نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد , باب : 7 , استواء علی العرش




ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

 باب : 7

[استواء علی العرش]

سلفیوں اور غیر مقلدوں کا عقیدہ ہے کہ آسمانوں کو درست کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی ذات سمیت عرش کے اوپر ہوئے بلکہ بہت سے سلفیوں کے نزدیک اس پر بیٹھ گئے ۔ اور ان کے پاؤں کرسی پر ہیں۔ عرش پر بیٹھے ہونے کی حالت میں دوممکنہ صورتیں ہیں: 

1 - عرش پر چار انگلی کی جگہ بچتی ہے۔ 

2 عرش پر چار انگلی کی جگہ بھی نہیں بچتی ۔ 

ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس صورت کو ترجیح دی ہے اور علامہ عثیمین بھی اسی کو ترجیح دیتے ہیں اور کہتے ہیں:

وان كان عزوجل اكبر من العرش ومن غير العرش

( ترجمہ: اگرچہ اللہ عز وجل عرش اور غیر عرش سب سے بڑے ہیں ) ۔

پھر جب اللہ تعالیٰ کی ذات عرش سے بھی بڑی ہے تو نہ جانے ان کی ذات کا کتنا حصہ عرش سے باہر نکلا ہوا ہو گا۔ علاوہ ازیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ہوں

تو ان کی ذات کے بوجھ سے عرش چر چر کرتا ہے۔

ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالی نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پربٹھائیں گے۔

[تنبيه]

غور طلب بات یہ ہے کہ جب عرش پر چار انگلی کی جگہ بچتی ہے تو کس کی انگلیوں کا اعتبار ہے اللہ تعالیٰ کی انگلیوں کا یا انسان کی انگلیوں کا۔ اگر اللہ کی چار انگلیاں مراد ہیں تو وہ تو شاید پورے عرش سے بڑی ہوں اور اگر انسان کی چار انگلیاں مراد ہوں تو وہ جگہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ کوئی انسان اس پر بیٹھ نہیں سکتا۔ اور اگر ابن تیمیہ کی اس بات کو لیں کہ اللہ تعالیٰ کے عرش پر بیٹھے ہونے کی حالت میں کچھ جگہ نہیں بچتی تو رسول اللہ ﷺ کو اللہ تعالی عرش پراپنے ساتھ کیسے بٹھا ئیں گے۔

[سلفیوں کے نزدیک استوار صفت فعل ہے 

علامہ  عثیمین  لکھتے ہیں ]

انه من الصفات الفعلية لانه يتعلق بمشيئته و كل صفة تتعلق بمشيئته فهى من الصفات الفعلية واهل السنة والجماعة يومنون بان الله تعالى مستو على عرشه استواء يليق بجلاله و لا يماثل استواء المخلوقين

(شرح العقيده الواسطيه ص 204)

( ترجمہ: استواءعلی العرش اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں سے ہے کیونکہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہر وہ صفت جس کا تعلق اس کی مشیت سے ہو وہ اس کی صفات فعلیہ میں سے ہوتی ہے۔ اہل السنتہ والجماعة [ جن سے مراد سلفی اور غیر مقلدین ہیں ان ] کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پر مستوی ہوئے ہیں ایسے استوا کے ساتھ جو ان کی شایان شان ہے اور جو مخلوق کے استوا کی مثل نہیں ہے)۔

[ہم کہتے ہیں]

اس حد تک تو بات درست ہے لیکن اس کے بعد سلفی حضرات استواء کا ظاہری مطلب لیتے ہیں اور اپنے اصل عقیدے پر آتے ہیں:

[استواء کے معانی]

 علامہ عثیمین لکھتے ہیں :

و قد ورد عن السلف فى تفسيره اربعة معان الاول علاء و الثاني ارتفع و الثالث صعد و الرابع استقر لكن علا و ارتفع و صعد معناها واحد و اما استقر فهو يختلف عنها 

( شرح العقيدة الواسطيه لعثيمين 204)

( ترجمہ: استوا کی تفسیر میں سلف سے جو معانی منقول ہیں وہ چار ہیں (1) علا(2) ارتفع (3) صعد (4) استقر ۔ پہلے تین کا تو ایک ہی معنی ہے یعنی بلند ہوا ۔ رہا چوتھا یعنی اسقر قرار پکڑا ، بیٹھا تو وہ پہلے تین سے مختلف ہے۔)

[ہم کہتے ہیں]

ابن تیمیہ اور ابن قیم اور ان کے پیروکار استوا کا مطلب بیٹھنے کا بھی کرتے ہیں۔ابن تیمیہ کہتے ہیں

فما جاءت به الآثار عن النبي من لفظ القعود والجلوس في حق الله تعالى الحديث جعفر بن ابی طالب رضی الله عنه ، و حديث عمر الخطاب رضى الله عنه وغيرهما اولى ان لا يماثل صفات اجسام بن العباد
(بحواله اثبات الحد لله ص 76)

(ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے بارے میں جلوس اور قعود کے الفاظ جو نبی اسے حضرت جعفر بن ابی طالب اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما وغیرہ کی حدیثوں میں وارد ہیں تو یہ اس کے زیادہ لائق ہیں کہ وہ بندوں کی جسمانی صفات کے مثل نہ ہوں)۔

ابن قیم اپنے قصیدہ نونیہ میں کہتے ہیں:

ولقد اتى ذكر الجلوس به وفي اثر رواه جعفر الرباني

(بحوالہ اثبات الحد لله ص 77)

( ترجمہ: اور اس میں جلوس ( یعنی بیٹھنے ) کا ذکر بھی آیا اور حضرت جعفر کی روایت میں بھی اس کا ذکر ہے۔

علامہ عثیمین کہتے ہیں۔

عربی زبان میں استوا علی الشی کا معنی استقرار اور بیٹھنا بھی آتا ہے

کیونکہ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے لتستووا على ظهوره اب بتاؤ کہ انسان جانور کی پشت پر بیٹھا ہوتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے؟ ظاہر ہے کہ وہ بیٹھا ہوتا ہے۔ لیکن کیا یہ بھی صحیح ہوگا کہ ہم اللہ تعالیٰ کے عرش پر استوا میں بیٹھنے کو ثابت کریں۔ یہی حل نظر ہے۔ اگر یہ ثابت ہو کہ سلف نے اس کی تفسیر بیٹھنے سے کی ہے تو ہم اس کو قبول کریں گے کیونکہ وہ لوگ ہم سے زیادہ علم والے تھے“

[ہم کہتے ہیں]

 چونکہ سلفی سلف سے بیٹھنے کا معنی بھی نقل کرتے ہیں اس لیے نتیجہ یہ نکلا کہ سلفیوں کے نزدیک بیٹھنے کا معنی کرنا بھی جائز ہے۔ محمود دشتی کی کتاب میں ہے:

و اما تفسيره بالجلوس فقد نقل ابن القيم في الصواعق عن خارجة بن مصعب في قوله تعالى الرحمن على العرش استوى قوله و هل يكون الاستواء الا الجلوس و قد ورد ذكر الجلوس في حديث اخرجه الامام احمد عن ابن عباس رضى الله عنهما مرفوعا و الله اعلم 

( مقدمه اثبات الحد لله محمود دشتی ص 81) 

( ترجمہ: ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتاب الصواعق میں اللہ تعالیٰ کے فرمان الرحمن علی العرش استوی کے بارے میں خارجہ بن مصعب کی یہ بات نقل کی که استوا کا تو مطلب ہی بیٹھنا ہے۔ ایک حدیث جس کو امام احمد رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت عبداللہ بن عباس کے واسطے سے رسول اللہ سے روایت کیا ہے اس میں جلوس یعنی بیٹھنے کا ذکر ہے ) ۔

پھر جب اس بات کا ذکر ہوا کہ استواء کا مطلب بیٹھنا بھی ہے تو سلفی آگے اس بات، کے قائل ہیں کہ اللہ تعالی جب عرش پر ہوں تو ان کی ذات کے بوجھ کی وجہ سے عرش چر چر کرتا ہے۔

 ابن تیمیہ نے قاضی ابو یعلی کی یہ بات نقل کی:

اعلم انه غير ممتنع حمل الخبر على ظاهره ان ثقله يحصر لعنت الرحمن اذ ليس ذلك مما يحيل صفاته

 (بيان تلبيس الجهمية بحواله اثبات

الحد الله ص 166)

( ترجمہ: جان لو کہ خبر کو اس کے ظاہری معنی پر محمول کرنا محال نہیں ہے یعنی یہ کہ عرش پر بوجھ رحمان کی ذات کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ یہ ایسی صفت نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہو ) ۔

[علامہ عثیمین کے استاد شیخ عبد الرحمن سعدی لکھتے ہیں]

فثبت انه استوى على عرشه استواء يليق بجلاله سواء فسر ذلك بالارتفاع او بعلوه على عرشه او بالاستقرار او الجلوس فهذه التفاسير و اردة عن السلف فنثبت لله على وجه لا يماثله و لا يشابهه فيها احد و لا محذور في ذلك اذا قرنا بهذا الاثبات نفى مماثلة المخلوقات 

(الاجوبة السعدية الكويتية بحواله اثبات الحد الله 61)

(ترجمہ: پس ثابت ہوا کہ اللہ اپنے عرش پر اپنی جلالت شان کے مطابق مستوی ہوئے خواہ اس کی تفسیر ارتفاع کے ساتھ کی جائے یا عرش پر بلندی کے ساتھ کی جائے یا قرار پکڑنے یا بیٹھنے کے ساتھ کی جائے۔ یہ سب ہی تفسیریں اسلاف سے ملتی ہیں لہذا یہ سب اللہ کیلئے اس طرح سے ثابت ہیں کہ ان میں کوئی دوسرا اللہ کی مثل یا مشابہ نہیں ہے۔ غرض جب ہم ان کے اثبات کے ساتھ اس کو ملائیں کہ کوئی مخلوق اس کی مثل نہیں ہے تو اس کی ممنوعیت کی کوئی وجہ نہیں بنتی ۔“ پھر ان حضرات کے نزدیک جب اللہ تعالی عرش پر بیٹھتے ہیں تو پورے عرش پر سما جاتے ہیں چار انگلی کے برابر بھی جگہ نہیں بچتی۔

" عن عمر رضى الله عنه قال اتت امرأة النبي ﷺ فقالت ادع الله ان يدخلني الجنة فعظم الرب وقال ان كرسيه فوق السماوات و الارض وانه يقعد عليه فما يفضل منه مقدار اربع اصابع ـ

 ( اثبات الحد الله محمود دشتی ص 149)

( ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور درخواست کی کہ آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ وہ مجھے جنت میں داخل فرمائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے رب تعالیٰ کی عظمت بیان کی اور فرمایا اللہ تعالیٰ کی کرسی ( یعنی عرش ) آسمانوں کے اور زمین کے اوپر ہے اور وہ اس پر بیٹھتے ہیں تو چار انگل کے برابر بھی جگہ نہیں بچتی

بعض حضرات نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ عرش پر جو جگہ بچتی ہے وہ صرف چار انگل کے برابر ہوتی ہے۔ ابن تیمیہ نے پہلے معنی کو ترجیح دی ہے۔

" و اذا حمل اللفظ الأول على ان ما هى النافية تعارض اللفظان و احتيج الى الترجيح و الى ذلك ذهب شيخ الاسلام ابن تيمية رحمه الله و رجح رواية النفى بكلام طويل في مجموع الفتاوى 

(اثبات الحد لله، حاشيه ص 153)

( ترجمہ: جب پہلے لفظ کو اس پر محمول کیا جائے کہ مانفی کیلئے ہے تو دونوں لفظوں کے درمیان ترجیح کی ضرورت ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ علیہ نے اسی کو اختیار کیا اور نفی کی روایت کو اپنے مجموع الفتاوی میں ترجیح دی۔“

پھر ان حضرات کے نزدیک اللہ تعالیٰ رسول اللہ ﷺ کو اپنے ساتھ اپنے عرش پر بٹھائیں گے۔ ابن تیمیہ مجموع الفتاوی میں لکھتے ہیں:

" اذا تبين هذا فقد حدث العلماء المرضيون و اولياؤه المقبولون ان محمدا رسول الله ﷺ يجلسه ربه على العرش وهذا ليس منا قضا للشفاعة لما استفاضت بها الاحاديث من ان المقام المحمود هو الشفاعة باتفاق الائمة من جميع من ينتحل الاسلام و يدعيه لا يقول ان اجلاسه على العرش منكر و انما انكره بعض الجهمية

 (اثبات الحد الله حاشيه 194) 

(ترجمہ: جب یہ بات واضح ہوگئی تو جان لو کہ پسندیدہ علماء اور اللہ کے مقبول اولیاء نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ رب تعالیٰ نبی ﷺ کو اپنے عرش پر بٹھائیں گے۔ یہ حدیث شفاعت کبری کے مخالف نہیں ہے جس کے بارے میں حدیثیں مشہور ہیں که مقام محمود سے مراد شفاعت ہے اور ائمہ کا اس پر اتفاق ہے ۔ رسول اللہ ﷺ عرش پر بٹھانے کا سوائے بعض جہمیہ کے کسی نے انکار نہیں کیا۔"

سعودیہ کے سابق مفتی محمد بن ابراہیم آل الشیخ مقام محمود کے بارے میں کلام کرتےہوئے لکھتے ہیں: 

قيل الشفاعة العظمی و قیل اجلاسه معه على العرش كما هو المشهور من قول اهل السنة والظاهر انه لا منافاة بين القولين فيمكن الجمع بينهمابان كلاهما من ذلك (أى المقام المحمود) و الاقعاد على العرش ابلغ 

(اثبات الحد الله حاشيه ص 194)

ترجمہ: ایک قول یہ ہے کہ مقام محمود سے مراد شفاعت کبری ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ کا نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھانا ہے۔ اہل سنت (سلفیوں ) سے یہی دوسرا قول مشہور ہے۔ ظاہر یہ ہے کہ دونوں قولوں کے درمیان کچھ منافات نہیں ہے اور دونوں کو جمع کرنا ممکن ہے کہ مقام محمود میں یہ دونوں باتیں داخل ہیں اور عرش پر بٹھانے میں درجہ زیادہ ہے۔“

[تنبيه]

مشہور غیر مقلد عالم مولانا یوسف صلاح الدین اپنے تفسیری حواشی میں لکھتے ہیں: یہ بھی ممکن ہے کہ اس عرش سے مراد وہ عرش ہو جو فیصلوں کے لیے زمین پررکھا جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ نزول اجلال فرمائے گا۔“

[ہم کہتے ہیں]

 کہ اس عبارت سے یہ مسئلہ اور سنگین ہو جاتا ہے کیونکہ اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نبی ﷺ کو اپنے ساتھ عرش پر بٹھائیں گے تو وہ کونسا عرش ہوگا ؟ پورے عالم کو گھیر نے والے عرش پر یا قیامت کے دن زمین پر رکھے جانے والے عرش پر جو کہ پہلے عرش سے بہت ہی چھوٹا ہو گا ۔ اگر پہلا عرش ہو تو فرشتے جو خود عالم کا حصہ ہیں اورمخلوق ہیں وہ اس کو اٹھا کر کہاں لے جائیں گے۔ اطراف عالم سے عالم کے اندر اتنی بڑی چیز کو کیسے لے جائیں گے ۔ اور اگر دوسرا جو چھوٹا عرش ہے وہ مراد ہو تو اس پر اللہ تعالیٰ کیسے بیٹھیں گے جب بڑے عرش پر پہلے ہی کچھ جگہ نہیں بچتی تو اللہ تعالیٰ اس سے کہیں چھوٹے عرش پر کیسے سمائیں گے۔ اگر کوئی کہے کہ آسمان دنیا پر جیسے نزول فرماتے ہیں اسی طرح اس چھوٹے عرش پر نزول فرمائیں گے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ آسمان دنیا پر نزول کا جو مطلب سلفی لیتے ہیں وہ ہمیں تسلیم ہی نہیں ہے۔

[باندی والی حدیث اور استواء علی العرش]

ایک حدیث میں جو یہ ہے کہ باندی نے کہا اللہ تعالیٰ آسمان میں ( یعنی آسمان پر ) ہیں اور رسول اللہ ﷺ نے نکیر نہیں فرمائی اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات آسمانوں پر یعنی عرش پر ہے درست اور حتمی نہیں کیونکہ :

1۔ اس حدیث میں ذات کی قید کچھ مذکور نہیں ہے۔

3۔ قرآن پاک میں ہے "وَ هُوَ اللهُ فِی السَّمَاوَاتِ وَ فِي الْأَرْضِ“ (سوره انعام: 3) (وہ اللہ آسمانوں پر بھی ہے اور زمین پر بھی ہے ) تو کیا اللہ تعالیٰ کی ذات متعدد ہے کہ ایک آسمان پر ہے اور ایک زمین پر ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اس لئے کسی صفت یا بجلی کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے آسمانوں پر ہونے کو مرادلیا ہے۔ اس صفت یا تجلی کے اعتبار سے اگر یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں پر بھی ہیں اور زمین پر بھی ہیں یعنی ہر جگہ ان کی تجلیات ہیں تو یہ بھی غلط نہیں ہے۔ 

3۔ جو شخص ان پڑھ اور جاہل ہو اور اس کو علم حاصل کرنے کی فرصت نہ ملتی ہو یا یہ کہ اس کی و عقل و سمجھ کم ہے اس سے اس کی سمجھ کے مطابق بات قبول کر لی جاتی ہے جب کہ صاحب علم اور دانش مند سے وہ بات قبول نہیں کی جاتی۔ دیکھئے باندی نے جو جواب دیا کہ اللہ آسمان میں ہیں (فی السماء ) حالانکہ سلفیوں کے اعتبار سے بھی دیکھیں تو یہ جواب پھر بھی ناقص ہے کیونکہ صحیح جواب تو یہ ہوتا کہ اللہ عرش کے اوپر ہیں جب کہ لا علم باندی کے فی السَّمَاءِ کہنے سے اس کی مراد یہ ہوسکتی تھی کہ اللہ آسمانوں کے اندر ہیں یا آسمانوں کے اوپر ہیں یا محض بلندی پر ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی معنی بھی وہ نہیں ہے جو سلفیوں کے لیے دلیل بن سکے۔ ایک اور حدیث جو بخاری اور مسلم میں مذکور ہے اس میں ہے کہ ایک شخص جس نے نافرمانی میں زندگی گزاری تھی جب اس کی موت کا وقت آیا تو ( اپنی پچھلی زندگی کو یاد کر کے اس پر اللہ کے خوف کا بہت زیادہ غلبہ ہوا اور آخرت کے انجام سے بہت خوفزدہ ہوا اور اس نے اپنی ناسمجھی سے یہ خیال کیا کہ دوبارہ اٹھنا اس صورت میں ہوگا جب لاش کو صحیح و سالم دفن کیا جائے اور اگر اس کو جلا کر راکھ کر دیا جائے اور راکھ کو بکھیر دیا جائے تو پھر دوبارہ اٹھنا نہ ہو گا۔ اسی خیال سے ) اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو تم مجھے جلا کر راکھ کر دینا، پھر تم میری اس راکھ میں سے آدھی تو کہیں خشکی میں بکھیر دیا اور آدھی کہیں دریا میں بہا دینا ( تا کہ میرا کہیں نشان بھی نہ رہے اور میں جزا و سزا کے لیے دوبارہ زندہ نہ کیا جاؤں۔ اس نے کہا کہ میں ایسا گناہگار ہوں کہ اللہ کی قسم اگر خدا نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا سخت عذاب دے گا جو دنیا جہان میں کسی کو بھی نہ دے گا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے بیٹوں نے اس کی وصیت پر عمل کیا۔ ( جلا کر اس کی راکھ کچھ ہوا میں اڑا دی اور کچھ دریا میں بہادی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دریا کو حکم دیا تو اس نے اپنے میں موجود راکھ کے تمام اجزاء کو جمع کر دیا اور زمین کو حکم دیا تو اس نے اپنے میں موجود تمام اجزاء کو جمع کر دیا ( اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا) پھر اس سے پوچھا تو نے ایسا کیوں کیا؟ اس نے عرض کی اے میرے مالک ! تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ڈر سے ہی میں نے ایسا کیا تھا۔ اللہ تعالٰی نے اس بندے کو (اس کی خدا خوفی اور آخرت کے خوف کی وجہ سے ) بخش دیا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ شخص نے یہ خیال کیا تھا کہ جلا کر راکھ کر دینے اور راکھ کو بکھیر نے کے بعد اللہ تعالیٰ کو اس پر قدرت نہ ہوگی ۔ یہ عقیدہ و خیال غلطی اور گمراہی تھا لیکن کم سمجھ اور کم علم شخص سے اللہ تعالیٰ نے اس پر مواخذہ نہیں فرمایا بلکہ اس کی خدا خوفی کودیکھ کر اس کو معاف کر دیا ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

و قوم نقصت عقولهم كاكثر الصبيان و المعتوهين و الفلاحين و الارقاء وكثير يزعمهم الناس انهم لا باس بهم و اذا نقح حالهم عن الرسوم بقوا لا عقل لهم فاولئك يكتفى من ايمانهم مثل ما اكتفى رسول الله من الجارية السوداء سألها این الله فاشارت الى السماء 

(حجة الله البالغه ص117 حصه اول)

(ترجمہ: اور کچھ لوگ کم عقل ہیں جیسے اکثر بچے اور کم عقل لوگ اور کسان اور باندی غلام۔ ان میں سے بہت سوں کے بارے میں لوگ خیال کرتے ہیں کہ یہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہیں لیکن جب ان لوگوں کے حال کی تحقیق کی جاتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ رسوم ورواج سے ہٹ کر یہ لوگ عقل سے بالکل خالی ہوتے ہیں۔ ان لوگوں کے ایمان پر اس طرح سے اکتفا کیا جاتا ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے جب حبشن باندی سے پوچھا کہ اللہ کہاں ہیں تو اس کے اس جواب پر کہ اللہ آسمان میں ہیں اکتفا کیا اور فرمایا کہ یہ مومن ہے۔

کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر ابن تیمیہ، ابن قیم عثیمین خلیل ہراس اور عطاء اللہ حنیف صاحبان جو کہ بڑے علامہ ہیں ایسا عقیدہ رکھتے اور ایسی وصیت کرتے تو کیا ان کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا جاتا جیسا کہ حدیث میں مذکور شخص کے ساتھ کیا گیا۔ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہے۔


ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...