دعاء استفتاح میں’’ ثناء ‘‘ پڑھنا مسنون ہے۔
-مفتی ابن اسماعیل المدنی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر10
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
نبی اکرم ﷺسےتکبیر تحریمہ کے بعد مختلف دعائیں پڑھنا منقول ہے، جن میں سے ایک
مشہور دعاء یہ ہے :
سبحانك
اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك۔
نوٹ:
مسائل نماز سے متعلق ،اردو کتابوں میں اس دعاء مأثورہ کو
’’ثناء‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ، اختصار کے پیش نظر ، آئندہ پوری دعاء نقل کرنے کی
بجائے ، ہم صرف ثناء لکھیں گے۔
جمہور علماء کرام
کے نزدیک استفتاح صلاۃ کے موقع پر
یہی دعاء پڑھنا مختار وپسندیدہ ہے۔
امام ترمذیؒ (م۲۷۹ھ) فرماتے ہیں :
وأما أكثر أهل العلم، فقالوا: إنما يروى عن النبي صلى
الله عليه وسلم أنه كان يقول: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك وهكذا روي عن عمر بن
الخطاب وعبد الله بن مسعود والعمل على هذا
عند أكثر أهل العلم من التابعين وغيرهم۔
اکثر اہل علم کہتے
ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے منقول ہے کہ آپ ﷺ سبحانک اللہ الخ یعنی’’ثناء‘‘ پڑھتے تھے ،
اسی طرح حضرت عمرؓ اور حضرت ابن مسعودؓ سے بھی مروی ہے۔ تابعین و غیر تابعین میں
سے اکثر اہل علم کا عمل اسی پر ہے۔ (سنن ترمذی : حدیث ۲۴۲)
عرب عالم شیخ محمد نعيم
ساعي
کہتے ہیں :
مسألة (۲۱۴) جمهور أهل العلم على أن المستحب في دعاء
الاستفتاح هو "سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك وتعالى جَدُّكَ ولا إله
غيرك". وبه قال عمر بن الخطاب وعبد الله بن مسعود والثوري وإسحاق وأبو حنيفة
وأصحابه.
قلت: وهو مذهب أحمد -رحمه الله- تعالى.
مسئلہ نمبر (۲۱۴) جمہور اہل علم کے
نزدیک دعاء استفتاح میں ثناء پڑھنا مستحب ہے ، یہی حضرت عمر بن الخطاب ؓ ، عبد
اللہ بن مسعودؓ ، سفیان ثوریؒ ، اسحاق بن راھویہؒ ، امام ابو حنیفہؒ اور آپ کے
شاگردوں کا بھی قول ہے۔
میں کہتا ہوں یہی
امام احمدؒ کا بھی مذہب ہے۔ (موسوعۃ
مسائل الجمہور : فی الفقہ الاسلامی : ۱/۱۵۴ ، مسئلۃ: ۲۱۴)
دعاء استفتاح میں’’
ثناء ‘‘ پڑھنے کے دلائل درجِ ذیل ہیں :
دلیل نمبر ۱ :
قرآن کریم سے دلیل :
اللہ تبارک وتعالیٰ
کا ارشاد ہے :
’’وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ حِينَ
تَقُومُ‘‘
اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح بیان کیجئے جب آپ کھڑے
ہوں۔ (سورہ طور : ۴۸)
امام ابن کثیرؒ (م۷۷۴ھ) اور دوسرے مفسرین نے اس کی
تفسیر میں کئی اقوال نقل کئے ہیں ، جن میں سے ایک قول یہ ہے کہ : جب آپ نماز کیلئے
کھڑے ہوں تو’’ثناء ‘‘ پڑھیے۔
یہ تفسیر امام
ضحاک بن مزاحم الہلالیؒ (م۱۰۶ھ)، امام ربیع بن انس البکریؒ(م۱۴۰ھ) اور عبد الرحمن بن زید بن اسلم ؒ (م۱۸۲ھ) وغیرہ
مفسرین سے منقول ہے۔ امام عز بن عبد السلامؒ (م۶۶۰ھ)،امام حافظ الدین
نسفیؒ (م۷۱۰ھ) نے بھی یہی تفسیر فرمائے ہیں۔
امام ابن کثیرؒ (م۷۷۴ھ) فرماتے ہیں
:
وقوله تعالى: وسبح بحمد ربك حين تقوم قال الضحاك: أي
إلى الصلاة. سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك . وقد روي مثله عن الربيع بن أنس
وعبد الرحمن بن زيد بن أسلم وغيرهما۔
(تفسیر ابن کثیر : ۷/۴۰۷، ط
العلمیۃ ،الدر المنثور : ۷/۶۳۷،تفسیر
القرآن الکریم للمقدم : ۱۴۴/۱۰،مصنف ابن ابی
شیبۃ :حدیث نمبر ۲۴۱۷،تفسیر العز بن
عبد السلام : ج۳: ص ۲۴۱،تفسیر النسفی :
ج۳: ص ۳۸۸)
وغیرھم۔[1]
دلیل نمبر ۲ :
احادیث سے دلائل:
حضرت نبی اکرم ﷺ اور کئی صحابہ کرام ؓ سے ، نماز کے شروع میں اس دعاء کو پڑھنا
ثابت ہے :
امام ابو الحسن الدارقطنیؒ (م۳۸۵ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثنا
محمد بن نوح الجنديسابوري , ثنا هارون بن إسحاق , ثنا ابن فضيل , وحفص بن غياث , عن الأعمش , عن إبراهيم , عن الأسود قال: كان عمر رضي الله
عنه إذا افتتح الصلاة , قال: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك
ولا إله غيرك يسمعنا ذلك ويعلمنا۔
حضرت
اسودؒ کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نماز کے شروع میں ثناء پڑھتے تھے ، ہمیں سناتے اور سکھاتے تھے۔ (سنن دارقطنی :
ج۲: ص ۶۵،حدیث نمبر ۱۱۵۳،ولفظہ لہ ،مسلم : ۳۹۹،مصنف عبد الرزاق : ۲/۷۵، رقم ۲۵۵۷)
سند کی تحقیق :
(۱) امام ابو
الحسن الدارقطنیؒ (م۳۸۵ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام)
(۲) محمد
بن نوح الجنديسابوري الفارسیؒ (م۳۲۱ھ) الامام ، الحافظ
،
الثبت
۔ (سیر : جلد۱۵ : صفحہ ۳۴ ، رقم ۱۸)
(۳) هارون
بن إسحاق الھمدانیؒ (م۲۵۸ھ) : صدوق ۔ (تقریب :
رقم ۷۲۲۱) وقال الذھبیؒ : حافظ ثقۃ ، متعبد۔(الکاشف)
(۴) محمد
بن فضيل بن غزوانؒ (م۱۹۵ھ) : صدوق
، عارف ۔ (تقریب : ۶۲۲۷) ، وقال الذھبیؒ ۔ ثقہ شیعي ۔ (الکاشف)
(۵) حفص
بن غياث : ثقة
فقيه تغير حفظه قليلا فى الآخر۔ (تقریب : ۱۴۳۰)
(۶) أما
الأعمشؒ
(م۱۴۸ھ)
(۷)
و إبراهيم بن یزید النخعی ؒ (م۹۶ھ)
(۸) و
الأسود بن یزید النخعیؒ (م۷۵ھ) فأئمۃ
ثقات مشھورون ۔ (دیکھئے تقریب لابن حجر،الکاشف للذہبی)[2]
(۹) عمر بن
خطابؓ (م۲۲ھ) مشہور صحابی رسول،
امیر المومنین اور خلفاء راشدین
میں سے ہے۔
حافظ
ابن کثیرؒ (م۷۷۴ھ) نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے۔(مسند الفاروق : ج۱ : ص
۱۶۷)
اس سے حضرت عمرؓ
کا نماز کے شروع میں اس دعاء کے پڑھنے اور اس کے سکھانے کے اہتمام کا اندازہ لگایا
جاسکتا ہے۔ حضرت عمرؓ اسے تعلیم دینے کی
غرض سے بآواز بلند پڑھتے ،جیساکہ دارقطنی کی روایت گزرچکی۔
حضرت عمرؓ کا یہ اثر حکماً مرفوع ہے :[3]
غیر مقلد عالم ومحدث
شیخ البانیؒ لکھتے ہیں :
ولقد بلغ اهتمام عمر الفاروق بإذاعة هذا الحديث
وتبليغه إلى الناس إلى درجة أنه كان يرفع صوته بما فيه ليتعلمه الناس۔ ۔۔۔۔ وهو
يعلم أن السنة الإسرار بدعاء الاستفتاح حرصا منه على تعليمهم۔
حضرت عمر فاروق ؒ
کو اس حدیث شریف کی اشاعت اور لوگوں تک اسے پہنچانے کا اس درجہ اہتمام تھا کہ اس
میں ذکر کردہ دعاء کو بآواز بلند پڑھتے ، تاکہ لوگ اسے سیکھیں ، حالانکہ آپ
ؓجانتے تھے کہ دعاء استفتاح کو پست آواز سے پڑھنا سنت ہے ، (لیکن) لوگوں کو تعلیم
دینے کی حرص میں (آپ اسے زور سے پڑھتے )۔ (سلسلہ صحیحہ : ۶/۱۲۵۷، رقم ۲۹۹۶)
سلفی عالم شیخ ابو عبد الرحمن عبیلانؒ کہتے کہ:
قال شيخ الإسلام رحمه الله: وأيضا؛ فقد
كان عمر -رضي الله عنه - يجهر بسبحانك اللهم وبحمدك، يعلمها الناس، ولولا أن النبي
- صلى الله عليه وسلم - كان يقولها في الفريضة، ما فعل ذلك عمر، وأقره المسلمون ۔
شیخ الاسلام ابن
تیمیہ ؒ (م۷۲۸ھ)کہتے ہیں کہ:
اور یہ بھی کہ ، حضرت عمرؓ ثناء زور سے
پڑھتے تھے ، لوگوں کو اس کی تعلیم دیتے ،
اگر نبی اکرم ﷺ اس دعاء کو فرض نمازوں
میں نہ پڑھا کرتے ، تو حضرت
عمرؓ اس دعاء کو بآواز بلند نہ پڑھتے اور
نہ مسلمان (صحابہ کرام و تابعین عظام) انہیں اس پر باقی رکھتے۔ (مجموع الفتاویٰ : ۲۲/۳۴۴، رد الجمیل عن إرواء الغلیل : صفحہ ۲۳۰)
اس سے معلوم ہوا کہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ کے نزدیک ، فرض نمازوں میں
ثناء پڑھنا ، نبی اکرم ﷺ کی عادت مستمرۃ تھی۔
دلیل نمبر ۳ :
امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) فرماتے
ہیں کہ
حدثنا محمود بن محمد الواسطي، ثنا زكريا بن يحيى زحمويه، ثنا الفضل بن موسى السيناني، عن حميد الطويل،عن أنس بن مالك، رضي
الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استفتح الصلاة قال: سبحانك
اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك،
وتعالى جدك، ولا إله غيرك۔
خادم رسول اللہ ﷺ حضرت انس بن مالکؓ
فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ
جب نماز شروع فرماتے تو ’’ ثناء ‘‘ پڑھتے۔
(الدعاء الطبرانی: صفحہ ۱۷۳، رقم
الحدیث ۵۰۶)
سند
کی تفصیل :
(۱) امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) مشہور
ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام)
(۲) محمود بن محمد الواسطيؒ (م۳۰۷ھ) بھی ثقہ ہیں۔
(الدلیل المغنی: صفحہ ۴۵۱، رقم الترجمہ: ۵۰۰)
(۳) زكريا بن يحيى
زحمويهؒ
(م۲۳۵ھ) بھی
ثقہ راوی ہیں۔ (الکامل فی الضعفاء : ۲/۳۰۵، فی
ترجمۃ ثابت بن موسیٰ الکوفی : رقم الترجمۃ ۳۰۷۔ وایضاً : ۷/۵۶۸، فی
ترجمۃ ابی الحسن الباھلی المؤدب ، رقم : ۱۷۹۲،ذیل
میزان الاعتدال : صفحہ ۱۰۷، رقم الترجمہ
۳۹۱،لسان
۲/۴۸۴، فی
ترجمۃ زکریا الملقب بخراب،مصباح الاریب :
۱/۴۶۵،
رقم
۹۹۳۸،کتاب
الثقات للقاسم : ج۴: ص ۳۲۹)
(۴) الفضل
بن موسى
السيناني المروزیؒ
(م۱۹۲ھ) صحیحین کے راوی اور ثقۃ ، ثبت
ہیں۔ (تقریب : ۵۴۱۹)
(۵) حميد
الطويل البصریؒ(م۱۴۳ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقۃ ، مدلس
ہیں۔ (تقریب : ۱۵۴۴)[4]
(۶) انس بن مالکؓ (م۹۳ھ)
مشہور صحابی رسول ہیں۔
لہذا
یہ سند صحیح ہے۔ [5]
دلیل نمبر ۴ :
امام ابو یعلی موصولی ؒ (م۳۰۷ھ) فرماتے ہیں
کہ
حدثنا
الحسين بن الأسود، حدثني محمد بن الصلت، حدثنا أبو خالد الأحمر، عن حميد، عن أنس قال: كان رسول الله صلى الله عليه
وسلم إذا افتتح الصلاة كبر ورفع يديه حتى يحاذي بإبهاميه أذنيه، ثم
يقول: سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك،
وتعالى جدك، ولا إله غيرك۔
(ترجمہ کرنا ہے)۔
سند کی
تحقیق :
(۱) امام ابو یعلی موصولی ؒ (م۳۰۷ھ) مشہور
ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۴۳۰)
(۲) الحسین بن علی
بن الاسود،ابو عبد اللہ العجلیؒ (م۲۵۴ھ)
صدوق ہیں۔
امام ابوحاتم ؒ نے
ان کو صدوق کہا اور ان سے روایت لی ہے۔اسی طرح حافظ بن الجوزیؒ،حافظ ابن عبد
الہادیؒ ،امام موفق الدین ابن قوامہؒ نے ان ثقہ قرار دیا ہے۔امام ابن حبان نے ثقات
میں شمار کیا اور کہا کہ وہ کبھی کبھی
غلطی کرتے ہے۔ اور ان سے اپنی صحیح میں روایت بھی نقل کی ہے۔اسی طرح کبار محدثین
مثلاً امام ابوداودؒ،امام بقی بن مخلدؒ وغیرہ حضرت نے الحسین سے روایت لی ہے۔ اور امام
ابو داودؒ،امام بقی بن مخلدؒ اپنے نزدیک
صرف ثقہ سے روایت لیتے ہیں۔جیساکہ غیرمقلدین کا اصول ہے۔(اتحاف النبیل : ج۲ : ص
۹۲،۱۲۷،من لایروی الا عن ثقۃلابی عمرو الوصابی: ص ۲۲۶،۲۴۷) محمد بن عبد اللہ بن نمیرؒ
کہتے ہیں کہ مجھے امید ہے کہ وہ صدوق ہیں،امام دارقطنیؒ نے بھی ان کوثقہ کہا ہے۔(التَّراجِمُ
السَّاقِطَةُ مِنْ كِتَابِ إِكْمَال تَهْذِيبَ الكَمَال لمُغْلَطَاي : ص
۱۵۳، التذييل علي كتب الجرح والتعديل: ص ۷۸،شرح ابن
ماجہ للمغلطائی : ص ۱۳۶۵،تنقیح التحقیق لابن عبد الھادی : ج۲ : ص ۱۵۲،شرح ابو داود
للعینی:
ج۳ : ص۱ ۳۹،عمدۃ القاری : ج۵ : ص ۲۹۶،نخب الافکار : ج۳: ص ۵۳۰)
حافظ ابن تیمیہؒ
نے اس سند کو مضبوط اور حافظ مغلطائی نے صحیح کہا ہے۔(شرح عمدہ لابن تیمیہ :
صفۃ الصلاۃ : ص۸۰ ،شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص
۱۳۶۵)یعنی
حافظ ابن تیمیہؒ اور حافظ مغلطائی کے نزدیک بھی الحسین
بن علی بن الاسود،ابو عبد اللہ العجلیؒ (م۲۵۴ھ)
ثقہ ہیں،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔()
لہذا الحسین بن علی بن الاسود،ابو عبد اللہ العجلیؒ (م۲۵۴ھ) صدوق
اور حسن الحدیث ہیں۔واللہ اعلم
(۳) محمد بن الصلت الاسدیؒ (م۲۲۰ھ) صحیح بخاری کا راوی
اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۹۷۰)
(۴) ابو خالد الاحمر ؒ (م۱۹۰ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق و
حسن الحدیث ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب : ج۲ : ص ۶۵) [6]
(۵) حميد الطويل البصریؒ(م۱۴۳ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۶) انس بن مالکؓ (م۹۳ھ)
مشہور صحابی رسول ہیں۔
لہذا یہ سند حسن ہے۔
اور حافظ
ابن تیمیہؒ نے اس سند کو مضبوط اور حافظ مغلطائی نے کو صحیح کہا جیسا کہ حوالے گزرچکے۔
دلیل نمبر ۵ :
امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) فرماتے
ہیں کہ
حدثنا أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني، ثنا
أبو الأصبغ عبد العزيز بن يحيى الحراني، ثنا
مخلد بن يزيد، عن عائذ بن شريح، عن
أنس بن مالك، رضي الله عنه أن النبي صلى الله
عليه وسلم كان إذا استفتح الصلاة يكبر ثم يقول سبحانك اللهم وبحمدك،
وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا
إله غيرك ۔(الدعاء للطبرانی: حدیث نمبر ۵۰۵،والفظہ لہ،المعجم
الاوسط للطبرانی: ج۳ : ص ۲۴۲،حدیث نمبر ۳۰۳۹)
اس
سند کی تفصیل :
(۱) امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۲) أبو عقيل أنس بن سلم الخولاني صدوق راوی ہیں ۔ (إرشاد القاصی
والدانی إلی تراجم شیوخ الطبرانی : ص۲۱۹،
رقم ۲۹۱)
(۳) أبو الأصبغ
عبد العزيز بن يحيى الحرانی ؒ (م۲۳۵ھ) سنن ابو داود اور
نسائی کے راوی اور صدوق ہیں۔ (قال
ابن حجر : صدوق ربما وھم تقریب : ۴۱۳۰،
وقال الذھبیؒ : ثقۃ ،الکاشف)
(۴) مخلد
بن یزید القرشی ابو یحییٰ ؒ (م۱۹۳ھ) صحیحین کے راوی اور کے راوی اور صدوق ہیں ۔(قال
ابن حجر : صدوق لہ أوھام تقریب : ۶۵۴۰،
وقال الذھبیؒ : ثقۃ ،الکاشف)
(۵) عائذ بن شریح امام ابن عدی ؒ کے نزدیک صدوق یا ثقہ ہیں۔(الکامل
: ج۱: ص۹۰) جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(انوار البدر : ص ۲۲۴)
امام
ذہبیؒ فرماتے ہیں :
قال أبو حاتم: في حديثه ضعف،قلت:
ما هو بحجة، ولا،
وجدته في كتب الضعفاء.
امام ابو حاتم ؒ
فرماتے ہیں ان کی حدیث میں ضعف ہے ، امام ذہبیؒ فرماتے ہیں نہ وہ حجت ہیں اور نہ
میں نے انہیں ضعفاء کی کتاب میں پایا ۔ (تاریخ الاسلام : جلد۴ : صفحہ ۹۲ ، رقم
۱۱۷) حافظ ہیثمی ؒ نے ان کو ثقہ
بتلایا ہے۔(مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۲۶۲۲)
امام ابن حبان ؒ
نے بھی ان کو معتبر بتا یا ہے،جب کہ وہ
ثقات کی موافقت کریں۔(المجروحین لابن حبان : ج۲: ص ۱۹۲-۱۹۳) اور یہاں بھی
انہوں نے ثقہ(حمید الطویلؒ) کی موافقت
فرمائی ہے۔خلاصہ عائذ بن شریحؒ اس روایت میں صدوق اور مقبول ہے۔
(۶) انس بن مالکؓ (م۹۳ھ)
مشہور صحابی رسول ہیں۔
لہذا یہ سند حسن ہے۔ اور حمید الطویل ؒ پر تدلیس کا الزام بھی مردود ہے۔
دلیل نمبر ۶ :
امام
ابو داودؒ (م۲۷۵ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثنا حسين بن
عيسى،
حدثنا طلق بن غنام، حدثنا عبد
السلام بن حرب الملائي، عن بديل بن
ميسرة، عن
أبي الجوزاء، عن عائشة،
قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استفتح الصلاة،
قال: سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك
وتعالى جدك، ولا إله غيرك۔
حضرت عائشہ ؓ
فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
جب نماز شروع فرماتے تو ثناء پڑھتے ۔ (سنن ابی داؤد : حدیث نمبر ۷۷۶، والفظہ لہ،المستدرک:۱/۳۶۰،حدیث نمبر۸۵۹)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
ابو داودؒ (م۲۷۵ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور صاحب سنن ہیں۔(تقریب :
رقم ۲۵۳۳)
(۲) حسین
بن عیسیٰ الطائیؒ (م۲۴۷ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق ، صاحب حدیث ہیں ۔
(تقریب : ۱۳۴۰)
(۳) طلق
بن غنّام النخعیؒ (م۲۱۱ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب :
۳۰۴۳)
(۴) عبد
السلام بن حرب
الملائيؒ
(م۱۸۷ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ ہیں ۔ (تقریب : ۴۰۶۷)
(۵) بدیل
بن میسرۃ العقیلی البصریؒ (م۱۳۰ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب : ۶۴۶)
(۶) ابو
الجوزاء أوس بن عبد اللہ الربعيؒ(م۸۳ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب
: ۵۷۷)
(۷) عائشۃ: أم
المؤمنین الصدیقۃ بنت الصدیق حبیبۃ حبیب اللہ المبرأۃ من فوق سبع سماوات رضی اللہ
عنھا وأرضاھا۔
معلوم ہوا اس سند
کے تمام روات ثقہ ہیں ۔
اورحافظ عراقیؒ(م۸۰۶ھ)بھی
اس حدیث کے روات کو ثقہ کہتے ہے۔امام ابو
عبد اللہ الحاکمؒ (م۴۰۵ھ) اور حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے اس حدیث کو شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔( المستخرج علی المستدرك للحاكم للعراقی : ص ۷۲،المستدرک للحاکم مع تلخیص للذہبی :ج۱: ص۳۶۰،حدیث نمبر۸۵۹) امام ابو نعیم اصبہانیؒ (م۴۳۰ھ) کہتے ہیں کہ ’’
هذا حديث ثابت مشهور ‘‘
یہ حدیث
ثابت اور مشہور ہے۔(حلیۃ الاولیاء : ج۳ : ص ۸۱)، حافظ ضیاء الدین
مقدسیؒ (م۶۴۳ھ) کہتے ہیں کہ’’ رواية ما علمت فيهم مجروحًا ‘‘
میں اس حدیث میں ایسی کوئی علت نہیں جانتا جو اس کو مجروح کرتی ہو۔(شرح
ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۳۶۳)،امام الحسین بن محمود مظہر الدین الزیدانیؒ(م۷۲۷ھ)
کہتے ہیں کہ’’لكنه حديثٌ حسنٌ عالي الإسناد قويٌّ عند أكثرهم ‘‘ لیکن اکثر محدثین کے نزدیک یہ حدیث حسن،عالی سند والی، قوی ہے۔(المفاتیح
شرح المصابیح : ج۲ : ص ۱۲۳)،امام ،فقیہ ابن مالک الکرمانیؒ (م۸۵۴ھ) نے
بھی یہی بات کہی ہے۔( شرح مصابيح : ج۱: ص ۴۸۹)، امام ابو عبد اللہ فضل
اللہ التُّورِبِشْتِي ؒ (م۶۶۱ھ) بھی
کہتےہیں کہ ’’ هو حديث حسن مشهور ‘‘ یہ
مشہور، حسن حدیث ہے۔(الميسر في شرح مصابيح السنة : ج۱
: ص ۲۳۵)،حافظ ابن
حجرؒ بھی اس حدیث کو حسن کہتےہے۔(نتائج الافکار : ج۱: ص۴۰۸)[7]
دلیل نمبر ۷ :
امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثنا حسن بن الربيع قال: حدثنا جعفر بن
سليمان، عن علي بن علي، عن أبي المتوكل، عن أبي سعيد الخدري
قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة قال: سبحانك اللهم وبحمدك،
وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا
إله غيرك۔
حضرت ابو سعید خدریؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب نماز شروع فرماتے تو یہ (دعاء)
پڑھتے: سبحانك اللهم
وبحمدك،
وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا
إله غيرك۔ (مسند احمد :ج۱۸: ص۱۹۹،، والفظہ
لہ
،سنن الترمذی : ۲۴۲،سنن ابی داؤد : ۷۷۵)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱ھ) مشہور
ثقہ،امام ہیں۔
(۲) حسن
بن الربيع البجلیؒ (م۲۲۱ھ) صحیحین کے راوی
اور ثقہ ہیں ۔ (التقریب : ۱۲۴۱)
(۳) جعفر
بن سليمان الضبعیؒ (م۱۷۸ھ)صحیح مسلم کے راوی اور صدوق زاہد ہیں۔ (التقریب : ۹۴۲)
(۴) علي
بن علي الرفاعیؒ سنن اربع کے راوی
اور وہ بھی متعبر ہے ۔ (التقریب : ۴۷۷۳)
(۵) أبو
المتوكل
الناجیؒ (م۱۰۸ھ) صحیحین کے راوی
اور ثقہ ہیں ۔ (التقریب : ۴۷۳۱)
(۶) أبو
سعيد الخدري ؓ صحابی مشہور ہے۔(تقریب )
یہ سند حسن ہے۔ حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ)کہتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔(نتائج الافکار : ج۱ :
ص۴۱۲-۴۱۴)، حافظ ہیثمیؒ(م۸۰۷ھ) کہتے ہیں کہ اس کے رجال ثقہ ہیں۔(مجمع
الزوائد : حدیث نمبر ۳۵۹۳)، امام عینیؒ (م۸۵۵ھ) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث
صحیح ہے۔(نخب الافکار : ج۳: ص ۵۲۱)
نیزسلفی علماء
مثلاً شیخ الالبانیؒ،شیخ احمد شاکرؒ،شیخ
زبیر علی زئی،شیخ محمد بن آدم الإثيوبي الوَلَّوِي وغیرہ
نے بھی اس حدیث کی تصحیح فرمائے ہیں۔(سنن الترمذی :حدیث نمبر ۲۴۲،بتحقیق
الالبانی، سنن الترمذی :ج۱ : ص۱۱۲،تحقیق احمد شاکر،مشکاۃ المصابیح ،تحقیق زبیر علی زئی: حدیث نمبر ۱۲۱۷،ذخيرة العقبى في شرح المجتبى:ج۱۱: ص۳۸۲)[8]
دلیل نمبر ۸ :
امام ابن الاعرابیؒ (م۳۴۰ھ) فرماتے
ہیں :
نا محمد بن بشر بن مطر أخو خطاب القاضي، نا
أحمد بن حاتم الطويل، نا علي بن عابس، عن
أبي إسحاق، عن أبي عبيدة، عن
عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم
وأبا بكر، وعمر كانوا يستفتحون الصلاة۔
حضور ﷺ،حضرت ابو
بکر ، حضرت عمر نماز کے شروع میں ثناء پڑھتے تھے ۔ (معجم ابن الاعرابی : جلد۱ :
صفحہ ۳۶۳، رقم ۷۰۳)
سند کی تحقیق :
(۱) احمد
بن محمد ابو سعید ابن الاعرابیؒ (م۳۴۰ھ)
مشہور ثقہ،امام، مکثر ہیں۔ (تاریخ الاسلام: ج۷ :ص ۷۳۳، رقم ۳۰۷،الدلیل
المغنی: صفحہ ۱۲۴، رقم الترجمۃ : ۸۸)
(۲) محمد
بن بشر ابو بکر البغدادی الوراقؒ (م۲۸۵ھ) ثقہ ہیں
۔ (تاریخ الاسلام :ج ۶: ص۸۰۰، رقم ۴۲۰)
(۳) احمد
بن حاتم بن یزید الطویل ؒ (م۲۲۷ھ) بھی ثقہ ہیں
۔ (تاریخ الاسلام :ج ۵: ص ۵۰۵، رقم ۳)
(۴) علی
بن عابس الازدی الکوفی ضعیف ہے ۔ (تقریب
:۴۷۵۷)
لیکن امام ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ) یہی
روایت[9]
ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ :
ولعلي بْن عابس أحاديث حسان ويروي عن أبان بن تغلب
وعن غيره أحاديث غرائب، وهو مع ضعفه يكتب حديثه۔
ان سے حسن حدیثیں
بھی (مروی) ہیں ، ابان بن تغلب اور دوسروں سے انہوں نے غریب حدیثیں نقل کی ہیں ،
ضعف کے باوجود (وہ اس درجہ کے ہیں کہ ) ان کی حدیث لکھی جائے گی ۔ (الکامل :ج ۴:
ص۳۲۴ ، رقم ۱۳۴۷)
امام دارقطنیؒ (م۳۸۵ھ) فرماتے ہیں ، ان کی حدیث اعتبار
کیلئے لی جائے گی۔ (موسوعۃ أقوال الامام الدارقطنی:ج ۲:
ص ۴۶۴، رقم ۲۴۶۷)
اس
سے معلوم ہو اکہ علی بن عابس الکوفیؒ شواہد کی صورت میں مقبول ہے۔
(۵) ابو
اسحاق عمرو بن عبد اللہ السبیعیؒ (م۱۲۹ھ)کے بارمیں حافظ کہتے ہیں کہ ’’ ثقة مكثر
عابد ،
اختلط بأخرة‘‘۔ (تقریب : ۵۰۶۵)
’’ابو
اسحاق عن ابی عبیدۃ ‘‘یہ بخاری کی شرط پر ہے ۔
(۶) أبو
عبيدة ابن عبد اللہ بن مسعودؒ (م۸۰ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں ۔ (تقریب : ۸۲۳۱)[10]
(۷)
عبد اللہ بن مسعودؒ مشہور صحابی رسول ہیں۔
اگر
چہ علی بن عابس الکوفیؒ کی وجہ سے یہ سند
میں ضعف ہے ، لیکن ابن جریج ؒ (م۱۵۰ھ)
نے اپنی صدوق استاذ سے یہی روایت مرسلا ًنقل فرمائی ہے۔ چنانچہ امام عبد الرزاق الصنعانی ؒ (م۲۱۱ھ) فرماتے
ہیں کہ
عن ابن جريج
قال: حدثني من أصدق، عن أبي بكر، وعن
عمر، وعن
عثمان، وعن
ابن مسعود، أنهم كانوا إذا استفتحوا قالوا:
سبحانك اللهم وبحمدك، وتبارك اسمك،
وتعالى جدك، ولا إله غيرك۔
حضرت
ابو بکر ، حضرت عمر ، حضرت عثمان اور حضرت ابن مسعودؓ نماز کے شروع میں ثناء پڑھتے
تھے ۔ (مصنف عبد الرزاق : حدیث ۲۵۵۸)
اس سند میں امام
ابن جریجؒ (م۱۵۰ھ) فرماتے ہیں:’حدثنی
من أصدق‘اس
نے مجھ سے حدیث بیان کی جس کی میں تصدیق کرتا ہوں، اس سے معلوم ہوا کہ وہ راوی
امام ابن جریجؒ کے نزدیک صدوق تھے۔
ان دونوں روایتوں سے پتہ چلا کہ حضورﷺ،حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ
، حضرت عثمانؓ ، اور حضرت ابن مسعودؓ نماز کے شروع میں ثناء پڑھتے تھے۔اور یہ
دونوں روایات شواہد کی وجہ سے حسن اور مقبول ہیں۔[11]
ائمہ و
علماء کا مسلک :
امام،حافظ ابو
عیسی الترمذیؒ (م۲۷۹ھ)فرماتے ہیں کہ ’’ والعمل على هذا عند أكثر أهل العلم من التابعين و غيرهم‘‘تابعین
اور دیگر اکثر اہل علم کا
مسلک نماز کے ابتداء میں ’’ثناء‘‘ پڑھنے کا ہیں۔(سنن ترمذی : ج۲: ص۹)
حافظ
ابن رجبؒ (م۷۹۵ھ) کہتے ہیں کہ ’’ صح هَذَا عَن عُمَر بْن الخَطَّاب، روي عَنْهُ من وجوه كثيرة،
وعن ابن مَسْعُود روي عَن أَبِي بَكْر الصديق وعثمان بْن عَفَّانَ، وعن الْحَسَن وقتادة
والنخعي، وَهُوَ قَوْلِ الأوزاعي
والثوري وأبي حنيفة وابن المبارك وأحمد وإسحاق - فِي رِوَايَة ‘‘ (ترجمہ کرنا ہے)۔(فتح الباری لابن رجب : ج۶: ص۳۶۶)،
اور
یہی قول امام حسن بن صالح بن حیؒ(م۱۶۹ھ) ،امام ابو یوسفؒ (م۱۸۲ھ)اور
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کا بھی ہے۔(الاستذکار لابن عبد البر :
ج۳: ص۴۰، الأصل
المعروف بالمبسوط للشیبانی : ج۱: ص ۳،۱)
نکتۃ مہمۃ:
امام مرعی بن
یوسف الکرمیؒ (م ۱۰۳۳ھ) نے فقہ حنبلی میں ’’دلیل الطالب لنیل المطالب‘‘ نامی کتاب
تصنیف کی ۔ سلفی عالم شیخ إبراہیم بن محمد
ابن ضویانؒ (م ۱۳۵۳ھ) نے اس کی شرح ’’ منار السبیل فی شرح الدلیل‘‘ لکھی۔
غیر مقلد
عالم شیخ البانیؒ نے منار السبیل کی
احادیث کی تخریج کی ، ان کی کتاب کا نام ہے’’إرواء الغلیل فی تخریج أحادیث منار
السبیل‘‘۔ بعض عرب علماء
کہتے ہیں کہ شیخ نے اپنے مخالفین کے لئے سخت زبان استعمال کی ہے۔
شیخ البانیؒ نے اپنی کتاب میں اس حدیث
کو بھی ذکر کیا ہے، اور اس کی تصحیح کی ہے، نیز اس پر جتنے اعتراضات کئے گئے ہیں ،
ان کا جواب بھی دیا ہے ۔ دیکھئے (إرواء الغلیل : جلد۲ : صفحہ ۵۰ – ۵۲، حدیث ۳۴۱)
پھر سلفی سعودی عالم،شیخ احمد الخلیل نے
شیخ البانیؒ کی کتاب إرواء الغلیل کے رد میں کتاب لکھی ، ’’مستدرک التعلیل علی إرواء الغلیل‘‘ جس میں شیخ کی
کئی منہجی غلطیوں پر
تنبیہ کی،شیخ کو نصیحت بھی کی ،لیکن کئی جگہ ،جہاں دوسرے سلفی علماء کی تحقیق بھی
شیخ البانی کے موافق تھی ، شیخ احمدالخلیل
نے تردید صرف شیخ البانیؒ کی کی ہے ، وجہ کیا ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
شیخ احمد الخلیل نے محدثین کو متقدمین
اور متاخرین میں تقسیم کیا ہے ، اور ایک طرح سے متقدمین ائمہ جرح وتعدیل کی تقلید
کا حکم دیا۔
ویسے شیخ البانیؒ سے سعودی علماء کا
سیاسی اختلاف بھی ہے ، کیونکہ شیخ البانیؒ نے وہاں کے حکومت کی بعض چیزوں پر تنقید
کی تھی ، جس پر شیخ کو سعودیہ چھوڑنا پڑا تھا ، کئی سال ہم نے خود نوٹ کیا کہ
حرمین شریفین کے خطبوں میں ، احادیث کی تصحیح وتضعیف میں شیخ البانیؒ کا نام نہیں
لیا جاتا۔
اس کتاب میں شیخ احمد الخلیل نے بھی
حضرت ابو سعید ؓ کی اس حدیث کا تذکرہ کیا ، اور استفتاح صلاۃ سے متعلق تمام مرفوع
روایتوں کو رد کردیا ، اورشیخ البانی کی تحقیق سے اختلاف کیا ہے۔
’’ الحدیث لا یصح مرفوعاً ‘‘ یہ حدیث مرفوعاً صحیح نہیں ہے۔
(مستدرک التعلیل : جلد۱ : صفحہ ۲۱۰)
پھر سعودی شیخ
دکتور أحمدالخلیل کے رد میں دوسرے سلفی
شامی عالم شیخ أبو العینین نے’’إقامۃ الدلیل علی علو رتبۃ إرواء الغلیل‘‘لکھی ، اس میں
شیخ البانیؒ کا خوب دفاع کیا گیا ۔
انہوں نے شیخ البانیؒ کی تحقیق سے اتفاق
کیا ’’الراجح
عندي صحيح بمجموع طرقه ‘‘میرے نزدیک راجح یہ ہے کہ یہ حدیث مجموع طرق کی وجہ
سے صحیح ہے۔ (إقامۃ الدلیل : صفحہ ۱۶۴، رقم الحدیث
۳۶)
شیخ ابو العینین
ہی کی طرح شیخ أبو عبد الرحمن العبیلان نے بھی شیخ البانیؒ کی کتاب کا دفاع کرتے
ہوئے سعودی سلفی عالم ڈاکٹر احمد الخلیل کی کتاب کا رد لکھا ہے ، شیخ عبیلان کی
کتاب کا نام ہے ’’رد الجمیل فی الذب عن إرواء الغلیل‘‘۔
شیخ عبیلان ، ڈاکٹر احمد الخلیل کے بارے
میں کہتے ہیں :
واعتمد الدكتور أحمد على التقليد؛ وكأن
أقوال أهل العلم في الرجال وعلل الحديث وَحْيٌ منزل من السماء لا تجوز مخالفته، وكأنهم لم يختلفوا في ذلك۔
ڈاکٹر احمد الخلیل
نے تقلید پر اعتماد کیا ہے ، اور گویا روات حدیث اور علل حدیث کے بارے میں اہل علم
کے اقوال آسمانی وحی ہے جس کی مخالفت جائز نہیں ، اور گویا اہل علم کا اس چیز میں
کبھی اختلاف ہوا ہی نہیں ۔ (رد الجمیل : صفحہ۵)
شیخ العبیلان ، ڈاکٹر احمد الخلیل کے ، اس
حدیث سے متعلق کلام کےبارے میں کہتے ہیں :
’’لسنا في حاجة للرد على هذا الكلام، فإن
الحديث اشتهر عند المسلمين؛ بل ربما أكثرهم لا يعرف غيره، فهو مما تلقَّتْهُ
الأُمَّةُ بالقَبول‘‘
ہمیں اس کلام کو رد کرنے کی ضرورت ہی نہیں ، اس لئے کہ یہ
حدیث مسلمانوں کے نزدیک مشہور ہے ، بلکہ بہت سے مسلمان اس کے علاوہ کوئی دعاء
جانتے ہی نہیں ، گویا اس دعاء کو امت کی تلقی بالقبول حاصل ہے۔
(یاد رہے غیر مقلدین کئی جگہ پر تلقی بالقبول کو بطور دلیل
پیش کرتے ہیں )
شیخ عبیلان نے حدیثی ناحیہ کی بجائے
اصولی انداز میں افتتاح صلاۃ کے موقع پر ثناء پڑھنے کو ترجیح دی ہے۔ (رد الجمیل
: صفحہ ۲۳۰، حدیث ۳۶)
خلاصہ :
- نمازِ
شروع میں ثناء پڑھنا، قرآن کریم کی تفسیر ، کئی احادیث مرفوعہ ، کبارِ صحابہ کے
عمل سے ثابت ہے ۔
- فرض نماز
کے شروع میں اسے پڑھنا نبی اکرم ﷺ کی سنت مستمرہ رہی ہے ۔
- حضرت
ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ ،حضرت عثمان ؓ اور دیگر صحابہ کرام کا عمل اسی پر ہے ۔
- ’’ثناء‘‘ اللہ تعالیٰ
کے محبوب کلاموں میں سے ہے۔[12]
-
اسی دعاء پر اکثر امت کا عمل ہے ، جیسا کہ شروع میں ذکر کیا گیا۔
-
امت مسلمہ میں اس دعاء کو تلقی بالقبول حاصل ہے۔
-
دوسری دعاؤں کے مقابلہ میں یہ مختصر ہے ۔چنانچہ سلفی شیخ ابن بازؒ کہتے ہیں :
إن دعاء الاستفتاح ليس بواجب، بل
هو سنة، وله
أنواع،
أقصرها ما ثبت من حديث عائشة وأبي سعيد رضي الله عنهما،
وجاء أيضا حديث عمر: «سبحانك اللهم وبحمدك،
وتبارك اسمك وتعالى جدك، ولا إله غيرك هذا
أقصرها۔
دعاء استفتاح واجب نہیں ہے ، بلکہ وہ سنت
ہے ، اور اس کی مختلف قسمیں ہیں ، جن میں سب سے مختصر وہ ہے جو حضرت عائشہؓ اور
حضرت ابو سعیدؓ کی حدیث سے ثابت ہے ، اورعمرؓ سے بھی آئی ہے ، سبحانک اللہ الخ ، یہ
ان دعاؤں میں سب سے مختصر ہے۔ (فتاویٰ نور علی الدرب: ۸/۱۶۵) اور تمام
علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ فرض نماز مختصر پڑھانی چاہیے۔ ()
لہذا یہ دعاء فرض
نماز کے زیادہ موافق ہے ، اور بقیہ دعائیں نوافل میں پڑھ لی جائیں ۔ واللہ اعلم
[1] مصنف
ابن ابی شیبہ کی سند یوں ہے :
حدثنا أبو بكر قال: نا هشيم قال:
أنا جويبر عن الضحاك في قوله: {وسبح بحمد ربك حين تقوم} قال: حين
تقوم إلى الصلاة تقول هؤلاء الكلمات: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى
جدك ولا إله غيرك۔( مصنف ابن ابی شیبۃ :حدیث نمبر ۲۴۱۷)
اس کی سند میں امام ضحاکؒ اور جویبر پر کلام کیا گیا ہے،(مگر
ضحاک ؒ (م۱۰۶ھ) جمہور کے نزدیک صدوق اور حسن الحدیث ہیں، تقریب : رقم
۲۹۷۸،الکاشف) اور عبد الرحمن بن زید بن اسلمؒ جن ہوں نے ضحاک کی طرح اس آیت کی وہی تفسیر
فرمائے ہے ۔ان کی بھی تضعیف کی گئی ہے ۔ (تقریب
)
ایک اہم اصول :
امام یحییٰ بن سعید القطانؒ (م۱۹۸ھ)فرماتے
ہیں :
تساهلوا في أخذ التفسير عن قوم لا
يوثقونهم في الحديث. ثم ذكر الضحاك وجويبرًا ومحمد بن السائب. وقال: هؤلاء لا يحمل
حديثهم، ويكتب التفسير عنهم"۔
علماء نے ایسے کئی
لوگوں سے تفسیر نقل کرنے میں نرمی برتی ہے ،
جن کو وہ حدیث میں ثقہ نہیں مانتے ، پھر ضحاکؒ ، جویبرؒ ، اور محمد بن
السائب کا نام ذکر کیا ، اور کہا ان سے حدیث نہیں لی جائے گی ، البتہ ان سے تفسیر
لکھی جائے گی۔ (تہذیب التہذیب : ۲/۱۲۴)
امام خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ) فرماتے
ہیں :
أن العلماء قد احتجوا في التفسير بقوم لم يحتجوا بهم
في مسند الأحاديث المتعلقة بالأحكام وذلك لسوء حفظهم الحديث وشغلهم بالتفسير فهم
بمثابة عاصم بن أبي النجود حيث احتج به في القراءات دون الأحاديث المسندات لغلبة
علم القرآن عليه فصرف عنايته إليه۔
یقیناً علماء نے
تفسیر میں ایسے لوگوں سے حجت پکڑی ہے ، جن کی حفظِ حدیث کی کمزوری اور تفسیر میں
مشغولی کی وجہ سے ، احکام سے متعلق ان کی احادیث مسندہ سے ، احتجاج نہیں کیا ، پس وہ عاصم بن ابی النجودؒ
کی طرح ہیں ، جن کا قول، قراءات میں تو حجت ہے،لیکن احادیث مرفوعہ میں نہیں، اس
لئے کہ ان پر علم قرآن کا غلبہ تھا ، پس انہوں نے اپنی ساری توجہ اسی جانب مرکوز
کی ہوئی تھی ۔ (الجامع لأخلاق الراوی وآداب السامع : ۲/۱۹۴، حدیث ۱۵۸۷)
لہذا مصنف والی سند
مقبول ہے۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھئے:
سلفی عالم شیخ
خالد بن عبد العزیز الباتلی کی تفسیر۔ (التفسیر النبوی: ۱/۱۱۳)
سلفی عالم ومفسر
شیخ مساعد الطیار کا محاضرہ ۔ (لقاءات ملتقی اھل الحدیث بالعلماء : ۱۳/۶)
[2] یاد
رہے کہ امام اعمش ؒ (م۱۴۸ھ) کی عنعنہ والی روایت مقبول ہے۔(الاجماع : ش
۳ : ص ۲۳۸)، اور امام ابراہیم النخعی
ؒ (م۹۶ھ) کی عنعنہ بھی صحت حدیث کے منافی نہیں ہے۔(الاجماع : ش ۳ : ص
۲۵۴)
[3] نیزاس
بات کی تائید معجم الاوسط للطبرانی کی روایت
’’وكان عمر بن الخطاب يفعل ذلك وكان عمر يعلمنا ويقول: كان رسول الله صلى الله
عليه وسلم يقوله‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔(ج۱: ص ۳۰۵،حدیث نمبر ۱۰۲۶،واسنادہ
لین)
[4] اس
روایت میں حمید الطیول البصریؒ(م۱۴۳ھ) پر تدلیس کا الزام مردود ہے۔ کیونکہ ان کے متابع
میں عائذ بن شریح ؒ موجود ہے،جس کی تفصیل
آگے آرہی ہے۔
[5] بعض عصر حاضر کے علماء نے یہ اعتراض کیا ہے کہ فضل سینانیؒ کا
حمید الطویلؒ سے لقاء ثابت نہیں ، اسی وجہ سے امام حمیدؒ کے شاگردوں میں فضل
سینانیؒ کا اور فضل سینانیؒ کے اساتذہ میں حمید الطویلؒ کا تذکرہ موجود نہیں ۔
اس
کا جواب یہ ہے کہ :
(۱) اس سند کے تمام روات ،ثقہ ہیں اور
ان میں تدلیس کا خطرہ نہیں ۔
(۲)
الفضل بن موسى
السيناني المروزیؒ کی پیدائش (م۱۱۵ ھ)اور
وفات (م۱۹۲ ھ) ہے۔جب کہ حميد
الطويل البصریؒ کی پیدائش (م۶۸ھ) میں اور وفات (م۱۴۳ھ) ہے۔یعنی
حمید ؒ کی وفات کے وقت سینانیؒ کی عمر ۲۸
سال تھی۔
لہذا یہاں امکانِ لقاء موجود ہے۔
پھرسینانیؒ کے اکثر اساتذہ صغارِ
تابعین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ، میزان میں ہے : أحد
العلماء الثقات يروي عن صغار التابعين،
علماء ثقات میں سے ہیں ، صغارِ تابعین سے روایت کرتے ہیں۔ (میزان الاعتدال :
جلد۳ : صفحہ ۳۶۰، رقم : ۶۷۵۴)
اور امام حمیدؒ بھی صغارِ تابعین کے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔
(تقریب : ۱۵۴۴)
(۳)
نیز’’
الفضل بن موسى السيناني، عن حميد ‘‘
کی سند کے متابع میں ۲ ،۲ راوی ابوخالد الاحمرؒ اور مخلد بن یزید القرشی ابو یحییٰ موجود
ہے،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔لہذا یہ اعتراض باطل و مردود ہے۔
شیخ البانیؒ کا اعتراف :
اور
غیر مقلد عالم ومحدث شیخ البانیؒ نے حضرت انسؓ کی اس حدیث کے بارے میں کہتے ہیں’’
فللحدیث اصل أصیل عن أنس بن مالکؓ ‘‘ یعنی حضرت انسؓ سے اس حدیث کی مضبوط اصل موجود
ہے۔ (ارواء الغلیل : جلد۲: صفحہ ۵۳، ۳۴۱)
[6] معلوم ہوا کہ دلیل نمبر ۳ کی
روایت میں حمید الطویل سے روایت کرنے میں الفضل بن موسى السيناني
منفرد نہیں ہے،بلکہ صدوق امام،ابوخالد
الاحمر ؒ (م۱۹۰ھ) ان کے متابع میں موجود ہے۔لہذا ’’ الفضل بن موسى السيناني، عن حميد ‘‘ کی سند کو منقطع کہنا باطل ہے۔
[7] اس سند پر دو طرح
سے کلام کیا گیا ہیں :
پہلا کلام :
اس
روایت کو ذکر نے کے بعد امام ابوداؤدؒ کہتے ہیں کہ:
قال أبو داود: وهذا الحديث ليس بالمشهور
عن عبد السلام بن حرب لم يروه إلا طلق بن غنام وقد روى قصة الصلاة عن بديل جماعة
لم يذكروا فيه شيئا من هذا۔
عبد السلام بن حربؒ سے یہ روایت
مشہور نہیں ہے ، نیز اس کو عبد السلام سے روایت کرنے میں طلق بن غنّامؒ منفرد ہیں
، بدیل بن میسرۃ سے اس روایت کو کئی لوگوں نے نقل کیا ہے ، مگر کسی نے یہ الفاظ
نقل نہیں کئے۔
جواب :
اس کا جواب یہ ہے
کہ طلق بن غنام اور عبد السلام بن حرب ،
یہ دونوں ثقہ ہیں ، اور زیادۃ الثقۃ مقبول ہوتی ہے ۔
جیساکہ امام مجد الدین ابن تیمیہؒ (م۶۵۲ھ) فرمایا ہے۔(شرح ابن ماجہ
للمغلطائی : ص ۱۳۶۳) مشہور امام،حافظ الحدیث ابو
الفتح ابن سید الناس ؒ (م۷۳۴ھ) ، امام ابن الجوزیؒ (م۵۹۷ھ)اور
حافظ ابن المقلن ؒ (م۸۰۴ھ)
وغیرہ نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔(النفح الشذي شرح جامع الترمذي لابن سید الناس : ج۴ : ص ۲۹۱،التحقیق لابن الجوزی : ج۱ :
ص ۳۴۲،البدر المنیر : ج۳: ص۵۳۳)
دوسرا کلام :
بعض
علماء نے ’’ابو
الجوزاء أوس بن الربعی عن عائشۃ‘‘ کی سند کو منقطع کہا ہے ، کہ ابو
الجوزاءؒ کا حضرت عائشہؓ سے سماع ثابت نہیں۔
جواب :
اس کا جواب یہ ہے
کہ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ امام مسلمؒ نے
اس سند سے روایت نقل کی ہے، انکے اصول کے مطابق یہاں امکان لقاء موجود ہے۔
قلت: حديثه عن عائشة في الافتتاح بالتكبير عند مسلم
وذكر ابن عبد البر في التمهيد أيضا أنه لم يسمع منها وقال جعفر الفريابي في كتاب
الصلاة ثنا مزاحم بن سعيد ثنا بن المبارك ثنا إبراهيم بن طهمان ثنا بديل العقيلي
عن أبي الجوزاء قال أرسلت رسولا إلى عائشة يسألها فذكر الحديث. فهذا ظاهره أنه لم
يشافهها لكن لا مانع من جواز كونه توجه إليها بعد ذلك فشافهها على مذهب مسلم في
إمكان اللقاء ۔والله أعلم(تہذیب التہذیب : ۱/۳۸۴)،
نیز حسن لغیرہ
درجے کی روایت میں ابو الجوزاءؒ نے حضرت عائشہؓ سے سماع کی تصریح بھی کردی ہے۔(مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر
۲۵۴۰،التاریخ الکبیر للبخاری : ج۲:ص۱۶)،اورشیخ مبارک بن سیف الہاجری نے دلائل کے ساتھ ثابت
کیا ہےکہ ابو الجوزاءؒ کا
حضرت عائشہؓ سے سماع ثابت ہے۔(التابعون الثقات :ج۱: ص ۱۰۳)
لہذا یہ حدیث
بالکل صحیح ہے ۔
نیز یہ حدیث کی ۲ ،۲ متابع موجود ہیں :
پہلا متابع :
امام
ترمذیؒ (م۲۷۹ھ) اور دوسرے محدثین نے حضرت عائشہؓ سے اس حدیث کو ’’حدثنا الحسن بن عرفة ويحيى بن
موسى قالا حدثنا أبو معاوية، عن حارثة بن
أبي الرجال، عن عمرة، عن
عائشة‘‘
کی سند سے نقل کیا ہے ۔ (سنن ترمذی : ۲۴۳)
اس حدیث کے تمام
راوی ثقہ ہیں مگر حارثۃ بن ابی الرجال محمد بن عبد الرحمن المدنیؒ (م۱۴۸ھ)
ضعیف ہے۔ (تقریب : ۱۰۶۲) لیکن
مذکورہ بالا سند سے اس کی متابعت ہو رہی ہے۔
دوسرا متابع :
امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) حدیث عائشہؓ کو’’حدثنا عبد الله بن ناجية، ثنا
محمد بن عمارة بن صبيح، ثنا سهل بن
عامر البجلي، ثنا مالك بن مغول، عن
عطاء بن أبي رباح، عن عائشة‘‘کی سند
سے نقل کیا ہے۔ (الدعاء للطبرانی : حدیث ۵۰۳)
اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں مگر سھل بن عامر بن ابی عامر البجلیؒ پر
کلام ہے۔
امام
ابو حاتمؒ فرماتے ہیں ’’هو ضعيف الحديث، روى أحاديث بواطيل، أدركته بالكوفة وكان يفتعل
الحديث‘‘ وہ ضعیف الحدیث ہیں ، باطل احادیث روایت کی ہیں ، میں
نے انہیں کوفہ میں دیکھا ، وہ حدیث بناتے تھے۔(الجرح والتعدیل:۴/۲۰۲،۸۷۳) امام
بخاریؒ منکر الحدیث کہتے ہیں ۔ (الکامل فی الضعفاء لابن عدی :۴/۵۱۶، رقم ۸۵۹)
امام دارقطنی ؒ بھی کہتے ہیں کہ قوی نہیں ہیں ۔(من
تکلم فیہ الدارقطنی: ۲/۶۴، رقم ۱۵۸)
ان
کے مقابلہ میں امام ابن عدیؒ فرماتے ہیں ’’ لسهل
أحاديث عن مالك بْن مغول خاصة وعن غيره ليست بالكثيرة وأرجو أنه لا يستحق ولاَ
يستوجب تصريح كذبه‘‘سہلؒ کی خاص طور
پر مالک بن مغولؒ سے حدیثیں ہیں ، دوسروں سے ان کی حدیثیں کم ہیں ، مجھے امید ہے
کہ وہ اسکے مستحق اور متقاضی نہیں ہیں کہ ان کی صراحتاً تکذیب کی جائے۔ (الکامل لابن عدی : ۴/۵۱۶،
رقم ۸۵۹)
معلوم ہوا یہ سند سہل
البجلیؒ
کی وجہ سے ضعیف ہے ، البتہ متابعت میں قابل ذکر ہے۔
لہذا
ابو داود والی روایت مقبول ،متصل اور صحیح
ہے۔واللہ اعلم
[8] کچھ
اشکالات اور ان کے جوابات :
امام ترمذیؒ (م۲۷۹ھ) اس حدیث کو
نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ :
’’وقد تكلم في إسناد حديث أبي سعيد كان يحيى بن سعيد يتكلم في علي بن علي الرفاعي وقال أحمد: لا يصح هذا الحديث‘‘
حدیثِ
ابو سعید خدریؓ کی سند میں کلام کیا گیا
ہے، یحییٰ بن سعیدؒ ،علی بن علی ؒ پر کلام کرتے تھے ، اور امام احمدؒ نے فرمایا یہ
حدیث صحیح نہیں ہے۔
امام ترمذیؒ کی جرح کا جواب
دیتے ہوئے امام مغلطائیؒ (م۷۶۳ھ)کہتے
ہیں کہ:
’’وفيه نظر؛ لأني لم أر أحدا ذكر عن يحيى
بن سعيد فيه كلاما‘‘
یہ بات قابل غور
ہے اسلئے کہ میں نے نہیں دیکھا کہ کسی نے بھی یحییٰ بن سعیدؒ سے ان کے بارے میں
کلام کرنانقل کیاہو ۔ (اکمال تہذیب الکمال : ۹/۳۶۴، رقم ۳۸۳۵)
جہاں تک امام احمدؒ کا کلام ہے ، تو اس
کی کوئی وجہ حضرت امام احمدؒ نے ذکر نہیں فرمائی ، البتہ امام ابو داؤدؒ اپنی سنن میں فرماتے ہیں :
’’وهذا الحديث يقولون هو عن علي بن علي عن الحسن
مرسلا الوهم من جعفر‘‘
اس
حدیث کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ حدیث علی بن علی رفاعیؒ ، حضرت حسن بصریؒ سے
مرسلاً روایت کرتے تھے ، اس میں جعفر ضبعی کو وہم ہوا ہے (کہ انہوں نے مرفوعاً
ومسنداً ذکر کیا ہے ) ۔
امام احمد ؒ نے یہی جرح کی ہے لیکن علی الرفاعیؒ کے بارے میں کی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ’’ أنہ رفع أحادیث ‘‘ انہوں نے بعض احادیث کو (جو مرفوع نہیں تھیں) مرفوعاً نقل کیاہے۔
لیکن اس حدیث کے کئی شواہد موجود ہیں ،جو
کہ گزرچکے، جن کی وجہ سے یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے ۔ واللہ اعلم
یہی وجہ ہے کہ کئی ائمہ
اور علماء نے اس کی ےتصحیح فرمائے
ہے،جیسا کہ گزرچکا۔
نیزغیر مقلد عالم ومحدث شیخ ناصر الدین البانیؒ فرماتے ہیں
:
’’قلت: لا شك عندنا في أن الحديث صحيح، وقد عرفت الجواب عمَّا
أُعِل به، لا
سيما وأن له شواهد كثيرة تقويه‘‘
میں کہتا ہوں : ہمیں اس میں کوئی شک
نہیں کہ یہ حدیث صحیح ہے، اور اس میں جو علت بیان کی گئی ہے، اس کا جواب آپ نے
جان لیا ، خاص طور پر جبکہ اس حدیث کے بہت سے شواہد ہیں ، جو اسے تقویت دے رہے ہیں
۔ (صحیح أبی داؤد الأم : ۳/۳۶۳، رقم الحدیث ۷۴۸)
[9] امام
ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا العباس بن محمد بن العباس، حدثنا أحمد بن عمر،
وأبو الطاهر، قال: حدثنا ابن وهب، عن علي بن عابس عن ليث بن أبي سليم، عن أبي عبيدة بن عبد الله بن مسعود، عن أبيه كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأبو بكر وعمر رضي الله عنهما يقرأون في أول الصلاة
سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك،
ولا إله غيرك قال وكان ابن مسعود يفعل ذلك۔(اکامل لابن عدی : ج۶: ص ۳۲۳-۳۲۴) اس روایت میں موجود ہے کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ کا اپنا عمل
بھی یہی تھا۔مزید تفصیل کے لئے دیکھئے ص : ۔
[10] أبو
عبيدةؒ کے اپنے والدؓ سے سماع ثابت ہے۔جس کی تفصیل آگے آنے والے شماروں میں آئےگی۔
[11] شاہد
نمبر ۱ :
صحیح اور حسن روایات گزرچکی کہ حضور ﷺ نماز کے افتتاح میں ’’ثناء ‘‘ پڑھتے
تھے۔اور حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ کے طریق
سے بھی روایت آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نماز
کے افتتاح میں ’’ثنا‘‘پڑھتے تھے۔(سنن کبری للبیہقی : ج۲ : ص ۵۲،حدیث نمبر
۲۳۵۱،و اسنادہ حسن) اسی طرح ابن مسعود
ؓ سے بھی مرفوعاً دوسری سند سے یہی روایت
وارد ہوئی ہے۔چنانچہ امام ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) فرماتے
ہیں کہ
حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا أبو كريب، ثنا فردوس الأشعري، ثنا مسعود بن سليمان قال:
سمعت الحكم يحدث، عن أبي الأحوص،عن
عبد الله قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا افتتح الصلاة قال: سبحانك اللهم
وبحمدك،
وتبارك اسمك، وتعالى جدك، ولا
إله غيرك۔
حضرت عبد اللہ بن
مسعودؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
جب نماز شروع فرماتے تو ثناء پڑھتے ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: ۱۰۱۱۷)، اس
کی سند میں مسعود بن سلیمان مجہول ہے،جیسا کہ حافظ ہیثمی ؒ نے مجمع الزوائد میں
واضح کیا ہے۔لیکن برحال شواہد میں قابل ذکر ہے۔
شاہد
نمبر ۲ :
امام،حافظ عبد اللہ
بن وہبؒ (م۱۹۷ھ) فرماتے ہیں کہ
أخبرك عمرو بن الحارث، وابن لهيعة، عن خالد
بن أبي عمران، أن سالم بن عبد الله، ونافعاً حدثاه؛ أن عمر ابن
الخطاب كان لا يكبر حتى يلتفت إلى الصفوف ويعتدل، فإذا اعتدل كبر ثم قال:
سبحانك اللهم وبحمدك تبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك رافعاً بها صوته، وأن أبا بكر
الصديق كان يفعل ذلك۔
(ترجمہ کرنا ہے)۔(الجامع لابن وھب :ج۱:ص۲۳۳)
اس سند کے تمام
روات ثقہ ہیں اور روایت صحیح مرسل ہے۔اسی طرح یہی روایت ایک اور سند سے بھی آئی
ہے۔(الاوسط لابن المنذر : ج۳: ص ۸۲،واسنادہ
حسن مرسل)
شاہد نمبر ۳ :
امام ابو بکر ابن ابی شیبہؒ (م۲۳۵ھ) کہتے ہیں کہ
نا أبو خالد الأحمر، عن ابن عجلان، قال: بلغني أن
أبا بكر، كان يقول
مثل ذلك۔
(ترجمہ کرنا ہے)۔(المصنف لابن بی شیبۃ :ج۲:ص۳۹۶)
یہ روایت بھی صحیح مرسل ہے۔
شاہد نمبر ۴ :
حضرت عمر ؓ سے
مروی صحیح روایات تفصیلی طور پر ’’دلیل نمبر ۱‘‘ کے تحت
گزرچکی کہ وہ بھی نماز کے شروع میں ’’ثناء‘‘ پڑھتے تھے۔
شاہد نمبر ۵ :
امام
دارقطنیؒ (م۳۸۵ھ) فرماتے ہیں :
حدثنا يعقوب بن إبراهيم البزاز ثنا الحسن بن عرفة ثنا
أبو بكر بن عياش عن عاصم عن أبي وائل قال: كان عثمان إذا افتتح الصلاة يقول: سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك
ولا إله غيرك يسمعنا ذلك۔
حضرت ابو وائلؒ
فرماتے ہیں کہ حضرت عثمانؓ جب نماز شروع فرماتے تو ثناء پڑھتے ، (اور) اسے (بلند
آواز سے پڑھ کر) ہمیں سناتے۔ (سنن دارقطنی : ج۲: ص۶۵،حدیث نمبر ۱۱۵۴)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
دارقطنیؒ (م۳۸۵ھ) مشہور ثقہ،امام اور حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام)
(۲) يعقوب بن
إبراهيم بن أحمد، أبو بكر
البغداديّ البزاز، عرف بالجراب ثقہ ہیں۔ (تاریخ الاسلام : ۷/۴۶۹، رقم ۱۱۰)
(۲) الحسن بن عرفۃؒ بھی الإمام،
المحدث،
الثقة
ہیں۔ (سیر : ۱۱/۵۴۷، رقم ۱۶۳)
(۳) ابو
بکر بن عیاش الأسدی الکوفی کے بارے میں
حافظ ؒ کہتے ہیں کہ ’’ ثقة عابد إلا أنه لما كبر ساء حفظه و
كتابه صحيح‘‘۔ ( تقریب : ۷۹۸۵)اور ابن عدی ؒ نے صراحت فرمائی
کہ جب ان سے ثقہ راوی روایت کریں تو ان کی حدیث
منکر نہیں ہوگی۔اور یہاں بھی ان سے ثقہ راوی حسن بن عرفہ ؒ نے روایت کیا
ہے۔لہذا یہاں پر وہ ثقہ ہیں۔
ابن حبان ؒ نے بھی
کو صالح الاحتجاج تسلیم کیا ہے،جب تک کہ ان سے غلطی
ثابت نہ ہو۔(کتاب الثقات لابن حبان : ج۷: ص۶۷۰) اور اس روایت میں
بھی ان سے غلطی ہونا ثابت نہیں،لہذایہاں پر وہ صالح الاحتجاج ہے۔
(۴) عاصم
بن بھدلۃ
ؒ بھی صدوق ہیں۔ (تقریب : ۳۰۵۴)
(۵) ابووائل
شقیق بن سلمہ الکوفیؒ بھی ثقہ ہیں۔
(تقریب : ۲۸۱۶)
(۶) عثمان
بن عفان ؓ أمیر المؤمنین اور الصحابی الجلیل ہیں۔
لہذا یہ سند حسن ہے۔اور معلوم ہوا کہ حضرت
عثمان ؓ سے بھی نماز کے ابتداء میں ’’ثناء‘‘
پڑھنا،ثابت ہے۔
شاہد نمبر ۶ :
امام
ابن ابی شیبہؒ (م۲۳۵ھ) فرماتے ہیں
:
حدثنا عبد السلام ، عن خصيف ، عن أبي عبيدة ، عن عبد الله ؛ أنه كان إذا
افتتح الصلاة ،
قال : سبحانك اللهم وبحمدك ، وتبارك اسمك وتعالى جدك ، ولا إله غيرك۔ (مصنف ابن ابی شیبہ :حدیث نمبر
۲۴۰۶)
(۱) أبو
بكر بن ابی شیبہؒ (م۲۳۵ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔ (تقریب)
(۲) عبد
السلام بن حرب الملائی ؒ (م۱۸۷ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ حافظ ہیں۔ (تقریب : ۴۰۶۷)
(۳) خصيف بن عبد الرحمن الجزریؒ (م۱۳۷ھ)
سنن اربع کے راوی اور ’’صدوق
سیئ الحفظ ، خلط بآخرۃ ‘‘ ہیں،جیساکہ حافظ ؒ
نے کہا۔ (تقریب : ۱۷۱۸) اور ایسا
راوی غیر مقلدین کے نزدک حسن الحدیث ہوتا ہے۔ (انوار البدر : ص۱۷۴)،
حافظ ذہبیؒ نے کہا کہ ان کا حال صحت کے قریب ہے۔(دیوان الضعفاء : رقم ۱۲۶۹)
اور ’’عبد السلام بن حرب عن خصيف‘‘ کی حدیث کو
امام ترمذی ؒ(م۲۷۹ھ)،امام ابن الجارودؒ (م۳۰۷ھ)،امام ابو عبد اللہ
حاکمؒ(م۴۰۵ھ) وغیرہ نے صحیح کہا۔(سنن ترمذی : حدیث نمبر ۸۱۹،المنتقی
لابن الجارود : حدیث نمبر ۳۴۴،المستدرک للحاکم : ج۲: ص۵۶۶،حدیث نمبر ۳۹۲۱)،یعنی
ان ائمہ کے نزدیک عبد السلام ؒ کا سماع خصیف ؒ
سے ان کے اختلاط سے پہلےہوا ہےجیساکہ اہل حدیثوں کے کا اصول ہے۔()
(۴) أبو عبيدة ابن عبد اللہ بن مسعودؒ (م۸۰ھ)
کی توثیق گزرچکی۔
(۵) عبد اللہ بن مسعودؓ مشہور صحابی رسول ﷺ
ہیں۔
معلوم ہوا کہ خود ابن مسعود ؓ بھی
نماز کے ابتداء میں ’’ثناء‘‘ پڑھتے تھے۔
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ
رسولﷺ،ابوبکرؓ،عمرؓ،عثمانؓ، اور ابن مسعودؓ ﷺوغیرہ نماز کے ابتداء میں ’’ثناء‘‘ پڑھتے تھے۔
[12] حضرت
ابن مسعود ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ
نے ارشاد فرمایا کہ ’’ إن
أحب الكلام إلى الله أن يقول العبد سبحانك اللهم وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك
ولا إله غيرك وإن أبغض الكلام إلى الله أن يقول الرجل للرجل اتق الله فيقول عليك
نفسك ‘‘اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت پسندیدہ کلام یہ ہے کہ بندہ کہے’’ سبحانك اللهم
وبحمدك وتبارك اسمك وتعالى جدك ولا إله غيرك‘‘ اور اللہ تعالیٰ
کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ کلام یہ ہے کہ ایک شخص کسی سے کہے کہ اللہ سے ڈرو ، تو
سامنے والا کہے کہ تم اپنا کام کرو۔ (عمل الیوم
واللیلۃ للنسائی : صفحہ ۴۸۸، حدیث : ۸۴۸و اسنادہ صحیح،نیز
دیکھئے حدیث نمبر ۸۵۰-۸۵۲) معلوم
ہوا یہ کلمات اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں ، اس لئے اسے نماز میں شروع میں رکھا
گیا ، نیزنماز کے اخیر میں پڑھی جانے والی دعاؤں میں سے ، اس دعاء کو ترجیح دینے
کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ نماز کا شروع و اخیر ، دونوں اللہ تعالیٰ کے محبوب
کلمات پر مشتمل ہوں۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر10
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں