غیر مقلدین کا قیاسی دین
نکاح و طلاق
کے مسائل
منگنی پر پیغام ِ نکاح ، عورت
کو مرد پر قیاس
ماخوذ : مجلہ راہ ہدایت شمارہ 23
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
حافظ صلاح
الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک شخص کو معلوم ہے کہ فلاں فلاں شخص نے منگنی کا پیغام
بھیجا ہے اور ان کے درمیان بات طے پاگئی ، صرف نکاح باقی ہے۔ اَب کسی اور شخص کے
لیے ایسی جگہ منگنی کا پیغام بھیجنا منع ہے، ہاں پیغام بھیجنے کے بعد، ان کی بات
ختم ہو گئی اور پیغام بھیجنے والا دوسرے کو کہہ دے کہ بھئی اَب تم اپنی قسمت ازما
لو ، تو پھر وہاں پیغام بھیجنا جائز ہے ۔ اسی طرح عورت کو بھی عورت پر منگنی کا
پیغام بھیجنا ممنوع ہے ،مرد کے حکم پر قیاس کرتے ہوئے ۔ ‘‘
(شرح ریاض :
۲؍۵۵۵طبع دار السلام )
صلاح الدین کہنا چاہتے ہیں کہ جس طرح
مرد کی عورت سے نکاح کی بات چل رہی ہو تودوسرے مرد کو وہاں پیغام نکاح نہیں بھیجنا
چاہیے ۔ اسی طرح اگر عورت کے نکاح کی بات کسی مرد سے ہورہی ہو تب کوئی عورت اس مرد
کو پیغام نکاح نہ بھیجے ۔ البتہ فرق اتنا کہ دوسرے مرد کا پیغام بھیجنا حدیث سے
منع ہے جب کہ دوسری عورت کا پیغام نکاح بھیجنا قیاس سے ممنوع ہے ۔
نکاح کا مسئلہ قیاس مع الغیر کی
جسارت
فتاوی ثنائیہ کا اک سوال اور اس کا جواب ملاحظہ
ہو:
سوال’’
زید نے اپنی بیوی فاطمہ کو ایک طلاق رجعی دی، رجعی طلاق کی عدت کے اندر اندر اپنی
حقیقی سالی ہندہ سے نکاح کر لیا توجائز ہوگایا نہیں ؟ ... جواب: نکاح جائز ہے ،
مگر پہلی بیوی سے رجوع جائز نہ ہوگا۔ ‘‘
( فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۱۹۶)
مولانا ابو الخیر سلفی غیرمقلد ( بردوانی ) نے
مذکورہ فتوی کا تعاقب کرتے ہوئے لکھا:
’’ شریعت طلاق رجعی دو تک ہے اور عدت کے لیے بعد طلاق دینے
مرد کے خواہ رجعی طلاق دے یا بائن ، تین حیض تک انتظار کرنے کا حکم ہے۔ یہ بھی
صراحۃً ذِکر ہے وبعولتھن احق بردھن فی ذلک ان ارادوا اصلاحا۔ خلاصہ یہ کہ طلاق
رجعی کی صورت میں عدت کے اندر اندر عورت نکاح سے باہر نہیں ہوتی ۔لہذا ثابت ہوا کہ
جب تک زید کی منکوحہ فاطمہ مطلقہ بطلاق رجعی کی عدت گذر ہ جائے ، عدت کے اندر اندر
زید کا نکاح کرنا اپنی حقیقی سالی ہندہ سے صحیح نہ ہوگا ۔ اگر آپ یہ کہیں کہ زید
کا فاطمہ کی عدت کے اندر اندر فاطمہ کی بہن ہندہ (سالی زید) سے نکاح کرلینا گویا
فاطمہ کو طلاق بائن دینا ہے تو جوابا عرض ہے کہ اگر کسی کی چار بیویاں ہوں ، اس
حالت میں ایک اور عورت سے نکاح کر لے تو پہلی چار میں سے کوئی ایک ضرور بائن ہونی
چاہیے کیوں کہ چار سے زیادہ حرام ہے حالاں کہ اس کا کوئی قائل نہیں ہے ، واللہ
اعلم بالصواب ۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ : ۲؍۱۹۶)
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد نے
مولانا ابو الخیر سلفی کے تعاقب کو قبول کرنے کی بجائے انہیں ’’ قیاس مع الغیر‘‘کا
طعنہ دے دیا۔ چنانچہ امرتسری صاحب لکھتے ہیں:
’’ یہ تو ظاہر ہے کہ مرد پر عدت نہیں، یہاں طلاق رجعی کے
بعد دو صورتیں ہیں امساک بالمعروف او تسریح باحسان سالی کے ساتھ نکاح کرنے سے
معلوم ہوا کہ مطلق نے تسریحی صورت اختیار کی ہے، بس اس کے بعد اگر کچھ ہے تو یہ وہ
امساکی صورت اختیار نہیں کر سکتا، یہاں آپ کی چار بیبیوں والی مثال قیاس مع الغیر
ہے ، کیوں کہ اس میں طلاق نہیں ، طلاق رجعی دے کر بے شک پانچویں سے نکاح کر لے ،
یہ قیاس صحیح ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍۱۹۷، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
امرتسری صاحب نے اپنے فتوی کو ’’ قیاس
صحیح ‘‘ کا نام دیا اور مولانا ابو الخیر سلفی کے فتوی کوقیاس مع الغیر کہا۔ مگر
اتنی بات تو یقینی ہے کہ مولانا ثناء اللہ اور مولانا ابوالخیر دونوں کے فتوے
قیاسی ہی ہیں۔
مفقود کی بیوی کو معسر کی بیوی پرقیاس
فتاویٰ ثنائیہ میں لکھا ہے :
’’ مفقود کی زوجہ کو معسر کی زوجہ پر قیاس کرنا صحیح بلکہ
اَولیٰ ہے لہذا اس کی نسبت بھی عورت کے مطالبہ کے وقت فسخ کا حکم دیا جا سکتا ہے
اورا نتظار کے لیے خاص میعاد ضروری معلوم نہیں ہوتی کیوں کہ شریعت نے اس کے متعلق
کوئی قید نہیں لگائی۔ جب شریعت سمحہ سے اعسار کے وقت جب خاوند موجود بھی ہے اور
عورت کو اس سے بعض حقوق حاصل بھی ہیں فسخ نکاح کا حکم دیا ہے تو مفقود کی بیوی اس
حکم کی زیادہ مستحق ہے کیوں کہ اس کو اس نام نہاد خاوند سے کوئی بھی فائدہ نہیں،
اور اس کی عدم موجودگی سے اسے سخت ضرر پہنچتا ہے اور اس کی صورت معلقہ کی ہے ، کہ
نہ آباد ہے ، نہ آزاد ۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍، ۲۶۶سلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ غیرمقلد کے
بقول جو مَرد غریب ہو اور اپنی بیوی کو خرچہ نہ دے سکتا ہو عورت کو اختیار ہے کہ
وہ عدالت میں جا کر نکاح فسخ کرنے کا دعویٰ کرے ۔ اسی پرقیاس کرتے ہوئے جس عورت کا
خاوند لاپتہ ہوجائے اسے بھی حق حاصل ہے کہ وہ عدالت جاکر اپنا نکاح فسخ کرا لے ۔
فسخ ِ نکاح کا مسئلہ ، اعلیٰ کا
ادنیٰ پر قیاس کتاب و سنت کے غیر پر قیاس
کسی نے سوال کیا:
’’ زید نے اپنی نابالغہ لڑکی کا نکاح ایک نابالغ لڑکے سے
کردیا تھا ، اب زید نکاح فسخ کرنا چاہتا ہے ہنوز زوجین میں خلوت ِ صحیحہ کی نوبت
نہیں آئی ۔نیز دونوں نابالغ ہیں۔شرعا فسخ کی کیا صورت ہے ؟
مولانا ثناء
اللہ امرتسری غیرمقلد نے اس سوال کا یوں جواب دیا:
’’ مذاہب ِ اربعہ میں سے حنبلیہ کا مختار ہے کہ بوقت ضرورت
ولی فسخ نکاح کر سکتا ہے شیخ ابن تیمیہ ؒ کے فتاویٰ میں یہ مسئلہ ملتا ہے ۔ ‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍۳۱۰، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
مولاناشرف الدین دہلوی غیرمقلد نے امرتسری صاحب
کے اس فتوی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’ یہ قیاس اعلیٰ کا ادنیٰ پر
ہے ، کتاب و سنت پر نہیں ۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۱۰، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
طلاق کو نکاح پرقیاس
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’جس طرح نابالغ کی طرف سے بوقتِ نکاح باپ ولی ہو سکتا ہے،
بوقتِ ضرورت طلاق بھی ولی دے سکتا ہے۔ کذا قال الشیخ ابن تیمیۃ۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۱۴، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
مولانا شرف الدین دہلوی نے اس پر یوں تبصرہ کیا
:
’’ یہ نکاح بھی قیاسی تھا اور پھر قیاس بھی اعلیٰ کو ادنی
پر کیا گیا ،ور نہ کتاب و سنت یا خلفائے راشدین سے اس کا ثبوت نہیں ملتا ۔اورجب یہ
نکاح منعقد ہوگیا تو پھر بقول شیخ الاسلام طلاق کو بھی اسی پر قیاس کیا جاسکتا
ہے۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۱۴، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
دہلوی صاحب کے بقول یہ مسئلہ قیاس در
قیاس کا نتیجہ ہے یعنی طلاق کو قیاس کیا گیا نکاح پر اور نکاح بھی اس جگہ قیاسی ہے
مزید تعجب یہ کہ نکاح کا قیاس کتاب و سنت پر نہیں ۔ قیاس در قیاس اور امتی کے قول
پر قیاس کرنے و الے امرتسری اپنے حلقہ میں سردار اہلِ حدیث کے لقب سے جانے جاتے
تھے ۔
زنا سے حاملہ ہونے والی کو نکاح
سے حاملہ ہونے والی پر قیاس
مولانا ثناء اللہ امرتسری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حاملہ من الزنا کا نکاح حالت ِ حمل میں صحیح اس وجہ سے
بھی نہیں کہ یہ عموما واولات الاحمال میں داخل ہے ، اخراج اس کا محض قیاسی ہے ۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ :۲؍۳۳۷، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد مذکورہ مسئلہ پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اولات الاحمال کے عموم میں حامل من الزنا کا دخول محل نظر
ہے ۔ قطعی نہیں صرف احتمال ہے جیسا کہ خروج قیاسی کہا گیا، دخول بھی قیاسی ہے۔ اور
العبرۃ
لعموم الالفاظ لا لخصوص السبب بھی قیاس ہے ۔‘‘
(فتاویٰ ثنائیہ
:۲؍، اسلامک پبلشنگ ہاؤس لاہور )
مسئلہ خلع میں عورت کو مرد پہ
قیاس
حافظ صلاح
الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’خاوند میں کوئی اور ایسی بیماری ہو ، جسے عورت ناپسند کرے
اور شادی سے پہلے اس کی بابت اسے بتلایا نہ گیا ہو تو وہ بھی نکاح فسخ کرا کے
خاوند سے علیحدہ ہو سکتی ہے ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے : ﴿جس آدمی
نے کسی عورت کے ساتھ شادی کی ( بعد میں معلوم ہوا کہ ) اسے دیوانگی، کوڑھ یا برص
کی بیماری ہے ( تو اسے اختیار ہے کہ اسے طلاق دے کر رخصت کر دے ) او ر اس سے صحبت
کی ہے تو اسے اس کا پورا حق مہر دینا ہوگا اور یہ مہر خاوند عورت کے ولی سے وصول
کرے گا﴿ اس لئے کہ اس نے اسے عورت کے ان عیبوں سے آگاہ نہیں کیا تھا ﴾اس اثر سے
مرد کے اختیار کا بیان ہے لیکن اس پر قیاس کرتے ہوئے یہی اختیار اس عورت کو بھی
ہوگا جس کی شادی ایسے مرد سے کر دی جائے جس کو مذکورہ بیماریوں میں سے کوئی بیماری
یا کوئی اور کوئی خطر ناک بیماری لگی ہو اور شادی سے پہلے اس بیماری کی اطلاع اسے
نہ مل سکی ہو، نیز اس بیماری کی وجہ سے وہ اس کے پاس رہنا پسند نہ کرے تو اسے بھی
یہ حق حاصل ہوگا کہ وہ خاوند سے بذریعہ طلاق یا بذریعہ عدالت یا پنچایت نکاح فسخ
کرا کے علیحدگی اختیار کر لے، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: قیاس کا تقاضا
ہے کہ ہر وہ عیب جو میاں بیوی سے ایک کو دوسرے سے متنفر کر دے اور اس کی وجہ سے
نکاح کا مقصود ، شفقت و محبت حاصل نہ ہو، وہ دونوں کے لیے اکٹھے رہنے یا نہ رہنے
کو واجب کر دیتا ہے اور یہ اختیار اس سے زیادہ اَولیٰ ہے جو خرید و فروخت میں ملتا
ہے۔جیسے ان شرطوں کا پورا کرنا، جو نکاح میں باندھی جاتی ہیں، خرید و فروخت کی
شرطوں سے اَولیٰ ہے اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے کبھی کسی ’’مغرور ‘‘ (جس کو
فریب دیا جائے ) یا ’’ مغبون ‘‘(جس سے
بدنیتی کی جائے ) پر اس چیز کو لازم نہیں کیا ہے جس میں ان کے ساتھ دھوکہ اور
بدنیتی کی گئی ہو۔ جو شخص بھی شریعت کے مقاصداور اس کے عدل و حکمت اور اس پر مشتمل
مصلحتوں پر غور کرے گا تو اس پر اس رائے کا راجح ہونا اور اس کا قواعد شریعت کے
قریب ہونا مخفی نہیں رہے گا۔ ‘‘
( طلاق ، خلع
اور حلالہ صفحہ ۸۶، ناشر مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور)
قصاص وغیرہ پر طلاق کو قیاس
حافظ عبد الستار حماد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اگرچہ ان احادیث میں کوئی حدیث بھی عنوان کی خبر اول
یعنی طلاق بالاشارہ تک دلالت نہیں کرتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے اشارے سے
ثابت شدہ امور پرطلاق کو قیاس کیا ہے، ان من جملہ امورمیں ایک قصاص بھی ہے جو قدر
و منزلت میں طلاق سے کہیں بڑھ کر ہے۔‘‘
( شرح بخاری : ۵؍۲۴۳)
سبحان اللہ کے بول پر مسئلہ
طلاق کو قیاس
رئیس محمد
ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اگر کوئی شخص آن ِ واحد میں بیک زبان کہے کہ میں تین بار
سبحان اللہ کہہ رہا ہوں تو اس کی بات قطعا غلط ہے کیوں کہ آنِ واحد میں صرف ایک ہی
بار سبحان اللہ کہا جا سکتا ہے۔ اسی پر دوسری باتوں کو بھی قیاس کرنا چاہیے ۔
البتہ دو مرتبہ سبحان اللہ کہنے میں دونوں مرتبہ کے درمیان والا وقفہ برائے نام
بھی ہو سکتا ہے کہ ادھر ایک مرتبہ سبحان اللہ کہنے کے بعد فورا ہی اسی سانس میں
دوبارہ پھر سہ بارہ سبحان اللہ کہہ دیا ،اسی پر دوسرے افعال کا قیاس کرنا چاہیے ۔
‘‘
( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۷۱)
تین طلاق دینے والوں کے لیے
قیاس سے سزا کا تعین
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ میرے خیال میں یک بارگی تین طلاق کی سزاکو ظہار کی سزا
یا کفارہ پر قیاس کیا جا سکتا ہے۔‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۱۰۳)
کیلانی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’دور نبوی میں یہ جرم چوں کہ محدود پیمانہ تھا لہٰذا رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے از راہ شفقت اس کا کوئی کفارہ مقرر نہ فرمایا...اس کا کفارہ
ظہار کے مطابق ہو نا چاہیے یعنی غلام آزاد کرنا یا متواتر دو ماہ کے روزے یا ساٹھ
مسکینوں کو کھانا کھلانا ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۴)
کیلانی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ اس کا کفارہ ظہار کے مطابق ہو نا چاہیے یعنی غلام آزاد
کرنا یا متواتر دو ماہ کے روزے یاساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ۔ آج کل غلامی کا
دَور بیت چکا ،لہٰذا یہ شق خارج از بحث ہے۔پھر آج کل افراط کی وجہ سے اکثر لوگوں
کے لیے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی سزا کوئی حقیقت نہیں رکھتی ۔ اندریں صورت
میرے خیال میں متواتر دو ماہ روزے فی الحقیقت ایسا کفارہ ہے جس سے مجرم کو اور
دوسروں کو بھی عبرت حاصل ہوسکتی ہے۔ اگر ایک آدمی کو ایسی سزا مل جائے تو عوام
الناس کو یقینا اس بات کا فوری طور پر علم ہو جائے گا کہ بیک وقت تین طلاق دینا
حرام اور گناہ کبیرہ ہے ،اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ لوگ شرعی طریقہ طلاق سیکھ کر اسے
اپنا لیں گے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۱۰۴)
حدیث کے خلاف قیاس کہ حالت ِ
حیض میں طلاق واقع نہیں ہوتی
حدیث سے ثابت ہے کہ حالتِ حیض میں دی گئی طلاق
واقع ہو جاتی ہے۔دیکھئے بخاری ، کتاب الطلاق ، باب اذا طلقت الحائض
یعتد بذلک الطلاق۔ حکیم محمد
صفدر عثمانی غیرمقلد لکھا:
’’ حیض میں ایک طلاق واقع ہونے
کی دلیل صحیح بخاری و دیگر کتب احادیث میں موجود ہے۔‘‘
( احسن الابحاث
صفحہ ۱۲)
مولانا مبشر ربانی غیرمقلد نے کئی حدیثیں نقل
کیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں طلاق دے چھوڑے تو واقع ہو
جاتی ہے ۔ پھر لکھا:
’’ بعض لوگوں نے یہاں قیاس سے کام لیا ہے جیسا کہ ابن قیم
وغیرہ ہیں لیکن نص کے مقابلے میں قیاس فاسد الاعتبار ہے ملاحظہ ہو( فتح الباری
۹؍۳۵۵)‘‘
( آپ کے مسائل
اور ان کا حل : ۳؍۳۷۵)
ربانی صاحب نے حدیث کے خلاف قیاس کرنے
والوں میں بطور مثال حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا نام پیش کیا،یہ نہیں بتایا کہ پاک
و ہند کے کئی غیرمقلدین بھی یہی رائے رکھتے ہیں کہ حالتِ حیض میں دی گئی طلاق واقع
نہیں ہوتی ۔ جو غیرمقلدین حالتِ حیض میں دی جانے والی طلاق کا وقوع نہیں مانتے اُن
میں سے چند درج ذیل ہیں۔
علامہ وحید الزمان۔ ( تیسیر الباری شرح بخاری
:۷؍۱۶۴ طبع تاج کمپنی ...نزل الابرار فی فقہ النبی المختار :۲؍۸۱،۸۳)
مولانا داود راز ( شرح بخاری اردو :۷؍۲۸)
میر نور
الحسن ۔( عرف الجادی من جنان ھدی الھادی صفحہ ۱۱۸،۱۱۹)
رئیس محمد
ندوی ۔( تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ ۱۸۰، ۴۳۶،۵۱۲)
مولانا عبد القادر حصاروی ۔(فتاویٰ حصاریہ
:۶؍۳۴۲، ناشر :عبد اللطیف ربانی مکتبہ اصحاب الحدیث اردو بازار لاہور ، طبع اول
۲۰۱۲ء)
خواجہ محمد
قاسم ۔( تین طلاقیں ایک مجلس کی ایک ہوتی ہے صفحہ ۳۵)
مولانا مبشر ربانی غیرمقلد کی مذکورہ
بالا عبارت کے پیش نظر یہ کہنا بجا ہے کہ ان غیرمقلدین کا حالتِ حیض میں دی جانے
والی طلاق کو واقع نہ ماننا نص ( احادیث ) کے خلاف فاسد قیاس کا نتیجہ ہے۔
(جاری)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں