التسمیۃ عند الوضوء سنۃ
مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے ۔لیکن اہل حدیث ڈاکٹر ابو سیف عبیداللہ
لکھتے ہیں کہ :جو شخص بسم اللہ کر کے وضو نہیں کرتا اس کا وضو نہیں ہوتا ۔(توضیح
الصلاۃ ص:۲۰۹) غیر مقلد محقق عبد الرؤف
سندھو صاحب لکھتے ہیں کہ:وضو کے شروع کرتے وقت بسم اللہ کہے اور یہ کہنا ضروری ہے ،بلکہ
اگر بسم اللہ نہ کہے تو وضو نہ ہوگا ۔(مسنون وضو ص:۴۴) اور
اہل حدیث عالم ابو صہیب داؤد ارشد صاحب عنوان تحریر کرتے ہیں کہ :بسم اللہ پڑھے بغیر
وضو نہیں ہوتا۔(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص: ۲۲۹)
بہر حال اہل حدیث حضرات کی
ایک جماعت کہتی ہے کہ بسم اللہ پڑھے بغیر وضو نہیں ہوتا ۔ان کے دلائل مع جوابات درج
ذیل ہیں :
حدیث نمبر ۱:
حکیم صادق سیالکوٹیؒ (صلاۃ
الرسول مع تخریج ص:۱۰۶) عبدالرؤف سندھو (مسنون
نماز ص:۴۴) اور
ڈاکٹر ابو سیف (توضیح الصلاۃ ص:۲۰۹)نے سعید بن زید ؓ کی روایت ترمذی اور ابن ماجہ
کے حوالے سے اور اسی روایت کو عبدالرحمن عزیز(صحیح نماز نبوی ص:۴۲) اسمعیل
سلفی صاحب (رسول اللہ ﷺ کا طریقہ نماز ص:۱۶بحوالہ مشکوۃ )اور ابو صہیب
داؤد ارشد (حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۲۹) وغیرہ
نے دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے ،جو کہ یہ ہے :
امام ترمذی ؒ(م۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا نصر بن علی ،وبشر
بن معاذ العقدی ،قالا
:حدثنا بشر بن المفضل ،عن
عبدالرحمن بن حرملۃ ،عن
ابی ثفال المری ،عن
رباح بن عبدالرحمن بن ابی سفیان بن حویطب ،عن
جدتہ عن ابیہا ،قال
:سمعت رسول اللہ ﷺ یقول :لا وضوء لمن لم
یذکر اسم اللہ علیہ
رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا : اس شخص کا وضو نہیں جو وضو کے وقت اللہ کا نام نہ لے ۔(سنن ترمذی
رقم الحدیث :۲۵ولفظہ
سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :۳۹۸)
الجواب:
اس
روایت کی سند میں ایک راوی ا بو ثفال ؒ ہے۔ امام بخاری ؒ (م ۲۵۶ھ)
فرماتے ہیں کہ اس کی حدث قابل غور ہے ،امام ہیثمی ؒ (م ۸۰۷ھ) فرماتے
ہیں کہ ضعیف ہے اور امام ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ) اور
حافظ صفی الدین الخزرجی ؒ (م۹۲۳ھ)نے
بھی اما م بخاری ؒ کے فیصلے کو اپنا فیصلہ بتایا ہے۔(تہذیب الکمال ج:۴ ص:
۲۱۰،مجمع
الزوائد ج: ۹ص:
۵۸۰،الکاشف
رقم : ۷۱۹،خلاصۃ
التہذیب للخزرجی ؒص:۵۸)
بلکہ
امام ابو زرعہ ؒ(م ۲۸۱ھ)اور
امام ابو حاتم ؒ (۲۷۷ھ)
اسی روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’لیس
عندنا بذاک الصحیح‘‘۔ (علل
ابن ابی حاتم ج:۱ص:۵۹۵)
نیز
شیخ شعیب الارنووُطؒ نے بھی اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے ۔(سنن ابن ماجہ بتحقیق
شعیب الارنووُط رقم الحدیث :۳۹۸)
لہذا
یہ حدیث ضعیف ہے ۔
حدیث نمبر ۲:
شفیق الرحمٰن صاحب (نماز
نبو ی ص:۸۸مطبوعہ
دارالکتب الاسلامیہ )عبد الرؤف صاحب (مسنون
نماز ص۴۴)ابوصہیب
داؤد ارشد (حدیث اور اہل تقلید ج :۱ص:۲۲۹) ڈاکٹر ابوسیف (توضیح الصلاۃ
ص۲۰۹)اسماعیل
سلفی صاحب (رسول اللہ ﷺ کاطریقہ نماز ص: ۱۶بحوالہ مشکواۃ)اور
شیخ عبدالرحمن عزیز صاحب (صحیح نماز نبوی ص۴۲)نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ کی یہ روایت ابوداؤد کے حوالے سے نقل کی ہے ،جو درج ذیل ہے :
امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۶)
فرماتے ہیں کہ:
حدثنا قتیبۃ بن سعید
،حدثنا محمد بن موسی ،عن
یعقوب بن سلمۃ ،عن
ابیہ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ قال :قال رسول اللہ ﷺ
:لاصلاۃ لمن لا وضوء لہ ،ولا
وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ تعالی علیہ ۔
رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا : :اس شخص کی نماز نہیں جس
کا وضو نہیں،اور اس شخص کا وضو نہیں جس نے وضو کرتے وقت اللہ کا نام نہ لیا ہو۔
الجواب :
اس
روایت کی سند میں ایک راوی سلمہ ؒ ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کررہے
ہیں ان کے بارے میں امام ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ ’’یہ حجت نہیں ہیں ‘‘ ابن حجر ؒ کہتے
ہیں کہ وہ حدیث میں کمزور ہیں ،اور امام ذہبی ؒ ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ میں سلمہ
کو نہیں جانتا ۔(تنقیح التحقیق ج:۱ص:۴۵،تقریب رقم : ۲۵۱۸،الکاشف ۲۳۵۶)
مزید
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے (سلمہ ؒ نے )ابو ہریرہ ؓ سے
سنا ہے ۔ (تہذیب الکمال ج:۱۱ص:۳۳۲)
اور
یہی حال ان کے بیٹے یعقوب بن سلمہ ؒ کاہے جو ان سے یہ روایت نقل کررہے ہیں ان کا حال
بھی ملاحظہ فرمائیے :ابن حجر عسقلانی ؒفرماتے ہیں کہ وہ مجہول الحال ہیں ،امام ذہبی
ؒ فرماتے ہیں کہ وہ حجت نہیں ہیں ۔(تقریب رقم :۷۸۱۸،الکاشف :رقم ۶۳۸۹)
اور
ان کے بارے میں بھی امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ :میں نہیں جانتا کہ انہوں نے اپنے والد
سے کچھ سنا ہے۔ (تہذیب الکمال ج:۱۱ص:۳۳۲)
اور
غیر مقلدین کے نزدیک مجہول الحال کی روایت مردود ہے ،چنانچہ ان کے محدث العصر زبیر
علی زئی لکھتے ہیں کہ:یہ روایت بھی عبدالکریم بن امام نسائی کے مجہول الحال ہونے کی
وجہ سے ضعیف ہے ۔(مقالات ج:۶ص:۱۴۹)
لہذا
غیر مقلدین کے اپنے ہی اصول کی روشنی میں یہ روایت ضعیف ہے ،نیز یہ روایت منقطع بھی
ہے ،جیسا کہ امام بخاری ؒ کے ارشاد سے واضح ہے ۔
حدیث نمبر ۳،۴ :
ابو صہیب داؤد ارشد صاحب
نے حضرت سہل بن سعد ؓ کی روایت پیش کی ہے، جس کی سند یہ ہے :
امام ابن ماجہ ؒ (م۲۷۳ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا عبدالرحمن بن
ابراہیم،حدثناابن ابی فدیک،عن عبدالمہیمن بن عباس بن سہل بن سعد الساعدی،عن ابیہ،عن
جدہ،عن النبی ﷺ۔۔۔۔۔۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث
:۴۰۰)
اس
روایت میں عبد المہیمن بن
عباس ؒ ضعیف ہیں ۔(تقریب رقم :۴۲۳۵) بلکہ اہل حدیث حضرات کے زئی صاحب نے بھی اس
کی سند کو ضعیف ہے۔(ابن ماجہ بتحقیق علی زئی ج:۱ص:۳۸۲)
نیز
جناب ارشد صاحب نے المعجم الکبیر کے حوالے سے حضرت ابو سبرہ ؓ کی روایت نقل کی ہے جس
کی سند یہ ہے
امام طبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثناأحمدبن
عبدالرحمن بن عفال الحرانی،ثناأبوجعفر
النفیلی ، ح وحدثنا محمد بن عبداللہ الحضرمی
،ثنا شعیب بن سلمۃ الانصاری قالا :ثنا یحی بن یزید بن
عبداللہ بن انیس ،حدثنی
عبداللہ بن سبرۃ ،عن
جدہ أبی سبرۃ ،قال:
قال رسول اللہ ﷺ۔۔۔
اس
کی سند میں ایک راوی ہیں یحی بن یزید بن عبداللہ بن انیس ؒ ،ان کے بارے میں امام ہیثمی
ؒ فرماتے ہیں:لم أر من ترجمہ ۔مجھے ان کا ترجمہ نہیں ملا ۔(مجمع الزوائد رقم الحدیث
:۱۱۵۵) لہذا
یہ دونوں روایات بھی ضعیف ہیں ۔
حدیث نمبر ۵:
زبیر علی زئی (مختصر نماز نبوی ص:۵)عبدالرؤف سندھو (مسنون
نماز ص:۴۶)ابو
صہیب داؤد ارشد(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۲۹)شیخ عبدالرحمن عزیز( صحیح
نماز نبوی ص:۴۲)اور
ڈاکٹرابو سیف(توضیح الصلاۃ ص:۲۰۹)وغیرہ نے ابن ماجہ کے حوالے سے حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ کی یہ روایت نقل کی ہے جوکہ درج ذیل ہے :
امام ابن ماجہ ؒ (م۲۷۳ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا
ابو کریب محمد بن العلاء ،حدثنا زید بن الحباب ، وحدثنا محمد بن بشار ،حدثنا
ابوعامر العقدی ،وحدثنا احمد بن منیع ،حدثنا ابو احمد الزبیری ،قالوا:حدثنا کثیر
بن زید ،عن ربیح بن عبدالرحمن بن ابی سعید ،عن ابیہ عن جدہ:أن النبی ﷺ قال :لا
وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ ۔(سنن ابن ماجہ رقم
الحدیث : ۳۹۷)
اس
روایت کے بارے میں اہل حدیث محدث ارشاد الحق اثری لکھتے ہیں کہ اس کی سند میں کمزوری
ہے ۔(مسند ابی یعلی بتحقیق ارشاد الحق اثری ج:۲ص:۱۹)
امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)
اورامام ابن الجوزی ؒنے اس روایت کو غیر ثابت قرار دیا ہے ۔ (مسائل احمد بروایت
عبداللہ رقم :۸۵،بتحقیق
لابن لجوزی ج:۱ص:۳۳۸)
کیوں
ضعیف ہے ؟اس کی وجہ علامہ البانی سے سنئیے !وہ ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ :قلت:وہذا
اسناد ضعیف جدا ،وفیہ
علل ،الأولی
:ربیح (ربیح بن عبدالرحمن بن ابی سعید )ہذا مختلف فیہ ،فقال
البخاری :منکر الحدیث ،وقال
ابن عدی :أرجو ا أنہ لا بأس بہ ۔ (سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ
رقم الحدیث :۸۲۷)
معلوم
ہوا کہ یہ روایت خود اہل حدیثوں کے نزدیک کمزور ہے ،کیونکہ ان کے نزدیک ربیح بن عبدالرحمن
میں کمزوری ہے ۔
تنبیہ :
ابو
صہیب داؤدارشدصاحب لکھتے ہیں کہ حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کوحاکم نے صحیح اورعلامہ
البانی نے شواہد کی وجہ سے حسن کہا ہے ۔منذری ؒاور عسقلانی ؒنے قوی ،ابن کثیرؒاورعلامہ
عراقی ؒنے حسن کہا ہے ۔ ابن حجر عسقلانی ؒساری روایتیں ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں
کہ مجموعے سے پتہ چلتاہے کہ اس حدیث کی اصل ہے ۔امام ابن ابی شیبہ ؒ فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک یہ ثابت ہوچکا ہے کہ
یہ نبی ﷺ کا ارشاد ہے ۔ (حدیث اور اہل حدیث ج:۱ص: ۲۳۰)
الجواب:
ارشد صاحب نے امام حاکم ؒ
کی تصحیح نقل کی ہے،اس کا جواب عبدالرؤف صاحب
سے سن لیں !چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ امام حاکم ؒ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ،مگر ذہبیؒ
نے تلخیص المستدرک میں ، منذریؒ نے الترغیب میں ،نوویؒ نے المجموع میں اور ابن حجر
عسقلانیؒ نے التلخیص میں حاکم ؒ کی تصحیح کو رد کیا ہے ۔(صلاۃ الرسول مع تخریج عبدالرؤف
ص:۱۰۶)
ابو
صہیب صاحب نے البانی کی تقلید میں کہا ہے کہ ابن صلاح نے حسن کہا ہے ۔حالانکہ ان
کی پوری عبارت یہ ہے ’’قال الشیخ تقی الدین
ابن الصلاح فی’’ مشکل الوسیط ‘‘:روی ہذا الحدیث من وجوہ فی کل منہا نظر ،لکنہا غیر
مطرحۃ ،وہی
من قبیل مایثبت باجتماعہ الحدیث ثبوت الحدیث الموسوم بالحسن ‘‘
امام
ابن الصلاح ؒ (م۶۴۳ھ) کہتے ہیں کہ یہ حدیث کئی سندوں سے مروی ہے جس
میں سے ہر سند محل نظر ہے ،لیکن وہ متروک درجے کی نہیں اور یہ اس طرح کی چیزوں میں
سے ہے کہ جن کے کسی حدیث میں جمع ہونے سے حدیث حسن کا ثبوت ہوجاتا ہے ۔(مشکل الوسیط
لابن الصلاح ،بحوالہ البدر المنیر ج:۲ص:۹۰)
معلوم
ہوا کہ ابن صلاح نے اس روایت کو تعدد طرق کی بنا ء پر حسن کہا ہے جو کہ اہل علم کی
اصطلاح میں حسن لغیرہ کے نا م سے معروف ہے ۔
نیز
ابو صہیب صاحب نے البانی کی تقلید میں کہا ہے کہ منذری ؒ نے اس روایت کو قوی کہا ہے،اور
زئی صاحب نے نقل کیا ہے کہ منذ ری ؒنے ترغیب میں شواہد کی بناء پر اس کو حسن کہا ہے
۔جبکہ امام منذری ؒ کی پوری عبارت یہ ہے
:قال الحافظ وفی الباب احادیث کثیرۃ لا یسلم شیء منہا عن مقال ۔۔۔۔۔فانہا تتعاضد
بکثرۃ طرقہا وتکتسب قوۃ واللہ أعلم ۔ امام
منذری ؒ (م۶۵۶ھ) فرماتے ہیں کہ اس
باب میں بہت سی احادیث ہیں لیکن ان میں سے کوئی کلام سے خالی نہیں ہے ( یعنی سب پر
کلام کیا گیا ہے ) لیکن کثرت طرق کی وجہ سے ان میں مضبوطی اور قوت آگئی ہے ۔ (الترغیب والترہیب ج:۱ص:۹۹)
معلوم ہوا کہ اما م منذری ؒ کے نزدیک بھی وضو سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کی کوئی
بھی حدیث کلام سے خالی نہیں ہے ،مگر انہوں نے بھی تعدد طرق کی وجہ سے اسے مضبوط (حسن
)کہا ہے ،بالفاظ دیگر حسن لغیرہ کہا ہے ۔
اور زئی صاحب کے نزدیک حسن لغیرہ حجت نہیں ہے ۔جس کی تفصیل جناب کے مقالات
ج:۵ص:۱۷۳پر دیکھی جاسکتی ہے ۔ لیکن موصوف کے مسلک کی تائید
میں آنے کی وجہ سے انہوں نے اس کو قبول کیا اوراپنا حسن لغیرہ والاقاعدہ بھول گئے
۔
تعدد طرق کی وجہ سے ہی ابن حجر ؒ ،ابن
کثیر ؒ اورعلامہ عراقی ؒ نے ان روایات کو حسن کہا ہے جو کہ زبیر علی زئی کے نزدیک ان
کے اپنے اصول کی روشنی میں حجت ہی نہیں ہے ۔ لہذا ان محدثین کی تصحیح سے اہل حدیث حضرات
کو کچھ فائدہ نہیں ملنے والا ہے۔نیز اگر کوئی حسن لغیرہ کو قبول کرنے کے دعوی کرتا
ہے جیسے ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے دین الحق ج:۱ص:۵۴پر دعوی کیا ہے ۔
تو گزارش ہے کہ۱۵
شعبان کے متعلق درج ذیل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے اس
کی فضیلت حسن لغیرہ اسناد سے ثابت ہے :
(۱) معاذ
بن جبل رضی اللہ عنہ (مجمع الاوسط ج:۷ص:۳۶،رقم الحدیث ۶۷۷۶ )
(۲) عائشہ
رضی اللہ عنہا(ترمذی رقم الحدیث :۷۳۹دعاء الطبرانی ص:۱۰۷۱رقم الحدیث :۶۰۶)
(۳) ابوبکر
صدیق رضی اللہ عنہ (مسند بزارج:۱ص:۱۵۷،رقم الحدیث۸۰)
(۴) ابو
موسی اشعری رضی اللہ عنہ (ابن ماجہ رقم الحدیث :۱۳۹۰)
(۵) عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہ(مسنداحمد ج:۶ص:۱۹۷،۱۹۸،رقم الحدیث :۶۶۴۲)
(۶) ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ (مجمع الزوائد ج:۸ص:۷۷رقم الحدیث :۱۲۹۸۵)
(۷) عوف
بن مالک رضی اللہ عنہ (مجمع الزوزئد ج:۸ص:۷۷رقم الحدیث :۱۲۹۵۹)
(۸) ابو
ثعلبہ رضی اللہ عنہ (السنۃ لابن ابی عاصم ج:۱ص:۲۲۴)
(۹) عثمان
بن ابی العاص رضی اللہ عنہ (شعب الایمان ج:۵ص:۳۶۲)
(۱۰) ابو
امامہ باہلی رضی اللہ عنہ (المجالس الشرع الامالی للامام حسن الخلال ،مخطوطہ ص:۳)
ان میں سے کچھ احادیث میں بلاشک وشبہہ ضعف ہے ،لیکن تعدد طرق کی بنا ء پر وہ
حسن لغیرہ ہیں ۔ نیز سلف صالحین کی ایک جماعت نے بھی پندرہویں شعبان کی فضیلت کو تسلیم
کیا ہے اور اس میں عبادت کی ہے ،لیکن یہاں مضمون کے طویل ہونے کے ڈر سے اسی پر اختتام
کرتا ہوں ۔
جو لوگ حسن لغیرہ کو ماننے کا دعوی کرتے ہیں ان سے گزارش ہے وہ اعلان فرمادیں
کہ ہم پندرہویں شعبان(شب برات) کی فضیلت کے قائل ہیں ،اور جولوگ اس رات کی فضیلت کا
انکا ر کرتے ہیں وہ خطا پر ہیں ۔
امید ہے کہ ابو صہیب داؤد ارشد صاحب اور ان کے اہل فکر حضرات اپنے دعوے کے
مطابق یہ اعلان فرمائیں گے ۔ان شاء اللہ ۔
الجواب نمبر ۲:
یہ روایت تعدد طرق کی وجہ
سے حسن لغیرہ تو ہے ہی لیکن ان روایات کی بنیادپر یہ دعوی کرنا کہ ’’جس نے وضو کے ابتداء میں بسم اللہ نہیں پڑھا ،اس کا
وضو نہیں ہوتا ‘‘صحیح نہیں ہے ۔کیونکہ اس طرح کے فتوے کے لئے مضبوط روایت کی ضرورت
ہوتی ہے ۔
چنانچہ امام ابو داؤد ؒ (م۲۷۵ھ)
فرماتے ہیں کہ میں نے
(۱) امام
احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱ھ) کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جب کوئی بندہ وضو کرے تو بسم
اللہ کہے ،میں نے امام احمد ؒ سے سوال کیا :جب بسم اللہ بھول جائے تو؟؟امام احمد ؒ
نے فرما یا :اس پر کوئی حرج نہیں ،اور یہ بات مجھے تعجب میں نہیں ڈالتی کہ بندہ اس
کو غلطی سے یا جان بوجھ کر چھوڑ دے اس لئے کہ اس میں کوئی سند (ثابت)نہیں ہے۔(مسائل
احمد بروایت ابوداؤد ص:۱۱)
اسکین ملاحظہ فرمائے
اور امام عبداللہ بن احمد ؒ(م۰ ۲۹ھ)فرماتے
ہیں کہ میں نے اپنے والد امام احمد بن حنبل ؒسے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث
کے بارے میں سوال کیا ،تو آپ نے فرمایا میرے نزدیک یہ حدیث مضبوط نہیں ہے ،مگر میرے
نزدیک اس کو (یعنی وضو کی ابتداء میں بسم اللہ کو)پڑھ لینا پسندیدہ ہے۔(مسائل احمد
بروایت عبداللہ ص:۲۵)
اسکین :
معلوم ہوا کہ امام احمد ؒ کے نزدیک وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھ لینا پسندیدہ
(مستحب)تو ہے لیکن ان احادیث کی وجہ سے بسم اللہ کے نہ پڑھنے سے وضو کو باطل کہنا صحیح
نہیں ہے ۔
(۲) امام
ابن منذر ؒ (م۳۱۹ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ قال أبوبکر لیس فی ہذا الباب
خبر ثابت یوجب ابطال وضوء من لم یذکر اسم اللہ علیہ فا لاحتیاط ان یسمی اللہ من
أراد الوضوء والاغتسال ولا شییٔ علی من ترک ذلک‘‘
اس باب میں کوئی ایسی حدیث ثابت نہیں ہے جو بسم اللہ نہ پڑھنے والے کے وضوکو یقینی
طور پر باطل قرار دے ۔البتہ احتیا ط اسی میں ہے کہ جو شخص وضو یا غسل کا ارادہ کرے
تووہ بسم اللہ پڑھ لے۔اور جو شخص اس کا اہتمام نہ کرے اس پر کوئی مضا ئقہ نہیں ۔(الاوسط
لابن المنذر ج:۱ص:۳۶۸،تحت حدیث ۳۴۵)
(۳) امام
ابو عبید قاسم بن سلام ؒ(م۲۲۴ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’لم یأتنا فی شییٔ منہا اشتراط النیۃ ‘‘ ہمیں کوئی ایسی چیز
نہیں پہنچی جو تسمیہ کو(وضو کی درستگی کے لئے )شرط قرار دے ۔(کتاب الطہور ص:۵۴)
(۴) امام
نووی ؒ (م ۶۷۶ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’لیس فی احادیث التسمیۃ علی الوضوء حدیث
صحیح صریح‘‘ وضو کرتے ہوئے بسم اللہ پڑھنے کے بارے
میں کوئی صریح صحیح حدیث (جو بسم اللہ کو واجب قراردے )موجود نہیں ہے ۔(بحوالہ بدر
المنیر ج:۲ص:۸۹)[1]
لہذا
ان احادیث کی بنیاد پر یہ فتوی کہ بسم اللہ نہ پڑھنے سے وضو نہ ہوگا ،صحیح نہیں ہے
۔
الجواب نمبر ۳:
فقہاء ومحدثین کرام نے اس
حدیث کا مفہوم بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ : ان روایات میں فضیلت کی نفی ہے، نہ کہ
ذات کی یعنی اگر وضو سے پہلے بسم اللہ نہ پڑھی گئی تو وضو کی فضیلت اور ثواپ حاصل نہ
ہوگا، یہ نہیں کہ اس کا وضو ہی نہ ہوگا ۔
تحقیق
درج ذیل ہیں :
(۱) امام
طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)فرماتے
ہیں کہ’’ :یحتمل ایضاً ما قالہ اہل المقالۃ
الاولی ویحتمل لا وضوء لہ ای لاوضوء لہ متکاملا ًفی الثواب ‘‘
ان احادیث میں اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ثواب کے اعتبار سے اس کا وضو کامل نہ ہوگا
۔ (شرح معانی الآثار ج:۱ص:۲۷)
اسکین :
(۲) امام
ابن بطال ؒ(م۴۴۹ھ)
امام احمد بن حنبل ؒ کے قول سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’قال
أحمد بن حنبل ؒ :ولو صح لکان معناہ لا وضوء کاملاً کما قال تمت لا صلاۃ لجا ر المسجد الا فی المسجد ،وتمت لا ایمان لمن لا امانۃ لہ‘‘
امام احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ اگر حدیث صحیح بھی ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ وضو
میں کمال پیدا نہیں ہوگا ،(یعنی اس کو اعلی درجے کی فضیلت اور کمال حاصل نہیں ہوتا)جیسا
کہ مسجد کے پڑوسی والی حدیث میں ہے۔ (وہ حدیث یہ ہیں کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں ہوتی مگر مسجد
میں )۔(شرح بخاری لابن بطال ج:۱ص:۲۳۱)
(۳) امام
خطابی ؒ (م۳۸۸ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’قال آخرون معناہ فی الفضیلۃ دون
الفرضیۃ کما روی لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد ای فی الاجر والفضیلۃ ‘‘
دوسرے محدثین نے کہاہے کہ: اس حدیث میں موجودنفی
سے مراد فضیلت کی نفی ہے ، فرضیت کی نہیں۔ جیسا کہ روایت کیا گیا ہے کہ مسجد کے پڑوسی
کی نماز نہیں ہوتی مگر مسجد میں ،ا س میں بھی فضیلت اوراجر کی نفی ہے ۔(معالم السنن
ج:۱ص:۴۷)
اسکین :
(۴) امام
عینی ؒ(م۸۵۵ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ہذا الحدیث فہو محمول علی نفی الفضیلۃ‘‘یہ
حدیث فضیلت کی نفی پر محمول ہے ۔(شرح ابو داؤد للعینی
ج:۱ص:۲۷۳)
(۵) امام
نووی ؒ (م۶۷۶ھ)
فرماتے ہیں کہ’’معنی ہذا الحدیث:کان طہوراًلجمیع
بدنہ أو لما مر علیہ (الماء أی )مطہراً من الذنوب الصغائر ‘‘
اس حدیث کے معنی یہ ہے کہ وضو میں بسم اللہ کا پڑھنا اس کے تمام بدن کو پاک کرنے والا
ہے یا اس حصے کو جس پر پانی گذرے ۔(البدر المنیر ج:۲ص: ۹۶،ولفظہ لہ المجموع للنووی
ج:۱ص:۳۴۴)
(۶) امام
قاسم بن سلام ؒ (م۲۲۴ھ) نے بھی ان احادیث کا یہی معنی بتایا ہے ۔ (کتاب
الطہور ص:۱۵۰-۱۵۱)
(۷) امام
ابو الولید القرطبی ؒ (م۵۲۰ھ)فرماتے
ہیں کہ’’ وقد یحتمل ان یکون معنی قول النبیﷺ
’’لاوضوء لمن لم یسم اللہ ‘‘لاوضوء متکامل الاجر لمن لم یسم اللہ ،مثل قولہ ﷺ لا
صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد ،ولاایمان لمن لاامانۃ لہ ،وماأشبہ
ذلک ‘‘ یہ
بھی احتمال ہے کہ حضور ﷺ کے قول ’’لاوضوء لمن لم یسم اللہ ‘‘سے مرادیہ ہو کہ اس شخص
کو وضو کا مکمل اجر نہیں ملے گا جس نے بسم اللہ نہیں پڑھی ،جیسا کہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں ہوتی
مگر مسجد میں ،اور اس شخص کا ایمان نہیں جس میں امانت داری نہیں ،اور اس طرح کی احادیث
۔ (البیان التحصیل ج:۱۸ص:۴۹۹)
(۸) امام
ابن قدامہ ؒ(م۶۲۰ھ)نے
بھی اس روایت کا یہی معنی بتایا ہے ۔(المغنی ج:ص:۱۴۶)[2]
لہذا
ان احادیث کی بنا ء پر بسم اللہ نہ پڑھنے کی وجہ سے وضو کو باطل کہنا ہی مردود ہے ،کیونکہ
سلف صالحین نے ان احادیث کا معنی ومطلب یہی بتلایا ہے کہ ان احادیث میں فضیلت کی نفی
ہے ذات کی نہیں ۔یعنی اگر کوئی وضو میں بسم اللہ نہ پڑھے تو اعلی درجے کا وضو نہیں
ہوگا بلکہ صرف اعضاء وضو پاک ہو جائیں گے لیکن وضو توبہرحال ہوجائیگا ۔
الغرض
جو لوگ اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں ،ان کو چاہیئے کہ حدیث میں سلف کے فہم کو تسلیم کریں
۔
نیز
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’لاصلاۃ
لجارالمسجد الافی المسجد‘‘مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں
ہوتی مگر مسجد میں۔(مستدرک الحاکم ج:۱ص:۳۷۳،رقم الحدیث:۸۹۸،سنن دارقطنی رقم الحدیث
:۱۵۵۲،۱۵۵۳،واسنادہ
حسن لغیرہ)
جس
طرح اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ثواب کے اعتبار سے اس کی نماز کامل نہیں ہوتی ،بالکل
اسی طرح غیر مقلدین کی پیش کردہ ان روایات کا مطلب بھی یہی ہے کہ ثواب کے اعتبار سے
اس کا وضو کامل نہیں ہوتا ،جو وضو کی ابتداء میں بسم اللہ نہیں پڑھتا۔
اور
اسلاف نے بھی ان احادیث کا یہی معنی بیان کیا ہے جیسا کہ حوالہ گزرچکا ۔ لہذا ان روایا
ت سے غیر مقلدین کا بسم اللہ نہ پڑھنے پر وضو نہ ہونے پر استدلال کرنا باطل و مردود
ہے ۔
احناف کے دلائل :
احناف
کا کہنا ہے کہ وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ۔اس مسئلے دلائل
تو بہت ہیں ،لیکن یہاں چند دلائل پیش کئے جارہے ہیں :
دلیل ۱:
اللہ
تعالی فرماتے ہیں کہ’’ یا أیہا الذین
آمنوا اذاقمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم وایدیکم الی المرافق وامسحوا برؤسکم
وأرجلکم الی الکعبین ‘‘
ترجمہ:اے
ایمان والو ! جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو اپنے چہرے دھولو اور اپنے دونوں ہاتھ کہنیوں
سمیت (دھولو)اور اپنے سروں کامسح کرو اور اپنے پاؤں ٹخنوں سمیت دھولو۔(سورہ مائدہ
:۶)
امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)سے وضو میں
بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا :اس سلسلے میں چند احادیث
ہیں مگر مضبوط نہیں ہیں ،اور یہ آیت اس کو واجب نہیں قرار دیتی ۔(تاریخ ابی زرعہ
الدمشقی :۳۲۴واسنادہ
صحیح )
دلیل
نمبر ۲:
امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۶)
فرماتے ہیں کہ:
حدثنا الحسن بن علی
،حدثنا ہشام بن عبد الملک ،والحجاج بن منہال ،قالا :حدثنا ہمام ،حدثنا اسحق بن
عبداللہ بن ابی طلحۃ ،عن علی بن یحی بن خلاد ،عن ابیہ ،عن عمہ رفاعۃ بن رافع
،بمعنا ہ قال رسول اللہ ﷺ انہا لا تتم صلاۃ احدکم حتی یسبغ الوضوء کما امرہ اللہ
عز وجل ،فیغسل وجہہ ویدیہ الی المرفقین ،ویمسح برأسہ ورجلیہ الی الکعبین ۔
حضرت
رافع بن رفاعہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ، آپ نے فرمایا کہ تم میں سے کسی کی نماز اس وقت تک مکمل
نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہ اچھی طرح وضو نہ کرلے جیسا کہ اللہ نے وضو کا حکم دیا ہے چنانچہ
وہ اپنے چہرے کو دھوئے ،اور دونوں ہاتھ کہنیوں سمیت دھوئے ، اور اپنے سر کا مسح کرے
اور دونوں پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھوئے ۔(ابو داؤد رقم الحدیث ۸۵۸)[3]
وضاحت :
اس
حدیث میں وضو سے متعلق چار باتیں ذکر کی گئی ہیں :
۱۔چہرہ
دھونا
۲۔ہاتھوں
اور
۳۔پاؤں
کادھونا
۴۔مسح
کرنا
اہم نکتہ :
یہ
چار باتیں فرائض وضو ہیں ۔
اگر وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنا فرض بھی ہوتا
تو رسول اللہ ﷺ امت کو ان فرائض کی تعلیم دیتے وقت اس کا بھی ضرور ذکر کرتے ۔لیکن آپ
نے ایسا نہیں فرمایا ،اور آپ ﷺ کا ایسا نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ وضو کی ابتداء
میں بسم اللہ پڑھا فرض نہیں ہے ۔
اعتراض :
ابو
صہیب ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ عدم ذکر سے عدم شی لازم نہیں آتا ۔(حدیث اور اہل تقلید
ج:۱ص:۲۳۴)
الجواب :
یہ اعتراض ہی باطل ومردود
ہے ۔کیونکہ امام بیہقی ؒ (م ۴۵۸ھ)
فرماتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے اس (رفاعہ بن رافع کی) حدیث سے تسمیہ فی الوضوء کے واجب
نہ ہونے پر استدلال کیا ہے ۔(سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۷۳)
اور
خود امام بیہقی ؒ نے بھی اس حدیث سے تسمیہ فی الوضوء کے واجب نہ ہونے پر استدلال کیا
ہے ۔ (نصب الرایہ ج:۱ص:۷) اور
امام زیلعی ؒ (م۷۶۲ھ)
نے بھی امام بیقی ؒ کے استدلال کو نقل کیا ہے ،اور زئی صاحب کے اصول کے مطابق سکوت
کے ذریعے ان کی تائید کی ہے۔(انوار الطریق ص:۸)
لہذا
امام بیہقی ؒ ،ان کے اصحاب اور امام زیلعی ؒ نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے اور صحیح
تسلیم کیا ہے ،تو ارشد صاحب کا عدم ذکر کہہ کرجان چھڑانا باطل ومردود ہے ۔
اور حق یہی ہے کہ بسم ا للہ
پڑھنا سنت ہے واجب نہیں ۔
امام احمد بن حنبل ؒ کا صحیح مذہب اور داؤد ارشد صاحب کاایک
بے سند حوالہ :
ابو صہیب داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ :ایک روایت
میں امام احمد بن حنبل ؒ کا مسلک بھی یہی (وضو کی بتداء میں بسم اللہ کے واجب کہنے
کا )ہے ۔(حدیث اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۳۶)
الجواب :
امام احمد بن حنبل ؒ کی طرف
جو قول ابو صہیب داؤد ارشد صاحب منسوب کر رہے ہیں اس کی سند کہاں ہے ،حقیقت یہ ہے
کہ یہ قول بے سند ہے ۔
خود
ارشد صاحب بے سند روایت کا مذاق اڑاتے ہوئے ایک مقام پر لکھتے ہیں کہ : اس سے نیچے
کی سند کیسی ہے ؟ یہ اللہ کو ہی معلوم ہے ،کیونکہ مختصر قیام اللیل میں اس کی سند مذکور
نہیں ہے ۔(حدیث اور اہل تقلید ج: ۲ص:۳۸۷)
جناب
ارشد صاحب!آپ نے امام احمد بن احنبل ؒ کا جو قول شوکانیؒ کی تقلید میں پیش کیا ہے
اس کی سند کا حال بھی اللہ ہی جانتا ہے ۔نیز آپ کے محدث زبیر علی زئی اور ارشاد الحق
اثری نے بے سند روایت کو موضوع یعنی من گھڑت بتایا ہے ۔(نور العینین ص:۳۰۴،مقالات اثری ج:۲ص:۴۸)
ایک
طرف آپ خود بے سند روایت کا رد کرتے ہیں اور دوسری طرف اپنے مسلک کی تائید میں (بقول علماء اہل حدیث کے) خود موضوع اور بے سند
روایا ت سے استدلال کرتے ہیں۔ یہ دوغلی پالیسی
آخر کیوں ؟؟
اور ارشد صاحب نے امام احمد بن حنبل ؒ کی طرف منسوب
جو قول پیش کیاہے ،وہ بے سند ہونے کے ساتھ ساتھ قطعاً صحیح نہیں ہے۔
امام
صاحب ؒ کا صحیح ومعروف اور مفتی بہ قول و مسلک یہی ہے کہ وضو کی ابتداء میں بسم اللہ
پڑھنا مسنون ہے واجب نہیں ہے ۔ان کے اقوال ملاحظہ فرمائیں !
(۱) امام
ابوزرعہ (م۲۸۱ھ)
فرماتے ہیں کہ’’قال ابوعبداللہ احمد بن حنبل :فیہ
احادیث لیست بذاک ،وقال اللہ تبارک وتعالی :یا أیہا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوہکم وایدیکم
الی المرافق ۔فلا أوجب علیہ ‘‘ امام احمد بن حنبل
ؒ سے وضو کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے سے متعلق سوال کیا گیا ،تو انہوں نے فرمایا
:اس سلسلے میں چند احادیث ہیں لیکن مضبوط نہیں ہیں ،اور یہ آیت اس کو (وضو میں بسم
اللہ کو ) واجب نہیں قرار دیتی ۔(تاریخ ابی ذرعہ الدمشقی ۶۳۱،۶۳۲واسنادہ صحیح)
اسکین :
(۲) امام
ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ)
ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ :
حدثنا احمد بن حفص
السعدی،قال سئل احمد بن حنبل یعنی وہو حاضر عن التسمیۃ فی الوضوء فقال :لا أعلم
حدیثاً یثبت اقوی شیٔ فیہ حدیث کثیر بن زید عن ربیح وربیح رجل لیس بمعروف ۔
امام احمد بن حنبل ؒ سے سوال کیا گیا وضو میں بسم اللہ پڑھنے کے بارے میں تو
انہوں نے فرمایا : میں اس سلسلے میں کوئی حدیث نہیں جانتا جو کثیر بن زید کی حدیث سے
زیادہ قوی ہو جو کہ ربیح سے مروی ہے ۔اور ربیح معروف نہیں ہے ۔(الکامل لابن عدی
ج:۴ص:۱۱۰،واسنادہ ضعیف )
(۳) حضرت ابو عمر خطاب بن بشرؒ فرماتے ہیں ’’وسألتہ
عن قول النبی ﷺ :لا وضوء لمن لم یسم اللہ ،فقال لیس الخبر
بصحیح ،وروی عن رجل لیس بمشہور‘‘ امام احمد بن حنبل
ؒ سے حضور ﷺ کے قول ’’لا
وضوء لمن لم یسم اللہ ‘‘ اس شخص کا وضو نہیں جس نے
بسم اللہ نہیں پڑھا ،کے بارے میں سوال کیا گیا ،تو انہوں نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح
نہیں ہے ، کیونکہ غیر مشہور آدمی سے مروی ہے ۔(مسائل امام احمد بروایت ابی عمر
خطاب بن بشر ،بحوالہ شرح ابن ماجہ للمغلطائی :ص:۲۳۹)
(۴) امام
مروزی ؒ (م۲۷۵ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’قال المروزی لم یصححہ ابو عبداللہ وقال
لیس فیہ شیٔ یثبت ‘‘ امام احمد ؒ سے (ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ کی) حدیث (جوکہ حدیث نمبر۵کے تحت گزرچکی ،اس کو )صحیح
نہیں قرار دیا ہے ۔اور امام احمد ؒ نے فرمایا کہ اس مسئلے میں کوئی بات ثابت نہیں ہے۔(الفروسیہ
ص:۲۴۹،ولفظہ
شرح ابن ماجہ للمغلطائی ص:۲۴۹،تلخیص
الحبیر ج:۱ص:۲۴۰)
ایک
اور مقام پر امام مروزی ؒ ؒ امام احمد ؒ سے نقل کرتے ہیں کہ’’قال
المروزی :لم یصححہ احمد ،وقال : ربیح لیس بمعروف ،ولیس الخبر بصحیح ۔(ولیس فیہ شیٔ
یثبت ) ‘‘ انہوں نے اس حدیث کو صحیح نہیں قرار دیا ہے
،اور کہا کہ ربیح ؒ معروف نہیں ہیں اور یہ خبر بھی صحیح نہیں ہے ،اور نہ اس میں کوئی
چیز ثابت ہے ۔(البدرالمنیر ج:۲ص:۷۷)
(۵) امام
ابو داؤد ؒ (م۲۷۵ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’قلت لاحمد :اذا نسی التسمیۃ فی الوضوء
؟قال : أرجوا ان لا یکون علیہ شیٔ
،ولایعجبنی ان یترکہ خطأً ولا عمداً ولیس
فیہ اسنا د یعنی لحدیث النبی ﷺ لاوضوء لمن لم یسم ‘‘
میں نے امام احمد ؒ سے پوچھا کہ اگر کوئی وضو میں بسم اللہ کہنا بھول جائے (تو کیا
حکم ہے )؟تو امام احمد ؒ نے فرمایا :اس پر کوئی حرج نہیں ہے ،اور نہ مجھے تعجب میں
ڈالتی ہے یہ بات کہ بندہ اسکو غلطی سے یا جان بوجھ کر چھوڑ دے ،اس لئے کہ اس سلسلے
میں کوئی سندثابت نہیںہے۔(مسائل احمد بروایت ابوداؤدص:۱۱)
(۶) امام
اسحق بن منصورؒ (م۲۵۱ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’قال لا اعلم فیہ حدیثا ً لہ اسناد جید
‘‘ امام احمد ؒ نے فرمایا کہ :اس مسئلے میں کوئی
مضبوط حدیث نہیں جانتا ،جس کی سند عمدہ ہو ۔(مسائل احمد بروایت اسحق بن منصور ص:۲۶۳)
(۷) امام
ابو بکر الاثرم ؒ (م۲۷۳ھ)
فرماتے ہیں کہ: ’’ سمعت ابا عبداللہ یسأل عن الرجل
یتوضأ ولم یسم ،قال لیس فی ہذا حدیث یثبت ،وأحسنہا حدیث کثیر بن زید ‘‘
میں نے ابو عبداللہ (امام ا حمدبن حنبل ؒ)سے سنا کہ ان سے سوال کیا گیا ،ایسے آدمی
کے بارے میں جو وضو کرے اور بسم اللہ نہ پڑھے تو آپ نے فرمایا : اس مسئلے میں کوئی
حدیث ثابت نہیں ہے اور ان احادیث میں بھی کثیر بن زید کی حدیث بہتر ہے ۔(شرح ابن
ماجہ للمغلطائی ص:۲۴۹)
(۸) امام
ترمذی ؒ (م۲۷۹ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’قال احمد :لا أعلم فی ہذا الباب
حدیثا لہ اسناد جید‘‘ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کہ
میں اس مسئلے میں کوئی مضبوط حدیث نہیں جانتا ۔(سنن ترمذی ج:۱ص:۳۸تحت حدیث ۲۵)
(۹) امام
عبداللہ بن احمد ؒ (م ۲۹۰ھ)
فرماتے ہیں کہ’’ سألت ابی عن حدیث ابی سعید
الخدری رضی اللہ عنہ عن النبی ﷺ لا ضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ ،قال ابی لم
یثبت عندی ہذا،ولکن یعجبنی ان یقولہ ‘‘
امام عبداللہ بن احمد بن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی امام احمد بن
حنبل ؒ سے حضرت ابو سعید خدری رضی ا للہ عنہ کی حدیث کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا
کہ میرے نزدیک یہ حدیث ثابت نہیں ہے مگر میرے نزدیک اسے پڑھ لینا پسندیدہ ہے ۔(مسائل
احمد بروایت عبداللہ ص:۲۵)
دیگر فقہا ء ومحدثین کے ارشادات :
(۱۰) امام ابن قدامہ ؒ (م۶۲۰ھ)فرماتے
ہیں کہ ’’ظاہرمذہب احمد رضی اللہ عنہ أن
التسمیۃ مسنونۃ فی طہارۃ الاحداث کلہا رواہ عنہ جماعۃ من اصحابہ ،وقال الخلال الذی
استقرت الروایات عنہ انہ لا بأس بہ ۔یعنی اذا ترک التسمیۃ ،وہذا قول الثوری ومالک
والشافعی وابی عبیدۃ وابن المنذر وأصحاب الرأی ‘‘
امام
احمد ؒ کا ظاہر مذہب حدث(ناپاکی )سے طہارت (پاکی )حاصل کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا مسنون
ہے ۔اس روایت کو امامِ احمد ؒ کے شاگردوں کی ایک جماعت نے ان سے نقل کیا ہے،امام خلادؒ
نے فرمایا کہ اس سلسلے میں روایات کا خلاصہ یہ ہے کہ تسمیہ کے چھوڑنے میں کوئی حرج
نہیں، اور یہی قول امام سفیان ثوریؒ امام مالکؒ اماشافعیؒ اور امام ابو عبیدہؒ ، امام
ابنِ منذرؒ اور اصحابِ رای کا ہے ۔ (المغنی:ج ۱ ص ۵ ۱۴)
(۱۰) ایک
اور مقام پر امام ابن قدامہؒ لکھتے ہیں کہ :
’’وان
صح ذلک فیحمل علیٰ تأکید الاستحباب ونفی الکمال بدونھا، کقولہٖ : لا صلاۃ لجار المسجد
الا فی المسجد‘‘۔( المغنی: ج ؍۱ص ؍۱۴۵ ؍۱۴۶)
(۱۱) بلکہ
امام ابن قدامہ حنبلیؒ فرماتے ہیں کہ ’’
المسنون التسمیۃ‘‘ وضو
میں تسمیہ (بسم اللہ) پڑھنا مسنون ہے۔ (عمدۃ
الفقہ: ص۱۶)
(۱۲) امام
بہاء الدین عبدالرحمن ابن ابراہیم المقدسیؒ (م۶۳۴ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’ثم یقول بسم اللہ وھی سنۃ،
ولیست واجبۃ‘‘ وضو کی ابتداء میں بسم اللہ
پڑھنا سنت ہے واجب نہیں۔ (العدۃ: ص۲۹)
(۱۳) امام
کاسانیؒ (م۵۸۷ھ)وضو
کی ابتداء میں بسم اللہ پڑھنے کو سنت قرار دیتے ہیں۔ (بدائع الصنائع: ج۱:ص۲۰)[4]
(۱۴) امام
ابوحفص عمر الموصلیؒ (م۶۲۲ھ)
نے بھی امام احمدؒ کے فیصلہ کو اپنا فیصلہ بتلایا ہے کہ وضو کہ ابتداء میں بسم اللہ
پڑھنے کو واجب کہنے میں کوئی چیز ثابت نہیں ہے۔ (جنۃ المرتابی : ص۱۷۷)[5]
(۱۵) امام
نوویؒ (۶۶۷ھ)فرماتے
ہیں کہ : ’’اما
حکم المسئلۃ فالتسمیۃ مستحبۃ فی الوضوئ‘‘
مسئلہ کا حکم یہ ہے کہ وضومیں بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے۔ (المجموع: ج۱ص۳۸۵)
(۱۶)
امام ابن منذرؒ (م۳۱۹ھ)فرماتے
ہیں کہ :
’’فاستحب
کثیرمن اھل العلم للمرء أن یسمی اللہ تعالیٰ اذاارادالوضوء وقال اکثر ھم لا شئی
علی من ترک التسمیۃ فی الوضوء عامداً او ساھیاً ،
ھذاقول سفیان الثوری و الشا فعی واحمد بن حنبل،
وابی عبیدۃ،
واصاحب الرأی۔‘‘
بہت
سے اہلِ علم نے آدمی کے لئے مستحب قرارد یا ہے کہ جب وہ وضو کا ارادہ کرے تو اللہ
تعالیٰ کا نام لے ، اکثر علماء نے کہا ہے کہ وضو میں تسمیہ کو چھوڑنے پر جان بوجھ کر
ہو یا بھولے سے ،کوئی حرج نہیں ، اور یہی قول سفیان ثوریؒ ، اما م شافعیؒ ، امام احمد
بن حنبلِ ؒ اور ابوعبیدہ اور اصحاب الرای کا ہے۔ (الاوسط لابن المنذر: رقم الحدیث:
۳۴۴)
نیز
امام ابن حجر عسقلانیؒ (۸۵۲ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’واستدل النسائی وابن
خزیمۃوالبیہقی فی استحباب التسمیۃ بحدیث معمر‘‘
امام نسائی ؒ اور امام ابن خزیمہؒ اور امام بیہقیؒ نےحدیث معمرسے وضو کی ابتدا میں
بسم اللہ پڑھنے کے مستحب ہونے پر استدلال
فرمایا ہیں۔(تلخیص الحبیر: ج۱ ص۱۲۸)
خلاصۂ
کلام یہ ہے کہ داؤد ارشد صاحب نے امامِ احمدؒ کا جو قول نقل کیا ہے وہ مرجوح اور بے
سند ہے جو کہ خود اہلِ حدیث حضرات کے اصول کی روشنی میں موضوع اور من گھڑت ہے۔نیز حنابلہ
کا فتویٰ بھی مسنون پر ہی ہے، اور امامِ احمدؒ سے تسمیہ کے واجب نہ ہونے کی روایات
بالکل صریح اور صاف اور مشہور ہیں جس کو داؤد ارشد صاحب بالکل پی گئے۔
لہٰذا داؤد ارشد صاحب کا مجروح اور
بے سند قول سے استدلال باطل اور مردود ہے ۔
امام ابن ہمامؒ کے قول کاجائزہ :
اسی
طرح آگے ابو صہیب داؤد ارشد صاحب نے امام ابن ہمامؒ کا قول نقل کیا ہے کہ انہوں نے
وضو میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب کہا ہے۔(ایضا)
الجواب:
امام ابن ہمامؒ (م۸۶۱ھ)
کے شاگرد امام قاسم بن قطلوبغا(م۸۷۹ھ)
فرماتے ہیں کہ : ’’لا عبرۃبأبحاث شیخنا یعنی ابن
الھمام،اذا خالفت المنقول‘‘ ہمارے شیخ ابن ہمامؒ کی وہ بحثیں جن میں منقول فی
المذہب مسائل کی مخالفت ہے اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔(ردالمحتار: ج۱ص ۳ ۶ ۴ )
لہٰذا
یہ امام ابن ہمامؒ کی اپنی اجتہادی خطاہے، اور ساتھ ساتھ غیر مفتیٰ بہ قول بھی ہے،
الغرض ارشد صاحب کا اس سے استدلال اور دوسروں کے دل میں وسوسہ پیدا کرنا مردود و باطل
ہے۔
معلوم
ہوا کہ چاروں ائمہ کا مسلک وضو میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب قرار دینے والا نہیں ہے
اور یہی رائے جمہور کی ہے ۔بلکہ حضرت حسن بصری ؒ (م۱۱۰ھ) بھی
فرماتے ہیں کہ ’’یسمی اذا توضأ فان لم یفعل
أجزأہ ‘‘ جب کوئی وضو کرے تو بسم اللہ پڑھے اوراگر نہ
پڑھے تو بھی وضو ہو جائے گا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج:۱ص:۲۳۱واسنادہ حسن )
ان
ساری تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وضو میں بسم اللہ پڑھنا سنت ہے فرض اور واجب نہیں ۔
گھر کا حال :
عموماً
غیر مقلدین عام مسلمانوں کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتے ہیں کہ حنفی کا شافعی سے اختلاف ہے
اور شافعی کا حنبلی سے اور حنبلی کا مالکی سے اور مالکی کا حنفی سے ۔اور کہتے ہیں کہ
ہم اختلاف کی شکل میں کتاب وسنت کی طرف لوٹتے ہیں۔لیکن ان کو پتہ نہیں ہے ،خود اہل
حدیث فرقہ میں کتنا اختلاف ہے ۔
آئیے!
جوقرآن وحدیث پر عمل کرنے کا، اختلاف کی صورت میں قرآن وحدیث کی طرف لوٹنے کادعوی
کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حنفی، شافعی کواختلاف کا طعنہ دیتے ہیں ان کی اندرونی داستان
دیکھتے ہیں ۔ وضو کے شروع میں بسم
اللہ پڑھنے کے مسئلے پر ۔
(۱) رئیس
ندوی سلفی صاحب ایک حدیث سے دلیل پکڑتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
اس
فرمان نبوی میں امر کے صیغے کے ساتھ وضو کے وقت بسم اللہ کہنے کا حکم دیا گیا ہے جو
فرض ہونے کی دلیل ہے ۔(رسول اللہ ﷺ کا
صحیح طریقہ نماز ص:۸۴)
اسکین :
(۲) دوسری
طرف انہی کی مخالفت کرتے ہوئے اہل حدیث عالم ابوصہیب داؤد ارشد صاحب عنوان تحریر کرتے
ہیں کہ امام داؤد ظاہری ؒ نے ’بھی‘ وجوب کا موقف ان صحیح احادیث کی بناء پر اپنایا تھا ۔ (حدیث
اور اہل تقلید ج:۱ص:۲۳۰)
اس عبارت سے معلوم ہورہا ہے کہ داؤد ارشد صاحب بھی وضو
کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کو واجب سمجھتے ہیں ۔
اسکین : حدیث اور اہل تقلید
ج:۱ص:۲۳۰
نیز
جب اہل حدیث حضرات نے چاروں فقہاء کے مذاہب اور ان کے متبعین وفقہی نظام سے کٹ کر دعوی
کیا کہ ہم ہر مجتہد کے فیصلے کو قرآن وحدیث کی روشنی میں پکڑیں گے، چیک کریں گے ۔
لہذا ان سے سوال تو ضرور کیا جائےگا کہ حدیث ِتسمیہ میں واجب اور فرض
کا لفظ کہاں ہے؟تو شاید اسی سے پریشان ہوکر ایک تیسرا دعوی سامنے آیا، تاکہ اہل حدیث
حضرات اس سوال سے بچ سکیں ۔
چنانچہ:
(۳) مولانا
صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں کہ :وضو کے شروع میں بسم اللہ ’ضرور‘ پڑھنی چاہیئے
۔(صلاۃ الرسول : ص۱۶۶) نیز غیر مقلد مبلغ شفیق الرحمن بھی لکھتے ہیں
کہ وضو کے شروع میں بسم اللہ ضرور پڑھنی چاہیئے۔ (نماز نبوی ص:۸۸)
اسکین : صلاۃ الرسول مع
قول المقبول : ص۱۶۶
(۴) بلکہ ان
سب سے ایک قدم آگے بڑھ کر فرض ،واجب اور ضروری کی اصطلاحات سے جان چھڑانے کے لئے اہل
حدیث ڈاکٹر ابو سیف عبید اللہ صاحب لکھتے ہیں کہ :جو شخص بسم اللہ کرکے وضو نہیں کرتا
اس کاوضو نہیں ہوتا ۔(توضیح الصلاۃ ص:۲۰۹) اسکین
ملاحظہ فرمائے
اور
یہی بات داود ارشد صاحب اور عبدالرؤف سندھو نے بھی کہی ہے ۔(حدیث اور اہل تقلید
ج : ۱ ص:
۲۲۹،
مسنون نماز ص:۴۴)
اس
حدیث ’’لا وضوء لمن لم یذکر اسم اللہ علیہ ‘‘کے
متعلق فقہا ء و محدثین نے جو مفہوم ومعنی لکھا تھا (جس کا ذکر گزر چکا ) جب وہ اہل
حدیث حضرات کے سامنے آیا تو شاید اسی وجہ سے۔۔۔
(۵) مولانا
عبد المتین جونا گڑھی صاحب لکھتے ہیں کہ :(وضو کی)دیگر سنتوں کابیان ہے ،جیسے نیت کرنا
،بسم اللہ پڑھنا، کانوں
کا بھی مسح کرنا ۔(حدیث نماز ص:۲۸) اسکین ملاحظہ فرمائے
(۶) اہل
حدیث مفتی امین اللہ پیشاوری نے بھی وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کو سنت کہا ہے
۔ (فتاوی الدین الخالص ج:۱ص:۳۵۶)
نیز
بعض اہل حدیث علماء ان اصطلاحات (فرض ،واجب ،سنت ،ضروری )سے خاموشی اختیار کرنے میں
اپنی عافیت سمجھی ،چنانچہ:
(۷) شیخ
عبدالرحمن عزیز (صحیح نماز نبوی ص:۴۲ )
(۸) مولانا
ابراہیم سیالکوٹی صاحب (صلاۃ النبی ص:۱۸)اور
(۹) صلاح
ا لدین یوسف (مسنون نماز ص:۲۸)پر
ان حضرات نے وضو کے شروع میں بسم اللہ پڑھنا تو بتایا ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی
حکم (فرض ،واجب ،سنت اور ضروری کا)بیان نہیں کیا ہے ۔ بلکہ اس سے خاموشی اختیا رکرنا
غنیمت جانا ۔نیز زبیر علی زئی نے بھی یہی
کیا ہے۔(صحیح نماز نبوی : ص ۵) اسکین ملاحظہ فرمائے
(۱۰) اور
یاد رہے کہ جن علماء اہل حدیث نے وجوب کا دعوی کیا ہے ان میں ایک مشہور ہستی علامہ
البانیؒ کی بھی ہے ۔ چنانچہ وہ ایک سوال کے جواب میں تحریر کرتے ہیں کہ :
جی
ہاں !غسل کرتے وقت بسم اللہ پڑھنا واجب ہے کیونکہ غسل وضو کے قائم مقام ہے ،جس نے وضو
کے شروع میں بسم اللہ نہ پڑھی اس کا وضو نہیں ہوا۔(فتاوی البانیہ ج:۱ص:۱۵۹)
لیجئے !اہل حدیث فرقے کے محدث نے بھی وضوکے شروع میں بسم
اللہ پڑھنے کو واجب کہہ دیا ہے ۔ (اسکین
ملاحظہ فرمائے)
لیکن خود سلفیوں کے عالم :
(۱۱) شیخ
ابن باز ؒ لکھتے ہیں کہ جو شخص بھول یا جہالت کی وجہ سے تسمیہ نہ پڑھ سکا اس کا وضو
صحیح ہے۔ (فتاوی اسلامیہ ج:۱ص:۲۸۱) اسکین
ملاحظہ فرمائے
(۱۲) غیرمقلدین
کے فضیلۃ الشیخ حافظ عبدالستار حماد صاحب لکھے ہیں کہ:اگربھول کی وجہ سے وضو کے آغاز
میں بسم اللہ نہیں پڑھی گئی تو دوران وضو جب بھی یاد آئے تو اسے پڑھا جا سکتا ہے ،اگر
وضو مکمل ہونے کے بعد یا د آئے تو اس کے بغیر بھی وضو صحیح ہے ،اسے پڑھنے کی ضرورت
نہیں ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ج:۲ص:۸۳) اسکین
ملاحظہ فرمائے
(۱۳) اور
یہی بات مختلف الفاظ کے ساتھ عبدا لصمد رفیقی نے بھی کہی ہے ۔(حاشیہ نماز نبوی ص:۸۸)
قارئین
!آپ دیکھ رہے ہیں کہ اختلاف کے وقت کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنے کا دعوی کرنے والے
اس فرقہ (اہل حدیث )کا آپس ہی میں ایک مسئلے پر کتنا اختلاف ہے ،اور زبیر علی زئی
اور ارشد صاحب کی عبارت کو بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ کیا لکھتے ہیں :
زبیر
علی زئی صاحب لکھتے ہیں کہ :باقی رہا یہ کہ’ کیا فرض ہے‘ اور ’کیا واجب‘ ؟تو یہ سوال
بدعت ہے ۔ (دین میں تقلید کا مسئلہ ص:۱۸۲)
اسکین :
اور
داؤد ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ ارکان میں سے بعض کو فرض،بعض کو واجب ،بعض کو سنت،اور
بعض کو مستحب قرار دینا بد ترین بدعت ہے ۔(تحفہ حنفیہ ص:۱۲۵) اسکین
ملاحظہ فرمائے
لہذا
قارئین !امید ہے کہ
آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا کہ یہ بدعتی کا فتوی
انہوں نے دراصل اپنے ہی علماء پرلگایاہے، کیونکہ انہیں میں سے کسی نے وضو کی ابتداء
میں بسم اللہ پڑھنے کو فرض تو کسی نے واجب ، کسی نے سنت تو کسی نے ضروری کہا ہے ۔اور
بعض نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ بسم اللہ کے بغیر وضو صحیح ہے ۔جیسا کہ تفصیل وپر گزرچکی
۔
جو
فرقہ بے چاری عوام کے دلوں میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ فقہاء کے درمیان بہت سارے اختلافات
ہیں جس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں ختم کیا سکتا ہے،
تو اس فرقے یعنی فرقہ اہل
حدیث سے ہماری اپیل ہے کہ وہ پہلے اپنے ہی فرقے میں موجود اختلافات کو ختم کریں۔
اور
اہل حدیث حضرات سے ایک ا ور گزارش ہے کہ وہ یہ ضاحت کریں کہ اس مسئلے میں ان کا کون سا عالم حق پر ہے اور کون ساحق پر نہیں ۔
قرآن
وحدیث سے دلیل سامنے آنے کے بعدآپ کے جس عالم نے قرآن وحدیث کے مقابلے میں اپنی
ہی رائے کو صحیح بتایا ہے ،تو اس پر کیا فتوی ہوگا ۔نیز جو ان کے مقلدین ہونگے ان پر
کیا شرعی حکم لگے گا ،اس کی وضاحت فرمادیں ۔
تنبیہ :
اس اختلاف کے علاوہ وضو کے شروع میں صرف بسم اللہ
پڑھی جائے یا بسم اللہ الرحمن الرحیم پوری پڑھی جائے ،اس میں بھی غیر مقلدین اہل حدیثوں
کا اختلاف ہے ۔
ایک طرف ان کے مجتہد العصر عبداللہ روپڑی لکھتے ہیں
کہ وضو میں بسم اللہ سے یا تو صرف بسم اللہ مراد ہے یا پھرپوری بسم اللہ مراد ہے ۔(فتاوی
اہل حدیث ج:۱ص:۲۷۴)
اسکین :
اور
غیر مقلد مفتی شیخ امین اللہ پیشاوری نے بھی یہی بات کہی ہے دیکھئے (فتاوی الدین
الخالص ج:۱ص:۳۵۶)
یعنی
ان حضرات کے نزدیک وضو میں دو طرح پڑھنا جائز ہے ۔لیکن انہیں کی مخالفت کرتے ہوئے شفیق
الرحمٰن لکھتے ہیں کہ :واضح رہے کہ وضو کی ابتداء کے وقت صرف’’ بسم اللہ ‘‘کہنا چاہیئے
۔ ’’الرحمن الرحیم ‘‘ کے الفاظ کا اضافہ سنت سے ثابت نہیں ہے ۔(نماز نبوی ص:۸۸)
شیخ
عبدالستار حماد صاحب لکھتے ہیں کہ :وضو کے شروع میں بسم اللہ کے ساتھ’’ الرحمن الرحیم
‘‘کے الفاظ ثابت نہیں ہے ۔(فتاوی اصحاب الحدیث ج:۲ص:۸۲)
پس اللہ تعالی ہم سب کو حق
سمجھنے اوراس کو قبول کرنے اور سلف صالحین کی رہبری میں حضور ﷺ کی پیروی کی توفیق عطا
فرمائے ۔اور وساوس سے ہماری اور پوری امت کی حفاظت فرمائے ۔ آمین
یا رب العالمین
اسکین : فتاوی
اصحاب الحدیث ج:۲ص:۸۲
[1] نوٹ
: امام نووی ؒ کی یہ عبارت ان الفاظ کیساتھ ان
کی موجودہ کتب میں نہیں ملی ،البتہ اس مسئلے پر ان کی بحث سے یہ مفہوم ضرور نکلتا ہے۔
دیکھئے (المجموع ج:۱ص:
۳۴۳،۳۴۴)
[2] ان
کے الفاظ یہ ہیں ’’وان صح ذلک فلیحمل علی تا ٔکید
الاستحباب ونفی الکمال بدونہا ،کقولہ :لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد ۔‘‘
[3] محدثین کی تصحیح
کے لئے دیکھئے ص :۱ ۔
[4] ان کے الفاظ یہ ہیں: ’’وھو
معنی السنۃ کقول النبیﷺ لاصلوٰۃلجار المسجد الا فی المسجد،
وبہٖ نقول انہ سنۃ، لمواظبۃ النبیﷺ علیھا عند افتتاح الوضوئ،
وذلک دلیل السنۃ۔‘‘
[5] ان کے الفاظ یہ ہیں:’’باب
فی التسمیۃ علی الوضوئ: قال احمد : لیس فیہ شئی یثبت ۔‘‘
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 3
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں