عصر کی نماز کا مستحب وقت۔
-مفتی ابن اسماعیل المدنی
- مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
عصر کی
نماز کا وقت کب سے شروع ہوتا ہے، اس میں علماء کا اختلاف ہے ، مشہور روایت کے
مطابق امامِ اعظم ابو حنیفہ ؒ (م۱۵۰ھ) کا
کہنا ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ ، دومثل کے برابر ہوجائے ، تب سے عصر کا وقت
شروع ہوتا ہے ۔ (مؤطا امام محمد : ص ۳۱
، کتاب الاصل المشہور
بالمبسوط : جلد۱ : صفحہ ۱۴۴)،
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا بھی یہی موقف ہے ۔ (مؤطا
امام مالک : صفحہ ۸) ، ایک روایت کے
مطابق امام سفیان ثوریؒ (م۱۶۱ھ) کا بھی یہی مسلک ہے۔ (الاسماء والکنیٰ
للامام السدولابی : جلد۲ : صفحہ ۵۷۷) ، لیکن جمہور کے نزدیک عصر کا وقت ایک
مثل پر ہی شروع ہوجاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ کی دلیل یہ ہے :
امام محمد ؒ (م ۱۸۹ھ) فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا
مالك، حدثنا عبد الله بن دينار، أن عبد الله بن عمر أخبره، أن رسول الله صلى الله
عليه وسلم قال: "إنما أجلكم فيما خلا
من الأمم، كما بين صلاة العصر إلى مغرب الشمس؟ وإنما مثلكم ومثل اليهود، والنصارى
كرجل استعمل عمالا، فقال: من يعمل لي إلى نصف النهار على قيراط قيراط؟ قال: فعملت
اليهود، ثم قال: من يعمل لي من نصف النهار إلى العصر على قيراط قيراط؟ فعملت
النصارى على قيراط قيراط، ثم قال: من يعمل لي من صلاة العصر إلى مغرب الشمس على
قيراطين قيراطين، ألا فأنتم الذين يعملون من صلاة العصر إلى مغرب الشمس على
قيراطين قيراطين، قال: فغضب اليهود والنصارى
وقالوا: نحن أكثر عملا، وأقل عطاء،
قال: هل ظلمتكم من حقكم شيئا؟ قالوا: لا،
قال: فإنه فضلي أعطيه من شئت۔
حضرت رسول اللہ ﷺنے فرمایا : دوسری
امتوں کے مقابلہ میں تمہاری زندگی کی مدت اس قدر ہے جس قدرعصر اور غروب ِ
آفتاب کا درمیانی وقفہ ہوتا ہے ،تمہاری اور یہود ونصاریٰ کی مثال ایسی ہے،
جیسے کسی نے مزدور کو کام پر لگایا اور
کہا کہ کون ہے جو میرے لئے (صبح سے) دوپہر تک ایک قیراط کے بدلہ یہ کام کرے ؟ یہود
نے کام کیا ۔
پھر
اس شخص نے کہا : کون ہے جو ایک قیراط کے بدلہ میں عصر تک کام کرے ؟ تو نصاریٰ نے
ایک قیراط کے بدلہ نمازِ عصر تک کام کیا ،پھر اسی شخص نے کہا : کہ ۲ قیراط کے بدلہ
نمازِ عصر سے مغرب تک کون میرا کام انجام دے گا؟
(اس
پر حضور ﷺ کے ارشاد فرمایا ) سن لو ! وہ لوگ تم ہو ، جو نمازِ عصر سے مغرب تک کام
کرتے ہو،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اس بات پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوئے اور کہنے لگے : ہم نے زیادہ کام کیا مگر مزدوری کم ملی ، اس شخص نے کہا : کیا میں نے تمہارے حق میں کسی
قسم کی کوئی کمی کی ہے؟
یہود
ونصاری نے جواب دیا نہیں ۔
اس نے
کہا : یہ میری طرف سے احسان ہے ، جس پر چاہوں احسان کروں ۔ (مؤطا امام محمد :
حدیث ۱۰۰۸، واللفظ لہ ، صحیح بخاری : حدیث ۵۵۷)
استدلال
یہ ہے : یہود ونصاریٰ کا قول :’’ہم نے زیادہ کام کیا مگر مزدوری
کم ملی ‘‘اس پر دلالت کرتا ہے کہ ظہر کا وقت ، عصر کی نماز سے زیادہ ہے،
کیونکہ نصاریٰ نے دوپہر (ظہر) سے عصر تک کام کیا تھا اور زیادہ کام اسی وقت ہوگا جب
زیادہ وقت ہو، لہذا یہ حدیث واضح طور پر دلالت کرتی ہے کہ عصر کا وقت ، ظہر کے وقت
کے مقابلہ میں تھوڑا ہے ، اور اسی وجہ سے کہا گیا کہ دو مثل سے شروع ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ :
۱ – امام
ابو زید الدبوسیؒ (م ۴۳۰ھ) فرماتے ہیں کہ :
’’فضرب قصر المدّة لقلّة العمل مثلًا قال: فجاء من هذا لأن مدّة العصر
أقصر، وإّنما تكون أقصر إذا كان الجواب كما قاله أبو حنيفة رحمهالله تعالى‘‘۔
پس یہ بتانے کےلئے کہ عمل کم کیا ہے ، مثال میں وقت کے چھوٹے ہونے کو بیان
کیا ، تو اس سے یہ بات نکل کر آئی کہ عصر
کا وقت (بمقابلہ ظہر کے ) چھوٹا ہے ، اور عصر کا وقت (بمقابلہ ظہر) چھوٹا اسی وقت
ہوگا جبکہ جواب امام ابوحنیفہ ؒ کے قول کے مطابق ہو۔(کتاب الآثار للدبوسی بحوالہ شرح ابن ماجہ للمغلطائی : صفحہ ۱۰۰۲)
۲ – امام
محمد ؒ (م ۱۸۹ھ) نے بھی عصر میں
تاخیر کو افضل قرار دیا ہے، اور کہا :
’ألا ترى أنه جعل ما بين
الظهر إلى العصر أكثر مما بين العصر إلى المغرب في هذا الحديث، ومن عجل العصر كان
ما بين الظهر إلى العصر أقل مما بين العصر إلى المغرب، فهذا يدل على تأخير العصر۔‘
کیا تم نہیں دیکھتے کہ ظہر اور عصر کے
درمیان جو وقفہ ہے وہ عصر اور مغرب کے
درمیانی وقفہ سے زیادہ ہے ، لہذا یہ حدیث عصر کو تاخیر سے پڑھنے پر دلالت کرتی ہے
۔ (مؤطا امام محمد : حدیث نمبر ۱۰۰۸)
۳- امام
ابو بکر الرازی ؒ (م ۳۷۰ھ) فرماتے
ہیں کہ :
’ هذا الحديث يدل من وجهين على صحة قول أبي حنيفة: أحدهما:
قوله صلى الله عليه وسلم: "إنما أجلكم في أجل من خلا من الأمم كما بين صلاة
العصر إلى مغرب الشمس"، وإنما قصد به
الإخبار عن قصر المدة …..….. والوجه الآخر من دلالة الخبر على ما قلنا: قوله صلى الله عليه
وسلم: فغضبت اليهود والنصارى، قولوا: كنا أكثر عملًا، واقل عطاء"، ومعلوم أن
كثرة عملهم كانت لأجل امتداد وقتهم، وقصر وقت أمتنا.
فلو كان وقت العصر من حين المثل، لصار وقت العصر أطول من وقت الظهر،
وهذا يبطل معنى التشبيه؛ لأن النصارى حينئذ لا يكونون أكثر عملًا، فدل ذلك على أن
وقت الظهر أوسع من وقت العصر۔ ‘
یہ
حدیث دو وجہوں سے امام ابو حنیفہ ؒ کے قول کے صحیح ہونے پر دلالت کرتی ہے :
۱) آپﷺ
نے ارشاد فرمایا : تمہاری مدت پچھلی امتوں کے مقابلہ میں (ایسی ہے ) جیسے عصر اور مغرب کے درمیان (کا وقفہ) ، اور اس سے
آپﷺ کا مقصد، مدت کے کم ہونے کو بتانا ہے
۔
۲)
یہ
حدیث ایک دوسرے انداز سے بھی ہمارے موقف پر دلالت کرتی ہے ، (اور وہ اس طرح ) کہ
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ یہود ونصاریٰ نے ناراض ہوتے ہوئے کہا : ہمیں اجرت کم
ملی حالانکہ ہم نے کام زیادہ کیا ‘‘، اور یہ معلوم ہے کہ ان کے کام کی زیادتی ، ان کے وقت کےطویل ، اور ہمارے وقت کے مختصر ہونے کی
وجہ سے ہے، پس اگر عصر کا وقت مثل (اول) سے شروع ہوجائے تو عصر کا وقت ظہر کے وقت
سے طویل ہوجائے گا، اور اس سے تشبیہ بے معنی ہوکر رہ جائے گی ، اس لئے کہ اس وقت
نصاریٰ زیادہ کام کرنے والے نہ ہوں گے ، پس
یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ظہر کا وقت عصر کے وقت سے وسیع ہے۔ (شرح مختصر الطحاوی : جلد۱ : صفحہ ۴۹۶، ۴۹۷)
اس
حدیث کیوجہ سےامام ابو حنیفہؒ کا کہنا ہے کہ نمازِعصر کا وقت دومثل سے شروع ہوتا ہے جیسا کہ اقوال
گزر چکے ، نیز دیکھئے : (شرح ابن ماجہ للمغلطائی : صفحہ
۹۹۹، ۱۰۰۲، نخب الافکارللعینی : جلد۳ : صفحہ ۱۴۱)
احناف
نے بھی احتیاط کو راجح قرار دیتے ہوئے ، یہی کہا کہ عصر کا وقت ۲ مثل پر شروع ہوتا
ہے، کیونکہ حضور ﷺ اور صحابہ کرام ؓ عصر کی نماز کو تاخیر سے (یعنی دو مثل کے بعد
) پڑھتے تھے۔
دلائل
درجِ ذیل ہیں :
دلیل
نمبر ۱ :
امام
بخاری ؒ (م ۲۵۶ھ) فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
موسیٰ بن اسماعیل قال حدثنا عبد الواحد بن نافع أبو الرماح شھدت عبد الرحمن بن
رافع بن خدیج قال أخبرنی أبی أنہ کان سمع النبي ﷺ یأمر بتأخیر العصر۔
حضرت
رافع بن خدیج ؓفرماتے ہیں کہ میں نےحضور
ﷺ کو عصر کی نماز کے لئے تاخیر کا حکم دیتے ہوئے سنا۔ (التاریخ الاوسط للبخاری : جلد۲ : صفحہ ۶۵)
اس
روایت کے راویوں کا حال درجِ ذیل ہے :
۱
– امام
بخاریؒ (م ۲۵۶ھ) مشہور ثقہ ثبت،
امام ، حافظ الحدیث اور امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں ۔
۲
– امام
موسیٰ بن اسماعیل ؒ (م ۲۳۳ھ) بھی ثقہ ، مضبوط امام ہیں ۔ (تقریب : رقم
۶۹۴۳)
۳ – عبد
الواحد بن نافع ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ۔
ابن حبان ؒ اور امام قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ثقات
میں شمار فرمایا ہے۔ (کتاب الثقات لابن
حبان : جلد۷ : صفحہ ۱۲۵، کتاب الثقات للقاسم : جلد۶ : صفحہ ۵۰۱) امام
ذہبیؒ شیخ کہتے ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : ج۴: ص۱۴۳)
ور
غیرمقلدین کے نزدیک کسی راوی کو’ شیخ ‘کہنا توثیق ہے، چنانچہ غیر مقلدین کے شیخ
الحدیث مولانا سلطان محمود صاحب ’شیخ‘ کو تعدیل کے الفاظ میں شمار کرتے ہیں
۔ ( اصطلاح المحدثین : صفحہ ۱۷)
بلکہ اہل حدیث عالم ڈاکٹر
سہل حسن ،لفظِ ’شیخ‘ کو ’صدوق‘ اور
’لابأس بہ ‘ کے درجہ کی تعدیل قرار دیتے ہیں ، نیز کہتے ہیں
کہ ان کی (یعنی جس راوی کو شیخ
کہا جائے ، اس کی ) حدیث قابلِ قبول ہے۔ (
معجم الاصطلاحات : صفحہ ۳۲۴)
نیز ، امام بخاریؒ نے ان کا
ذکر اپنی تاریخ میں کیا ہے ، لیکن ان پر
کوئی جرح نہیں کی ۔ ( التاریخ الکبیر : ۶
/۶۱) اور جب امام بخاریؒ کسی راوی کا ذکر اپنی تاریخ میں کریں ، لیکن
اس کے بارے میں خاموشی اختیار فرمائیں ، تو غیر مقلدین کے نزدیک یہ امام بخاریؒ کی
طرف سے توثیق ہوتی ہے۔ (میزان مناظرہ : جلد۲ : صفحہ ۱۱۰- ۱۱۱، حافظ عبد القادر
روپڑی،مرعاۃ المفاتیح : ج۷: ص ۹۰،مسند احمد :ج۱: ص ۳۶۲،تحقیق شاکر)
نیز، امام ابن ابی حاتم ؒ نے بھی ان کا ذکر اپنی کتاب الجرح
والتعدیل میں کیا ہے، لیکن کوئی جرح نہیں کی ۔ (الجرح والتعدیل : جلد۶ : صفحہ ۲۶) اور ایسا کرنا بھی غیر مقلدین
کے نزدیک امام ابن ابی حاتم ؒ کی طرف سے راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ دیکھئے (مرعاۃ
المفاتیح : ج۷: ص ۹۰،مسند احمد :ج۱: ص ۳۶۲،تحقیق شاکر)
الغرض معلوم ہوا کہ عبد
الواحد بن نافع ؒ خود غیر مقلدین کے اصول
کی رو سے ثقہ ہیں ۔لہذا بعض علماء کا انہیں مجہول یا ضعیف کہنا ،جرح غیر مفسر ہونے
کی وجہ سے خود اہل حدیثوں کے اصول کی روشنی میں مردود ہے۔ [1]
۴ – عبد
الرحمن بن رافع بن خدیج ؒ بھی ثقہ راوی ہیں ۔
امام ابن حبان ؒ ، امام قاسم
بن قطلوبغاؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان : ج۵: ص۷۶، کتاب
الثقات للقاسم : ج۶: ص ۲۴۸)
۵ – رافع
بن خدیج ؓ مشہور صحابی ہیں ۔ (تقریب )
لہذا یہ سند حسن ہے۔
دلیل نمبر ۲ :
امام ابو جعفر عقیلیؒ (م ۳۲۲ھ) فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
أحمد بن محمد بن عاصم قال: حدثنا محمد بن عباد المكي قال: حدثنا حاتم بن إسماعيل،
عن يزيد بن عمرو الأسلمي، عن عبد العزيز بن عقبة بن سلمة بن الأكوع قال: صليت مع
عبد الله بن رافع بن خديج العصر وهو بالضرية قال: فأهل البادية يؤخرون العصر
فأخرها هو، قال: فقلت له: لقد أخرت هذه الصلاة، فقال بيديه وحركهما: مالي وللبدع مرتين أو ثلاثا هذه صلاة آبائي مع رسول الله صلى
الله عليه وسلم۔
عبد العزیز بن عقبہ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن رافع ؒ کے ساتھ عصر
کی نماز ضربہ میں ادا کی ، اور دیہات والے عصر کی نماز کو تاخیر سے ادا کرتے ہیں ،
تو عبد اللہ بن رافعؒ نے بھی عصر کی نماز میں تاخیر کی ، تو میں نے کہا آپ نے یہ
نماز کو مؤخرکیا ہے ، تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں کو حرکت دیتے ہوئے ۲ یا ۳
مرتبہ کہا کہ : مجھے بدعت سے کیا لینا دینا ہے ، یہی میرے والد کی نماز تھی حضور ﷺ
کے ساتھ۔ (الضعفاء الکبیر للعقیلی : ۳/۱۳، واللفظ لہ ، التاریخ الکبیر للبخاری
: ج۵ : ص ۸۸)
اس روایت کے روات کا حال ملاحظہ فرمائیے :
۱ – امام عقیلی ؒ (م ۳۲۲ھ) مشہور
ثقہ ، حافظ الحدیث ہیں۔ (تاریخ الاسلام : جلد۷: صفحہ ۴۶۷، کتاب الثقات للقاسم :
جلد۱ : صفحہ ۴۴۶)
۲ – حافظ احمد بن محمد بن عاصم الرازی
بھی ثقہ ، حافظ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : جلد۶ : صفحہ ۴۹۹، کتاب الثقات للقاسم :
جلد۲ : صفحہ ۴۴)
۳ – محمد بن عباد المکّی ؒ (م
۲۳۴ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ہیں ۔(تاریخ الاسلام : جلد۵ : صفحہ ۹۲۰)
۴ – حاتم بن اسماعیل المدنی ؒ (م
۱۸۷ھ) بھی صحیحین کے راوی ہیں ، اور ثقہ ، صدوق اور صحیح الکتاب ہیں ۔ (تقریب
: رقم ۹۹۴، الکاشف)
۵ – یزید بن عمرو الاسلمی ؒ بھی ثقہ
ہیں ۔
امام ابن حبان ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے۔ (کتاب الثقات لابن حبان :
جلد۷ : صفحہ ۲۵)، امام ابن عدی ؒ نے باوجود ان کا علم ہونے کے ان کا ترجمہ
الکامل میں ذکر نہیں کیا ۔(الکامل : جلد۶: صفحہ ۵۰۵)، لہذا باصول غیر
مقلدین یہ راوی ، امام ابن عدیؒ کے نزدیک ثقہ ہے۔ (انوار البدر : ۱۸۸)
۶ – عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ
الاسلمیؒ کو امام ابن حبانؒ ، امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے ثقات میں شمار کیا
ہے۔ (کتاب الثقات : لابن حبان ؒ :
جلد۷: صفحہ ۱۱۵، کتاب الثقات للقاسم : جلد۶ :صفحہ ۳۸۰)
لہذا آپؒ بھی ثقہ ہیں ۔ [2]
۷ – عبد اللہ بن رافع بن خدیج ؒ بھی ثقہ
راوی ہیں ،امام ابن حبانؒ ، امام قاسم بن قطلوبغا ؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے، اور ابن سعد ؒ نے ثقہ قرار دیا ہے۔ (کتاب
الثقات للقاسم :جلد۶ : صفحہ ۱۴)
۸ – رافع بن خدیج ؓ مشہور صحابی رسول ہیں ۔ (تقریب)
معلوم ہوا کہ اس روایت کے
تمام رجال ثقہ ہیں اور اس کی سند حسن ہے۔[3]
وضاحت :
اس روایت سے معلوم ہوا کہ آپ
ﷺ عصر کی نماز میں تاخیر فرماتے تھےاور نیز آنے والی روایت سے مزید وضاحت ہوتی ہے
کہ ۲ مثل تک یہ تاخیر ہوتی تھی ، یعنی آپ ﷺ ۲ مثل کے وقت پر عصر کی نماز پڑھنے کا
حکم دیتے تھے۔
دلیل نمبر ۳:
امام ابن ابی خیثمہ ؒ (م ۲۷۹ھ) فرماتے ہیں کہ :
حَدَّثَنا
مُوسَى بن إسماعيل، قال: حدثنا حَمَّاد بن سَلَمَة، قال: أخبرنا هِشَامُ بْنُ
عُرْوَة، عَنْ أَبِيهِ؛ أَنَّ المُغِيْرَة بْنَ شُعْبَة كَانَ يُؤَخِّرُ الصَّلاة،
فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَمَا سمعتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "قَالَ لِي جِبْرِيلُ صلِّ صَلاةَ كَذَا
فِي سَاعَةِ كَذَا حَتَّى عدَّ الصَّلَوَاتِ"؟ فَقَالَ: بَلَى! قَالَ:
فَأَشْهَدُ أَنَّا كُنَّا نُصَلِّي الْعَصْر مَعَ النَّبِيّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ والشَّمس بَيْضَاءُ نَقِيَّةٌ ثم
أتى بني عمرو بن عوف وإنها لمرتفعة وهي على رأس ثلثي فرسخ من المدينۃ۔
حضرت عروہؒ کہتے ہیں کہ مغیرہ
بن شعبہؓ عصر کی نماز کو تاخیر سے پڑھاکرتے تھے تو ان سے ایک انصاری نے کہا : کیا
آپ نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان نہیں سنا کہ آپ ﷺنے فرمایا : مجھ سے جبریل نے کہا :
فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھئے ، یہاں تک کہ جبریل نے تمام
نمازوں کے اوقات بتائے۔
تو حضرت مغیرہ ؓ نے جواب دیا
کہ کیوں نہیں ، لیکن میں گواہی دیتا ہوں
کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز اس
وقت پڑھتے تھے جب سورج سفید اور صاف ہوتا تھا ، پھر میں بنو عمرو بن عوف کے پاس
آتا ، تو سورج بلند ہی ہوتا ، اور بنو عمرو بن عوف مدینہ سے دو تہائی فرسخ دور ہے۔ (تاریخ ابن ابی خیثمہ : جلد۱ : صفحہ ۱۷۹،
حدیث نمبر ۴۲۷، واسنادہ حسن )
اس سند کے سارے راوی ثقہ ہیں ۔
۱ – امام ابو بکر بن ابی خیثمہ ؒ (م
۲۷۹ھ) مشہور ثقہ، امام اور صاحبِ
تاریخ ہیں ۔ (تاریخ الاسلام : جلد۶ : صفحہ ۴۸۱)
۲ – ابو سلمہ موسیٰ بن اسماعیل ؒ (م۲۲۳ھ)صحیحین
کے راوی اور ثقہ ،ثبت ہیں ۔ (تقریب : رقم ۶۹۴۳)
۳ – امام حماد بن سلمہ ؒ ( م ۱۶۷ھ) صحیح
مسلم اور سنن اربعہ کے راوی اور ثقہ عابد ہیں ۔ (تقریب : رقم ۱۴۹۹) [4]
۴ - ہشام بن عروہ ؒ (م ۱۴۶ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ، فقیہ ہیں ۔ (تقریب
: رقم ۷۳۰۲)
۵ – امام عروہ ؒ ( م ۹۴ھ) صحیحین کے راوی ، اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : رقم
۴۵۶۱)
۶ – مغیرہ بن شعبہؓ مشہور صحابی رسول ہیں
۔ (تقریب)
معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام
روات ثقہ اوریہ سند حسن ہے۔
وضاحت :
اس روایت سے واضح طور پر
معلوم ہوتا ہے کہ مغیرہ بن شعبہؓ اور حضور ﷺ۲ مثل کے بعد عصر کی نماز ادا فرماتے
تھے ، کیونکہ اگر مغیرہ ؓ ۲ مثل سے پہلے عصر کی نماز ادا کی ہوتی تو انصاری صحابی
ؓ کا انہیں جبریل علیہ السلام کی روایت یاد دلانا بے معنیٰ ہوتا ، لیکن جب انصاری
صحابی نے انہیں جبریل علیہ السلام کی روایت یاد دلائی ، تو ان کا عمل اس بات کی
دلیل ہے کہ مغیرہ بن شعبہ ؓ نے عصر کی نماز ، حدیث ِ جبریل میں بتائے گئے وقت کے
مطابق نہیں پڑھی ، یعنی ۲ مثل کے بعد پڑھی
تھی ۔
اور پھر مغیربن شعبہ ؓ نے باوجود
حدیثِ جبریل کا علم ہونے کے ، اس کے
مقابلہ میں کہا کہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ عصر کی نماز ایسی حالت میں پڑھتے تھے جب کہ
سورج صاف اور سفید ہوتا تھا۔
ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام ؓ عصر کی نماز ۲ مثل کے بعد پڑھتے
تھے، جب تک کہ سورج صاف اور سفید ہوتا تھا۔
ائمہ فقہاء کی عبارت :
ائمہ فقہاء نے بھی ’الشمس بیضاء نقیۃ ‘
والی روایت کو عصر کی تاخیر پر یعنی ۲ مثل کے بعد کا وقت مراد لیا ہے ، چنانچہ :
۱- ثقہ ، حافظ ، فقیہ امام محمد ؒ (م
۱۸۹ھ) فرماتے ہیں کہ :
تأخير العصر أفضل من تعجيلها،ما
دامت الشمس بيضاء نقية لم تخالطها صفرة[5]
وهو قول أبي حنيفة رحمه الله، والعامة من فقهائنا رحمهم الله تعالى۔
عصر کی نماز ،جلدی پڑھنے کی بنسبت
تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، جب تک کہ سورج صاف اور سفید ہو اور اس میں
زردی داخل نہ ہوئی ہو ، اور یہی امام ابو
حنیفہؒ اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔ (مؤطا امام محمد : حدیث نمبر ۱۰۰۸)
ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ :
تأخير
العصر أفضل عندنا من تعجيلها إذا صليتها والشمس بيضاء نقية لم تدخلها صفرة، وبذلك
جاءت عامة الآثار، وهو قول أبي حنيفة، وقد قال بعض الفقهاء: إنما سميت العصر لأنها تعصر وتؤخر۔
ہمارے نزدیک عصر کی نمازجلدی
پڑھنے کی بنسبت تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، جبکہ ایسے وقت میں پڑھی جائے کہ سورج صاف
اور سفید ہو اور اس میں زردی داخل نہ ہوئی ہو ، اکثر حدیثوں میں یہی آیا ہے ، اور
یہی امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے اور بعض فقہاء نے کہا کہ : عصر کو عصر
اس لئے کہا جاتا ہے کہ اسے دن کے
اخیری وقت میں پڑھا جاتا ہے اور تاخیرکی جاتی ہے۔ (مؤطا امام محمد : حدیث
نمبر۴)
۲ – صدوق ، فقیہ شمس الائمہ ، امام سرخسی ؒ (م۴۸۳ھ) فرماتے ہیں کہ :
(ولنا) حديث ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - قال كان النبي - صلى
الله عليه وسلم - يصلي العصر والشمس بيضاء نقية وهذا منه بيان تأخير للعصر۔
اور ہماری دلیل ابن مسعودؓ کی
حدیث ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ عصر کی نماز اس وقت پڑھتے تھے ، جب سورج سفید
اور صاف ہوتا ، اور اس میں آپ نے عصر کی تاخیر بیان فرمائی ہے۔ (المبسوط :
جلد۱ : صفحہ ۱۴۷)
۳ – ثقہ ، مجتہد امام ابوبکر جصاص
الرازی ؒ (م ۳۷۰ھ) نے بھی ’ الشمس بيضاء نقية ‘ کی
ایک روایت سے تاخیر العصر پر استدلال کیا ہے۔ (شرح مختصر الطحاوی للجصاص
: جلد۱ : صفحہ ۵۱۴)
ثابت ہوا کہ احادیث میں ’ الشمس بيضاء نقية ‘سے
مراد ۲ مثل کا وقت ہی ہے، نیز ان روایات میں
’تاخیر العصر‘ کی بھی صراحت ہے ، جس سے اس کا ۲ مثل کا وقت ہونا اور بھی واضح ہوتا ہے ۔ واللہ اعلم
دلیل نمبر ۴ :
امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
حَدَّثَنَا
مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْعَنْبَرِيُّ حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ
أَبِي الْوَزِيرِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنِي
يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ عَلِيِّ بْنِ شَيْبَانَ قَالَ:
قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ
فَكَانَ يُؤَخِّرُ الْعَصْرَ مَا دَامَتِ الشَّمْسُ بَيْضَاءَ نَقِيَّةً۔
حضرت علی بن شیبانؓ کہتے ہیں کہ
ہم لوگ مدینہ میں آنحضرت ﷺ کے پاس آئے ، تو آپ ﷺ عصر کی نماز مؤخر کرکے پڑھتے
تھے ، جب تک کہ سورج صاف اور سفید ہوتا ۔ (سنن ابی داؤد : حدیث نمبر ۴۰۸)
اعتراض :
اس روایت میں یزید بن عبد الرحمن
ؒ اور محمد بن یزید الیمامی ؒ مجہول ہیں ۔
الجواب :
اس روایت پر امام ابو داؤدؒ (م
۲۷۵ھ) اور امام منذریؒ ( م ۶۵۰ھ)
نے سکوت اختیار کیا ہے۔ (سنن ابی داؤد : حدیث نمبر ۴۰۸، مختصر سنن
ابی داؤد : جلد۱ : صفحہ ۱۷۹)
امام ماردینیؒ (م ۷۵۰ھ) فرماتے ہیں کہ ’’اخرجه أبو داود وسكت عنه‘‘امام ابو داؤد ؒ نے اسے روایت کیا ہے اور اس پر سکوت کیا
ہے۔ (الجوہر النقی : ج۱ : ص ۴۴۱)
اور غیر مقلد عالم قاضی شوکانیؒ کہتے ہیں کہ ’’وما سکتا
علیہ جمیعاً فلا شک أنہ صالح للاحتجاج‘‘ جس روایت پر وہ دونوں (یعنی امام ابو داؤد ؒ اور امام
منذریؒ ) سکوت فرمائیں ، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ روایت احتجاج کے لائق ہے۔ (نیل
الاوطار : جلد۱ : صفحہ ۲۵، ۱۱۰)
معلوم ہوا کہ خود غیر مقلدین کے
اصول کی روشنی میں یہ روایت امام ابو داؤد ؒ اور امام منذریؒ کے نزدیک صحیح ہے۔
خود امام ابو داؤدؒ نے بھی فرمایا ہے
کہ ’’مالم أذکر فیہ شیئا فھو
صالح‘‘ جس حدیث پر میں کوئی
کلام نہ کروں وہ (احتجاج واستدلال) کے لائق ہے۔ (رسالۃ إلی أھل مکۃ : صفحہ ۲۹) [6]
اسی طرح ، امام ابو علی بن
السکن ؒ (م ۳۵۳ھ) امام ابو عبد
اللہ ابن مندہ ؒ (م ۳۹۵ھ) ، امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ھ) اور امام
ابو طاہر سِلَفی ؒ (م۵۷۱ھ) وغیرہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (مقدمہ ابن
الصلاح : صفحہ ۱۱۱، النکت علی ابن الصلاح لابن حجر:جلد۱ : صفحہ ۴۸۲)[7]
اور محدثین کا کسی روایت کو
صحیح قرار دینا ، غیر مقلدین کے نزدیک اس روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔ (مجلہ
الاجماع : ش۲: ص۱۷)
اس لحاظ سے اس روایت کے سارے
راوی ، امام ابو داؤد ؒ (م ۲۷۵ھ) امام ابو علی ابن السکن ؒ (م۳۵۳ھ) امام
ابوعبد اللہ بن مندہ ؒ ( م ۳۹۵ھ) امام حاکم ؒ ( م ۴۰۵ھ) امام ابو
طاہر سلفیؒ ( م۵۷۱ھ) امام منذریؒ (
م ۶۵۰) کے نزدیک ثقہ ہیں۔
لہذا اس روایت کے راویوں پر
مجہول ہونے کی جرح باطل ومردود ہے۔
وضاحت :
اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد ،
امام بدر الدین عینیؒ (م ۸۵۵ھ) فرماتے
ہیں کہ : ’’وهذا الحديث يدل على أنه- عليه السلام- كان يُصلي العَصر عند صيرورة ظل كل شيء مثليه؛ وهو حجة لأبي حنيفة على مخالفيه‘‘ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نبی اکرم ﷺ عصر کی
نماز اس وقت ادا فرماتے تھے ، جب ہر چیز کا سایہ اسکے دو مثل ہوجاتا تھا، اور یہ
حدیث امام ابو حنیفہؒ کی دلیل ہے ، ان کے مخالفین پر۔ ( شرح سنن ابی داؤد للعینی :
جلد۲ : صفحہ ۲۶۸)
دلیل نمبر ۵:
امام ترمذی ؒ (م۲۷۹) فرماتے ہیں کہ
حدثنا علي بن حجر قال: حدثنا إسماعيل ابن علية عن أيوب عن ابن أبي مليكة عن أم سلمة
- رضي الله عنها - قالت: " كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أشد تعجيلا
للظهر منكم وأنتم أشد تعجيلا للعصر منه "
حضرت ام سلمہ ؓ فرماتی ہیں کہ
رسول اللہ ﷺظہر کی نماز ، بنسبت تمہارے ،جلدی ادا فرماتے تھے، اور آپ لوگ عصر کی
نماز ، بنسبت رسول اللہ ﷺ کے ، جلدی ادا کرتے ہو۔
(سنن ترمذی : جلد۱ : صفحہ ۳۰۲، حدیث ۱۶۱)
اس حدیث کے تمام روات : علی بن
حُجر ، اسماعیل ابن علیہ ، أیوب سختیانی،
اور عبد اللہ بن ابی ملیکہ ، مشہور ثقات، اور صحیحین
کےرجال ہیں ۔
لہذا یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔
غیر مقلد عالم ومحدث شیخ
البانیؒ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔ (صحیح وضعیف سنن ترمذی : حدیث ۱۶۱، مشکاۃ
، تحقیق ثانی : ۶۱۹۵)
اس حدیث کی وضاحت :
اس حدیث پر امام ترمذیؒ (م۲۷۹) نے
’’تاخیر العصر‘‘کا عنوان لگایا ہے
، معلوم ہوا امام ترمذیؒ کے نزدیک ، یہ حدیث تاخیر عصر پر
دلالت کرتی ہے۔امام مغلطائیؒ (م۷۶۲) نے اس حدیث کو تاخیر عصر کے مستدلات
میں ذکر کیا ہے ۔ (شرح ابن ماجہ لمغلطائی :ص ۱۰۰۱) یہی بات ملا علی قاری ؒ
نے بھی تحریر فرمائی ہے کہ’’يدل
الحديث على استحباب تأخير العصر‘‘ یہ حدیث تاخیر عصر کے استحباب پر
دلالت کرتی ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح : جلد۲ : صفحہ ۵۳۸ ، حدیث ۶۱۹)
اس حدیث کی شرح میں مولانا مفتی سعید صاحب پالنپوری دامت برکاتہم فرماتے ہیں :
حضرت ام سلمہ ؓ اپنے زمانہ کے لوگوں پر نقد کرتے ہوئے فرماتی ہیں :
آپ لوگ ظہر کی نماز زیادہ تاخیر کرکے پڑھتے ہو جبکہ رسول اللہﷺاتنی تاخیر نہیں کیا
کرتے تھےاور آپ لوگ عصر کی نماز جلدی پڑھتے ہو جبکہ حضور اکرم ﷺ اتنی جلدی عصر
نہیں پڑھتے تھے، یعنی وہ فرمارہی ہیں کہ لوگو! اپنے دونوں عمل بدلو اور ظہر کو
تھوڑا پہلے اور عصر کو کچھ تاخیر سے پڑھو ،ظاہر ہے وہ لوگ وقت داخل ہونے کے بعد ہی
عصر پڑھتے ہوں گے پھر بھی حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا تنبیہ کرتی ہیں ، معلوم ہوا کہ آنحضور ﷺ عصر میں کچھ تاخیر کیا کرتے
تھے اور یہ حدیث اعلیٰ درجہ کی صحیح ہے۔ (تحفۃ الألمعی : ج۱ : ص۴۶۲)
دلیل نمبر ۶ :
امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
وكيع
عن عمر بن منبه عن سوار بن شبيب عن أبي هريرة أنه كان يؤخر العصر حتى أقول: قد
اصفرت الشمس۔
حضرت ابو
ہریرۃ ؓ عصر کی نماز مؤخر کیا کرتے تھے،
یہاں تک کہ میں کہتا کہ سورج زرد ہوگیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۳۲۸ )
اس حدیث کی سند کے
روات کی تعریف یہ ہے:
۱ - امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) شیخین کے استاذ اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔ (تقریب
:۳۵۷۵)
۲- امام وکیع
ؒ(م۱۹۷ھ) بھی مشہور ثقہ ،
امام ہیں ۔ (تقریب : ۷۴۱۷)
۳- عمر بن
منبہ السعدی:(ان کو عمر بن مزیدیا یزید بن منبہ بھی کہا جاتا ہے ،) بھی ثقہ ہیں۔(الثقات للقاسم :۸۳۲۲)
۴- سوار
بن شبیب السعدی بھی ثقہ راوی ہیں ۔ (الثقات للقاسم:۴۹۴۷)
لہذا یہ سند بالکل صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۷ :
امام محمد ؒ (م ۱۸۹ھ) فرماتے ہیں کہ :
أخبرنا مالك بن أنس عن يزيد بن زياد مولى بني هاشم عن عبد الله بن
رافع مولى أم سلمة رضي الله عنها زوج النبي صلى الله عليه وسلم، عن أبي هريرة، أنه
سأله عن وقت الصلاة فقال أبو هريرة: «أنا
أخبرك، صل الظهر إذا كان ظلك مثلك، والعصر إذا كان ظلك مثليك، والمغرب إذا غربت
الشمس والعشاء ما بينك وبين ثلث الليل فإن
نمت إلى نصف الليل فلا نامت عيناك وصل
الصبح بغلس۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ تو عصر
کی نماز اس وقت ادا کرجب تیرا سایہ ۲مثل ہوجائے۔(موطا امام محمد : ح ۱،
موطا امام مالک : حدیث نمبر ۹)
سند کے روات کی تحقیق :
۱ - امام
محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) مشہور فقیہ ربانی،ثقہ، حافظ ہیں۔(تلامذہ
امام ابو حنیفہ کا محدثانہ مقام،از مولانا حافظ ظہور احمد الحسینی : ص ۳۲۳)
۲- امام مالک ؒ (م۱۷۹ھ) صحیحین کے راوی اور امام دارالہجرۃ ہیں۔
۳ - یزید
بن زیاد المدنی ترمذی کے راوی ہیں اور
ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۷۷۱۵)
۴ - اسی
طرح عبداللہ بن رافع مولی ام سلمہ صحیح
مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۳۳۰۵)
۵- ابو
ہریرۃ ؓ مشہور صحابی رسول ہیں۔ (تقریب)
معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ [8]
اہل حدیثوں کا ایک اصول :
دلیل نمبر ۸ :
امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا
وكيع، عن علي بن صالح، وإسرائيل، عن أبي إسحاق، عن عبد الرحمن بن يزيد، عن عبد
الله أنه كان يؤخر العصر۔
عبد
اللہ بن مسعودؓ سے منقول ہے کہ وہ عصر کی نماز تاخیر سے ادا کیا کرتے تھے۔ (مصنف
ابن ابی شیبۃ : ۳۳۱۰)
سند کے روات کی
تعریف یہ ہے:
۱ - امام
ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) شیخین کے
استاذ اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔ (تقریب : رقم ۳۵۷۵)
۲- امام
وکیع ؒ(م۱۹۷ھ) بھی مشہور ثقہ ، امام ہیں ۔ (تقریب : رقم ۷۴۱۷)
۳- علی بن صالحؒ (م۱۵۱ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : ۴۷۴۸) ان کے متابع اسرائیل
بن یونس بن ابی اسحاقؒ (م۱۶۰ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،حجت ہیں ۔ (تقریب:
۴۰۱)
۴- امام
ابو اسحاق السبیعی ؒ(م۱۲۹ھ) بھی صحیحین کے راوی ہے ثقہ ، مکثر ، عابد ہیں۔۔ (تقریب: ۵۰۶۵)
نوٹ :
ابو اسحاق سبیعی ؒ (م۱۲۹ھ) کا آخری عمر
میں حافظہ متغیر ہوگیا تھا،لیکن اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاقؒ (م۱۶۰ھ)
نے ان سے اختلاط سے پہلے روایات لی
تھی۔(بخاری : حدیث نمبر
۳۹۹،۵۲۰،۸۱۱،مسلم : ج۴: ص ۱۸۵۲،۲۳۱۰، وغیرہ، مقالات از زبیر علی زئی : ج۴:
ص ۳۶۶) لہذا اسرائیل بن یونس ؒ کا
اپنے داداابو اسحٰق سبیعیؒ سے سماع بالکل صحیح ہے۔
نیز یہ حدیث ’’
ثوری عن أبی
إسحاق عن عبد الرحمن بن یزید
‘‘ کی سند سے بھی مروی ہے۔( مصنف عبد الرزاق : ۲۰۸۳)
۵- عبد الرحمن بن یزید
ؒ (م۸۳ھ) بھی ثقہ
ہیں۔ (تقریب : ۴۰۴۳)
لہذا یہ سند بھی بالکل صحیح ہے،اور مسند احمد کے محققین ، شیخ شعیب ارناؤط اور ان کے ساتھیوں
نے اس سند کو صحیح علی شرط الشیخین کہا ہے۔ (مسند احمد: ۲۳۴۰۸)[9]
دلیل نمبر ۹ :
امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ (م۴۰۵ھ) نے کہا کہ:
حدثنا أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه
الجلاب، ثنا محمد بن شاذان الجوهري، ثنا المعلى بن منصور، ثنا عبد الرحيم بن
سليمان، ثنا أبو إسحاق الشيباني، عن العباس بن ذريح،عن
زياد بن عبد الله النخعي , قال: كنا جلوسا
مع علي رضي الله عنه في المسجد الأعظم , والكوفة يومئذ أخصاص , فجاءه المؤذن فقال:
الصلاة يا أمير المؤمنين للعصر , فقال: «اجلس» , فجلس ثم عاد فقال ذلك , فقال علي
رضي الله عنه: «هذا الكلب يعلمنا بالسنة»
, فقام علي رضي الله عنه فصلى بنا العصر , ثم انصرفنا فرجعنا إلى المكان الذي كنا
فيه جلوسا فجثونا للركب لنزول الشمس للمغيب نترآها۔
زیاد بن عبد اللہ نخعی ؒ کہتے ہیں کہ ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ بڑی مسجد میں
بیٹھے ہوئے تھے ، اس وقت کوفہ کی بستی
کچّے گھروں پر مشتمل تھی ، مؤذن نے آکر عصر کی نماز کے بارے میں آپ سے کہا : امیر المؤمنین نماز!!! تو آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ ، وہ بیٹھ گیا ، )کچھ دیر بعد)
دوبارہ آکر وہی بات کہی ، تو حضرت علی ؓ نے فرمایا : یہ کتّا ہم کو سنت
سکھارہا ہے، پھر آپ ؓ کھڑے ہوئے اور ہمیں
عصر کی نماز پڑھائی ، نماز کے بعد ہم اسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں ہم بیٹھے ہوئے
تھے ، پھر ہم دوزانو بیٹھ کر غروب کیلئے سورج کو نیچے اترتے دیکھنے لگے۔ (المستدرک
علی الصحیحین : جلد۱: صفحہ ۳۰۵، رقم الحدیث ۶۹۰،الطبقات
الکبریٰ لابن سعد : جلد۶ : صفحہ ۲۵۴، رقم ۲۲۹۰)
اس حدیث کو امام حاکم ؒ،امام ذہبی ؒ اور امام مغلطائی ؒ نےصحیح کہا ہے۔ (المستدرک علی الصحیحین مع تلخیص للذہبی : جلد۱: صفحہ ۳۰۵، رقم ۶۹۰، شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۰۰۱)
اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :
(۱) حاکمؒ (م۴۰۵ھ) مشہورثقہ، امام،حافظ الحدیث اورشیخ المحدثین
ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۸: ص ۳۹۳، سیر اعلام النبلاء)
(۲) أبو بكر محمد بن أحمد بن بالويه الجلابؒ(م۳۴۰ھ) ثقہ مکثر ہیں۔ (الروض الباسم فی تراجم شیوخ الحاکم : جلد۲ : صفحہ ۸۱۶، رقم الترجمہ ۷۱۲)
(۳) محمد بن شاذان الجوهري بھی ثقہ ہیں۔
( تقریب : رقم ۵۹۵۰)
(۴) المعلى بن منصور : ثقہ ، سني
، فقیہ ہیں۔ ( تقریب : ۶۸۶۰)
(۵) عبد الرحيم بن سلیمان ؒ کی حدیث کوحاکم ؒ،ذہبی ؒ اور مغلطائیؒ نےصحیح قرار دیا ہے،جس کے حوالے
گزرچکے۔
لہذا ان ائمہ کے نزدیک عبد
الرحيم بن سلیمان ؒ ثقہ ہیں۔
نیز
الطبقات الکبری لابن سعد میں عبد الرحمن بن سلیمان کے متابع،ابو اسامۃ حماد بن
اسامہؒ(م۲۰۱ھ) [ثقہ] موجود ہیں ۔ (الطبقات
الکبریٰ لابن سعد : جلد۶ : صفحہ ۲۵۴، رقم ۲۲۹۰) اور ابو اسامہ ؒ اہل کوفہ کی
خبروں کے زیادہ جاننے والے تھے۔ (تہذیب الکمال)
(۵) أبو
إسحاق الشيباني (سلیمان بن فیروز ) ثقہ ہیں۔
(موسوعۃ أقوال الدارقطنی
: ج۱ : ص ۱۱۴، رقم ۴۶۷)
(۶) عباس
بن ذريح ؒبھی ثقہ ہیں ۔ (تقریب : ۳۱۶۸)
(۷) زیاد
بن عبد اللہ نخعی کو بعض لوگوں نے زیاد بن عبد الرحمن نخعی
کہاہے،اور وہ صدوق اور ثقہ راوی ہیں۔
امام
ابن حبانؒ اور امام قاسم بن قطلوبغاؒ نے
انہیں ثقات میں ذکر کیا ہے۔
امام دارقطنی ؒ نے اعتراض کیا کہ وہ مجہول العین
ہیں ،کیونکہ ان سے صرف عباس بن ذریح ؒنے روایت کیا ہے ، اسکا جواب قاسم بن
قطلوبغاؒ نے دیا ہے کہ’’وقد جزم
أبو حاتم أنه عياش العامري،وابن ذريح عباس بالموحدة‘‘
ابو حاتمؒ نے جزم کے ساتھ کہا ہے کہ ان سے عیاش عامریؒ
نے روایت لی ہے۔(لسان المیزان : جلد۳ : صفحہ ۵۳۴ ، رقم ۳۲۵۹، الثقات للقاسم :
جلد۴ : صفحہ ۳۵۲، رقم ۴۰۸۵)
لہذا
مجہول العین کی جرح درست نہیں ،نیزان کی حدیث کو امام حاکم ؒ،امام ذہبی ؒ اور حافظ مغلطائی
صحیح قرار دیا ہے، جیسا کے حوالے گزرچکے،اور غیرمقلدین کا اصول ہے کہ کسی
حدیث کی تصحیح اس کے تمام روات کی توثیق ہوتی ہے۔ دیکھئے (ص۱۷)
معلوم
ہوا کہ زیاد بن عبد اللہ نخعیؒ، امام ابن حبانؒ ، امام قاسم بن قطلوبغاؒ ، امام
حاکم ؒ ،امام ذہبیؒ اور امام قاسم بن
قطلوبغاؒ کے نزدیک ثقہ ہیں۔
لہذا
یہ حدیث صحیح ہے ۔
دلیل نمبر ۱۰ :
امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
حدثنا وكيع ، عن ابن عون ، عن أبي عاصم ، عن
أبي عون : أن عليا كان يؤخر العصر حتى ترتفع الشمس على الحيطان۔
حضرت علی ؓ عصر کو تاخیرسے ادا فرماتے تھے یہاں تک کہ سورج ، دیواروں پر بلند
ہوجاتا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۳۲۷)
اس سند کے روات کا تعارف یہ ہے :
۱ - امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) شیخین کے استاذ اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔ (تقریب
: رقم ۳۵۷۵)
۲- امام وکیع
ؒ(م۱۹۷ھ) بھی مشہور ثقہ ،
امام ہیں ۔ (تقریب : رقم ۷۴۱۷)
۳- ابن عونؒ سے مراد عبد اللہ بن عون ؒ (م۱۵۰ھ) ہیں،جو کہ ثقہ،ثبت ، فاضل ہیں۔ (تقریب : رقم
۳۵۱۹)
۴- ابو
عاصم محمد بن ابی ایوب ثقفی ؒ ،صحیح مسلم کے راوی اور صدوق و ثقہ ہیں۔ (تقریب
: رقم ۵۷۵۳)
۵- ابو عون محمد بن عبیداللہ بن سعید الثقفیؒ (م۱۱۶ھ)
صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۶۱۰۷)
۶- حضرت علی ؓ مشہور صحابی رسول اور امیر
المومنین ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس سند کےتمام راوی ثقہ ہیں۔مگر ابو عون محمد بن عبیداللہ بن
سعید الثقفیؒ کا سماع حضرت علی ؓ سے ثابت نہیں، لیکن ابو عونؒ نے یہاں پر ابو صالح عبد الرحمٰن
بن قیس الحنفیؒ سے ارسال کیا ہے۔
کیونکہ (ہمارے علم کے مطابق) کتب حدیث میں موجودحضرت علی ؓ سےمروی تمام
اقوال کو ابو عونؒ(م۱۱۶ھ) نے ابو صالح
عبد الرحمٰن بن قیس الحنفی کے
واسطے سے بیان کئے ہے،تو یہاں پر بھی ابو عونؒ
اور علی ؓ کے درمیان ابو صالح الحنفی ؒ
موجودہیں۔ لہذا یہ سند متصل اور
صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۱۱ :
امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
حدثنا وكيع، عن الأعمش، عن
إبراهيم قال: «كان من قبلكم أشد تأخيرا للعصر منكم»
فقیہ العراق ،
امام ابراہیم نخعیؒ کہتے ہیں : تم سے پہلے
لوگ (صحابہ کرامؓ اور کبارِ تابعین) تمہارے مقابلہ میں عصر
کی
نماز زیادہ تاخیر سے ادا کرتے تھے ۔ (مصنف ابن ابی شیبہ : ۳۳۳۱)
یہ سند علی شرط
الشیخین ہے۔
امام ابرہیم نخعی
ؒ تابعین میں سے ہیں ، آپ نے بچپن میں حضرت
عائشہ ؓ کو دیکھا ہے، اس لئے ’’تم سے پہلے لوگ‘‘ سے مراد ، بڑے
درجہ کے تابعین اور صحابہ کرام ہیں ۔
دلیل نمبر ۱۲ :
امام ابن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں کہ :
حدثنا
ابن علية، عن خالد، عن أبي قلابة قال: «إنما سميت العصر لتعتصر»
ابو قلابہ ؒ کہتے
ہیں کہ :عصر کو عصر نام اسلئے دیا گیا تاکہ دن کے آخری حصہ میں پڑھی
جائے۔ (مصنف : ۳۳۳۷)
نوٹ :
اس سند میں خالد سے مرا د خالد حذاء ہیں،اوریہ سند بھی علی
شرط الشیخین ہے،مزیدکچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔
دلیل نمبر ۱۳ :
امام عبد الرزاق ؒ (م۲۱۱ھ) کہتے ہیں :
عن معمر،
عن أيوب، عن ابن سيرين، وأبي قلابة: «كانا يمسيان العصر»
ابن سیرین ؒ اور
ابو قلابۃؒ ، حسن بصریؒ عصر کی نماز، شام
کے وقت پڑھتے تھے۔ (مصنف
عبد الرزاق : ۲۰۸۷)
یہ روایت علی شرط
مسلم ہے، لہذا یہ سند بھی بالکل صحیح ہے۔
نوٹ :
حسن
البصری ؒ کا ذکراگلی حدیث (مصنف عبد الرزاق :حدیث
۲۰۸۸ )میں موجود ہے،جس کی سند یوں ہے:
عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ مَعْمَرٍ عَنْ خَالِدٍ
الْحَذَّاءِ أَنَّ الْحَسَنَ وَمُحَمَّدَ بْنَ سِيرِينَ وَأَبَا قِلَابَةَ: «كَانُوا يُمَسُّونَ
بِالْعَصْرِ»
اس سند میں معمر
عن خالد الحذاء ہے ، اور یہ دونوں بھی مشہور ثقات ہیں
۔ دیکھئے (تقریب،الکاشف وغیرہ)
دلیل نمبر ۱۴ :
امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) فرماتے ہیں کہ:
حدثنا
ابن مرزوق، قال: ثنا أبو عامر، قال: ثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم قال: «كان من قبلكم أشد تعجيلا
للظهر وأشد تأخيرا للعصر منكم»۔
حضرت ابراہیم
نخعیؒ کہتے ہیں کہ تم سے پہلے لوگ (یعنی صحابہ کرامؓ) تمہارے مقابلہ میں ظہر میں
زیادہ جلدی اور عصر میں زیادہ تاخیر کرنے والے تھے۔ (شرح معانی الآثار : جلد۱
: صفحہ ۱۹۳ ، رقم الحدیث ۱۱۵۴)
روات کی تفصیل یہ ہیں :
(۱) امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) ثقہ،ثبت حافظ الحدیث ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم
)
(۲) ابراھیم بن مرزوق بن دینار
الاموی : ثقة عمى قبل موته فكان يخطىء و لا يرجع ۔
ابن مرزوق ؒثقہ ہیں
، مگر اپنی وفات سے کچھ پہلے نابینا ہوگئے تھے ، اس وقت اگر ان سے کوئی غلطی
ہوجاتی اور ان کو بتایا جاتا تو وہ اس کو قبول نہیں کرتے تھے ، آپ کی وفات ۲۷۰
ھ میں ہے ۔ ( تقریب :رقم ۲۴۸)
لیکن امام طحاویؒ
جن کی پیدائش ۲۳۹ھ میں ہے ، نے ابراہیم بن مرزوقؒ سے ان کے نابینا ہونے سے
بہت پہلے ہی سماع کرلیا تھا ، اس لئے کہ یہ امام طحاویؒ کے وطن یعنی مصر میں فروکش
تھے، اور محدثین کا طریقہ یہ تھا کہ وہ پہلے
اپنے اہل وطن سے حدیث لیتے پھر سفر کرکے دوسرے علماء کے پاس جاتے ، نیز
امام طحاویؒ نے کم عمری سے حصول علم شروع فرما دیا تھا ، یہاں تک کہ آپ نے ھارون
بن سعید الایلیؒ سے بھی حدیث لی ہے ، جن کی وفات ۲۵۳ھ میں ہے ، جس وقت
امام طحاویؒ کی عمر صرف۱۴ سال تھی ، سماعِ حدیث کے سفر سے،امام طحاویؒ کی واپسی ۲۶۹ھ
میں ہوئی ہے۔ (لسان المیزان : ج۱ : ص۶۲۰، ۷۷۱، اکمال تہذیب الکمال : جلد۱ :
صفحہ ۲۹۰،تجرید الأسماء والکنیٰ : جلد۱ : صفحہ ۵۹)
(۳) ابو عامر عبد
الملک بن عمرو العقدی : ثقہ ۔ (تقریب : ۴۱۹۹)
(۴) سفیان
وھو الثوری ،الامام
المشھور أثبت الناس فی منصور۔
(۵) منصور
وھو ابن المعتمر الامام المشھور من أثبت
الناس فی إبراھیم۔
(۶) أما إبراھیم
فھو النخعی فقیہ العراق۔
ھذہ
الائمۃ الثلاثۃ سلسلۃ الذھب ، والثلاثۃ
الباقون ابو عامر وابن مرزوق و الطحاوی فھم ثقات أثبات۔
معلوم
ہوا یہ سند بھی بالکل صحیح ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ احناف نے احتیاط کو راجح
قرار دیتے ہوئے ، یہی کہا کہ عصر کا وقت ۲ مثل پر شروع ہوتا ہے، کیونکہ حضور ﷺ اور
صحابہ کرام ؓ عصر کی نماز کو تاخیر سے (یعنی دو مثل کے بعد ) پڑھتے تھے جیسا کہ
تفصیل گزرچکی۔
[1]
امام ابن حبانؒ نے عبد الواحد بن نافعؒ پر جرح
بھی کی ہے ، ان کے الفاظ یہ ہیں :
عبد
الواحد بن نافع الكلاعي أبو الرماح شيخ يروي عن أهل الحجاز المقلوبات وعن أهل
الشام الموضوعات لا يحل ذكره في الكتب إلا على سبيل القدح فيه وهو الذي روى عن عبد
الله بن رافع بن خديج عن أبيه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يأمر بتأخير العصر
أخبرناه محمد بن جعفر بن طرخان قال حدثنا الحسن بن محمد بن الصباح قال حدثنا يعقوب
بن إسحاق الحضرمي قال حدثنا عبد الواحد بن الكلاعي عن عبد الله بن رافع بن خديج۔ (المجروحین
: جلد۲ : صفحہ ۱۵۴)
لیکن امام ابن حبانؒ کی جرح مقبول نہیں ہے ، کیونکہ وہ جرح میں متشدد ہیں ، جس
کا اقرار خود غیر مقلدین کرچکے ہیں ۔
چنانچہ ، شیخ البانیؒ ،شیخ شریف حاتم بن عارف ، شیخ عبد الرحمن المعلمی اور شیخ مقبل بن
ہادی رحمہم اللہ وغیرہ سلفی علماء نے ابن حبان ؒ کو جرح میں متشدد قرار دیا ہے۔ (سلسلہ
احادیث ضعیفہ : جلد۱۲ : صفحہ ۱۸۰، خلاصہ
التأصیل : صفحہ ۳۲ ، آثار الشیخ المعلمی : جلد۱۰ : صفحہ ۱۱۳، المقترح للوادعی :
صفحہ ۳۰)
اسی طرح محدثین نے بھی انہیں متشدد قرار دیا ہے :
عثمان بن عبد الرحمن الطرائفیؒ پر ابن حبانؒ نے جرح کی ، جس کے جواب میں امام ذہبیؒ فرماتے ہیں کہ ’ أما ابن حبان فإنه
يقعقع كعادته ‘رہے ابن حبانؒ ، تو انہوں نے اپنی عادت کے مطابق ان پر
کلام کیا ہے۔ (میزان الاعتدال : جلد۳ : صفحہ ۴۵) ، ایک اور مقام پر عامرؒ
کا دفاع کرتے ہوئے امام ذہبیؒ کہتے ہیں کہ ابن حبانؒ نے عامر کے بارے میں شدت سے
کام لیتے ہوئے ، زیادتی کی ۔ (میزان : جلد۴ : صفحہ ۸)، ایک جگہ سوید بن عمرو الکلبی کے دفاع میں تحریر
کرتے ہیں کہ جہاں تک ابن حبانؒ کا تعلق ہے توانہوں نے ان کے بارے میں زیادتی اور
جرأت کی ہے ۔ (میزان : جلد۲ : صفحہ ۲۵۳)، اسی طرح سعید بن عبد الرحمن
المدنی ؒ کے ترجمہ میں کہا : ’ أما ابن حبان فإنه خساف قصاب ‘۔ (میزان : جلد ۲ : صفحہ ۱۴۸)، نیز دیکھئے : (میزان
: جلد۲ : صفحہ ۶۲۹)
بلکہ شیخ البانیؒ اور شیخ مقبل ؒ کے شاگرد شیخ ابو الحسن السلیمانی غیر مقلد کہتے ہیں
کہ (اگر) کسی راوی کو صرف بعض روایت میں وہم ہوا ہے ، تو ابن حبانؒ اس پر شدید
الفاظ سے جرح کرتے ہیں اور ( مثلاً) کہتے ہیں کہ یہ راوی ثقات سے مختلف روایات
بیان کرتا ہے ۔ (اتحاف النبیل : جلد۱ : صفحہ ۶۹)، شیخ معلمی ؒ فرماتے ہیں کہ ’ ولكن ابن حبان
يشدد، وربما تعنت فيمن وجد في روايته ما استنكره ‘ لیکن ابن حبانؒ متشدد ہیں اور وہ
اکثر اس راوی کے حق میں سختی کرتے ہیں ، جن کی روایت میں کوئی چیز منکر پاتے ہیں ، ایک اور مقام پر
کہتے ہیں کہ ’ابن حبان كثيرا ما يتعنت في الذين
يعرفهم، ولم يغمزه أحد ‘ابن حبانؒ رواۃ کا تعارف کراتے ہوئے اکثر سختی کرتے ہیں ،
حالانکہ (جس راوی پر انہوں نے سخت جرح کی ہے ) اس پر کسی نے کلام نہیں کیا ہوتا
ہے۔ (آثار الشیخ المعلمی : جلد۱۰ : صفحہ ۷۹۱)
الغرض ان تمام علماء کے کلام کا خلاصہ
یہ ہے کہ ابن حبانؒ جرح میں متشدد ہیں ، اور بقولِ غیرمقلدین بعض روایات میں وہم
یا منکر نقل کرنے سے بھی شدید جرح کردیتے تھے۔
اور عبد الواحد بن نافع ؒ کے معاملہ میں بھی ابن حبانؒ نے تشدد سے کام لیا ہے،
اور اپنی جرح کہ ’عبد الواحد ، اہل حجاز سے الٹی روایات بیان کرتے ہیں ‘ کی بنیاد رافع بن خدیجؓ کی روایت پر رکھی ہے،
جیسا کہ مجروحین کے متن سے ظاہر ہے ، لیکن یہ ان کا صاف تشدد ہے:
۱ – کیونکہ عبد الواحد بن نافع ؒ اس روایت میں منفرد نہیں ہیں ،
بلکہ انکے متابع میں عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ ؒ موجود ہیں جس کی تفصیل آگے
آرہی ہے، جن کو خود ابن حبانؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے ۔ (کتاب الثقات : جلد۷:
صفحہ ۱۱۵) لہذا اس روایت میں جب وہ منفرد ہی نہیں ، تو اسی روایت کی وجہ سے ان
پر ابن حبانؒ کی جرح صحیح نہیں ہے ، اور یہ امام صاحبؒ کا تشدد ہے۔
۲ – اسی طرح امام ابن حبانؒ کی جرح کہ ’
عبد الواحد ، اہل حجاز سے الٹی روایت بیان کرتے ہیں ‘ یہ بھی صحیح نہیں ہے،
کیونکہ صحیح ابن حبان : حدیث نمبر ۱۵۱۵ میں موجود ان کی عبارت سے یہ صاف سمجھ میں آتا
ہے کہ ابن حبان ؒ کے نزدیک رافع بن خدیج ؓ کی سیدھی اور صحیح روایت وہ ہے جس میں
وہ فرماتے ہیں کہ ’ كنا
نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فننحر جزورا، فتقسم عشر قسم، فنأكل لحما
نضيجا قبل أن تغرب الشمس ‘کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ
عصر کی نماز پڑھتے تھے ، پھر اونٹ کو ذبح کرتے ، تو اس کے ۱۰ حصے کرتے ،
پھر غروب آفتاب سے پہلے ہم پکا ہوا گوشت (بھی) کھاتے تھے ۔ (صحیح بخاری : حدیث
نمبر ۲۴۵۸، صحیح ابن حبان : حدیث ۱۵۱۵)، امام بخاریؒ نے اس روایت کو تاخیر
والی روایت کےمقابلہ میں ’أصح‘کہا ہے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری : جلد۵ :
صفحہ ۸۹)، لیکن ان حضرات کا صحیح بخاری کی روایت سے عصر کو
جلد پڑھنے ’تعجیل العصر‘ پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
کیونکہ ان دونوں روایات میں تطبیق ممکن ہے اور وہ یہ کہ صحابہ کرام ؓ اونٹ کو
ذبح کرنے اور اس کے حصےبنانے میں ماہر تھے اور یہ کام وہ تیزی سے انجام دیتے تھے،
اس لئے کہ اس زمانہ میں عرب میں اونٹ اور اس کے گوشت کا کثرت سے استعمال ہوتا تھا
، یہی وجہ ہے کہ امام عینی ؒ (م ۸۵۵ھ) صحیح بخاری کی روایت کے تحت کہتے ہیں :’ قد يجوز أن يكون كانوا
يفعلون ذلك بسرعة عمل، وقد أخرت العصر، فليس في هذا الحديث عندنا حجة على من يرى
تأخير العصر‘کہ (یہ کہنا ) درست ہے کہ صحابہ
کرام ؓ نے عصر کو مؤخر کیا، (اس لئے کہ
) وہ اونٹ کو ذبح کرنے ، اس کے گوشت کو تقسیم کرنے کا کام جلدی سے کرتے تھے، لہذا
ہمارے نزدیک اس حدیث میں ایسی کوئی چیز نہیں ہے ، جو عصر میں تاخیر کرنے والے کے
خلاف حجت ہو ۔ (نخب الافکار: جلد۳ : صفحہ ۴۹۴)
اور پھر امام عینیؒ کی بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ روایت میں رافع
بن خدیج ؓ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے، (كنا
نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر) اور حدیث کا جملہ (فتقسم
عشر قسم)بھی صاف طور سے دلالت
کرتا ہے کہ کم سے کم ۱۰ افراد نے مل کر اونٹ کو ذبح کیا تھا ، تبھی تو دس حصے
بنائیں گے ۔
لہذا سوال یہ ہے کہ کتنی دیر میں دس افراد مل کر اونٹ کو ذبح کرکے، اس کے گوشت
کو دس حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں؟
خاص طور سے جب کہ حدیث سے ثابت ہے کہ
اونٹ کو ذبح کرکے حصہ بنانا صحابہؓ کیلئےبہت آسان اور کم وقت کا کام تھا۔ صحیح
مسلم میں کہ عمرو بن العاص ؓنے مرض الوفات میں اپنے پیٹے اور ساتھوں کو نصیحت کی کہ :
ثم أقيموا حول قبري قدر ما تنحر جزور ويقسم لحمها
جب تم مجھ کو دفن کردو،تو پھر میری قبر کے اطراف اتنی دیر ٹھہرو، جتنی دیر
میں اونٹ کو ذبح کرکے اور اس کے گوشت
کو تقسیم کیا جاتا ہے۔(صحیح مسلم : ج۱: ص ۱۱۲،ترتیب شیخ فوائد عبد الباقی)
یہ روایت صاف طور سے دلالت کررہی ہے کہ صحابہ کرام ؓکےلئے اونٹ کو ذبح کرکے
اور اس کے گوشت کو تقسیم کرنا زیادہ سے
زیادہ’۱۵‘ سے’۲۰ ‘ منٹ کا کام تھا۔
الغرض جب ان تمام نکتوں پر غور کیا جائے ، تو معلوم ہوتا ہے کہ ڈیڑھ گھنٹہ
میں’ ۱۰ ‘افراد کا اونٹ کو ذبح کرکے، اس کے حصے بناکر ، گوشت کو پکاکر اور اس سے
فارغ ہونا کوئی بعید بات نہیں ، خاص طور سے جبکہ وہ تیزی سےکام کرنے والے ہوں ۔
خلاصہ :
نہ عبد الواحد بن نافع ؒ اس روایت میں منفرد ہیں اور نہ ہی انہوں نےاہل حجاز
سےالٹی روایت بیان کی ہے اور جس سیدھی روایت کی وجہ سے ابن حبانؒ نے کہا : وہ اہل
حجاز سے الٹی روایت بیان کرتے ہیں ، وہ سیدھی روایت نہ خود صریح ہے اور نہ ہی ’تعجیل العصر ‘ پر دلالت
کرتی ہے، جس کی تفصیل گزر چکی ۔ (یہی جواب
امام بخاریؒ کے قول کا بھی ہے)
لہذا جب اصل روایت ہی صریح نہیں ہے،
تو ابن حبانؒ کا عبد الواحد بن نافع ؒ پر الٹی روایت بیان کرنے کی جرح بھی غیر
صحیح ہے ، لہذا جرح کے مقابلہ میں ان کی توثیق کو ہی ترجیح حاصل ہے۔
[2]
عبد العزیز بن عقبہ
بن سلمہ الاسلمی ؒ پر امام بخاریؒ اور امام ابو حاتم ؒ کا قول ’ لا يصح حديثه ‘ جرح غیر مفسر ہے،
اور تعدیل ،جرح غیر مفسر پر مقدم ہوتی ہے، جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے ۔
پھر امام ابو حاتم ؒ اور امام بخاریؒ خود غیر مقلدین کے نزدیک متشدد بھی ہیں ۔
(دین الحق : ج۱: ص۳۶۵،نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں: ص ۳۹-۴۰) اور متشدد کی جرح غیرمقلدین کے نزدیک غیر مقبول
ہے۔ (دین الحق : ج۱: ص ۳۶۶)
نیز ، ہماری تحقیق میں امام بخاریؒ نے ۲ وجہوں سے عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ
الاسلمیؒ کے بارے میں کہا کہ ’ لا يصح حديثه ‘ کہ ان کی حدیث صحیح نہیں ہے۔
اول امام بخاریؒ کے
نزدیک یزید بن عمرو الاسلمی کا سماع عبد العزیز بن عقبہ سے مشہور نہیں ہے۔ (التاریخ
الاوسط : جلد۲ : صفحہ ۶۵) اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اس حدیث کو منقطع کہا
ہے۔ (التاریخ الکبیر : جلد۶ : صفحہ ۲۳) ، لیکن اس روایت کو منقطع کہنا صحیح
نہیں ہے، جس کا جواب ان شاء اللہ آگے آرہا ہے۔
دوم امام بخاری ؒ نے رافع بن خدیجؓ کی روایت
’ كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم
العصر، فننحر جزورا، فتقسم عشر قسم، فنأكل لحما نضيجا قبل أن تغرب الشمس ‘کو ’ تعجیل العصر ‘پر محمول
کرکے عبد العزیز بن عقبہ بن سلمہ الاسلمیؒ کی روایت کو غیر صحیح کہا ہے ، کیونکہ
امام بخاری ؒ ۔ التاریخ الکبیر : جلد۵ : صفحہ ۸۹، پر ’ تأخير العصر ‘کی دونوں حدیثوں کو
ذکر کرکے، رافع بن خدیج ؓ کی روایت ’ كنا
نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم العصر، فننحر جزورا، فتقسم عشر قسم، فنأكل لحما
نضيجا قبل أن تغرب الشمس ‘کو ’ اصح ‘کہا ، لیکن اس کی تفصیل گزر چکی ہے کہ یہ اونٹ والی رافع بن
خدیج ؓ کی روایت عصر کی نماز جلدی پڑھنے پر دلالت نہیں کرتی، لہذا ان دونوں وجوہات
کی وجہ سے امام بخاریؒ کی جرح غیر صحیح ہے ۔ واللہ اعلم
[3]
اعتراض
:
امام بخاری ؒ نے
کہا کہ : یزید بن عمرو الاسلمی کا سماع عبد العزیز بن عقبہ سے مشہور نہیں ہے۔ (
التاریخ الاوسط : جلد۲ : صفحہ ۶۵) اور اس
حدیث کو منقفع کہا ہے۔ (التاریخ الکبیر : جلد۶ : صفحہ ۲۳)
الجواب
:
سند کے
اتصال کی شرط :
امام بخاریؒ کے
نزدیک استاد اور شاگرد کے درمیان معاصرت کے ساتھ ساتھ ثبوت سماع بھی شرط ہے ، لیکن امام مسلم ؒ اور دوسروں کے
نزدیک استاد اور شاگرد کے درمیان صرف معاصرت بھی کافی ہے، سند کے متصل ہونے کیلئے
ثبوت سماع شرط نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم کے مقدمہ میں امام
بخاریؒ کے اس اصول کا رد کیا ہے۔تفصیل کے لئے دیکھئے مقدمہ صحیح مسلم،موقف
الامامین البخاری ومسلم من اشتراط اللقیا والسماع : ص ۵۱۔
لہذا راجح اصول کے
مطابق ، یہ روایت متصل اور حسن درجہ کی ہے ۔ واللہ اعلم
[4]
غیر
مقلدین کے نزدیک حماد بن سلمہ ؒ کا مختلط ہونا ثابت نہیں ہے ، چنانچہ کفایت اللہ
سنابلی صاحب لکھتے ہیں کہ حماد بن سلمہ پر اختلاط کا الزام مردود ہے۔ (انوار
البدر : صفحہ ۲۲۶)
نیز ، زبیر علی
زئی صاحب نے یہ اصول بتایا ہے کہ محدثین کی تصحیح سےراوی کا اپنے مختلط شیخ سے قبل
الاختلاط سماع ثابت ہوتا ہے۔ (دین میں تقلید کا مسئلہ : صفحہ ۳۶)’ موسى بن إسماعيل حدثنا حماد بن سلمة‘ کی سند
کو امام بخاریؒ ، امام حاکم ؒ، امام ذہبیؒ، امام ضیاء الدین مقدسیؒ ، امام ابو عوانہ ؒ ، امام ابو نعیم ؒ اور شیخ
البانیؒ نے صحیح اور حسن کہا ہے۔ (جزء رفع الیدین : ترجمہ زبیر علی زئی : صفحہ
، المستدرک للحاکم مع التلخیص للذہبی : جلد۲ : صفحہ ۱۲۳، حدیث ۲۵۳۱، الحدیث
المختارۃ : جلد۲ :صفحہ ۲۵۳، صحیح ابی عوانہ : حدیث ۶۷۸۳، المستدرک علی صحیح مسلم
لابی نعیم : جلد۱ : صفحہ ۱۴۷، سنن ابی داؤد ، بتحقیق البانی : حدیث نمبر ۳۷۲)، زبیر علی زئی صاحب نے ’ موسى بن إسماعيل حدثنا حماد بن سلمة ‘ کی حدیث کے
بارے میں کہا کہ : حماد ؒ نے یہ حدیث اختلاط سے پہلے بیان کی ہے۔ (جزء رفع
الیدین ، ترجمہ زبیر علی زئی : صفحہ ۷۴)، یعنی علی زئی صاحب کے نزدیک موسیٰ بن اسماعیل نے حماد بن
سلمہ ؒ سے اختلاط سے پہلے روایت کیا ہے، لہذا غیر مقلدین کے اپنے ہی اصول سے موسیٰ
بن اسماعیل ؒ کا سماع حماد بن سلمہ ؒ سے ان کے اختلاط سے پہلے ثابت ہوتا ہے،
لہذااس روایت میں بھی حماد بن سلمہؒ کے مختلط ہونے کا اعتراض ، خود اہل حدیثوں کے
اپنے ہی اصول سے مردود ہے۔
[5] نمازِ عصر کے وقت سے متعلق ، امام محمدؒ نے امام ابو حنیفہ
ؒ کا قول بیان کرتے ہوئے جو الفاظ تحریر
کئے ہیں ، یہی الفاظ حضرت عمرؓ نے حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کو خط میں تحریر فرمائے
تھے : أن عمر بن الخطاب، كتب إلى أبي موسى
الأشعري : أن صل ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ والعصر والشمس بيضاء نقية قبل أن تدخلها صفرة۔ (مؤطا
مالک : حدیث ۱۰ ) اس کی سند ’’ مالك، عن عمه أبي سهيل بن مالك، عن أبيه ‘‘
صحیحین کی شرط پر ہے۔
[6]
امام ابن خزیمہ ؒ کی شرط کا دفاع کرتے ہوئے، زبیر علی
زئی صاحب کہتے ہیں کہ صحیح ابن خزیمہ کی وہ تمام روایات ، جنہیں امام ابن خزیمہؒ
نے روایت کرکے جرح نہیں کی، امام ابن خزیمہ ؒ کے نزدیک صحیح ہیں ، لیکن یہ ضروری نہیں کہ
اس تصحیح کے ساتھ ہر عالم متفق ہو۔ (فتاویٰ علمیہ : جلد۲ : صفحہ ۳۰۴)
لہذا خود غیر
مقلدین کے اصول کی روشنی میں عرض ہے کہ :
یہی مطلب امام ابو
داؤد ؒ کے سکوت کا بھی ہے کہ سنن ابی داؤد کی وہ تمام روایات ، جنہیں امام ابو
داؤدؒ نے روایت کرکے جرح نہیں کی ، امام ابو داؤد ؒ کے نزدیک صحیح اور صالح ہیں ،
لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس تصحیح کے ساتھ ہر عالم متفق ہو، امید ہے کہ غیرمقلدین
امام ابو داؤد ؒ کے سکوت پر اعتراض کرنے سے باز
رہیں گے۔
[7]
امام ابو علی ابن السکنؒ ( م ۳۵۳ھ) ، امام ابو عبد اللہ بن مندہؒ (م ۳۹۵ھ) ، امام حاکم ؒ (م ۴۰۵ھ) نے سنن ابی داؤد پر صحت کا حکم لگایا ہے،
جیسا کہ امام ابن حجرؒ نے نقل کیا ہے، اسی طرح امام ابو طاہر سلفیؒ نے کہا کہ :
مشرق ومغرب کے علماء (جن میں وہ خود بھی شامل ہیں ) کا کتبِ خمسہ ( جن میں سنن ابی
داؤد بھی شامل ہے ) کی صحت پر اتفاق ہے۔
ان عبارتوں کا
مطلب ، اہل حدیثوں کے اپنے اصول کی روشنی میں یہی ہے کہ یہ تصحیحات مذکورہ محدثین
کے نزدیک درست ہیں ، باقی ہر عالم کا اس
سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
[8] نوٹ : غلام مصطفٰی ظہیر
صاحب نے علامہ عبد الحی لکھنوی ؒ کے حوالہ سے جو تاویل نقل کی ہے(السنہ : ش ۲۰:
ص ۱۱) ، وہ باطل اور مردود ہے۔اس لئے
کہ مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں صراحت ہیں کہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ
عصر کی نماز مؤخر کیا کرتے تھے۔ اور خود ظہیر صاحب کے مسلک کا اصول ہے کہ حدیث خود حدیث کی وضاحت کرتی ہے۔
(نور العینین : ص ۱۲۰) لہذا حضرت ابو ہریرہ کے نزدیک یہی ہے کہ عصر کی نماز دو مثل پر پڑھنی چاہئے۔
[9] اعتراض
:
غلام
مصطفٰی ظہیر صاحب کہتے ہیں کہ ابو اسحاق السبیعی ؒ کی تدلیس کی وجہ سے ضعیف
ہے۔ (مجلہ السنہ : ش۲۰: ص ۱۲)
الجواب
:
امیر المومنین فی الحدیث امام ابو الحسن الدارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ) نے
کہا : ’’ أبو إسحاق ربما
دلس ‘‘ ابو اسحاق السبیعی ؒ کبھی کبھار تدلیس کرتے ہیں۔ (الإلزامات والتتبع : ص۳۶۳)، امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ) بھی فرماتے
ہیں کہ ’’کان أبو إسحاق ربما دلس ‘‘ابو اسحاق سبیعی ؒ کبھی کبھار تدلیس کرتے تھے۔امام البیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) بھی کہتے ہیں کہ ’’ أبا إسحاق ربما دلس ‘‘ابو اسحاق کبھی کبھار تدلیس کرتے ہے۔امام مغلطائی ؒ (م۷۶۲ھ ) نے
بھی یہی بات نقل کی ہے۔ (شرح ابن ماجہ : ص ۷۳۴،انوارالطریق : ص۸)
یعنی امام
ابو اسحاق سبیعیؒ(م۱۲۹ھ) قلیل التدلیس ہیں،اور قلیل التدلیس کی
’’معنعن حدیث‘‘ خود غیرمقلدین کے نزدیک قابل قبول ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۳: ص
۲۴۲،نیز دیکھئے ص۲۴۶) لہذا غلام صاحب کا اعتراض باطل اور مردود ہے۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں