الطهارة بلا نية جائزة (وضومیں نیت کے مسئلے
پر زبیر علی زئی کو جواب)
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
زبیر علی زئی صاحب وضو میں
نیت کو فرض ثابت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’انما
الاعمال بالنیات ‘‘۔ اس حدیث پا ک سے معلوم ہواکہ وضو ،غسل
جنابت اور نماز وغیرہ میں نیت کرنا فرض ہے،اسی پر فقہاء کا اجماع ہے ۔(ہدیۃ المسلمین
ص: ۱۱)
نوٹ
:
یہ
اجماع والی بات کہاں تک صحیح ہے اس کا جواب تو آگے آرہا ہے ۔
الجواب :
اس حدیث کے معنی میں فقہاء
کرام کا اختلاف ہے،لیکن اس کا راجح اور صحیح معنی یہی ہے کہ سارے اعمال کے ’ثواب‘
کا دارومدار نیت پر ہے ،چنانچہ :
(۱) امام
ابو جعفر طحاوی ؒ(م ۳۲۱ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’الاعمال بالنیات ،وانما
لکل امرء ی ما نوی یرید من الثواب ‘‘ اس سے مراد ثواب ہے۔(شرح معانی الآثار ج:۳ ص:
۹۶،حدیث
نمبر :۴۶۵۱)
(۲) امام
ابو بکر جصاص ؒ الرازی(م ۳۲۱ھ)فرماتے
ہیں کہ’’واحتمل أن یراد بہ فضیلۃ العمل ‘‘ احتمال ہے کہ اس حدیث سے مراد
عمل کی فضیلت وثواب ہو ۔(شرح مختصر الطحاوی ج: ۱ ص
: ۳۰۷)
(۳) امام
عینی ؒ (م ۸۵۵ھ)
فرماتے ہیں کہ’’ قولہ ولکل امریء ما نوی یدل علی
الثواب والاجر‘‘ حضور ﷺ کا قول
’لکل امریء ما نوی‘ ثواب اور اجر پر دلالت کررہا ہے ۔(عمد
ہ القاری ج: ۱ص
:۳۰)
(۵) امام
ابن الہمام ؒ (م ۸۶۱ھ)
اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ ’’اذا لم ینو حتی لم
تقع عبادۃ سبباً للثواب ‘‘ اگر نیت نہ ہو تو وضو ثواب
کا سبب نہیں بنے گا ۔پھر آگے امام صاحب ؒ نے وضاحت کی ہے کہ بغیر نیت کے بھی وضو درست
ہے ۔(فتح القدیر ج:۱ص:
۳۲)
معلوم ہوا کہ امام ابن الہمام
ؒ کے نزدیک یہ حدیث ثواب پر ہی محمول ہے ۔
(۶) شمس
الائمہ امام سرخسی ؒ (م۴۸۳ھ)فرماتے
ہیں کہ’’ فان المراد أن ثواب العمل بحسب النیۃ‘‘
اس حدیث سے مراد عمل کا ثواب نیت کے اعتبار سے ہوتا ہے ۔(المبسوط للسرخسی ج : ۱ ص
: ۷۲)
(۷) محدث
العصر علامہ، حافظ انور شاہ کشمیری ؒ (م۱۳۵۳ھ) فرماتے ہیں کہ ’’صحۃ
الاعمال بانیات ،وعلی ہذا فالاعمال عند عدم النیۃ تصیر خالیۃ عن الثواب عندنا
وباطلۃ عندہم ،ثم بنوا علیہ اشتراط النیۃ فی الوضوء ‘‘
اعمال کی صحت کا دارومدار نیت پر ہے اسی بنیاد پر (ہے کہ )نیت نہ ہونے کے وقت ثواب
سے خالی ہوتے ہیں ۔(فیض الباری ج : ۱ص : ۸۱)
معلوم
ہواکہ سلف صالحین کی ایک جماعت نے یہی معنی کیا ہے کہ اعمال کے ثواب کا دارومدار نیت
پر ہے اور یہی صحیح ہے۔
یعنی
اگر کوئی اپنے کو پاک کرے اور اس نے اس کی نیت نہیں کی ہو تو اسے ثواب نہیں ملے گا
مگر وہ پاک ہو جائے گا ۔مثلاً کوئی اپنے کپڑے پا ک کر رہا ہو اور اس نے نیت کی کہ میں
نماز پڑھنے کے لئے اپنے کپڑوں کو صاف کررہا ہوں ،تو اس کو اپنی نیک نیتی کی وجہ سے
ثواب ملے گا ۔لیکن اگر کسی نے بغیر نیت کے
کپڑے دھوئے تو اسے ثواب تو نہیں ملے گا ،لیکن کپڑے تو پاک ہو ہی جائیں گے ۔
بالکل
اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ وضو میں نیت کرنا چاہیئے ،لیکن اگر کسی نے وضو میں نیت نہیں
کی تو وضو تو بہر حال ہوجا ئیگا ،کیونکہ پانی کی بنیادی صفت پاک کرنا ہے ۔
اور
جو لوگ اس حدیث سے وضو میں نیت کو فرض مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نیت کے بغیر وضو ہی
نہیں ہوتا تو پھر اسی حدیث کی وجہ سے سارے
اعمال میں بھی نیت فرض ثابت ہوگی کیونکہ حدیث کے متن میں ہے کہ ’اعمال نیت سے ہیں ‘۔
معلوم
ہواکہ حدیث کا متن عام ہے ،یعنی سارے اعمال نیت سے ہیں ۔
اور
فرقہ اہل حدیث کے لوگ یہ معنی کررہے ہیں کہ سارے اعمال میں نیت فرض ہے ،جس کی وجہ سے
انہوں نے وضو میں نیت کو فرض مانا ہے ۔
تو
پھر اہل حدیث حضرات سے ہمارا سوال ہے کہ اگر کسی کے کپڑ ے پر نجاست(گندگی) لگی ہو ،اور
اس کو صاف کرنے والے نے نیت نہیں کی اور ایسے ہی کپڑے دھو لئے ،تو کیا بغیر نیت کے
آدمی کا کپڑا بھی پاک نہیں ہوگا ؟
حالانکہ
پانی کا کپڑے کو پاک کرنے میں نیت کا کوئی دخل نہیں ہے ،اور پانی کی بنیادی صفت میں
سے ہے کہ وہ پاک کرتاہے ۔تو اہل حدیث حضرات بتائیں ! کہ آپ کا کیا خیال ہے ؟
ایک اہم نکتہ :
بقول
غیر مقلدین اگر ہم وضو میں نیت کو وضو میں فرض مان لیں تو پانی کی پاک کرنے کی صفت نیت پر موقوف (depend)ہوجائے گی۔یعنی اگر نیت ہوگی
تو پانی صاف کرے گا اور اگر نیت نہ ہوگی تو پانی صاف نہیں کرے گا ۔حالانکہ یہ بات دلیل
اور عقل کے بھی خلاف ہے ۔چنانچہ اللہ تعالی فرماتے
ہیں کہ ’’وأنزلنا من السماء ماء طہوراً ‘‘ اور ہم نے آسمان سے پاک پانی
اتارا ۔(الفرقان : ۴۸)
اسی
آیت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابو بکر جصاص ؒ (م۳۷۰ھ)
فرماتے ہیں کہ’’ قولہ تعالی وأنزلنا من السماء ماء
طہوراً معناہ مطہراً فحیثما وجد فواجب أن
یکون مطہراً‘‘ اس کے (اس آیت میں پاک پانی کے )معنی ہے کہ
پاک کرنے والا ،جس جگہ وہ پایا جائیگا (یعنی جس جگہ وہ پانی جائیگا )تو لازم ہے کہ
وہ پاک کرے گا ۔(احکام القرآن للجصاص ج:۳ص : ۳۳۶)
مزید
فرماتے ہیں کہ ’’ ولو شرطنا فیہ النیۃ کنا قد سلبناہ
الصفۃ التی وصفہ اللہ بہا من کونہ طہوراً
لانہ حینئذ لا یکون طہوراً الا بغیرہ واللہ تعالی جعلہ طہوراً من غیر شرط‘‘ اگر ہم اس میں (یعنی پانی
کے پاک کرنے میں )نیت کی شرط لگا دیں (جیسا کہ اہل حدیث حضرات کہہ رہے ہیں )تو پانی
پاک کرنے کی صفت کو چھیننا لازم آئیگا،جو صفت پانی کواللہ تعالی نے دی ہے ۔(پھر )
اس وقت وہ پاک کرنے والا نہیں ہوگا بغیر نیت کے ،(جبکہ ) اللہ تعالی نے بغیر کسی شرط
کے اس کو پاک کرنے والا قرار دیا ہے ۔(احکام القرآن للجصاص ج: ۳ ص:
۳۳۶)
اس
کے علاوہ ام سلمہؓ کے جنابت کے غسل کے متعلق سوال کے جواب میں نبی ﷺ نے فرمایا ’’انما
یکفیک ان تحثین علی رأسک ثلاث حثیا ت من ماء ،ثم تفیضین علیک الماء فتطہرین ‘‘
تمہا رے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ اپنے سر پر تین چلو پانی ڈالو ،پھر اپنے جسم پر پانی
بہاؤ تو تم پاک ہو جاؤگی ۔ (صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ۲۴۶،امام
ابن خزیمہ ؒ ،امام ابن الجارود ؒ ،امام ابو عوانہ ؒ ،امام ابن حبان ؒ اور امام بغوی
ؒ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔المنتقی رقم الحدیث :۹۸،صحیح ابی عوانہ رقم الحدیث
: ۸۶۸،صحیح
ابن حبان رقم الحدیث : ۱۱۹۸،شرح
السنۃ للبغوی ج:۲ص:۱۸،مسند حمیدی رقم الحدیث ۲۹۶)
غور
فرمائیے ! حضور ﷺ نے پاکی حاصل کرنے کے لئے
پانی بہانے کے لئے تو فرمایا لیکن نیت کا کوئی ذکر نہیں کیا ہے ،معلوم ہو ا کہ طہارت
کے لئے نیت کرنا فرض نہیں ہے ۔
نیز
امام ابراہیم نخعی ؒ (م ۹۶ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ما
أصابہ الماء من مواضع الطہور فقد طہر ‘‘
اعضاء وضو میں سے جس عضو تک پانی پہنچ گیا
وہ پاک ہوگیا۔(مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ۹۴۵۱واسنادہ صحیح )[1]
اسی طرح امام محمد علی بن الحسین زین
العابدین ؒ(م۹۳ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ حدثنا ابن المبارک ،عن معمر، عن زید
بن اسلم ،قال سمعت علی بن حسین یقول : ماأصاب الماء منک وأنت جنب فقد طہر ذلک
المکان ‘‘ ناپاکی
کی حالت میں ، آپ کےبدن کے جس حصہ پر پانی لگ جائے وہ پاک ہوگیا ۔(مصنف ابن ابی
شیبہ رقم الحدیث :۴۵۲واسنادہ
صحیح)
الغرض
قرآن پاک کی آیت کے علاوہ ،نبی ﷺ اور امت
کے ائمہ وسلف صالحین نے اعضا ء کو پاک کرنے کا طریقہ تو بتایا ہے لیکن نیت کا کوئی
ذکر نہیں کیا ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو،غسل وغیرہ میں نیت فرض نہیں ہے ۔
لیکن
پھر بھی غیر مقلدین اگر اپنے دعوے پر اڑے ہوئے ہیں تو ہم ان سے پوچھتے ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں کتا گھسا اور تھالی میں منھ ڈال
دیا ہو ،تو کیا بغیر نیت کے اسے دھونے سے تھالی پاک ہوگی ؟
اگر
نہیں ! تو پھر اللہ تعالی نے بغیرکسی شرط کے پانی کو مطلقاًپاک کرنے والا کیوں کہا
ہے ؟
اگر
ہاں !تو بغیر نیت وضوسے بھی آدمی پاک ہو جائیگا ۔
ایک عام اعتراض :
اگر
وضو میں نیت فرض نہیں تو تیمم اور نماز میں نیت کیوں فرض ہے ؟
الجواب :
تیمم کے متعلق قرآن پاک میں
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’فلم تجدوا ماء
فتیمموا صعیداًطیباً فامسحوا بوجوہکم وایدیکم‘‘
اگر تمہیں پانی نہ ملے تو پاک مٹی کا ارادہ
کرو پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرو۔(سورہ نساء :۴۳)
تیمم
کے معنی ہی قصد (ارادہ ،نیت )کرنے کے ہیں ،اور پانی فطرتاً پاک کرنیوالا ہے جیسا کہ
اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ ’’ أنزلنا من السماء
ماء طہوراً‘‘ (ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ہے ،سورۃ
الفرقان :۴۸)
معلوم
ہو اکہ پانی فطراتاً پک کرنے والا ہے ،اور وضو سے اعضا ء کو پاک کرنا مقصود ہے۔ برخلاف مٹی کے کہ وہ فطرتاً پاک کرنے والی نہیں
۔
الامام
العلامہ محمد بن محمد بن محمود البابرتيؒ (م۷۸۶ھ)فرماتے
ہیں کہ’’التراب لم مطہراً طبعاً ‘‘ مٹی طبعی طور پر پاک کرنے
والی نہیں ہے ۔( العناية شرح
الهداية : ج ۱ : ص ۳۳)
اس
لئے اس سے پاکی حاصل کرتے وقت اللہ تعالی نے
نیت کا حکم فرمایا ہے ،جیسا کہ اوپر سورہ نساء کی آیت میں گزرچکا ۔اور اسی وجہ ہم
بھی تیمم کے وقت نیت کو فرض کہتے ہیں ۔جبکہ وضو کے بارے میں اللہ تعالی نے سورہ مائدہ
میں فرمایا کہ جب تم نماز کیلئے اٹھو تو پہلے اپنے چہرے کو دھو لو اور اپنے بازو کو
کہنیوں تک اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں تک دھولو ۔
غور
تو فرمائیے ! وضو میں جتنے فرائض ہیں ان سب کو بیان کیا
گیا لیکن وضو میں نیت کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔
لہذا وضو میں نیت فرض نہیں برخلا ف نماز کے
،کہ نماز میں نیت اسلئے ضروری ہے کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ ’’وما أمروا الا لیعبدوا
اللہ مخلصین ‘‘ ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت
اخلا ص کے ساتھ ادا کریں ۔(سورہ بینہ :۵) اور ظاہر ہے کہ اخلاص نیت کے صحیح ہونے کا نام
ہے ۔اس لئے تیمم اور نماز میں نیت فرض ہے ۔
ایک اشکا ل :
یہاں غیر مقلدین کہہ سکتے ہیں کہ سور ہ بینہ کی آیت میں اللہ تعالی نے اپنی
عبادت میں اخلاص پیدا کرنے کا حکم دیا ہے ۔تو وضو بھی تو عبادت ہے لہذا اس آیت سے
وضو میں نیت کا فرض ہونا لازم آرہا ہے ۔
الجواب:
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ قرآن پاک اپنی تشریح خود کرتی ہے۔(نور العینین
ص :۱۲۵)یعنی
ایک آیت دوسری آیت کی تشریح کرتی ہے ،اور ہم کہتے ہیں کہ قرآن پاک کی دوسری آیت
میں موجودہے کہ :أنزلنا من السماء ماء طہوراً(ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ہے
)سورہ فرقان :۴۸
اور
ائمہ اور سلف صالحین کے ارشادات گزر چکے کہ انہوں نے اس پانی پا ک کرنے والا پانی مرادلیا
ہے ۔اور وہ پانی جس جگہ بھی جائے ،وہ اس جگہ کو پاک کردیتا ہے ۔
لہذا
جب پانی جہاں جائے وہاں اس کو پا ک کردیتاہے کیونکہ پانی کی صفت یہی ہے کہ وہ پاک ہے
پاک کرنے والا ہے جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے ۔
تو
وضو ،غسل اور دوسرے اعمال جس میں پانی کے ذریعے پاکی حاصل کی جاتی ہے وہ صرف پانی کے
گزرنے سے ہی پاک ہو جاتے ہیں،اس میں نیت کا کوئی دخل نہیں ہے ۔
لہذا
یہ آیت دلیل ہے کہ سورہ بینہ والی آیت میں جو عبادت مذکور ہے اس سے اعضاء بدن یا
کوئی اور چیز جس کو پانی سے دھویا جائے وغیرہ اس طرح کے اعمال مراد نہیں ہیں ۔بلکہ
اس سے نماز ،روزہ اور زکوۃ وغیرہ مراد ہیں ،اور یہی احناف کا کہنا ہے ۔واللہ اعلم
لہذ
اخود غیر مقلدین کے اصول کی روشنی میں یہ اعتراض باطل ومردود ہے ۔
اعمال کے ’ثواب‘ کا
دارومدار نیت پر ہونے کی ایک اور دلیل :
اس
کی ایک دلیل یہ بھی اسی حدیث میں آگے فرمایا گیا کہ ’’
فمن کانت ہجرتہ الی دنیا یصیبہا ،او الی امرأۃ
ینکحہا ،فہجرتہ الی ما ہاجر الیہ ‘‘
یعنی اگر کوئی شخص ہجرت کرے
دنیا حاصل کرنے کے لئے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کے لئے توجس چیز کی طرف ہجرت کی گئی
ہے تو وہ ہجرت اسی کے لئے مانی جائے گی ۔
اس
کا مطلب یہی ہوا کہ اس کو ہجرت کا کوئی ثواب نہیں ملے گا لیکن یہ مطلب نہیں ہوسکتا
کہ اس کی ہجرت درست نہ ہوگی ۔اور یہی وجہ ہے کہ امام عینی ؒ (م ۸۵۵ھ)
فرماتے ہیں کہ’’ قولہ ولکل امریء ما نوی یدل علی
الثواب والاجر ‘‘ حضور ﷺ کے ارشاد ’’ولکل
امریء ما نوی‘‘(اس حدیث میں )ثواب اور اجر پر دلالت کررہا
ہے ۔(عمدۃ القاری ج:۱ص:
۳۰)
پس
یہی معاملہ وضو کا بھی ہے،کہ اگر وضو کرنے والے نے نیت نہ کی ہو تو ثواب نہیں ملے گا
پر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وضو ہی نہ ہوا ۔ پھر اس حدیث کی شرح میں ہے کہ :
اس
زمانے میں ایک شخص نے مکۃ المکرمہ سے ہجرت اس واسطے کی تھی کہ ایک عورت نے ان سے کہا
تھا کہ میں تم سے نکاح اس وقت کروں گی جب تم مدینہ منورہ ہجرت کر جاؤگے ۔چنانچہ وہ
ہجرت کرگئے ۔اب دل میں نیت عورت سے نکاح کرنے کی تھی تو ان کو ہجرت کا ثواب نہیں ملا
۔لیکن ان کی ہجرت تو ہو گئی، ان کا شما ر مہاجرین میں ہوا اور جو احکام مہاجرین کے
ساتھ مخصوص تھے وہ ان پر جاری ہوئے۔
اس
سے معلوم ہوا کہ ہجرت شرعاًصحیح ومعتبر ہوگئی یہ الگ بات ہے کہ ثواب نہیں ملا ۔بس یہی
معاملہ وضو کا بھی ہے ۔(درس ترمذی)
الغرض
سلف صالحین کی ایک جماعت کے ارشادات کے مطابق حدیث کے آگے کے جملے کی وضاحت اور حدیث
کی شرح سے بھی یہی بات واضح ہو رہی ہے کہ حدیث میں ثواب اور اجر کی نفی ہے ۔
لہذا
اہل حدیث حضرات کا اس حدیث سے وضو میں نیت کو فرض کہنا درست نہیں ہے ۔
احناف کے دلائل :
دلیل نمبر ۱:
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ:
یا أیہا الذین آمنوااذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا
وجوہکم وأیدیکم الی المرافق وامسحوا برء وسکم
وأرجلکم الی الکعبین ۔
اے
ایمان والو! جب تم نماز کے لئے اٹھو ،تو پہلے اپنے چہرے دھولو اور اپنے بازوکو کہنیوں
تک اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں تک دھولو ۔(سورہ مائدہ:۶)
اس آیت میں جتنی باتیں ذکر کی گئی ہیں وہ وضو کے فرائض
ہیں ۔
(۱) مشہور
فقیہ امام ابو حسن برہان الدین مرغینانیؒ(م۵۹۳ھ)فرماتے
ہیں کہ : قال اللہ تعالی ’’یا ایہا الذین آمنوا
اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم ‘‘الآیۃ ففرض الطہارۃ غسل الاعضاء الثلاثۃ
ومسح الرأس ‘‘ اس آیت کی وجہ سے وضو میں تین اعضاء کادھونا
اور سر کا مسح کرنا فرض ہوا ۔ (الہدایہ
ج :۱
ص:۹۲،۹۳)
(۲) امام
ابو عبداللہ القرطبی ؒ(م۶۷۱ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ذکر
تعالی اربعۃ اعضاء الوجہ وفرضہ الغسل
والیدین کذلک والرأس وفرضہ المسح اتفاقاًواختلف فی الرجلین ‘‘
اس آیت میں اللہ تعالی نے چار اعضا ء کا ذکر فرمایا ہے :چہرہ اس کا دھونا فرض ہے اور
اسی طرح دونوں ہاتھوں کا حکم ہے ،اور سرکا فرض مسح ہے یہاں تک سب کا اتفاق ہے اور پاؤں
کے بارے میں اختلاف ہے ۔(لیکن صحیح قول یہی ہے کہ پاؤں کا دھونا بھی فرض ہے)(تفسیر
قرطبی ج: ۶ص:۸۳)
(۳) امام
ابو بکر جصاص الرازی ؒ(م۳۷۰ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’قولہ تعالی فاغسلو ا وجوہکم یقتضی جواز
الصلاۃ بوجود الغسل سواء قارنتہ النیۃ اولم تقارنہ لان الغسل اسم شرعی مفہوم
المعنی فی اللغۃ وہو امرار الماء علی الموضع ولیس ہو عبارۃ عن النیۃ ‘‘
یہ آیت بغیر نیت کے صرف (اعضاء کے)دھونے سے
نماز کے جائز ہونے کا تقاضا کرتی ہے ،اس لئے کہ دھونا لغت میں ایک شرعی مفہوم کا نام
ہے ۔اور وہ پانی کا گزارنا ہے دھونے کی جگہ سے ۔اور دھونا نیت کانام نہیں ہے ۔(احکام
القرآن ج:۳ص:۳۳۵)[2]
تنبیہ :
بعض
علماء نے اسی آیت سے وضو میں نیت کے فرض ہونے پر استدلال کیا ہے جو کہ صحیح نہیں ہے
۔اور امام عماد الدین علی بن محمد ابو الحسن الطبریؒ (م۵۰۴ھ)نے
ان علماء کا خوب رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ’’وہذا
لیس بصحیح ‘‘ (یہ استدلال صحیح نہیں ہے )۔(احکام القرآن
للکیا الہراسی ج:۲
ص : ۳۲)
اسی
طرح امام محمد بن عبداللہ ابو بکر ابن العربی ؒ(م۵۴۳ھ)
نے اس استدلال کے بارے میں فرمایا ہے کہ ’’وہذا لا یصح ‘‘(یہ
استدلال صحیح نہیں ہے )۔(احکام القرآن لابن العربی ج:۲ص:۵۴)
معلوم
ہوا کہ ان کا استدلال صحیح نہیں ہے ۔ اگر وضو میں نیت فرض ہوتی تو اسے اللہ تعالی ضرور
ذکر فرماتے ،تو معلوم ہورہاہے کہ وضو میں نیت فرض نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۲:
اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
’’أنزلنا من السماء ماء ً طہوراً ‘‘
ہم نے آسمان سے پاک پانی اتارا ۔(سورہ الفرقان :۴۸) اس
آیت میں اللہ تعالی نے پنی کو مطلقاً پاک کرنے والا قرار دیا ہے ،لہذا پانی جب اور
جس جگہ استعمال ہوگا ،یہ پاک کرنے کااثر دیگا ۔چاہے وہ شخص جس کے اوپر پانی گر رہا
ہے اس کے دل میں طہارت کی نیت موجود ہو یا نہ ہو ،اس کی کافی تفصیل اوپر گذر چکی ۔
دلیل نمبر ۳ :
ام سلمہ ؓ کی حدیث اوپر گزر
چکی ،اس سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ وضو کے لئے نیت ضروری نہیں ہے۔
دلیل نمبر ۴:
امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۶)
فرماتے ہیں کہ
حدثنا الحسن بن علی
،حدثنا ہشام بن عبدالملک ،والحجاج بن منہال ،قالا حدثنا ہمام ،حدثنا اسحق بن
عبداللہ بن ابی طلحۃ ،عن علی بن یحی بن خلاد ،عن ابیہ عن عمہ رفاعۃ بن رافع بمعناہ
قال رسول اللہ ﷺ انہا لا تتم صلاۃ احدکم حتی یسبغ الوضوء کما امرہ اللہ عز وجل
فیغسل وجہہ ویدیہ الی المرفقین ،ویمسح رأسہ ورجلیہ الی الکعبین ۔
حضرت
رفاعہ بن رافع ؓ سے مروی ہے کہ وہ نبی پاک
ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ،آپ ﷺ نے فرمایا کہ کسی کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی
جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرے جیسا کہ اللہ تعالی نے وضو کا حکم دیا ہے ۔چنانچہ
وہ اپنے چہرے کو دھوئے اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے اور سر کا مسح کرے اور دونوں
پاؤں ٹخنوں سمیت دھوئے ۔(ابوداؤد رقم الحدیث :۸۵۸)[3]
وضاحت : اس حدیث میں وضو سے متعلق چار باتیں ذکر کی گئی ہیں
:
۱۔چہرہ
دھونا
۲۔ہاتھوں
اور
۳۔پاؤں
کادھونا
۴۔مسح
کرنا
اہم نکتہ :
یہ
چار باتیں فرائض وضو ہیں اگر وضو میں نیت کرنا فرض ہوتا ،تو رسول اللہ ﷺ امت کو ان
فرائض کی تعلیم دیتے وقت اس کا بھی ضرور ذکر
فرماتے ۔لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا اور آپ ﷺ کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ
وضو میں نیت فرض نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام ابو بکر جصاص ؒ (م ۳۷۰ھ)فرماتے ہیں کہ ’’یقتضی
جوازہ بغیر نیۃ ‘ُ‘ یہ حدیث تقاضا کرتی ہے کہ وضو جائز ہے
بغیر نیت کے ۔(احکام القرآن ج:۳ص : ۳۳۹)
اعتراض :
رئیس ندوی سلفی لکھتے ہیں کہ:مگر مفتی نذیری
نے یہ نہیں بتایا کہ قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی حدیث صحیح سے وضو میں نیت کا فرض
ہونے کے بجائے مسنون ومستحب ہونا ثابت ہوتا ہے ۔(رسول اللہ ﷺ کا صحیح طریقہ نماز
ص : ۷۹)
الجواب :
اوپر دو آیا ت اور دو احادیث
مبارکہ پیش کی جاچکی ہیں،جس سے ثابت ہو رہا ہے کہ وضو میں نیت فرض نہیں ہے ۔نیز ایک
اور حدیث ملاحظہ فرمائیں :
امام ابو الحسن الدار قطنی ؒ (م۳۸۵ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا محمد بن مخلد ،نا
أبو بکر محمد بن عبد الملک الزہیری ،نا مرداس بن محمد بن عبداللہ بن أبی بردۃ
،نا محمد بن ابان ،عن ایوب عن عائذ الطائی
،عن مجاہد ،عن ابی ہریرۃ قال: قال رسول اللہ ﷺ من توضأ وذکر اسم اللہ تطہر جسدہ
کلہ ،ومن توضأ ولم یذکر اسم اللہ لم یتطہر الا موضع الوضوئ۔
حضرت
ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :جس نے وضو کیا اور اللہ کا نام لیا
تو اس کا پورا بدن پاک ہوگا اور جس نے وضو کیا اور اللہ کا نام نہیں لیا تو صرف اس
کے وضو کی جگہ پاک ہوگی ۔(سنن دارقطنی ج: ۱ص:۱۲۴،۱۲۵،رقم الحدیث :۲۳۲واسنادہ ضعیف )
اس
حدیث کی ایک اور شاہد ہے جو حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے دیکھئے سنن دارقطنی
رقم الحدیث ۲۳۱واسنادہ
ضعیف ۔
اگرچہ
یہ دونوں سندیں ضعیف ہیں لیکن سلف صالحین نے وضاحت فرمائی ہے کہاایک دوسرے کو تقویت
دیکر یہ روایت حسن لغیرہ کے درجے کو پہنچ جاتی ہے ۔چنانچہ امام ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ)
اسی حدیث کے تحت امام ابن الصلاح (م۶۴۳ھ)
کا ایک قول نقل فرماکر اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ ’’قال
ابن الصلاح : ثبت
بمجموعہا ماتثبت بہ الحدیث الحسن ۔واللہ اعلم ‘‘
اس کی مجموعی سندوں سے حسن لغیرہ کا اثبات ہوتا ہے ۔(نتائج الافکار لابن حجر ج:۱ ص:۲۳۳)
یاد
رہے کہ امام ابن حجر عسقلانیؒ نے امام ابن الصلاح کے فیصلے سے کوئی اختلاف نہیں کیا
ہے تو اصول زبیر علی زئی کی روشنی میں ابن حجر عسقلانی ؒ نے سکوت کے ذریعے اس کی تائید
فرمائی ہے ۔(انوار الطریق ص:۸)
یعنی ابن حجر عسقلانی ؒ کے
نزدیک بھی یہ حدیث حسن لغیرہ ہے ۔
تنبیہ :
امام
ابن الصلاح کا یہ قول ان کی اپنی کتاب ’’شرح
مشکل الوسیط ج:۱ص:۱۴۹‘‘پر موجود ہے ۔
الغرض
ابن صلاح ؒ اور ابن حجر ؒ کے نزدیک یہ روایت حسن لغیرہ ہے اور حسن لغیرہ اہل حدیث حضرات
کے نزدیک حجت ہے ،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے ۔
اس
کے علاوہ غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل نذیر حسین دہلوی ؒ ایک اصول تحریر کرتے ہیں
کہ : کسی حدیث سے کسی
مجتہد کا دلیل پکڑنااس بات کی دلیل ہے کہ وہ حدیث ان کے نزدیک صحیح اور قابل استدلال
ہے ۔ (فتاوی نذیریہ ج:۳ص:
۳۱۶)
اسکین :
اور
اہل حدیث محقق
ارشاد الحق اثری صاحب ایک مقام پرایک ظاہری مذہب کے محدث امام ابن حزم ؒ (م۴۵۶ھ)
کے بارے میں لکھتے ہیں کہ علامہ ابن حزم نے المحلی میں اپنے مدعا پر ایک مقتدی کو صرف
فاتحہ پڑھنی چاہیئے،اس پر (عبادہ بن صامت ؓ کی )حدیث سے استدلال کیا ہے جو اس بات کی
دلیل ہے کہ یہ روایت ان کے نزدیک حسن یا صحیح ہے۔ (توضیح الکلام ص: ۲۱۴)
اسکین :
ثابت
ہوا کہ غیر مقلدین حضرات کے نزدیک جب کوئی فقیہ یا محدث کسی حدیث سے استدلال کرے تو
وہ حدیث اس مجتہد یا محدث کے نزدیک قابل استدلال ہوتی ہے ۔
لہذا
ان کے اصول کی روشنی میں درج ذیل محدثین نے اس حدیث سے استدلال فرماکر اسے صحیح قرار
دیا ہے ۔
(۱) امام
عبدالکریم بن محمد الرافعی ؒ(م۶۲۳ھ)،آپ
کے الفاظ یہ ہیں ’’روی فی بعض الروایات ویدل علیہ
قولہ ﷺ من توضأ وذکر اسم اللہ کان طہوراً لجمیع بدنہ ومن توضأ ولم یذکر اسم اللہ
کان طہوراًلاعضاء وضوئہ‘‘۔(شرح کبیر للرافعی ج:۱ص:۳۹۲)
اسی
وجہ سے امام ابن حجرؒ نے فرمایا ’’احتج بہ الرافعی ‘‘امام
رافعی ؒ نے اس روایت سے استدلا ل کیا ہے ۔(تلخیص الحبیر ج:۱ص:۱۲۹)
(۲) امام
ابن سید الناس ؒ (م۷۳۴ھ)
نے باحتجاج امام رافعی ؒ کا یہی قول نقل فرمایا ہے دیکھئے ( شرح ترمذی لابن سید
الناس ج :۱ص:۲۸۹،۲۹۰) اور
زئی صاحب کے اصول کی روشنی میں امام ابن سید الناس ؒ نے اس کی تائید فرمائی ہے ۔(انوار
الطریق ص:۸)
(۳) امام
ابو الحسین یحی بن ابی الخیر العمرانی ؒ (۵۵۸ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’دلیلنا ما روی عن ابن عمر ؓ :أن النبی
ﷺ قال :من توضأ وذکر اسم اللہ تعالی علیہ کا ن طہورا ًلجمیع بدنہ ،ومن توضأ ولم
یذکر اسم اللہ علیہ کان طہوراً لما مر علیہ الماء ‘‘۔
ہماری دلیل وہ ہے جو ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ (البیان للعمرانی ج:۱ص:۱۰۹)
اس سے صاف معلوم ہورہا ہے
کہ امام یحی بن ابی الخیر ؒ نے بھی اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے ۔جو کہ غیر مقلدین
کے اصول کی روشنی میں ان کے نزدیک یہ روایت صحیح ہے ۔
(۴) نیز
امام فخر الدین رازی ؒ (م ۶۰۶ھ)
نے بھی اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے ان کے الفاظ یہ ہیں ’’ثم
تأکد ہذا بماروی أنہ ﷺ قال :من توضأ فذکر اسم اللہ علیہ کان طہوراً
لجمیع بدنہ ومن توضأ ولم یذکر اسم اللہ علیہ کان طہوراًلاعضاء وضوئہ‘‘۔
(تفسیر کبیر ج:۱۱ص:۳۰۲)
(۵) امام
ماوردی ؒ(م ۴۵۰ھ)نے
بھی اسی حدیث سے استدلال فرمایا ہے ۔دیکھئے (الحاوی الکبیر للماوردی ج:۱ص:۱۰۱)
غالباً یہی وجہ ہے کہ غیر مقلدین کے قاضی شوکانی ؒ (م۱۲۵۰ھ)فرماتے
ہیں کہ’’واحتج الآخروں بحدیث ابن عمرؓ‘‘ اور
دوسروں نے ابن عمر ؓ کی حد یث سے احتجاج کیا ہے ۔(نیل الاوطار ج:۱ ص:۱۷۹حدیث نمبر ۱۶۴کے تحت )
لہذا
جب فقہا ء و محدثین نے اس حدیث سے استدلال فرمایا ہے ،جو کہ اہل حدیث حضرات کے نزدیک
صحیح ہونے کی دلیل ہے ،اور ساتھ ہی ساتھ محدثین نے اس حدیث کو حسن یعنی حسن لغیرہ قرار
دیا ہے ۔تو پھر یہ حدیث بہرحال مقبول ہے اور اس سے دلیل پکڑنا بھی درست ہے ۔
اور
حسن لغیرہ خود غیر مقلدین کے نزدیک بھی حجت ہے ۔(دوماہی الاجماع مجلہ : شمارہ نمبر ۱ : ص ۳ )
ایک اہم وضاحت :
اس روایت کے الفاظ ہیں کہ ’’جس نے وضو کیا
اور اللہ کا نام نہ لیا تو صرف اس کے وضو کی جگہ پاک ہوگی‘‘یہ دلیل ہے کہ جس نے
وضو کرتے وقت اللہ تعالی کا نام مطلق طور پر نہ لیا ہو چاہے زبان سے یا چاہے دل میں
نیت کے ذریعے ۔
حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق اس کے اعضاء وضو پاک ہو جائیں
گے جو کہ نماز کے لئے کافی ہے ۔ لہذا یہ حدیث صراحت کے ساتھ دلالت کر رہی ہے کہ وضو
میں نیت واجب نہیں ،بلکہ سنت ومستحب ہے ۔
پس
رئیس ندوی سلفی صاحب کا اعتراض مردود ہے ۔
ایک اور اعتراض :
رئیس صا حب نے علامہ عبد الحی لکھنوی صاحب
ؒ کی عبارت پیش کی ہے ،جس میں حضرت لکھنوی صاحبؒ نے وضو کے صحیح ہونے کے لئے نیت کو
شرط قرار دیا ہے۔ (ص:۲۸)
الجواب :
غیر مقلدین کے فاضل مولانا عبدالمتین جونا گڑھ
صاھب لکھتے ہیں کہ : ان کے علاوہ وضو میں دیگر سنت کا بیان ہے ،جیسے نیت کرنا ،بسم اللہ پڑھنا
۔(حدیث نماز ص:۲۸)
اسکین :
غور
فرمائیے!عبد المتین جونا گڑھی صاحب وضو میں نیت کو سنت قرار دے رہے ہیں۔لہذا اب اہل
حدیث عالم کی عبارت کا جو جواب غیر مقلدین دیں گے ،وہی جواب ہماری طرف سے عبدالحی لکھنوی
ؒ کی عبارت کا ہوگا ۔
اجماع کی حقیقت :
زئی
صاحب نے دعوی کیا ہے کہ و ضو میں نیت فرض ہے ،اور اسی پر فقہا ء کا اجماع ہے ۔(ہدیۃ
المسلمین )
حالانکہ زئی صاحب کا اجماع کا یہ دعوی باطل و مردود ہے
۔کیونکہ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے ۔
جس کی تفصیل یہ ہیں :
خود
زئی صا حب لکھتے ہیں کہ :
(۱) امام
ابو حنیفہ ؒ کے نزدیک وضو اور غسل میں نیت واجب نہیں ،سنت ہے ۔(ہدیۃ المسلمین ص:۱۱)
(۲) امام
ابو یوسف یعقوب بن ابراہیم انصاری ؒ (م۱۸۲ھ)اور
(۳) امام
المسلمین امام محمد بن حسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ)کے
نزدیک بھی وضو میں نیت واجب نہیں ہے ۔(المبسوط
للشیبانی ج:۱ص: ۱۱۴،مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی
ج:۱ص:۱۳۴،احکام القرآن ج:۳ص:۳۳۶)
(۴)
امام سفیان ثوری ؒ (م ۱۶۰ھ)فرماتے
ہیں کہ وضو اور غسل جائز ہے بغیر نیت کے ۔ اور اگر کوئی آدمی کسی کو وضو سکھا ئے ،اور
اس نے اپنے لئے وضو کی نیت نہیں کی تو وہ وضواس کو کافی ہے ۔(اختلاف الفقہاء للمروزی
ؒ ص: ۱۵۸،۱۵۹،
والفظہ لہ،مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث :۸۹۵)
(۵) امام
ابو جعفر الطحاوی ؒ (م ۳۲۱ھ)فرماتے
ہیں کہ پانی کے ذریعے ہر گندگی کوپاک کرنا جائز ہے ،بغٖیر نیت کے۔ (مختصرالطحاوی
ص:۱۷)
(۶) امام
ابو بکر جصاص الرازی ؒ (م۳۷۰ھ)بھی
وضو میں نیت کو فرض نہیں مانتے ۔(احکام القرآن للجصاص ج:۳ص: ۳۳۵،شرح مختصر الطحاوی للجصاص
ج:۱ص
: ۳۰۲)
(۷) شمس
الائمہ امام سرخسی ؒ (م ۴۸۳ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’قلنا بجواز الوضوء والغسل من الجنابۃ
بدون نیۃ‘‘ ہم کہتے ہیں کہ وضو اورغسل جنابت بغیر نیت
کے جائز ہے ۔(المبسوط للسرخسی ج:۱ص:۷۲)
(۸)
مشہور فقیہ امام ابو الحسن برہان الدین مرغینانی ؒ (م۵۹۳ھ)وضو
میں نیت کو مستحب کہتے ہیں ۔(الہدایہ)
(۹) امام
قدوری ؒ فرماتے ہیں کہ وضو میں نیت کرنا سنت ہے ۔(مختصر القدوری )
(۱۰) امام
عز بن عبدالسلام ؒ (م ۶۶۰ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’وینبغی ان یستصحب ذکر النیۃ فی الوضوئ‘‘ اور مناسب وضو میں نیت کوشامل
کرنا ہے ۔(قواعدالاحکام ج:۱ص:۲۱۳)
(۱۱) امام
ابراہیم بن موسی الشاطبی ؒ(م۷۹۰ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’واما العبادات فلیست النیۃ بمشروطۃ فیہا باطلاق ٍ ایضاً۔۔۔۔قال جماعۃ من العلماء بعدم اشتراط
النیۃ فی الوضوئ‘‘
بہر
حال عبادات تو ان میں بھی مطلقا ًنیت شرط نہیں ہے ،بلکہ اس کی بعض صورتوں میں اختلاف
ہے ۔،علماء کی ایک جماعت نے وضو میں نیت کو شرط قرار نہیں دیا ہے ۔(الموافقات للشاطبی
ج:۳ص:
۱۳)
(۱۲) امام
ابن منذر ؒ (م ۳۱۰ھ)
فرماتے ہیں کہ’’وقد اختلف اہل العلم ‘‘ وضو
میں نیت کے مسئلے میں علماء کا اختلاف ہے ۔آگے فرماتے ہیں ’’فرقت
طائفۃ بین الوضوء والتیمم فقالت :یجزی الوضوء بغیر نیۃ ولا یجزی التیمم الا بالنیۃ
ہذا قول سفیان الثوری واصحاب الرأی‘‘ ۔(الاوسط لابن لمنذری
ج:۱ص:۳۶۹،۳۷۰)
(۱۳) امام
محمد بن نصر المروزی ؒ(م۲۹۴ھ)نے
بھی اس مسئلے میں فقہاء کااختلاف ذکر کیا ہے ۔
(اختلاف الفقہاء للمروزی ص: ۱۵۸،۱۵۹)
بلکہ
امام ابن منذر ؒ اور امام محمد بن نصر المروزی
ؒ اصحاب الرأی اور امام سفیا ثوری ؒ کے قول کے ساتھ ساتھ یہ بھی نقل کیا ہے کہ امام
اوزاعی ؒ اور امام حسن بن صالح ؒ بھی نیت کے
بغیر وضو کو جائز سمجھتے ہیں ۔(اختلاف الفقہاء للمروزی ص:۱۵۹،الاوسط للمنذری ج:۱ص :۳۷۰،الاشراف علی مذاہب العلماء
للمنذری ج:۱ص:
۱۹۳،۱۹۴)
تنبیہ :
یہ ساری تفصیلات بتا رہی ہیں
کہ امام ابن منذرؒ اور امام محمد بن نصر ؒالمروزی کے نزدیک وضو میں نیت کے مسئلے میں
اختلاف ہے ۔نہ کہ اجماع
نیز
امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)
امام
ابو بکر جصاص الرازی ؒ (م ۶۷۱ھ)
امام
ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲ھ)
امام
بدرالدین عینی ؒ (م۸۵۵ھ)
اور
امام نووی ؒ (م۶۷۶ھ)وغیرہ
نے بھی اس مسئلے پر فقہاء کا اختلاف ذکر کیا ہے ۔(مختصر اختلاف الفقہاء للطحاوی
ج:۱ص:۱۳۴،احکام القرآن ج:۳ص: ۳۳۶،تفسیر قرطبی ،فتح الباری
،عمدۃ القاری ،المجموع وغیرہ)
لہذا
ائمہ و فقہا ء کی ایک جماعت وضو میں نیت کو فرض نہیں مانتی ،اور ساتھ ہی ساتھ محدثین
نے بھی اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف بتایاہے ،اور اس کو نقل بھی فرمایا ہے ۔تو زئی
صاحب کا دعوی کہ’’ اس پر اجماع ہے ‘‘باطل ومردود ہے۔
الغرض
صحیح بات یہی ہے کہ اس مسئلے میں فقہاء کا اختلاف ہے اور ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ
وضو میں نیت فرض نہیں ہے جیسا کہ کتاب سنت
سے واضح ہے۔ واللہ
اعلم
[1] تنبیہ
:
کتاب الطہور للامام قاسم بن
سلام میں ہشیم بن بشیر ؒ نے سماع کی تصریح کردی ہے ۔لہذ ا اس روایت میں ان پر مدلس
کا الزام باطل ومردود ہے ۔(کتاب الطہور رقم الحدیث : ۳۲۸)
[2] مزید اقوال ص
: ۲ پر ملاحظہ فرمائے
[3] امام حاکم ؒ ،امام ذہبی ؒ ،امام نووی ؒ اور
امام ابن الجارودؒ نے اس حدیث کو صحیح اورامام ابو علی الطوسی ؒاور امام بزار ؒ نے
اسے حسن کہا ہے ۔ (مستدرک الحاکم مع تلخیص للذہبی ؒ ج:۱ ص : ۳۵۷،رقم الحدیث :۸۸۴،خلاصۃ
الاحکام ج:۱ص : ۴۰۶،المنتقی
لابن الجارود رقم الحدیث :۱۹۴،ضرب حق
شمارہ :۱۴ص :۳۱،شمارہ
: ۱۵ص ۱۱،مسند
بزار ج:۹ص:۱۸۰،مستخرج
الطوسی ج: ۲ص: ۱۷۸)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں