اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد , باب:10 , امام مالک رحمہ اللہ کے ذکر کردہ ضابطے کی حقیقت
باب:10
[امام مالک رحمہ اللہ کے ذکر کردہ ضابطے کی حقیقت]
علامہ عثیمین لکھتے ہیں:
امام مالک رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: استوی علی العرش کے بارے میں پوچھا گیا کہ استواء کی کیا کیفیت تھی ۔ امام مالک رحمہ اللہ نے اپنا سر جھکا لیا یہاں تک کہ ان کی پیشانی پر پسینہ آ گیا۔ پھر سر اٹھایا اور فرمایا استواء مجہول نہیں ہے یعنی معنی کے اعتبار سے معلوم ہے کیونکہ عربی لغت میں استوی علی کا معنی علو اور بلندی ہے۔ لہذ ا فرمایا استواء مجہول نہیں ہے اور کیفیت غیر معقول ہے یعنی اس کو عقل سے نہیں جان سکتے کیونکہ عقل کیفیت کا ادراک نہیں کر سکتی ۔ تو جب کیفیت کو بتانے والی کوئی نقلی و عقلی دلیل نہیں ہے تو ضروری ہے کہ کیفیت کے بارے میں سوال نہ کیا جائے اور اس پر ایمان رکھا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بارے میں اس کے ذریعہ سے خبر دی ہے۔ غرض اس کی تصدیق کرنا واجب ہے اور اس کی کیفیت کے بارے میں سوال بدعت ہے کیونکہ وہ لوگ جو ہم سے زیادہ علم کے حریص تھے یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم انہوں نے جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا تو انہوں نے اللہ کی عظمت اور استواء علی العرش کے معنیٰ کو جان لیا اور اس بات کو بھی جان لیا کہ استواء کی کیفیت کے بارے میں سوال نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کوئی اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ لہذا جب ہم سے یہ سوال کیا جائے گا تو ہم کہیں گے کہ یہ سوال کرنا ہی بدعت ہے۔
اور امام مالک کا قول اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے لیے میزان ہے لہذا اگر تم سے پوچھا جائے کہ مثلاً اللہ تعالی آسمان دنیا کی طرف اترتے ہیں تو کیسے اترتےہیں؟ تو تم جواب میں کہو کہ نزول غیر مجہول ہے اور کیفیت غیر معقول ہے اور اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے بارے میں پوچھنا بدعت ہے۔''
( شرح عقیدہ واسطیه 47)
یہی بات ایک غیر مقلد عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانوی نے حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر اپنے حاشیہ میں کہی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
" بحث ..... صفات خبر یه ..... ید ( ہاتھ ) ، استواء، نزول وغیرہ میں ہو رہی ہے۔ امام صاحب (ابن تیمیہ ) کا کہنا ہے کہ اشاعرہ صفات ذات ... حیات، علم ، قدرت وغیرہ کو جن اصولوں سے حقیقت تسلیم کرتے ہیں اسی اصل سے ان کو دوسری صفات محبت، ید، استواء وغیرہ کو ماننا لازم ہے جس کو دونوں جگہ دخل ہے، تاویل کریں تو سب جگہ کریں، نہ کریں تو کہیں بھی نہ کرنی چاہیے، آدھا تیترآدھا بٹیر، یہ کیا ہے؟“۔
[ہم کہتے ہیں]
ہمیں یہ تسلیم ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ کا قول تمام صفات الہیہ کے لیے معیار و میزان ہے لیکن اس بات پر متنبہ ہونا ضروری ہے کہ ان کا قول صفات کے بارے میں ہے ذات کے اعضاء واجزاء کے بارے میں نہیں کیونکہ اجزاء واعضاء صفات نہیں ہوتے لیکن سلفی اور غیر مقلدین اجزائے ذات کو صفات باور کرانے پر مصر ہیں۔ غرض امام مالک رحمہ اللہ کا ضابطہ صفات مثل استواء ، حیات اور کلام وغیرہ میں تو چلتا ہے ہاتھ ، پاؤں اور چہرے وغیرہ میں نہیں چلتا کیونکہ وہ حقیقت میں صفات نہیں ہیں اجزائے ذات ہیں۔ اجزائے ذات کو سلفی اگر صفات کہیں تو اس سے حقیقت تو نہیں بدلے گی۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں