طریقہ وضو (کتاب
و سنت اور سلف و صالحین کے آثار کی روشنی میں)
مولانا نذیر الدین قاسمی
مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
وضو
کی فضیلت واہمیت :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : میری امت قیامت کے دن اس حال
میں بلائی جائے گی کہ ان کے ہاتھ ،پاؤں اور چہرے وضو میں دھلنے کی وجہ سے روشن اور
چمکدار ہوں گے،پس تم میں سے جو کوئی اپنی وہ ورشنی اور نورانیت بڑھاسکے
اور مکمل کرسکے تو وہ ضرور ایسا کرے ۔ (صحیح بخاری:۱۳۶)[1]
ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا
: جس نے وضو کیا اور اچھی طرح وضو کیا (یعنی سنتوں اور مستحبات کا اہتمام کیا )تو اس
کے گنا ہ جسم سے نکل جاتے ہیں ،یہاں تک کہ اس کے ناخن کے نیچے سے بھی نکل جا تے ہیں ۔ (صحیح مسلم ص: ۷۲۱،حدیث نمبر :۵۷۸،دوسرا نسخہ : ج:۱ص: ۲۱۶)[2]
ایک جگہ ارشاد ہے کہ اللہ تعالی اس (اچھی
طرح وضو کرنے والے) کےاگلے پچھلے گنا ہ معاف فرمادیتے ہیں ۔ (مسند بزار ج:۲ص: ۷۵،حدیث نمبر: ۴۲۲)[3]
وضاحت
:
امام
نوویؒ (م۶۷۶ھ) فرماتے ہیں کہ وضو،نماز وغیرہ عبادات سے صرف گناہ صغیرہ معاف
ہوتے ہیں، کبیرہ گناہ بغیر توبہ کے معاف نہیں
ہوتے ۔(شرح نووی علی صحیح مسلم ج:۲ص: ۸۵)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : وضو، نماز کی کنجی ہے ۔(سنن ترمذی ص: ۱۶۲۸،حدیث نمبر:۳)[4]
ایک
اور حدیث میں ارشاد نبوی موجود ہے کہ کوئی نماز بغیر وضو کے قبول نہیں ہوتی۔(صحیح
مسلم ص: ۷۱۹،حدیث
نمبر: ۵۳۵،دوسرانسخہ
ج:۱ص:۲۰۴)[5]
فرائض وضو۔(یعنی
وہ باتیں جن کے بغیر وضو نہیں ہوتا)
ارشاد باری تعالی ہے کہ : یا أیہا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلا ۃ
فاغسلوا وجوہکم وایدیکم الی المرافق
وامسحو ا برؤسکم وارجلکم الی الکعبین ۔
ترجمہ
:
اے ایمان والو ! جب تم نماز کے لئے اٹھو
تو :
(۱) منھ
اور
(۲) دونوں
ہاتھ کہنیوں تک دھولو اور
(۳) مسح
کرو اپنے سر کا اور
(۴) دونوں
پاؤں ٹخنوں تک دھولو ۔(المائدہ :۶)
اس آیت سے معلوم ہواکہ وضو کے چار فرائض
ہیں اور اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے امام ابو الحسین القدوری ؒ (م ۴۲۸ھ) [ثقۃ ثبت][6]
اور امام ابو الحسن الکرخی ؒ (م ۳۴۰ھ)
[صدوق،امام،فقیہ ][7]
نے انہیں چار ارکان وضو کو فرض قرار دیا ہے ۔ ( مختصر
القدوری ص:۲،۳(درسی
نسخہ )، شرح
مختصر الکرخی للامام القدوری ج:۱ص:۱۱۸)[8]
وضو کا مسنون طریقہ(مع
سنن ومستحبات)
(یعنی
وہ کام جن کے بغیر وضو ہوتو جاتا ہے مگر ناقص ونامکمل رہتاہے )
(۱) وضو
سے پہلے نیت کرلے -کہ نماز (یا طواف وغیرہ ) کیلئے وضو کر رہا ہوں ،- کیونکہ حضور ﷺ
کا ارشاد ہے کہ سارے اعمال نیت سے ہیں ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۱)[9]
(۲) وضو
کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھے[10] ۔
(۳) وضو
سیدھی جانب سے شروع کرے ۔[11] (اعضاء
وضو میں سے پہلے دائیں عضو کو دھوئے اور پھر
بائیں کو)
(۴) پھر
ہاتھوں کو گٹوں تک تین بار دھوئے۔[12] اور انگلیوں کابھی خلا ل کرے
۔[13]
(۵) اس
کے بعد مسواک کرے ، اگر مسواک نہ ہو انگلی سے دانتوں کو صاف کرے ، اورتین بار کلی کرے۔
(۶) تین بار ناک میں پانی ڈا لے ۔[14]
(۶) پھر
تین بار چہرہ دھوئے۔(سورہ مائدہ : ۶)
(۷) اور
ڈاڑھی کا خلا ل کرے ۔[15]
(۸) دایاں
ہاتھ کہنیوں سمیت تین بار دھوئے، پھر بایا ں ہاتھ تین بارکہنیوں سمیت دھوئے ۔ [16]
(۹) ایک
بار پورے سر کا مسح کرنا [17] اور
سر کا مسح اس طرح کرے کہ ہاتھ تر کرکے دونوں ہاتھوں سے سر کے اگلے حصے سے مسح شروع
کرکے گردن تک لے جائے ، پھر پیچھے سے آگے اسی جگہ لے آئے جہاں سے مسح شروع کیا تھا[18] ، اور کان کا مسح اس طرح کرے کہ شہادت کی انگلی دونوں
کانو ں کی سوراخوں میں داخل کرکے اندرونی جانب سے گزار کر ، کانوں کے پچھلے حصے پر
انگوٹھے سے مسح کرے ۔ [19] پھر انگلیوں کی پچھلے حصے سے (یعنی پشت سے )گردن کا مسح کرے ۔[20]
(۱۰) اور
آخر میں دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت تین بار دھوئے[21] اور
انگلیوں کا خلا ل بھی کرے۔[22]
(۱۱) اعضاء
وضو کو مل مل کر دھوئے ۔ [23]
(۱۲) ترتیب
سے وضو کرے اور ایک عضو (حصہ )خشک ہونے سے پہلے دوسرے عضو کو دھوئے ۔ (کیونکہ صحابہ
رضی اللہ عنہم نے جو طریقہ وضو بتلایاہے وہ ترتیب وار اور پے در پے تھا )۔(صحیح
البخاری حدیث نمبر :۱۹۳۴)
(۱۳) وضو
کے بعد یہ دعا پڑھے :
اشہد ان لا الہ الا اللہ
وحدہ لا شریک لہ ،واشہد ان محمداًعبدہ ورسولہ ، اللہم اجعلنی من التوابین واجعلنی
من المتطہرین ۔[24]
وضو
کے دیگر مسائل :
وضو میں زیادہ پانی صرف نہیں کرنا چاہیئے[25] اور
نہ ہی تین بار سے زیادہ اعضا ء کو دھونا چاہیئے ۔ [26]
موزے
پر مسح اور اس کے احکام :
اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ وضو کرتے وقت
اپنے پاؤں دھولے تاکہ وہ پاک ہوجائے اور موزے پہن لے ،پھر جب کبھی وضوکی حاجت پیش
آئے تو دوبارہ پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں بس موزے پر ہا تھ پھیر دے اس سے اس پر مسح
ہوجائے گا ۔[27]
مسافر
کے لئے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات مسح کرنے کی اجاز ت
ہے ۔[28]
جرابوں
پر مسح اور اس کی تفصیل :
جرابوں
(socks)پر مسح کچھ شرائط کے ساتھ جائز ہے ۔وہ شرائط
درج ذیل ہیں :
ا : ان
جرابوں میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔(مثلاًتین میل،یعنی وہ جراب ایسی مضبوط ہو کہ اس میں
تین میل تک لگاتار چلنا ممکن ہو اور اس میں پھٹن وشگاف پیدا نہ ہو )
ب: اتنی
سخت اور موٹی ہو کہ بغیر باندھے ،بغیر سہارے (مثلاًلاسٹک وغیرہ )کے پاؤں پر ٹکی رہے
۔
ج: پانی
کو جذب نہ کرے ۔
د: اتنی
موٹی ہو کہ اس سے نظر نہ گزرے ۔(یعنی اتنی موٹی ہو کہ پاؤں کی جلد نظر نہ آئے ۔)-
یہ
شرائط سلف صالحین سے ثابت ہے :
امام
ابو سلیمان موسی بن سلیمان جوزجانی ؒ[صدوق،امام][29]
فرماتے ہیں کہ :
(۱) امام
ابو یوسف ؒ (م ۱۸۲ھ)
اور
(۲) امام
محمد ؒ (م ۱۸۹ھ)نے
کہا ہے کہ’’ إِذا مسح
على الجوربين أجزاه الْمسْح كَمَا يَجْزِي الْمسْح على الْخُف إِذا كَانَ الجوربان
ثخينين لَا يشفان‘‘ جب
جرابیں ثخین
ہوں اور پانی کو جذب نہ کرتی ہوں ،تو ان پر ایسے ہی مسح جائز ہے جیسے موزے پر مسح جائز
ہے ۔(الاصل المعروف بالمبسوط للشیبانی
ج:۱ص:۹۱)
اور
ثخین کی تعریف کرتے ہوئے مشہور امام فقیہ علاء الدین
محمد بن علی حصکفی ؒ(م ۱۰۸۸ھ)
[صدوق،فقیہ] [30]
فرماتے ہیں کہ’’
الثخينين بحيث يمشي فرسخا ويثبت على الساق بنفسه ولا يرى ما تحته ولا يشف إلا أن
ينفذ إلى الخف‘‘ ثخین وہ جراب ہے جس میں
لگاتار چلنا ممکن ہو ،اور وہ خود بخود پنڈلی پر سیدھی کھڑی رہے اور (جب جراب)آنکھوں
کے سامنے ہو تو نیچے کی چیز نظر نہ آئے (یعنی اس سے نیچے کی طرف نظر نہ گزر سکے )اور
پانی جذب نہ کرے ۔(الدر المختار ص:۴۱) مشہور
فقیہ امام ابن عابدین ؒ (م ۱۲۵۲ھ)
نے بھی ثخین
کی یہی تعریف بیا ن فرمائی ہے ۔(رد المحتار علی الدر المختار ج:۱ص:۲۶۹)
(۳) امام
سفیان ثوری ؒ(۱۶۱ھ)
(۴) امام
عبداللہ بن مبارک ؒ(م ۱۸۱ھ)
(۵) امام
محمد بن ادریس الشافعی ؒ(م ۲۰۴ھ)
(۶) امام
احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱ھ)
(۷) امام
اسحق بن راہویہ ؒ(م ۲۳۸ھ)
یہ سب ائمہ بھی یہی فتوی دیتے ہیں کہ جب جراب
ثخین ہوگی تبھی اس پر مسح کیا
جائے گا ۔(سنن ترمذی تحت رقم الحدیث:۹۹)[31]
معلوم
ہو اکہ سلف اور ائمہ کے نزدیک جراب پر مسح تبھی جائز ہے جب جراب میں اوپر ذکر کی گئی شرائط موجود ہوں ۔یعنی
جب ثخین
ہوں ،جیسا کہ تفصیل اوپر گزر چکی ۔
(۸) الامام
الفقیہ ابن المفلح ؒ(م۸۸۴ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ وَالْجَوْرَبَيْنِ۔۔۔۔۔۔ وَلِأَنَّهُ سَاتِرٌ لِلْقَدَمِ
يُمْكِنُ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ فِيهِ أَشْبَهَ الْخُفَّ ‘‘
جرابوں پر مسح اس لئے بھی جائز ہے کیونکہ وہ قدم کے لئے ساتر ہے (یعنی قدم کو چھپانے
والا ہے )اور ان میں بغیر جوتی کے لگا تارچلناممکن ہے ،اس اعتبار سے جرابیں موزے کے
مشابہ ہیں ۔ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ ’’ يُشْتَرَطُ لِجَوَازِ الْمَسْحِ عَلَى حَوَائِلِ الرِّجْلِ
شُرُوطٌ.الْأَوَّلُ: أَنْ يَكُونَ سَاتِرًا لِمَحَلِّ الْفَرْضِ ..... الثَّانِي:
أَنْ يَكُونَ ثَابِتًا بِنَفْسِهِ، إِذِ الرُّخْصَةُ وَرَدَتْ فِي الْخُفِّ
الْمُعْتَادِ، وَمَا لَا يَثْبُتُ بِنَفْسِهِ لَيْسَ فِي مَعْنَاهُ، وَحِينَئِذٍ
لَا يَجُوزُ الْمَسْحُ عَلَى مَا يَسْقُطُ لِزَوَالِ شَرْطِهِ ‘‘ پانی
اور پاؤں کے درمیان حائل ہونے والی (یعنی پہنی ہوئی )چیزوں پر مسح کے جواز کے لئے
کئی شرطیں ہیں ،پہلی شرط ہے کہ وہ محل فرض کو ڈھانپ لے ،دوسری شرط یہ ہے کہ وہ قدم
اور پنڈلی پر بغیر پکڑنے اور باندھنے کے ٹکی رہے ،کیونکہ مسح کی رخصت اس موزے کے بارے
میں واردہوئی ہے جو ’’مروج ‘‘تھااور جو ٹک نہ سکیں ،وہ اس مروج موزے کے حکم میں نہیں
آتے ہیں ۔اس لئے اس جراب پر مسح جائز نہیں ہے جو گر جائے ،کیونکہ اس میں جواز کی شرط
نہیں پائی گئی ۔ (المبدع فی شرح المقنع ج:۱ص:۱۱۳،۱۲۱،۱۲۲)
(۹) شمس
الائمہ امام ابو بکر السرخسی ؒ(م ۴۸۳ھ)[ثقہ،امام] [32]فرماتے
ہیں کہ ’’ وَأَمَّا الْمَسْحُ عَلَى
الْجَوْرَبَيْنِ فَإِنْ كَانَاثَخِينَيْنِ مُنَعَّلَيْنِ يَجُوزُ الْمَسْحُ
عَلَيْهِمَا لِأَنَّ مُوَاظَبَةَ
الْمَشْيِ سَفَرًا بِهِمَا مُمْكِنٌ‘‘ اگر جرابیں ثخین
منعل ہوں تو ان پر مسح جائز ہے ،کیونکہ بغیر جوتی کے ان میں چلنا ممکن ہے ۔(المبسوط
للسرخسی ج:۱ص:۱۰۱،۱۰۲)
(۱۰) امام
موفق الدین ابن قدامہ حنبلیؒ (م ۶۲۰ھ)فرماتے
ہیں کہ’’ كَذَلِكَ
الْجَوْرَبُ الصَّفِيقُ الَّذِي لَا يَسْقُطُ إذَا مَشَى فِيهِ إنَّمَا يَجُوزُ
الْمَسْحُ عَلَى الْجَوْرَبِ بِالشَّرْطَيْنِ اللَّذَيْنِ ذَكَرْنَاهُمَا فِي
الْخُفِّ، أَحَدُهُمَا أَنْ يَكُونَ صَفِيقًا، لَا يَبْدُو مِنْهُ شَيْءٌ مِنْ
الْقَدَمِ. الثَّانِي أَنْ يُمْكِنَ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ فِيهِ…. وَلِأَنَّهُ سَاتِرٌ لِمَحَلِّ الْفَرْضِ، يَثْبُتُ فِي الْقَدَمِ‘‘ اسی طرح اس جراب پر
بھی مسح جائز ہے جو اتنی سخت او رموٹی ہو کہ چلنے سے نہ گرے ،اور جراب پر مسح کی دو
شرطیں ہیں ،جن کو ہم نے موزے کے بیان میں ذکر کر دیا ہے۔ایک یہ وہ جراب سخت اور موٹی
ہوکہ قدم کی جلد نظر نہ آئے ۔دوسرے یہ کہ اس میں(بغیر جوتی کے)لگاتار -چلنا ممکن ہو۔
نیز
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ (موٹی جراب پر مسح اسلئے بھی جائز ہے )کیونکہ (وہ)جرابیں
پاؤں کیلئے ساتر بھی ہیں ،اور پنڈلی اور پاؤں پر بغیر باندھے اور پکڑے چلنے کے وقت
ٹکی رہتی ہیں ۔(المغنی لابن قدامہ ج:۱ص: ۳۷۳،۳۷۴)
(۱۱) حافظ محمد بن عبداللہ الزرکشی ؒ(م۷۷۲ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ كذلك الجورب الصفيق، الذي لا يسقط إذا
مشى فيه لما كان الخف المعتاد من شأنه أن
يكون صفيقا، لا يسقط إذا مشى فيه، لم يصرح بذكر هذين الشرطين فيه، ولما كان الجورب
- وهو غشاء من صوف، يتخذ للدفء - يستعمل تارة وتارة كذا، صرح باشتراط ذلك فيه، وقد
تقدم بيان هذين الشرطين عن قرب‘‘ اسی طرح ان جرابوں پر مسح
جائز ہے ،جو سخت اور موٹی ہوں ،جب اس میں چلے تو وہ (بغیر باندھنے کے )نہ گریں،چونکہ
مروج اور معتاد موزے ثخین
بھی ہوتے ہیں اور چلنے سے گرتے بھی نہیں ،اسلئے ان میں ان دو شرطوں کی ضرورت نہ تھی
لیکن جراب جواون سے ُبنا جاتاہے پاؤں کی گرمائش کے لئے ،ان کو کبھی کبھی استعمال کیا
جاتا ہے موزوں کی طرح ،اس ان میں دونوں شرطوں کی صراحت کردی ہے ۔(شرح الزرکشی ج:۱ص:۳۹۷،۳۹۸)
(۱۲)امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابراہیم المقدسیؒ(م
۶۲۴ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ يشترط للجورب (أن يكون صفيقاً يستر
القدم) لأنه إذا كان خفيفاً يصف القدم لم يجز المسح عليه لأنه غير ساتر فلم يجز
المسح عليه كالخف المخرق ويشترط (أن يثبت في القدم) بنفسه من غير شد، فإن كان يسقط من القدم لسعته
أو ثقله لم يجز المسح عليه ‘‘ جراب
پر مسح کے جواز کیلئے شرط ہے کہ جراب سخت اور موٹی ہو ،جو قدم کو چھپالے ،کیونکہ جب
وہ باریک ہوں اور قدم کی جلد کو ظاہر کرے تو اس پر مسح جائز نہیں ،کیونکہ وہ قدم کیلئے
ساتر نہیں،تو یہ پھٹے ہوئے موزے کی طرح ہوگی، یہ بھی شرط ہے کہ وہ بغیر باندھنے کے
قدم پر ٹکی رہے ،اگر فراخ یا ثقیل ہونے کی وجہ سے قدم سے گر جائے تو اس پر مسح جائز
نہیں ۔(العدۃ شرح العمدۃ ص:۳۷)
(۱۳) الامام
المجتہد علی بن محمد الماوردی ؒ(م ۴۵۰ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ : قال
الشافعي رضي الله عنه: " وما لبس من خف خشب أو ما قام مقامه أجزأه أن يمسح
عليه ". قال الماوردي: وهذا صحيح. وجملته أن كل خف اجتمعت فيه ثلاث شرائط
متفق عليها، ....جاز المسح عليه، من جلود أو لبود أو حديد أو خشب أو جورب.أحد
الشرائط الثلاثة أن يكون ساترا لجميع القدم إلى الكعبين حتى لا يظهر شيء لا من
أعلى الخف وساقه، ولا من خرق في وسطه أو أسفله، فإن ظهر شيء من القدم من أي جهة
ظهر، لم يجز المسح عليه. والثاني: أن لا يصل بلل المسح إلى القدم، فإن وصل إما
لخفة نسج أو رقة حجم لم يجز المسح عليه. والشرط الثالث: أن يمكن متابعة المشي عليه
لقوته، فإن لم يمكن متابعة المشي لضعفه، أو ثقله لم يجز المسح عليه‘‘
امام شافعی ؒنے کہا: موزہ پہن لے یا جو موزے کے قائم مقام
ہے (جیسے جراب )وہ پہن لے ،تو اس پر مسح جائز ہے ۔(امام ماوردی ؒکہتے ہیں ) یہ صحیح ہے اور ا س
کا ضابطہ یہ ہے کہ ہر وہ موزہ جس میں تین اتفاقی شرطیں پائی جائیں ،اس پر مسح جائز
ہے خواہ موزہ یا اسکے قائم مقام والی چیز چمڑے کی ہو یا بالوں کی ہو ،لوہے کا ہو یا
لکڑی کا یا جراب ہو ۔ (اختصار کے
ساتھ )وہ شرائط یہ ہیں :
(۱) ٹخنے کے ساتھ پورا قدم چھپالے ۔
(۱۱) پاؤں تک پانی کو پہنچنے سے روکے ۔
(۱۱۱) اس میں لگاتار چلناممکن ہو
۔(الحاوی الکبیر ج:۱ص:۳۶۵)
(۱۴) امام
شمس الدین ابن قدامہ ؒ(م۶۸۲ھ)
جراب پر مسح جائزہونے کی وجہ ذکر کرتے ہوئے
فرماتے ہیں : ’’ الجورب في معنى الخف لأنه ملبوس ساتر لمحل الفرض يمكن متابعة
المشي فيه أشبه الخف ‘‘ جراب موزے کے حکم میں ہوتا
ہے ،کیونکہ وہ محل فرض کو چھپاتاہے ،(یعنی وہ قدم کی ساخت کو چھپاتا ہے )اور اس میں بغیر جوتی کے چلنا بھی ممکن ہے ۔(الشرح الکبیر
علی متن المقنع ج:۱ص:۱۴۹)
(۱۵) امام
ابو اسحق الشیرازی ؒ(م۴۷۶ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ إن لبس
جورباً جاز عليه المسح عليه بشرطين: أحدهما أن يكون صفيفاً لا يشف والثاني أن يكون
منعلاً فإن اختل أحد هذين الشرطين لم يجز المسح عليه وإن لبس خفاً لا يمكن متابعة
المشي عليه إما لرقته أو لثقله لم يجز المسح عليه ‘‘
اگر جراب پہن لی تواس پر دو شرطوں کے ساتھ مسح جائز ہے ،ایک یہ کہ وہ جراب اتنی سخت
اور موٹی ہے کہ پانی کو جذب نہ کرے ،دوسری کہ وہ منعل ہو ۔اگر ان میں سے کوئی شرط نہ
پائی جائے تو ان پر مسح جائز نہیں ۔ (المہذب للشیرازی ص:۴۶،۴۷)
(۱۶) امام
ابو حامد الغزالی ؒ (م ۵۰۵ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ان کا ن لایداوم المشی علیہ فلا یجوز
المسح علی الجورب ‘‘ اگر
کسی جراب میں لگاتار چلنا ممکن نہ ہو تو (ایسی )جراب پر مسح کرنا جائز نہ ہوگا ۔(الوسیط
للغزالی ج:۱ص:۳۹۹)
(۱۷) حافظ
المغرب امام ابن عبد البرؒ (م ۴۶۳ھ)کہتے
ہیں کہ ’’فان
کان الجوربان مجلدین کالخفین مسح علیہما وقد روی عن مالک :منع المسح علی الجوربین
وان کا نا مجلدین ،والاول اصح ‘‘ اگر
دونوں جراب چمڑے کی ہو ،خفین کی طرح (اگر اس میں مسح کی شرطیں پائی جا تی ہوں )تو
(امام مالک ؒ کے نزدیک )ان پر مسح جائز ہے ،اور امام مالک ؒسے (ایک اور قول )مروی ہے
کہ انہوں نے جراب پر مسح سے منع کیا ،اگرچہ وہ چمڑے کی ہو ،اور (یہاں پر حافظ المغرب
ؒ کہتے ہیں کہ) پہلا قول زیادہ صحیح ہے ۔(الکافی فی فقہ اہل المدینۃ ج:۱ص:۱۷۸،واللفظ لہ ،المدونہ ج:۱ص:۱۴۳)
(۱۸) امام
نووی ؒ (م۶۷۶ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ الصَّحِيحَ مِنْ مَذْهَبِنَا أَنَّ
الْجَوْرَبَ إنْ كَانَ صَفِيقًا يُمْكِنُ مُتَابَعَةُ الْمَشْيِ عَلَيْهِ جَازَ
الْمَسْحُ عَلَيْهِ وَإِلَّا فَلَا ‘‘ ہمارا صحیح مذہب یہ
ہے کہ جراب اگر سخت ہو اور اس میں (بغیر جوتی کے ) لگاتار چلنا ممکن ہو ،تو اس پر مسح
جائز ہے ،ورنہ جائز نہیں ۔(المجموع للنووی ج:۱ص:۴۹۹)
(۱۹) امام
رافعی ؒ (م ۶۲۳ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’
الثاني ان يكون قويا والمراد منه كونه بحيث يمكن متابعة المشى عليه.... فلا يجوز
المسح على اللفائف والجوارب المتخذة من الصوف واللبد لانه لا يمكن المشى عليها....
ولانها لا تمنع نفوذ الماء إلى الرجل ‘‘ دوسری شرط یہ ہے کہ
جراب مضبوط ہو ،تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔۔۔۔۔لہذا اون
(woolen)اور بالوں کی جرابوں پر مسح جائز نہیں،کیونکہ
اس میں لگا تار چلنا ممکن نہیں اور یہ پانی کو پاؤں تک پہنچنے سے بھی نہیں روکتی
۔(الشرح الکبیر للرافعی ج:۲ص:۳۷۳)
(۲۰) امام
بغوی ؒ (م ۵۱۶ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ لا يجوز المسح على جورب الصوف،
واللبد، إلا أن يركب طاقةً فوق طاقةٍ؛ حتى يتصفق وينعل قدمه؛ بحيث يمكن متابعة
المشي عليه ‘‘ اون اور بال کے موزے پر مسح جائز نہیں ،مگر
یہ کہ وہ مرکب ہو تہ بہ تہ ہو ، یہاں تک کہ اس کے قدم کو ڈھانپ لے ،اس طور پر کہ اس
کو پہن کرمسلسل چلنا ممکن ہو ۔(التہذیب للبغوی ج:۱ص:۴۳۲)
(۲۱) امام
عبداللہ بن محمود الموصلی ؒ(م۶۸۳ھ)[ثقہ،علامہ،مفتی] [33]
فرماتے ہیں کہ ’’
يَجُوزُ عَلَى الْجَوْرَبَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ أَوْ مُجَلَّدَيْنِ أَوْ
مُنَعَّلَيْنِ ‘‘ جرابوں پر مسح تب جائز ہے ،جب ثخین
یا مجلد (وہ جراب جس کے اوپر نیچے چمڑاہو )یا منعل ہو۔ (الاختیار لتعلیل المختار
ج:۱ص:۱۲۴)
(۲۲) فخرالاسلام
،فقیہ العصر ،امام ابو بکر الشاشی ؒ(م۵۰۷ھ)کہتے
ہیں کہ ’’ان لبس جورباً صفیقاً لایشف ومنعلاً
یمکن متابعۃ المشی علیہ جاز المسح علیہ ‘‘ اگر ایسی جرابیں پہن لی جو
سخت ہونے کی وجہ سے پانی جذب نہ کرے اور ایسی منعل ہو کہ کہ ان میں لگاتار چلنا ممکن
ہو ،تو اس پر مسح جائز ہے ۔(حلیۃ العلماء ج:۱ص:۱۳۴)
(۲۳) فقیہ
ابو الحسین یحییٰ العمرانی ؒ (م ۵۵۸ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ قال أصحابنا: والجوارب على ضربين:فـالأول : منه
ما يمكن متابعة المشي عليه، بأن يكون ساترًا لمحل الفرض صفيقًا، ويكون له نعل،
فيجوز المسح عليه. و الثاني : إن كان الجورب لا يمكن متابعة المشي عليه، مثل: أن
لا يكون منعل الأسفل، أو كان منعلا، لكنه من خرق رقيقة، بحيث إذا مشى فيه تخرق، لم
يجز المسح عليه ‘‘ (جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) ہمارے اصحاب نے کہا کہ جرابیں
دو قسم کی ہیں :
(۱) وہ جس کو پہن کر لگاتار چلنا ممکن ہو اور
وہ پاؤں کے محل فرض کو چھپاتی ہو ،اس پر مسح جائز ہے ۔
(۲) دوسری وہ قسم ہے کہ جس کو پہن کر لگاتار
نہیں چلا جاسکتا ،اگر اس میں چلا جائے تو وہ پھٹ جائے گی ۔تو ایسی جرابوں پر مسح جائز
نہیں ہے ۔اور آگے کہتے ہیں کہ ’’ ہذا مذہبنا وبہ قال
مالک وأبوحنیفۃ ‘‘ یہ
ہما را مذہب ہے ،اور یہی بات امام مالک ؒ اور امام ابو حنیفہؒ نے بھی کہی ہے ۔(البیان
للعمرانی ج:۱:۱۵۶،۱۵۷)
(۲۴) امام
مجد الدین ابو البرکات عبدالسلام بن تیمیہ ؒ (م ۶۵۲ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ یمسح علی ما یستر محل الفرض ویثبت
بنفسہ من جورب ،وجرموق ونحو ہ فان کان واسعاً یسقط من قدمہ أویبدو منہ شیٔ لخرق
أوغیرہ لم یجز المسح علیہ ‘‘ مسح کرے جراب وغیرہ پرجب وہ
پاؤں کے محل فرض کو چھپاتی ہو،اور خود سے کھڑی ہوتی ہو ،پھر اگر جراب اتنی چوڑی ہو
کہ پاؤں سے گر جاتی ہو ،یا اس سے (پاؤں کا)کوئی حصہ نظر آتا ہو پھٹن یا کسی اور
وجہ سے ،تو ایسی جراب پر مسح جائز نہیں۔ (المحررلمجد
الدین ابن تیمیہ ج:۱ص:۱۲)
(۲۵) الامام
الفقیہ ابولحسن علی بن سلیمان المرداوی (م ۸۸۵ھ) فرماتے
ہیں کہ ’’ ومفہوم قولہ [وثبت بنفسہ ]أنہ اذاکان لا
یثبت الا بشدہ لا یجوز المسح علیہ ،وہو المذہب من حیث الجملۃ ،ونص علیہ ،وعلیہ
الجمہور‘‘ ثبت
بنفسہ یعنی وہ خود سے ٹکی رہے ۔اسکا مطلب یہ ہے کہ جب جراب باندھے بغیر نہ ٹکے تو اس
مسح جائز نہیں ،اور یہی اصل مذہب ہے ،اور اسی کی تصریح کی گئی ہے ،اور جمہور کا یہی
مذہب ہے ۔(الانصاف ج:۱ص:
۱۷۹)
(۲۶) امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ یمسح اذاثبت علی قدمیہ‘‘
جرابون پر مسح تب کرے گا جب وہ اسکے قدموں پر ٹکی رہیں ۔(مسائل حرب الکرمانی ص:۳۶۴،رقم :۴۸۵)
(۲۷) امام
الحرمین ؒ (م ۴۷۸ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’فمذہبنا ان من لبس جورباً ضعیفاً
لایعتاد المشی فیہ وحدہ ،فلا سبیل الی المسح علیہ ‘‘ ہمارا مذہب یہ ہے کہ جس نے
ایسا کمزور پتلا جراب پہنا جس میں عادۃ ً تنہا پہن کر چلا نہیں جا سکتا ،تو ایسی جرابوں
پر مسح کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔(نہایۃ المطلب ج:۱ص:۲۹۴)
(۲۸) الامام
الحافظ الفقیہ ابو ثور ؒ (م ۲۴۰ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’یمسح علیہما اذاکانا یمشی فیہما ‘‘ جرابوں پر مسح اس وقت کیا
جائے گا جب ان میں چلا جا سکتا ہو ۔(الاوسط لابن المنذر: ج:۱ص:۴۶۳)
(۲۹) امام
ابو المحاسن عبدالواحد الرویانی ؒ(م ۵۰۲ھ)بھی
یہی کہتے ہیں (اختصاراً عرض ہے )کہ جراب پر مسح کے لئے تین شرطیں ہیں :
(۱) مکمل پیر کو ٹخنوں کے اوپر تک چھپائے
۔
(۲) ایسا موٹا ہو کہ پانی کو جذب نہ کرے ۔
(۳) اس میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔(بحر المذہب
للرویانی ج:۱ص:۲۹۰)[34]
الغرض
سلف صالحین ،فقہاء اور محدثین کے ارشادات سے معلو م ہو اکہ اگر کسی جراب میں یہ شرطیں
موجود ہوں کہ :
(۱)
اس جراب میں لگاتار چلنا ممکن ہو ۔(مثلاً تین میل ،یعنی وہ جراب ایسی مضبوط ہو کہ اس
میں تین میل تک لگاتار چلنا ممکن ہو اور اس
میں پھٹن یا شگاف نہ ہو )۔
(ب) اتنی موٹی اور سخت ہو کہ بغیرباندھے اور
بغیر سہارے کے پاؤں پر ٹکی رہے ۔
(ج) پانی کو جذب نہ کرے ۔
(د) اتنی
موٹی ہوکہ اس سے نظر نہ گزرے ۔(یعنی پاؤں کی جلد نظر نہ آے)، تب ان پر مسح کرنا جائز ہوگا
ورنہ نہیں ۔
نوٹ
:
بازار
میں آج کل جو جراب اون (woollen)اور مختلف کپڑے کی موجود ہے ان پر مسح قطعاً جائز نہیں کیونکہ اوپر
ذکر کی گئی شرطیں اس قسم کی جراب میں نہیں پائی جاتیں ۔لہذا ایسی جراب پر مسح کرنا
جائز نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
-
امام نووی ؒ(م ۶۷۶ھ)
-
امام ابو محمد عبدالرحمن بن ابراہیم المقدسی ؒ( م ۶۲۴ھ)
-
امام موفق الدین ابن قدامہ ؒ(م ۶۲۰ھ)
-
امام ابو بکر السرخسی ؒ(م ۴۸۳ھ)
-
امام ماوردی ؒ (م ۴۵۰ھ)
-
امام ابن نجیم ؒ( م ۹۷۰ھ)
[ثقہ،فقیہ][35]
-
امام برہان الدین محمود بن احمد البخاری ؒ (م ۶۱۶ھ)
[صدوق][36]
-
امام ابو بکر محمد بن احمد علاء الدین سمرقندی ؒ (م ۵۴۰ھ)[شیخ،صدوق][37]
اور ان علاوہ بھی کئی فقہاء ومحدثین نے باریک
جراب پر مسح کو ناجائز قرار دیا ہے۔ (المجموع :ج: ۱ص: ۴۹۹،العدہ شرح عمدہ ج:۱ص: ۴۰،المغنی ج: ۱ص: ۳۷۴،المبسوط ج: ۱ص: ۱۰۲،الحاوی الکبیر ج: ۱ص: ۳۵۶،البحر الرائق ج: ۱ص: ۱۹۲،المحیط البرہانی ج:۱ص: ۱۶۹،۱۷۰،تحفۃ الفقہاء ج:۱ص: ۸۶)
لہذا بازار میں موجود اون اور کپڑے کی
قسم کے باریک جرابوں پر مسح ناجائز ہے اور ایسے جراب پر مسح کرنے سے بچنا ضروری ہے
،ورنہ وضو ہی نہ ہوگا ۔
زخم
،پٹی وغیرہ پر مسح :
اگر کسی کو زخم، پھوڑا یاایسی بیماری
ہو جس پر پانی ڈالنے سے نقصان ہوتا ہو ،تو وضو کرتے وقت پھوڑے یا زخم کی جگہ پر صرف
مسح کرلے ،باقی حصے کو پانی سے دھو لے ۔
اسی طرح پٹی وغیر ہ باندھی ہوئی ہو اور
کھولنے سے نقصان ہوتا ہو ،تو اس کے اوپر سے مسح کرلے ، ورنہ اگر کھولنے سے نقصان نہ
ہو تا ہو ،تو اس پٹی کو کھول کر مسح کرے ۔[38]
نواقض وضو (یعنی
وہ باتیں جن سے وضو ٹوٹ جا تا ہے)
جن
چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ چیزیں یہ ہیں :
(۱) پیشاب
یا پائخانہ کرنا یادونوں راستوں سے کسی اور چیز کا نکلنا ۔[39]
(۲) ہوا
کا نکلنا ۔[40]
(۳) بدن
کے کسی مقام سے خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا ۔[41]
(۴) منھ
بھر کر قے کرنا ۔[42]
(۵) لیٹ
کر یا سہارا لیکر سوجانا ۔[43] (ایسا
سہارا کہ اگر وہ ہٹا دیا جائے تو گر جائے )
(۶) بیماری
یاکسی وجہ سے بیہوش ہوجانا ۔[44]
(۷) مجنون
یعنی دیوانہ ہوجانا ۔[45]
(۸) نماز
میں قہقہہ لگا کر ہنسنا ۔ (یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ پاس والے آدمی سن لیں )[46]
تیمم
کا بیان :
وضو یا غسل کے لئے پانی نہ ملے ،یا پانی
کے استعمال سے بیمار ہوجانے یا مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ،تو ایسی حالت میں تیمم کرنا
جائز ہے اور تیمم پاک مٹی ،پہاڑ ،ریت اور چونے ،گچ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ (سورہ نساء
:۴۳،صحیح
بخاری :حدیث نمبر:۳۳۷)[47]
(مزید وضاحت کی ضرورت ہے)
تیمم
کا طریقہ :
تیمم میں نیت فرض ہے،[48] یعنی
تیمم کرنے سے پہلے نیت کرلے کہ میں ناپاکی دور کرنے کے لئے یا نماز پڑھنے کے لئےتیمم
کرتا ہوں ۔
تیمم میں دو ضربیں ہیں (یعنی دو بار
مٹی یا دیوار پر ہاتھ مارنا ہے )۔
پہلی
بار ہاتھ مٹی پر مارکر پورے چہرے پر ملے یعنی جتنا حصہ منھ کا دھویا جاتا ہے اتنے حصے
پر ہاتھ سے ملے ۔پھر دوسری بار ہاتھ مارکر ہاتھوں کو کہنیوں تک ملے اور انگلیوں کا
خلا ل بھی کرے ۔[49]
اس سے جتنی پاکی وضو یا غسل سے حاصل ہوتی ہے اتنی ہوجائے گی ۔(سورہ نساء :۴۳)
جس
وجہ سے تیمم کیا ،اگر وہ دور ہوجائے تو تیمم ٹوٹ جائے گا ،مثلاً پانی نہ ہونے کی صورت
میں تیمم کیا تھا :لیکن کچھ وقت کے بعد پانی
مل جائے ،تو تیمم ختم ہوجائے گا اور اب پانی سے وضو کرنا ہوگا ۔[50] اس کے علا وہ جن چیزوں سے
وضو ٹوٹ جاتا ہے انہیں چیزوں سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
[1] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :ان
امتی یدعون یوم القیٰمۃ غرا محجلین من
آثار الوضوء فمن استطاع منکم ان یطیل غرتہ فلیفعل ۔
[2] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :من
توضأ فأحسن الوضوء خرجت خطایاہ من جسدہ حتی تخرج من تحت اظفارہ ۔
[3] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :
لا یسبغ عبد الوضوء الا غفر اللہ لہ ما تقدم من ذنبہ وماتأخر۔ امام ہیثمی
ؒ فرماتے ہیں کہ اس روایت کے رجا ل ثقہ اور حدیث حسن ہے اور امام منذری ؒ نے بھی حدیث
کو حسن قرار دیا ہے ۔ (مجمع الزوائد ج:۱ص:
۲۳۷،الترغیب والترہیب ج:۱ص: ۹۳)
[4] روایت
کے الفاظ یہ ہیں : مفتاح
الصلاۃ الطہور ۔ اس حدیث کو امام ترمذی ؒ نے صحیح قرار
دیا ہے ،امام بغوی ؒ اور امام نووی ؒؒ نے حسن کہاہے ،امام رافعی ؒ کہتے ہیں کہ یہ روایت
ثابت ہے ،امام حاکم ؒ ،امام بیہقی ؒ،اور امام ابونعیم اصفہانی ؒ نے اس حدیث کو مشہور
قراردیا ہے۔(شرح سنن للبغوی
ج:۳ص:
۱۷،خلاصۃ
الاحکام للنووی ج:۱ص:
۳۴۸،المستدرک
للحاکم ج: ۱ص:
۲۲۳،خلافیات
للبیہقی بحوالہ البدر المنیر لابن الملقن ج:۳ ص
: ۴۴۸)
[5] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :لا
تقبل صلاۃ بغیر طہور ۔
[6] امام قدوریؒ کو
امام خطیب البغدادی ؒ،امام سمعانی ؒ اور امام قاسم بن قطلوبغا ؒ وغیرہ نے صدوق کہا
ہے ۔ (تاریخ بغداد ج:۵ ص: ۱۴۰،۱۴۱، الانساب للسمعانی ؒج:۱۰ص:
۳۵۲،تاج التراجم ص:۹۸)اور بہت سارے محدثین وعلماء نے ان کی توثیق
کی ہے مثلاً:قال
الامام أبوعبد اللہ الصیمری :أبوالحسین البغدادی المعروف بالقدوری امام اصحاب
ابی حنیفۃ فی عصرنا یعظمہ ویفضلہ علی کل احد قال الذہبی :(ہو) الفقیہ الامام شیخ
الحنفیۃ ،وقال الامام ابن الکثیر :کان اماما بارعا عالما ،وثبتا مناظرا، وقال
الامام ابن تغری بردی :(ہو )الامام العلامۃ احمد بن محمد ابو الحسین الحنفی الفقیہ
البغدادی المشہور بالقدوری ، قال ابوبکر الخطیب : لم یحدث الا شیئا یسیرا،کتبت عنہ
وکان صدوقا ،انتہت الیہ ریاسۃ اصحاب ابی حنیفۃ، وعظم [عندہم] قدرہ وارتفع جاہہ ، وکان
حسن العبارۃ فی النظر ،جریء اللسان مدیما للتلاوۃ قلت:والفضل ماشہدت بہ الاعدا ء،ولولا
ان شان ہذا الرجل کا ن قد تجاوز الحد فی العلم والزہد ماسلم من لسان الخطیب ،بل
مدحہ مع عظم تعصبہ علی السادۃ الحنفیۃ وغیرہم ،فان عادتہ ثلم اعراض العلماء
والزہاد بالاقوال الواہیۃ ،والروایات المنقطعۃ حتی اشحن تاریخہ من ہذہ القبائح، وذکرہ
الامام زین الدین قاسم بن قطلوبغا فی الثقات ۔(طبقات الفقہاء ص:۱۲۴،سیر اعلام النبلاء ج:۱۷ص: ۵۷۴،تاریخ
الاسلام ج:۹ص:۴۳۴،البدایہ
والنہایہ ج:۱۲ص:۲۴،النجوم الزاہرہ ج:۵ص:۲۴
، کتاب الثقات ج:۱ص: ۴۶۹)
[7] امام ذہبی ؒ نے
آپ کو ’’الشیخ
الامام الزاہد مفتی العراق شیخ الحنفیۃ‘‘ قرار دیتے ہیں۔(سیرا
علام النبلاء ج:۱۵ص:۴۲۶) ایک اور مقام پر لکھتے ہیں ’’کان
من العلماء العباد ذاتہجد واوراد وتألہ ،وصبر علی الفقر والحاجۃ وزہد تام ووقع فی
النفوس ،کان علامۃ کبیر الشان ادیبا بارعا وکان عظیم العبادۃ والصلاۃ والصوم صبورا
علی الفقر والحاجۃ ‘‘۔(سیر اعلام النبلاء ج:۱۵ص:۴۲۶،
تاریخ الاسلام ج:۷ص:۷۴۲)امام ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ :ابوالحسن
الفقیہ الحنفی المشہور کا ن دینا خیرا فاضلا ۔(لسان المیزان
ج:۵ص: ۳۲۱،)ان کے
علاوہ دیگر محدثین نے ان کی توثیق کی ہے ،مثلاً:قال ابو الحسن
الہمذانی :(ہو)امام اصحاب ابی حنیفۃ وذکرہ الامام ابو اسحق الشیرازی فی طبقات
الفقہاء وقال انتہت علیہ ریاسۃ العلم فی اصحاب ابی حنیفۃ وکان ورعا ، وقال ابن تغری بردی :کان علامۃ کبیر الشان
فقیہا ادیبا بارعا عارفا بالاصول والفروع انتہت الیہ ریاسۃ السادۃ الحنفیۃ فی
زمانہ وانتشرت تلامذتہ فی البلاد ،وکان عظیم العبادۃ کثیر الصلاۃ والصوم صبورا علی
الفقر والحاجۃورعا زاہدا صاحب جلالۃ ۔ (تکملۃ تاریخ
الطبری ص:۱۶۵،طبقات الفقہاء ص:۱۴۲،النجوم الزاہرۃ ج:۳ ص : ۳۰۶)
[8] اس
مسئلے کی مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۱‘‘پر موجود ہے۔
[9] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :انما
الاعمال بالنیات ۔ واضح
رہے کہ یہاں اس حدیث میں یہ جو فرمایا گیا
کہ’’ سارے اعمال نیت سے ہیں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے اعمال کے ثواب کا
دارومدار نیت پر ہے ،غیر مقلدین میں ایک طبقہ ایسا ہے جو اپنے ہی فرقے کے علماء سے
اختلاف کرتے ہوئے اس حدیث سے استدلال کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وضو میں نیت فرض ہے
،حالانکہ ان کا یہ استدلال ہی صحیح نہیں ہے جس کی تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر
۳:ص۵‘‘پر موجود ہے ،لہذا صحیح اور راجح یہی ہے کہ وضو میں نیت سنت ہے ،نہ کہ
فرض ۔
[10] حضرت انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:’’توضؤا
بسم اللہ ‘‘تم
سب بسم اللہ سے وضو کرو ، اس مسئلے میں بھی موجودہ غیر مقلدین نے اپنے ہی علماء سے
اختلاف کیا اور ظاہریہ کی تقلید میں وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے کو فرض قرار
دیا ہے ، اس مسئلے کی تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۲۴‘‘ پر موجود ہے۔(سنن
صغیر للبیہقی حدیث نمبر : ۸۹ ،صحیح ابن
خزیمہ حدیث نمبر :۱۴۴،امام بیہقی
ؒ اور امام ابن خزیمہ ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے )
[11] حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اذا توضأ تم
فابدؤو ا بمیامنکم ‘‘ جب تم وضو کرو تو سیدھی جانب سے ابتداء کرو
۔(سنن ابن ماجہ حدیث نمبر: ۴۰۲،اس حدیث
کو امام ابن الملقن ؒ نے صحیح اور امام نووی ؒ نے اس کی سند کو مضبوط قرار دیاہے،
البدرالمنیر ج: ۲ص: ۲۰۰،المجموع للنووی ج:۱ص: ۳۸۲)
[12] حضرت حمران مولی
عثمان ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ’’افرغ
علی کفیہ ثلاث مرار ، فغسلہما ‘‘(پانی کا برتن لیکر سب سے پہلے )اپنی
ہتھیلیوں پرتین مرتبہ پانی ڈالا ،پھر انہیں
دھویا اور اس روایت کے آخیر میں آپ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے ایسے ہی وضو
کرنے کا حکم دیا ہے۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۱۵۹)
[13] حضور ﷺ نے فرمایا:’’اسبغ
الوضو ء وخلل بین الاصابع ‘‘وضو کو کامل کرو اور انگلیوں کا خلال کرو ۔(سنن
ابی داؤد ح: ۱۴۲، امام حاکم ؒ
اور امام ذہبی ؒ نے صحیح قرار دیا ہے،المستدرک للحاکم مع تلخیص للذہبی حدیث نمبر:
۷۰۹۴)
[14] حضرت شقیق بن سلمہ
ؒ فرماتے ہیں کہ’’رأیت علیا وعثمان توضأ ثلاثا ثلاثا ثم قال ہکذا
توضأ النبی ﷺ وذکر انہما افردا المضمضۃ
والاستنشاق‘‘کہ
حضرت سلمہ رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اعضاء وضو کو تین تین بار
دھویا اور انہوں نے کلی علیحدہ کی تھی اور ناک میں علیحدہ پانی ڈالا تھا اور
فرمایا کہ نبی ﷺ نے ایسا ہی وضو کیا تھا ۔(تاریخ ابن ابی خیثمہ حدیث نمبر: ۴۴۱۹)
زبیر علی زئی صاحب
اس کی سند کو حسن لذاتہ کہتے ہیں ۔(فتاوی علمیہ ج:۱ص:۲۱۴)
[15] حضرت عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’ان النبی ﷺ کا ن یخلل لحیتہ‘‘ حضور
ﷺ ڈاڑھی کا خلال فرماتے تھے۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر:۳۱،اس حدیث کو امام
ترمذی ؒ نے حسن صحیح اور امام ابن الملقن ؒ نے حسن قرار دیا ہے۔(البدر المنیر
ج: ۲ص: ۱۸۱)
[16] حضرت ابو حیان ؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت علی ؓ کو دیکھا کہ’’غسل ذراعیہ ثلاثا ومسح برأسہ
مرۃ ‘‘آپ
ؓ نے دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک تین بار دھویا اور ایک بار سر کا مسح کیا اور
فرمایا (جسکا خلاصہ یہ ہے کہ )حضور ﷺ اسی
طرح وضو فرماتے تھے ۔(سنن ترمذی ح: ۴۸، امام ترمذی ؒ نے حسن صحیح اور امام ذہبی ؒ نے
صحیح کہاہے۔(تنقیح التحقیق ج:۱ص: ۴۹)
[17] (سنن ترمذی
،حوالہ سابق)
[18] روایت کے ا لفاظ
یہ ہیں : ثم مسح رأسہ
بیدیہ ،فاقبل بہما وادبر ،بدأ بمقدم رأسہ حتی ذہب بہما الی قفاہ ،ثم رد ہما الی
المکان الذی بدأ منہ ۔ (صحیح بخاری
حدیث نمبر: ۱۸۵)
[19] روایت
کے الفاظ یہ ہیں : رأیت
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ توضأ فمسح برأسہ واذنیہ ظاہرہما وباطنہما ثم قال
:رأیت رسول اللہ ﷺ صنع کما صنعت ۔(سنن دارمی حدیث نمبر
: ۳۹۳) امام ابن خزیمہ ؒ،امام ابن
الجارود ؒ اور امام حاکم ؒ وغیرہ نے اس کی سند کو صحیح اور امام ابن الملقن ؒ نے مضبوط
کہا ہے،صحیح ابن خزیمہ حدیث نمبر:۱۵۱،۱۵۲،المنتقی لابن الجارود
حدیث نمبر: ۷۲،المستدرک
للحاکم ج:۱ص:۲۴۹،حدیث نمبر: ۵۲۷،البدرالمنیر ج:۲ص: ۱۷۴)
[20] حضور ﷺ نے فرمایا
کہ ’’سننت
انا فیہ الاستنجاء والمضمضۃ والاستنشاق وغسل الاذنین وتخلیل اللحیۃ ومسح القفا‘‘ میں
نے وضو میں گدی کے مسح کومسنون قرار دیا ۔(الکامل لابن عدی ج:۱ص: ۳۶۵،واسنادہ
حسن )حضرت
کعب بن عمر و رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ ’’مسح مقدم رأسہ
حتی بلغ القذال ،مؤخر الرأس من مقدم عنقہ ‘‘ آپ ﷺ نے
اپنے سر کے اگلے حصے کا مسح کیا ،یہاں تک کہ (آپ
ﷺ مسح کرتے کرتے ) سر کے آخری حصے تک پہنچ گئے ۔(شرح معانی الآثار
حدیث نمبر: ۱۲۹،المعجم
الکبیر للطبرانی ج:۱۹ص:۱۸۰،۱۸۱،و سنادہ حسن بالشواہد)اور
جب کوئی مجتہد کسی حدیث سے استدلال کریں تو غیر مقلدین کا کہناہے کہ وہ حدیث اس
مجتہد کے نزدیک صحیح ہوتی ہے،اس لحاظ سے امام یزید بن ہارون ؒ،امام عبدالسلام بن
تیمیہ ؒ ،اور امام عینی ؒ کے نزدیک یہ حدیث صحیح ہے کیونکہ ان حضرات نے اس حدیث سے
استدلال کیا ہے۔ ( فتاوی نذیریہ ج :۳ص
:۳۱۶،طبقات لابن سعد ج:۶ص:۵۹،المنتقی
ص:۷۶،العنایہ شرح ہدایہ ج:۱ص:۲۲۰)،حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
ﷺ نے فرمایا ’’من
توضأ ومسح یدیہ علی عنقہ وقی الغل یوم القیمۃ ‘‘جس نے وضو کیا اور
دونوں ہاتھوں سے اپنی گردن پر مسح کیا تو وہ قیامت کے دن طوق (پہنائے جانے )سے بچا
لیا جائیگا ۔ (بحر المذہب للرویانی ج:۱ص:۱۰۱)امام رویانی ؒ اور امام رافعی ؒ نے
اس روایت کو صحیح قرار دیاہے ،(الشرح الصغیر للامام الرافعی
بحوالہ
بھجۃ المحافل للامام یحی بن ابی بکر ج:۲ص:۲۹۸) نیز زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ اس
روایت کو امام ابن فارس ؒ نے بھی صحیح قرار دیاہے ۔(ہدیۃ المسلمین ص:۱۶،تاریخ ابو نعیم ج:۲ص:۷۸) مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۷۹‘‘پر
موجود ہے۔
[21] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :
عن حمران رأیت عثمان رضی اللہ عنہ توضأ ثم غسل رجلہ الیمنی ثلاثا ثم الیسری
ثلاثا ثم قال رأیت رسول اللہ ﷺ توضأ نحو وضو ئی ہذا ۔(صحیح
البخاری حدیث نمبر:۱۹۳۴)
[22] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :عن
شقیق بن سلمۃ قال رأیت عثمان بن عفان غسل قدمیہ وخلل أصابع قدمیہ ثلاثا ،وقال
:رأیت رسول اللہ ﷺ فعل کما فعلت ۔(سنن دار قطنی حدیث نمبر: ۲۸۷،وسندہ حسن،امام ابن
الملقن ؒ نے اس کی سند کو مضبوط کہا ہے۔ (البدر المنیر ج:۲ص:۲۲۹)
[23] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :عن
خالتی میمونۃ قالت :ضرب رسول اللہ ﷺ بشمالہ الارض ،فدلکہا دلکاً شدیدا ۔ (صحیح مسلم
ص:۷۳۰،حدیث نمبر: ۷۲۲،دوسرا
نسخہ ج:۱ص:۲۵۴)
[24] حضور ﷺ فرماتے ہیں کہ جس نے وضو کیا پھر کہا کہ’’
اشہد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ واشہد ان محمد ا عبدہ ورسولہ ، اللہم
اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطہرین‘‘ تو اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دئیے جائیں
گے ،وہ جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے ۔(سنن صغیر للبیہقی ج:۱ص:۵۱،حدیث
نمبر: ۱۰۹،امام ابن عساکر ؒ
اور امام مستغفری ؒ نے بیہقی والی اس روایت
کو حسن قرار دیا ہے۔(معجم الشیوخ لابن عساکر حدیث نمبر :۱۳۵۰،البدر المنیر ج: ۲ ص :۲۸۸،مزید
دیکھئے ترمذی حدیث نمبر :۵۵
واللفظ لہ ، المعجم الاوسط ج:۵ص:۱۴۰،عمل الیوم واللیل لابن السنی ج:۱ ص:۳۵،الدعاء
للذہبی ج:۱ص : ۲۳۲ ،الدعاء للطبرانی ج:۱ص:۱۴۱،مصنف
عبدالرزاق ج:۱ص: ۱۸۶ ،مصنف ابن ابی شیبہ ج:۱ص:۱۳
)
[25] حضرت عبداللہ بن
المغفل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’انہ سیکون فی
ہذہ الامۃ قوم یعتدون فی الطہور والدعاء‘‘ میری امت میں کچھ
لوگ ایسے ہوں گے جو طہارت اور دعا مانگنے میں حد سے زیادہ مبالغہ کریں گے ۔(سنن
کبریٰ للبیہقی ج:۱ ص: ۳۰۳،حدیث نمبر :۴۷ ۹،امام حاکم ؒ ،امام ابن حجرؒ نے اس صحیح قرار
دیا ہے،المستدرک للحاکم ج:۱ ص :۲۶۷ ،تلخیص الحبیر ج:۱ص:۲۵۴،البدر
المنیر ج:۲ص:۵۹۹)
[26] سنن نسائی حدیث
نمبر: ۱۴ میں ہے رسول اللہ ﷺ نے تین تین بار اعضاء وضو کو دھوکر فرمایا کہ
’’ہکذا الوضو ء فمن زاد علی ہذا فقد أساء وتعدی وظلم‘‘وضو اسی طرح ہے جس
نے اس سے زیادہ کیا ،اس نے برا کیا ،حد سے آگے بڑھا اور ظلم کا ارتکاب کیا ۔امام
ابن دقیق العید اور امام ابن عبدا لہادی ؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے ۔(نصب
الرایۃ ج:۱ص:۲۹،المحرر
فی الحدیث ج:۱ص: ۱۰۱)
[27] حضرت مغیرہ بن
شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جھکا رسول اللہ ﷺ کا
موزہ اتار نے کے لئے ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’دعہما فانی
ادخلتہما طاہرتین ومسح علیہما ‘‘ رہنے دو !میں نے ان کو طہارت میں پہنا ہے
اوران پر مسح کیاہے۔ (صحیح مسلم ص:۷۲۵،حدیث
نمبر :۶۳۲،دوسرا نسخہ ج:۱ص:۲۳۰) نیز سنن
ابی داؤد حدیث :۱۶۲پر ہے کہ آپ ﷺ ’’یمسح علی ظاہر خفیہ‘‘ موزوں کے ظاہری حصے یعنی اوپر مسح فرماتے تھے
،امام عبدالغنی مقدسی ؒ امام ابن حجر عسقلانی ؒ نے اس روایت کو صحیح قرار دیاہے۔(التحقیق
والتنقیح لابن عبدالہادی ج:۱ص:۳۳۸،تلخیص الحبیر ج:۱ص:۲۸۲)
[28] حضرت علی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں ’’جعل رسول اللہ
ﷺ ثلاثۃ ایام ولیالیہن للمسافر
ویوما ولیلۃ للمقیم ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے مسافر کے لئے مسح کی مدت تین دن تین رات
مقرر کی ہے اور مقیم کیلئے ایک دن اور ایک رات۔ (صحیح مسلم ص:۷۲۵، ح :۶۳۹،
دوسرا نسخہ ج:۱ص:۲۳۲)
[29] قال الامام
أبو حاتم الرازي :كان صدوقا، قال الخطيب البغدادي : كان أحد الْفُقَهَاء من
أَصْحَاب الرَّأْي، قال الذهبي : (هو) العَلاَّمَةُ، الإِمَامُ، الفقيه، وقال ايضا
في مقام اخر : وَكَانَ صَدُوْقاً، مَحْبُوباً إِلَى أَهْلِ الحَدِيْثِ. (الجرح
والتعديل: ج 8 : ص 145, غنية الملتمس : ص 403, سير أعلام النبلاء : ج 10 : ص 194,
تاريخ الإسلام : ج 5 : ص 468)
[30] قال الامام ابن عابدين شامي : (هو) شَيْخُنَا الْعَلَّامَةُ، الْمُحَقِّقُ، الشَّيْخُ،
مُفْتِي الشَّامِ،قال خير الدين الزركلي : (هو) مفتي
الحنفية في دمشق، كان فاضلا عالي الهمة،
عاكفا على التدريس والإفادة، قال عبد الحي الكتاني : هو الشيخ، مفتي الحنفية
بدمشق، المحدث الكثير الحفظ والمرويات، ذكره محمد أمين الحموي الدمشقي في عُلَمَاء
دمشق وقال شَيخنَا مفتى الشَّام، قال ابن
غزي : (هو) الشيخ، الإمام، العلامة، الفقيه، مفتي الحنفية، قال الشيخ عمر: (هو) فقيه، اصولي محدث، مفسر،
نحوي. (رد المحتار على الدر
المختار : ج 1 : ص 33, الأعلام : ج 6 : ص 294, فهرس الفهارس : ج 1 : ص 347, خلاصة
الأثر : ج 3 : ص 409, ديوان الإسلام : ج 2 : ص 165, معجم المؤلفين : ج 11 : ص 56)
[31] ان سب کے الفاظ یہ ہیں : قَالُوا: يَمْسَحُ عَلَى الجَوْرَبَيْنِ وَإِنْ لَمْ تَكُنْ
نَعْلَيْنِ إِذَا كَانَا ثَخِينَيْنِ۔
نوٹ :
امام ترمذی ؒ نے تمام ائمہ کے فقہی اقوال کی سند
علل کبیر میں بیان فرمائی ہے ،جوکہ ان تک پہنچتی ہے ۔جیسا کہ علی زئی صاحب مسئلہ
فاتحہ خلف الامام ص:۲۹،۳۰پر لکھتے ہیں ۔
[32] قال الحافظ عبد
القادر القرشي (هو) الإِمَام الْكَبِير شمس الْأَئِمَّة صَاحب الْمَبْسُوط وَغَيره
أحد الفحول الْأَئِمَّة الْكِبَار أَصْحَاب الْفُنُون كَانَ إِمَامًا عَلامَة
حجَّة متكلما فَقِيها أصوليا مناظرا، قال أبو الحسن علي بن زيد البيهقي (هو)
الإمام الزاهد شمس الأئمة، قال الذهبي : (هو) شمس الأئمة، قال حافظ قاسم بن
قُطلُوبغا : كان عالمًا، أصوليًّا، مناظرًا، قال السمعاني : (هو) امام سرخس.
(الجواهر المضية : ج2 : ص28, تاريخ بيهق / تعريب : ص 223, تذكرة الحفاظ : ج4 : ص
32, تاج التراجم : ص234, الأنساب : ج 2 : ص 405)
[33] ذكره الذهبي :
(هو) الفقيه، المفتي، إمامٌ، عالم، مصنِّف، قَالَ ابن الفُوطي : (هو) شيخنا
الامام،العالم، المحدّث الفقيه، القاضي، وكان واسع الرواية، موصوفا بالفهم والدراية،
عارفا بالفروع والأصول، كثير المحفوظ، قال
الامام المحدث أَبُو الْعَلَاء الفرضي في مُعْجم شُيُوخه : كَانَ شَيخا فَقِيها
عَالما فَاضلا مدرسا عَارِفًا بِالْمذهبِ، قال الحافظ قاسم بن قُطلُوبغا : وكان فقيهًا
عارفًا بالمذهب، قال ابن تغري : (هو) العلامة شيخ الإسلام مجد الدين أبو الفضل
الموصلي, وقال ايضا في مقام اخر: قلت : أثنى على علمه، وغزير فضله، ودقيق نظره،
وجودة فكره جماعة كثيرة، وكان إمام عصره، ووحيد دهره، وآخر من كان يرحل إليه من
الآفاق، تفقه به جماعة من أعيان السادة الحنفية، وكان إماماً ورعاً، ديناً خيراً،
مترفعاً على الملوك والأعيان، متواضعاً للفقراء والطلبة، وعنده مروءة وتعصب
للفقراء، رحمه الله تعالى، قال الحافظ الدمياطي: (هو)
الفقيه العلامة المفتي. (تاريخ الإسلام : ج 15 : ص 496, مجمع
الآداب : ج 4 : ص 440, الجواهر المضية : ج 1 : ص 291, تاج التراجم : ص 177, المنهل
الصافي : ج 7 : ص 124)
[34] نوٹ :
اہل حدیث غیر مقلدین کے نزدیک
محض بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ لکھا ہونے کا مطلب ہرگز
یہ نہیں ہے کہ وہ ان ائمہ کے مقلدین ہیں ۔چنانچہ اہل حدیثوں کے محدث زبیر علی زئی
لکھتے ہیں کہ بعض علماء کے ساتھ شافعی ،مالکی ،حنبلی اور حنفی وغیرہ سابقوں یا
لاحقوں کا یہ مطلب قطعا ً نہیں ہے کہ یہ علماء مقلدین کی صف میں شامل تھے ۔(جزء
رفع الیدین ص: ۱۰،۱۱) ایک
اور مقام پر تحریر کرتے ہیں کہ شافعی علماء یہ اعلان کرتے تھے کہ ہم شافعی علماء
کے مقلد نہیں ہیں ،بلکہ ہماری رائے ان کی رائے کے موافق ہو گئی ہے اور عالم کیونکر
مقلد ہو سکتا ہے ۔ (اختصار فی علوم الحدث مترجم ص: ۱۳) معلوم ہو اکہ علماء کے نام کے ساتھ محض
حنفی ،شافعی ،مالکی یا حنبلی آنے سے ان کا مقلد ہونا غیر مقلدین کے نزدیک ثابت
نہیں ہوتا ۔لہذا یہاں پر جتنے بھی فقہاء اور محدثین کے حوالے ذکر کئے گئے ہیں ،غیر
مقلدین کے نزدیک یہ ان ائمہ فقہاء اور
محدثین کی تحقیق اور اجتہاد ہے ،نہ کہ ان کی مقلدانہ رائے ۔
[35] قال تقي الدين
بن عبد القادر التميمي الغزي: كان إماماً، عالماً عاملاً، مؤلفاً مُصنفاً، ماله في
زمنه نظيرٌ، قال أبو المعالي محمد بن عبد الرحمن بن الغزي : (هو) الإمام العلامة
الفقيه قال نجم الدين محمد بن محمد الغزي
: زين بن نجيم الشيخ العلامة، المحقق المدقق الفهامة، قال خير الدين الزركلي :
(هو) فقيه حنفي، من العلماء مصري, وفي شذرات الذهب هو الإمام العلّامة، البحر
الفهامة، وحيد دهره، وفريد عصره، كان عمدة العلماء العاملين، وقدوة الفضلاء
الماهرين، وختام المحقّقين والمفتين. (الطبقات السنية : ص 289, ديوان
الإسلام : ج 4 : ص 338, الكواكب السائرة : ج 3 : ص 137, الأعلام : ج 3 : ص 64, شذرات الذهب : ج 10 : ص
523)
[36] قال حاجي
الخليفة : (هو) الشيخ، الإمام، العلامة, قال خير
الدين الزركلي : (هو) من أكابر فقهاء الحنفية. عدّه ابن
كَمَال باشا من المجتهدين في المسائل. وهو من بيت علم عظيم في بلاده, قال عبد الحي
الكنوي : كان من كبار الائمة واعيان فقهاء الامة اماما ورعا مجتهدا متواضعا عالما كاملا بحرا زاخرا حبرا فاخرا. (كشف الظنون
:ج 2 : ص 1619, الأعلام : ج 7 : ص 161, الفوائد البهية : ص 205)
[37] قال الامام علاء الدين الكاساني : (هو) أُسْتَاذِ وَارِثِ
السُّنَّةِ، وَمُوَرِّثِ الشَّيْخِ الْإِمَامِ الزَّاهِدِ عَلَاءِ الدَّيْنِ
رَئِيسِ أَهْلِ السُّنَّةِ, قال أبو سعد السمعاني :(هو) إمام فاضل في الفتوى
والمناظرة والأصول والكلام, قال عبد الحي الكنوي : (هو) شيخ كبير فاضل جليل القدر. (بدائع الصنائع: ج 10 : ص 4349, المنتخب من معجم شيوخ السمعاني : ص
1393, ,الفوائد البهية : ص 158)
[38] روایت کے الفاظ یہ
ہیں : ’’عن
ابن عمر انہ توضأ وکفہ معصوبۃ فمسح علی العصائب وغسل سوی ذلک ‘‘ (سنن
کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۴۸،۳۴۹،امام بیہقی ؒ اور
امام المحدث ملا علی قاری ؒ نے اس روایت کوصحیح قرار دیا ہے ، مرقات ج:۲ص:۴۸۴،مزید
دیکھئے : مصنف عبدالرزاق ج:۱ص:۱۶۰،۱۶۲،سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۴۸)
[39] سورۃ المائدۃ
:۶،سنن نسائی حدیث نمبر:۱۵۸،روایت کے الفاظ یہ
ہیں :قال
صفوان بن عسال :کنا اذا کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر امرنا ان لا ننزع ثلاثا الامن
جنابۃ ولکن من غائط وبول ونوم ۔اس روایت کو امام ترمذی ؒ نے حسن صحیح ،امام
ابن الملقن ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر: ۹۶،البدر المنیر ج:۳ص:۹،نیز دیکھئے
المعجم الکبیر للطبرانی ج:۸ص:۵۵، حدیث نمبر: ۷۳۵۰،الملخصات واجراء اخری لابی طاہر المخلص ج۴ص:۱۰۰،۱۰۱،حدیث نمبر:۳۰۶۷۔
[40] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :قال
رسول اللہ ﷺ لا تقبل صلاۃ من احدث حتی یتوضأ ،قال رجل من حضرموت :ما الحدث یا ابا
ہریرۃ قال :فساء اوضراط ۔(صحیح البخاری حدیث نمبر:۱۳۵)
[41] حضرت سلمان رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھا اور میری ناک میں سے خون نکلا ’’فأمرنی
ان احدث وضوء ا ‘‘ تو آپ ﷺ نے مجھے
حکم دیاکہ میں نیا وضو کروں۔ (الکامل لابن عدی ج:۲ص:۳۷۵،واسنادہ حسن )
حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’من اصابہ قیٔ
او رعاف او قلس او مذی فلینصرف فلیتوضأ ثم لیبن علی صلاتہ ‘‘ کہ جسے
دوران نماز الٹی ہو جائے یا ناک میں سے خون نکل جائے یا مذی نکل آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ جا کر وضو
کرے اور اپنی نماز پر بنا ء کرے۔ (سنن دارقطنی حدیث نمبر:۵۷۲)امام محمد بن یحییٰ الذہلی ؒ (م۲۵۶ھ) نے اس روایت کو صحیح مرسل قرار دیا
ہے ،اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن الجوزی ؒ اور امام ابن عبدالہادی ؒ فرماتے
ہیں کہ مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے ۔(التحقیق لابن الجوزی ج:۱ص:۱۸۸،تنقیح
التحقیق ج:۱ص:۲۸۵) اس
مسئلے کی تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۲۲۸‘‘پر موجود ہے۔
[42] حضرت ابو الدرداء رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ان رسول اللہ ﷺ قاء فتوضأ ‘‘ اللہ کے
رسول ﷺ نے قیٔ کی پھر وضو فرمایا ۔(سنن
ترمذی حدیث نمبر:۸۷)امام ترمذی ؒ نے اس
حدیث کو حسن صحیح ،امام ابن خزیمہؒ،امام ابن حبانؒ،امام ابن جارود ؒ نے صحیح ،امام
حاکم ؒ نے صحیح علی شرط الشیخین ،امام بغوی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ
حدیث نمبر:۱۹۵۶،صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۱۰۹۷،المنتقی لابن الجارود حدیث نمبر: ۸،شرح السنہ للبغوی ج:۱ص:۱۳۳) مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۲۳۱‘‘پر
موجود ہے۔
[43] حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ( ینامون ثم
یصلون ولا یتوضؤن )(بغیر سہارے کے )سوتے تھے اور پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے
تھے ۔امام مسلم ؒ (م۲۶۱ھ) اس روایت کو [باب الدلیل
علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء ] میں لا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بغیر
سہارے کے بیٹھ کر سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔(صحیح مسلم ص:۳۷۳، حدیث نمبر: ۸۳۵،
دوسرانسخہ ج:۱ص:۲۸۴)اور عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ’’
من نام جالسا فلا وضوء علیہ ‘‘ جو بیٹھ کر (بغیر سہارے کے)سوئے اس پر وضو
نہیں ہے ۔(مسند شافعی ج:۱ص:۱۸۲،۱۸۳،امام ابن الاثیر
ؒ (م ۶۰۶ھ) نے اس حدیث کو صحیح
کہا ہے،مسندالشافعی لابن الاثیر ج:۱ص:۲۲۵)
[44] مرض الوفا ت میں
آپ ﷺ کو ہوش آیا تو آپ ﷺ نے پوچھاکہ لوگوں نے نماز پڑھ لی تو حضرت عائشہ ؓ نے
کہا :کہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ضعوا
لی ماء فی المخضب ‘‘ میرے
لئے ایک لگان میں پانی رکھدوآپ نے غسل فرمایا پھر جب اٹھنے لگے تو بیہوش ہوگئے
،پھر یہی معاملہ تین بار پیش آیا اور ہر مرتبہ
آپ ﷺ نے غسل کیا ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۸۷) اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن
المنذر ؒ (م ۳۱۹ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’ولیس فی اغتسال رسول اللہ ﷺ دلیل علی ان ذلک واجب اذلوکان واجبالامربہ فالوضوء
واجب لاجماع اہل العلم علیہ، والاغتسال یستحب لفعل رسول اللہ ﷺ ‘‘۔ (الاوسط
لابن المنذر ج:۱ص:۱۵۵،حدیث نمبر: ۴۹)
[45] بیہوش ہونے کی طرح
مجنون وپاگل ہونے کی وجہ سے عقل زائل ہوجاتی ہے اور احساسات کی خبر نہیں رہتی ہے
اس لئے اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ،امام حماد بن ابی سلیمان ؒ (م ۱۲۰ھ) فرماتے ہیں کہ ’’اذا
افاق المجنون توضأ وضو ء ہ للصلاۃ ‘‘ جب مجنون ہوش میں آئے ، جب جنون
کی کیفیت ختم ہو جائے تو وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے ۔(مصنف عبد الرزاق حدیث
نمبر:۴۹۳،واسنادہ حسن ،نیز
دیکھئے ،الاوسط لابن المنذر ج:۱ص:۱۵۵،حدیث نمبر:۴۹)
[46] حضرت عبداللہ بن
عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’من ضحک فی
صلاۃ قہقہۃ فلیعد الوضوء والصلاۃ‘‘ جس نے نماز میں قہقہہ لگا کر ہنسا تو وہ
اپنا وضو اور نماز دہرائے ۔(الکامل لابن عدی ج:۴ص:۱۰۱،التحقیق لابن الجوزی ج:۱ص:۱۹۴، امام
زیلعی ؒ (م ۷۶۲ھ) نے اس
روایت کو صحیح ثابت کیا ہے ،نصب الرایۃ ج:۱ص:۴۸) حضرت ابو موسی اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ،کہ اچانک ایک نابینا حضرت کنوئیں میں گر گئے
،تو بہت سے مقتدی ہنس پڑے ’’فامر رسول اللہ ﷺ من ضحک ان یعید الوضو
ء ویعید الصلاۃ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کو وضو اور نماز لوٹانیکا حکم دیا ۔(معجم
الکبیر للطبرانی ،بحوالہ نصب الرایۃ للامام زیلعی،اس روایت میں امام محمد بن
عبدالملک الدقیقی ؒ(م ۲۶۶ھ) ثقہ
صدوق ہیں تقریب رقم :۶۱۰۱،تہذیب
التہذیب ج:۹ص :۳۱۹،باقی
رجال کے بارے میں امام ہیثمی ؒ (م۸۰۷ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’بقیۃ رجالہ موثقون ‘‘باقی
رجال ثقہ ہیں،مجمع الزوائد حدیث نمبر: ۱۲۷۸،اسی طرح کتاب الآثار بروایت امام یوسف
ص:۲۸پر بھی ایک مرفوع حدیث موجود ہے ،جس کو
امام عینی ؒ (م۸۵۵ھ)نے نخب
الافکار ج:۲ص:۶۴،۶۵
پر
ثابت کیا ہے ۔ مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۴:ص۱‘‘پر
موجود ہے۔
[47] روایت کے الفاظ ہیں
’’فمسح
بوجہہ ویدیہ ثم ردعلیہ السلام ‘‘ اس حدیث کی تشریح کے تحت اہل حدیث عالم داؤد
راز صاحب لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے حالت سفر میں تیمم کرنے کا جواز
ثابت کیا ہے۔ (صحیح بخاری ترجمہ داؤد رضا صاحب ج:۱ص:۴۱۸) اور امام حماد بن ابی سلیمان ؒ(م ۱۲۰ھ) [ثقہ امام مجتہد ]فرماتے
ہیں کہ ’’کل
شییٔ ضربت علیہ بیدیک فہو صعید حتی غبار لبدک ‘‘ کہ (تیمم کے لئے )
ہر وہ چیز جس کو تو اپنے دونوں ہاتھ سے مارتاہے ،پاک مٹی( کے حکم میں) ہے۔اگرچہ وہ
تیرے جانور کے زین کا غبار ہی کیوں نہ ہو ۔ایک دوسرے قول میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ ’’یتیمم بالصعید والجص والجبل
والرمل ‘‘تیمم
پاک مٹی ، چونے ،پہاڑ اور ریت سے کرنا جائز ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر:۱۷۱۶،۱۷۱۷،واسنادہ حسن لغیرہ
،الاوسط لابن المنذر ج:۲ص:۳۷)
[48] امام قدوری ؒ (م
۴۲۸ھ) فرماتے ہیں کہ ’’النیۃ
فرض فی التیمم ‘‘تیمم میں نیت فرض ہے۔ (مختصر القدوری ص:۱۰)کیونکہ اس کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے ۔دیکھئے
سورہ نساء :۴۳
[49] حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ ’’کان تیمم رسول اللہ ﷺ ضربتین ،ضربۃ للوجہ وضربۃ
للیدین الی المرفقین‘‘ رسول اللہ ﷺ کے تیمم میں دوضربیں تھیں :ایک
ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ۔(مسند امام ابو حنیفہ
بروایت امام محمد بن المظفر ،بحوالہ جامع المسانید للامام الخوارزمی ج:۱ص:۲۳۴،واسنادہ
صحیح ، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ نے اس کو صحیح مرفوع کہا ہے،اعلاء السنن حاشیہ ج:۱ص:۳۱۹،مزید دیکھئے
سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۶،حدیث نمبر: ۹۹۳،واسنادہ
حسن) نیز حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے
بھی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’التیمم
ضربۃ للوجہ ،وضربۃ للذراعین الی المرفقین ‘‘تیمم میں ایک ضرب چہرے
کے لئے ہے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ہے ۔(سنن دارقطنی حدیث نمبر:
۶۹۱واللفظ لہ ۶۹۲،امام دارقطنی
ؒاورامام ابن مفلح ؒ فرماتے ہیں کہ اسکے رجال ثقہ ہیں ،امام حاکم
ؒ ،امام بیہقی ؒ امام ابن الملقن ؒاور امام
ذہبی ؒ نے اسکی سند کوصحیح اور امام ابن حجر ؒ نے حسن قرار دیا ہے ،نیز حافظ ابن عبدالہادی
ؒ اور حافظ قاسم ابن قطلوبغا ؒ نے اس روایت کا دفاع کیا ہے اور اسکی سند کو ثابت کیا
ہے۔(مستدرک للحاکم حدیث نمبر: ۶۳۶،نخب الافکار
للعینی
ج:۲ص:۴۴۲،سنن
کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۹، حدیث : ۹۹۱،
البدر المنیر ج:۲ص:۶۴۷،الدرایہ ج:۱ص:۶۸،تنقیح التحقیق ج:۱ص:۳۷۸،تخریج
احادیث الاختیا رللقاسم ج:۱ص:۱۵۱ ) مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ
نمبر ۴:ص۳۷‘‘پر موجود ہے۔
[50] حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ ’’الصعید الطیب وضو ء المسلم ،وان لم یجد الماء عشر سنین
‘‘ پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو کرنے کا سامان ہے اگرچہ پانی دس
سال تک نہ ملے ۔(سنن نسائی حدیث نمبر: ۳۲۲)
معلوم ہواکہ جب تک پانی نہ ملے مسلمان تیمم کرتا رہے گا اور جب پانی مل جائے
تو پانی سے وضو کرے گا اس لئے کہ تب تیمم ختم ہو جائے گا، امام سفیان ثوریؒ (م۱۶۱ھ) بھی یہی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تیمم کرے پھر وہ پانی کے
استعمال پر قادر ہوجائے تو اب نماز کیلئے وضو کریگا ، آپؒ کے الفاظ یہ ہیں ’’اذا تیمم الرجل ثم مر بماء فقال :حتی آتی ماء آخر فقد
نقض تیممہ ویتوضأ لتلک الصلاۃ ۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۸۹۲،واسنادہ صحیح )
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں