نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 64 : کہ ابو حنیفہ سے نشہ آور چیزوں میں سے کسی کے بارہ میں پوچھا گیا تو اس نے کہا حلال ہے۔


 اعتراض نمبر 64 :
کہ ابو حنیفہ سے نشہ آور چیزوں میں سے کسی کے بارہ میں پوچھا گیا تو اس نے کہا حلال ہے۔ 


أنبأنا عبد الله بن يحيى السكري والحسن بن أبي بكر ومحمد بن عمر النرسي قالوا: أخبرنا محمد بن عبيد الله بن إبراهيم الشافعي، حدثنا محمد بن علي أبو جعفر قال: حدثنا أبو سلمة، حدثنا أبو عوانة قال: سمعت أبا حنيفة يقول - وسئل عن الأشربة - قال: فما سئل عن شئ إلا قال: حلال، حتى سئل عن السكر. أو السكر - شك أبو جعفر - فقال: حلال. قال: قلت: يا هؤلاء إنها زلة عالم. فلا تأخذوا عنه.


ابو عوانہ نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کو کہتے ہوئے سنا جبکہ ان سے بعض پینے کی چیزوں سے متعلق پوچھا گیا، کہتے ہیں کہ جس چیز کے بارہ میں بھی پوچھا جاتا تو وہ کہتے حلال ہے۔ یہاں تک کہ سکر یا السکر کے بارہ میں پوچھا گیا ان دونوں کے بارہ میں ابو جعفر کو شک ہے کہ کونسا لفظ تھا۔ تو اس نے اس کے متعلق بھی کہا کہ حلال ہے۔ ابو عوانہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ یہ ایک عالم کی غلطی ہے اس سے اس چیز کو نہ لو۔


الجواب : 

میں کہتا ہوں کہ ابو بکر محمد بن عبد اللہ الشافعی تعصب میں حقیقت سے بہت دور جا پڑنے والا آدمی تھا۔ اور محمد بن علی ابوجعفر جو ہے وہ حمدان الوراق حنبلی ہے جو امام احمد کے جلیل القدر اصحاب میں سے ہے۔

 اور ابو سلمہ جو ہے وہ موسیٰ بن اسماعیل التبوکی ہے جو حماد بن سلمہ سے پریشان کن روایات کا راوی ہے۔  اور ابو عوانہ جو ہے وہ الوضاح بن عبد اللہ الواسطی ہے۔

اور اس کے قول سئل عن الاشربة سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ سوال خمر (انگوری شراب) کے علاوہ اور چیزوں کے بارہ میں تھا جن میں علماء کا اختلاف ہے جبکہ وہ نشہ کی حد تک نہ ہوں۔ اور حنفی مذہب میں فتوی امام محمد کے قول پر ہے (کہ ہر نشہ آور چیز حرام ہے خواہ اس سے نشہ ہو یا نہ ہو ) مگر بے شک انگوری شراب کے علاوہ باقی اشیاء کی حرمت اجتہادی ہے۔ اور اشربہ کے بارہ میں ابو حنیفہ کے دلائل تفصیلی کتابوں میں مدون ہیں۔ 

پس ان کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے اور اس بات کا کوئی احتمال ہی نہیں کہ السکر کو یہاں سین کے ضمہ سے لیا جائے۔ (جس کا معنی نشہ آور چیز ہے) اگرچہ خطیب نے شک کے صیغہ کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اس لیے کہ بے شک وہ تو ابو حنیفہ کے نزدیک حرام ہے جیسا کہ یہ بات ان کے اپنے مذہب کی کتابوں میں بھی اور ان کے خلاف لکھی جانے والی

کتابوں میں بھی ان سے تواتر سے ثابت ہے تو یہ شک کے صیغہ سے لانا صرف وہم پیدا کرنے کے لیے ہے کہ بے شک وہ اس کو حلال سمجھتے تھے ، حاشا وکلا ۔

اور بہر حال السکر سین اور کاف دونوں کے فتحہ کے ساتھ تو وہ کھجوروں کے کچے پانی کو کہتے ہیں اور وہ بالاتفاق حلال ہے جبکہ وہ سخت نہ ہوا ہو اور نہ اس میں جھاگ آئی ہو۔

 اللہ تعالی کا ارشاد ہے 

تَتَّخِذونَ مِنْهُ سَكَرا و رِزْقًا حسنا

 کہ "تم ان کھجوروں اور انگورں سے سکر اور اچھا رزق بناتے ہو۔" 

 (پارہ 14 رکوع 15)


امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

اس کی سند میں "محمد بن غالب بن حرب أبو جعفر الضبي التمار المعروف بالتمتام" ہیں جن کو وہم ہو جاتا تھا 

( سؤالات السلمي للدارقطني 1/290 )

 اور یہاں بھی ان کو وہم ہوا ہیکہ امام ابو حنیفہ سے کس مشروب کے بارے میں سوال کیا گیا تھا ؟ ، راوی ابو جعفر خود شک کا شکار ہیں۔ اور

"السکر" نبیذ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے

ابن الأعرابي: السكر الغضب، والسكر الامتلاء، والسكر الخمر، والسكر النبيذ.

( لسان العرب لابن منظور 4/374 )


 اور نبیذ پینا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اول رات میں نبیذ بھگو دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پیتے صبح کو۔ پھر دوسری رات کو پھر صبح کو پھر تیسری رات کو پھر صبح کو عصر تک اس کے بعد جو بچتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم خادم کو پلا دیتے یا حکم دیتے وہ بہا دیا جاتا۔

[ مسلم حدیث نمبر 5226 ] 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہیکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک مشک میں نبیذ بناتے اس کا اوپر کا حصہ باندھ دیا جاتا تھا اس میں نچلی طرف کا سوراخ بھی تھا۔ ہم صبح کو (کھجور یا کشمش) ڈالتے تو آپ اسے رات کو نوش فرماتے اور رات کے وقت ڈالتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو نوش فرما تے۔

[ مسلم حدیث نمبر 5232 ]

صحیح مسلم میں نبیذ کے بارے میں پورا باب ہے [ باب إِبَاحَةِ النَّبِيذِ الَّذِي لَمْ يَشْتَدَّ وَلَمْ يَصِرْ مُسْكِرًا ] ۔

حضرت انس (رض) فرماتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اسی پیالے میں شہد، نبیذ، پانی اور دودھ سارے مشروب پلائے ہیں۔

( بیہقی حدیث نمبر 17421 )


حضرت عمر (رض) فرماتے ہیں کہ ہم نبیذ پیا کرتے تھے تاکہ جو ہم اونٹوں کا گوشت کھاتے تھے وہ نبیذ اس کی تکلیف کو کاٹ دے

( بیہقی حدیث نمبر 17422 )


  معترضین کو سوچنا چاہیے کہ وہ نبیذ کے مسئلے پر اعتراض امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کر رہے ہیں یا  پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین پر پر ؟


اعتراض نمبر39 : کیا امام ابو حنیفہ کے ہاں شراب حلال تھی ؟


 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ

اعتراض: امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ سے جب بعض پینے کی چیزوں کے بارے میں پوچھا جاتا تو جس چیز کے بارے میں پوچھا جاتا تو کہتے حلال ہے۔ یہاں تک کہ سکر یا سُکر کے بارے میں سوال ہوا تو بھی حلال کہا۔ (نشہ آور چیزوں میں سے کسی کے متعلق پوچھا گیا تو کہا حلال ہے۔۔۔)

جواب: اس کی سند صحیح نہیں۔ سند کے راوی محمد بن غالب رحمہ اللہ علیہ اگرچہ ثقہ ہیں لیکن انہیں وہم بھی ہو جاتا ہے، جیسا کہ امام دارقطنی رحمہ اللہ علیہ نے کہا۔ (سوالات سلمی 290/1) اور جیسا کہ انہیں شک بھی ہوا ہے کہ سوال سکر کے بارے میں تھا یا سُکر کے بارے میں۔۔

اس کے علاوہ سند کے راوی ابو عوانہ رحمہ اللہ علیہ کے حفظ پر بھی جرح ہے۔ اس لیے اس سند سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر اعتراض نہیں ہو سکتا۔

رہی بات خمر (شراب/الکحل) کی تو اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ وہ حرام ہے۔ ہاں خمر کے علاوہ پینے والی چیزوں کی تعریف (Definition) اور اس کے حکم (جائز ہے یا نہیں) کو لے کر اختلاف ہے۔ 

جمہور اور امام محمد رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک (جن کے قول پر فقہ حنفی کے اس مسئلے میں فتویٰ ہے) ہر ایسا مشروب جسے پینے سے نشہ ہو جائے پینا جائز نہیں۔۔ اور بعض کے نزدیک اگر نشے کی نیت سے کسی چیز کو پیا تو اس پر حد (سزا) ہے اور اگر طاقت کے لیے پیا تو اس پر حد نہیں، جیسا کہ امام ابن قدامہ رحمہ اللہ علیہ نے اسی طرح کی بات المغنی 160/9 میں نقل کی ہے۔ کیونکہ یہ معاملہ اس نکاح کی طرح ہے جو بغیر ولی کے کیا گیا ہو (بغیر ولی کے نکاح بعض کے نزدیک جائز ہے، بعض کے نزدیک جائز نہیں، کیونکہ روایات دونوں طرح کی ہیں)۔ کچھ یہی معاملہ اس میں بھی ہے کہ روایات دونوں طرح کی موجود ہیں، جس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔ ان شاء اللہ

جیسا کہ بتایا گیا کہ خمر سب کے نزدیک حرام ہے لیکن اس کے علاوہ پینے والی چیزوں (نبیذ وغیرہ) میں اختلاف ہے اور اختلاف کی وجہ دونوں طرح کی روایات کا ہونا ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک خمر (شراب/الکحل) کے علاوہ باقی پینے والی چیزیں اس وقت تک جائز ہیں جب تک اس سے نشہ نہ ہو۔ اگر نشے کا اندیشہ ہو تو پینا جائز نہیں بلکہ اگر نشے کی نیت سے پیا تو اس پر حد (سزا) ہے۔ اور اس معاملے میں حرمت اجتہادی ہے کیونکہ دلائل 2 طرح کے ہیں۔ ہمارے اس بات سے 3 باتیں معلوم ہوئیں:

1: خمر کے علاوہ دیگر مشروبات (Drinks) پینا جائز ہے بشرطیکہ وہ نشے کی حد تک نہ ہوں۔

2: اگر نشے کا اندیشہ ہو تو پینا جائز نہیں (لیکن اگر شک ہو تو پانی ملا کر اس شک یا اس کی تیزی کو ختم کیا جا سکتا ہے)۔

3: اگر نشے کی نیت سے پیا تو اس کو سزا دی جائے گی۔

ان تینوں باتوں کے دلائل درج ذیل ہیں لیکن اس سے پہلے سکر کے تعلق سے اسلاف کے اقوال پیش خدمت ہیں:

لسان العرب میں ہے ابن اعرابی نے کہا سکر کا معنی نبیذ ہے۔ (لسان العرب 374/4)

اسی طرح امام ابن جوزی رحمہ اللہ علیہ نے نقل کیا کہ حبشہ کی لغت میں سکر کا معنی ہے سرکہ۔ اسی طرح امام ضحاک رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا سکر کا معنی ہے سرکہ۔ اور ابو عبید رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا سکر کا معنی ہے ذائقہ۔ (زاد المسیر 569/2)

امام ابو بکر جصاص رازی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ علماء نے سکر کا اطلاق خمر پر بھی کیا ہے اور نبیذ پر بھی اور ان میں سے حرام مشروب پر بھی۔ (احکام القرآن)

1: نبیذ کا پینا جائز ہے: صحیح مسلم کی حدیث 5205 اور 5206 میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے نبیذ بنائی جاتی تھی۔ اور حدیث 5227 میں ہے پیر (Monday) کی رات کو نبیذ تیار کی جاتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منگل (Tuesday) کی عصر (کی نماز) تک اسے پیتے جو بچ جاتی خادم کو دے دی جاتی یا بہا دی جاتی۔ اور حدیث 5228 سے پتہ چلتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 3 دن تک اس نبیذ کو پیتے تھے۔

(اس سے معلوم ہوا کہ نبیذ میں جب تک سختی نہ آئے وہ گاڑھی نہ ہو اسے پیا جا سکتا ہے)

2: نبیذ میں سختی یا گاڑھا پن آ جائے تو اس میں پانی ملا لیں:

(i) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نبیذ کے تعلق سے فرمایا کہ اگر نبیذ میں تیزی (گاڑھا پن) آ جائے تو پانی ملا کر اس کی تیزی ختم کر دو اور اگر پھر بھی تیزی ختم نہ ہو تو اسے بہا دو۔ (سنن ابو داؤد حدیث 3695 صحیح، طحاوی شریف حدیث 6342 سند صحیح)

(ii) اسی طرح سنن دارقطنی کی روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبدالقیس کے وفد کو مشکیزے سے نبیذ پینے کی اجازت دی جس میں نشہ پیدا نہ ہوا ہو، اور فرمایا کہ اگر کسی کو اس کے جوش مرنے کا اندیشہ ہو تو اس میں پانی ملا کر ٹھنڈا کر دے۔ (سنن دارقطنی حدیث 4674 سند صحیح (حسن))

(iii) اس کے علاوہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حسن سند سے منقول ہے کہ جس شخص کو اپنی نبیذ کے بارے میں شک ہو تو اس میں پانی ملا لے۔ بس اس کا حرام (حصہ) چلا (ختم ہو) جائے گا اور حلال باقی رہ جائے گا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 24692/24693)

(iv) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے نبیذ کے تعلق سے منقول ہے کہ جب تک تم کو پانی (ملانے کے لیے) ملتا ہو یہ (نبیذ) تم پر غالب نہیں آئے گی (نشہ پیدا نہیں کرے گی) (مصنف ابن ابی شیبہ 24694)

(v) اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ روایت 24688 سند صحیح میں منقول ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس کشمش کی نبیذ لائی گئی تو آپ نے اس میں پانی ملا کر پی لیا۔

(vi) سنن دارقطنی کی صحیح سند سے منقول اثر میں ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس نبیذ لایا گیا جو کافی گاڑھا ہو چکا تھا آپ نے اس میں 2 یا 3 بار پانی ملا لیا۔ (سنن دارقطنی اثر 4683)

(vii) اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اگر تمہیں اپنی نبیذ سے (نشہ پیدا ہونے کا) خوف (ڈر) ہو تو اس کو پانی سے (پتلا کر کے) توڑ (توڑ) دو [نشے کی امید کو بھی ختم کر دو]۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 24690 سند لا باس بہ)

3: نبیذ پینے سے اگر نشہ ہو گیا تو اس پر سزا ہے:

(i) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک شخص لایا گیا جو کھجور کی نبیذ پینے سے مدہوش ہو گیا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کوڑے لگائے۔ (سنن دارقطنی حدیث 4699-4700 سند حسن)

(ii) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ ایک بار عبید اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے منہ سے تیلا (ایک قسم کی مشروب) کی بو محسوس ہوئی۔ فرمایا میں اس سے معلوم کرتا ہوں اگر اس سے نشہ ہو گیا تو انہیں حد (کوڑے) لگاؤں گا۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کے مطابق پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ کے کوڑے لگائے گئے۔ (مسند شافعی سند صحیح، مصنف عبدالرزاق، معرفت السنن 17328)

نوٹ: یہاں 2 باتوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تیلا (مشروب) پینے پر حد کی بات نہیں کی بلکہ منہ سے بو کے  آنے پر بھی کوڑے لگانے کی بات نہیں کی۔ بلکہ نشہ ہونے پر کوڑے لگانے کی بات کہی۔ اس سے معلوم ہوا تیلا پینے میں کوئی حرج نہیں تھا بلکہ اس سے نشہ ہونے کی وجہ سے سزا دی گئی۔

سنن بیہقی میں بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ نقل ہے کہ انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کو کسی مشروب کے پینے کی وجہ سے ہوئے نشے کی وجہ سے سزا دی۔ (سنن کبری بیہقی 17498)

(iii) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیذ سے نشہ ہونے کی صورت میں 80 کوڑے کی سزا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 28404 سند صحیح)

4: خمر (الکحل) کے علاوہ دوسری مشروب (پینے والے Drinks) نشے کی حد کو نہ پہنچے تو ان کا پینا جائز ہے:

(i) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی اپنے مسلمان بھائی کے یہاں جائے اور وہ اسے کھانا کھلائے تو اسے کھا لینا چاہیے اس سے (حرام/حلال کے بارے میں) مت پوچھو۔ اگر وہ اسے کوئی مشروب پلائے تو پی لینا چاہیے (حرام/حلال کے بارے میں) مت پوچھو۔ اگر اسے مشروب سے (نشے) کا ڈر ہو تو کسی چیز (پانی) سے ملا کر اسے ہلکا (پتلا) کر لے۔ (طحاوی شریف حدیث 6345، مستدرک حاکم حدیث 7160 سند صحیح، سنن دارقطنی حدیث 4675)

نوٹ: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی کو (نشے کا) شک ہو تو اس میں پانی ملا لے۔ اگر وہ مشروب شروع ہی سے حرام تھا تو زیادہ تعداد میں ہو یا کم حرام ہی رہتا۔ پانی ملانے سے وہ حلال نہیں ہو جاتا۔ اس سے پتہ چلا کہ سخت یا گاڑھے مشروب کو پانی ملا کر تب تک پینا جائز ہے جب تک کہ وہ نشہ نہ کرے۔

(ii) طحاوی شریف میں ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہے کہ انہوں نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو مشروب پینے کی اجازت دی تب تک جب تک کہ وہ نشہ نہ لے آئے۔ (طحاوی شریف حدیث 6334-6334-6336)

نوٹ: اگرچہ اس کی سند میں ضعف ہے لیکن وہ اس لیے مضر نہیں کیونکہ ویسا ہی مضمون اس سے پہلے نقل کردہ روایت میں موجود ہے۔

(iii) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خمر (شراب) کو بالکل حرام قرار دیا گیا، تھوڑی شراب بھی حرام ہے اور زیادہ شراب بھی حرام ہے اور ہر مشروب (پینے والے Drinks) میں سے حد سکر (جس سے نشہ آ جائے) حرام ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 24542 سند صحیح، ناسخ والمنسوخ)

نوٹ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول سے صاف واضح ہے کہ خمر (الکحل والی شراب) چاہے کم ہو یا زیادہ بالکل حرام ہے۔ لیکن اس کے علاوہ کوئی اور Drink اگر (گاڑھا یا سخت ہونے کی وجہ سے) نشے کی حد کو پہنچ جائے تو حرام ہے، اگر نشے کی حد تک نہیں پہنچی تو پینا جائز ہے۔

(iv) حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے نبیذ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا پیو، لیکن جب تمہیں اندیشہ ہو کہ نشے میں مبتلا ہو جاؤ گے تو اسے چھوڑ دو۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 24343 سند حسن)

نوٹ: کتنی واضح دلیل ہے جو حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرما رہے ہیں کہ جب تک نبیذ پینے سے نشے کا خطرہ نہ ہو اسے پیا جا سکتا ہے۔

(v) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں صحیح سند سے منقول ہے کہ انہوں نے صحابی حضرت عتبہ بن فرقد رضی اللہ عنہ کو سخت نبیذ پینے کے لیے دی لیکن وہ نبیذ (سخت ہونے کی وجہ سے) حضرت عتبہ کے حلق سے بھی نہیں اتری، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے وہ نبیذ لے کر خود پی لی اور فرمایا: ہم یہ سخت نبیذ اس لیے پیتے ہیں تاکہ اونٹ کا گوشت کو کاٹ دے (ہضم کر دے)۔ (مصنف ابن ابی شیبہ روایت 24347)

نوٹ: یہ روایت کتنی واضح دلیل ہے کہ ایک نبیذ جو کسی ایک آدمی کے لیے پینا آسان ہو دوسرے کے لیے حلق سے اتارنا بھی مشکل ہو سکتی ہے اور اس سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ ایک نبیذ کسی تندرست آدمی کو پینے پر نشہ نہ کرے لیکن ممکن ہے وہی نبیذ کسی کمزور آدمی کو پینے پر نشہ کر دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اصل نبیذ کا پینا غلط نہیں ہے بلکہ نبیذ پی کر اگر نشہ آنے کا خطرہ ہو تو اسے نہیں پینا چاہیے، جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی روایت سے پتہ چلتا ہے۔

(vi) تابعی حضرت عطا رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کسی مشروب (پینے والی Drink) میں حد (سزا) نہیں، یہاں تک کہ وہ نشے میں ہو جائے، سوائے خمر کے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ 28988 سند صحیح)

حضرت عطا رحمہ اللہ علیہ جو جلیل القدر تابعی اور کئی صحابہ رضی اللہ عنہم کے شاگرد بھی ہیں وہ خود فرما رہے ہیں کہ پینے والی کسی چیز کو پینے پر تب تک سزا نہیں دی جائے گی جب تک کہ اس کے پینے سے نشہ نہ ہو جائے اور اگر اس کے پینے سے نشہ نہیں ہوا تو کوئی سزا بھی نہیں ہے۔

اس تعلق سے احادیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم اور محدثین کے بہت سے حوالے ہیں لیکن پوسٹ زیادہ لمبی نہ ہو، اس وجہ سے نقل نہیں کیے۔

معلوم ہوا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ علیہ پر کوئی اعتراض بنتا ہی نہیں کیونکہ ان کا موقف صحیح مرفوع احادیث اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم پر ہے۔


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...