نواقض وضو (یعنی
وہ باتیں جن سے وضو ٹوٹ جا تا ہے)
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
جن
چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے وہ چیزیں یہ ہیں :
(۱) پیشاب
یا پائخانہ کرنا یادونوں راستوں سے کسی اور چیز کا نکلنا ۔[1]
(۲) ہوا
کا نکلنا ۔[2]
(۳) بدن
کے کسی مقام سے خون یا پیپ کا نکل کر بہہ جانا ۔[3]
(۴) منھ
بھر کر قے کرنا ۔[4]
(۵) لیٹ
کر یا سہارا لیکر سوجانا ۔[5] (ایسا
سہارا کہ اگر وہ ہٹا دیا جائے تو گر جائے )
(۶) بیماری
یاکسی وجہ سے بیہوش ہوجانا ۔[6]
(۷) مجنون
یعنی دیوانہ ہوجانا ۔[7]
(۸) نماز
میں قہقہہ لگا کر ہنسنا ۔ (یعنی اتنی آواز سے ہنسنا کہ پاس والے آدمی سن لیں )[8]
تیمم
کا بیان :
وضو یا غسل کے لئے پانی نہ ملے ،یا پانی
کے استعمال سے بیمار ہوجانے یا مرض بڑھ جانے کا اندیشہ ہو ،تو ایسی حالت میں تیمم کرنا
جائز ہے اور تیمم پاک مٹی ،پہاڑ ،ریت اور چونے ،گچ وغیرہ پر ہوتا ہے۔ (سورہ نساء
:۴۳،صحیح
بخاری :حدیث نمبر:۳۳۷)[9]
(مزید وضاحت کی ضرورت ہے)
تیمم
کا طریقہ :
تیمم میں نیت فرض ہے،[10] یعنی
تیمم کرنے سے پہلے نیت کرلے کہ میں ناپاکی دور کرنے کے لئے یا نماز پڑھنے کے لئےتیمم
کرتا ہوں ۔
تیمم میں دو ضربیں ہیں (یعنی دو بار
مٹی یا دیوار پر ہاتھ مارنا ہے )۔
پہلی
بار ہاتھ مٹی پر مارکر پورے چہرے پر ملے یعنی جتنا حصہ منھ کا دھویا جاتا ہے اتنے حصے
پر ہاتھ سے ملے ۔پھر دوسری بار ہاتھ مارکر ہاتھوں کو کہنیوں تک ملے اور انگلیوں کا
خلا ل بھی کرے ۔[11]
اس سے جتنی پاکی وضو یا غسل سے حاصل ہوتی ہے اتنی ہوجائے گی ۔(سورہ نساء :۴۳)
جس
وجہ سے تیمم کیا ،اگر وہ دور ہوجائے تو تیمم ٹوٹ جائے گا ،مثلاً پانی نہ ہونے کی صورت
میں تیمم کیا تھا :لیکن کچھ وقت کے بعد پانی
مل جائے ،تو تیمم ختم ہوجائے گا اور اب پانی سے وضو کرنا ہوگا ۔[12] اس کے علا وہ جن چیزوں سے
وضو ٹوٹ جاتا ہے انہیں چیزوں سے تیمم بھی ٹوٹ جاتا ہے۔
[1] سورۃ المائدۃ
:۶،سنن نسائی حدیث نمبر:۱۵۸،روایت کے الفاظ یہ
ہیں :قال
صفوان بن عسال :کنا اذا کنا مع رسول اللہ ﷺ فی سفر امرنا ان لا ننزع ثلاثا الامن
جنابۃ ولکن من غائط وبول ونوم ۔اس روایت کو امام ترمذی ؒ نے حسن صحیح ،امام
ابن الملقن ؒ نے صحیح قرار دیا ہے۔ (سنن ترمذی حدیث نمبر: ۹۶،البدر المنیر ج:۳ص:۹،نیز دیکھئے
المعجم الکبیر للطبرانی ج:۸ص:۵۵، حدیث نمبر: ۷۳۵۰،الملخصات واجراء اخری لابی طاہر المخلص ج۴ص:۱۰۰،۱۰۱،حدیث نمبر:۳۰۶۷۔
[2] روایت کے الفاظ یہ
ہیں :قال
رسول اللہ ﷺ لا تقبل صلاۃ من احدث حتی یتوضأ ،قال رجل من حضرموت :ما الحدث یا ابا
ہریرۃ قال :فساء اوضراط ۔(صحیح البخاری حدیث نمبر:۱۳۵)
[3] حضرت سلمان رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی ﷺ کے پاس تھا اور میری ناک میں سے خون نکلا ’’فأمرنی
ان احدث وضوء ا ‘‘ تو آپ ﷺ نے مجھے
حکم دیاکہ میں نیا وضو کروں۔ (الکامل لابن عدی ج:۲ص:۳۷۵،واسنادہ حسن )
حضرت عائشہ رضی اللہ
عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’من اصابہ قیٔ
او رعاف او قلس او مذی فلینصرف فلیتوضأ ثم لیبن علی صلاتہ ‘‘ کہ جسے
دوران نماز الٹی ہو جائے یا ناک میں سے خون نکل جائے یا مذی نکل آئے تو اسے چاہیئے کہ وہ جا کر وضو
کرے اور اپنی نماز پر بنا ء کرے۔ (سنن دارقطنی حدیث نمبر:۵۷۲)امام محمد بن یحییٰ الذہلی ؒ (م۲۵۶ھ) نے اس روایت کو صحیح مرسل قرار دیا
ہے ،اس حدیث کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن الجوزی ؒ اور امام ابن عبدالہادی ؒ فرماتے
ہیں کہ مرسل ہمارے نزدیک حجت ہے ۔(التحقیق لابن الجوزی ج:۱ص:۱۸۸،تنقیح
التحقیق ج:۱ص:۲۸۵) اس
مسئلے کی تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۲۲۸‘‘پر موجود ہے۔
[4] حضرت ابو الدرداء رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’ان رسول اللہ ﷺ قاء فتوضأ ‘‘ اللہ کے
رسول ﷺ نے قیٔ کی پھر وضو فرمایا ۔(سنن
ترمذی حدیث نمبر:۸۷)امام ترمذی ؒ نے اس
حدیث کو حسن صحیح ،امام ابن خزیمہؒ،امام ابن حبانؒ،امام ابن جارود ؒ نے صحیح ،امام
حاکم ؒ نے صحیح علی شرط الشیخین ،امام بغوی ؒ نے حسن قرار دیا ہے ۔(صحیح ابن خزیمہ
حدیث نمبر:۱۹۵۶،صحیح ابن حبان حدیث نمبر:۱۰۹۷،المنتقی لابن الجارود حدیث نمبر: ۸،شرح السنہ للبغوی ج:۱ص:۱۳۳) مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۳:ص۲۳۱‘‘پر
موجود ہے۔
[5] حضرت انس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ( ینامون ثم
یصلون ولا یتوضؤن )(بغیر سہارے کے )سوتے تھے اور پھر بغیر وضو کیے نماز پڑھتے
تھے ۔امام مسلم ؒ (م۲۶۱ھ) اس روایت کو [باب الدلیل
علی ان نوم الجالس لا ینقض الوضوء ] میں لا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ بغیر
سہارے کے بیٹھ کر سونے سے وضو نہیں ٹوٹتا ۔(صحیح مسلم ص:۳۷۳، حدیث نمبر: ۸۳۵،
دوسرانسخہ ج:۱ص:۲۸۴)اور عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ’’
من نام جالسا فلا وضوء علیہ ‘‘ جو بیٹھ کر (بغیر سہارے کے)سوئے اس پر وضو
نہیں ہے ۔(مسند شافعی ج:۱ص:۱۸۲،۱۸۳،امام ابن الاثیر
ؒ (م ۶۰۶ھ) نے اس حدیث کو صحیح
کہا ہے،مسندالشافعی لابن الاثیر ج:۱ص:۲۲۵)
[6] مرض الوفا ت میں
آپ ﷺ کو ہوش آیا تو آپ ﷺ نے پوچھاکہ لوگوں نے نماز پڑھ لی تو حضرت عائشہ ؓ نے
کہا :کہ لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں ،تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ضعوا
لی ماء فی المخضب ‘‘ میرے
لئے ایک لگان میں پانی رکھدوآپ نے غسل فرمایا پھر جب اٹھنے لگے تو بیہوش ہوگئے
،پھر یہی معاملہ تین بار پیش آیا اور ہر مرتبہ
آپ ﷺ نے غسل کیا ۔(صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۸۷) اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام ابن
المنذر ؒ (م ۳۱۹ھ)
فرماتے ہیں کہ
’’ولیس فی اغتسال رسول اللہ ﷺ دلیل علی ان ذلک واجب اذلوکان واجبالامربہ فالوضوء
واجب لاجماع اہل العلم علیہ، والاغتسال یستحب لفعل رسول اللہ ﷺ ‘‘۔ (الاوسط
لابن المنذر ج:۱ص:۱۵۵،حدیث نمبر: ۴۹)
[7] بیہوش ہونے کی طرح
مجنون وپاگل ہونے کی وجہ سے عقل زائل ہوجاتی ہے اور احساسات کی خبر نہیں رہتی ہے
اس لئے اس سے بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے ،امام حماد بن ابی سلیمان ؒ (م ۱۲۰ھ) فرماتے ہیں کہ ’’اذا
افاق المجنون توضأ وضو ء ہ للصلاۃ ‘‘ جب مجنون ہوش میں آئے ، جب جنون
کی کیفیت ختم ہو جائے تو وہ نماز کے وضو کی طرح وضو کرے ۔(مصنف عبد الرزاق حدیث
نمبر:۴۹۳،واسنادہ حسن ،نیز
دیکھئے ،الاوسط لابن المنذر ج:۱ص:۱۵۵،حدیث نمبر:۴۹)
[8] حضرت عبداللہ بن
عمر ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’من ضحک فی
صلاۃ قہقہۃ فلیعد الوضوء والصلاۃ‘‘ جس نے نماز میں قہقہہ لگا کر ہنسا تو وہ
اپنا وضو اور نماز دہرائے ۔(الکامل لابن عدی ج:۴ص:۱۰۱،التحقیق لابن الجوزی ج:۱ص:۱۹۴، امام
زیلعی ؒ (م ۷۶۲ھ) نے اس
روایت کو صحیح ثابت کیا ہے ،نصب الرایۃ ج:۱ص:۴۸) حضرت ابو موسی اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ رسول
اللہ ﷺ لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے ،کہ اچانک ایک نابینا حضرت کنوئیں میں گر گئے
،تو بہت سے مقتدی ہنس پڑے ’’فامر رسول اللہ ﷺ من ضحک ان یعید الوضو
ء ویعید الصلاۃ ‘‘ رسول اللہ ﷺ نے ان کو وضو اور نماز لوٹانیکا حکم دیا ۔(معجم
الکبیر للطبرانی ،بحوالہ نصب الرایۃ للامام زیلعی،اس روایت میں امام محمد بن
عبدالملک الدقیقی ؒ(م ۲۶۶ھ) ثقہ
صدوق ہیں تقریب رقم :۶۱۰۱،تہذیب
التہذیب ج:۹ص :۳۱۹،باقی
رجال کے بارے میں امام ہیثمی ؒ (م۸۰۷ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’بقیۃ رجالہ موثقون ‘‘باقی
رجال ثقہ ہیں،مجمع الزوائد حدیث نمبر: ۱۲۷۸،اسی طرح کتاب الآثار بروایت امام یوسف
ص:۲۸پر بھی ایک مرفوع حدیث موجود ہے ،جس کو
امام عینی ؒ (م۸۵۵ھ)نے نخب
الافکار ج:۲ص:۶۴،۶۵
پر
ثابت کیا ہے ۔ مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ نمبر ۴:ص۱‘‘پر
موجود ہے۔
[9] روایت کے الفاظ ہیں
’’فمسح
بوجہہ ویدیہ ثم ردعلیہ السلام ‘‘ اس حدیث کی تشریح کے تحت اہل حدیث عالم داؤد
راز صاحب لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے حالت سفر میں تیمم کرنے کا جواز
ثابت کیا ہے۔ (صحیح بخاری ترجمہ داؤد رضا صاحب ج:۱ص:۴۱۸) اور امام حماد بن ابی سلیمان ؒ(م ۱۲۰ھ) [ثقہ امام مجتہد ]فرماتے
ہیں کہ ’’کل
شییٔ ضربت علیہ بیدیک فہو صعید حتی غبار لبدک ‘‘ کہ (تیمم کے لئے )
ہر وہ چیز جس کو تو اپنے دونوں ہاتھ سے مارتاہے ،پاک مٹی( کے حکم میں) ہے۔اگرچہ وہ
تیرے جانور کے زین کا غبار ہی کیوں نہ ہو ۔ایک دوسرے قول میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ ’’یتیمم بالصعید والجص والجبل
والرمل ‘‘تیمم
پاک مٹی ، چونے ،پہاڑ اور ریت سے کرنا جائز ہے ۔(مصنف ابن ابی شیبہ حدیث نمبر:۱۷۱۶،۱۷۱۷،واسنادہ حسن لغیرہ
،الاوسط لابن المنذر ج:۲ص:۳۷)
[10] امام قدوری ؒ (م
۴۲۸ھ) فرماتے ہیں کہ ’’النیۃ
فرض فی التیمم ‘‘تیمم میں نیت فرض ہے۔ (مختصر القدوری ص:۱۰)کیونکہ اس کا حکم اللہ تعالی نے دیا ہے ۔دیکھئے
سورہ نساء :۴۳
[11] حضرت ابن عمر رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ ’’کان تیمم رسول اللہ ﷺ ضربتین ،ضربۃ للوجہ وضربۃ
للیدین الی المرفقین‘‘ رسول اللہ ﷺ کے تیمم میں دوضربیں تھیں :ایک
ضرب چہرے کے لئے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ۔(مسند امام ابو حنیفہ
بروایت امام محمد بن المظفر ،بحوالہ جامع المسانید للامام الخوارزمی ج:۱ص:۲۳۴،واسنادہ
صحیح ، مفتی محمد تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ نے اس کو صحیح مرفوع کہا ہے،اعلاء السنن حاشیہ ج:۱ص:۳۱۹،مزید دیکھئے
سنن کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۶،حدیث نمبر: ۹۹۳،واسنادہ
حسن) نیز حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے
بھی روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا ’’التیمم
ضربۃ للوجہ ،وضربۃ للذراعین الی المرفقین ‘‘تیمم میں ایک ضرب چہرے
کے لئے ہے اور دوسری ضرب دونوں ہاتھ کہنیوں تک کے لئے ہے ۔(سنن دارقطنی حدیث نمبر:
۶۹۱واللفظ لہ ۶۹۲،امام دارقطنی
ؒاورامام ابن مفلح ؒ فرماتے ہیں کہ اسکے رجال ثقہ ہیں ،امام حاکم
ؒ ،امام بیہقی ؒ امام ابن الملقن ؒاور امام
ذہبی ؒ نے اسکی سند کوصحیح اور امام ابن حجر ؒ نے حسن قرار دیا ہے ،نیز حافظ ابن عبدالہادی
ؒ اور حافظ قاسم ابن قطلوبغا ؒ نے اس روایت کا دفاع کیا ہے اور اسکی سند کو ثابت کیا
ہے۔(مستدرک للحاکم حدیث نمبر: ۶۳۶،نخب الافکار
للعینی
ج:۲ص:۴۴۲،سنن
کبری للبیہقی ج:۱ص:۳۱۹، حدیث : ۹۹۱،
البدر المنیر ج:۲ص:۶۴۷،الدرایہ ج:۱ص:۶۸،تنقیح التحقیق ج:۱ص:۳۷۸،تخریج
احادیث الاختیا رللقاسم ج:۱ص:۱۵۱ ) مزید تفصیل ’’الاجماع:شمارہ
نمبر ۴:ص۳۷‘‘پر موجود ہے۔
[12] حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے
فرمایا کہ ’’الصعید الطیب وضو ء المسلم ،وان لم یجد الماء عشر سنین
‘‘ پاک مٹی مسلمان کے لئے وضو کرنے کا سامان ہے اگرچہ پانی دس
سال تک نہ ملے ۔(سنن نسائی حدیث نمبر: ۳۲۲)
معلوم ہواکہ جب تک پانی نہ ملے مسلمان تیمم کرتا رہے گا اور جب پانی مل جائے
تو پانی سے وضو کرے گا اس لئے کہ تب تیمم ختم ہو جائے گا، امام سفیان ثوریؒ (م۱۶۱ھ) بھی یہی کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص تیمم کرے پھر وہ پانی کے
استعمال پر قادر ہوجائے تو اب نماز کیلئے وضو کریگا ، آپؒ کے الفاظ یہ ہیں ’’اذا تیمم الرجل ثم مر بماء فقال :حتی آتی ماء آخر فقد
نقض تیممہ ویتوضأ لتلک الصلاۃ ۔‘‘ (مصنف عبدالرزاق حدیث نمبر: ۸۹۲،واسنادہ صحیح )
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 4
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں