نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام علي بن المدینیؒ (م۲۳۴؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں۔

 


امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام علي بن المدینیؒ  (م۲۳۴؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں۔

مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

امام ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰؁ھ) امام علي بن المدینی ؒ (م ۲۳۴؁ھ)کے نزدیک ثقہ ہیں ۔ چنانچہ

حافظ المغرب ، امام ابن عبد البر ؒ (م ۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

وقال الحسن بن علي الحلواني:

قال لي شبابة بن سوار: كان شعبة حسن الرأي في أبي حنيفة

وكان يستنشدني أبيات مساور الوراق:

إذا ما الناس يوما قايسونا ... بآبدة من الفتيا طريفه

وذكر الأبيات،

وقال علي بن المديني: أبو حنيفة روى عنه الثوري، وابن المبارك، وحماد بن زيد، وهشيم، ووكيع بن الجراح، وعباد بن العوام، وجعفر بن عون، وهو ثقة لا بأس به،

(ثقہ ، ثبت، حافظ ، حجت ، صاحب تصانیف ) [1]امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ)فرماتے ہیں کہ مجھ سے (ثقہ ، حافظ) [2]شبابہ بن سوار ؒ (م ۲۰۶؁ھ)نے کہا کہ : امام شعبہ ؒ (م ۱۶۰؁ھ) امام ابو حنیفہ ؒ کے بارے میں اچھی رائے رکھتے تھے۔

پھر امام شعبہؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کی تعریف ومدح میں اشعار کہے، اس کے فوراً بعد حافظ حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ (میرے استاد)[3]امام علی بن المدینی ؒ (م ۲۳۴؁ھ) نے کہا کہ : امام ابو حنیفہ ؒ سے امام سفیان ثوریؒ ، امام عبد اللہ بن المبارک ؒ ، حماد بن زید ؒ ، ہشیم بن بشیرِؒ، امام وکیع بن الجراحؒ ، عباد بن العوام ؒ ، اور جعفر بن عونؒ نے روایت کیا ہے اور امام ابو حنیفہ ثقہ ہیں ، ان میں کوئی خرابی نہیں ہے۔  (جامع بیان العلم وفضائلہ : جلد۲ : صفحہ ۱۰۸۳)

معلوم ہوا کہ حافظ علی بن المدینی ؒ کے نزدیک بھی امام ابو حنیفہ ؒ ثقہ ہیں ۔

نوٹ:

امام علی بن المدینی ؒ (م ۲۳۴؁ھ) کا یہ قول در اصل ان کے شاگرد امام  حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ) نے نقل کیا ہے، اور حسن بن علی الحلوانی کا قول  حافظ المغرب ؒ نے ذکر کیا ہے ، جیسا کہ ان کی کتاب جامع بیان العلم وفضائلہ کی عبارت سے ظاہر ہوتا ہے۔

اعتراض :

رئیس ندوی سلفی نے یہ قول کو بے سند بتایا ہے اور کہا کہ بے سند بات نصوص ِ کتاب وسنت کے مطابق جھوٹی قرار دئیے جانے کے لائق ہے ۔ (سلفی تحقیقی  جائزہ : صفحہ ۷۷)

الجواب :

امام علی بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)  کا یہ قول ان کے  شاگرد امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ)نے نقل کیا ہے ، جیسا کہ سیاق وسباق سے ظاہر ہے۔

اور امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ)  کا یہ قول ، حافظ المغرب ؒ نے ان کی کتاب ’کتاب المعرفہ‘ سے نقل کیا ہے۔

کیونکہ حافظ المغرب ؒ نے کئی مقامات پر امام حسن بن علی الحلوانی ؒ کے اقوال ذکر کئے ہیں اور بعض جگہ پر انہوں نے ان کی کتاب کا بھی ذکر کیا ، مثلاً :

وذكر الحسن بن علي الحلواني في كتاب المعرفة قال: سمعت عبد الرزاق يقول: سمعت معمرا يقول ۔۔۔۔۔۔۔( جامع بيان العلم وفضله: ج۱: ص ۳۳۸)

وذكره الحسن الحلواني في كتاب المعرفة ثنا محمد بن عيسى قال: حدثنا أبو سلمة يوسف بن الماجشون قال۔۔۔۔۔۔۔( جامع بيان العلم وفضله: ج۱: ص ۳۶۵)

ثابت ہوا کہ یہ قول حافظ المغرب ؒ نے امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ) کی کتاب ’کتاب المعرفہ‘ سے نقل کیا ہے۔ غیر مقلدین ، اہل حدیث حضرات بھی یہ اصول تسلیم مانتے ہیں : چناچہ

غیر مقلدین کے کفایت اللہ سنابلی صاحب نے بھی (بحوالہ اکمال للمغلطائی )سلیمان بن موسیٰ الدمشقی ؒ کی توثیق میں ابن اکثم کا قول پیش کیا ہے اور کہا کہ (ایک دوسرے مقام پر) حافظ مغلطائی ؒ نے ابن اکثم کی کتاب  کا ذکر کیا ہے۔ (انوار البدر : صفحہ ۱۸۸، طبعہ بیت السلام)

یعنی موصوف یہ ثابت کرنا چاہ  رہے ہیں کہ حافظ مغلطائی ؒ نے یہ قول ابن اکثم ؒ کی کتاب سے  نقل کیا ہے ۔

الغرض جب غیر مقلدین کے نزدیک ابن اکثم ؒ کا قول ان کی کتاب سے لیا گیا ہے، تو پھر انہیں کے اصول میں امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ) کا قول بھی ان کی کتاب ’کتاب المعرفہ‘ سے نقل کیا گیا ہے۔

لہذا رئیس صاحب اعتراض باطل ومردود ہے، اور صحیح سند سے ثابت ہوا کہ امام علی بن المدینیؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ کو ثقہ مانتے ہیں ، والحمدللہ۔

ارشاد الحق اثری صاحب کی پیش کردہ جرح اور اس کی حقیقت:

توضیح الکلام : صفحہ ۹۳۲ پر ارشاد الحق اثری صاحب نے بحوالہ تاریخ بغداد نقل کیا کہ علی بن المدینی ؒ نے کہا کہ : امام ابو حنیفہ ؒ نے ۵۰ احادیث میں غلطی کی ہے۔

الجواب :

سند اور متن یہ ہیں :

أخبرني علي بن محمد المالكي، أخبرنا عبد الله بن عثمان الصفار، أخبرنا محمد بن عمران الصيرفي، حدثنا عبد الله بن علي بن عبد الله المديني  قال: وسألته- يعني أباه- عن أبي حنيفة صاحب الرأي، فضعفه جدا، وقال: لو كان بين يدي ما سألته عن شيء، وروى خمسين حديثا أخطأ فيها.(تاریخ بغداد : ج ۱۳: ص ۴۲۲)

اسکی سند میں عبد اللہ بن علی بن المدینیؒ موجود ہیں ، جس کے بارےمیں  خود اثری صاحب نے لکھا ہے کہ عبد اللہ بن علی کا ترجمہ تاریخ ِ بغداد (جلد۱۰:صفحہ ۹)  میں موجود ہے مگر خطیب نے  کوئی جرح یا توثیق نقل نہیں کی ، البتہ حافظ ابن حجرؒ نے ابو جعفر الرازی پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ : عبد اللہ بن علی نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ وہ موسیٰ بن عبیدہ کی طرح ہے  اور محمد بن عثمان نے ابن المدینی سے نقل کیا ہے وہ ثقہ ہیں ، مگر محمد بن عثمان ضعیف ہے، پس عبد اللہ بن علی کی  اپنے باپ سے روایت اولیٰ ہے۔ (توضیح الکلام : صفحہ ۹۳۲)

نوٹ :

حافظ ابن حجرؒ کے الفاظ یہ ہیں :

وقال عبد الله بن علي بن المديني عن أبيه هو نحو موسى بن عبيدة يخلط فيما يروي عن مغيرة ونحوه وقال محمد بن عثمان بن أبي شيبة عن علي بن المديني ثقة

قلت محمد بن عثمان ضعيف فرواية عبد الله بن علي عن أبيه أولى۔ (تلخیص الحبیر : جلد۱ : صفحہ ۴۴۳)

غور فرمائیے! حافظ ابن حجر ؒ  عبد اللہ بن علی ؒ کی روایت کو صرف ضعیف راویکی روایت پر ترجیح دی ہے، نہ کہ ثقہ راوی کی روایت پر ۔

لہذا اثری صاحب کی نقل کردہ عبارت کی روشنی میں عبد اللہ بن علیؒ کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی ،جب تک وہ کسی ثقہ راوی کی مخالفت نہ کرے  لیکن جب وہ ثقہ کی مخالفت کریگی، تو ان کی روایت غیر مقبول ہوگی، جیسا کہ ابن حجرؒ کی روایت سے ظاہر ہے۔

اور یہاں امام ابو حنیفہ ؒ کے معاملہ میں عبد اللہ بن علی ؒ کی روایت ، (ثقہ ، ثبت، حافظ، حجت، صاحب تصانیف) امام حسن بن علی الحلوانی ؒ (م ۲۴۲؁ھ)  کی روایت کے خلاف ہے ، لہذا خود اثری صاحب کی نقل کردہ عبارت کی روح سے، عبد اللہ بن علی ؒ کی روایت باطل اور مردود ہے۔

اور صحیح امام حسن بن علی الحلونی ؒ (م ۲۴۲؁ھ)  کی روایت ہے، جس میں ابن مدینیؒ نے امام صاحب ؒ کو ثقہ کہا ہے۔



[1] تقریب : رقم ۱۲۶۲،الکاشف وغیرہ۔

[2]   تقریب : رقم ۲۷۳۳۔

[3] تہذیب الکمال : جلد۶: صفحہ ۲۶۱۔

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 6

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...