نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعتراض نمبر 65: کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر مرنے والے کے اہل ، مردہ کو دفن کرنے کے بعد اس کے کفن کے محتاج ہوں تو وہ قبر اکھاڑ کر اس کو نکال سکتے ہیں اور اس کو بیچ سکتے ہیں۔


 اعتراض نمبر  65:
 کہ ابو حنیفہ نے کہا کہ اگر مرنے والے کے اہل ،  مردہ کو دفن کرنے کے بعد اس کے کفن کے محتاج ہوں تو وہ قبر اکھاڑ کر اس کو نکال سکتے ہیں اور اس کو بیچ سکتے ہیں۔

أخبرنا محمد بن محمد بن حسنويه النرسي، أخبرنا موسى بن عيسى السراج، حدثنا محمد بن محمد بن سليمان الباغندي، حدثني إسحاق بن يعقوب المروزي، حدثنا إسحاق بن راهويه، حدثني أحمد بن النضر قال: سمعت أبا حمزة السكري يقول: سمعت أبا حنيفة يقول: لو أن ميتا مات فدفن، ثم احتاج أهله إلى الكفن، فلهم أن ينبشوه فيبيعوه.

الجواب :

 میں کہتا ہوں کہ اس کی سند میں محمد بن محمد بن سلیمان الباغندی ہے[1] اور بے شک باپ بیٹا دونوں ایک دوسرے کو جھوٹا کہتے تھے۔ 

اور جرح و تعدیل والوں میں سے بہت سے حضرات نے ان دونوں تکذیبوں میں ان کی تصدیق کی ہے (کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو جھوٹا کہنے میں سچے تھے یعنی دونوں جھوٹے تھے).

 اور ابو حمزہ السکری اختلاط کا شکار تھا۔  اور صحاح ستہ والوں نے جو اس کی روایات لی ہیں تو وہ اس کے اختلاط کے عارضہ میں مبتلا ہونے سے پہلے کی ہیں۔ 

اور اس روایت کا متن اس (امام ابو حنیفہ) کے اس مذہب کے خلاف ہے جو اس سے نقل در نقل چلا آرہا ہے۔ 

تو اس کھلم کھلے جھوٹ کے رد میں کوئی لمبی چوڑی کلام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔  اور اللہ تعالیٰ ہی من گھڑت افسانے بنانے والوں، بہتان تراشوں سے حساب لینے والا ہے۔

امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔

[1]۔ یہ روایت صحیح نہیں ہے کیونکہ

1۔ راوی "أبو بكر محمد بن محمد بن سليمان الباغندي" پر محدثین نے کلام کیا ہے۔

سَمِعْتُ إبراهيم الأصبهاني يقول أبو بكر الباغندي كذاب

 امام ابراہیم اصبہانی نے کہا کہ وہ کذاب ہے 

وللباغندي أشياء أنكرت عليه من الأحاديث

ابن عدی نے لکھا ہیکہ اس کی روایتوں میں منکر باتیں ہیں۔

( الكامل في ضعفاء الرجال

لابن عدي 7/564 )


 امام دارقطنی فرماتے ہیں بہت زیادہ غلطیاں کرتا تھا ۔

 كَثِيْر الخطأ 

( سؤالات السلمي للدارقطني 1/284  )

وكان كثير الغلط

( الجامع في الجرح والتعديل ٣/‏٧٨ )

2۔ راوی إسحاق بن يعقوب المروزي مجہول ہیں۔

لہذا یہ سند ضعیف ہے

(النعمان سوشل میڈیا سروسز)



تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...