اعتراض نمبر 66: کہ امام ابو حنیفہ مسائل بتانے میں دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں آپ سے ایک لاکھ مسائل پوچھنے آیا ہوں تو کہنے لگے پیش کرو وہ کونسے ہیں اور یہ کس قدر دیدہ دلیری ہے۔
اعتراض نمبر 66: کہ امام ابو حنیفہ مسائل بتانے میں دیدہ دلیری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک آدمی نے کہا کہ میں آپ سے ایک لاکھ مسائل پوچھنے آیا ہوں تو کہنے لگے پیش کرو وہ کونسے ہیں اور یہ کس قدر دیدہ دلیری ہے۔
أخبرنا محمد بن عيسى بن عبد العزيز البزاز - بهمذان - حدثنا صالح بن أحمد التميمي الحافظ، حدثنا القاسم بن أبي صالح، حدثنا محمد بن أيوب، أخبرنا إبراهيم بن بشار قال: سمعت سفيان بن عيينة يقول: ما رأيت أحدا أجرأ على الله من أبي حنيفة. ولقد أتاه يوما رجل من أهل خراسان فقال: يا أبا حنيفة قد أتيتك بمائة ألف مسألة، أريد أن أسألك عنها قال: هاتها. فهل سمعتم أحدا أجرأ من هذا؟ أخبرني عطاء بن السائب عن ابن أبي ليلى قال: لقد أدركت عشرين ومائة من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم من الأنصار، إن كان أحدهم ليسأل عن المسألة، فيردها إلى غيره، فيرد هذا إلى هذا، وهذا إلى هذا، حتى ترجع إلى الأول. وإن كان أحدهم ليقول في شئ وإنه ليرتعد. وهذا يقول: هات مائة ألف مسألة، فهل سمعتهم بأحد أجرأ من هذا؟
الجواب :
میں کہتا ہوں کہ اس سند میں صالح بن احمد التمیمی ہے اور وہ ابن ابی مقاتل القیراطی ہے جو اصل میں ہرات کا تھا۔ خطیب نے ابن حبان سے نقل کیا ہے کہ بے شک یہ حدیث چوری کرتا تھا۔ اور شاید دس ہزار احادیث سے زائد اس نے الٹ پلٹ کر دیں جو الابواب میں شیوخ سے اس نے نقل کی ہیں۔
تو اس سے کسی حال میں بھی دلیل پکڑنا درست نہیں ہے اور ابن عدی نے کہا کہ وہ احادیث چوری کرتا تھا۔ اور ایک جماعت کی احادیث کو دوسری جماعت کی احادیث سے ملا دیتا تھا۔ اور موقوف کو مرفوع اور مرسل کو متصل بنا دیتا تھا۔ اور دار قطنی نے کہا کہ وہ کذاب اور دجال ہے۔ نہ سنی ہوئی روایات بھی بیان کر دیتا تھا۔ اور القاسم بن ابی صالح الخذاء کی فتنہ کے بعد کتابیں ضائع ہو گئی تھیں تو وہ لوگوں کی کتابوں سے پڑھتا تھا اور اس کی نظر بھی جاتی رہی تھی۔ جیسا کہ العراقی نے کہا ہے۔ اور اس کو ابن حجر نے لسان المیزان میں نقل کیا ہے۔ اور محمد بن ایوب بن ہشام الرازی کو ابو حاتم نے جھوٹا کہا۔ اور ابراہیم بن بشار الرمادی کے بارہ میں امام احمد کا قول پہلے گزر چکا ہے اس میں جو اس نے ابن عیینہ سے روایت کی ہے۔ اور جو قول ابن عیینہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے اس میں انقطاع ہے ان لوگوں کا ذکر نہیں جنہوں نے سنا تھا۔ اور سند کو دیکھتے ہوئے ابن عیینہ بالکل اس کلام سے بری ہیں۔ کیونکہ وہ تو حج کے احکام بتانے کے علاوہ باقی مسائل میں فتوی دینے میں انتہائی اجتناب کرتے تھے حالانکہ وہ فتوی دینے کی پوری استعداد رکھتے تھے۔ امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالی نے کسی میں فتوی کی اتنی استعداد جمع کر رکھی ہو جتنی استعداد ابن عیینہ میں تھی پھر بھی وہ فتوی دینے سے سکوت کرتے تھے۔ جیسا کہ اس کو خطیب نے الفقيه والمتفقہ میں اپنی سند کے ساتھ نقل کیا ہے اور اس بارہ میں ابن عیینہ کی اپنی رائے تھی کہ وہ فتوی دینے سے اجتناب کرتے تھے لیکن اگر ائمہ فتوی دینے سے انکار کے ہی طریقہ پر چل نکلتے تو دین ضائع ہو جاتا۔ اور وہ فقہ نہ لکھی جاتی جس کی نورانیت سے آج جہاں والوں کی آنکھیں چکا چوند ہو جاتی ہیں۔ اور علماء اس دین میں اس قدر فقاہت حاصل نہ کرتے جو زمانوں اور صدیوں کے گزرنے کے باوجود نقل در نقل چلی آرہی ہے۔ اور اگر ثابت ہو جائے کہ بے شک ابو حنیفہ نے ان مسائل کا جواب دیا تو یہ اس کے عیب کو نہیں بلکہ اس کے مرتبہ کو ثابت کرتا ہے اور ابو حنیفہ کا کثرت سے فتوی دینا جرات اور دیدہ دلیری نہیں تھا بلکہ یہ تو صرف افتاء میں ان کے بیگانہ ہونے کی وجہ سے تھا اور لوگوں کو مسائل بتانا ان پر ایسے واجب تھا جیسے کسی ذمہ دار پر ذمہ داری نبھانا واجب ہوتا ہے۔ اور خطیب نے خود الفقيه والمتفقہ میں ابن سلامه عن ابي يوسف تک سند کے ساتھ نقل کیا کہ ابو یوسف نے کہا کہ میں نے ابو حنیفہ کو کہتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے علم کی کسی چیز کے بارہ میں کلام کی اور اس کی پیروی کی گئی اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ بے شک اللہ تعالیٰ اس سے نہیں پوچھیں گے کہ تو نے اللہ کے دین.ل میں کس طرح فتوی دیا ہے تو اس پر اس کی جان اور دین آسان ہو جائے گا (یعنی اس نے اپنے نفس اور دین پر علامت کا راستہ کھول دیا) اور اس نے اسی طرح اس سند کے ساتھ ابو حنیفہ سے یہ بھی نقل کیا ہے کہ بے شک انہوں نے کہا کہ اگر علم کے ضائع ہو جانے پر اللہ تعالیٰ کی جانب سے مواخذہ کا خوف نہ ہوتا تو میں کسی کو فتوی نہ دیتا۔ (اس فتوی طلب کرنے والے) کو بلا مشقت چیز مل جائے اور مجھ پر گناہ ہو۔ کیا پس اس جیسے آدمی کے بارہ میں تصور کیا جا سکتا ہے کہ اس کو فتووں پر دیدہ دلیری کرنے والا شمار کیا جائے۔ اور میں نہیں جان سکا کہ خطیب نے اس جیسی خبر اس جیسی مذکورہ سند کے ساتھ کیوں نقل کردی اور شاید کہ اللہ تعالی نے اس کی بصیرت کو ہی مٹا دیا تا کہ اس کو ہر قدم میں اس کی رسوائی واضح کر کے اس کو اس چیز میں رسوا کرے جس کو وہ ناقلین کے ہاں محفوظ شمار کرنے کا دعوے دار ہے۔ یہ تو بحث اس میں سند کے لحاظ سے تھی۔
اور رہی بات متن کے لحاظ سے تو یہ حالات اس افسانہ کے جھوٹا ہونے کے گواہ ہیں اور اس کی تکذیب ایسی نمایاں ہے کہ مزید بحث کی ضرورت ہی نہیں۔ اس لیے کہ بے شک اس افسانہ کا صرف تصور ہی دلالت کرتا ہے کہ یہ کھلم کھلا جھوٹ ہے۔ ایک آدمی جس کو خراسان سے بھیجا جاتا ہے تا کہ وہ ابو حنیفہ سے ایک لاکھ مسائل عشاء اور چاشت کے درمیان پوچھے اور ابو حنیفہ ان کا بغیر توقف اور مہلت کے جواب دیں (یہ اتنی محدود مدت میں پیش کیسے ہو سکتا ہے؟) یہ خبر ظاہر کے لحاظ ہی سے ساقط ہے، اس کو پھیلانے کی امید پر صرف وہی آدمی گھڑ سکتا ہے جو لاکھ کی گنتی سے ہی ناواقف ہے کہ لاکھ ہوتا کتنا ہے؟
اور مسائل کی جو مقدار مذاہب کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے وہ زمانہ در زمانہ تفریعی مسائل شامل کر کے لکھی گئی ہے اور کتنی ہی جلدیں ایسی ہیں جن میں صرف مسائل کا ذکر ہے ان کے جوابات اور ان کے دلائل کا ذکر نہیں اور نہ ہی ان کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے۔
اور کیا اتنی تعداد مسائل کی ممکن ہو سکتی ہے کہ ایک ایسا آدمی جو بے علم ہے وہ ان کو بیان کرے اور وہ خراسان سے آیا ہو تاکہ ابو حنیفہ سے ان مسائل کو دریافت کرے اور ان کے جوابات لے کر خراسان واپس جائے جو اس نے ان سے سن کر حاصل کیے ؟ اور اس خیال کا تصور معقول حد سے بہت دور نکل جاتا ہے۔ پس پاک ہے وہ ذات جو عقلوں کو تقسیم کرنے والی ہے (جس نے ابو حنیفہ کے ان مخالفین کو عقل سے محروم رکھا)[1]۔
امام کوثری کا کلام مکمل ہوا۔
[1]۔ امام ابو حنیفہ ذہانت کے اعلی مقام پر فائز تھے ، وہ آدمی کو اسی کے انداز میں جواب دینے کی مہارت رکھتے تھے ، اگر بندہ علمی ہو تو علمی جواب عنایت فرماتے ، اگر بندہ شریر ہو تو اپنی فراست سے ایسا جواب دیتے کہ اس کی شرارت الٹا اس کے گلے پڑ جاتی۔۔ بالفرض اگر اس واقعہ کی سند درست ہے تو ہمارا جواب یہ ہیکہ امام صاحب نے اس شخص کو اسی کے انداز سے جواب دیا تھا ، چونکہ عامی انسان نے کہا کہ میں آپ سے ایک لاکھ سوال پوچھوں گا ( جو کہ ایک عامی کیلئے نا ممکن بات ہیکہ وہ ایک لاکھ سوال یاد کرے اور پھر ان کے جواب بھی یاد رکھے) تو امام صاحب نے اس شرارتی انسان کو جواب دیا کہ تم ایک لاکھ سوال پوچھنے والے بنو ، میں جواب دینے کیلئے حاضر ہوں (ایک فقیہ مجتہد خاص کر امام ابو حنیفہ کیلئے ایک لاکھ سوالات کے جوابات دینا بالکل ممکن بات ہے ، جس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں )۔
ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر ایک عامی انسان ایک لاکھ مسائل یاد کر سکتا ہے تو ، فقیہ ملت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ایک لاکھ سوالات کے جوابات کیوں نہیں دے سکتے ؟
جہاں تک بات یہ ہیکہ جب سائل سوال کرتا تو صحابہ فتوی کیلئے ایک دوسرے کو نامزد کرتے تو لیکن امام ابو حنیفہ نے خود جواب کیوں دیا ، کسی دوسرے کو نامزد کیوں نہ کیا؟
اس کا جواب یہ ہیکہ وہ اصحاب اپنے سے اعلی فقیہ صحابی کو نامزد کرتے تھے (کتاب العلل و معرفۃ الرجال 1/197 ) اور فقیہ صحابہ کی تعداد بقول ابن قیم لاکھوں اصحاب میں سے تقریبا 130 تھی ، ان میں سے بھی مکثرین صرف سات تھے۔ اور ان اصحاب کے سینکڑوں فتاوی جات کتب احادیث خصوصا مصنف عبدالرزاق اور ابن ابی شیبہ میں پائے جاتے ہیں ، اسی طرح امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے زمانے میں آپ سے بڑا کوئی فقیہ نہ تھا ، جیسا کہ محدثین نے اس کی گواہی دی کہ آپ اپنے زمانہ میں سب سے ذہین ، عقل مند ، متقی اور پرہیزگار تھے (تاریخ بغداد ت بشار 15/498 اسنادہ صحیح) ، اگر فقہی مسائل کا جواب صحابہ نہ دیتے تو ، تابعین کبھی دین اسلام کی فقہ حاصل نہ کر پاتے اور اگر تابعی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر مجتہدین فتوی نہ دیتے اور دین مبین اسلام کو مدون نہ کرتے تو آج ہم فقہ اسلامی سے محروم ہوتے ۔
( النعمان سوشل میڈیا سروسز)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں