ۔
تحریف کا الزام لگانے میں کیا
مقاصد ہیں؟
تحریف تحریف
کا واویلا کیوں کیا ؟ اس کے کئی مقاصد تھے۔ ان میں سے دو ہم ذِکر کر دیتے ہیں۔
( ۱)
غیرمقلدین کے اعتراف کے مطابق اُن کے متعدد مصنفین تحریفات کے مرتکب ہیں ،پھر مزید
افسوس یہ کہ اس گھناؤنے فعل کے مرتکب مولانا ثناء اللہ امرتسری بھی ہوئے جنہیں وہ
’’شیخ الاسلام‘‘ کہا کرتے ہیں اور مولانا داود ارشد غیرمقلدنے تو انہیں ’’ امت
مرحومہ کا ہیرو ‘‘ کہا۔ ( تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۷۶)
مولانا عبد الحق غزنوی غیرمقلد نے امرتسری صاحب
کی تحریفات اور دیگر غلطیوں کو ’’ الاربعین‘‘ نامی کتاب میں جمع کر دیا ہے۔ اس کے
شروع میں لکھا:
’’ تعجب ہے یونیورسٹی کے فاضل کی فضیلت اور لیاقت پر کہ
الفاظ غلط، معانی غلط، استدلالات غلط بلکہ تحریفات میں یہودیوں کی بھی ناک کاٹ دی۔
‘‘
( الاربعین صفحہ ۳ مشمولہ رسائل اہلِ حدیث جلد اول )
غیرمقلدین کی تحریفات کے کچھ نمونے
خود انہی کے اعتراف کے ساتھ بندہ اپنی کتاب ’’ غیرمقلدین قرآن و سنت کی کسوٹی پر
‘‘ میں نقل کرے گا ، ان شاء اللہ ۔ رسائل اہلِ حدیث کتاب کا مطالعہ کرکے بھی ان
تحریفات کو جان سکتے ہیں ۔
اس
قسم کے تحریفی کار ناموں سے غیرمقلدین کی رسوائی ہو رہی تھی تو انہوں نے ان
تحریفات سے لوگوں کی نظریں ہٹانے کے لئے دیوبندیوں پر تحریف کا الزام عائد کر دیا
اور بزعمِ خود بطور ثبوت’’ ایضاح الادلہ ‘‘ کے سہو قلم کو سامنے لے آئے۔ مگر غلط
بات تو غلط ہی ہوتی ہے ،کبھی تو اس کا غلط ہونا ظاہر ہو ہی جاتا ہے اس لئے غیر
مقلدین کایہ الزام بھی بالاخر غلط ہی ثابت ہوا۔یہاں تک کہ خود ان کے اپنے مصنفین
نے اسے سہو قلم کہہ کر
تسلیم کرلیا
کہ اسے تحریف کہنا غلط ہے جیسا کہ آگے باحوالہ مذکور ہوگا ان شاء اللہ ۔
(۲) تحریف کا
الزام لگانے سے غیرمقلدین کا دوسرا مقصد حضرت مولانا عبد القدوس خاں قارن دام ظلہ
کی زبانی سنئے ۔قارن صاحب لکھتے ہیں:
’’ غیرمقلدین حضرت شیخ الہند ؒ کے خلاف تحریف قرآن کا بے
کار غوغا کرکے دراَصل اپنی خفت مٹانے اور اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ناکام کوشش
کرتے ہیں... حضرت شیخ الہند نے علمی انداز میں ا پنے مسلک کا دفاع اور غیرمقلدین
پر جو اعتراضات کئے اس سے آج تک غیر مقلدین مبہوت ہیں اور اپنی خفت مٹانے کے لئے
انہوں نے کتاب میں درج آیت کی غلطی پر غوغا شروع کر دیا اور اَب تک کررہے ہیں۔ ‘‘
( انکشاف ِ حقیقت صفحہ ۵۵، ۵۶)
اس کے بعد قارن صاحب نے ’’’ غیرمقلدین غیرت کا
مظاہر ہ کریں ‘‘ کا عنوان قائم کرکے لکھا:
’’ہماری غیرمقلدین سے گذارش ہے کہ ’’ ایضاح الادلہ ‘‘ میں
درج شدہ آیت کی غلطی کتابت کی تھی یا مصنف کا ذہول تھا جب اس کی اصلاح کر لی گئی
ہے تو اَب بے کار غوغا چھوڑ کر غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سو سال سے زائد عرصہ کا
جو تمہارے کندھوں پر اُدھار ہے اس کو اُتاریں اور مرد ِ میدان بنتے ہوئے دلائل کے
ساتھ حضرت شیخ الہند کے اعتراضات کا جواب دیں ۔ ‘‘
( انکشافِ حقیقت صفحہ ۵۶)
تحریف قرار دینے کا شاخسانہ اور اس کا جواب
قرآن
مجید کی آیت ہے : یایھا الذین آمنوا اطیعوا اللّٰہ و اطیعوا الرسول واولی
الامر منکم۔ ( سورۃ نساء
، آیت: ۵۹)
مگر ایضاح
الادلہ میں آیت سہواًغلط درج ہوگئی جس پر غیرمقلدین نے تحریف ، تحریف کا شور
مچایا۔مولانا آزاد رحمانی اور مولانا محمد جونا
گڑھی سے لے کر شیخ زبیر علی زئی اور شاہدنذیر تک کئی غیرمقلدین نے اسے تحریف کا
عنوان دیا ہے
۔
شاہد نذیر
غیرمقلد(کراچی ) نے لکھا:
’’ محمود الحسن دیوبندی کی تحریف قرآن کوئی غلطی یا سہو
نہیں تھا بلکہ تقلیدکو سند جواز عطاء کرنے کے لئے یہ ان کا سوچا سمجھا کارنامہ تھا
۔‘‘
( ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعتِ خاص بیاد حافظ زبیر
علی زئی صفحہ۳۸۰)
الجواب:
(۱)یہ تحریف
نہیں، سہو قلم ہے جیسا کہ ذیل میں باحوالہ مذکور ہے ۔
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’سیدھے ہاتھوں یہ اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا کہ یہ حضرت
شیخ الہند سے چوک ہوئی۔ اپنے مد مقابل کے جواب میں جو آیت انہوں نے لکھی وہ قرآن
پاک میں کہیں نہیں ۔ اللہ بھلا کرے سعید احمد پالن پوری صاحب کا کہ انہوں نے
بالآخر تسہیل الادلہ کاملہ کے پیش لفظ میں اس حقیقت کا اعتراف کیا کہ: یہ سبقت قلم
ہے ، جس آیت کا حضرت ؒ نے حوالہ دیا ہے اس سے مراد یہ آیت ہے : ﴿یا
یھاالذین امنوا اطیعوا اللّٰہ واطیعوا الرسول واولی الامر منکم ...﴾الغرض یہ
افسوس ناک غلطی ہے ...‘‘ ( تسہیل الادلہ کاملہ : ص۱۸،۱۹) مولانا تقی عثمانی صاحب
نے بھی اپنے ایک خط میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ فی الواقع یہ خطا مولانا
محمود الحسن سے ہوئی اور یہ سبقتِ قلم کا نتیجہ ہے۔ ملاحظہ ہو ’’ الردود ‘‘ مؤلفہ بکر بن عبد اللہ ابو زید کا حاشیہ ص
:۲۴۲...بہرحال جس آیت کو انہوں نے قرآن پاک کی آیت قرار دیا وہ بہرنوع غلط ہے ۔
آیات کے لکھنے میں کسی لفظ کا رہ جانا یا کسی لفظ کو دوسری آیت کے اشتباہ میں لکھ
دینا بعید نہیں ۔ ایسا اشتباہ ہو جاتا ہے ۔ طباعت قرآن میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے
بلکہ ہوتا ہے۔ ‘‘
( تنقیح الکلام صفحہ ۲۳۶، ۲۳۷)
اثری صاحب نے اس غلطی کو چوک کہا اور
دیگر علماء کرام سے نقل کیا کہ یہ سہو ہے ۔ بہرحال اسے چُوک کا نام دو یاسہو کہو
۔تحریف ہرگز نہیں ۔
مولانا عمر
فاروق قدوسی غیرمقلد نے دیوبندیوں کے متعلق لکھا:
’’ انہوں نے طویل عرصے تک اس غلطی کو درست نہ کیا بلکہ اس
غلطی پر مصر رہے جو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن سے ہوئی تھی ... مولانا موصوف
سے تو سہوا ایسا ہوگیا ۔ ‘‘
( اہلِ حدیث پرکچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۸۵)
قدوسی صاحب کی اس عبارت میں واضح
اعتراف ہے کہ حضرت مولانا محمود حسن رحمہ اللہ سے سہواً غلط لکھا گیا۔ قدوسی صاحب
نے اپنی کتاب ’’اہلِ حدیث پرکچھ مزید کرم فرمائیاں‘‘ کے عرصہ بعدبھی حضرت مولانا
محمود حسن رحمہ اللہ کے سہو کو تحریف کہنے کی ہمت نہیں کر پائے بلکہ اس کے بر عکس
ان کے متعلق یوں لکھا:
’’ احترام اور توقیر کے مستحق
ہیں۔ ‘‘
( ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعتِ خاص بیاد حافظ زبیر
علی زئی صفحہ ۵۳۷)
قدوسی صاحب کی کتاب ’’اہلِ حدیث پرکچھ
مزید کرم فرمائیاں‘‘شاہد نذیر کے ممدوح شیخ زبیر علی زئی کے مطالعہ اوراصلاح کے
بعد شائع ہوئی، حوالہ آگے آرہا ہے ان شاء اللہ ۔
(۲) تقلید کے
لئے محل استشھاد لفظ ’’ اولی الامر ‘‘ ہے اور یہ لفظ قرآن مجید میں
دو جگہ مذکور ہے اور حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے پہلے متعدد علماء اس’’ اولی
الامر‘‘ سے تقلید
کا اثبات کر چکے ۔ مثلاً امام رازی رحمہ اللہ نے ’’اولی الامر ‘‘ والی آیت
کی تفسیر میں لکھا:
’’ ان العامی
یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث ۔ ‘‘
( تفسیر کبیر
:۳؍۲۷۲)
ترجمہ: عامی شخص پر پیش آمدہ
مسائل و احکام پر علماء کی تقلید واجب ہے ۔
مزید یہ کہ فاسئلوا اھل
الذکر ان کنتم لا تعلمون کو بھی علمائے امت نے تقلید کے اثبات میں پیش کیا بلکہ
اہلِ حدیث کہلائے جانے والے متعدد مصنفین نے اس آیت کو تقلید کی دلیل تسلم کیا ہے
۔ مثلا :
میاں نذیر حسین دہلوی نے اس آیت کے متعلق لکھا:
’’یہی آیت دلیل ہے وجوب تقلید
پر ۔‘‘
( معیار الحق صفحہ ۶۷)
میاں صاحب کے علاوہ بھی کئی غیرمقلدین
نے اس آیت سے تقلید کے اثبات کو مانا ہے۔ ایک دَور تھا کہ
مدعیان اہلِ
حدیث مطلق تقلید کے قائل تھے۔ مطلق تقلید کے اثبات میں جن دلائل کو پیش کیا کرتے
تھے اُن میں ایک آیت فاسئلوا الخ بھی ہے۔ تفصیل وحوالہ جات کے لئے بندہ کی کتاب ’’
زبیر علی زئی کا تعاقب ‘‘ کا مطالعہ کیجئے۔ اس میں مدعیان اہلِ حدیث کی زبانی
تقلید کے اثبات میں بہت سے حوالہ جات منقول ہیں اُن میں قرآن سے استدلال کرنا بھی
ہے۔مزید یہ کہ اس کتاب میں غیرمقلدین کی کتابوں سے تقلید کے وجوب پر دس عبارتیں
باحوالہ منقول ہیں۔
جب خود غیرمقلدین کو بھی اعتراف ہے کہ
قرآن میں تقلید کے اثبات میں آیت موجود ہے توشاہد نذیر وغیرہ متعصبین کا یوں الزام
لگانا غلط ہوا کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کو تقلید کے اثبات میں کوئی آیت نہیں
ملی، اس لئے اَز خود آیت گھڑ لی ۔
(۳) کسی نے سوال کیا:
’’ جس خاندان میں حضرت محمد
صاحب پیدا ہوئے ہیں ان سے قبل اس خاندان میں کوئی اور نبی پیدا ہوا تھا؟‘‘
غیرمقلدین کے شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ
امرتسری نے اس سوال کا یوں جواب دیا:
’’ اس خاندان کے جد امجد حضرت اسمٰعیل نبی تھے ۔ قرآن مجید
میں مذکور ہے واذکر فی الکتاب اسمٰعیل انہ کان صدیقا نبیا یعنی اسمٰعیل
بڑا راست باز تھا ۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۱؍۲۷۵،۲۷۶)
امرتسری صاحب کو ’’اس خاندان میں کوئی
اور نبی پیدا ہوا تھا؟‘‘کے جواب میں سیدنا اسماعیل علیہ السلام کا نبی ہونا باور
کرانا تھا اس لئے آیت کے آخر میں ’’ انہ کان صدیقا نبیا ‘‘لکھ دیا
۔حالاں کہ قرآن میں اس طرح آیت’’ واذکر فی الکتاب اسمٰعیل انہ کان
صدیقا نبیا‘‘ ہرگز نہیں
۔ غیرمقلدین میں اگر کچھ افراد انصاف والے ہوں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ امرتسری
صاحب نے آیت کے آخر میں ’’ انہ کان صدیقا نبیا‘‘ الفاظ جوڑ
دئیے، پھر ان کے استدلال کا مدار بھی یہی الفاظ ہیں ۔ پھر ان الفاظ کا ترجمہ بھی
کر دیا ۔ تو کیا یہاں تسلیم کرو گے کہ یہ سہونہیں ، بلکہ تحریف ہے۔ کیوں کہ
امرتسری صاحب کے استدلال کا مدار ہی انہی اضافہ شدہ الفاظ سے ہے کہ وہ سیدنا اسماعیل علیہ السلام کو نبی باور کرانا چاہتے
ہیں،مزید یہ کہ انہوں نے آیت میں اضافہ
کئے ہوئے الفاظ کا ترجمہ
بھی کر
چھوڑا!!
اب کوئی ایسا پیمانہ بتائیں کہ آیت
میں اضافہ شدہ الفاظ سے امرتسری صاحب استدلال کریں تو وہ ’’ شیخ الاسلام ‘‘
کہلوائیں اور اگر کسی اور سے ایسی غلطی ہو جائے تو اسے محرف قرآن کہا جائے۔ جب کہ
ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ غیرمقلدعلماء کی گواہیوں کے مطابق تحریف قرآن امرتسری
صاحب کا مشغلہ بھی رہا ہے۔ ان کی تحریفات کو جن کتابوں میں بیان کیا گیا اُن میں
ایک کتاب ’’ الاربعین ‘‘ ہے جو رسال اہلِ حدیث میں شامل ہے ۔
عامر عثمانی کون ؟
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے سہو قلم
پر بحث کرتے ہوئے بعض غیرمقلد ین نے عامر عثمانی کی عبارت ماہ نامہ تجلی سے نقل
کرکے کہا کہ انہوں نے اس غلطی کو کاتب کی غلطی ماننے سے انکار کیا ہے۔ساتھ ہی یہ
دعویٰ بھی کر دیا کہ وہ دیوبندی ہیں ۔ یہ بات لکھنے والوں میں ایک لکھاری شاہد
نذیر غیرمقلد ہیں۔
( ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ،
اشاعتِ خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی صفحہ ۳۸۰)
اس کے جواب میں پہلی بات یہ ہے کہ اگر کاتب کی
غلطی نہیں تو اس سے یہ کیسے لازم آیا کہ سہو قلم بھی نہیں؟ خودعامر عثمانی نے اسے
چُوک کہا ہے ۔ چنانچہ انہوں نے لکھا:
’’ کسی کو نظر نہ آیا کہ حضرت
شیخ سے کیا چُوک ہوگئی ۔‘‘
( تجلی دیوبند
،نومبر ؍۱۹۶۲ء بحوالہ توضیح الکلام صفحہ ۲۴۱، مؤلفہ شیخ ارشاد الحق اثری غیرمقلد )
دوسری بات یہ ہے کہ عامر عثمانی کس نظریے کے ہیں
؟ یہ وہ خودان کی زبانی سینے چنانچہ انہوں نے لکھا :
’’جماعت ِ اسلامی کے نقطہ ٔ نظر اور طریقہ کار
سے ہمیں کامل اور مکمل اتفاق ہے ۔‘‘
( تبلیغی جماعت کا جائزہ صفحہ۲۸۶،
اَز اِفادات عامر عثمانی)
یعنی عامر عثمانی صاحب بہ اعتراف خود مودودی
نظریہ کے ہیں ۔ ان کی کچھ مزید عبارتیں ملاحظہ ہوں۔
عامر عثمانی صاحب ’’مرقع یوسفی ‘‘ پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’مولانا مودودی پر
الزامات و اعتراضات کے تیروں کی بارش تو ہمیشہ سے ہوتی ہی آئی ہے مگر آج کل خاص نشانہ ہے ان کی کتاب ’’ خلافت و
ملوکیت ‘‘۔ کہتے ہیں کہ مولانا مودودی نے
صحابہ ؓ کی توہین کی ہے ۔‘‘
( تبلیغی جماعت کا جائزہ صفحہ۴ ۲)
عامر
عثمانی صاحب نے مودودی صاحب کی کتاب ’’ خلافت و ملوکیت ‘‘ پراعتراضات کو مدلل
تنقید کہنے کی بجائے تیروں کی بارش کہہ رہے ہیں۔
بلکہ ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے دفاع
میں عامر عثمانی نے دعویٰ کیا کہ صحابہ کرام کے متعلق حضرت حسین احمد مدنی رحمہ
اللہ اور ابو الاعلیٰ مودودی کے نظریات ایک جیسے ہیں۔ حافظ محمد یوسف غیرمقلد (
مدرس دار الحدیث جامع اہلِ حدیث دھرم پورہ لاہور )نے اس کی تردید کی ۔پھر لکھا :
’’یہ ہیں مولانا حسین احمد مدنی کے نظریات، اس کے بالمقابل
مولانامودوی کے اس بارے میں نظریات کی مختصر توضیح ہم حاشیہ میں کرتے آئے ہیں۔ ان
دونوں نظریات کا موازنہ کیجئے اور دیکھئے کہ کیا کسی مقام پر دونوں میں ادنیٰ سا
بھی توافق پایا جاتا ہے؟ لیکن عامر صاحب، امانت و دیانت کے تمام تقاضوں کو پامال
کرتے ہوئے کمال ڈھٹائی سے فرما رہے ہیں کہ:ان کے یہاں بھی صراحۃً و کنایۃ ً وہی سب
ملے گا جس کو مولانا مودوی نے اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے۔‘‘ غلط بیانی اور دھاندلی
کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ۔‘‘
( ہفت روزہ الاعتصام لاہور۱۴ ؍ جولائی ۶۷ ۱۹ء صفحہ۵)
تحریف کا الزام لگانے میں غلط بیانیوں کا
ارتکاب
قارئین کرام! آپ پچھلے صفحات میں غیرمقلدین کا
اعتراف پڑھ چکے کہ آیت کا غلط لکھا جانا سہوِ قلم ہے۔ یعنی مصنف سے انجانے میں آیت
اس طرح درج ہوگئی۔ لیکن اس حقیقت کے بر خلاف کئی غیرمقلدین نے اسے تحریف کا نام
دیا اور اسے تحریف قرار دینے میں اس قدر مست ہوئے کہ کئی غلط باتیں بھی لکھ دیں
مثلا:
۱۔ ابو صہیب مولانا داود ارشد غیرمقلد نے حضرت
شیخ الہند رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:
’’انہوں نے معروف سلفی عالم حضرت مولانا ابو سعید محمد حسین
بٹالوی مرحوم کے ایک اشتہار کا جواب ’’ادلہ کاملہ ‘‘ کے عنوان سے لکھا جس میں
انہوں نے ایک سطر عربی عبارت اپنی طرف سے بنا کر اسے قرآن کریم کی آیت باور کراکر
تقلید کا وجوب ثابت کیا ۔ ‘‘
( تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۵)
حالاں کہ ’’ ادلہ کاملہ ‘‘ میں اس قسم
کی کوئی بات نہیں ۔ یقین نہ آئے تو اسے اول تا آخر پڑھ کر دیکھ لو ۔ جو سہو قلم
ہوا وہ ’’ایضاح الادلہ‘‘ میں ہے ، نہ کہ’’ ادلہ کاملہ‘‘ میں ۔ ادلہ کاملہ کی طرف
مذکور ہ بات کی نسبت غلط ہے ۔
۲۔ داود ارشد صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ ادلہ کاملہ کا جواب مولوی محمد احسن امروہی مصباح الادلہ
کے نام سے لکھا جس میں امروہی نے حضرت شیخ الہند پر گرفت کی مگر مولوی محمود حسن
خان نے توبہ اور شرمندگی و اصلاح کی بجائے بڑے جزم و ثوق سے لکھا... ‘‘
( تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۵)
جب حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے آیت کا سہو ’’
ادلہ کاملہ ‘‘ میں ہوا ہی نہیں تو احسن امروہی قادیانی سابق اہلِ حدیث نے گرفت
کیسے کر لی؟ امروہی نے جس کتاب (ادلہ کاملہ) کا جواب لکھا اس میں آیت غلط مکتوب
نہیں ہوئی اور جس (ایضاح الادلہ ) میں سہوا غلط تحریر ہوگئی امروہی کیا پوری
غیرمقلدیت آج تک اس کے جواب سے عاجز ہے۔
یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ داود ارشد
صاحب نے ایضاح الادلہ کی آیت کو محرف قرار دیتے ہوئے بحث کو مولانا ارشاد الحق
اثری کی کتاب توضیح الکلام سے نقل کیا ۔ دیکھئے تحفہ حنفیہ صفحہ ۳۶ پہ بحوالہ
توضیح الکلام درج ہے ۔
حالاں
کہ مولانا ارشاد الحق اثری مان چکے ہیں کہ یہ تحریف نہیں ، سہو ہے ۔ ان کی عبارت
تنقیح الکلام سے کے حوالہ سے پہلے منقول ہو چکی والحمدللہ ۔
۳۔ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حبیب اللہ ڈیروی اپنے پسندیدہ مولوی حسین احمد ٹانڈوی
مدنی کی ایضاح الادلہ میں ایک جعلی ’’ آیت ‘‘ کے بارے میں لکھتا ہے: اَب غیرمقلدین
حضرات نے ایک آیت جو کاتب کی غلطی سے لکھی گئی تھی اس کو اُچھالا ۔ ‘‘
( تقریظ: قرآن و حدیث میں تحریف
صفحہ ۱۵)
حالاں
کہ اہل مطالعہ جانتے ہیں کہ ایضاح الادلہ کتاب حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن
رحمہ اللہ کی ہے ، نہ کہ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی۔علی زئی صاحب کا
ایضاح الادلہ کو حضرت مدنی رحمہ اللہ کی طرف منسوب
کرنا غلط ہے
۔
۴۔ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے لکھا:
’’ آخر میں مختصراً عرض ہے کہ ’’ قرآن و حدیث میں تحریف ‘‘
میں آلِ تقلید کی دانستہ تحریفات ہی کو درج کیا گیا ہے ۔ ‘‘
( تقریظ : قرآن
وحدیث میں تحریف صفحہ ۱۶)
یہ دعوی بلا دلیل ہے ۔ آپ نے تو ایضاح الادلہ کے
سہو کو بھی تحریف کا نام دیا حالاں کہ خود آپ کے ہی علماء مولانا ارشاد الحق اثری
اور مولانا عمر فاروق قدوسی غیرمقلد نے اسے سہو تسلیم کیا ہے جیسا کہ پیچھے
باحوالہ گزر چکا والحمد للہ ۔
علی زئی صاحب
لکھتے ہیں:
’’ تحریر لکھتے وقت مصنف سے بعض
اوقات سہواً غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں ۔ ‘‘
(علمی مقالات: ۳؍۵۴۸)
علی زئی نے
لکھا:
’’ یاد رہے کہ قرآن کا تلاوت
میں بھول جانا، نادانستہ زبان و قلم سے کسی خلاف ِ واقعہ یا غلط بات کا وقوع، بھول
چوک، کتابت یا کمپوزنگ کی غلطیاں جھوٹ کے زمرہ میں نہیں آتیں بلکہ جھوٹ اسے کہتے
ہیں جو جان بوجھ کر، کسی مقصد کے لئے خلاف ِ واقعہ و خلاف ِ حقیقت بولا جائے ۔ ‘‘
( قرآن وحدیث میں تحریف صفحہ ۱۰)
علی زئی صاحب
کی مذکورہ عبارت ’’ ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعتِ خاص بیاد حافظ زبیر علی زئی
صفحہ ۳۷۶‘‘پہ بھی منقول ہے ۔
عرض ہے کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے بھی سہوا
غلطی ہوئی جیسا کہ اثری صاحب اور قدوسی صاحب نے تسلیم کیا۔
مولانا یحی
گوندلوی غیرمقلد نے قدوسی صاحب کی اس تحریر کی بابت اپنے خط میں لکھا:
’’ آپ اس نقد پر پوری جماعت کی
طرف سے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ ‘‘
( اہلِ حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ
۱۳،طبع : ادارہ ترجمان السنۃ ، سن اشاعت: دسمبر؍۲۰۱۰ء)
اور
یہ بھی یاد رہے کہ مولانا عمر فاروق قدوسی غیرمقلد کی کتاب ’’ اہلِ حدیث پر مزید
کرم فرمائیاں‘‘ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کے مطالعہ اور اصلاح کے بعد شائع ہوئی ،
جیسا کہ خود قدوسی صاحب نے لکھا:
’’ میں نے سوچا کہ کسی صاحب علم کی نظر سے اگر یہ تحریر گزر
جائے تو بہتر ہے تاکہ میری کم علمی کے سبب کوئی کمی کوتاہی نہ رہ جائے۔ میں نے اس
سلسلہ میں حافظ زبیر علی زئی مرحوم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بلاتامل اثبات میں
جواب دیا اور فرمایا مجھے اپنی تحریر بھیج دو۔ میں ضرور اسے دیکھ لیتا ہوں، چنانچہ
انہوں نے بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر میری اس کتاب کا مطالعہ کیا اور بعض
مقامات پر اصلاح بھی فرمائی۔ ‘‘
( ماہ نامہ اشاعۃ الحدیث ، اشاعتِ خاص بیاد حافظ زبیر
علی زئی صفحہ ۵۳۷)
قدوسی صاحب
نے اس کا اظہار اپنی اسی کتاب کے شروع میں بھی کیا :
’’ حضرت مولانا حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اپنی
مصروفیت سے وقت نکال کر اس طالب علم کی تحریر پڑھی۔ اگرچہ انہیں میرے اسلوب سے
قدرے اختلاف تھا ان کی نوازش کہ اسلوب کی تبدیلی پر زور دئیے بغیر کتاب کو ایک نظر
دیکھا اور علمی رہنمائی فرمائی ۔ ‘‘
(حرفِ آغاز: اہلِ حدیث پر مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۸)
مزید یہ کہ علی زئی صاحب کی طرف سے
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے سہوکودانستہ تحریف کہنے کی بات شیخ ابو جابر عبد اللہ
دامانوی کی کتاب پرتقریظ میں ہے جب کہ دامانوی صاحب نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ
کے متعلق لکھا:
’’ موصوف کی نگاہ میں یہ غلطی
ہی نہ تھی ... اس کے ذہن میں یہ آیت اسی طرح نقش تھی ۔ ‘‘
( قرآن و حدیث میں تحریف صفحہ ۶۹)
تقریظ نگار
کا دعوی ہے کہ یہ دانستہ تحریف ہے جب کہ کتاب والا لکھ رہا کہ موصوف کی نگاہ میں
یہ غلطی ہی نہ تھی ۔
مولانا ارشاد
الحق اثری غیرمقلد نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:
’’ یہ ذہن میں نہ آیا کہ جس آیت کو وہ قرآن کا حصہ قرار دے
چکے ہیں صحیح طور پر وہ اسی
آیت کا حصہ ہے۔ قرآن پاک میں
کوئی اور آیت نہیں۔ ‘‘
( تنقیح الکلام صفحہ ۲۳۷)
سہو بھی تو ایسے ہی ہوتا ہے انسان
اپنے ذہن کے مطابق صحیح پڑھ یا لکھ رہا ہوتا ہے جب کہ وہ در حقیقت غلط
ہوتا ہے ۔ جب
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی نگاہ میں یہ غلطی ہی نہ تھی تو علی زئی صاحب کیسے کہہ
رہے ہیں کہ یہ دیدہ و دانستہ تحریف ہے ؟
حاصل یہ کہ
یہ تحریف نہیں ، سہو ہے ۔اس لئے زبیر علی زئی کو ان کا اپنا لکھاہم یاد دلاتے ہیں
:
’’ بشری سہو و خطا اور کتابت یاکمپوزنگ کی غلطیوں کو تحریف
یا جھوٹ کہنا غلط حرکت ہے جس کا جواب ... اللہ کی عدالت میں دینا پڑے گا ان شاء
اللہ ۔ ‘‘
( تقریظ : قرآن و حدیث میں تحریف صفحہ ۱۶)
۵۔ پروفیسر طالب الرحمن غیرمقلد ’ ’ ایضاح
الادلۃ ‘‘ کے سہو کو تحریف قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’ علماء دیوبند نے کتاب سے مذکورہ عبارت کو جو واضح تحریف
پر مشتمل ہے حذف نہیں کیا اور نہ حاشیہ میں اس پر کسی قسم کا تبصرہ کیا۔ ‘‘
( الدیوبندیہ صفحہ ۲۶۵)
اس غلطی کو
درست کر دیا گیا ہے۔ جیسا کہ پیچھے مولانا ارشاد الحق اثری کی کتاب ’’ تنقیح
الکلام ‘‘ کے حوالہ سے مذکور ہوا ۔ مزید یہ کہ ایچ ایم سعید ...اور قدیمی کتب خانہ
کراچی کے تصحیح شدہ ایڈیشن ملاحظہ فرماکر تسلی کر سکتے ہیں۔
مولانا ابن الحسن عباسی صاحب رحمہ اللہ نے طالب
الرحمن کے جواب میں لکھا:
’’ یہ کہنا اور تاثر دینا کہ علمائے دیوبند نے کتاب سے
مذکورہ عبارت حذف نہیں کی اور اس میں یہ آیت غلط چھپ کر شائع ہو رہی ہے بہت بڑی
غلط بیانی ہے ... بعد کے ایڈیشنوں میں اس غلطی کی اصلاح کر دی گئی ہے۔پھر مذکورہ (
ایچ ایم سعید کا ) تصحیح شدہ ایڈیشن بھی ’’ الدیوبندیہ ‘‘ کی تالیف سے کئی سال
پہلے شائع ہوا ہے۔ ‘‘
( کچھ دیر غیرمقلدین کے ساتھ صفحہ۹۰)
فائدہ اور
تنبیہ
فائدہ:
غیرمقلدین کی
کتاب میں لکھا ہے :
’’ مولانا محمد حسین
بٹالوی کے اس مشہور و معروف اشتہار کی طرف اشارہ ہے جس کے
جواب میں مولانا محمود حسن نے
’’ ایضاح الادلہ ‘‘ تحریر کی ۔ ‘‘
( حاشیہ: اہلِ حدیث پر کچھ مزید کرم فرمائیاں صفحہ ۱۰۵،
طبع : ادارہ ترجمان السنۃ )
حالاں کہ بٹالوی صاحب کے اشتہار کا
جواب ادلہ کاملہ ہے ، نہ کہ ایضاح الادلہ ۔ ایضاح الادلہ تو محمد احسن امروہی قادیانی
سابق اہلِ حدیث کی کتاب ’’ مصباح الادلہ ‘‘ کا جواب ہے ۔
تنبیہ:
بندہ
نے بہت عرصہ پہلے بعض غیرمقلدین کی تحریروں میں پڑھا تھا کہ انہوں نے حضرت شیخ
الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ پر تحریف کاالزام لگایا اورپھر کہا جب کہ قرآن
میں صحیح آیت اس طرح ہے۔ جس آیت کو انہوں نے صحیح کہہ کر لکھا وہ صحیح نہیں ،غلط
ہی تھی۔ یاد پڑتا ہے کہ مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے بھی توضیح الکلام طبع
اول میں تصحیح کے نام پر آیت غلط لکھ دی تھی۔ اَب چوں کہ میرے پاس توضیح الکلام
طبع اول موجود نہیں۔ اس لئے مراجعت نہیں
ہو سکی۔ جس کسی کے پاس طبع اول موجود ہو وہ مراجعت کرکے مجھے مطلع فرمائے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں