نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اللہ تعالی کی " صفات متشابہات " اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد , باب:8 , آسمان دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا نزول



[آسمان دنیا کی طرف اللہ تعالیٰ کا نزول]

حدیث میں وارد ہے کہ جب رات کا ایک تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہے کوئی دعا کرنے والا کہ میں اس کی دعا قبول کروں، ہے کوئی مجھ سے سوال کرنے والا کہ میں اس کو دوں، ہے کوئی مجھ سے بخشش طلب کرنے والا کہ میں اس کو بخش دوں 

( بخاری ومسلم )

اشاعرہ و ماتریدیہ جو اصل اہل سنت ہیں ان کے متقدمین کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے منزہ ہیں کہ وہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں یا اتریں لہذا آسمان دنیا کی طرف نزول ان کی ایک صفت ہے جس کی حقیقت کو ہم نہیں جانتے بس اللہ کے سپرد کرتے ہیں۔ ان کے برخلاف سلفی حضرات اترنے کا ظاہری معنی لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات سمیت آسمان دنیا پر اترتے ہیں۔ 

علامہ عثیمین عقیدہ واسطیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

 نزوله تعالی حقیقی

 اللہ تعالیٰ کا نزول حقیقی ہے۔

بهذا يتبين لكل انسان قرأ هذاالحديث ان المراد بالنزول نزول الله نفسه ولا نحتاج ان نقول بذاته ما دام الفعل اضيف اليه فهوله لكن بعض العلماء قالوا ينزل بذاته لانهم لجاؤا الى ذلك لان هناك من حرفوا الحديث و قالوا الذي ينزل امر الله 

(شرح العقيده الواسطية ص 260) 

( ترجمہ: ہر اس شخص پر جس نے یہ حدیث پڑھی واضح ہو گیا کہ نزول خود اللہ ( کی ذات ) کا نزول ہے اس لئے اس کے ساتھ بذاتہ کی قید لگانے کی ضرورت نہیں ۔ جب تک فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہے تو نزول اللہ ہی کا ہے لیکن بعض علماء نے یہ قید لگائی اور کہا وہ بذاتہ نازل ہوتا ہے۔ وہ اس لفظ کے لگانے پر اس وجہ سے مجبور ہوئے کہ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے حدیث میں تحریف کی اور کہا کہ اللہ نہیں اترتا بلکہ اللہ کا امر اترتا ہے ) 

[علامہ عثیمین مزید لکھتے ہیں ]

استواء علی العرش فعل ہے صفت ذات نہیں ۔ اور میری رائے ہے کہ ہمیں یہ حق نہیں ہے کہ ہم اس پر بات کریں کہ آسمان دنیا کی طرف نزول سے کیا عرش اللہ سے خالی ہو جاتا ہے یا خالی نہیں ہوتا بلکہ ہمیں اسی طرح سکوت کرنا چاہئے جیسا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس بارے میں سکوت کیا۔

اہل سنت ( یعنی سلفیوں ) کے علماء کے اس کے بارے میں تین قول ہیں: 

ایک قول یہ ہے کہ عرش خالی ہو جاتا ہے، 

دوسرا یہ کہ خالی نہیں ہوتا

 اور تیسرا قول یہ ہے کہ توقف کیا جائے ۔ 

اپنے رسالہ عرشیہ میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ نزول سے اللہ تعالیٰ کا عرش خالی نہیں ہوتا کیونکہ عرش پر استوا کے دلائل بھی محکم ہیں اور خود یہ نزول کی حدیث بھی محکم ہے اور اللہ عزوجل کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس نہیں کیا جاسکتا لہذا ہم پر واجب ہے کہ ہم استوا کی نصوص کو بھی محکم باقی رکھیں اور نزول کی نص کو بھی محکم باقی رکھیں اور ہم کہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے عرش پرمستوی ہیں اور ( ساتھ ساتھ ) آسمان دنیا پر نازل بھی ہوتے ہیں۔

[ہم کہتے ہیں]

ابن تیمیہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات عرش پر بیٹھی ہوئی نہیں بلکہ عرش سے بھی اوپر ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عرش تو اللہ کی ذات سے خالی ہے۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ آسمان دنیا پر نزول سے ان کا عرش ان سے خالی نہیں ہوتا کچھ عجیب سی بات ہے۔ علامہ عثیمین قصیدہ نونیہ پر اپنی شرح میں لکھتے ہیں:

ہمارے لئے اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آسمان دنیا کی طرف نزول کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علو کا وصف ختم ہو جاتا ہے۔ وہ عالی بھی ہیں اور نازل بھی ہیں کیونکہ ان کی تمام صفات میں کوئی شے ان کی مثل نہیں۔ لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے نزول سے عرش خالی ہو جاتا ہے کیونکہ وہ صفت ذاتی نہیں ہے؟ یا عرش خالی نہیں ہوتا ؟ اس بارے میں ( سلفی ) علماء کے تین قول ہیں ۔ کچھ کا یہ قول ہے کہ عرش خالی ہو جاتا ہے اور کچھ کا قول ہے کہ عرش خالی نہیں ہوتا اور تیسرا قول توقف کرنے کا ہے۔

پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نزول فرماتے ہیں تو کیا ان سے علو کی صفت ختم ہو جاتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے کیونکہ علویعنی سب کے اوپر ہونے کی صفت تو صفت ذاتی ہے جو اللہ کے لئے لازمی ہے۔ اور اللہ اس سے کبھی جدا نہیں ہوتے ۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ کے نزول سے ان کا عرش خالی ہو جاتا ہے؟ یہ سوال اس وجہ سے پیدا ہوا کہ استواعلی العرش صفت فعل ہے جس کو اللہ تعالیٰ جب چاہتے ہیں کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اس مسئلہ میں ( سلفی ) علماء کے تین قول ہیں ۔ کچھ کہتے ہیں کہ ہاں عرش خالی ہو جاتا ہے۔ اور کچھ کہتے ہیں کہ نہیں عرش خالی نہیں ہوتا۔ یہ دوسرا قول شیخ الاسلام ابن تیمیہ کا اختیار کردہ ہے۔ اور اللہ ہر چیز پر قادر ہیں لہذا وہ اپنے عرش پر قائم رہتے ہوئے آسمان دنیا پر نازل بھی ہیں کیونکہ ( مخلوق میں تو تناقض اور محال کا ثبوت جائز نہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو سب سے انوکھے ہیں ) اور کوئی مخلوق سے ان کے مشابہ نہیں ہے۔ کچھ سلفی حضرات کہتے ہیں کہ ہم توقف اور سکوت کو اختیار کرتے ہیں۔

علامہ عثیمین کہتے ہیں کہ میرے نزدیک درست یہ ہے کہ ہم سکوت کریں اور اس بارے میں کچھ کلام نہ کریں کیونکہ اگر اس پر مزید تفصیل بہتر ہوتی تو سب سے پہلے اس کو صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ۔ لہذا بہتر بات یہ ہے کہ ہم اس بارے میں سکوت کریں اور اس سے اعراض کر لیں۔

[ہم کہتے ہیں]

1 - علامہ عثیمین توقف اور سکوت کرنے کو درست کہتے ہیں جس کے مفہوم مخالف سے یہ مطلب نکلا کہ ان کے نزدیک شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بات کو ترجیح حاصل نہیں ہے ۔ 2 ۔توقف اور سکوت کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ عرش کے خالی ہونے یا نہ ہونے میں سے آدمی کسی ایک کو ترجیح نہ دے سکے یا ترجیح تو دے سکتا ہے لیکن اسلاف سے کوئی نص نہ ہونے کی وجہ سے خاموش رہے اور علامہ عثیمین نے اپنے قول کی دلیل میں اسی کو ذکر کیا ہے کہ اس بارے میں نص موجود نہیں ہے۔ جب اس بارے میں نص نہیں ہے تو پہلے دو قول کی بنیاد محض عقل و قیاس رہی حالانکہ سلفی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ محض عقل سے وہ کسی عقیدہ کو ثابت نہیں مانتے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جہاں اپنا موقع آتا ہے وہ لفظوں کے چکر میں الجھا کر محض عقل سے بھی عقیدہ بنا لیتے ہیں۔

سکوت اور توقف کرنے والوں کو چھوڑ کر ہم باقی دوقولوں کو دیکھتے ہیں: 

 جو سلفی اس بات کے قائل ہیں کہ اس وقت عرش خالی ہو جاتا ہے ان پر یہ اعتراضات پڑتے ہیں۔

1۔ چونکہ آسمان دنیا عرش کے پھیلاؤ سے بہت ہی چھوٹا ہے اور جہت تحت میں اللہ تعالیٰ کی ذات عرش کے برابر یا تقریباً برابر ہے اور باقی جہات میں جو اللہ کی ذات کی حد ہے وہ کسی انسان کو معلوم نہیں صرف اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے اس لئے آسمان دنیا پر نزول صرف اسی وقت ممکن ہے جب اللہ تعالیٰ کی ذات کا حجم و پھیلاؤ ہزاروں لاکھوں گنا کم

ہو جائے اور ایسا اللہ تعالیٰ کے اپنی ذات کو سکیٹر نے سے ہو سکتا ہے۔ 

2۔ اس صورت میں خالق مخلوق میں سما جاتا ہے اور اس کے لئے یا تو اللہ تعالیٰ کے عالم میں حلول کرنے کو ماننا ہوگا یا خالق و مخلوق میں اتحاد ہو جانے کو ماننا ہوگا حالانکہ یہ دونوں باتیں اللہ تعالیٰ کیلئے محال ہیں۔

3۔ سلفیوں کا یہ عقیدہ ٹوٹتا ہے ک اللہ تعالیٰ عالم سے مباین اور علیحدہ ہیں ۔

 4۔ سلفی کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے بوجھ سے ان کا عرش چر چراتا ہے۔ جب آسمان دنیا عرش الہی کے سامنے ایک نازک سا کھلونا بھی نہیں بنتا تو وہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا بوجھ کیسے  برداشت کرتا ہے؟


ماخوذ : اللہ تعالی کی
" صفات متشابہات " 
اور سلفیوں اور موجودہ غیر مقلدوں کے عقائد

تصنیف : ڈاکٹر مفتی عبدالواحد صاحب رحمہ اللہ

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

 دیگر مضامین کیلئے دیکھیں  ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" ،  

اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...