نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الافشاء لمکر ناقد الاعلاء (اعلاء السنن پر کی گئی تنقید کی حقیقت)


الافشاء لمکر ناقد الاعلاء 

(اعلاء السنن پر کی گئی تنقید کی حقیقت)

حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خط سے ناکام استدلال

            ارشاد الحق اثری صاحب نے ص32 پر مولانا تھانوی صاحب کے خط میں سے اپنے ذوق کے مطابق صرف اپنی "حاجت" والا حصہ ذکر کیا ہے۔(یاد رہے ہم اثری صاحب کو عبارت کاٹنے پر جہاں بھی سرزنش کرتے ہیں وہاں مقصودی بات کو کاٹا گیا ہوتا ہے۔ غیر مقصودی بات یقیناً ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی)

 اعلاءالسنن کے تحقیقی کام کے متعلق لکھتے ہیں۔

"صحیح حدیث کی تاویل میں ایسی راہیں اختیار کی گئی ہیں جن سے ان کے شیخ محترم مولانا تھانویؒ کے خط کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جو انہوں نے مولانا گنگوہیؒ کی خدمت میں لکھا تھا کہ "اکثر مقلدین عوام بلکہ خواص اس قدر جامد ہوتے ہیں کہ اگر قول مجتہد کے خلاف کوئی آیت یا حدیث کان میں پڑتی ہے تو ان کے قلب میں انشراح وانبساط نہیں رہتا، بلکہ اول استنکار قلب میں پیدا ہوتا ہے، پھر تا ویل کی فکر ہوتی ہے، خواہ کتنی ہی بعید ہو، خواہ دوسری دلیل قوی اس کے معارض ہو، بلکہ مجتہد کی دلیل اس مسئلہ میں بجز قیاس کے کچھ بھی نہ ہو، بلکہ خود اپنے دل میں اس کی تاویل کی وقعت نہ ہو، مگر نصرت مذہب کے لیے تاویل ضروری سمجھتے ہیں۔ دل یہ نہیں مانتا کہ قول مجتہد کو چھوڑ کر حدیث صحیح صریح پر عمل کریں"انتھی

(تذکرۃالرشید ص131)

اثری صاحب نے اپنی کسی مجبوری کے باعث حضرت تھانوی کے خط کا مقصد ، مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کا جواب اور مولانا تھانوی صاحب کا گنگوہیؒ کی بات پہ مطمئن ہونا نہیں بتا سکے۔ کیونکہ اگر حضرت تھانوی رحمت اللہ علیہ کے خط کا صرف مقصدہی ان کی زبانی نقل کر دیتے تو ان کی تلبیسات کا پردہ چاک ہو جانا تھا۔

 " خط کا مقصد حضرت تھانویؒ کی زبانی" حضرت تھانوی لکھتے ہیں "ان شبہات کے صاف ہونے کے

بعد امید ہے کہ انشاءاللہ حضور کو تکلیف دینے کی نوبت نہ آوے گی میں بہت ادب سے اس جرأت کی معافی چاہتا ہوں۔ مگر کیا کروں خدا جانے سب جگہ سے نا امید ہو کر خدام والا سے رجوع کیا ہے۔ اگر حضور بھی نا امید کر دیں گے تو پھر کہاں جاؤں گا۔ پھر شیطان بہکاوے گا کہ اجتہاد کر پھر خرابی ہوگی"

(تذکرۃ الرشید ص132)

 ہم خط کا مضمون نمبروں کے تحت ذکر کرتے ہیں تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔

1۔ فرمایا: ان شبہات کے صاف ہونے کے بعد۔۔۔

معلوم ہوا کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ خیالات شبہات تھے نہ کہ تحقیقی باتیں۔۔ لیکن اثری صاحب نے جو تأثر دینے کی کوشش کی ہے وہ آپ کے سامنے ہے۔

2۔ سب جگہ سے نا امید ہو کر خدام والا سے رجوع کیا ہے۔۔۔

 حضرت تھانویؒ سمجھتے تھے کہ جو باتیں میرے سامنے ہیں وہ میرے اکابرؒ کے سامنے بھی ہیں۔ لہذا وہ اس کا حل بتائیں گے۔ غیر مقلد حضرات کی طرح ان شبہات کی بنا پر اپنے اکابر کو جاہل سمجھنا شروع نہیں کر دیا تھا۔

3۔ پھر شیطان بہکاوے گا کہ اجتہاد کر پھر خرابی ہوگی۔۔۔

 یعنی حضرت تھانویؒ ان شبہات سے تنگ تھے۔ انہیں خطرہ تھا کہ یہ شبہات مجھے غیر مقلدین کی طرح اجتہاد کا مدعی

نہ بنا دیں۔(حضرت تھانویؒ ان خیالات کو خرابی کا ذریعہ سمجھ رہے ہیں۔ جیسا کہ عبداللہ روپڑی کے قصے سے واضح ہے کہ پہلے فقہ سے آزاد ہوئے پھر حدیث سے۔ لیکن اثری صاحب اسے اصلاح کا معیار بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اندازہ کریں جو لوگ ایک صدی پرانی باتوں میں اتنی ہیر پھیر کر دیں وہ 14 صدی پرانی باتوں کے اندر کیا کچھ کرتے ہوں گے)

 یہ تھا حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے خط کا مقصد۔

 اب آتے ہیں مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کے جواب کی طرف جسے اثری صاحب نےاپنی تنقید کا قاتل سمجھتے ہوئے ذکر ہی نہیں کیا۔ لیکن ہمیں چونکہ ایسی کوئی مجبوری درپیش نہیں ہے لہذا ہم خط و کتابت سمجھنے کا معقول طریقہ اختیار

کرتے ہوئے مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب کا جواب اور حضرت تھانوی کا اس پر مطمئن ہونا ذکر کرتے ہیں۔

 مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب

 از بندہ رشید احمد بعد سلام مسنون مطالعہ فرمایند "خط آپ کا آیا بظاہر آپ نے جملہ مقدمات محررہ بندہ کو تسلیم کر لیا اور قبول فرما لیا البتہ تقلید شخصی کے سبب کچھ تردد آپ کو باقی ہے لہذا اس کا جواب لکھواتا ہوں۔

"مقید بامر مباح میں اگر مباح اپنی حد سے نا گزرے یا عوام کو خرابی میں نہ ڈالے تو جائز ہے۔ اور اگر ان دونوں میں سے کوئی امر واقع ہو جائے تو ناجائز ہوگا۔ اس مقدمہ کو خود تسلیم کرتے ہو۔ اب تقلید کو سنو کہ مطلق تقلید مأمور بہ ہے اللہ تعالی کا فرمان ہے (فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون)

ترجمہ:(تم اہل علم سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو) اور بوجہ دیگر نصوص۔

 مگر بعد ایک مدت کے تقلید غیر شخصی کے سبب مفاسد پیدا ہوئے کہ آدمی بسبب اس کے لا ابالی اپنے دین سے ہو جاتا ہے۔ اور اپنی ہوائے نفسانی کا اتباع اس میں گویا لازم ہے۔ اورطعن علمائے مجتہدین و صحابہ کرام اس کا ثمرہ ہے۔ ان امور کے سبب باہم نزاع پیدا ہوتا ہے۔ اگر تم بغور دیکھو گے تو یہ سب امور تقلید غیر شخصی کے ثمرات نظر آئیں گے۔ اور اس پر ان کا مرتب ہونا آپ پر واضح ہو جائے گا۔ لہذا تقلید غیر شخصی اس بدنظمی کے سبب گویا ممنوع من اللہ تعالی ہو گئی پس ایسی حالت میں تقلید شخصی گویا فرض ہو گئی اس واسطے کہ تقلید مامور بہ کی دو نوع ہیں شخصی اور غیر شخصی اور تقلید بمنزلہ جنس ہے اور مطلق کا وجود خارج میں بدون اپنے کسی فرد کے محال ہے پس جب غیر شخصی حرام ہوئی بوجہ لزوم فاسد ، تو اب شخصی معین مامور بہ ہو گئی اور جو چیز کہ خدا تعالی کی طرف سے فرض ہو اگر اس میں کچھ مفاسد پیدا ہوں اور اس کا حصول بدون اس ایک فرد کے ناممکن ہو تو فرد حرام نہ ہوگا(مثلا حج فرض ہے اور اس کے کرنے کا پاکستان میں صرف ایک طریقہ ہے جہاز کے راستے جانا۔اس میں ایئر ہوسٹس ہوتی ہیں۔) بلکہ ازالہ ان مفاسد کا اس سے واجب ہوگا۔ اور اگر کسی مامور کی ایک نوع میں نقصان ہو اور دوسری نوع سالم اس نقصان سے ہو تو وہی فرد خاصۃ مامور بہ بن جاتا ہے اور اس کے عوارض میں اگر کوئی نقصان ہو تو اس نقصان کا ترک کرنا لازم ہوگا نہ اس فرد کا(مثلا حج کا کوئی ایسا طریقہ نکل آئے) یہ حال وجوب تقلید شخصی کا ہے اسی واسطے تقلید غیر شخصی کو فقہاء نے کتابوں میں منع لکھا ہے مگر جو عالم غیر شخصی کے سبب مبتلا ان مفاسد مذکورہ کا نہ ہو اور نہ اس کے سبب سے عوام میں ہیجان ہو اس کو تقلید غیر شخصی اب بھی جائز ہوگی"انتھی

(تذکرۃالرشید ص132)

مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا جواب خط بھی ہم نمبروں کی شکل میں دے دیتے ہیں۔ اس زمانے کی اردو اور مضمون کے مشکل ہونے کا تقاضہ یہی ہے۔

1۔ جاہل کے لیے عالم کی تقلید اللہ کا حکم ہے۔

دلیل۔  فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون( اگر تم نہیں جانتے ہو تو اہل علم سے پوچھو) اور دیگر دلائل

 (جن کو اختصار کی وجہ سے ذکر نہیں کیا البتہ تقلید کے عنوان پر جو کتابیں ہیں ان میں موجود ہیں)

  تقلید دو ہی طرح کی جا سکتی ہے۔(ان دو طریقوں میں سے ایک اختیار کرنا واجب ہے)

پہلا طریقہ۔غیر شخصی(جس میں پابندی نہیں ہے۔ ایک مسئلے میں ایک مجتہد پر اعتماد کر لیا دوسرے مسئلے میں کسی اور پر)دوسرا طریقہ۔تقلید شخصی(ایک مجتہد کا پابند ہو کر اس کے اجتہادات پر اعتماد کرنا)

3۔ مگر ایک مدت کے بعد  تقلید غیر شخصی کی وجہ سے مفاسد پیدا ہوئے۔۔۔۔۔۔

یعنی جب تک تقلید غیرشخصی مفاسد کا سبب نہ بنی۔ تب تک علماء نے تقلید شخصی کے وجوب  کا فتوی نہیں دیا۔

  تقلید غیر شخصی کے سبب پیدا ہونے والے مفاسد

الف۔ دین میں لاپرواہی اور نفسانی خواہش کا اتباع اس میں لازم ہو گیا(کہ جس مسئلے میں جس کا قول نفس کے مطابق پایا لے لیا۔ جبکہ تقلید شخصی اس بے اعتدالی کا گلا گھونٹ دیتی ہے)

ب۔  صحابہ اور علماء مجتہدین پر طعن اسکا ثمرہ ہے۔

 جس صحابی یا مجتہد کا قول خواہش نفس کے خلاف نظر آتا ہے اس پر زبان طعن دراز ہو جاتی ہے(ہمیں اس کے دلائل دینے کی ضرورت نہیں ہے غیر مقلدین خود عمل کر کے اس کے دلائل فراہم کر رہے ہیں)۔

ج۔  اور ان امور کے سبب باہم نزاع بھی پیدا ہوتا ہے۔( ظاہری سی بات ہے جب ہر "دو لفظ" جاننے والے کا ایک

اپنا مذہب ہو تو نزاع کیوں کر پیدا نہیں ہوگا ترک تقلید کی وجہ سے نزاع کی جو آگ بھڑکی اس کی تفصیل "مظالم

روپڑی" میں دیکھی جا سکتی ہے)

ان چار نکات کی بنا پر نتیجہ

"لہذا تقلید غیر شخصی اس بد نظمی کے سبب گویا ممنوع من اللہ تعالی ہو گئی پس ایسی حالت میں تقلید شخصی گویا فرض ہو گئی"

 یعنی تقلید غیر شخصی نفسانی خواہشات کی اتباع ،  سلف صالحین پر طعن ، اور باہمی جھگڑوں کا سبب ہے۔ یہ تینوں کام ممنوع ہیں تو تقلید غیر شخصی بھی ممنوع ہوئی۔ ان تینوں سے بچنا فرض ہے۔ تو "بچنے کا طریقہ" عامی کیلئے عالم کی تقلید کا حکم خود اللہ تعالی کی طرف سے ہے۔ حکم پر عمل کرنے کے لیے تقلید کی دو قسمیں ہیں شخصی اور غیر شخصی۔ غیر شخصی میں جو بڑے بڑے مفاسد ہیں وہ شخصی میں نہیں ہیں۔ لہذا تقلید شخصی کو اختیار کر کے اس میں جو کوئی چھوٹی موٹی کمی کوتاہی ہو اس کی اصلاح کی جائے۔ "تقلید غیر شخصی کے جواز کی صورت" اگر کوئی عالم تقلید غیر شخصی کرتے ہوئے خود بھی مفاسد سے بچے اور عوام میں انتشار پیدا ہونے کا ذریعہ بھی نہ بنے تو اس کے لیے تقلید غیر شخصی آج بھی جائز ہے۔

 ”حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے جواب الجواب" اب سے انشاءاللہ تعالی کوئی نیا کام بلا استجازہ حضرت والا کے وقوع میں نہ آوے گا اور اگر غلطی سے کوئی عمل صادر ہو جاوے تو بے

تکلف احقر کو متنبہ فرما دیا جایا کرے انشاءاللہ تعالی امتثال امر میں کوتاہی نہ ہوگی۔“

 اس کے جواب میں حضرت قدس سرہ نے مولانا کے اس رجوع الی الحق کا شکریہ اور اس پر شاباش تحریر فرمائی اور جواب الجواب میں مولانا  کی طرف سے شکریہ آ کر کتابت ختم ہوئی( تذکرۃالرشید صفحہ 131تا133)۔

            معزز قارئین یہ ایک تربیت کے طالب کا اپنے مرشد کے نام خط تھا۔ایک حق کے طالب کو راہ حق میں جن گھاٹیوں سے گزرنا پڑتا ہے ان میں ایک گھاٹی وساوس کی بھی ہے۔ (جیسا کہ اس پر صحابہ کرام کی نصوص موجود ہیں)جن خیالات کا تھانوی صاحب نے اظہار کیا  یہ خیالات کچھ اور لوگوں کو بھی آئے تھے۔لیکن دونوں جگہ فرق یہ ہے کہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اکابر پر اعتماد فرماتے ہوئے ان سے راہنمائی لی اور ان کی رہنمائی کو اپنا نصب العین بنایا۔ لیکن جنہوں نے وساوس کو حرف آخر سمجھا انہوں نے مقلدین تو کیا ائمہ تک پر

زبان درازیاں کیں۔

 جب طرز عمل مختلف تو نتیجہ بھی مختلف

              دونوں طرف طرز عمل مختلف ہونے کی وجہ سے دو طرفہ نتائج بھی مختلف ہی نکلے۔جنہوں نے اپنے خیالات کو حرف آخر سمجھا ان کے متعلق بٹالوی صاحب کہتے ہیں کہ ایسے لوگ اسلام کو بھی سلام کر بیٹھے۔ لیکن حضرت تھانوی رحمت اللہ علیہ جنہوں نے اپنے اکابر سے راہنمائی لی وہ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کی وضاحت سے ایسے مطمئن ہوئے کہ نہ صرف یہ کہ خود جادہ مستقیم پر رواں دواں اور وساوس سے محفوظ رہے بلکہ اعلاءالسنن کی تالیف کرا کر رہتی دنیا تک کے لوگوں سے ان وساوس کو دور کرنے کا کام کر گئے۔ فجزاہ اللّٰہ عنا احسن الجزاء۔


 

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...