اعتراض نمبر 63 :
کہ احمد بن المعذل نے ابو حنیفہ کے خلاف اشعار کہے۔
أخبرنا القاضي أبو عبد الله الصيمري، حدثنا عمر بن إبراهيم المقرئ، حدثنا مكرم بن أحمد، حدثنا علي بن صالح البغوي قال: أنشدني أبو عبد الله محمد ابن زيد الواسطي لأحمد بن المعدل:
إن كانت كاذبة الذي حدثتني
فعليك إثم أبي حنيفة أو زفر
المائلين إلى القياس تعمدا والراغبين عن التمسك بالخبر
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ ان اشعار کا قائل احمد بن المعذل ہے اور المعذل ذال مفتوحہ مشددہ کے ساتھ ہے۔ اور یہی شخص عبد الملک بن الماجشون سے فقہ حاصل کرنے کے بعد بصرہ میں سب سے پہلے امام مالک کے نظریہ کا پرچار کرنے والا تھا اور اس کا شیخ جب مدینہ منورہ سے کوچ کر کے عراق گیا تو اس کے ساتھ وہ کچھ تھا جو اس کو بے نیاز کر دے۔ تو عراق کے اہل علم نے اس میں دلچسپی لی۔ اور اس ابن المعذل کے ساتھ اسماعیل القاضی نے فقہ حاصل کی۔ اور بصرہ میں علم کے اندر زفر بن الہذیل کی مضبوط بادشاہی تھی۔
اور بے شک وہ اپنے ان مناظرات میں جن کے مقابلہ کی کسی میں سکت نہ تھی ، ان میں البتی کے مذہب کے خلاف کرتے تھے جیسا کہ اللسان وغیرہ میں ہے۔ اور جب ابن المعذل بصرہ میں زفر کے ساتھیوں سے تنگ ہو گیا تو اس کی اور اس کے شیخ کی ان دو اشعار میں مذمت کی۔ لیکن اگر اس گروہ (مالکیہ) کی قیاس میں وسعت کی انتہاء پر غور کیا جائے جیسا کہ اصول کی کتب میں ہے اور اس میں جس کو اہل المدینہ کے عمل کا نام انہوں نے دیا ہے تو انہوں نے اس قیاس کی وجہ سے صرف الموطا کی سند ستر کے قریب احادیث کو ترک کیا ہے اور یہ وہ کتاب ہے جس پر ان کا دارومدار ہے باقی کتابوں کو تو چھوڑیے۔ اور المصلحة المرسلة جس کو ان میں نے بہت سے حضرات نے اصول کو طور پر اپنایا ہے۔ یہ تو ہر چیز کو گرانے کا ذریعہ ہے اور اس مذمت والے اشعار سے بچنا تو اس کے اپنے لیے اور اس کے گروہ کے لیے بھی بہتر تھا۔
لیکن بے عقلی آدمی کو ہلاکت کی جگہوں میں پھینک دیتی ہے۔
اور یہ ابن المعذل وہی ہے جس کے بارہ میں اس کے بھائی عبد الصمد بن المعذل نے کہا۔
اضاع الفريضة والسنة
فتاه على الانس والجنة
یہ ایسا آدمی ہے جو فرضوں اور سنتوں کو ضائع کرتا ہے۔
اور انسانوں اور جنوں ہر ایک کے خلاف فتوی دیتا ہے۔
اور اس جیسے اور اشعار بھی اس نے کہے۔ اور میں یہاں اس کے مذہب کے شاذ قسم کے مسائل کا ذکر نہیں کرتا اور زفر اہل علم کے ہاں حفظ اور اتقان میں معروف ہیں۔ یہاں تک کہ ابن حبان جیسا آدمی جو اس سے کنارہ کش ہے اس نے بھی اس کا اعتراف کتاب الثقات میں کیا ہے[1]۔ اور اس میں ورع کے لحاظ سے ذرا بھی انگلی اٹھانے کی جگہ نہیں ہے (یعنی اس کا نیک ہونا سب کے ہاں مسلم ہے)۔
چہ جائیکہ اس کے اس کا شیخ جو اپنے علم اور اور پرہیز گاری کی وجہ سے آنکھوں کو چکا چوند کر دیتا ہے (اس کے متعلق ایسی باتیں کہی جائیں) لیکن خواہشات آنکھوں کو اندھا کر دیتی ہیں۔ اور مذمت کے اشعار بری الذمہ نیک لوگوں کو کچھ نقصان پہنچانے کے بجائے مذمت کرنے والے کو اوندھے منہ آگ میں گراتے ہیں۔ اور بے شک ابن عبدالبر نے الانتقاء میں ذکر کیا ہے کہ بے شک ابو جعفر الطحاوی نے جب ان دونوں اشعار کو سنا تو کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ ان دونوں (ابو حنیفہ اور زفر) کی نیکیاں مجھے مل جائیں اور ان دونوں کے گناہ مجھ پر ڈال دیے جائیں۔ الخ۔[2]
اور اس مذمت کے اشعار کہنے والے نے پہلے مصرع میں حضرت حسان بن ثابت کے شعر سے تضمین کی ہے۔
یعنی ان کے مصرع کو اپنے شعر میں شامل کر لیا ہے) اور کچھ لوگوں نے اس انتہاء پسندی اور حملہ پر اکتفا نہیں کیا یہاں تک کہ انہوں نے تیسرے مصرع کو ہی بدل ڈالا اور یوں کہنے لگے
الواثبين على القياس تمردا ۔
"کہ وہ دونوں سرکشی کرتے ہوئے قیاس پر اچھلنے والے ہیں۔ "
اور میں باطل کے مقابل باطل کو پیش نہیں کرتا۔ پس ان شعروں کے مقابلہ میں جو اشعار کہے گئے ہیں میں ان کو ذکر نہیں کرتا۔ کیونکہ ان میں مذمت امام مالک کو جا پہنچتی ہے۔ پس میں اس کا بیان ہی کافی سمجھتا ہوں جو الحافظ قاسم بن قطلوبغا نے ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے جواب دیا ہے۔
اور وہ یہ اشعار ہیں۔
كذب الذي نسب الاثم للذي
قاس المسائل بالكتاب وبالاثر
ان الكتاب وسنة المختار قد
دلا عليه فدع مقالة من فشر
"وہ آدمی جھوٹ کہتا ہے جو گناہ کی نسبت ان لوگوں کی طرف کرتا ہے جو کتاب وسنت کے مطابق مسائل قیاس کرتے ہیں۔ بے شک مختار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور کتاب اللہ دونوں اس پر دلالت کرتی ہیں پس تو اس کو چھوڑ دے جو بیہودہ بکتا ہے۔"
اور کتاب وسنت سے قیاس کرنے کی دلیلیں اور صحابہ اور تابعین کے اقوال اپنے مقام میں اور بالخصوص امام ابوبکر الرازی کے اصول میں تفصیل سے موجود ہیں۔
اور خطیب بھی اس سے ناواقف نہیں ہے بلکہ اس نے اس کا ذکر اپنی کتاب الفقیہ والمتفقہ میں کیا ہے۔ اور وہ ساری بحث عمدہ ہے جو باسند ہے لیکن خطیب پر خواہش نفسانی غالب آگئی جس نے اس کو ابن المعذل کی زبانی ان دو جلیل القدر اماموں کے خلاف پاک برتن میں کتے کے منہ ڈالنے کی طرح اور ان کی توہین اور مذمت پر اکسایا۔
جیسا کہ خطیب سے متاخر لوگوں کی عادت ہے کہ وہ خطیب کی زبانی بڑے بڑے علماء کی گستاخی کرتے ہیں جو اس نے اپنی کتاب تاریخ بغداد میں لکھ دی ہے۔
تو خطیب نے اپنے آپ کو ائمہ کے مقابل لا کھڑا کیا اور امت کے چراغ تو ایسے مقام پر ہیں کہ قیامت کے دن کوئی اس کے خلاف حالت پر رشک نہیں کرے گا بلکہ ان کے مقام پر رشک کرے گا اللہ تعالی ان بزرگوں کے دلوں میں بات ڈال دے کہ وہ ان مذمت کرنے والوں سے درگزر کا معاملہ کریں۔
خوشخبری اس شخص کے لیے ہے جس نے اپنی وفات کے وقت اپنی خطاؤں کے صحیفوں کو لپیٹ دیا۔ (یعنی مرنے سے پہلے پہلے گناہوں کی معافی مانگ لی۔)
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ کتاب الثقات لابن حبان 6/339
[2]۔ الانتقاء ص 152
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں