نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ۔)ابو یحییٰ نور پوری صاحب کے مضمون پر ایک نظر

 

اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو ٹوٹنے کا مسئلہ۔)ابو یحییٰ نور پوری صاحب کے مضمون پر ایک نظر (

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

امام ابو حنیفہ ؒ  (م۱۵۰؁ھ) کے تلمیذ رشید ، امام محمدبن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ)  سے  الامام الفقیہ ابو سلیمان الجوزجانی ؒ   [صدوق][1]کہتے ہیں  :

قلت أَرَأَيْت الطَّعَام هَل ينْقض شَيْء مِنْهُ الْوضُوء مثل لُحُوم الْإِبِل أَو الْبَقر أَو الْغنم أَو اللَّبن أَو غير ذَلِك مِمَّا مسته النَّار قَالَ لَيْسَ شَيْء من الطَّعَام ينْقض الْوضُوء إِنَّمَا الْوضُوء ينْتَقض مِمَّا يخرج وَلَيْسَ مِمَّا يدْخل ۔

میں نے کہا :کیا ( کوئی چیز) کھانے سے وضو ٹوٹ جائیگا ، جیسے اونٹ ، گائے ، بکری کا گوشت یا ان کا دودھ ، یا ان کے علاوہ کوئی اور چیز جسے آگ نے چھوا ہو؟  تو امام محمدؒنے فرمایا : کسی چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، وضو تو اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو ( جسم سے ) باہر نکلتی ہے نہ کہ اس چیز سے جو ( جسم میں )داخل ہوتی ہے ۔ (کتاب الاصل  المعروف بالمسوط للامام محمد بن حسن الشیبانی : جلد۱ : صفحہ ۵۹) یہی قول  امام ابو حنیفہ ؒ  (م۱۵۰؁ھ) اور امام ابو یوسف ؒ (م۱۸۳؁ھ) کا بھی ہے۔(کتاب الاصل  المعروف بالمسوط للامام محمد بن حسن الشیبانی : جلد۱ :ص ۱-۲)

دلائل درج ذیل ہیں:

اولاً:

(۱)         امام علی ابن الجعد ؒ (م۲۳۰؁ھ) کہتے ہیں کہ

أنَا يَزِيدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرٍ۔أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْوُضُوءُ مِمَّا يَخْرُجُ وَلَيْسَ مِمَّا يَدْخُلُ۔

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ وضو ان چیزوں سے ہے ،جو نکلتی ہے ناکہ ان چیزوں سے جو داخل  ہوتی ہے ۔ (مسند  علی بن الجعد:صفحہ ۴۴۹، ح۳۰۶۶)

باس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، علی بن الجعد صرف بخاری کے اور باقی دونوں یزید بن ابراہیم  التستری اور ابو الزبیر بخاری اور مسلم دونوں کے راوی ہیں۔ یزید بن ابراہیم التستری کی روایت  ابو الزبیر عن جابرسے ،  یہ امام مسلم کی شرط پر ہے ، دیکھئے  (صحیح مسلم : ح۲۲۲۲)[2]

(۲)          امام الطبرانی ؒ (م۳۶۰؁ھ) فرماتے  ہیں کہ

حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ،[3] ثنا سَعِيدُ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ،[4] أنا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ،[5] عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ زَحْرٍ،[6] عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ،[7] عَنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: دَخَلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى صَفِيَّةَ بِنْتِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ فَعَرَّقَتْ لَهُ، أَوْ فَقَرَّبَتْ لَهُ عَرْقًا، فَوَضَعَتْهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ عَرَّقَتْ أَوْ قَرَّبَتْ آخَرَ، فَوَضَعَتْهُ بَيْنَ يَدَيْهِ فَأَكَلَ، ثُمَّ أَتَى الْمُؤَذِّنُ، فَقَالَت: الْوُضُوءُ الْوُضُوءُ، فَقَالَ: «إِنَّمَا عَلَيْنَا الْوُضُوءُ  فِيمَا يَخْرُجُ، وَلَيْسَ عَلَيْنَا فِيمَا يَدْخُلُ۔

حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ام المؤمنین حضرت صفیہ ؓ کے یہاں تشریف لے گئے ، انہوں نے آپ کے سامنے گوشت لگی ہڈی پیش کی ، پھر دوسری پیش کی ، آپ نےاس میں سےتناول فرمایا ، پھر مؤذن آئے ، تو حضرت صفیہ ؓ نے فرمایا :وضو کیجئے وضو کیجئے ، تو آپ نے ارشاد فرمایا : بے شک وضو اس چیز کی وجہ سے لازم ہوتا جو ہم سے نکلے، نہ کہ اس چیز کی وجہ سے جو ہم میں داخل ہو۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: جلد ۸ : صفحہ ۲۱۰، ح: ۷۸۴۸)

علی بن یزید پر کلام ہے ، امام ذہبی ؒ کہتے ہیں: ایک جماعت نے انہیں ضعیف کہا ہے  لیکن وہ متروک نہیں۔ (الکاشف :۳۹۸۳) سلفی عالم ومحدث شیخ الحوینی ؒکہتے ہیں کہ  عبید اللہ بن زحر عن علی بن یزید الالھانی کی سند سے آئی ہوئی حدیث کو موضوع کہنا ابن حبان ؒ کا غلو ہے ۔ [8] امام ابن القیم ؒ[9]اور سلفی عالم شیخ جمال السید [10]نے (جامعہ اسلامیہ ،مدینہ منور ہ سے چھپی ہوئی کتاب میں )  عبید اللہ بن زحر عن علی بن یزیدالالہانی کی سند سے آئی ہوئی ایک حدیث کو متابعات کی وجہ سے قبول کیا ہے ۔

اور  اس روایت  کی بھی  متابعت پچھلی اور اگلی کئی روایتوں سے ہوتی ہے ۔

 (۳)          امام الطحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) فرماتے  ہیں کہ

حَدَّثَنَا ابْنُ خُزَيْمَةَ،[11] قَالَ: ثنا حَجَّاجٌ،[12] قَالَ: ثنا حَمَّادٌ، عَنْ أَبِي غَالِبٍ[13]، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّهُ أَكَلَ خُبْزًا وَلَحْمًا , فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ , وَقَالَ: الْوُضُوءُ مِمَّا يَخْرُجُ , وَلَيْسَ مِمَّا يَدْخُلُ۔ (شرح معانی الآثار :جلد ۱:صفحہ ۶۹:حدیث ۴۲۰)

اس سند میں ابو غالب صدوق یخطٗئ ہیں اور جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں۔ باقی تمام راوی بھی ثقہ ہیں ۔

(۳)          امام البیہقی ؒ (م۴۵۳؁ھ)  کہتے  ہیں کہ

أَبُو عَلِيٍّ الرُّوذْبَارِيُّ،[14] ثنا أَبُو النَّضْرِ الْفَقِيهُ،[15] ثنا عُثْمَانُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ،[16] ثنا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ الْعَبْدِيُّ،[17] ثنا إِسْرَائِيلُ،[18] عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى،[19] عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ،[20] عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، أَنَّهُ طَعِمَ خُبْزًا وَلَحْمًا، فَقِيلَ لَهُ: أَلَا تَتَوَضَّأُ، فَقَالَ: " إِنَّ الْوُضُوءَ مِمَّا خَرَجَ، وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ۔ (السنن الکبریٰ للبیہقی : جلد۱ :صفحہ ۲۴۴: حدیث ۷۳۱)

اس کی سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، صرف عبد الاعلیٰ صدوق یھم ہیں ۔

(۵)        امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ، وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ۔[21] (مصنف ابن شیبۃ :جلد ۱:صفحہ ۵۲، حدیث ۵۳۸)

اس سند کے تمام راویوں سے شیخین نے روایت لی ہے۔

(۶)         الامام الحافظ وکیع بن جراح ؒ (م ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ

عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي ظَبْيَانَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ ذُكِرَ عِنْدَهُ الْوُضُوءُ مِنَ الطَّعَامِ، وَقَالَ الْأَعْمَشُ مَرَّةً: وَالْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ، فَقَالَ: إِنَّمَا الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ، وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ۔ (نسخۃ وکیع بن جراح : صفحہ ۵۵: حدیث ۲ ، المطبوع من الدار السلفیۃ،الکویت، بتحقیق عبدالرحمن بن عبد الجبار الفریوائی )

               یہ حدیث بخاری کی شرط پر ہے ، دیکھئے: صحیح البخاری : ۴۷۰۶

(۷)        امام  عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱؁ھ)  کہتے ہیں کہ

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ وَثَّابٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ۔ (مصنف عبد الرزاق : جلد ۱ :صفحہ ۳۲، ح ۱۰۰)

اس سند کے تمام راوی ثقہ ہیں ، ثوری عن ابی حصین عن یحییٰ بن وثاب  کی سند  مسلم کی شرط پر ہے ، دیکھئے : صحیح مسلم : ۷۴۵۔

(۸)        امام  عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱؁ھ)  کہتے ہیں کہ

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنِ الثَّوْرِيِّ، عَنْ وَائِلِ بْنِ دَاوُدَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: «إِنَّمَا الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ۔وزاد فی روایۃ ’’ولیس مما دخل‘‘۔  (مصنف عبد الرزاق: ج ۱:صـ ۱۷۰، ح۶۵۸ و ج ۴: صـ ۲۰۸، ح۷۵۱۸،المعجم الکبیر  : جلد ۹: صفحہ ۳۱۴، ح۹۵۷۶)

اس سند کے تمام راوی مشہور ثقات ہیں ، وائل بن داؤد التیمی بھی ثقہ ہیں روی لہ البخاری فی الادب المفرد۔ البتہ ابراہیم بن یزید النخعیؒ فقیہ العراق نے  حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کو نہیں پایا ، جس کا جواب یہ ہے کہ :

                 وقال الحافظ أبو سعيد العلائي: "هو مكثر من الإرسال وجماعة من الأئمة صححوا مراسيله" وخص البيهقي ذلك بما أرسله عن ابن مسعود. حافظ علائی ؒ کہتے ہیں : وہ بہت ارسال کرتے تھے ، اور ائمہ کی ایک جماعت نے ان کی مراسیل کو صحیح کہا ہے، اور امام بیہقی ؒ ان کی انہی مراسیل کو صحیح کہتے ہیں جو حضرت ابن مسعود ؓ سے ہیں۔ (تھذیب التھذیب :جلد ۱ : صفحہ ۱۷۹)[22]

(۹)           امام  عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱؁ھ)  فرماتے  ہیں کہ

عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ ابْنِ الْمُسَيِّبِ قَالَ: «إِنَّمَا الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ»، قَالَ: «وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ، لَأَنَّهُ يَدْخُلُ وَهُوَ طَيِّبٌ لَا عَلَيْكَ مِنْهُ وَيَخْرُجُ وَهُوَ خَبِيثٌ عَلَيْكَ مِنْهُ الْوُضُوءُ وَالطُّهُورُ۔(مصنف عبد الرزاق : جلد ۱ : صفحہ ۱۷۱، ح ۶۶۳)

اس سند کے تمام راوی مشہور ثقات ہیں ، جن سے شیخین نے روایت لی ہے ۔

(۱۰)         امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: الْوُضُوءُ مِمَّا خَرَجَ، وَلَيْسَ مِمَّا دَخَلَ ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ :جلد ۱: صفحہ ۵۲، ح۵۳۹)

اس حدیث کی سند کے بارے میں شیخ البانی سلفیؒ کہتے ہیں : وھذا اسناد صحیح ، رجالہ کلہم ثقات علی شرط البخاری ۔ (صحیح ابی داؤد الأم : رقم ۷۷۰)

تلک عشرۃ کاملۃ ۔

یہ دس لائق احتجاج اور معتبرشہادتیں (حدیثیں) ہیں ،جس میں بالکل صاف طور پر یہ قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ : وضو انہی چیزوں سے ٹوٹتا ہے جو جسم سے نکلتی ہیں ، ان چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا ہے جو  جسم میں داخل ہوتی ہیں ۔ نیز ان سب روایات  کی وجہ سے امام ابو زبیر المکی ؒ (م ۱۲۶؁؁ھ) پر تدلیس کا الزام مردود ہے۔

ثانیاً:

(۱)         امام احمد ؒ (م۲۴۱؁ھ)  فرماتے ہیں کہ

 حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مُوسَى بْنُ عُقْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عُقْبَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأُبَيٌّ، وَأَبُو طَلْحَةَ، جُلُوسًا، فَأَكَلْنَا لَحْمًا وَخُبْزًا، ثُمَّ دَعَوْتُ بِوَضُوءٍ، فَقَالَا: "لِمَ تَتَوَضَّأُ؟ " فَقُلْتُ: لِهَذَا الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْنَا، فَقَالَا: "أَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّيِّبَاتِ؟ لَمْ يَتَوَضَّأْ مِنْهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ۔

                حضرت انس ؓ فرماتے ہیں : میں ، ابی ؓ اور ابو طلحہ ؓ بیٹھےہوئے تھے ، ہم نے گوشت روٹی کھائی ، پھر میں نے وضو کا پانی منگوایا ، تو انہوں نے کہا: تم کیوں وضو کر رہےہو؟ میں نے کہا اس کھانے کی وجہ سے جوہم نے کھایا ہے، تو  انہوں نے کہا : کیا تم پاکیزہ چیزوں کے کھانے کی وجہ سےوضو کرو گے؟ تم سے بہتر شخص اس کی وجہ سے وضو نہیں کرتے تھے ۔ (مسند الامام احمد : ۲۶: صفحہ : ۲۸۴: ح ۱۶۳۶۵)  اس حدیث کی سند کو محقق کتاب شیخ شعیب الارناؤط اور عادل مرشد نے حسن ، اور امام ضیاء الدین المقدسی نے المختارہ میں صحیح کہا ہے ۔ (المختارہ : جلد ۳:صفحہ ۳۳۷، ح۱۱۳۱)

(۲)         امام البخاری ؒ (م۲۵۶؁ھ) فرماتے  ہیں کہ

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ الْمُنْذِرِ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَلْقَمَةَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي فَرْوَةَ، حَدَّثَنِي الْمِسْوَرُ بْنُ رِفَاعَةَ الْقُرَظِيُّ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَرَجُلٌ يَسْأَلُهُ، فَقَالَ: إِنِّي أَكَلْتُ خُبْزًا وَلَحْمًا، فَهَلْ أَتَوَضَّأُ؟ فَقَالَ: وَيْحَكَ، أَتَتَوَضَّأُ مِنَ الطَّيِّبَاتِ؟

ایک شخص نےابن عباس ؓ سےپوچھا کہ میں نے گوشت روٹی کھائی ہے، کیا میں وضو کروں ؟ آپ نے فرمایا: کیا تم پاکیزہ چیزوں کی وجہ سے وضو کروگے۔  (الادب المفرد: صفحہ ۲۷۰:ح ۷۷۳)،اس حدیث کو شیخ البانی سلفی ؒ نے صحیح کہا ہے ۔

(۳)        امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا عبدة بن سليمان، عن إسماعيل ، عن الشعبي، قال: بئس الطعام طعام يتوضأ منه[23]

 امام شعبی ؒ کہتے ہیں : برا ہے وہ کھانا جسے کھانے کی وجہ سے وضو  کیا جائے  ۔  (مصنف ابن ابی شیبۃ :جلد ۱:صفحہ ۵۳: ح۵۴۳)

(۴)        امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ)  کہتے ہیں کہ

حدثنا عائذ بن حبيب،[24] عن يحيى بن قيس،[25] قال: رأيت ابن عمر، أكل لحم جزور، وشرب لبن الإبل، وصلى ولم يتوضأ۔

یحیٰ بن قیس ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عمر ؓ کو دیکھا کہ انہوں نے اونٹنی کا گوشت کھایا اور اس کا دودھ پیا اور پھر وضو کئے بغیر نماز پڑھی ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ :جلد ۱ :ٓصفحہ ۵۰، ح۵۱۵)، اس کی متابعت، ابن عمر ؓ کی اگلی روایت سے ہوتی ہے ۔

(۵)        امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا وكيع، عن مسعر، قال: قلت لجبلة: أسمعت ابن عمر، يقول: «لآكل اللحم، وأشرب اللبن، وأصلي ولا أتوضأ»؟ قال: نعم۔[26]

             مسعر ؒ کہتے ہیں میں نے جبلہ سےکہا کہ تم نے ابن عمر ؓ کو یہ کہتے ہوئےسناہےکہ میں گوشت کھاتا ہوں، دودھ پیتا ہوں اور پھر (تازہ ) وضو کئے بغیر نمازپڑھتا ہوں ؟ ، تو جبلہ نے کہا ہاں ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : جلد۱:صفحہ ۵۲:ح۵۳۷ )

(۶)         امام البیہقی ؒ (م۴۵۳؁ھ)  کہتے  ہیں کہ

وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ بْنُ أَبِي الْمَعْرُوفِ الْمِهْرَجَانِيُّ بِهَا، أنا أَبُو سَهْلٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُمَانٍ الرَّازِيُّ بِهَا، نا مُحَمَّدُ بْنُ أَيُّوبَ، أنا مُسَدَّدٌ، نا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ، قَالَ: " أُتِيَ ابْنُ مَسْعُودٍ بِقَصْعَةٍ مِنَ الْكَبِدِ وَالسَّنَامِ وَلَحْمِ الْجَزُورِ فَأَكَلَ وَلَمْ يَتَوَضَّأْ "، وَهَذَا مُنْقَطِعٌ وَمَوْقُوفٌ وَرُوِي عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللهِ بْنُ مَسْعُودٍ، " يَأْكُلُ مِنْ أَلْوَانِ الطَّعَامِ وَلَا يَتَوَضَّأُ مِنْهُ۔

ابو جعفر ؒ کہتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود ؓ کے سامنے ایک تشتری لائی گئی ، جس میں کلیجی ، کوہان اور اونٹ کا گوشت تھا، تو آپ نے اس میں سے تناول فرمایا اور پھر وضو نہیں کیا ۔ (السنن الکبریٰ للبیھقی :جلد۱:صفحہ ۲۴۶:ح۷۴۱)  

اس حدیث کو امام بیھقی ؒ نے منقطع اور موقوف کہا ہے ، پھر خود ہی اس کا متابع موقوف بھی ذکر کردیا ، کہ ابو عبیدہ سے مروی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؒ مختلف قسم کے کھانےتناول فرماتے اور پھر اس کی وجہ سے وضو نہیں فرماتے، نیز ابراہیم نخعی ؒ جو حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ کے مسلک کو اختیار کرتے تھے  ، ان کے عمل سے بھی اس حدیث کی تائید ہوتی ہے ۔ لہذا انقطاع کی علت ختم ہوگئی۔

(۷)        امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا وكيع، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، قال: ليس في لحم الإبل والبقر والغنم وضوء۔

ابراہیم نخعی ؒ کہتے ہیں : اونٹ ، گائے، اور بکری کے گوشت میں وضو نہیں ہے ۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : حدیث نمبر ۵۲۴۔تحقیق عوامۃ) یہ سند علی شرط الشیخین ہے ۔

(۸)          امام الطحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) فرماتے  ہیں کہ

حدثنا أبو بكرة،[27] قال: ثنا أبو الوليد،[28] قال: ثنا شعبة، عن أبي نوفل بن أبي عقرب الكناني،[29] قال: رأيت ابن عباس أكل خبزا رقيقا ولحما , حتى سال الودك على أصابعه , فغسل يده وصلى المغرب

ابو نوفل ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ کو دیکھا کہ آپ نے پتلی روٹی اور گوشت تناول فرمایا ، یہاں تک کہ چربی آپ کی انگلیوں پر بہہ رہی تھی ، پھر آپ نے ہاتھ دھوئےاور مغرب کی نماز ادا کی۔ (شرح معانی الآثار للامام الطحاوی ؒ :جلد۱:صفحہ ۶۸، ۴۱۵)  

(۹)         امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا وكيع،[30] عن نُفاعة بن مسلم،[31] قال: «رأيت سويد بن غفلة،[32] أكل لحم جزور، ثم صلى ولم يتوضأ۔

نفاعہ بن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے سوید بن غفلہ کو دیکھا کہ انہوں نے اونٹنی کا گوشت کھایا پھر وضو کئے بغیر نماز ادا کی  ۔(مصنف ابن ابی شیبۃ : حدیث نمبر ۵۲۴۔تحقیق عوامۃ)

سوید بن غفلہؒ نے نبی کریم ﷺ کا زمانہ پایا ہے ، وہ نبی کریم ﷺ کے ہم عمر یا آپ ﷺسے ایک دو سال چھوٹے تھے ، مگر لقاء ثابت نہیں ، آپﷺ کی وفات کے بعد مدینہ آئے ،البتہ  ان کا خلفاء اربعہؓ سے علم سیکھنا ثابت ہے ۔ ان کے حالات کی تفصیل سیر اعلام النبلاء وغیرہ کتب میں موجود ہے ۔

(۱۰)       امام ابو بکر ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵؁ھ) فرماتے ہیں کہ

حدثنا حفص، عن ليث، عن طاوس، وعطاء، ومجاهد، «أنهم كانوا لا يتوضأون من لحوم الإبل وألبانها۔

لیث بن سلیم ؒ کہتےہیں کہ  طاؤس ، عطاء اور مجاہد رحمہم اللہ اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ کی وجہ سے وضو نہیں کرتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبۃ : حدیث نمبر ۵۲۴۔تحقیق عوامۃ)

اس میں لیث بن ابی سلیم صدوق مختلط ہیں ، اور طاؤس ، عطاء ومجاھد کو ایک ساتھ بیان کرنے کی وجہ سے ان پر اعتراض کیا گیا ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ :

 (۱)          ابن حجر ؒ نے المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ اس سند کو لیث کی وجہ سے ضعیف کہا ہے ، لیکن متابعات میں قبول کیا ہے ۔ (المطالب العالیۃ : جلد ۱۰:صفحہ ۴۶۲:ح۲۲۹۲)

(۲)         متابعت کی وجہ سے شیخ البانی ؒنے بھی اس سند سے آئی ہوئی حدیث کو صحیح لغیرہ کہا ہے ۔ (سنن ابن ماجہ :حدیث ۲۹۷۲)

(۳)         ان تینوں کے دونوں استاد (ابن عمرؓ اور ابن عباس ؓ )کا بھی یہی قول تھا ، جس سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے ۔

تلک عشرۃ کاملۃ ۔

یہ مزید دس معتبر اور قابل اعتبار شہادتیں (آثار )ہیں، ان میں سے :

پہلی (مرفوع) اور دوسری (موقوف ) حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ پاکیزہ چیزوں کے کھانے سے وضو نہیں کیا جائے گا۔ تیسرا اثر (امام شعبی تابعیؒ کا قول ہے ) کہ بد ترین کھانا وہ ہے جس کو کھاکر وضو کیا جائے ۔ [33] چار سے دس تک آثار صحابہ وتابعین ہیں ، جس میں صراحت ہے کہ وہ اونٹ کا گوشت کھاکر وضو نہیں کیا کرتے تھے ۔

جن میں ابن مسعود ؓ ، ابن عباس ؓ، ابن عمرؓ جیسے فقہاء صحابہ ۔ سوید بن غفلہ جیسے امام وقدوۃ، جنہوں نے خلفاء راشدین سے علم حاصل کیا ہے ۔ اورابراہیم نخعیؒ ، عطاء بن ابی رباح ؒ، طاؤس بن کیسان جیسے فقہاء تابعین ہیں ۔

ثالثاً:

چلئے اس مسئلہ کو محدثین کی نظر سے  دیکھتے ہیں:

اعلم الائمہ باختلاف العلماء ،امام  محمد بن  نصر المروزی ؒ   (م۲۹۲؁ھ) کہتے ہیں :

قَالَ سُفْيَان: ولا وضوء من طعام ولا شراب لبنا كَانَ أَوْ غيره ولا من طعام مسته النار من لحم جزور أَوْ بقرة أَوْ شاة. وهكَذَا قَالَ الْكُوْفِيُّوْنَ وكذَلِكَ قَالَ مَالِكٌ والشَّافِعِيُّ

وَقَالَتْ طَائِفَةٌ من أَصْحَاب الْحَدِيْث: لَا يتوضأ من شَيْء مسته النار أَوْ لم تمسه من طعام ولا شراب إِلَّا من لحم الجزور وممن قَالَ ذَلِكَ أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ وإِسْحَاق وأَبُوْثَوْرٍ وغيرهم من أَصْحَاب الْحَدِيْث ذهبوا إِلَى حَدِيْث البراء وجابر بْن سمرة۔

سفیان ؒ کہتے ہیں کھانے پینے سے وضو نہیں ہے، چاہے وہ دودھ ہو یا کچھ اور، اور آگ پر پکے  ہوئے اونٹ ، گائے اور بکری کے گوشت کے کھانوں سے بھی وضو نہیں کیا جائے گا، اسی طرح کوفہ والوں کا قول ہے ، اور اسی طرح امام مالک اور شافعی رحمہم اللہ بھی فرماتے ہیں۔

اور محدثین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ کسی کھانے سے وضو نہیں کیا جائے گا ، چاہے وہ آگ پر پکا ہو یا نہ پکا ہو ،سوائے اونٹ کے گوشت کے ، یہ امام احمد ، اسحق، اور ابو ثور ان کے علاوہ دوسرے محدثین کاقول ہے ، اس کا مستدل حضرت براءؓ اور حضرت جابر بن سمرۃ ؓکی حدیث  ہے۔ (اختلاف الفقھاء للمروزی :جلد ۲:صفحہ۱۰۰،)

رابعاً :

لحم الابل سے نقض وضو کی حدیثوں کی وضاحت ، خود محدثین کی زبانی :

(۱)         امام خطابی ؒ (م۳۸۸؁ھ) سنن ابو داؤد کی شرح میں کہتے ہیں :

وأما عامة الفقهاء فمعنى الوضوء عندهم متأول على الوضوء الذي هو النظافة ونفى الزهومة۔۔۔۔۔۔ ومعلوم أن في لحوم الإبل من الحرارة وشدة الزهومة ما ليس في لحوم الغنم فكان معنى الأمر بالوضوء منه منصرفاً إلى غسل اليد لوجود سببه دون الوضوء الذي هو من أجل رفع الحدث لعدم سببه والله أعلم۔

اکثر فقہاء کے نزدیک ا س حدیث میں وضو سے مراد صفائی اور ہاتھوں کی چکناہٹ کو دور کرنا ہے، یہ بات معلوم ہی ہے کہ اونٹ کے گوشت میں جتنی حرارت اور چکنائی ہوتی ہے، اتنی بکری کےگوشت میں نہیں ہوتی، اس لئے اس سے وضو کرنے کے حکم سے مراد ہاتھ دھونا ہوگا کیونکہ یہاں اس کا سبب پایا جا رہا ہے ، یہاں وہ وضو مراد نہیں ہوگا جو حدث کو دور کرنے کیلئے کیا جاتا ہے ، کیونکہ یہاں اس کا سبب نہیں پایا گیا ۔ (معالم السنن :جلد۱:صفحہ ۶۷)

(۲)         امام ابن بطال ؒ  (م۴۴۹؁ھ) صحیح بخاری کی شرح میں فرماتے ہیں :

وهذا لو صح، لكان منسوخًا بما ذكرنا أن آخر الأمرين ترك الوضوء مما مست النار. وقد يحتمل أن يكون الوضوء محمولا على الاستحباب والنظافة لشهوكة الإبل لا على الإيجاب، لأن تناول الأشياء النجسة مثل الميتة والدم ولحم الخنزير لا ينقص الوضوء فلأن لا توجبه الأشياء الطاهرة أولى.

اور اگر یہ صحیح ہو تو منسوخ ہوگا ، اس دلیل سے جو ہم نے پہلے ذکر کی کہ آپ ﷺ کا آخری عمل آگ پر پکی ہوئی چیز سے وضوء نہ کرنا تھا ، یا ہوسکتا ہے کہ لحم الابل سے وضو کا حکم  اونٹ میں بو ہونے کی وجہ سے ، استحباب اور نظافت پر محمول ہو ،نہ کہ وجوب پر ، اس لئے ناپاک چیز جیسے مردہ ، خون ، سور کا گوشت کھالینے سے بھی وضو نہیں ٹوٹتا ، تو پاک چیزوں سے تو بدرجہ اولیٰ نہیں ٹوٹے گا ۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال :جلد ۱: ۳۱۶)

(۳)        امام ابن عبد البر مالکی ؒمؤطا کی شرح میں فرماتے ہیں:

وَأَمَّا قَوْلُ مَالِكٍ وَالشَّافِعِيِّ وَأَبِي حَنِيفَةَ وَالثَّوْرِيِّ والليث وَالْأَوْزَاعِيِّ فَكُلُّهُمْ لَا يَرَوْنَ فِي شَيْءٍ مَسَّتْهُ النَّارُ وَضَوْءًا عَلَى مَنْ أَكَلَهُ سَوَاءٌ عِنْدَهُمْ لَحْمُ الْإِبِلِ فِي ذَلِكَ وَغَيْرِ الْإِبِلِ لِأَنَّ فِي الْأَحَادِيثِ الثَّابِتَةِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَكَلَ خُبْزًا وَلَحْمًا وَأَكَلَ كَتِفًا وَنَحْوُ هَذَا كَثِيرٌ (وَلَمْ يَخُصَّ لَحْمَ جزور من غيره) (ج) وصلى ولم يتوضأ وهذا (ناسخ رافع) (د) عِنْدَهُمْ لِمَا عَارَضَهُ عَلَى مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهُ وَبِاللَّهِ التَّوْفِيقُ۔

امام مالک ، امام شافعی ، امام ابو حنیفہ ، امام ثوری ، امام لیث اور امام اوزاعی ان تمام ائمہ کا کہنا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے کی وجہ سے وضو نہیں کیاجائے گا، چاہے وہ اونٹ کا گوشت ہو یا کسی اور جانور کا، اس لئے کہ بہت سی احادیث ثابتہ میں اس کا تذکرہ ہے کہ آپ ﷺ نے  روٹی ، گوشت تناول فرمایا ، (بعض میں ہے کہ )  مونڈھےکا گوشت کھایا ، اس میں اونٹ یا کسی اور جانور کی کوئی تخصیص نہیں ہے، اس کے بعد آپ نےنماز ادا فرمائی لیکن وضو نہیں فرمایا ، تو یہ چیز ناسخ اور اس حکم کو ختم کرنےوالی ہے جو اس کےمخالف ہے  جیسا کہ ہم نے پہلےذکر کیا ۔ (التمہید:جلد۳:صفحہ ۳۵۱)

(۴)        امام  ابو الولید باجی المالکی ؒ  (م۴۷۴؁ھ) مؤطا کی شرح میں لکھتے ہیں :

أَكْلُ لُحُومِ الْإِبِلِ قَالَ مَالِكٌ لَا يَنْقُضُ الطَّهَارَةَ وَبِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَفُقَهَاءُ الْأَمْصَارِ وَقَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ يَنْقُضُ ذَلِكَ الطَّهَارَةَ وَالدَّلِيلُ عَلَى مَا نَقُولُهُ أَنَّ هَذَا لَحْمٌ فَلَمْ يَجِبْ بِأَكْلِهِ وُضُوءٌ كَلَحْمِ الضَّأْنِ.

اونٹ کا گوشت کھانے کے بارے میں امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور (دوسرے) شہروں کے علماء کا کہنا ہے کہ اس سے وضو نہیں ٹوٹےگا، اور امام احمد فرماتے ہیں ٹوٹ جائے، اور ہمارے قول پر دلیل یہ ہے کہ یہ ایک گوشت ہے لہذا اس کے کھانے سے بھی وضو نہیں ٹوٹے گا جیسے کہ مینڈھے کا گوشت کھانے سے نہیں ٹوٹتا ہے  ۔ (المنتقیٰ شرح المؤطا :جلد ۱:صفحہ ۶۵، للباجی المالکی )

(۵)        محمد بن عبد الباقی الزرقانی ؒ (م۱۱۲۲؁ھ) مؤطا کی شرح میں لکھتے ہیں:

فَقَدْ حُمِلَ ذَلِكَ الْوُضُوءُ عَلَى غَسْلِ الْيَدِ وَالْمَضْمَضَةِ لِزِيَادَةِ دُسُومَتِهِ وَزُهُومَةِ لَحْمِ الْإِبِلِ، وَقَدْ نَهَى - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَنْ يَبِيتَ وَفِي يَدِهِ أَوْ فَمِهِ دَسَمٌ خَوْفًا مِنْ عَقْرَبٍ وَنَحْوِهَا وَبِأَنَّهَا مَنْسُوخَةٌ بِقَوْلِ جَابِرٍ: " «كَانَ آخِرُ الْأَمْرَيْنِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - تَرْكُ الْوُضُوءِ مِمَّا مَسَّتِ النَّارُ» " رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَغَيْرُهُ.

اس وضو سےمراد ہاتھ دھونا اور کلی کرنا ہے، اس لئے کہ اونٹ کے گوشت میں چکنائی اور بو زیادہ ہوتی ہے ، اورنبی کریم ﷺ نے منہ اور ہاتھ پر لگی چکنائی کو دھوئے بغیر سونے سے منع  فرمایا ہے ،کہیں  بچھو وغیرہ نہ کاٹ لے، اور یہ(حدیث )منسوخ ہےحضرت جابر ؓ کے قول سےکہ آگ پر پکی چیز کے کھانے سے وضو کرنے نہ کرنے کے معاملہ میں ، نبی کریم ﷺ کا آخری عمل وضو نہ کرنا تھا، جسے امام ابو داؤد وغیرہ نے روایت کیا ہے  ۔ (شرح الزرقانی علی المؤطا :جلد ۱:صفحہ ۱۴۱)

(۶)         مشہور امام ومحدث ، حافظ بغوی ؒ (م۵۱۶؁ھ)  لکھتے ہیں :

وَذَهَبَ عَامَّةُ الْفُقَهَاءِ إِلَى أَنَّ أَكْلَ لَحْمِ الإِبِلِ لَا يُوجِبُ الْوُضُوءَ، وَتَأَوَّلُوا الْحَدِيثَ عَلَى غَسْلِ الْيَدِ وَالْفَمِ لِلنَّظَافَةِ، كَمَا رُوِيَ: أَنَّهُ عَلَيْهِ السَّلامُ مَضْمَضَ مِنَ اللَّبَنِ، وَقَالَ: «إِنَّ لَهُ دَسَمًا» وَخَصَّ لَحْمَ الإِبِلِ بِهِ، لِشِدَّةِ زُهُومَتِهِ.

قَالَ الْحَسَنُ: الْوُضُوءُ قَبْلَ الطَّعَامِ يَنْفِي الْفَقْرَ، وَبَعْدَهُ يَنْفِي اللَّمَمَ، وَالْمُرَادُ مِنْهُ: غَسْلُ الْيَدَيْنِ. قَالَ قَتَادَةُ: مَنْ غَسَلَ يَدَيْهِ فَقَدْ تَوَضَّأَ.

اکثر فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھانے کی وجہ سے وضو کرنا لازم نہیں، اور اس حدیث کی تاویل کی ہے کہ اس سے مراد صفائی کیلئے ہاتھ منہ دھونا ہے، جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے دودھ پی کر کلی کی ، اور ارشاد فرمایا کہ اس میں چکنائی ہے، اور اونٹ کے گوشت کو اس لئے خاص طورپر بیان فرمایا کہ اس میں بہت بو ہوتی ہے۔

حسن ؒ فرماتے ہیں : کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونے سے فقر دور ہوتا ہے، اور کھانے کے بعد دھونے سے دماغی خلل دور ہوتا ہے، قتادہ ؒ کہتے ہیں : جس نے ہاتھ دھویا اس نے وضو کیا۔ (شرح السنۃ للبغوی : جلد ۱ :صفحہ ۳۵۰)

(۷)        امام شمس الدین البرماویؒ (م۸۳۱؁ھ)  صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں:

كانَ مَنسوخًا لما سَبق من آخرِ الأَمرَين، أو يُحملُ على الاستِحبابِ للنَّظافَةِ، إذ أكلُ المَيتَةِ لا ينقُضُ الوُضوء، فالطَّاهرُ أَولى!

یہ حدیث منسوخ ہے ، اس حدیث کی وجہ سے جو پہلے گزری  (آگ پر پکی ہوئی چیز کھانے سے وضو کرنے نہ کرنے کے ) دونوں معاملوں میں سے آخری معاملہ والی ، یا یہ صفائی کیلئے وضو کے مستحب ہونے پر محمول ہے ، اس لئے کہ مردار کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو پاکیزہ چیز کھانے سے تو بدرجہ اولیٰ نہیں ٹوٹے گا ۔ (اللامع الصبیح بشرح الجامع الصحیح :جلد۲:صفحہ ۲۸۴:ح۲۱۱)

(۸)        مشہور محدث ،امام  ابن الملقن ؒ  (م۸۰۴؁ھ) صحیح بخاری کی شرح میں لکھتے ہیں :

وصح الأمر بالوضوء من لحوم الإبل من حديث البراء وجابر بن سمرة وقال به أحمد وجماعة أهل الحديث، وعامة الفقهاء على خلافه، وأن المراد به النظافة ونفي الزهومة۔

اونٹ کا گوشت کھاکر وضو کرنے کا حکم حضرت براء ؓاور حضرت جابر ؓکی حدیث سے ثابت ہے، امام احمد ؒ اور محدثین اسی کے قائل ہیں، اور اکثر فقہاء کا قول اس کے خلاف ہے، (ان کا کہنا ہے کہ ) اس سے مراد صفائی اور بو کو ختم کرنا ہے  ۔ (التوضیح لشرح الجامع الصحیح جلد۴: صفحہ ۳۶۸، لابن الملقن )

(۹)         امام محمد بن عبد اللطیف الکرمانی ابن ملک ؒ  (م۸۵۴؁ھ) مصابیح السنۃ کی شرح میں لکھتے ہیں:

والأولى: أن يحمل الوضوء في الحديث المتقدم على اللغوي، وهو النظافة وإزالة الزُّهومة، والأمر على الاستحباب بدليل ما قال الرجل: "أنتوضأ من لحوم الإبل؟ قال: نعم": لأن لحم الإبل له رائحة كريهة؛ بخلاف لحم الغنم، فعلى هذا لا يكون منسوخًا.

اور بہتر یہ ہے کہ پچھلی حدیث میں وضو کو لغوی معنی ٰ پر محمول کیا جائے، اور وہ صفائی اور بو کو دور کرنا ہے، اور یہ حکم استحبابی ہے ، اس دلیل سے کہ اس شخص نے کہا کیا ہم اونٹ کے گوشت سے وضو کریں توآپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں ، اس لئے کہ اونٹ کے گوشت کی بری بدبو ہوتی ہے ، برخلاف بکری کے گوشت کے ، تو اس تاویل کے مطابق یہ حدیث منسوخ نہیں ہے  ۔ (شرح المصابیح لابن ملک :جلد ۱:صفحہ ۲۳۸، ح ۲۰۸)

(۱۰)       حافظ مناوی ؒ  (م۱۰۳۱؁ھ) لکھتے ہیں:

 (توضأوا من لحوم الإبل) أي من أكلها فإنها لحوم غليظة زهمة فكانت أولى بالغسل من غيرها كلحوم الغنم وبهذا أخذ أحمد وابن راهويه وابن خزيمة وابن المنذر والبيهقي فنقضوا الوضوء بالأكل منها واختاره النووي من الشافعية والجمهور على عدمه وأجيب بأنه منسوخ أو محمول على الندب أو غسل اليد والفم وبأنه أكل لحم كتف شاة ولم يتوضأ والأصل عدم الاختصاص۔

(اونٹ کے گوشت سے وضو کرو) یعنی اس کے کھانے سے اس لئے کہ وہ سخت اوربد بو دار ہوتا ہے، تو بکری وغیرہ کے گوشت کے مقابلہ اسے بدرجہ اولیٰ دھویا جائے گا، امام احمد ، ابن راھویہ ، ابن خزیمہ ، ابن المنذر اور بیہقی وغیرہ نے اسی کو اختیار کیا ہے، ان کے نزدیک اسے کھانے سے وضو ٹوٹ جائے گا، یہی قول شافعیہ میں سے امام نووی ؒ نے بھی اختیار کیا ہے، جبکہ جمہور وضو نہ ٹوٹنے کے قائل ہیں، اور اس حدیث کا یہ جواب دیا گیا کہ وہ منسوخ ہے، یا استحباب پر محمول ہے، یا اس میں وضو سے مراد ہاتھ منہ دھونا ہے، اور یہ کہ آپ ﷺ نے شانے کا گوشت تناول فرمایا مگر وضو نہیں فرمایا ، اور اصل یہ ہے کہ آپ کی خصوصیت نہ ہو ۔  (فیض القدیر للمناوی :جلد۳: ۲۷۵:ح۳۳۸۴)

تلک عشرۃ کاملۃ

یہ دس محدثین کی شہادتیں (شروحات ) ہیں ۔ ان تمام کا خلاصہ یہ ہے کہ لحم الابل سے وضو کی حدیث یا تو منسوخ ہے یا اس سے مراد نظافت  کیلئے ہاتھ دھونا ، کلّی کرنا ہے ۔ اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد نظافت کا حکم خاص طور پر اسلئے دیا کیوں کہ اونٹ کے گوشت میں چکنائی بہت ہوتی ہے ۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ :

(۱)         آپ ﷺ نے جس طرح اونٹ کے گوشت سے وضو کا حکم فرمایا ، اسی طرح اونٹنی کے دودھ سے بھی وضو کا حکم فرمایا (جس کی تفصیل ان شاء اللہ آگے درج ہے ) اور دودھ سے وضو کی وضاحت خود نبی کریم ﷺ کی دوسری حدیث سے ہوتی ہے ، کہ دودھ پی کر آپ نے کلّی کی اور فرمایا اس میں چکنائی ہوتی ہے۔ (صحیح البخاری : ح۲۱۱،و ح ۵۶۰۹۔ صحیح مسلم :ح۳۵۸)

اس سے معلوم ہوا کہ اونٹ کے گوشت سے بھی جو وضو کا حکم دیا ہے اس سے مراد بھی ہاتھ دھونا اور کلّی کرنا ہی ہے، کیونکہ اس میں بھی چربی بہت ہوتی ہے ۔

(۲)         امام البیھقی ؒ (م۴۵۸؁ھ) نے صیغہ جزم کے ساتھ سفیانؒ ثوری سے تعلیقاًروایت نقل کی ہے کہ  حضرت جابر بن سمرۃ ؓ فرماتے ہیں :  ہم لوگ  اونٹنی کے دودھ سے کلّی کیا کرتے تھے اور بکری کا دودھ پی کر کلی نہیں کیا کرتے تھے  ، اور ہم اونٹ کے گوشت سے وضو کیا کرتے تھے اور بکری کے گوشت سے وضو نہیں کرتے تھے ۔  (السنن الکبریٰ للبیھقی :جلد ۱:صفحہ ۲۴۴:ح۷۳۷)

لہذا معلوم ہوا جس طرح لبن الابل سے وضو سے مراد کلی کرنا ہے ، اسی طرح لحم الابل سے وضو سے مراد بھی کلّی کرنا،  اور ہاتھ دھونا ہے ۔ 

حضرت انس ؓ کے شاگرد اور مشہور محدث، امام قتادہ ؓ  (م۱۱۸؁ھ) فرماتے ہیں جس نے ہاتھ دھویا اس نے وضو کیا۔  مشہور محدث ومصنف امام بغوی ؒ (م۵۱۶؁ھ) نے لحم الابل سے وضو کی حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے امام قتادہ ؒ کے اسی قول سے استدلال کیا ہے ۔ الفاظ یہ ہیں۔’’قَالَ قَتَادَةُ: مَنْ غَسَلَ يَدَيْهِ فَقَدْ تَوَضَّأَ‘‘۔ (شرح السنۃ للبغوی : جلد ۱ :صفحہ ۳۵۰)

(۳)        حضرت عبد اللہ بن عمرؓ جو لحم الابل اور لبن الابل سے وضو کی حدیث کے راوی ہیں ، وہ خود لحم الابل سے وضو کے قائل نہیں ، جیسا اوپر ابن ابی شیبہ کے حوالہ سے ان کا  قول وعمل نقل کیا گیا۔

لبن الابل سے وضو کے دلائل  :

(۱)         امام ابن ماجہ ؒ (م۲۷۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى،[34] حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ،[35] حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ،[36] عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ عُمَرَ بْنِ هُبَيْرَةَ الْفَزَارِيِّ،[37] عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ،[38] قَالَ: سَمِعْتُ مُحَارِبَ بْنَ دِثَارٍ[39] قال: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يَقُولُ: "تَوَضَّؤوا مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ، وَلَا تَوَضَّؤوا مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ، وَتَوَضَّؤوا مِنْ أَلْبَانِ الْإِبِلِ، وَلَا تَوَضَّؤوا مِنْ أَلْبَانِ الْغَنَمِ۔

عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اونٹ کے گوشت سے وضو کرو، اور بکری کے گوشت سے وضو نہ کرو، اور اونٹ کے دودھ سے وضو کرو، اور بکری کے دودھ سے وضو نہ کرو ۔  (سنن ابن ماجۃ : ۱ : ۳۱۳ ، ح : ۴۹۸)[40]                  

(۲)         الامام محمد بن ھارون الرویانی  (م۳۰۷؁ھ) فرماتے ہیں کہ

مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ،[41] نَا عَلِيُّ بْنُ عَيَّاشٍ،[42] نَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ[43] نَا الضَّحَّاكُ بْنُ حُمْرَةَ[44] , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى،[45] عَنْ ثَابِتِ بْنِ قَيْسِ بْنِ شَمَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ وَأَلْبَانِهَا، وَلَا تَوَضَّئُوا مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ وَأَلْبَانِهَا۔

ثابت بن قیس بن شماس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ سے وضو کرو، اور بکری کے گوشت اور اس کے دودھ سے وضو نہ کرو۔ (رواہ الامام محمد بن ھارون الرویانی (م۳۰۷) فی مسندہ : ۲ :۱۷۵ ،ح: ۱۰۰۴)

(۳)        امام ابو یعلی الموصلی ؒ (م۳۰۷؁ھ)  کہتے  ہیں کہ

حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَرْعَرَةَ،[46] حَدَّثَنَا مُعْتَمِرُ بْنُ سُلَيْمَانَ،[47] عَنْ لَيْثٍ،[48] عَنْ مَوْلًى لِمُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، أَوْ عَنِ ابْنٍ لِمُوسَى بْنِ طَلْحَةَ،[49] عَنْ أَبِيهِ،[50] عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: «كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ مِنْ أَلْبَانِ الْإِبِلِ، وَلُحُومِهَا ۔۔۔۔۔ وَلَا يَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِ الْغَنَمِ وَأَلْبَانِهَا۔

موسی بن طلحہ کے صاحبزادے روایت کرتے ہیں اپنے والد سے اور وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد سے کہ نبی کریم ﷺ اونٹ کے گوشت اور اس کے دودھ سے وضو کیا کرتے تھے اور بکری کے گوشت اور اس کے دودھ سے وضو نہیں کرتے تھے  ۔ (رواہ الامام ابو یعلیٰ الموصلی ۲: ۷ : ۶۳۲)

(۳)        امام ابن تیمیہ ؒ (م۷۲۸؁ھ) کہتے ہیں کہ

 وَعَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - قَالَ: " تَوَضَّأْ مِنْ لُحُومِ الْإِبِلِ وَأَلْبَانِهَا» " رَوَاهُ الشَّالَنْجِيُّ بِإِسْنَادٍ جَيِّدٍ۔

علامہ ابن تیمیہ ؒ نے اونٹ کے دودھ سے وضو کرنے کی حدیث کی سند کو ’’ جید ‘‘ کہا ہے ۔ (شرح العمدۃ لابن تیمیۃ ، کتاب الطہارۃ : ۳۳۵)، علامہ ابن تیمیہؒ کی طرح شیخ ابن العثیمینؒ نے بھی اسکی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے ۔ البتہ بعض علماء نے اسے ضعیف بھی کہا ہے۔ (الشرح الممتع علی زاد المستقنع ۱: ۳۰۶)

ان تینوں روایتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ ﷺ نے اونٹ کے گوشت کی طرح  اس کے دودھ سے بھی وضو کا حکم فرمایا ۔ جس کی وضاحت خود نبی کریم ﷺاور صحابہ کرام  کے عمل سے ہوتی ہے۔ (دونوں کے حوالے اوپر گزر چکے )

خامساً: (حافظ ابو یحیٰ نور پوری کے مضمون پر ایک نظر)

(۱)         نور پوری صاحب  نے امام ترمذی ؒ  (م۲۷۹؁ھ) سے نقل کرتے ہیں  :

’’وقد روی عن بعض أھل العلم من التابعین وغیرھم :أنھم لم یروا الوضو من لحوم الابل ، وھو قول سفیان وأھل الکوفۃ‘‘۔(ماہنامہ السنہ : شمارہ ۵ : ص ۳۵) اور پھر خاموشی سے گزر جاتے ہیں ، حالانکہ یہ عبارت مختلف فیہ ہے ، ترمذی کے تمام نسخوں میں موجود نہیں ۔

مشہور سلفی محقق شیخ بشار عواد لکھتے ہیں :

جاء فی نسخۃ العلامۃ عابد السندی بعد ھذا : وھو قول أحمد وإسحاق ، وقد روي عن بعض أھل العلم من التابعین وغیرھم أنھم لم یروا الوضوء من لحوم الإبل ، وھو قول سفیان الثوری وأھل الکوفۃ ۔ ولم نجدہ فی النسخ الخطیۃ ولا فی الشروح ، لذلک لم نستسغ إبقاءہ فی المتن ۔

علامہ عابد سندھو کے نسخہ میں اس کے آگے یہ عبارت ہے :  

یہ امام احمد اور اسحاق کا قول ہے ، اور تابعین وغیرہ بعض اہل علم سے مروی ہے کہ وہ اونٹ کے گوشت وضو کے قائل نہیں ہیں ، اور وہ سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا قول ہے ، ہم نے یہ عبارت کسی بھی مخطوطہ اور شرح میں نہیں پائی ، اس لئے اسے متن میں باقی رکھنے کے لائق نہیں سمجھا ۔ (سنن الترمذی ، بتحقیق الشیخ بشار عواد:صفحہ ۱۲۴)

               اس کی طرف شیخ احمد شاکرؒ نے بھی اپنے نسخہ میں اشارہ کیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ امام ترمذی ؒ کا ’’ عن بعض أھل العلم‘‘ کہنا یہ مختلف فیہ ہے ، کئی مخطوطات میں یہ عبارت موجود نہیں ۔  اگر یہ عبارت ثابت بھی مان جائے ،تب بھی یہ دیگر شراح حدیث کی عبارتوں کے خلاف ہے ۔

اس بارےمیں فقہاء کی آراء تو بہت سی شروحات حدیث میں موجود ہے ، جیسا کہ آگے ہم نقل کریں گے ، مگر موصوف نے وہاں سے نقل کرنے کی بجائےصرف امام ترمذی کا قول نقل کردیا ،  تاکہ حقیقت کو چھپایا جاسکے اور احناف کے خلاف (اس مختلف فیہ عبارت کے ذریعہ ) چوٹ کرنےکا موقع ہاتھ سے نہ جائے ۔

               علماء اہل حدیث ،احناف کے خلاف علماء کی عبارتیں نقل کرنے میں عموماً اسی طرح کی حرکتیں کرتے ہیں۔ نیز امید ہے کہ  پھر شیخ ہاشم سندھو کی نسخہ کے مطابق اگراحناف، ابن ابی شیبہ  میں تحت السرۃ کا لفظ مان لیں تو ناراض تو نہیں ہوں گے؟

(۲)         نور پوری صاحب کہتے ہیں :           ’’ مذہب احناف اور اس کے دلائل ‘‘

دوسری جگہ لکھتے ہیں : ’’مزے کی بات تو یہ ہے کہ یہ لوگ اس مذہب کو امام ابو حنیفہ سے بھی باسند صحیح ثابت کرنے سے قاصر ہیں‘‘۔(ص ۳۸)

لیجئے ، نہ صرف امام ابو حنیفہ بلکہ امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کے حوالےبھی  بسند صحیح ملاحظہ فرمائیے  :

(۱)         امام محمدبن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ)  سے  الامام الفقیہ ابو سلیمان الجوزجانی ؒ   [صدوق][51]کہتے ہیں  :

قلت أَرَأَيْت الطَّعَام هَل ينْقض شَيْء مِنْهُ الْوضُوء مثل لُحُوم الْإِبِل أَو الْبَقر أَو الْغنم أَو اللَّبن أَو غير ذَلِك مِمَّا مسته النَّار قَالَ لَيْسَ شَيْء من الطَّعَام ينْقض الْوضُوء إِنَّمَا الْوضُوء ينْتَقض مِمَّا يخرج وَلَيْسَ مِمَّا يدْخل ۔

میں نے کہا : کیا ( کوئی چیز) کھانے سے وضو ٹوٹ جائیگا ، جیسے اونٹ ، گائے ، بکری کا گوشت یا ان کا دودھ ، یا ان کے علاوہ کوئی اور چیز جسے آگ نے چھوا ہو؟  تو امام محمدؒنے فرمایا : کسی چیز کے کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا، وضو تو اس چیز سے ٹوٹتا ہے جو ( جسم سے ) باہر نکلتی ہے نہ کہ اس چیز سے جو ( جسم میں )داخل ہوتی ہے ۔ (کتاب الاصل  المعروف بالمسوط للامام محمد بن حسن الشیبانی : جلد۱ : صفحہ ۵۹) یہی قول  امام ابو حنیفہ ؒ  (م۱۵۰؁ھ) اور امام ابو یوسف ؒ (م۱۸۳؁ھ) کا بھی ہے۔(کتاب الاصل  المعروف بالمسوط للامام محمد بن حسن الشیبانی : جلد۱ :ص ۱-۲)

(۲)         امام مالک ؒ  (م۱۷۹؁ھ) فرماتے ہیں :

وَقَالَ مَالِكٌ: لَا يَتَوَضَّأُ مِنْ شَيْءٍ مِنْ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ وَلَا يَتَوَضَّأُ بِشَيْءٍ مِنْ أَبْوَالِ الْإِبِلِ وَلَا مِنْ أَلْبَانِهَا، قَالَ: وَلَكِنْ أَحَبُّ إلَيَّ أَنْ يَتَمَضْمَضَ  مِنْ اللَّبَنِ وَاللَّحْمِ وَيَغْسِلَ الْغُمَرَ إذَا أَرَادَ الصَّلَاةَ.

امام مالک ؒ  فرماتے ہیں کھانے پینے کی کسی بھی چیز کی وجہ سے وضو نہیں کیا جائے گا، اور نہ اونٹ کے پیشاب یا دودھ کی وجہ سے وضو کیا جائے گا، لیکن مجھے پسند ہے کہ دودھ اور گوشت کی وجہ سے کلی کرلی جائے ، چکنائی دھولی جائے ، جب نماز کا ارادہ کرے  ۔ (المدونۃ : جلد ۱: ۱۱۵)

(۳)         امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) فرماتے ہیں:

[بَابٌ لَا وُضُوءَ مِمَّا يَطْعَمُ أَحَدٌ]

(قَالَ الشَّافِعِيُّ) أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ رَجُلَيْنِ أَحَدُهُمَا جَعْفَرُ بْنُ عَمْرِو بْنِ أُمَيَّةَ الضَّمْرِيُّ عَنْ أَبِيهِ «أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - أَكَلَ كَتِفَ شَاةٍ ثُمَّ صَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ» (قَالَ الشَّافِعِيُّ) : فَبِهَذَا نَأْخُذُ فَمَنْ أَكَلَ شَيْئًا مَسَّتْهُ نَارٌ أَوْ لَمْ تَمَسَّهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ وُضُوءٌ۔۔۔۔

وَكُلُّ حَلَالٍ أَكْلُهُ أَوْ شُرْبُهُ فَلَا وُضُوءَ مِنْهُ كَانَ ذَا رِيحٍ أَوْ غَيْرَ ذِي رِيحٍ شَرِبَ ابْنُ عَبَّاسٍ لَبَنًا وَلَمْ يَتَمَضْمَضْ قَالَ: مَا بَالَيْتُهُ بَالَةً.

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : ہمیں خبر دی سفیان بن عیینہ نے وہ روایت کرتے ہیں زہری سے ، وہ روایت کرتے ہیں وہ دولوگوں سے ، جن میں سے ایک جعفر بن عمرو بن امیہ الضمری ہیں، وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد صاحب سے کہ رسول اللہ ﷺ نے شانہ کا گوشت تناول فرمایا پھر نماز پڑھی اور وضو نہیں فرمایا  ۔

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں : ہم اسی سے دلیل پکڑے ہیں ، پس کوئی شخص کوئی چیز کھائے چاہے وہ آگ پر پکی ہوئی یا نہ پکی ہوئی ہو، اس پر وضو نہیں ہے۔

اور ہر وہ چیز جس کا کھانا پینا حلال ہو اس کی وجہ سے وضو نہیں کیا جائے گا، چاہے اس میں بو ہو یا نہ ہو ، ابن عباس ؓ نے دودھ پیا اور کلی نہیں کی ، اور فرمایا میں اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ (الام للامام الشافعی ؒ: جلد ۱:صفحہ ۳۵)

یہ تینوں کتابیں خود ان اماموں کے شاگردوں نے ان سے نقل کی ہیں :  بلکہ سلفی علماء نے امام احمد ؒ سے بھی ایک قول یہی نقل کیا ہے :

مشہور سلفی عالم شیخ عطیہ سالم ؒ لکھتے ہیں :

وأما أحمد رحمه الله فيقول بالوضوء من لحم الإبل، وهذا هو مشهور المذهب، وإن كان هناك عن أحمد رواية أخرى توافق الأئمة الثلاثة۔

امام احمد ؒ لحم الابل سے وضو کے قائل ہیں ، ان کا مشہور مذہب یہی ہے، اگر چہ ان سے ایک روایت ائمہ ثلاثہ کے موافق بھی ہے۔ (شرح بلوغ المرام لعطیۃ سالم :۲۴ :۷)

آنجناب کا مبلغ علم یہ ہے کہ ائمہ کی کتابوں کا بھی پتہ نہیں، اس پر انانیت کا یہ عالم ؟لا حول ولا قوہ إلا باللہ

(۳)        نور پوری صاحب لکھتے ہیں : ’’ اس مسئلہ میں بھی جمہور موافق حدیث ہیں ‘‘۔(ص ۳۸)

آئیے دیکھتے ہیں  محدثین  ،منصف مزاج اور سلفی علماء کیا کہتے ہیں:

(۱)         اعلم الائمہ باختلاف العلماء ،امام  محمد بن  نصر المروزی ؒ   (م۲۹۲؁ھ) کہتے ہیں :

قَالَ سُفْيَان: ولا وضوء من طعام ولا شراب لبنا كَانَ أَوْ غيره ولا من طعام مسته النار من لحم جزور أَوْ بقرة أَوْ شاة. وهكَذَا قَالَ الْكُوْفِيُّوْنَ وكذَلِكَ قَالَ مَالِكٌ والشَّافِعِيُّ

وَقَالَتْ طَائِفَةٌ من أَصْحَاب الْحَدِيْث: لَا يتوضأ من شَيْء مسته النار أَوْ لم تمسه من طعام ولا شراب إِلَّا من لحم الجزور وممن قَالَ ذَلِكَ أَحْمَد بْن حَنْبَلٍ وإِسْحَاق وأَبُوْثَوْرٍ وغيرهم من أَصْحَاب الْحَدِيْث ذهبوا إِلَى حَدِيْث البراء وجابر بْن سمرة۔

سفیان ؒ کہتے ہیں کھانے پینے سے وضو نہیں ہے، چاہے وہ دودھ ہو یا کچھ اور، اور آگ پر پکے  ہوئے اونٹ ، گائے اور بکری کے گوشت کے کھانوں سے بھی وضو نہیں کیا جائے گا، اسی طرح کوفہ والوں کا قول ہے ، اور اسی طرح امام مالک اور شافعی رحمہم اللہ بھی فرماتے ہیں۔

اور محدثین کی ایک جماعت کا کہنا ہے کہ کسی کھانے سے وضو نہیں کیا جائے گا ، چاہے وہ آگ پر پکا ہو یا نہ پکا ہو ،سوائے اونٹ کے گوشت کے ، یہ امام احمد ، اسحق، اور ابو ثور ان کے علاوہ دوسرے محدثین کاقول ہے ، اس کا مستدل حضرت براءؓ اور حضرت جابر بن سمرۃ ؓکی حدیث  ہے ۔ (اختلاف الفقھاء للمروزی :جلد ۲:صفحہ۱۰۰)[52]

(۲)          سلفی عالم شیخ عبد الکریم الخضیر کہتے ہیں:

فذهب الأكثرون إلى أنه لا ينقض، وممن ذهب إليه الخلفاء الأربعة وابن مسعود وأبي بن كعب وابن عباس وأبو الدرداء وجماهير التابعين ومالك وأبو حنيفة والشافعي،هذا قول الجمهور بلا شك، يعني قول الأكثر أنه لا ينقض.

اکثر لوگوں کا مذہب یہ ہے کہ وضو نہیں ٹوٹے گا ، اور اس قول کی طرف گئے ہیں خلفاء راشدین ، ابن مسعود ، ابی بن کعب ، ابن عباس ، ابو الدرداء ، اور جماہیر تابعین ، اور امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، اور امام شافعی اور بے شک یہی جمہور یعنی اکثر علماء کا قول ہے کہ وضو نہیں ٹوٹے گا۔ (شرح سنن الترمذی ،عبد الکریم الخضیر :۱۹:۱۹)

(۳)        سلفی سعودی عالم شیخ راجحی کہتے ہیں :

وذهب الجمهور إلى أن لحم الإبل لا ينقض الوضوء۔

جمہور اس طرف گئے ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا  ۔ (شرح سنن الترمذی للراجحی :۸ :۱۴)

(۴)        سلفی عالم اورموجودہ محدث مدینہ شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں:

وذهب أكثر الفقهاء إلى عدم الوضوء من لحم الإبل۔

اکثر فقہاء اس طرف گئے ہیں کہ لحم الابل سے وضوکی ضرورت نہیں  ۔ (شرح سنن ابی داؤد للعباد: ۳۱ : ۳)

(۵)        موسوعہ کویتیہ  میں:

ذهَبَ جُمْهُورُ الْعُلَمَاءِ إِلَى أَنَّ أَكْل لَحْمِ الْجَزُورِ - وَهُوَ لَحْمُ الإْبِل - لاَ يَنْقُضُ الْوُضُوءَ۔

جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا   ۔ (الموسوعۃ الفقھیۃ الکویتیۃ :جلد ۸:صفحہ۴۲)

(۶)         مصری دار الافتاء کا فتویٰ ہے :

ذهب أكثر العلماء إلى أن أكل لحوم الإبل لا ينقض الوضوء۔

اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔ (فتاویٰ دار الافتاء المصریۃ : ۸: ۴۲۸)

(۷)        شیخ وہبہ الزحیلیؒ فرماتے ہیں :

وقال الجمهور غير الحنابلة؛ لا ينقض الوضوء بأكل لحم الجزور۔

حنابلہ کے علاوہ جمہور کا کہنا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹے گا ۔ (الفقہ الاسلامی :جلد۱:صفحہ ۴۳۵)

(۸)        سلفی عالم شیخ ابو مالک کمال بن السید سالم لکھتے ہیں :

ذهب جمهور العلماء: أبو حنيفة ومالك والشافعي والثوري وطائفة من السلف إلى أنه لا يجب الوضوء من أكل لحوم الإبل۔

جمہور علماء ابو حنیفہ ، مالک ، شافعی ، ثوری، اور سلف کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو واجب نہیں ۔ (صحیح فقہ السنۃ وأدلتہ وتوضیح مذاھب الأئمۃ : جلد ۱: صفحہ ۱۳۷)

(۹)      سلفی عالم شیخ ابو عمر دبیان بن محمد الدبیان (مستشار شرعي في وزارة الشؤون الإسلامية بالقصيم) لکھتے ہیں:

فقيل: لا ينقض الوضوء، وهو مذهب الجمهور۔

کہا گیا ہے کہ وضو نہیں ٹوٹے گا ، یہی جمہور کا مذہب ہے  ۔ (موسوعۃ أحکام الطھارۃ :۱۰ : ۸۳۳)

(۱۰)       سعودی عرب کے سلفی کبار علماء لکھتے ہیں :

الناقض السابع من نواقض الوضوء عند الحنابلة، وهو أيضًا من مفردات الإمام أحمد -رحمه الله- وخالف جمهور أهل العلم أحمد في هذا الناقض فقالوا: بأن أكل الجزور لا ينقض مطلقًا۔

وضو کو توڑنے والی چیزوں میں سے حنابلہ کے نزدیک ساتویں چیز، اور یہ بھی امام احمد ؒ کے مفردات میں سے ہے ، وضو کو توڑنے والی اس چیز میں جمہور نے امام احمد ؒ کے مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ اونٹ کا گوشت کھانے سے مطلقاً وضو نہیں ٹوٹے گا ۔ (الفقہ المیسر :جلد۱ :صفحہ ۷۶)

تلک عشرۃ کاملۃ ۔

یہ دس گواہیاں  ہیں، ان میں سے کوئی بھی عالم  حنفی نہیں ، اور اکثر لحم الابل سے نقض وضو کے قائل ہیں ، مگر انہوں نے انصاف کے ساتھ یہ لکھا کہ جمہور العلماء لحم الابل کھانے سے عدم نقض وضو کے قائل ہیں ، یہ صرف احناف کے تفردات میں سے نہیں ، اس کے برعکس خود سلفی  علماء نے تصریح کی ہے کہ یہ مسئلہ ائمہ اربعہ میں سے  امام احمد ؒ کے مفردات میں سے ہے۔(الفقہ المیسر :جلد ۱:صفحہ ۷۶)

مگر نور پوری صاحب نے اپنے مسلکی تعصب کے تحت اس مسئلہ کو صرف احناف کا مسئلہ لکھا دیا۔  کوئی بات نہیں ، ہم انہیں معذور سمجھتے ہیں، یہ غیر مقلدین علماء کی مجبوری ہے ۔

(۴)        نور پوری صاحب  فرماتے ہیں :  ’’ کئی مقامات پر جمہور تو درکنار ، اجماع کی بھی پرواہ نہیں کرتے ‘‘۔(ص ۳۷)

حضرت!  ۲۰ رکعات تراویح کا مسئلہ ہو، تین طلاق کا مسئلہ ہو،جمعہ کی اذان ثانی کا مسئلہ ، لحم الابل سے نقض وضو کا مسئلہ، تمام میں آپ جمہور کے خلاف ہیں ، اور الزام احناف کو دیتے ہیں ۔

لا تنہ عن خلق وتأتی مثلہ        عار علیک إذا فعلت عظیم

(۵)        نور پوری صاحب  فرماتے ہیں : ’’ جمہور کی خلاف سنت بات نہیں مانی جاسکتی ‘‘ ۔ (ص ۳۵)

غیر مقلدین کے محدث زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ اگر محدثین میں اختلاف ہو تو جمہور کے قول کو اختیار کیا جائے گا۔  (مقالات : ج۶:ص۱۴۲-۱۴۳) جمہور فقہاء کے قول کا کوئی اعتبار نہیں مگر جمہور محدثین کے قول کا اعتبار کیا جائے گا ، اس فرق پر قرآن کی کوئی آیت یا کوئی صحیح حدیث ہمیں نہیں ملی ۔

(۶)         نور پوری صاحب  فرماتے ہیں : ’’ حافظ نووی کی یہ بات صحیح نہیں کہ جمہور کے ہاں اونٹ کا گوشت کھانے سے وضو نہیں ٹوٹتا، نیز یہ کہ خلفاء اربعہ کا یہی مذہب ہے‘‘۔  اور آگے امام ابن تیمیہ ؒ سے نقل کیا ہے : ’’ وأما من نقل عن الخلفاء الراشدین أو جمہور الصحابۃ أنھم لم یکونوا یتوضؤن من لحوم الابل ، فقط غلط علیھم ‘‘۔(ص ۳۸)

آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ  امام نووی ؒ نے جو بات فرمائی ہے وہی بات ان علماء حدیث نے بھی لکھی ہے :

(۱)         سلفی عالم شیخ سید سابق ۔ (فقہ السنۃ :جلد :۵۵) 

(۲)          سلفی عالم علامہ شوکانی ؒ ( امام نووی ؒ کے حوالہ سے بغیر رد کے نقل کرتے ہیں ) ۔(نیل الاوطار : جلد ۱: صفحہ ۲۵۳)

(۳)         غیر مقلد عالم شیخ شرف الحق عظیم آبادیؒ ۔ (عون المعبود :جلد۱:صفحہ ۲۱۷)

(۴)         غیر مقلد عالم شیخ عبد الرحمن مبارکپوری ؒ (امام نوویؒ سے بغیر رد کے نقل کرتے ہیں )۔(تحفۃ الاحوذی :جلد ۱:صفحہ ۲۲۱)

(۵)        سلفی عالم شیخ یحیٰ آدم الاثیوبیؒ (امام نوویؒ سے بغیر رد کے نقل کرتے ہیں )۔ (ذخیرۃ العقبی :جلد۴:صفحہ ۱۱۱)[53]

 (۶)         سلفی عالم شیخ عبد الکریم الخضیر (امام نووی ؒ سے بغیر رد نقل کرتے ہیں )۔ (شرح سنن الترمذی :ج۱۹ :ص۱۹)

(۷)         سلفی عالم شیخ عبد العزیز الراجحی(امام نوویؒ سے بغیر رد کے نقل کرتے ہیں ) ۔(شرح جامع الترمذی :ج۸:ص ۱۴)

(۸)        سلفی عالم شیخ خلیل بن ابراہیم ملا    خاطر(امام نووی ؒ سے بغیر رد کے نقل کرتے ہیں ) ۔(مجموعة الحديث على أبواب الفقه :ج۱ :ص ۱۰۹، مطبوع ضمن مؤلفات الشيخ محمد بن عبد الوهاب، الجزء السابع، الثامن، التاسع، العاشر)

(۹)         غیر مقلدین کے ’’امام‘‘  سیوطی ؒ(م۹۱۱؁ھ) ۔ (شرح سنن ابن ماجہ :۳۸،امین اوکاڑوی کا تعاقب : ص۲۷)

(۱۰)       شیخ حسين بن محمد بن سعيد اللاعيّ(م۱۱۱۹؁ھ)[54] نہ صرف یہ کہ یہ بات نقل کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ایک مرفوع حدیث بھی نقل کی ہے :

وأقرب ما يستروح له من تقوية النسخ موافقة الخلفاء الأربعة وأكابر الصحابة والتابعين، وأظهر من ذلك ما رواه في "الشفاء" عن علي - رضي الله عنه - قال: اعتكف رسول الله صلى الله عليه وسلم العَشْر الأواخر من شهر رمضان المُعَظَّم، فلما نادى بلال بالمغرب أُتِيَ رسول الله صلى الله عليه وسلم بكَتِف جَزُور مشوية، فأمر بلالا فكَفَّ هنيهة، فأكل - عليه السلام - وأكلنا، ثم دعا بلبن إبل قد مذق له، فشرب وشربنا، ثم دعا بالغسل فغسل يده من غمر اللحم ومضمض فاه ثم تقدم فصلى بنا ولم يحدث طهورا.

سب سے قریب چیز جس سے اس کے نسخ کا پتہ چلتا ہے ، وہ خلفاء راشدین اور بڑے بڑے صحابہ وتابعین کی موافقت ہے ، اس سے بھی زیادہ ظاہر وہ روایت ہے جسے الشفاء میں حضرت علی ؓ سے روایت کیا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ رمضان المعظم کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتھے  ،  جب حضرت بلال ؓ نے مغرب کی اذان دی ، تو آپ ﷺ کے پاس اونٹنی کا بھنا ہوا شانہ کا گوشت لایا گیا، آپ نے حضرت بلال کو تھوڑی دیر توقف کرنے کا حکم فرمایا ، پھر آپ ﷺنے اور ہم نے اسے کھایا ، اس کے بعد آپ نے اونٹنی کا دودھ طلب فرمایا جس میں آپ کیلئے پانی ملا یا گیا تھا، آپ ﷺ نے اور ہم نے اسے پیا ، پھر آپ نے دھونے کیلئے پانی منگایا اورہاتھ سے گوشت کی چکنائی کو دھویا  ، کلی کی ، پھر آگے بڑھ کر نماز پڑھائی اور تازہ وضو نہیں فرمایا ۔ (البدر التمام شرح بلوغ المرام :جلد ۲:صفحہ ۴۴)

تلک عشرۃ کاملۃ

یہ دس گواہیاں ہیں کہ امام نووی ؒ کا خلفاء اربعہ  اور جمہور کی طرف لحم الابل سے عدم نقض وضو کا قول منسوب کرنا غلط نہیں ہے، یقیناً ان کے پاس اس کی کوئی دلیل ہوگی ، کبار علماء کی اس طرح تغلیط نے ہی انکار حدیث کا دروازہ کھولا ہے۔[55]

 

 



[1] تاریخ بغداد : ج۱۵ : ص ۲۶،ت بشار

[2]  اس روایت میں امام ابو زبیر المکی ؒ(م ۱۲۶؁؁ھ) پر تدلیس کا الزام مردود ہے۔ تفصیل ص: ۲۳۱پر  موجود ہے۔

[3] یحییٰ بن ایوب بن بادی الخولانی العلاف : صدوق (تقریب )۔

[4] سعید بن الحکم ابن ابی مریم : ثقہ ثبت۔(تقریب )

[5] یحییٰ بن ایوب الغافقی: صدوق ربما أخطأ(تقریب ) ( روی لہ البخاری ومسلم)۔

[6] عبید اللہ بن زحر : صدوق یخطئ (تقریب ) وثقہ الامام البخاری کما نقل عنہ الامام الترمذی فی سننہ (رقم الحدیث ۲۷۳۱)

[7] علی بن یزید الالھانی: ضعیف (تقریب) 

[8] قال الشیخ الحوینی  :  وغلا ابنُ حبان فقال في "المجروحين" (2/ 62 - 63): "إذا اجتمع في إسناد خبرٍ: عبيد الله بن زحر، وعليّ بن يزيد, والقاسم أبو عبد الرحمن، لا يكون متن ذلك الخبر إلا مما عملته أيديهم! فلا يحلُّ الاحتجاج بهذه الصحيفة‘‘. (نثل النبال فی معجم الرجال : جلد ۲ :صفحہ ۵۶۰)

[9] وقال الامام ابن القیم :هذا الحديث وإن كان مداره على: عبيد الله بن زَحْرٍ، عن علي بن يزيد الأَلْهَانِي، عن القاسم - فعبيد الله بن زَحْر: ثقةٌ، والقاسمُ: ثقة، وعليٌّ: ضعيفٌ - إلا أن للحديث شواهد ومتابعات، سنذكرها إن شاء الله، ويَكْفِي تفسير الصحابة والتابعين۔۔۔۔  (إغاثۃ اللھفان : جلد ۱: صفحہ ۲۳۹)

[10] یقول الشیخ جمال بن محمد السید : وأما عليُّ بن يزيد الألهاني، شيخ عبيد الله السابق: فقد "اتفق أهل العلم على ضعفه". كما قال السَّاجي رحمه الله.وأما القاسم بن عبد الرحمن: فقد اختلفت فيه أقوال الأئمة أيضاً، وقال أبو حاتم: "حديث الثقات عنه مستقيم لا بأس به، وإِنَّمَا يُنْكَرُ عنه الضعفاء".قلت: وهذا الحديث من رواية ضعيف عنه، وهو: علي بن يزيد.فَتَلَخَّصَ من ذلك: أن هذا الإسناد ضعيفٌ لا تقوم بمثله حُجَّةٌ، ولكن وُجدَت متابعات لعبيد الله بن زحر، وعلى بن يزيد، وربما تَصْلُحُ لتقوية هذا الحديث. (ابن القیم الجوزیۃ وجہودہ فی خدمۃ السنۃ النبویۃ : جلد ۳ : صفحہ ۶۴، طبعۃ عمادۃ البحث العلمی ، بالجامعۃ الاسلامیۃ بالمدینۃ المنورۃ )

[11] محمد بن خزیمہ بن راشد البصری شیخ الطحاوی :ثقۃ۔(میزان :۷۴۸۶ولسان:۶۷۵۱ ، الثقات للقاسم:۹۷۰۰ ، التذییل علی کتاب الجرح والتعدیل : ۷۲۶) 

[12] حجاج بن منہال و حماد بن سلمہ: ثقۃ(تقریب : ۱۱۳۷) 

[13]  ابو غالب صاحب ابی امامۃ :صدوق یخطئ (تقریب :۸۲۹۸)

[14] ابو علی الحسین بن محمد الطوسی الفقیہ الروذباری (م ۴۰۳؁ھ) ثقہ فقیہ ۔ (السلسبیل النقی :صـ ۳۳۶ :  الترجمۃ ۵۸)

[15] محمد بن محمد بن یوسف  ابو النضر الطوسی الفقیہ (م ۳۴۴؁ھ ): ثقہ (الروض الباسم  : ج ۲ :صـ ۱۲۵۱،الترجمۃ : ۱۰۸۲)

[16] عثمان بن سعید الدارمی :ثقہ ۔ (الثقات للقاسم :ج ۷ :صـ ۸۴:  الترجمۃ :۷۶۳۶)

[17] محمد بن کثیر العبدی ثقۃ (تقریب)

[18] اسرائیل بن یونس السبیعی :ثقۃ (تقریب ) وروی  لہما الشیخان ۔

[19] عبد الاعلیٰ بن عامر  الثعلبی : صدوق یھم ۔ (تقریب : ۳۷۳۱) و قال الدارقطنی یعتبر بہ ۔(تھذیب التھذیب ۶: ۹۵ )

[20] ابو عبد الرحمن السلمی :ثقۃ ثبت روی لہ الشیخان ۔

[21]  (حصین ھو ابن عبد الرحمن السلمی ، وھشیم ھو ابن بشیر بن القاسم السلمی )

[22] مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۲۵۱ ۔

[23] عبدۃ بن سلیمان الکلاعی ، اسماعیل بن ابی خالد ، اور عامر الشعبی تینوں بخاری ومسلم کے ثقہ راوی  ہیں ۔

[24] عائذ بن حبیب: صدوق رمی بالتشیع ۔ (تقریب ) وفی بعض الاسناد: أخوہ ربیع بن حبیب ابو ھشام الاحول ، وھو ایضاً: صدوق (التقریب ) ۔

[25] یحیٰ بن قیس الطائفی :ذکرہ البخاری فی التاریخ الکبیر(جلد۸:صفحہ ۲۹۸، رقم ۳۰۷۶) ، ابن ابی حاتم فی الحرح والتعدیل (جلد ۹: صفحہ ۱۸۱:رقم الترجمۃ ۷۵۲) وابن معین فی تاریخہ فی روایۃ الدوری (جلد۳:صفحہ ۵۲۲:رقم ۲۵۵۳)۔ وابن کثیر فی التکمیل فی الجرح والتعدیل (جلد۲: صفحہ ۲۶۵: رقم ۱۳۱۴) وکلہم ذکروا حدیثہ ھذا فی لحم الجزور )۔

[26] وکیع بن جراح ، مسعر بن کدام ، جبلہ بن سحیم تینوں ثقہ ہیں ۔

[27] أبو بکرۃ بکار بن قتیبۃ البکراوی : ثقۃ ۔ وقال مسلمة بن قاسم: كان على قضاء مصر، وكان ثقة۔ (الثقات لابن قطلوبغا:جلد ۳:صفحہ۶۸:رقم الترجمۃ ۲۰۵۵)

[28] أبو الولید ھاشم بن عبد الملک الطیالسی :ثقۃ ثبت۔(التقریب)

[29] شعبۃ ھو شعبۃ ۔ وابو نوفل بن ابی عقرب البکری ۔ثقۃ (التقریب )

[30] وکیع بن الجراح :الامام المشہور ۔

[31] نفاعۃ بن مسلم ابو الخصیب الجعفی : قال ابو حاتم :لا بأس بہ ۔(تاریخ الاسلام :جلد ۳:صفحہ ۹۹۷ : رقم ۴۴۸)    

[32] سوید بن غفلۃ : ثقۃ ، إمام ، زاھد ، قوام ۔ (الکاشف:۲۱۹۵) قدم المدینۃ یوم توفی النبی ﷺ ۔(تقریب )

[33] نوٹ:امام شعبی ؒ نے ۵۰۰ سے زیادہ صحابہ کو پایا ہے  ، وہ صحابہ کرام کے زمانہ میں فتویٰ دیا کرتے تھے ۔( سیر :جلد ۴:صفحہ ۲۹۴)

[34] محمد بن یحیٰ الذہلی ؒ ۔ ثقہ (التقریب)

[35] یزید بن عبد ربہ  : ثقہ (التقریب )

[36] بقیہ بن الولید : صدوق ، کثیر التدلیس عن الضعفاء ۔(التقریب ) روی لہ مسلم والبخاری ؒ تعلیقاً

[37] خالد بن یزید : مجہول ۔(التقریب )

[38] عطاء بن السائب : صدوق ، اختلط۔(التقریب ) روی لہ البخاری ؒ

[39] محارب بن دثار : ثقۃ ، امام ۔

[40]  اس حدیث کے دو راوی بقیہ بن الولید اور عطاء بن السائب پر کلام ہے مگر عطاء بن السائب  سے امام بخاری ؒنے اور بقیہ بن الولید سے امام مسلم نے روایت لی ہے ۔ اور رئیس احمد ندوی سلفی صاحب کا کہنا ہے کہ’’ صحیحین کے راوی پر اگر کسی قسم کا کلام بھی وارد ہوا ہے تو  وہ بقول راجح مدفوع اور کالعدم ہے ‘‘۔(اللمحات  ۲ : ۱۳)  پھربقیہ ؒنے دوسری جگہ سماع کی تصریح کردی ہے ۔

 

قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: سمعتُ أَبِي يَقُولُ: كُنْتُ أُنكِرُ هَذَا الْحَدِيثَ؛ لتفرُّده، فوجدتُّ لَهُ أَصْلا:

حدَّثنا ابْنُ المُصَفَّى عَنْ بَقِيَّة قَالَ: حدَّثني فلانٌ - سَمَّاه - عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائب، عَنْ مُحارِب، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عن النبيِّ (ص) ، بنحوه۔

ابن ابی حاتم ؒ فرماتے ہیں میں نے اپنے والد صاحب کو کہتے ہوئے سنا کہ میں اس حدیث کا انکار کرتا تھا اس کے تفرد کی وجہ سے پھر مجھے اس کی اصل مل گئی  ۔

ہم سے حدیث بیان کی ابن المصفّٰی نے ، وہ روایت کرتے ہیں بقیہ سے ، بقیہ کہتے ہیں مجھ سے حدیث بیان کی فلاں نے جن کا بقیہ نے نام ذکر کیا تھا، وہ روایت کرتے ہیں عطاء بن السائب سے ، وہ روایت کرتے ہیں محارب سے ، وہ روایت کرتے ہیں حضرت ابن عمر ؓ سے ، اور وہ اسی جیسی حدیث  بیان کرتے ہیں حضرت رسول اللہ ﷺ سے۔

 )علل الحدیث لابن ابی حاتم ۲ : ۴۷۰) (البدر المنیر لابن الملقن ۲ : ۴۱۱)

رہے خالد بن یزید بن عمر تو وہ مجہول ہیں ، ان کی  متابعت اگلی روایتوں  سے ہوتی ہے ۔

[41] محمد بن اسحاق الصاغانی : ثقۃ ۔ (تقریب)

[42] علی بن عیاش : ثقہ۔(تقریب)

[43] عفیر بن معدان : ضعیف۔ (تقریب)

[44] الضحاک بن حمرۃ : ضعفہ بعضہم ووثقہ ابن راھویۃ ، وابن شاھین ، وابن زنجویۃ ، وقال الدارقطنی : لیس بالقوی یعتبر بہ۔(تهذيب التهذيب و غیرہ)

[45] محمد بن عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ : صدوق سیء الحفظ ، وقال العجلی جائز الحدیث ۔( لم یلق محمد بن عبد الرحمن ثابت ابن قیس ولکنہ روی عن أخیہ عیسی - ثقۃ  -عن أبیہ عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ - ثقہ -  عن ثابت ) (تقریب ،تهذيب التهذيب و غیرہ)

[46] إبراہیم بن عرعرۃ : ثقہ ۔  (تقریب)

[47] معتمر بن سلیمان : ثقہ ۔ (تقریب)

[48] لیث بن ابی سلیم ؒ کی تفصیل گزرچکی ۔لیثؒ کے استاد میں اختلاف ہے مولیً لموسیٰ یا ابنا لموسیٰ ۔مولیً لموسیٰ سے عبید اللہ مراد ہوسکتے ہیں جو کہ مجہول ہیں، لیکن امام بخاری نے  لیث عن عبید اللہ عن موسیٰ بن طلحہ کی سند سے الادب المفرد میں ایک حدیث نقل فرمائی ہے۔ ابن لموسیٰ بن طلحہ سے عمران بن موسیٰ بن طلحۃ بن عبید اللہ مراد ہوسکتے ہیں جنہوں نے اپنے والد موسیٰ بن طلحہ سے روایت کیا ہے۔

[49] عمران بن موسیٰ بن طلحہ : ذکرہ البخاری فی التاریخ الکبیر ولم یذکر فیہ جرحا ولا تعدیلا ، وابن حبان فی الثقات ، وقطلوبغا فی الثقات من لم یقع فی الکتب الستۃ۔

[50] وموسیٰ بن طلحۃ : ثقہ۔ (تقریب)

[51] دیکھئے ص : ۱۸۲۔

[52] امام محمد بن نصر المروزیؒ کے بارے میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں : یقال أنہ کان أعلم الأئمۃ باختلاف العلماء علی الاطلاق۔ (سیر اعلام النبلاء :جلد ۱۴:صفحہ ۳۴)

[53] یاد رہے ، شیخ البانی ؒ اور سلفی شیخ مقبل الوادعی ؒ نے اس شرح ، اس کے مصنف اور ان کی تحقیقات وترجیحات کے بارے میں بڑے وقیع کلمات کہے ہیں ۔

شیخ مقبل الوادعی ؒ کہتے  ہیں کہ

قال مقبل الوادعي - رحمه الله- عن هذا الشرح: هو على نمط فتح الباري للحافظ بن حجر رحمه الله تعالى، وتطمئن النفس إلى كثير من ترجيحات الشيخ محمد واختياراته لموافقتهما للدليل، وإنني أنصح طلبة العلم أن يحرصوا على اقتناء هذا الكتاب العظيم فما كلُّ محدِّث في هذا الزمان يستطيع أن يأتي بمثل هذا الشرح.

  شیخ مقبل ؒ اس شرح (ذخیرۃ العقبی)کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ابن حجر ؒ کی کتاب فتح الباری کے طرز پر ہے ، شیخ محمد (یعنی مصنف ) کی بہت سی ترجیحات اور ان کی اختیار کردہ چیزوں پر دل مطمئن ہے ، اس لئے کہ وہ دونوں دلیل کے موافق ہیں۔

 میں طلبہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس عظیم کتاب کو حاصل کرنے کی کوشش کریں ، اس لئے کہ اس زمانہ میں ہر محدث اس طرح کی شرح نہیں لکھ سکتا ۔  

              شیخ الألباني فرماتے ہیں کہ

وكان الألباني - رحمه الله - يقول عن الكتاب أنه لا يعرف شرح سلفى على النسائى مثله۔

                نسائی کی اس جیسی سلفی شرح مجھے کوئی اور نہیں معلوم ۔(أرشيف ملتقى أهل الحديث – ۳: منتدى تراجم أهل العلم المعاصرين : العرف الوردي ترجمة الشيخ محمد بن علي بن آدم بن موسى الولوي : الجزء ۱۵۷: ص ۵۴)

[54]  بلوغ المرام کی اس شرح اور اس کے مؤلف کے بارے میں علامہ شوکانی ؒ کہتے ہیں :

قاضي صنعاء وعالمها ومحدّثها، مصنف "البدر التمام شرح بلوغ المرام"، وهو شرح حافل۔

صنعاء کی قاضی ، اس کے عالم ، اس کے محدث ، البدر التمام شرح بلوغ المرام کے مصنف ، وہ (علم سے) بھر پور شرح ہے ۔ (البدر الطالع :جلد۲ :صفحہ ۲۲۰)

 

[55] البتہ اس مسئلہ میں کس کے نزدیک کیا راجح ہے یہ الگ چیز ہے ۔

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...