اعتراض نمبر 61: کہ ابو حنیفہ نے 《 لا قطع في ثمر ، ولا كثر 》 والی حدیث کے خلاف فتوی دیا
أخبرنا محمد بن الحسين بن محمد المتوثي، أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا أحمد بن بشر المرثدي، حدثنا رجاء بن السندي سمعت بشر بن السري قال: أتيت أبا عوانة فقلت له: بلغني أن عندك كتابا لأبي حنيفة، أخرجه فقال: يا بني ذكرتني، فقام إلى صندوق له فاستخرج كتابا، فقطعه قطعة قطعة فرمى به فقلت: ما حملك على ما صنعت؟ قال: كنت عند أبي حنيفة جالسا فأتاه رسول بعجلة من قبل السلطان، كأنما قد حموا الحديد وأرادوا أن يقلدوه الأمر.
فقال يقول الأمير: رجل سرق وديا فما ترى؟ فقال - غير متعتع - إن كانت قيمته عشرة دراهم فاقطعوه، فذهب الرجل. فقلت: يا أبا حنيفة ألا تتقي الله؟. حدثني يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن رافع بن خديج أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا قطع في ثمر، ولا كثر " أدرك الرجل فإنه يقطع. فقال - غير متعتع - ذاك حكم قد مضى فانتهى، وقد قطع الرجل. فهذا ما يكون له عندي كتاب.
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ پہلی سند میں ابو عمرو بن السماک ہے جس کو ذہبی نے رسوا کن روایت کے ساتھ مطعون کیا ہے[1] اور رجاء بن السندی زبان دراز تھا اور صحاح ستہ والوں نے اس سے اعراض کیا ہے۔
اور بشر بن السری کے بارہ میں الحمیدی نے کہا کہ وہ جہمی تھا۔
جائز نہیں ہے کہ اس سے روایت لکھی جائے[2]۔
اور دوسری سند[3] میں ابن دوما المزور ہے[4]۔
اور اس کی وجہ سے یہ روایت پہلے مرحلہ میں ہی گر گئی، اٹھنے کے قابل نہ رہی۔ اور اس میں ابن سلم اور الابار اور الحلوانی بھی ہیں اور ان کے حالات مشہور ہیں۔
اور اس میں ابو عاصم العبادانی بھی ہے اور وہ منکر الحدیث ہے. اور بہر حال ابو عوانہ تو وہ ان لوگوں میں سے ہے جن کی مروی روایات میں سے قابل استدلال چن کر ایک جماعت کے نزدیک بیان کی جاسکتی ہیں لیکن اس کے بارہ میں علی بن عاصم نے کہا کہ یہ آدمی وضاع (حدیثیں گھڑنے والا) ہے۔
اور اس میں اسراف (اعتدال کی حد کو چھوڑنا) پایا جاتا ہے۔
نیز وہ پڑھتا تھا اور لکھتا نہیں تھا۔ اور اس کی کتاب صحیح تھی۔ پس جب وہ زبانی راویت کرتا تو غلطی کرتا تھا جیسا کہ وہ دوسرے لوگوں کی لکھی ہوئی تحریر پڑھنے میں غلطی کرتا تھا[5]۔
اور جن لوگوں نے اس سے اس کی عمر کے آخری چھ سالوں میں روایات کی ہیں تو ان کا اعتماد نہ کیا جائے اس لیے کہ اس کو اختلاط کا عارضہ لاحق ہو گیا تھا۔
بلکہ سلیمان بن حرب خیال کرتا تھا کہ وہ بکریاں چرانے کے علاوہ کسی اور کام کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
پھر جو حدیث ابو عوانہ نے بیان کی ہے اس کی سند میں انقطاع ہے اس لیے کہ محمد بن یحیی بن حبان نے رافع بن خدیج کو نہیں پایا [6] اور دوسری طرف صحیح سند کے ساتھ ابو حنیفہ کے پاس روایت تھی تو انہوں نے اس کو لیا ہے اور ابو عوانہ تو واسط کے مقام میں بچپن میں اپنے مالک کی غلامی میں تھے۔ تو کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس کو اس حدیث کے بارہ میں کہیں کہ مجھے یہ حدیث نہیں پہنچی۔ امام محمد بن الحسن الشیبانی نے کتاب الاثار میں کہا کہ ہمیں ابو حنیفہ نے حدیث بیان کی حماد سے اور انہوں نے ابراہیم سے روایت کی کہ چور کا ہاتھ ڈھال کی قیمت سے کم چوری میں نہ کاٹا جائے گا اور اس کی قیمت اس دن دس درہم تھی۔ اور اس سے کم میں ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔
اور اس بارہ میں آثار بہت ہیں اور اس طرح بھی حدیث آتی ہے کہ دینار کے چوتھائی سے کم
(مالیت کی چوری) میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ امام محمد نے الموطا میں فرمایا اور بے شک لوگوں نے اختلاف کیا کہ کتنی مالیت چوری میں ہاتھ کاٹا جائے گا۔ تو اہل مدینہ نے کہا کہ دینار کے چوتھائی برابر مالیت میں اور انہوں نے احادیث روایت کیں۔ اور اہل عراق نے کہا کہ دس درہم سے کم میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا اور انہوں نے اس بارہ میں نبی کریم ﷺ اور حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنھم اجمعین اور دیگر بہت سے حضرات سے روایات کیں۔
تو جب حدود کے بارہ میں اختلاف آیا تو پختہ بات کو لیا جائے گا اور وہ ابو حنیفہ اور ہمارے اکثر فقہاء کا قول ہی ہے۔ یعنی دینار کا چوتھائی تو تین دراہم کے برابر ہوتا ہے اور حدود ان چیزوں میں سے ہیں جو شبہات کی وجہ سے مل جاتی ہیں تو ہاتھ کاٹنے میں دس در اہم والی روایت کو لینا زیادہ احتیاط ہے تو اس کو لیا جائے گا۔
کیونکہ اس بارہ میں ان مختلف اخبار میں ناسخ اور منسوخ کا علم نہیں ہو سکا۔
اور اسی طرح امام محمد نے کتاب الآثار میں ابوحنیفہ - الهيثم بن ابي الهيثم - الشعبي کی سند نقل کر کے کہا کہ شعبی اس روایت کو نبی کریم ﷺ تک مرفوع کرتے ہیں کہ بے شک چور کا ہاتھ پھلوں اور کھجور کے چھوٹے پودوں میں نہ کاٹا جائے گا۔ امام محمد نے کہا کہ ثمر سے مراد وہ ہے جو درختوں پر لگا ہوا ہو۔ اور درخت گھروں میں محفوظ نہیں ہوتے۔ تو اس کی چوری کرنے والے پر قطع ید نہیں ہے اور اکثر سے مراد کھجور کے درخت کا گوند گلھبہ ہے تو اس کو چوری کرنے والے پر قطع ید نہیں ہے۔ الخ اور یہی قول ابو حنیفہ کا ہے[7]۔
اور الحافظ ابوبکر بن المقرئی نے مسند ابی حنیفہ میں ابو حنیفہ عن الشعبی کی سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی ہے۔
اور الودی (کھجوروں کے گوند) چوری کرنے کا واقعہ مروان بن الحکم کے زمانہ میں پیش آیا تو اس نے سمجھا کہ الودی کے سارق پر قطع ید ہے تو اس کو رافع بن خدیج نے حدیث بیان کی 《لا قطع في ثمر ولا كثر 》 تو اس نے ہاتھ کاٹنے سے درگزر کیا تو وہ الودی یعنی کھجور کا پودا تھا۔ جو ان کے ہاں پھل اور گودے پر قیاس تھا۔
اور بے شک امام محمد بن الحسن نے الموطا میں بھی حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث بیان کرنے کے بعد کہا اور مروان کا واقعہ الودی کے بارہ میں تھا۔
اور اسی کو ہم لیتے ہیں کہ درخت پر لگے ہوئے پھلوں اور الکثر کی چوری میں قطع ید نہیں۔ اور الکثر سے مراد الجمار ہے اور نہ ہی ودی میں قطع ید ہے۔ اور نہ ہی درخت ہیں۔ اور یہی قول ہے ابو حنیفہ کا اور ان میں قطع ید اس لیے نہیں کہ یہ محفوظ مال نہیں۔ اور سنت میں قطع ید کی شرطوں میں الحرز (مال کا محفوظ ہونا ) بھی ہے۔
تو ظاہر ہو گیا کہ بے شک مذکورہ فتویٰ ابو حنیفہ پر افتراء ہے۔
اور یہ واقعہ خالص جھوٹ ہے۔ اور وہ بات جس پر ہم مطمئن ہیں یہ ہے کہ ان دونوں حکایتوں میں دونوں سندوں کے حال کی وجہ سے ابو عوانہ بری الذمہ ہیں۔ اور پختہ بات ہے کہ ان کی نسبت اس سے نچلے درجے کے کسی راوی کی طرف ہے۔
واللہ سبحانہ وتعالى اعلم
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]. میزان الاعتدال 3/21
[2]. وقال العقيلي: هو في الحديث مستقيم، وكان سفيان الثوري يستثقله، وقال الحميدي: كان جهميا لا يحل أن يكتب حديثه.
( إكمال تهذيب الكمال 2/ 399)
[3]۔ أخبرنا ابن دوما، أخبرنا ابن سلم، حدثنا الأبار، حدثنا الحسن بن علي الحلواني، حدثنا أبو عاصم عن أبي عوانة قال: كنت عند أبي حنيفة فسأله رجل عن رجل سرق وديا فقال عليه القطع. قال: فقلت له: حدثني يحيى بن سعيد عن محمد بن يحيى بن حبان عن رافع بن خديج قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا قطع في ثمر ولا كثر " قال: إيش تقول؟ قلت: نعم. قال: ما بلغني هذا، قلت: الرجل الذي أفتيته فرده. قال: دعه فقد جرت به البغال الشهب. قال أبو عاصم: أخاف أن تكون جرت بلحمه ودمه.
[4]. دیکھیں اعتراض نمبر 22 اور 51
[5]۔ الجرح والتعدیل للرازی 9/40
[6]۔ حاشیہ تاریخ بغداد ت بشار 15/538
[7]۔ اس ساری بحث کیلئے دیکھیں
▪︎ کتاب الآثار بروایت امام محمد ت خالد العواد ص 541 تا 549 ،
▪︎ فتح المغطا شرح الموطأ برواية الشيباني للملا علی قاری حنفی ت تسلیم الدین 3/48
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں