نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر متشدد متعصب محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : (10 اعتراضات)


 امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد متعصب محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 1 :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي : صاحب الرأي ۔۔۔ وكان رجلا جدلا ظاهر الورع

 ترجمہ : ابو حنیفہ ظاہرا متقی لیکن جھگڑالو تھے۔

( كتاب المجروحين لابن حبان ت زاید 3/61 )

شق 1 : ابو حنیفہ جھگڑالو تھے

شق 2 : ابو حنیفہ ظاہر میں متقی تھے

جواب  : 

1) محدث ابن حبان متوفی  354ھ نے یہاں کوئی سند ذکر نہیں کی کہ ان کو کیسے معلوم ہوا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ متوفی 150ھ جھگڑالو تھے اور صرف ظاہر میں متقی تھے ؟ ، بلکہ اس کے الٹ الإمام القدوة شيخ الإسلام یزید بن ہاروں فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے زیادہ عقل مند ، افضل اور پرہیزگار میں نے نہیں دیکھا ۔

(تاریخ بغداد ت بشار 15/498 ، محقق لکھتے اس کی سند بالکل صحیح ہے)۔

امام صاحب تو پرہیزگاری کے اعلی درجہ پر فائز تھے البتہ محدث  ابن حبان کی اصلیت کیا ہے ملاحظہ فرمائیں

2)۔ محدث ابن حبان نہایت متشدد  متعصب بلکہ جھگڑالو  تھے ، امام ذہبی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ

ابن حبان صاحب تشنيع وشغب (میزان 1/460)

ابن حبان طعن و تشنیع کرنے والا اور ہلڑ باز  ہے ( یعنی دلیل سے خالی شور وغل کرنے والا ، علمی بات کا علمی جواب کی بجائے طعنے دے کر بات رد کر دینے والا )

امام ذھبی  اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابن حبان بعض اوقات کسی ثقہ راوی پر ایسے جرح کرتے ہیں کہ ان کو سمجھ ہی نہیں آ رہا ہوتا ان کے منہ سے کیا نکل رہا ہے 

(میزان الاعتدال 1/274 ، القول المسدد ص 33) 

وقال الإمام أبو عمرو بن الصلاح - وذكره في طبقات الشافعية: غلط الغلط الفاحش في تصرفه، وصدق أبو عمرو. وله أوهام كثيرة تتبع بعضها الحافظ ضياء الدين وقد بدت من ابن حبان هفوة فطعنوا فيه بها  

(میزان 3/508 )


طبقات شافعیہ میں امام ابو عمرو بن الصلاح نے ابن حبان کے تذکرہ میں فرمایا کہ ابن حبان نے اپنے تصرفات میں فحش غلطیاں کیں ہیں اور امام ذھبی فرماتے ہیں کہ امام ابو عمرو بن الصلاح نے صحیح لکھا ہے ابن حبان کے بہت سے اوھام تھے جن کو حافظ ضیاء الدین نے جمع کیا ہے۔ ابن حبان سے ایک حماقت سرزد ہوئی (حماقت یہ کہ ابن حبان نے کہا کہ نبوت علم اور عمل کا نام ہے ، جس کی وجہ سے ان کو زندیق کہا گیا) جس کی وجہ سے اس پر طعن کیا گیا ہے .


حاصل یہ کہ محدث ابن حبان متعصب اور زبان دراز تھے اور ان کا امام صاحب پر طعن بلا دلیل ہے اور یہ طعن باطل ہے اور امام ابو حنیفہ کا اعلی اخلاق ، تقوی  اور پرہیزگاری حنفی تو حنفی ، غیر مقلد اہلحدیث بھی تسلیم کرتے ہیں۔ (تاریخ اہل حدیث ص 77 ، مقالات علی زئی 6/512 ، سبیل الرسول ص 88 ، اہل حدیث اور اہل تقلیدص 82 ، داؤد غزنوی ص 191 ،  تاریخ المشاہیر ص 21  )

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 2 :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي ... لم يكن الحديث صناعته، حدث بمائة وثلاثين حديثا مسانيد ماله حديث في الدنيا غيرها أخطأ منها في مائة وعشرين حديثا. إما أن يكون أقلب إسناده أو غير متنه من حيث لا يعلم فلما غلب خطؤه على صوابه استحق ترك الاحتجاج به في الاخبار.

 ترجمہ : ابو حنیفہ حدیث میں ماہر نہ تھے ، انہوں نے صرف ایک سو تیس (130) احادیث روایت کیں جو باسند بیان کی اس کے علاوہ دنیا میں اس کی کوئی حدیث نہیں۔ ان میں سے بھی ایک سو بیس احادیث میں غلط بیانی کی یا ان کی سندیں الٹ پلٹ کر دی ، متن کو بگاڑ دیا جس کا کوئی پتہ ہی نہیں چلتا ، جب اس کے صواب پر خطا غالب ہوئی تو اس سے احتجاج کرنا صحیح نہیں۔

( كتاب المجروحين لابن حبان ت زاید 3/63 )

شق نمبر 1 : ابو حنیفہ حدیث میں ماہر نہ تھے یعنی محدث نہ تھے ۔

جواب : 

 امام ذھبی فرماتے ہیں کہ

وَرَوَى عَنْهُ مِنَ الْمُحَدِّثِينَ وَالْفُقَهَاءِ عِدَّةٌ لا يُحْصَوْنَ فَمِنْ أَقْرَانِهِ

 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے  محدثین اور فقہاء میں سے اس قدر زیادہ لوگوں نے  روایات کیں ہیں کہ ان کی تعداد بیان کرنا مشکل ہے۔

( مناقب الإمام أبي حنيفة وصاحبيه للذھبی ص 20 )

اگر امام صاحب محدث نہ تھے تو محدثین اور فقہاء نے کیسے ان سے ان گنت روایات نقل کیں ؟ 

ایک اور روایت میں ہیکہ :

سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ قَالَ سَمِعْتُ حَمَّادَ بْنَ زَيْدٍ يَقُولُ وَاللَّهِ إِنِّي لأُحِبُّ أَبَا حَنِيفَةَ لِحُبِّهِ لأَيُّوبَ وَرَوَى حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ أَحَادِيثَ كَثِيرَةً

امام حماد کہتے ہیں: قسم بخدا ! میں ابو حنیفہ سے محبت کرتا ہوں ، اس لئے کہ وہ ایوب سے محبت کرتے ہیں ، اور حماد بن زید نے امام ابو حنیفہ سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔ 

(الانتقاء لابن عبد البر : ص 130 ، اس کی سند صحیح ہے الاجماع  شمارہ 12 ص 20)


اگر امام صاحب کو صرف چند حدیثیں یاد تھیں تو امام حماد بن زید رحمہ اللہ (جن کو امام ذھبی سیر اعلام النبلاء  7/457 میں العلامة ، الحافظ الثبت ، محدث الوقت کے القابات سے یاد کیا ہے ) نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے " بہت زیادہ " احادیث کیسے نقل کر دیں ؟ معلوم ہوا امام صاحب کثیر الحدیث تھے ۔

بلکہ امام صاحب تو اتنے اعلی درجہ کے محدث تھے کہ آپ کی روایات کو حصول برکت کے واسطے محدثین پڑھایا کرتے تھے ، ملاحظہ ہو

امام حاکم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب معرفة علوم الحديث میں ایک باب باندھا ہے

هذا النوع من هذه العلوم معرفة الأئمة الثقات المشهورين من التابعين وأتباعهم ممن يجمع حديثهم للحفظ، والمذاكرة، والتبرك بهم

" ثقہ اور مشہور آئمہ دین ، جن کی احادیث حفظ اور مذاکرہ اور حصول برکت کیلئے جمع کی جاتیں ہیں" ۔

اس باب میں امام حاکم نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا ذکر بھی کیا ہے ۔

( معرفة علوم الحديث ص 245 ) 

شق نمبر 2: 

ابو حنیفہ نے صرف 130 روایات بیان کیں 

جواب : 

بقول امام ذہبی ، ابن حجر اور ابن الصلاح رحمھم اللہ محدث ابن حبان نہایت متعصب ، زبان دراز ، ثقہ راوی پر خوامخواہ جرح کرنے والے اور ہلڑ باز تھے۔

(میزان الاعتدال 3/508 ، 

میزان الاعتدال 1/274 ، القول المسدد ص 33 ، میزان 1/460) 

یہاں بھی محدث ابن حبان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی کیونکہ اگر وہ صرف کتاب الآثار دیکھ لیتے تو ایسی خلاف واقعہ بات نہ لکھتے ، صرف کتاب الآثار بروایت امام محمد میں مرفوع روایات کی تعداد 130 سے اوپر ہے جبکہ موقوف اور آثار تابعین مختلف کتب کے اندر سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں ، الموسوعہ لمرویات الامام ابی حنیفہ میں مولانا لطیف الرحمان بہرائچی قاسمی صاحب  نے امام صاحب کی مرویات کو جمع کیا ہے جن کی تعداد ( 10613 )  دس ہزار چھ سو تیرہ  ہے۔

شق نمبر 3: 

امام ابو حنیفہ حجت نہیں ہیں۔

جواب : 

 

چنانچہ اس مقام پر محدث ابن حبان امام ابو حنیفہ کو ضعیف کہہ رہے ہیں جبکہ اسی کتاب المجروحین میں 60 صفحے آگے  یحیی بن عنبسہ کے ترجمہ  میں لکھتے ہیں

يحيى بن عنبسة : شيخ دجال يضع الحديث على ابن عيينة وداود بن أبي هند وأبي حنيفة وغيرهم من الثقات.

کہ یہ راوی ثقہ رواة یعنی سفیان بن عیینہ ، داود بن ہند اور ابو حنیفہ سے موضوع احادیث بیان کرتا تھا ۔

( المجروحین 3/124)

یہاں ابن حبان نے امام ابو حنیفہ کو ثقہ لکھا ہے  


؏  جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے

  چونکہ محدث ابن حبان نے خود یہاں حق تسلیم کر لیا ہے لہذا مزید حوالہ جات ذکر کرنا باعث طوالت ہے۔

 قارئین " دفاع احناف لائبریری "  امام ابو حنیفہ سیکشن میں " ثقہ  ثبت حافظ الحدیث امام ابو حنیفہ " کے نام سے 4 جلدوں پر مشتمل pdf فائل دیکھ سکتے ہیں جس میں 70 سے زائد آئمہ اسلام سے امام ابو حنیفہ کی ثقاہت ، فقاہت  اور جلالت شان اسنادی تحقیق کے ساتھ درج ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 3 :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي ...ومن جهة أخرى لا يجوز الاحتجاج به لأنه كان داعيا إلى الارجاء  والداعية إلى البدع لا يجوز أن يحتج به عند أئمتنا قاطبة لا أعلم بينهم فيه خلافا على أن أئمة المسلمين وأهل الورع في الدين في جميع الأمصار وسائر الأقطار جرحوه وأطلقوا عليه القدح إلا الواحد بعد الواحد، 

 کہ ابو حنیفہ مرجئہ تھے اور بدعت کی طرف دعوت دیتے تھے اور ہر ملک کے آئمہ اسلام کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ ابو حنیفہ لائق حجت و اعتبار نہیں۔

( كتاب المجروحين لابن حبان ت زاید 3/64 )


جواب : 

 امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مرجئہ اہل بدعت سے ذرا بھی تعلق نہ تھا۔ 

اس موضوع پر تفصیل سے پڑھنے کیلئے یہ دو مضامین دیکھیں۔

لنک نمبر 1 :

https://antighermuqalid.blogspot.com/2012/09/blog-post_648.html?m=1

لنک نمبر 2 :

https://library.ahnafmedia.com/141-faqeeh/year1/aug-sep/374-emam-ahzam-rahimullah-elzam-erja

درج بالا مضامین سے یہ بات بخوبی معلوم ہو جاتی ہیکہ امام صاحب باطل فرقہ مرجئہ  سے نہ تھے ، اور مرجئہ اہل السنت میں اہل السنت کے بڑے بڑے اہل علم تھے جیسا کہ امام ذہبی نے لکھا ہے 

مسعر بن كدام حجة إمام، ولا عبرة بقول السليماني: كان من المرجئة مسعر وحماد بن أبي سليمان والنعمان وعمرو بن مرة وعبد العزيز بن أبي رواد وأبو معاوية وعمرو بن ذر...، وسرد جماعة. 

قلت: الارجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل على قائله 

( میزان 4/99 )


یہاں سے معلوم ہوا کہ مرجئہ اہل السنت بالکل قابل حجت ہیں ، ان پر اعتراض باطل ہے ، ورنہ ابن حبان باقی علماء پر بھی اعتراض کرتے خصوصا صحیحین کے مرجئہ رواة پر لیکن تعصب نے ان کو صرف ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض کرنے دیا ، اور ان کا یہ اعتراض باطل ہے۔

امام صاحب کا مذہب مرجئہ اہل بدعت کے مخالف تھا ، امام صاحب فقہ الاکبر ص 47 میں فرماتے ہیں 《 وَلَا نقُول إِن حَسَنَاتنَا مَقْبُولَة وسيئاتنا مغفورة كَقَوْل المرجئة  》 ہمارا یہ اعتقاد نہیں ہے کہ ہماری نیکیاں مقبول اور گناہ بخشے ہوئے ہیں جیسا کہ مرجئہ کا اعتقاد ہے (کہ ایمان کے ساتھ کسی قسم کی برائی نقصان دہ نہیں اور نافرمان کی نافرمانی پر کوئی سزا نہیں) ، لہذا امام صاحب پر مرجئہ اہل بدعت کا الزام باطل ہے ، فریق مخالف کو چاہیے کہ وہ با سند صحیح روایت لائے جس میں امام ابو حنیفہ کا اقرار مرجئہ اہل بدعت جیسا ہو۔


امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 4 :

النعمان بن ثابت أبو حنيفة الكوفي ۔۔۔ قد ذكرنا ما روى فيه من ذلك في كتاب " التنبيه على التمويه " فأغنى ذلك عن تكرارها في هذا الكتاب غير أنى أذكر منها جملا يستدل بها على ما وراءها.

ابن حبان لکھتے ہیں کہ ابو حنیفہ پر محدثین نے جرحیں کی ہیں جس کو میں نے " التنبيه على التمويه " نامی کتاب میں جمع کیا ہے اور ان میں سے چند کو یہاں ذکر کر رہا ہوں


جواب 1 : 

جب کوئی مصنف اپنی کسی دوسری کتاب سے ایک کتاب میں  چند مخصوص باتیں / عبارتیں / حوالہ جات نقل کرتا ہے تو اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہیکہ صرف مضبوط ، صحیح ترین اور دلائل والی باتیں ہی نقل کروں ، لیکن متشدد متعصب محدث ابن حبان کا معاملہ اس میں بالکل الٹ رہا ہے ،  انہوں نے المجروحین میں اپنی دوسری تصنیف سے جو جروحات نقل کیں ہیں ان سب کی تعداد 32 ہے جن میں سے 28 ضعیف ہیں ، بقیہ ماندہ کی حالت یہ ہیکہ ان سے امام صاحب کی عدالت پر ذرہ برابر فرق نہیں آتا ۔ 


اپنے تئیں ابن حبان نے کوشش کی کہ کسی طرح امام  ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو مجروح کر سکوں (جیسا کہ برصغیری غیر مقلدوں کا مقصد حیات ہے ) لیکن خدا کی قدرت کہ حنفیہ کے دشمن فرقہ غیر مقلد  اہلحدیث نے خود ابن حبان کے تضادات و تناقضات کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے  جس کا نام ہے  " البرہان فی تناقضات ابن حبان " ہے۔

(غیر مقلد ابراہیم بن بشری الحسینوی کی جرح تعدیل ص  116 )

 جب محدث ابن حبان کی اپنی مشہور ترین کتاب میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف پیش کردہ مضبوط ترین جروحات کی  حالت مکڑی کے جال سے بھی کمزور ہے  تو ان کی بقیہ 3 کتب جو انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف تحریر کیں ، ان کی حالت قارئین خوب سمجھ چکے ہوں گے ۔

من ذلك ما حدثنا زكريا بن يحيى الساجي بالبصرة قال: حدثنا بندار ومحمد بن علي المقدمي قال: حدثنا معاذ بن معاذ العنبري قال: سمعت سفيان الثوري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين

سفیاں ثوری کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ کو دو دفعہ کفر سے توبہ کروائی گئی۔ 

جواب : 

یہ روایت ادھوری ہے ، مکمل روایت یہ ہے :


امام ابو قطن رحمہ اللہ نے کہا کہ "میں نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو شعبہ رحمہ اللہ سے کہا آپ کوفہ میں کسی کی طرف رقعہ لکھنا چاہتے ہیں ؟ 

تو انہوں نے کہا ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور سفیان ثوریؒ کی طرف لکھنا چاہتا ہوں ۔ 

 تو میں نے کہا آپ مجھے ان دونوں کی طرف لکھ دیں،

 تو انہوں نے لکھ دیا اور میں کوفہ چلا گیا اور میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ سے زیادہ عمر والے کون ہیں تاکہ میں انکو رقعہ پہلے پہنچاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ ابوحنیفہؒ عمر رسیدہ ہیں تو میں اں کو رقعہ دیا انہوں نے کہا میرا بھائی ابو بسطام کیسا تھا؟ 

تو میں نے کہا :وہ خیریت سے تھے پس جب انہوں نے رقعہ پڑھا تو کہا: کہ جو چیز ہمارے پاس ہے وہ تجھے بخش دی اور جو ہمارے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہے تو اس کے لیے ہم مدد کریں گے۔ 

اور پھر میں سفیان ثوری رحمہ کی جانب گیا تو ان کو وہ رقعہ پہنچایا تو انہوں نے بھی مجھے وہی کہا جو ابوحنیفہ نے کہا تھا۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی طرف سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں بیشک ابو حنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئ تھی؟ 

کیا وہ ایسا کفر تھا جو ایمان کی ضد ہے ؟

 تو انہوں نے کہا :جب سے میں نے یہ بیان کیا ہے اس وقت سے لے کر اب تک اس مسئلے کے بارے میں تمہارے سوا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا اور اپنا سر جھکا لیا پھر کہا: کہ نہیں ایسا نہیں تھا۔ 

لیکن واصل البخاری کوفہ میں داخل ہوا تو اس کے پاس ایک جماعت آئی تو انہوں نے اس سے کہا بیشک یہاں ایک ایسا آدمی جو گنہگاروں کو کافر نہیں کہتا اور ان کی مراد اس شخص سے ابو حنیفہ تھے ۔ تو اس نے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے اور اس کی کہا: اے شخص مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ آپ اہل معاصی(گناہ گار) کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مذہب ہے تو اس نے کہا یقیناً کفر ہے پس اگر تو نے توبہ کرلی تو ہم تیری توبہ قبول کرلیں گے۔ اور اگر تو نے انکار کیا توہم تجھے قتل کریں گے تو انہوں نے کہا: کس بات سے توبہ کروں؟ تو اس نے کہا: اسی سے، تو انہوں نے کہا: میں کفر سے توبہ کرتا ہوں پھر وہ چلے گئے تو منصور کے ساتھیوں کی جماعت آئی تو انہوں نے واصل کو کوفہ سے نکال دیا پھر کچھ مدت کے بعد منصور نے موقع پایا تو وہ کوفہ میں داخل ہوا تو وہی جماعت اس کے پاس آکر کہنے لگی بیشک وہ آدمی جس نے توبہ کی تھی اپنے سابقہ نظریے کا پرچار کرتا ہے تو اس نے بلانے کے لیے پیغام بھیجا تو اس کے پاس حاضر ہوئے تو اس نے کہا :اے شیخ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ بیشک آپ اپنے اسی نظریہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو پہلے تھا تو انہوں نے کہا: وہ کیا ہے؟ تو اس نے کہا بے شک آپ گناہ گاروں کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا: وہ تو میرا مذہب ہے، تو انہوں نے کہا :بے ہمارے نزدیک کفر ہے پس اگر آپ نے توبہ کرلی تو ہم تمھاری قبول کرلیں گے اگر آپ آنے انکار کیا تو ہم تجھے قتل کردیں گے۔ تو انہوں نے کہا :چست و چالاک لوگ قتل نہیں کیے جاتے ، یہاں تک کہ اس نے تین مرتبہ توبہ طلب کی تو انہوں نے کہا: میں کس چیز سے توبہ کروں تو اس نے کہا: کفر سے تو انہوں نے کہا کہ بیشک کفر سے توبہ کرتا ہوں پس یہی وہ کفر ہے جس سے ابو حنیفہؒ سے توبہ طلب کی گئ تھی۔"


 ( فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام ت بہرائچی صفحہ 74 ، 75 : اسناده صحيح

اس سند کے تمام راہ ثقہ و صدوق ہیں ۔

اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام سے جس کفر کی توبہ کرائی گئی تھی دراصل وہ قابلِ اعتراض بات ہی نا تھی جسے صرف تعصب کی بنا پر پھیلایا گیا۔


مکمل روایت سے معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ ؒ نے کسی کفر سے اسلام کی طرف توبہ نہیں کہ بلکہ خوارج کے خود ساختہ کفر سے کمال دانشمندی کیساتھ توبہ کی(جو کہ اصل میں کفر تھا ہی نہیں) اور اپنی جان بھی بچا لی۔ جن بدبخت خوارج نے صحابہ کرامؓ کو نہ بخشا انہوں نے صحابہؓ کے شاگرد تابعی جلیل ابو حنیفہ ؒ پر کفر کا گھٹیا الزام بھی لگایا۔ 

لیکن اگر کوئی ابھی بھی مصر ہیں کہ امام صاحب نے کفر سے توبہ کی تو ہمارا سوال ہیکہ کیا تمہارا عقیدہ بھی خوارج جیسا ہے جو تمہارے ہاں بھی ابو حنیفہ نے اصلی کفر سے توبہ کی ؟ اگر ہاں تو تم حدیث رسول ﷺ کے مطابق جہنم کے کتے ہو (ابن ماجہ 173، 176)،اگر نہیں تو امام ابو حنیفہ ؒ پر اعتراض باطل ہے 

مزید تفصیل اس لنک پر دیکھیں :

https://www.alnomanmedia.com/2023/12/42.html?m=1


امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 5 :

أخبرنا أحمد بن يحيى بن زهير بتستر قال: حدثنا إسحاق بن إبراهيم البغوي قال حدثنا الحسن بن أبي مالك عن أبي يوسف قال: أول من قال القرآن مخلوق أبو حنيفة - يريد بالكوفة.

قاضی ابو یوسف  نے کہا کہ کوفہ میں سب سے پہلا شخص جس نے قرآن کو مخلوق کہا ابوحنیفہ تھے۔

جواب 1 : 

 یہ روایت جس کتاب میں بھی ہے  ( مثلا تاریخ بغداد ت بشار 15/518 ، کتاب السنہ لعبداللہ بن احمد نسخہ قحطانی 1/183 اور اخبار القضاة ص 693 )  وہاں 

أبو يعقوب إسحاق بن إبراهيم بن عبد الرحمن لؤلؤ اور الحسن بن أبي مالك کے درمیان إسحاق بن عبد الرحمن موجود ہے جو کہ المجروحین لابن حبان کی اس  سند میں  کسی راوی کی غلطی کہ وجہ سے گرا ہوا ہے یعنی موجود نہیں ہے ،  حسن بن ابی مالک سے یہ روایت عبد الرحمن بن اسحاق نے سنی ہے اور پھر ان سے اسحاق بن ابراہیم نے سنی۔

 اور اس روایت کا مرکزی راوی "عبدالرحمن بن اسحاق" ہے اور وہ مجہول ہے اور حسن بن ابی مالک سے اسحاق بن ابراہیم کا سماع ہمارے علم کے مطابق نہیں ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس روایت کے متن میں بھی اضطراب ہے ، یہاں یہ ذکر ہیکہ سب سے پہلے امام ابو حنیفہ نے قرآن کو مخلوق کہا جبکہ اخبار القضاة مولفہ محمد بن خلف بن حيان 3/258 میں ہے کہ سب سے پہلے قرآن کو غیر مخلوق امام ابو حنیفہ نے کہا۔

وحدثنا إسحاق بن إبراهيم بن عبد الرحمن أبو يعقوب لؤلؤ قال: أخبرني إسحاق بن عبد الرحمن عن الحسن بن أبي مالك عن أبي يوسف  قال: أول من قال القرآن ليس بمخلوق: أبو حنيفة.

 

نیز متعدد صحیح روایات سے ثابت ہیکہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل نہ تھے 

( تاریخ بغداد ت بشار 15/514 ، 15/516 ، 15/517 ،  الأسماء والصفات للبيهقي، برقم: 551 )


سب سے پہلے جس نے قرآن کے مخلوق ہونے کا نظریہ دیا وہ الجعد بن درہم ہے جس کی وفات 120ھ سے کچھ اوپر سن میں ہوئی۔ پھر جہم بن صفوان ہے پھر ان دونوں کے بعد بشر بن غیاث ہے 

بیشک قرآن کو سب سے پہلے مخلوق کہنے والا الجعد بن درہم ہے جو سن 120ھ سے چند سال اوپر گزرا ہے

(شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة: 2/344 ،  3/ 425)

سب سے اہم یہ کہ خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ عقیدہ خلق قرآن کے ہرگز قائل نہ تھے۔


وقال النخعي: حدثنا أبو بكر المروذي، قال: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، يقول: لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول: القرآن مخلوق (تاريخ بغداد ج 15 ص 516)


مزید تفصیل ان لنکس پر دیکھیں :

https://www.alnomanmedia.com/2023/11/28_14.html?m=1


https://www.alnomanmedia.com/2023/11/29_14.html?m=1


https://www.alnomanmedia.com/2023/11/27_14.html?m=1

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 


المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 6 :


أخبرنا الحسين  بن إدريس الأنصاري قال: حدثنا سفيان بن وكيع قال: حدثنا عمر بن حماد بن أبي حنيفة قال: سمعت أبي يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: القرآن مخلوق قال: فكتب إليه ابن أبي ليلى: إما أن ترجع وإلا لأفعلن بك. فقال: قد رجعت فلما رجع إلى بيته قلت يا أبى أليس هذا رأيك؟ قال: نعم يا بنى وهو اليوم أيضا رأيي ولكن أعيتهم التقية.


امام ابن ابی لیلی نے امام ابو حنیفہ کو عقیدہ خلق قرآن سے رجوع کرنے کا کہا تو امام صاحب نے تقیہ کرتے ہوئے اس عقیدے سے رجوع کر لیا۔

جواب  : 

 یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ سند میں سفیان بن وکیع ضعیف ہیں (میزان الاعتدال 12/152)۔


نیز متعدد صحیح روایات سے ثابت ہیکہ امام صاحب خلق قرآن کے قائل نہ تھے 

( تاریخ بغداد ت بشار 15/514 ، 15/516 ، 15/517 ،  الأسماء والصفات للبيهقي، برقم: 551 )

سب سے اہم یہ کہ خود امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ عقیدہ خلق قرآن کے ہرگز قائل نہ تھے۔


وقال النخعي: حدثنا أبو بكر المروذي، قال: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل، يقول: لم يصح عندنا أن أبا حنيفة كان يقول: القرآن مخلوق (تاريخ بغداد ج 15 ص 516 اسنادہ صحیح)


مزید تفصیل ان لنکس پر دیکھیں :


https://www.alnomanmedia.com/2023/11/28_14.html?m=1




https://www.alnomanmedia.com/2023/11/29_14.html?m=1





https://www.alnomanmedia.com/2023/11/27_14.html?m=1



امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 7 :

أخبرنا أحمد بن علي بن المثنى بالموصل قال: حدثنا أبو نشيط محمد بن هارون قال: حدثنا محبوب بن موسى عن يوسف بن أسباط قال قال أبو حنيفة: لو أدركني رسول الله صلى الله عليه وسلم لاخذ بكثير من قولي وهل الدين إلا الرأي الحسن.


ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر رسول اللہ ﷺ میرا زمانہ پالیتے یا میں ان کو پالیتا تو وہ میری اکثر باتوں کو اختیار کر لیتے اور دین تو اچھی رائے کا نام ہے

( المجروحین لابن حبان ت زاید  3/65  )


جواب  : 

 یہ روایت صحیح نہیں کیونکہ اس کی سند میں یوسف بن اسباط ہیں ، امام بخاری رحمہ اللہ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان کی کتابیں دفن ہو گئی تھیں پھر وہ اس طرح حدیث بیان نہیں کر سکتے تھے جیسا کہ کرنا چاہیے یعنی غلطی کرتے تھے۔

(میزان الاعتدال 4/462 ، الکامل 8/497 )

اور یہاں بھی ابن اسباط سے غلطی ہوئی ہے  کہ پہلے زمانے میں عربی الفاظ پر نقطے نہ ہوتے تھے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر "البتی" (عثمان بن مسلم البتی) مجھے ملتا تو میری باتیں اختیار کرتا ، جبکہ ابن اسباط نے لکھ دیا کہ اگر "النبی" مجھے پالیتا تو میری باتیں اختیار کرتا ۔ یہ غلطی اس وجہ سے ہوئی کہ نقطوں کے بغیر "البتی" اور "النبی" ایک جیسے لکھے جاتے ہیں ۔ تو غلطی سے البتی کو النبی لکھا گیا ، اور پھر روایت کو بالمعنی بیان کرتے ہوئے النبی کی جگہ رسول اللہ صلی  اللہ علیہ وسلم  کے الفاظ بڑھا دئیے گئے۔


 2 ۔ اگر کوئی یہ بات نہ مانے تو اس کیلئے جواب ہیکہ راوی محبوب بن موسی کے بارے میں امام ابو داود نے فرمایا اگر یہ حکایت کتاب سے نقل نہ کرے تو یہ حجت نہیں ۔ (سوالات ابی عبید الآجری 2/258) اور یوسف بن اسباط  پر بھی جرح ہے لہذا یہ روایت ضعیف ہے ۔


مزید معلومات درج ذیل لنک پر دیکھی جا سکتی ہیں۔


https://www.alnomanmedia.com/2024/03/49_30.html?m=1



امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 




المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 8 :



أخبرنا على بن عبد العزيز الأبلي قال: حدثنا عمرو بن محمد الانس عن أبي البختري قال: سمعت جعفر بن محمد يقول: اللهم إنا ورثنا هذه النبوة عن أبينا إبراهيم خليل الرحمن وورثنا هذا البيت عن أبينا إسماعيل ابن خليل الرحمن وورثنا هذا العلم عن جدنا محمد صلى الله عليه وسلم فاجعل لعنتي ولعنة آبائي وأجدادي على أبي حنيفة.


محدث ابن حبان ، ابو البختری کے واسطے سے امام جعفر صادق رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ ابو حنیفہ پر میری طرف سے اور اہل البیت کی طرف سے لعنت ہو ۔


(المجروحین  لابن حبان ت زاید 3/65 )


جواب  : 

 یہ روایت من گھڑت ہے کیونکہ خود محدث ابن حبان نے اپنی اسی کتاب میں ہی چند صفحے آگے اس روایت  کے راوی ابو البختری کو حدیثیں گھڑنے والا لکھا ہے ۔ ملاحظہ ہو

وهب أبو البختري القاضي :  وكان ممن يضع الحديث على الثقات، كان إذا جنة الليل سهر عامة ليله بتذكر الحديث ويضعه ثم يكتبه ويحدث به، لا تجوز الرواية عنه ولا كتابة حديثه إلا على جهة التعجب.

مفہوم : قاضی ابو البختری (وہب) یہ ثقات پر موضوع روایتیں گھڑتا تھا ، جب رات ہو جاتی تو یہ روایتیں سوچتا اور گھڑتا اور ان کو لکھتا ، اور اس سے روایت اور کتابت جائز نہیں سوائے بطور تعجب کے۔ 

( المجروحین لابن حبان ت زاید 3/74)


 جس راوی کو خود محدث ابن حبان نے روایتیں گھڑنے والا لکھا ہے ، اسی راوی سے محدث ابن حبان نے امام ابو حنیفہ پر جرح پیش کی ہے، اللہ تعالی محدث ابن حبان کی  غلطی سے درگزر فرمائیں ۔


طبقات شافعیہ میں امام ابو عمرو بن الصلاح نے ابن حبان کے تذکرہ میں فرمایا کہ ابن حبان نے اپنے تصرفات میں فحش غلطیاں کیں ہیں اور امام ذھبی فرماتے ہیں کہ امام ابو عمرو بن الصلاح نے صحیح لکھا ہے ابن حبان کے بہت سے اوھام تھے جن کو حافظ ضیاء الدین نے جمع کیا ہے ۔

(میزان 3/508 ) 

اہم نکتہ : 

یہ روایت واضح کرتی ہیکہ کس طرح اصحاب الحدیث نے اصحاب الرائے پر بے اعتدالی سے جرح کی ، محدث ابن عبدالبر مالکی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ

أفرط بعض أصحاب الحديث في ذمّ أبي حنيفة، وتجاوزوا الحدّ في ذلك 

 (جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر 2/1080 )


 بعض اصحاب الحدیث نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بہت  بے اعتدالی کے ساتھ مخالفت کی ہے۔ 


محدث ابن حبان بلاشبہ عظیم محدث تھے لیکن انسان ہونے کے ناطے ان سے فحش غلطیاں ہوئیں ہیں جیسا کہ امام ذھبی رحمہ اللہ نے لکھا ۔ محدث ابن حبان نے خواہ مخواہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح کے نشتر چلائے ، جس سے خود ان کا دامن داغ دار ہو گیا غیر مقلدین نے بھی محدث  ابن حبان کے تناقضات کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کا نام ہے  "البرہان فی تناقضات ابن حبان" 

(غیر مقلد ابراہیم بن بشری الحسینوی کی جرح تعدیل ص  116 ).


بعض غیر مقلد نام نہاد اہلحدیث آج بھی محدث ابن حبان  کی غلطیوں کی " تقلید " میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر جرح  کر رہے ہیں ، ان غیر مقلدوں کو چاہیے کہ اس دن کو یاد رکھیں جب ان کی آل اولاد ان کے تناقضات کو  کتابوں میں جمع کر کے ، اپنے باپ دادا کو جوتے کی نوک پر رکھے گی ، کیونکہ فرقہ اہلحدیث کے اصاغر اپنے اکابر کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور اپنے اکابر کے گستاخ ہیں ۔ 

( نقوش عظمت رفتہ ص 353)


امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر  متشدد محدث ابن حبان رحمہ اللہ کی جروحات کا جائزہ : 

المجروحین لابن حبان میں اعتراض نمبر 9 ، 10 :

أخبرنا محمد بن القاسم بن حاتم قال: حدثنا الخليل بن هند قال: حدثنا عبد الصمد ابن حسان قال: كنت مع سفيان الثوري بمكة عند الميزاب فجاء رجل فقال: إن أبا حنيفة مات. قال: اذهب إلى إبراهيم بن طهمان فأخبره فجاء الرسول فقال: وجدته نائما قال: ويحك اذهب فأنبهه وبشره فإن فتان هذه الأمة مات. والله ما ولد في الاسلام مولود أشام عليهم من أبي حنيفة ووالله لكأن أبو حنيفة أقطع لعروة الاسلام عروة عروة من قحطبة الطائي بسيفه.


محدث ابن حبان نقل کرتے ہیں کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ نے ابراہیم بن طہمان کو پیغام بھجوایا کہ  خوش ہو جاو کہ اس امت کا فتنہ ابو حنیفہ فوت ہو گیا ہے ۔

(المجروحین  لابن حبان ت زاید 3/65 )

جواب  : 

 یہ روایت بھی ضعیف ہے کیونکہ 

1۔ سند کے پہلے راوی "ابوبکر محمد بن القاسم السمناني" مجہول الحال ہیں۔

2۔ جبکہ الخليل بن هند السمناني کو محدث ابن حبان نے اگر چہ ثقات میں ذکر کیا ہے لیکن لکھا ہیکہ وہ غلطیاں کرتے تھے اور ثقات کی مخالفت  کرتے تھے۔

( الثقات لابن حبان 8/231 )

--------------------------------------------------------------------------------

أخبرنا آدم بن موسى قال: حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال: حدثنا نعيم  ابن حماد قال: حدثنا أبو إسحاق الفزاري قال: سمعت سفيان الثوري - وجاء نعى أبو حنيفة - فقال: الحمد لله الذي أراح المسلمين منه لقد كان ينقض الاسلام عروة عروة.

امام ابو حنیفہ کی وفات پر سفیان ثوری نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے جس نے مسلمانوں کو ابو حنیفہ کی موت کے ذریعے راحت بخشی۔

( المجروحین  لابن حبان ت زاید 3/66 )

اس روایت کے جھوٹا ہونے کیلئے یہی کافی ہیکہ سند میں نعیم بن حماد  ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے لکھا ہیکہ یہ آدمی امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔

( تھذیب التھذیب 4/412 )


لہذا ان جیسی کمزور تریں سندوں  سے محدث ابن حبان کا امام صاحب پر اعتراض بالکل باطل ہے ۔

مزید تفصیل کیلئے قارئین " النعمان سوشل میڈیا سروسز " کی ویب سائٹ میں موجود ( تانیب الخطیب یونیکوڈ ) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر اعتراض نمبر  71 ، 75 اور 76 دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...