نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ (م۸۷۹؁ھ) کی توثیق اور زبیر علی زئی صاحب کادھوکا۔

 


حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ  (م۸۷۹؁ھ)  کی توثیق اور زبیر علی زئی صاحب کادھوکا۔

تحقیق : مولانا اعجاز اشرفی صاحب

ترتیب و اضافہ : مولانا نذیرالدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

              مشہور حافظ الحدیث قاسم بن قطلوبغا ؒ  (م۸۷۹؁ھ)  کی مندرجہ ذیل محدثین کرام،فقہاء اور  علماء نے توثیق یا تعریف کی ہیں :

(۱)         حافظ ابن حجرؒ  (۸۵۲؁ھ)  نے کہا : ’’ الشیخ الفاضل المحدث الکامل الاوحد ‘‘۔(مقدمہ الایثار بمعرفۃ الآثار بحوالہ  الضوء اللامع : ج۶ : ص ۱۸۵)

            اور کہا : ’’الإمام العلامة المحدث الفقيه الحافظ ‘‘۔(الضوء اللامع : ج۶ : ص ۱۸۵)

            نیزخود حافظ ابن حجرؒ   ؒ نے  حافظ قاسم بن قطلوبغا  ؒسے استفادہ  کیا،چناچہ وہ  ذکر کرتے ہیں کہ ’’وقال قراء ۃ علی وتحریرا فأفاد ونبہ علی مواضع الحقت فی ہذا الاصل  فزاتہ نورا ‘‘ حافظ قاسم ؒ نے میرے سامنے اس کی  (یعنی الإيثار بمعرفة رواة الآثار کی) قراء ت کی اور اس نے اس قراء ت کوتحریر کیا ۔پس اس نے استفادہ کیا اور کئی مقامات پر اس نے مجھے آگاہ بھی کیا۔ میں نے اس اصل(کتاب  الإيثار بمعرفة رواة الآثار) میں اس کو شامل بھی کیا ۔ پس اس نے اس کے نور کو اور زیادہ کیا ہے۔(الضوء اللامع : ج۶ : ص ۱۸۵)

(۲)         حافظ ؒ کےشاگرد،حافظ المذہب،امام سعد الدین ابن الدیری ؒ (م۸۶۷؁ھ) نے کہا :  ’’ الشيخ العالم الذكي ‘‘۔(الضوء اللامع : ج۶ : ص ۱۸۵)

(۳)       ابن العماد الحنبلی ؒ (م۱۰۸۷؁ھ) نے کہا : ’’ الشيخ العلّامة المفنّن العلّامة الشمس وبالجملة فهو من حسنات الدّهر، رحمه الله تعالى‘‘۔(شذرات الذہب : ج۹: ص ۴۸۷-۴۸۸،ج۱۰،ص ۳۵،۲۱۷)

(۴)       مؤرخ زین الدین الملطی ؒ (م۹۲۰؁ھ) نے کہا : ’’ الفقيه المحدّث ‘‘۔(نيل الأمل في ذيل الدول: ج۷ : ص ۱۰۲)

(۵)        فقیہ شمس الدين ابن الغزيؒ (م۱۱۶۷؁ھ) نے کہا : ’’ الإمام العلامة الفقيه ‘‘۔(ديوان الإسلام : ج۴ : ص ۴۱)

(۶)     امام،حافظ سخاویؒ (۹۰۲؁ھ) نے  کہا : ’’وھو امام، علامۃ قوی المشارکۃ فی فنون، ذاکر لکثیر من الادب ومتعلقاتہ، واسع الباع فی استخضار مذھبہ، وکثیر من زوایاہ وخبایاہ، متقدم فی ھذا الفن ، طلق اللسان قادر علی المناظرۃ وافحام الخصم‘‘  حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ امام ، علامہ، بہت سے علوم وفنون میں دوسروں سے سبقت کرنے والے علم ادب اور اس کے متعلقات کے بڑے ماہر اور مستحضر تھے، اپنے مذہب کے استحضار میں وسیع قدرت رکھنے والے تھے، اس کی باریکیوں تک سے واقف تھے،  اس فن میں سب سے متقدم، قادرالکلام، مناظرہ میں بڑے قدرت کے مالک، اور مخالفین کو دلائل سے خاموش کردینے والے تھے۔(الضوء اللامع:ج۶ص۱۸۷؍۱۸۸)

              نیز کہا کہ ’’وقد انفرد عن علماء مذھبہ الذین ادرکناھم بالتقدم فی ھذا الفن وصار بینھم من اجلۃ شأنہ مع توقف الکثیر منھم فی شأنہ وعدم انزالہ منزلتہ‘‘  علامہ قاسم ابن قطلوبغاؒ اس فن کے علمائے کرام (جن کو ہم نے پایا ہے) سے سبقت لے جانے میں منفرد ہیں، اور اپنی جلیل القدر شان کے ساتھ سب سے ممتاز ہیں، جب کہ بہت سے علماء کرام کی شان کے بیان کرنے میں توقف سے کام لیتے تھے اور ان کی قدر ومنزلت کو کم نہیں کرتے تھے۔(الضوء اللامع:ج۶ص۱۸۸)

              یہ بھی کہا کہ’’وعرف بقوۃ الحافظۃ والذکاء واشیر الیہ بالعلم، واذن لہ غیر واحد بالافتاء والتدریس‘‘ قاسمؒ قوتِ حافظہ اور ذکاوت میں مشہور و معروف تھے، ان کی طرف علم کا اشارہ کیا جاتا تھا، بہت سے علماء نے ان کو فتویٰ اور تدریس کی اجازت دی تھی۔(الضوء اللامع:ج۶ص۱۸۵)

              اسی طرح اپنی ایک اور کتاب میں کہا کہ ’’العلامۃ،الاوحد ، الحافظ احد الاعیان، ممن تصدی للعلم اقراء او تصنیفا وارشادا، فکثرت طلبۃ وتصانفیۃ، واجتمع فیہ من المحاسن ما تفرق فی غیرہ، وترجع علی غیرہ من علماء مذھبہ ھذا الشان والتوسع فی الادب وحسن المحاضرۃ مع تقدم من لم یبلغ شاوہ علیہ‘‘ قاسم بن قطلوبغاؒ بہت بڑے علامہ، یکتائے زمانہ ، حافظ ، مقتدا، درس وتدریس ، تصنیف وتالیف، اور دعوت وارشاد کے ذریعہ علم کی اشاعت کرنے والے ، طلبہ کی کثیر تعداد نے ان سے استفادہ کیا ہے، ان کی تصانیف کی تعداد بھی کثیر ہیں، ان کی ذات میں اتنے محاسن ہیں جو دوسروں میں یکجا نہیں ہیں، ان خوبیوں اور ادب وعلم کے استحضار کی خوبی کی وجہ سے علمائے احناف ان کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے، اس کے ساتھ یہ بات بھی ہے کہ ان کی شان کو کوئی نہیں پہنچا ہے۔ (وجیز الکلام:ج۲:ص۸۵۹)

(۷)        قاضی شوکانیؒ (م۱۲۵۰؁ھ) نے  کہا : ’’اخذ عنہ الفضلاء فی فنون کثیرۃ ، وصار المشار الیہ فی الحنفیۃ، ولم یخلف بعدہ مثلہ‘‘  علامہ حافظ قاسم بن قطلوبغا  ؒعلماء نے بہت زیادہ فنون حاصل کئے ہیں، احناف میں ان کی ذات مرجع خاص و عام ہے، ان کے بعد ان جیسا بعد میں پیدا نہیں ہوا ہے۔ (البدر الطالع:ج۲ص۴۵،۴۶)

(۸)        مؤرخ نجم الدين الغزيؒ (م۱۰۶۷؁) نے کہا : ’’ الشيخ العلامة الإمام المحدث ‘‘۔(الكواكب السائرة : ج۱: ص ۱۲،۱۰۱)

(۹)         علامہ عبدالحئی الکتانیؒ (م۱۳۸۲؁ھ)  نے کہا : ’’الامام الحافظ‘‘ ۔(فھرس فھارس۲،ص۹۷۲)

(۱۰)       فقیہ ابن نجیم  المصری ؒ (م۹۷۰؁ھ) نے کہا : ’’الشیخ الْعَلَّامَةُ الرَّئِيسُ‘‘۔(البحر الرائق : ج۳: ص ۲۵۰،ج۶: ص۴۷)

(۱۱)        ابن ایاس ؒ (م۹۳۰؁ھ)نے کہا : ’’کان عالما فاضلا فقیہا محدثا کثیر النوادر ،مفتیا من اعیان الحنفیۃ وکان نادرۃ عصرہ ‘‘حافظ قاسم ؒ بڑے عالم ،فاضل،فقیہ اور محدث تھے ۔احناف کے چوٹی کے مفتیان کرام میں سے تھے ،اپنے زمانے کے نابغہ ء روزگار تھے ۔(بدائع الزهورفي وقائع الدهور:ج۳:ص ۹۷)

(۱۲)       امام تقی الدین المقریزی ؒ (م۸۴۵؁ھ) نے کہا : ’’ برع في فنون من فقه وعربية وحديث وغير ذلك وكتب مصنفات عديدة‘‘۔(الضوء اللامع : ج۶ : ص ۱۸۹)

(۱۳)       حافظ رضوان بن محمد القاہری ؒ (م۸۴۵؁ھ)  نے کہا : ’’من حذاق الحنفیۃ ،کتب الفوئد ،واستفاد وافاد ‘‘ قاسم ؒ احناف میں بڑے ماہر فن تھے ،بڑی مفید کتابیں لکھی ہیں ،انہوں نے استفادہ کیا بھی ہے اور لوگوں کو بڑا فائدہ پہنچایا بھی ہے۔(الضوء اللامع ج:۶ص:۱۸۵)

(۱۴)       امام احمد بن محمد بن عمر ابن الحمصی ؒ (م۹۳۴؁ھ) نے کہا : ’’الشیخ الامام العلامہ المفنن المحقق  زین الدین قاسم  بن قطلوبغا۔۔۔۔لم یخلف بعدہ حنفیا  مثلہ رحمۃ اللہ  تعالی‘‘۔(حوادث الزمان : ج۱: ص ۲۰۵-۲۰۶)

(۱۵)       مشہور فقیہ امام ابن عابدین نے کہا : ’’ الحافظ الذين انتهت إليه رئاسة مذهب أبي حنيفة في زمنه الشيخ قاسم الحنفي ‘‘۔(رد المحتار على الدر المختار: ج۱ : ص ۵۳)

            معلوم ہوا کہ ان فقہاء و محدثین سے آپ ؒ کی توثیق و ثناء ثابت ہے۔

 

حافظ الحدیث امام قاسم بن قطلوبغا ؒ  (م۸۷۹؁ھ)  ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہے :

              حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ  (م۸۷۹؁ھ) کی حدیث اور علوم حدیث،جرح و تعدیل  میں  بےشمار تصانیف موجود ہے۔جس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ آپ ؒ جرح وتعدیل  اور علوم الحدیث کے ماہر اور امام تھے۔

مؤلفات الامام قاسم بن قطلوبغا  فی علوم الحدیث وشروحہ :

۱ – مسند عقبۃ بن عامر الجھنی ۔

۲ – منتقی من منتقی ابن الجارود ۔

۳ – عوام حدیث اللیث بن سعد ۔

۴ – الأجوبۃ عن اعتراضات البخاری علی أبی حنیفۃ ۔

۵ – الأجوبۃ عن اعتراض ابن أبی شیبۃ علی أبی حنیفۃ  فی الحدیث ۔

۶ – الأمالی علی مسند أبی حنیفۃ ، (روایۃ الحارثی )

۷ – الامالی علی مسند عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ

۸ – ترتیب مسند أبی حنیفۃ لابن المقری ، علی بن محمد الفزاری۔

۹ – تبویب مسند أبی حنیفۃ ، للحارثی ۔

۱۰ – ترجمۃ ذی النون المصری وعوالی حدیثہ ۔

۱۱ – ترصیع الجوھر النقی فی تلخیص سنن البیھقی ۔

۱۲ – تعلیقۃ علی شرح نخبۃ الفکر ، لتقی الدین الشمنی ۔

۱۳ – تعلیقۃ علی الموطأ (بروایۃ محمد بن الحسن )

۱۴ – تعلیقۃ علی مسند الفردوس للدیلمی ۔

۱۵ – حاشیۃ علی فتح المغیث بشرح ألفیۃ الحدیث ، للحافظ العراقی ۔

۱۶ – حاشیۃ علی مشارق الأنوار ۔

۱۷ – حاشیۃ علی نزھۃ النظر۔

۱۸ – زوائد سنن الدارقطنی  فی مجلد

۱۹ – شرح غریب أحادیث شرح الأقطع علی القدوری ۔

۲۰  - شرح قصیدۃ ابن فرح الإشبیلی  (القصیدۃ الغرامیۃ )

۲۱ – شرح کتاب جامع المسانید لأبی المؤید الخوارزمی ۔

۲۲ – شرح مصابیح السنۃ  للبغوی ۔

۲۳ – شرح منظومۃ ابن الجزری فی الحدیث ۔

۲۴ – عوالی حدیث أبی جعفر الطحاوی ۔

 

ثالناً : علم الرجال :

۲۵ – أسئلۃ الحاکم للدارقطنی ، (جمع وترتیب)

۲۶ – الاھتمام الکلی بإصلاح ثقات العجلی ۔

۲۷ – الإیثار برجال معانی الآثار ۔

۲۸ – تاج التراجم (فیمن صنف من الحنفیۃ )

۲۹- تراجم مشایخ شیوخ العصر ، (لم یتم )

۳۰ – تراجم مشایخ المشایخ ۔

۳۱ – ترتیب الإرشاد فی علماء البلاد۔

۳۲ – ترتیب التمییز للجوزقانی ۔

۳۳ – تقویم اللسان فی الضعفاء ۔

۳۴ – الثقات ممن لم یقع فی الکتب الستۃ ۔

۳۵ – حاشیۃ علی تقریب التھذیب لابن حجر۔

۳۶ – حاشیۃ علی مشتبہ النسبۃ لابن حجر۔

۳۷ – رجال کتاب الآثار لمحمد بن الحسن ۔

۳۸ – رجال مسند أبی حنیفۃ (لابن المقري )

۳۹ – رجال المؤطأ، براویۃ محمد بن الحسن ۔

۴۰ – زوائد رجال سنن الدارقطنی علی الستۃ ۔

۴۱ – زوائد رجال المو طأ ۔

۴۲ – زوائد رجال مسند الإمام الشافعی ۔

۴۳ – زوائد العجلی ۔

۴۴ – معجم الشیوخ ۔

۴۵ – من روی عن أبیہ عن جدہ۔

 

ثالثاً: التخریج :

۴۶ – تخریج عوالی القاضی بکار ۔

۴۷ – التعریف و الإخبار بتخریج أحادیث الاختیار۔

۴۸ – منیۃ الألمعی بما فات الزیلعی۔

۴۹ – إتحاف الأحیاء بما فات من تخریج أحادیث الإحیاء ۔

۵۰ – بغیۃ الرائد فی تخریج أحادیث شرح العقائد (النسفیۃ)

۵۱ – تخریج أحادیث بدایۃ الھدایۃ ۔

۵۲ – تخریج أحادیث جواھر القرآن للغزالی ۔

۵۳ – تخریج أحادیث الأربعین فی أصول الدین ۔

۵۴ – تخریج أحادیث تفسیر أبی اللیث  (السمرقندی )

۵۵- تخریج أحادیث شرح القدوری للأقطع۔

۵۶ – تخریج أحادیث الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض ۔

۵۷ – تخریج أحادیث عوارف المعارف ۔

۵۸ – تخریج أحادیث الفرائض للسجاوندی ۔

۵۹ – تخریج أحادیث کنز الوصول إلی معرفۃ الأصول للبزدوی ۔

۶۰ – تخریج أحادیث منھاج العابدین ، للغزالی ۔[1]

 

 

محدث قاسم بن قطلوبغاؒ  (م۸۷۹؁ھ) پر جرح کی اصل وجہ :

              حافظ قاسم بن قطلوبغا حنفی ؒ ۸۷۹؁ھ) کی احادیث اور رجال پر کافی گہری نظر تھی ،جو ان کی تحقیقات سے عیاں ہے ۔محدث قاسم ؒ نے ’’تخریج احادیث الاختیا ر لتعلیل المختار ‘‘ میں مصنف بن ابی شیبہ کے اس نسخے کا ذکر کیا ہے ۔جس میں تحت السرہ کے الفا ظ موجود تھے۔

              دیکھئے التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیا ر ،ج:۱ص:۳۱۴۔تحت رقم الحدیث : ۱۶۸، مصنف حافظ قاسم بن قطلوبغا ۸۷۹؁ھ) مطبوعہ :جامع ام القری ،مکۃ المکرمۃ

              چونکہ اہل حدیثوں کو اس بات کا انکار کرنا تھا،اس لئے زبیر علی زئی صاحب نے اپنی کتاب ’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقامص: ۲۷‘‘ پر محدث مؤرخ حافظ قاسم بن قطلوبغا حنفی ؒ کو بحوالہ علامہ بقاعی ؒ  کذاب لکھا۔

امام بقاعیؒ کی جرح کا تحقیقی جائزہ :

              برہان الدین بقاعی ؒ ۸۸۵؁ھ) محدث کبیر حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ(م ۸۷۹؁ھ) پر جرح کرتے ہیں :

              ’’وکان مفننا فی علوم کثیرۃ الفقہ والحدیث والاصول وغیرہا ولم یخلف بعدہ حنفیا مثلہ الا انہ کان کذابا لا یتوقف فی شییٔ یقولہ فلا یعتمد علی قولہ ‘‘ حضرت قاسم بن قطلوبغا ؒبہت سے علوم وفنون خصوصاً فقہ ،حدیث ،اصول وغیرہ میں ماہر تھے ۔احناف میں ان کے بعد ان جیسا پیدا نہیں ہوا ۔مگر یہ کہ وہ کذاب تھے ۔وہ کسی چیز کے کہہ دینے میں توقف نہیں کرتے تھے ۔پس ان کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ (الضوء اللامع لاہل القرآن التاسع للسخاوی ج:۶ص: ۱۸۶ )

لیکن یہ جرح  کئی وجوہات سے قابل قبول نہیں ہے۔

(۱)         یہ جرح خارجی وجہ سے کی گئی ہے۔اور وجہ یہ ہے کہ  بقاعی ؒ ۸۸۵؁ھ) نے ابن عربی اور ابن الفارض کی تکفیر کی ۔محدث قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ابن عربی اور ابن الفارض کا خوب دفاع کیا ہے ۔علامہ بقاعیؒ کو جب علم ہوا تو محض ابن عربی ؒ کا دفاع کرنے  کی وجہ سے  بقاعی ؒ نے حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ  کو کذاب کہا۔جس کی پوری تفصیل شیخ   محمد المحاسن  یعقوبی نے (التعریف و الاخبار: ج۱: ص ۷۵-۷۷) پر بیان  کی ہے۔لہذا   یہ  جرح آپسی اختلاف اور خارجی سبب کی وجہ ہوئی، جو کہ اصول جرح و تعدیل بلکہ غیر مقلدین کے اصول سے بھی  باطل و مردود ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے  مجلہ الاجماع  : شمارہ ۴: ص۵۹۔

              اس کی تائد اس سے بھی ہوتی ہے کہ خود بقاعی ؒ نے حافظ قاسم ؒ کی تعریف و ثناء کی ہے۔جیسا کہ ان کی عبارت اپر گزرچکی۔نیز ابن حماد الحنبلیؒ نے یہ بھی نقل کیا  ہے کہ  بقاعی ؒ نے اپنی کتاب ’’عنوان الزمان ‘‘ میں کہا کہ ’’ شاع ذكره، وانتشر صيته، وأثنى عليه مشايخه، وصنّف التصانيف المفيدة ‘‘ ۔(شذرات الذہب : ج۹: ص ۴۸۷)

            اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ وہ خود  پہلے ان ثناء و مدح کے قائل تھے۔لیکن بعد میں ایک خارجی سبب  ابن عربی وغیرہ کے مسئلہ کی وجہ سے ان انہونے قاسم ؒ پر کلام کیا۔جو غیرمقبول اور مردود ہے۔

(۲)         یہی وجہ ہے کہ ان کی اس جرح کو  محدثین اور علماء نے قبول نہیں کیا۔

- حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲؁ھ)  اس جرح کا رد کرتے ہوئے کہا : کہ ’’ بالغ في أذيته ‘‘ بقاعی ؒ نے   ان کی معاملہ میں مبالغہ کیا۔

- یمن کے مشہور سلفی عالم شیخ  شادی بن محمد نے کہا  : کہ ’’ثم بالغ في أذيته  بما ذکرہ السخاوی‘‘ پھر بقاعی ؒ نے   ان کی معاملہ میں مبالغہ کیا  جیساکہ سخاوی ؒ نے ذکر کیا۔ (مقدمہ کتاب الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۹،تحقیق  شادی بن محمد)

- شیخ   محمد المحاسن  یعقوبی نے اس جرح کو بقاعی ؒ کا تسامح  اور غلطی بتایا ہے۔(التعریف و الاخبار: ج۱: ص ۷۵-۷۷)، لہذا زبیر صاحب  کایہ مردود جرح  پیش کرنا باطل ہے۔

(۳)        علامہ بقاعی ؒ (م۸۸۵؁ھ)  بذات خود متشدد  ہے۔چنانچہ ان کے شاگرد امام،محدث عبد القادر بن محمد النعیمی الدمشقی ؒ (م۹۲۷؁ھ) نے اپنی کتاب ’’الدراس فی تاریخ المدارس ص: ۳۳‘‘ پر لکھتے ہیں : ’’وقد ظلمہ شیخا البرہان الدین البقاعی فی عنوان العنوان‘‘ہمارے شیخ برہان الدین بقاعیؒ نے اپنی کتاب ’’عنوان العنوان‘‘ میں (جرح اور تنقید میں ) بڑا ظلم کیا ہے۔ 

              اسی طرح ان کے تشدد کی کئی مثالیں حافظ سخاوی ؒ نے ذکر کی  ہے، مثلاً ان  کی حافظ،امام ابن ناصرالدینؒ (م۸۴۵؁ھ)  پر جرح وغیرہ۔دیکھئے (الضوء اللامع ج: ۱ ص : ۱۱۰ ،۱۱۱،البدرالطالع ج:۱ص:۲۰)

            اور متشدد کی جرح خود اہل حدیثوں کے نزدیک مقبول نہیں ہے۔(انوار البدر : ص۱۲۷،دین الحق : ج۱: ص ۳۶۶) لہذا  یہ جرح مردود ہے۔

(۴)        غیر مقلدین کے نزدیک کذب بمعنی خطا  بھی ہوتا ہے :

              زبیر علی زئی صاحب کے ممدوح ارشاد الحق اثری صاحب کذب کی جرح کے بارے میں لکھتے ہیں : شیخ ابوغدہ ؒنے علامہ الیمانی ؒکی الروض الباسم سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے :

              ’’ان لفظۃ کذاب قد یطلقہا کثیر من المتعنتین فی الجرح علی من یہم ویخطیٔ فی حدیثہ‘‘ لفظ کذاب بہت سے متشدد ین جرح راوی کی حدیث میں وہم وخطاء پر اطلاق کرتے ہیں ۔علامہ ذہبی ؒ لکھتے ہیں ’’فاما قول الشعبی الحارث کذابا فمحمول علی انہ عنی بالکذب الخطاء‘‘ امام شعبی ؒ کا فرمان کہ حارث کذاب ہے تو یہ محمول ہے کہ انہوں نے کذب سے خطاء مراد لی ہے ۔( تنقیح الکلام ص:۲۴۶)

              جب اہل حدیث کذب کی جرح کو خطاء پر محمول کرتے ہیں تو زبیرعلی زئی صاحب اس جرح (کذب)کو قاسم بن قطلوبغا ؒ کے ضعف کو ثابت کرنے کے لئے  پیش کرنا  باطل و مردود ہے۔ اور خود غیرمقلدین کے اصول سے ،یہاں کذب سے مراد  خطاء    ہے۔

عجیب تناقص ہے  !

جب کذاب کی جرح غیر مقلدین کی کسی مستدل روایت کے اند رآجائے تو پھر اس محدثین کی کذاب والی جرح کی تاویل کرتے ہیں اور جب احناف کی مستدل روایت کے اندر آجائے تو فورن وہ راوی کذاب ہوجاتا ہے ۔

(۵)        معاصرانہ جرح کی حیثیت :

ہم عصر علماء کرام کی جرح اکثر قبول نہیں کی جاتی ۔علامہ سبکی ؒ فرماتے ہیں: معاصر کی جرح مبہم قابل قبول نہیں۔(الجرح والتعدیل للسبکی ص:۲۴) کیونکہ وہ اکثر خارجی سبب کی بناء پر ہوتی ہے۔

امام قاسم بن قطلوبغا ؒ اور امام بقاعی ؒ آپس میں معاصر ہیں ۔لہذا امام بقاعی کی جرح بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ۔جب کہ اس کے شواہد او ر قرائن بھی موجو د ہیں، جس کی تفصیل اپر گزرچکی۔

غیرمقلدین کے اپنے گھر کی گواہی :

غیرمقلدین کے ممدوح قاضی شوکانی صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ علامہ بقاعیؒ پر ان کی نصانیف کی وجہ سے علماء کرام نے ان پر جرح کی جس کی وجہ سے ان کی اور دیگر محدثین کی آپس میں معاصرانہ چشمک لگی رہتی تھی ۔(البدر الطالع ج: ۱ ص:۲۰)

              پھر علامہ بقاعی کی یہ عادت تھی کہ جو ان پر جرح کرتا ،امام بقاعی ؒ اس پر جرح کردیتے تھے ۔(الضوء اللامع ج: ۱ ص : ۱۱۰ ،۱۱۱،البدرالطالع ج:۱ص:۲۰)

              ان دلائل  سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ علامہ بقاعیؒ کی جرح علامہ قاسم ابن قطلوبغاؒ پر کسی بھی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے، کیونکہ ان کی جرح معاصرانہ لٹرائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے، جس کے شواہد پیش کر دئیے گئے ہیں، اور صرف ایک امام بقاعیؒ کی جرح دیگر محدثین کے توثیق کے سامنے کیا حیثیت رکھی ہے؟ یہ خود زبیر علی زئی کے شاگردوں کو بھی معلوم ہے، لہٰذا ہمیں اس بارے میں کچھ زیادہ کہنے اور لکھنے کی ضرورت بھی نہیں ہے۔

              اس مقام پر یہ بات بھی اہم ہے کہ امام بقاعیؒ کی اپنی شخصیت کا محدثین کرامؒ کے اقوال کی روشنی میں تفصیلاً جائزہ لیا جائے، کیونکہ جب خود امام بقاعی پر بھی جرح موجود ہے تو اس کے بعد تو ان کی جرح کو قبول کرنا مذہبی ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔

علامہ بقاعیؒ پر محدثین کرام کا جرح و نقد :

              علامہ بقاعیؒ پر محدثین کرام نے صرف اجمالی جرح ہی نقل نہیں کی بلکہ ان کے رد میں مستقل کتابیں تصنیف کی ہیں:

(۱)         امام،محدث عبد القادر بن محمد النعیمی الدمشقی ؒ (م۹۲۷؁ھ) نے اپنی کتاب ’’الدراس فی تاریخ المدارس ص: ۳۳‘‘ پر لکھتے ہیں : ’’وقد ظلمہ شیخا البرہان الدین البقاعی فی عنوان العنوان‘‘ہمارے شیخ برہان الدین بقاعیؒ نے اپنی کتاب ’’عنوان العنوان‘‘ میں (جرح اور تنقید میں ) بڑا ظلم کیا ہے۔  

(۲)         امام سخاویؒ نے امام بقاعیؒ کے رد میں متعدد کتابیں تصنیف کی ہیں، اور اپنی تحقیق کو ضبط قلم کیا تاکہ علامہ بقاعیؒ کے افکار کا مکمل احاطہ ہوسکے۔

              ٭          احسن المساعی فی ایضاح حوادث البقاعی۔  (جواھر الدرر:ص۱۷۳)

              ٭          الاصل الاصیل فی تحریم النقل من التوراۃ والانجیل۔  (الضوء اللامع:ص۱۰۵)

              ٭          القول المالوف فی رد علی منکر المعروف۔  (بدائع الزھور:۳؍۴۸)

(۳)        امام احمدبن موسیٰ المیتولیؒ نے علامہ بقاعیؒ کے رد میں مندرجہ ذیل کتابیں تصنیف کیں۔

              ٭          الرد علی البقاعی فی انکار قول  یادائما المعروف۔  (الضوء اللامع:۲؍۲۲۸)

              ٭          المدد القانص فی الذب عن ابن القارض۔  (الضوء اللامع:۲؍۲۲۸)

(۴)        امام شمس الدین البلاطسی شافعیؒ نے علامہ بقاعیؒ کے رد میں مستقل کتاب لکھی:

              ٭          تقبیۃ قواعد الارکان بان لیس فی الامکان ابدع۔  (قلمی نسخہ، دارمکتب المصریہ)

(۵)        امام جلال الدین سیوطیؒ (جو کئی کتابوں کے مصنف اور ایک بلند پایہ محدث ہیں) نے مندرجہ ذیل کتابیں علامہ بقاعیؒ کے ر د میں لکھیں۔

              ٭          تشیید الارکان  (ویروی: تشدید الارکان) فی لیس فی الامکان، ابدع مماکان (کشف الظنون عن اسامی الکتب والفنون: ج۱ص۴۱۰، المولف: مصطفی بن عبداللہ کاتب حلبی القسطنطینی المشھور باسم جامی خلیفہ او الحاج خلیفہ۔ (المتوفی:۱۰۶۷؁ھ) الناشر مکتبۃ المثنی، بغداد: ۱۹۴۱؁ھ)

نوٹ:      برہان الدین ابراہیم بن عمر بقاعیؒ (۸۸۵؁ھ) نے ایک کتاب:تھدیم  الارکان، فی لیس فی الامکان ، ابدع مماکان۔  تصنیف کی تھی ، جس میں غلط نظریات بیان کئے تھے، تو مختلف علماء نے اس کے رد میں کئی کتابیں تصنیف کی تھیں۔(کشف الظنون : ص ۵۱۳،ج۱)

٭          تنبیہ الغنی فی تنزیہ ابن عربی۔  (کشف الظنون:ج۱؍ص۴۸۸)

٭          قمع المعارض فی نصرۃ ابن القارض۔  (بدائع الزھور:۳؍۴۸)

(۶)         امام محمد بن جمعۃ الشیبانیؒ نے امام بقاعیؒ کا رد لکھا، اور کمال تحقیق پیش کی:

              ٭          تریاق الافاعی فی الرد علی خارجی البقاعی۔  (قلمی نسخہ مکتبہ آصفیہ حیدرآباد دکن)

(۷)        امام محمد بن حامد الشافعیؒ نے علامہ بقاعیؒ کا رد کیا ہے اور مستقل ایک کتاب لکھی:

              ٭          الدلیل والبرھان علی انہ لیس فی الامکان ابدع۔  (اس کا قلمی نسخہ امریکہ میں موجود ہے)

(۸)        محدث عبدالرحمن بن محمد السنطاوی نے بھی امام بقاعیؒ کے رد میں کتاب لکھی:

              ٭          السیف الحسام فی الذب عن کلام حجۃ الاسلام۔  (قلمی نسخہ امریکہ)

(۹)         محدث بدرالدین ابن الغرس نے بھی ابن القارض کا دفاع کیا ،اور علامہ بقاعی کے افکار کا مکمل رد ضبط قلم کیا۔

              ٭          کتاب فی دفاع ابن القارض؛  (بدائع الزھور:۳؍۴۸)

آخری بات :

               اس تحقیق سے کم از کم یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ محدثین کرام نے علامہ بقاعی ؒ کا شدت کے ساتھ رد لکھا ہے اور جس کی وجہ سے علامہ بقاعی ؒ کی اپنے ہم عصر سے بحث مباحثہ چلتا رہا ،اور اسی بحث میں انہوں نے علامہ قاسم بن قطلوبغا ؒ پر بھی اپنے قلم کا وار کیا۔مگر محدثین کرام نے جو اصول جرح وتعدیل میں متعین کئے ہیں ،ان کی روشنی میں حافظ قاسم بن قطلوبغا کی ذات کو داغ دار نہیں بنایاجاسکتا ہے ۔جناب زبیر علی غیر مقلد مسلکی تعصب کی مرض میں[2] علامہ بقاعی ؒ کے حوالے سے بھولے بھالے لوگوں کو تو تحقیق کے نام پر دھوکہ دے سکتے ہیں ،مگر اصول حدیث اور اسماء الرجال کے ایک طالب علم کو دھوکہ دینا اتنا آسان نہیں ۔

مزید تعجب اس لئے بھی ہوتا ہے  کہ زبیر علی زئی صاحب کا  اصول تھا کہ جمہور کے اقوال اسماء الرجال میں حجت ہوتے ہیں، حب کہ وہ حافظ  قاسم بن قطلوبغا ؒ  کے معاملہ میں  اپنے ہی اصول کو نظر انداز کردیا ۔

اور دوسری طرف آپنے من بسند راوی کادفاع کرتے ہوئے موصوف زبیر صاحب  لکھتے ہیں کہ ’’ ہمارے نزدیک  یہ کوئی مسئلہ نہیں کہ فلاں امام نے فلاں راوی کو کذاب (جو کہ جرح مفسر ہے ) یا ضعیف کہا ہے ، بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جمہور کس طرف ہیں ؟ جب جمہور محدثین سے ایک قول (مثلاً توثیق یا تضعیف ) ثابت ہوجائے ، تو اس کے مقابلہ میں ہر شخص یا بعض اشخاص کی بات مردود ہے ، اور جرح وتعدیل میں تعارض کی صورت میں ہمیشہ جمہور محدثین کو ہی ترجیح حاصل ہے ۔ (مقالات ۶/۱۴۳)

کیا یہی اصول پسندی ہے ؟

اور کیا اسی کانام تحقیق ہے ؟

اللہ ہمیں بغض کے مرض سے دور رکھے اور ائمہ اہل سنت کی تعظیم اور محبت عطاء فرمائے ۔(آمین)

نوٹ:

اسی طرح کی مردود جرح زبیر علی زئی صاحب نے حافظ مغلطای ؒ (م۷۶۲؁ھ)  پر بھی کی تھی۔جس کا جواب مجلہ الاجماع : شمارہ ۴ : ص ۵۳ پر موجود ہے۔



[1]  تفصیل کے لئے دیکھئے  : تخریج احادیث البزدوی للامام قاسم : ص ۲۳،طبع دارکنوز اشبیلیا،التصحیح والترجیح  علی مختصر القدوری :ص۵۳، طبع دار الکتب علمیہ بیروت ۔

[2]   زبیرعلی زئی غیر مقلد نے امام قاسم ابن قطلوبغاؒ پر جرح علامہ بقاعیؒ سے صرف اس لئے نقل کی ہے کہ امام قاسم ابن قطلوبغاؒ (م۸۷۹؁ھ)  نے  اپنی کتاب ’’التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیار جلد نمبر ۱ص۳۱۴، تحت رقم الحدیث۱۶۸‘‘ میں مصنف ابن ابی شیبہ سے تحت السرۃ یعنی نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی حدیث نقل کی ہے ، اور مصنف ابن ابی شیبہ کے قلمی نسخہ سے احتجاج کیا ہے، کیونکہ یہ حدیث غیرمقلدین حضرات کے مسلک کے خلاف ہے اس لئے زبیر علی زئی نے محدث قاسم ابن قطلوبغاؒ پر ہی جر ح کر دی۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...