نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حافظ مغلطائی ؒ (م۷۶۲؁ھ) جرح وتعدیل کے میزان میں

 

 

حافظ مغلطائی ؒ ۷۶۲؁ھ) جرح وتعدیل کے میزان میں

مفتی ابن اسماعیل المدنی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

مشہور محدث،حافظ العصر اور شیخ المحدثین ابو عبد اللہ علاء الدین  مغلطای بن  قلیج المصری ؒ (م۷۶۲؁ھ)  کی ذات گرامی کو مجروح کرنے کے لئے متعصب غیر مقلد زبیر علی زئی نے  ان  پر جرح کی اور ضعیف ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔

سب سے پہلے حافظ مغلطایؒ کی توثیق و ثناء  ملاحظہ فرمائے :

(۱)         محدث ابن رافع ؒ  (م۷۷۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ الشَّيْخ الْفَاضِل الْمُحدث ‘‘۔(الوفيات : ج۲: ص ۲۴۵،رقم ۷۵۹)

(۲)          امام صلاح الدین الصفدی ؒ (م۷۶۴؁ھ) کہتے ہیں : ’’ الشيخ الإمام الحافظ القدوة ،شیخ الحدیث ‘‘ اور کہتے ہیں کہ ’’ عنده كُتب كثيرة وأصول صحيحة ‘‘ ان کے پاس بہت سے کتب اور صحیح اصول تھے۔(اعیان العصر للصفدی : ج : ۵ : ص۴۳۳،۴۳۵، الوافی بالوفیات : ج۷:ص۳۳)

(۳)        حافظ ابن کثیر ؒ (م۷۷۴؁ھ) نے کہا : ’’الشیخ،الحافظ‘‘۔نیز کہتے ہیں  کہ ’’ وَقَدْ كَتَبَ الْكَثِيرَ، وَصَنَّفَ، وَجَمَعَ، وَكَانَتْ عِنْدَهُ كُتُبٌ كَثِيرَةٌ جِدًّا، رَحِمَهُ اللَّهُ ‘‘۔(البدایہ والنہایہ : ج۱۸: ص ۶۳۳)

(۴)       امام ابن ناصر الدینؒ (م۸۴۲؁ھ) نے کہا : ’’ حَافظ مُتَأَخّر مَشْهُور ‘‘۔(توضیح المشتبہ  : ج ۷: ص ۱۱۸)

(۵)        امام تقی الدین مقریزیؒ (م۸۴۵؁ھ) نے کہا : ’’الحافظ المحدث  الشیخ‘‘۔(السلوك لمعرفة دول الملوك: ج ۴ : ص ۲۵۸،ج۵: ص ۲۷۱)

(۶)          ابن قاضی شہبۃ ؒ (م۸۵۱؁ھ)  نے کہا : ’’ أخذ عَن مغلطاي وَغَيره من الْمُحدثين ‘‘۔(طبقات الشافعیہ لا بن قاضی : ج ۴: ص ۸) معلوم ہوا کہ ابن قاضی شہبۃؒ کے نزدیک  حافظ مغلطایؒ (م۷۶۲؁ھ) محدثین میں سے ہیں۔

(۷)        حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁؁ھ)  نے کہا : ’’ الشیخ، الامام،العلامہ،الحافظ المکثر،صاحب التصانیف،شیخ الشیوخ‘‘۔(تبصیر المنتبہ : ج۱: ص ۲، الدرر الکامنہ : ج۶: ص ۱۱۶، ج۲: ص ۲۵۹، تعجیل المنفعہ : ج۱ : ص ۲۴۲، لسان المیزان : ج ۸: ص ۱۲۴) نیز کہتے ہیں کہ ’’ كان انتهت إليه رئاسة الحديث في زمانه ‘‘ اور  کہا ’’ كان كثير الاستحضار لها متسع المعرفة فيها ‘‘۔(لسان المیزان : ج ۸: ص ۱۲۵،۱۲۷)

(۸)       ابن فہد المکی ؒ (م۸۷۱؁ھ)  نے کہا  : ’’ الإمام العلامة الحافظ المحدث المشهور ‘‘۔ (لحظ الالحاظ : ص ۹۱) نیز کہتے ہیں کہ ’’ وله اتساع في نقل اللغة وفي الاطلاع على طرق الحديث‘‘۔(لحظ الالحاظ : ص ۹۴)

(۹)         امام ابو ذر سبط ابن العجمی ؒ(م۸۸۴؁ھ) نے کہا : ’’ الشيخ العلامة الحافظ ‘‘۔(كنوز الذهب في تاريخ حلب : ج۱ : ص ۷۰)

(۱۰)       حافظ سیوطی ؒ (م۹۱۱؁ھ) نے کہا : ’’‘‘۔ (طبقات الحفاظ للسیوطی : ص ۵۳۸) نیز کہتے ہیں کہ ’’وكان حافظا عارفا بفنون الحديث، علامة في الأنساب‘‘۔ (حسن المحاضرۃ : ج۱ : ص ۳۵۹)

(۱۱)        حافظ ابو ذرعہ العراقی ؒ (م۸۲۶؁ھ) نے کہا : ’’الشیخ  الامام شیخ المحدثین‘‘۔(الذیل علی العبر : ج۱ : ص ۷۰)

(۱۲)       حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲؁ھ) نے کہا : ’’ الشیخ الحافظ العلامۃ ‘‘۔(القول البدیع : ص ۱۱۰،جواہر الدرر: ج ۳ : ص ۱۲۷۵)

(۱۳)       حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ (م۸۷۹؁ھ) نے کہا : ’’ إمام وقته، وحافظ عصره ‘‘۔(تاج التراجم : ص ۳۰۴)

(۱۴)       ابو المحاسن ابن الغزی ؒ(م۱۱۶۷؁ھ) نے کہا : ’’ الإمام المفنن الحافظ ‘‘۔ (دیوان الاسلام : ج۴: ص ۱۱۶)

(۱۵)       امام جمال الدین یوسف بن تغریؒ (م۸۷۴؁ھ) نے کہا : ’’ الحافظ المفتّن ،الحافظ المصنف المحدّث المشهور ‘‘۔نیز کہتے ہیں کہ ’’ وكان له اطلاع كبير وباع واسع في الحديث وعلومه وله مشاركة فى فنون عديدة. تغمّده الله برحمته ‘‘۔(النجوم الزاہرۃ : ج۱۱: ص۹)

(۱۶)       حافظ عراقی ؒ (م۸۰۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’کان عارفا بالانساب معرفۃ جیدۃ‘‘(الدرر الکامنۃ: ج۳: ص ۳۴۳)۔ نیز یہ بھی مروی ہے کہ : ’’سالہ ابن حجر عن اربعۃ تعاصروا ایہم احفظ ؟ مغلطای و ابن کثیرو ابن رافع و الحسینی ؟ فاجاب : ان اوسعہم اطلاعا و اعلمہم للانساب : مغلطای‘‘۔(تدریب الراوی : ج۲ : ص ۹۴۲)

الغرض  معلوم ہوا کہ ائمہ محدثین  کے نزدیک حافظ  مغلطای ؒ  (م۷۶۲؁ھ)   مشہور امام،حافظ،فاضل،محدث ،علامہ ، شیخ المحدثین ہیں۔یعنی ان  کی عدالت و حالت دونوں  ائمہ محدثین  کے نزدیک مقبول ہے۔لیکن اتنی عظیم شخصیت پر غیر مقلد زبیر علی زئی نے جروحات کئے ہیں ، جن جوابات ملاحظہ فرمائیں :

اعتراض نمبر ۱:

زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ ابن فہد المکی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس نے ( یعنی مغلطائی نے ) قدیم لوگوں کی ایک جماعت سے سماع کا دعوی کیا ،جوکہ اس سے پہلے فوت ہو چکے تھے۔مثلاً دمیاطی ،ابن دقیق العید ،ابن الصواف اور وزیرہ بنت المنہاج اور ماہر حفاظ حدیث نے اس وجہ سے واضح دلیل کے ساتھ اس پر کلام کیا ہے ۔

اس جرح سے تو مغلطائی کی عدالت ہی ساقط ہوجائے گی ،کیونکہ ایسے لوگوں سے سماع کا دعوی کرنا ،جن سے سماع نہیں ہے ،کذاب لوگوں کا کام ہے ۔(مقالات ج:۴ص:۲۸۰)

الجواب :

ابن فہد المکی ؒ اور دوسرے لوگوں کے اقوال کی بنیاد ،حافظ عراقی ؒ ۸۰۶؁ھ) کے قول پر ہے ۔اورخود حافظ عراقی ؒ کہتے ہیں کہ :

              سألتہ عن اول سماعہ فقال:رحلت قبل السبع مئۃ الی الشام فقلت ہل سمعت بہا شیأ ؟قال :سمعت شعرا ۔

میں نے حافظ مغلطائی ؒ سے ان کے پہلے سماع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا :کہ میں نے   ۷۰۰؁ھ سے پہلے شام کا سفر کیا تھا ،تو عراقی ؒ نے پوچھا :کہ کیا آپ نے (اس سفر ) میں کچھ سنا ہے ؟ تو حافظ مغلطائی ؒ نے کہا کہ میں نے کچھ اشعار سنے ہیں ۔( لسان المیزان ج:۸ص:۱۲۴،واسنادہ صحیح )

اس عبارت سے معلوم ہواکہ حافظ مغلطائی ؒ نے  ۷۰۰؁ ھ سے پہلے شام کا سفر کیا تھا ۔لیکن چونکہ حافظ مغلطائی ؒ نے حافظ عراقی ؒ کے سامنے صرف اس بات کے صراحت کی کہ میں نے اس سفر میں اشعار سنے ہیں ۔تو اس سے عراقی ؒ نے یہ سمجھا کہ حافظ مغلطائی ؒ نے اس سفر میں حدیثوں کا سماع نہیں کیا۔

حالانکہ خود غیر مقلدین کا اصول مشہور ہے کہ ’’عدم ذکر عدم شیٔ کو مستلزم نہیں کرتا ۔(نور العینین ص:۵۸) اور یہ ضروری تھوڑی ہے کہ استاذ کی ہر بات اور ہر کام کا علم شاگرد کو ہونا چاہئے ۔اسی طرح یہ بھی ضرور ی اور لازمی نہیں ہے کہ استاد اپنے تعلق سے ہر ایک بات اپنے شاگرد کو بتائے ۔

مثال کے طور پر امام حسن البصری ؒ (م ۱۱۰؁ھ) کے بارے میں ان کے شاگرد امام قتادہ ؒ ۱۱۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ہمیں حسن البصری ؒ نے نہیں بتایا کہ ان کی کسی بدری صحابی سے ملاقات ہوئی ہے ۔(طبقات ابن سعد ج:۷ص:۱۵۹)

جب کہ حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ میں نے ستر بدری صحابہ سے ملاقات کی ہے ۔پھر ان کی حضرت علی ؓ سے ملاقات کے ساتھ ساتھ سماع بھی ثابت ہے۔ (الاجماع: شمارہ نمبر ۳: ص ۲۵۹) اسی طرح حضرت عثمان ؓ سے بھی ان کی ملاقات و سماع ثابت ہے ۔(المعجم الکبیر للطبرانی ج:۱ص:۴۳،حدیث نمبر:۱۳۱،معجم الزوائد ج: ۹ ص: ۹۴،علل ابن المدینی ص:۵۱)

لیکن بہرحال اس بات سے ان کے شاگردامام قتادہ ؒ ۱۱۸؁ھ) لاعلم تھے ۔

پر سوال یہ ہے کہ کیاان کے شاگرد کے نہ جاننے کی وجہ سے حسن البصریؒ کا کسی بدری صحابی سے ملاقات اور ان کا ان سے سماع کا انکار کیا جائیگا ؟ہرگز نہیں ۔

پس یہی معاملہ حافظ مغلطائی ؒ کا ہے ۔

جب حافظ مغلطائی ؒ نے  ۷۰۰؁ھ سے پہلے شام کا سفر کیاتھا ،تو بہت ممکن ہے کہ اسی سفر میں انہوں نے حافظ ابن دقیق العید ؒ اور دوسرے علماء سے سماع حدیث کی ہوجبکہ اس سے حافظ عراقی ؒ لاعلم تھے ۔

پھر خود حافظ مغلطائی ؒ نے بھی کئی مقامات پر صراحت کی ہے کہ میں نے حافظ ابن دقیق العید ؒ (م۷۰۲؁ھ) سے اس حدیث کا سماع کیا ہے ۔

حافظ ؒ شرح ابن ماجہ ص:۲۱۸پر کہتے ہیں کہ :

              الامام تاج الدین ابوالعباس احمد بن علی بن وہب القشیری المعروف بابن دقیق العید قرأ علیہ وانااسمع ۔۔۔۔۔۔۔۔

ص:۲۳۷پر کہا ہے :

              أنابہ الامام تاج الدین ابن دقیق العید ۔۔۔رحمہ اللہ ۔۔۔اجازۃ عن الفقیہ ابی الحسن بن الحمیری ۔۔۔۔۔

ص:۶۴۴پر لکھتے ہیں کہ :

              ثنا بہ ابن دقیق العید ۔۔۔۔رحمہ اللہ ۔۔۔قرائۃ علیہ وانا اسمع قال :اخبرنا العلامہ ابوالحسن علی بن ھبۃ اللہ الشافعی ۔۔۔۔۔۔

ص:۸۸۴پر یہ الفاظ موجود ہیں :

              وقع لنا عالیا أنبأ بہ الامام تاج الدین بن دقیق العید أنبأابن الحمیری ۔۔۔۔۔۔۔

ان صراحتوں سے واضح ہوتا ہے کہ صحیح اور راجح یہی ہے کہ حافظ مغلطائی ؒ نے ابن دقیق العید ؒ ۷۰۲؁ھ) سے حدیث کا سماع کیا ہے ۔واللہ اعلم اور زبیر صاحب کا اعتراض مردود ہے۔

نوٹ :

جب  ۷۰۲؁ھ میں انتقال ہونے والے حافظ ابن دقیق العید ؒ سے ان کا سماع ثابت ہوتا ہے ،تو پھر ان کے بعد وفات پانے والے حافظ دمیاطی ؒ ۷۰۵؁ھ) اورامام ابو حسن ابن الصواف ؒ ۷۱۲؁ھ) وغیرہ سے بھی خو د بخود ان کا سماع ثابت ہوتا ہے ۔  کیونکہ حافظ مغلطائی ؒ نے ان سے سماع کی صراحت کی ہے ۔( لسان المیزان ج:۸ص:۱۲۶)

اعتراض  نمبر۲:

زئی صاحب ابن ناصر الدین کے حوالے سے امام مغلطائی ؒ کی کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ’’اور اس (کتاب ) کے اخیر میں جیسا کہ ابن رجب مقری نے بیان کیا : عشق بازی کا اثبات ہے ،جو (اس کے) دین کی کمزوری اور بیہودگی پر دلالت کرتا ہے ۔

ثابت ہواکہ مغلطائی ثقہ نہیں ،بلکہ غیر ثقہ تھا اور اپنی عشق معشوقی والی حرکتوں کی وجہ سے دین میں بھی بہت کمزور تھے ۔(مقالات ج:۴ص:۲۸۱)

الجواب :

یہ اعتراض کرکے زبیرعلی زئی صاحب نے کئی دوغلی پالیسی کا ثبوت دیا ہے ۔

اول        حافظ مغلطائی ؒ کی صریح توثیق کی فرمائش کرنے والے زبیر علی زئی (مقالات ج ۴ : ص ۲۷۹) کے ذمہ تھا کہ وہ اس قول میں موجود ابن رجب المقری ؒ جو کہ حافظ ابن رجب ؒ ۷۹۵؁ھ) کے والد ہیں ۔(الدرالکامنہ ج:۶ص:۱۱۵،۱۱۶) ان کی صریح توثیق پیش کرتے ۔

لیکن چونکہ موصوف کو صرف مغلطائی ؒ پر اعتراض کرنا تھا اس لئے انہوں نے یہ قول نقل کرکے دوغلی پالیسی کا ثبوت دیا ہے۔

لہذا اب اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ وہ یہ تو ابن رجب کے والد کی صریح توثیق پیش کرے یا تسلیم کریں کہ آپ کے محدث العصر نے دوغلی پالیسی کا ثبوت دیتے ہوئے حافظ مغلطائی ؒ پر بیجا اعتراض کیا ہے ۔

دوم        یہ کہ ہمیشہ صحیح سند کا مطالبہ کرنے والے زبیر علی زئی صاحب نے ابن ناصر الدین سے ابن رجب ؒ کے والد تک کی کوئی صحیح سند پیش نہیں کی اور یہ بھی شاید اس وجہ سے کیونکہ موصوف کو صرف مغلطائی ؒ پر اعتراض کرنا تھا۔ واللہ اعلم (اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے ۔۔۔آمین )

لہذا یہاں بھی اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ وہ ابن رجب کے والد کے اس قو ل کی کوئی صحیح سند پیش کریں ۔

سوم         یہ کہ اشعار بیان کرنے سے غیر مقلدین،  بلکہ خود زبیر صاحب کے نزدیک مغلطائی ؒ پر جرح ثابت نہیں ہوتی ۔

چنانچہ زبیر علی زئی صاحب نعیم بن حماد  کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :کسی محدث کا بے اصل روایت بیا ن کرنا ،اس محدث کے مجروح ہونے کی دلیل نہیں ہے ۔ ابن ماجہ ،خطیب بغدادی،ابونعیم اصبہانی وغیرہ نے متابعت بے اصل بلکہ موضوع روایت بیان کی ہے ،ان روایات میں جرح دوسرے راویوں پر ہوتی ہے ،نہ کہ ان محدثین پر ۔

لہذا نعیم کی بیان کردہ بے اصل روایت کے بے اصل ہونے کی وجہ اوپر کے راوی ہیں ،نہ کہ نعیم ۔ (مقالات ج:۱ص:۴۵۲)

جب زبیر علی زئی کے نزدیک موضوع یا بے اصل روایت بیان کرنے سے ،بیان کرنے والے راوی کا ضعیف ہونا ثابت نہیں ہوتا ،بلکہ اس کے ذمہ دار اوپر کے راوی ہوتے ہیں ۔

تو پھرانہی کے اصول سے اشعار نقل کرنے سے بھی حافظ مغلطائی ؒ کا ضعف بھی ثابت نہیں ہوگا ،کیونکہ اس کے ذمہ دار بھی اوپر کے راوی ہیں ۔ لیکن زبیر صاحب کو صرف حافظ مغلطائی ؒ پر جرح کرنی تھی اس لئے اپنا ہی اصول بھول گئے۔

الغرض حافظ مغلطائی ؒ پر زبیر علی صاحب کی جرح مردود ہے ۔

اعتراض  نمبر ۳ :

زبیر صاحب کہتے ہیں کہ بعض علماء نے ان کے اوہام ،برے حافظے اور غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔(نور العینین ص:۸۷،مقالات ج:۴ص:۲۷۹،۲۸۰)

الجواب :

یہ تمام جروحات اصول جرح وتعدیل کی روسے مردود ہے ۔

اس کا تعلق حافظ مغلطائی ؒ کی ذات سے بالکل بھی نہیں ہے ،بلکہ اصل معاملہ یہ ہے کہ حا فظ مغلطائی ؒ نے حافظ مزی ؒ ۷۴۲؁ھ) کی تہذیب الکمال پر ’’اکمال تہذیب الکمال ‘‘کے نام سے حاشیہ لگایا اور اس میں حافظ مزی ؒ کی کئی غلطیوں کی نشاندہی کی ہے ۔

اسی طرح حافظ ابن الصلاح ؒ(م۶۴۳؁ھ) کی مشہور کتاب ’مقدمہ ابن الصلاح ‘پر بھی انہوں نے ’’اصلاح ابن الصلاح ‘‘ کے نام سے کام کیا اور اس میں بھی ابن الصلاح ؒ کے اوہام کا تعاقب کیا ہے ۔

اب حافظ مغلطائی ؒ کو اصول[1] کے ذریعے ان کتب میں جو جو غلطیاں،اوہام نظر آئی ،اس پر انہوں نے دلائل کے ساتھ تنبیہ فرمائی ۔ لیکن جن جن علماء کو حافظ مغلطائی ؒ کی بات سے اتفاق نہیں ہوا ،انہوں نے حافظ مغلطائی ؒ کی کتب  کے بارے میں کہا کہ ان میں مغلطائی ؒ کو بہت سے اوہام ہوئے ہیں ،یعنی ان تعاقبات میں حافظ مغلطائی ؒ کو وہم اوار غلطی ہوئی ہے۔

اکمال تہذیب الکمال کے بارے میں حافظ ابن حجر ؒ کے الفاظ یہ ہیں :

              العلامۃ شیخ الشیوخ علاء الدین مغلطائی وضع علیہ کتابا سماہ اکمال تہذیب الکمال تتبع فیہ ما فانہ من رواۃ الشخص الذی یترجم فیہ ومن شیوخہ ومن الکلام فیہ من مدح وقدح وما ظہر لہ مما یرد علی المزی من تعقب وجاء کتابا کبیرا یقرب حمہ من حجم التہذیب وقفت علیہ بخطہ وفیہ لہ اوہام کثیرۃ ۔(تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال الائمۃ الاربعۃ ص:۲۴۲)

اصلاح ابن الصلاح کے بارے میں حافظ ؒ کے الفاظ یہ ہیں :

         عمل فی فن الحدیث اصلاح ابن الصلاح فیہ تعقبات علی ابن الصلاح اکثرہا غیر وارد ،او ناشیٔ عن وہم او سو ء فہم۔(لسان المیزان ج:۸ص:۱۲۴)

یہاں پر بات  یہ نہیں، حافظ مغلطائی ؒ کا تعاقب درست تھا یا دوسرے علماء کی ان سے ناتفاقی ظاہر کرنا صحیح تھا۔ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ کیا اس قسم کے خاص اعتراضات سے حافظ مغلطائیؒ کی ذات علی الاطلاق مجروح قرار دی جائے گی ؟

کیا کسی راوی پر خاص قسم کے واقعے کی وجہ سے

یا مخصوص باب

یا اس کے کسی مشہور قصے

یا کسی خارجی پہلو

یا خارجی اسباب وغیرہ پر اعتراض کی وجہ سے اس کی ذات علی الاطلاق ،کلی طور پر مجروح قرار دیا جائے گا ،جبکہ اس کی ثناء وتعریف ائمہ محدثین سے ثابت ہو ؟

حالانکہ کہ خود غیر مقلدین   بھی مانتے ہے کہ ایسی جرح قابل قبول نہیں ہوگی ۔مثلاً :

۱)           محمد بن اسحق  ؒ  (م۱۵۰؁ھ) پر امام مالک ؒ کی جرح کا جواب دیتے ہوئے غیر مقلد عالم  ارشاد الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ ’’امام مالک ؒ نے ابن اسحق ؒ کی احادیث پر کلام نہیں کیا ،اور جوانہیں دجال یا کذاب کہاہے ،تو اس کا سبب ان کے مابین نفرت اور آپس کی ناراضگی کا پایاجانا ہے ۔اور آگے اثری صاحب کہتے ہیں کہ ایسی جرح بالاتفاق قابل سماعت نہیں (سننے کے قابل نہیں ہوتی)‘‘ ۔ (توضیح الکلام ص:۲۲۸)

دیکھئے غیرمقلد عالم ارشاد الحق اثری صاحب یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ ابن اسحق ؒ پر احادیث کی وجہ سے کلام نہیں بلکہ خارجی اسباب کی وجہ سے ہے ،جو کہ بالاتفاق سننے کے لائق بھی نہیں ہے۔

۲)          عبدالحمید بن جعفر پر سفیان ثوری ؒ نے جرح کی ہے،جس کے جواب میں زبیر علی زئی صاحب تحریر کرتے ہیں کہ سفیان ثوری کی جرح مسئلہ تقدیرکی وجہ سے تھی ،جس کی تردید حافظ ذہبی ؒ نے سیر اعلام النبلاء میں مسکت انداز میں کردی ہے ۔صحیحین وغیرہ میں ہی ایک جماعت کی احادیث ہیں جن پر قدری وغیرہ کا الزام ہے ۔کیا ان کی حدیث رد کردی جائے گی ؟ (نورالعینین ص:۱۰۸)

غور فرمائیے! زبیر علی زئی صاحب خود بھی خارجی اسباب کی وجہ سے ہونے والی جرح کو مردود قرار دے رہے ہیں لیکن شاید وہ یہی بات امام مغلطائی ؒ کے بارے میں بھول گئے۔

۳)          علی ابن الجعد ،امام بخاریؒ کے استاذ ہیں،ان پر صحابی کے بارے میں کلام کرنے کا الزام ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ امام مسلم ؒ نے آپ سے روایت نہیں لی ۔لیکن بہر حا ل البانی صاحب اور غیر مقلدین کی ایک جماعت انہیں ثقہ مانتی ہے۔ (ارواء الغلیل ج:۲ص:۱۲۳،مسند سراج بتحقیق ارشاد الحق اثری ج:۱ص:۳۹۱،نثل النبال ج:۲ص:۵۳۰،نشر الصحیفہ للمقبل ص:۵۸)

الغرض جب غیرمقلدین کے نزدیک ان راویوں پر خارجی اسباب کی وجہ سے ہونے والی جرح مردود ہوسکتی ہے ،تو پھر حافظ مغلطائی ؒ نے کیاقصور کیا کہ ان پر خارجی اسباب سے ہونے والی جرح کیوں مردود نہیں ہوسکتی ؟جب کہ ا ن کہ توثیق وثنا ء ائمہ محدثین سے ثابت ہے ۔

لہذا زبیر صاحب کا اعتراض خود ان کے اصول سے مردود ہے اور تحقیق اور یقین کے لحاظ سے راجح یہی ہے کہ حافظ مغلطائی ؒ ثقہ، صدوق ،حافظ اور شیخ المحدثین ہیں۔


[1]  یاد رہے کہ امام صلاح الدین الصفدیؒ ۷۶۴؁ھ) نے واضح کیا ہے کہ حافظ مغلطائی ؒ کے پاس صحیح اصول تھے ،جس کا حوالہ پہلے گزرچکا۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...