ابراہیم نخعی کے
شیوخ میں مجہولین ؟؟؟
(ائمہ کے
اعتراضات کے جوابات)
امام ابوبکر بیہقیؒ،امام حاکم ؒ،امام علی بن المدینیؒ،امام
شافعی ؒ وغیرہ ائمہ نے امام ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ میں مجہولین کی نشادہی کی ہے۔
۱- امام
ابوبکر بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) کہتے ہیں کہ :
’’ أشار البيهقي إلى أن هذا إنما يجيء فيما جزم به إبراهيم النخعي عن
ابن مسعود وأرسله عنه لأنه قيد فعله فأما
غيرها فإنا نجده يروي عن قوم مجهولين لا يروي عنهم غيره مثل هني بن نويره وجذامة
الطائي وقرثع الضبي ويزيد بن أوس وغيرهم‘‘
اور جب
ابراہیم عبد اللہ بن مسعود ؓ کے علاوہ کسی اور سے ارسال کریں،تو یقیناً ہم نے ان
کو کئی مجہول رواۃ مثلاً :
هني بن نويره ، خزامة
الطائي ،
قرثع الضبي ، يزيد
بن أوس وغیرہ سے روایت کرتے
پایا،جن سے ان کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا ۔(جامع التحصیل : ص۷۹،شرح علل
الترمذی : ج۱: ص ۵۴۲)
۲- ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ جیسا کہ حافظ ؒ نے نقل کیا ہے :
من المعلوم أن إبراهيم ما سمع من أحد من الصحابة، فإذا حدث عن النبي
- صلى الله عليه وسلم - يكون بينه وبينه اثنان أو أكثر فيتوقف في قبوله من هذه
الحيثية، وأما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد
صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا - والله أعلم –
یہ معلوم ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے کسی صحابیؓ سے نہیں
سنا،لہذا جب وہ حضور ﷺسے مرسلاً بیان کریں تو ان کے اور حضورﷺ کے درمیان ۲ یا ۲ سے
واسطے ہوسکتے ہیں،لہذا اس حیثیت سے تو ان
کی مراسیل کو قبول کرنے میں توقف کیاجاناچائیے،اور جہاں تک ان کا صحابہ ؓ سے کوئی
روایت نقل کرنےکی بات ہے،تو اگر وہ ابن مسعودؓ سے روایت کریں،تو یقیناً ابراہیم نخعیؒ نے خود صراحت کی کہ ابن مسعود ؓ
سے روایات کرنے میں ان کے شیوخ ثقہ ہیں،اور دوسروں سے روایت کرنے میں ان کی کوئی صراحت نہیں ہے۔(النکت
ابن حجر : ج۲: ص ۵۵۷)[1]
۳- امام حاکم
ؒ(م۴۰۵ھ) کہتے ہیں کہ :
أخبرني عبد الله بن محمد بن حمويه الدقيقي قال: حدثنا جعفر بن أبي
عثمان الطيالسي قال: حدثني خلف بن سالم قال: سمعت عدة من مشايخ أصحابنا، تذاكروا
كثرة التدليس والمدلسين، فأخذنا في تمييز أخبارهم، فاشتبه علينا تدليس الحسن بن
أبي الحسن، وإبراهيم بن يزيد النخعي؛ لأن الحسن كثيرا ما يدخل بينه وبين الصحابة،
أقواما مجهولين، وربما دلس عن مثل عتي بن ضمرة، وحنيف بن المنتجب، ودغفل بن حنظلة،
وأمثالهم، وإبراهيم أيضا يدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل هني بن نويرة، وسهم بن
منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلس عنهم۔
خلف بن سالم ؒ(م۲۳۱ھ) کہتے ہیں کہ میں نے ہمارے اصحاب کے کئی
مشائخ کو کثرت تدلیس اور مدلسین کا
مذاکرہ کرتے ہوئے سنا : ۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں
کہ ابراہیم نخعی ؒ اپنے اور اصحاب عبد اللہ کے درمیان مجہولین کی ایک قوم مثلاً هني
بن نويرة، وسهم بن منجاب، خزامة الطائي کو داخل کرتے
ااور کبھی کبار ان سے تدلیس بھی کرتے۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ۱۰۸)[2]
امام بیہقیؒ نے
بھی یہی کلام نقل کیا ہے۔(الخلافیات: ج۳ :ص ۲۳)[3]
۴- امام علی بن المدینیؒ (م۲۳۴ھ)
کہتے ہیں کہ :
وقال
علي: نظرت فإذا قلَّ رجل من (التابعين) إلا وقد حدث عن رجل لم يرو عنه أحدٌ غيره
قال: فقال رجل: يا أبا الحسن فإبراهيم النخعي عمن روى من المجهولين فقال: قد روى
عن يزيد بن أوس عن علقمة فمن يزيد ابن أوس لا نعلم أحدًا روى عنه غير إبراهيم۔
میں نے ٖغور کیا تو (معلوم ہوا) کہ
تابعین میں اکثر لوگ ہیں جو ایسے ایک آدمی
سے روایت کرتے ہیں،جن سے ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا،تو ایک
آدمی نے کہا : ائے ابو االحسن ! تو ابراہیم نخعی ؒ کن
مجہولین سے روایت کرتے ہیں؟،تو ابن مدینیؒ نے کہا : کہ انہوں نے یزید بن اوس عن علقمہ کی سند روایت کی
ہے،ہم ابراہیم نخعی ؒ کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے جو یزید بن اوس سے روایت کرتا ہو۔( التاريخ وأسماء
المحدثين وكناهم للمقدمی :ص۳۰۰)[4]
۵- امام شافعی ؒ (م۲۰۴ھ) فرماتے ہیں
کہ :
أفرأيت قَرْثَع الضبي وقزعة وسهم بن منجاب حين روى إبراهيم عنهم، وروى عن عبيد بن
نَضْلة أهم أولى أن يروى عنهم أو وائل بن
حجر وهو معروف عندكم بالصحابة وليس واحد من هؤلاء فيما زعمت معروفا عندكم بحديث
ولا شيء؟
قَرْثَع الضبي، قزعة اورسهم بن منجاب جن سے ابراہیم نخعیؒ نے روایت کی ہے۔۔۔۔ان میں کوئی بھی تم لوگوں کے نزدیک نہ حدیث
کے اعتبار سے معروف ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کے اعتبار سے۔(مناقب
الشافعی للبیہقی : ج۲: ص ۲۱)[5]
خلاصہ یہ کہ ان ائمہ نے درج ذیل شیوخ ابراہیم نخعی کو مجہول
قرار دیا ہے :
(۱) هني
بن نويرۃ۔
(۲) يزيد
بن أوس۔
(۳) قرثع
الضبي۔
(۴) خزامة
الطائي۔
(۵) قزعة بن یحیی۔
(۶) سهم بن منجاب
الجواب :
تحقیق کے
میزان میں یہ تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں،جس کی تفصیل درج ذیل ہیں :
(۱) هني
بن نويرۃ ؒ کی توثیق :
هني
بن نويرۃکو ابن حبان ؒ اورامام
عجلیؒ نے ثقات میں شمار کیا ہے،جبکہ امام عجلیؒ نے ان کو ثقہ بھی قرار دیا ہے، امام ابوداود ؒ نے کہا وہ عبادت گزروں میں سے ہیں۔(تہذیب
الکمال : ج۳۰ : ص ۳۱۸،معرفۃ
الثقات للعجلی:رقم ۱۵۳۲)، امام عینیؒ ،محدث احمد بن الصدیق الغماری ؒاور علامہ شاکر
ؒ نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔(نخب الافکار : ج۱۵: ص ۲۷۱، المداوي
لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي:ج۲: ص ۱۵،مسند احمد بتحقیق احمد شاکر : ج۴: ص ۱۱)،امام ابراہیم نخعی ؒ کے نزدیک بھیهني
بن نويرۃ ثقہ ہیں،کیونکہ ابراہیم ؒ نے ان سے روایت لی
ہے،اور وہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت نقل کرتے تھے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل کا
کہنا ہے۔(دیکھئے ص : ۶)امام ابو نعیم اصبہانیؒ نے ان کوعلماء تابعین میں
شمار کیا ہے۔(حلیۃ الاولیاء : ج۴ : ص ۲۳۳)،نیز امام ابن الجارودؒ،امام ابن
حبانؒ،امام عینیؒ اور امام ابو داود ؒ (بذریعہ
سکوت ) وغیرہ نے ان کی حدیث کی تصحیح کی ہے۔(المنتقی لابن الجارود :
ص۲۱۴،صحیح ابن حبان : حدیث نمبر ۵۹۹۴، نخب الافکار : ج۱۵: ص ۲۷۱،سنن ابو داود :
حدیث نمبر ۲۶۶۶)اور کسی حدیث کی تصحیح و تحسین اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق
ہوتی ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(الاجماع:ش۴: ص ۲) اس لحاظ سےان
ائمہ کے نزدیک بھیهني بن نويرۃ کم از کم صدوق ہیں۔
لہذا ان
کو مجہول کہنا غیر صحیح اور مردود ہے۔
کیا هني بن نويرۃسے صرف ابراہیم نخعی ؒ نے روایت کی ؟؟
هني
بن نويرۃسے ابراہیم نخعی ؒ کے ساتھ ساتھ ابو جبیر
العابد اور ابو حمزہ وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے۔ (الکاشف : ج۲: ص ۳۳۹،المؤتَلِف والمختَلِف للدارقطنی : ج۴: ص ۲۳۰۸،الاکمال ابن ماکولا: ج۷: ص ۳۱۹)،
(۲) يزيد
بن أوسؒ کی
توثیق :
ابن حبان
ؒ نےان کوثقات میں شمارکیا ہے۔(ج۵: ص۵۴۰) امام ابو داود ؒ،حافظ مغلطائیؒ نے
ان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(سنن ابو داود : حدیث نمبر ۳۱۳۰،شرح ابن ماجہ : ص۹۹۲،سنن النسائی :
حدیث نمبر ۱۸۶۵)، اسی طرح ابن مندہؒ،ابو علی النیساپوریؒ، عبد الغنی بن
سعیدؒ،ابن عدیؒ،دارقطنیؒ،ابو یعلی الخلیلیؒ،خطیب بغدادیؒ،ابو طاہر سلفیؒ،ابو علی
ابن السکنؒ وغیرہ نے بھی ان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(النکت لابن حجر :
ج۱: ص ۴۸۲)،
اور کسی محدث کا کسی حدیث کی تصحیح و تحسین کرنا، اسکی طرف
سے اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے، جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(الاجماع:ش۴:
ص ۲) اس لحاظ ان ائمہ کے نزدیک بھی يزيد
بن أوس کم از کم صدوق ہیں۔
اور پھر
امام ابراہیم نخعی ؒ کے نزدیک بھی يزيد
بن أوس ثقہ ہیں،کیونکہ ابراہیم ؒ نے ان سے روایت لی ہے،اور وہ اپنے
نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت نقل کرتے تھے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل کا کہنا ہے۔(دیکھئے
ص : ۶)
لہذا ان
کو مجہول کہنا صحیح نہیں ہے۔واللہ اعلم
(۳) قرثع
الضبيؒ کی
توثیق :
قرثع الضبیؒ کو مجہول کہنا مردود ہےکیونکہ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ ،شیخ
محمد بن علی الإثيوبي
الوَلَّوِي،شیخ اکرم بن محمد الاثری وغیرہ ان کو صدوق اور امام عجلیؒ ثقہ کہتے
ہیں۔(تقریب : رقم ۵۵۳۳، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۶: ص ۲۲۶،المعجم الصغير لرواة الامام
ابن جرير الطبري :ج۲: ص ۴۶۶، معرفۃ الثقات للعجلی : رقم ۱۱۷۶) اور بھی ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے۔دیکھئے (صحیح ابن خزیمہ : حدیث نمبر ۱۷۳۲، المستدرک
للحاکم : ج۱: ص ۴۱۲،حدیث نمبر ۱۰۲۸،موضح الاوہام للخطیب : ج۱: ص ۱۶۳)
اور
ابراہیم نخعی ؒ کے علاوہ ایک جماعت نے ان سے روایت بھی لی ہے۔(مغانی الاخیار للعینی : ج۲: ص ۴۷۸، تہذیب التہذیب : ج۸: ص ۳۶۸)
(۴) خزامة
الطائيؒ کی توثیق :
امام
شافعیؒ(م۲۰۴ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱ھ)،حافظ المغرب ابن عبد
البرؒ(م۴۶۳ھ)،امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴ھ)، اور
حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸ھ) وغیرہ نے
صراحت کی کہ امام ابراہیم نخعیؒ (م۹۶ھ) مطلقاً
ثقہ سے روایت کرتے تھے۔
اس لحاظ
سے خزامة الطائي کم از کم صدوق
ہیں۔واللہ اعلم
(۵) قزعة بن یحییؒ کی توثیق :
قزعة بن یحیی ؒ صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۵۴۷،مناقب
شافعی للبیہقی : ج۲: ص ۲۱،ت سید احمد صقر)
(۶) سهم بن منجابؒ کی توثیق :
سهم بن منجاب ؒ صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۶۷۱)
اس پوری تفصیل سے
معلوم ہوا کہ شیوخ ابراہیم میں کوئی بھی مجہول نہیں ہے۔اور امام ابراہیم نخعی ؒ
صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے،لہذا ائمہ جرح
و تعدیل کے مذہب اور ارشادات کے مطابق ان
کی مراسیل صحیح ،لاباس بہ ،جید اور مضبوط ہیں۔واللہ اعلم
[1] امام بیہقی ؒ نے
ان دونوں عبارتوں میں ابراہیم عن عبد اللہ کی سند کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔
[2] اس اثر سے استدلال باطل ہے،کیونکہ اسکی سند میں عبد اللہ بن محمد بن دقیق الحمویہ
الدقیقیؒ غیر ثقہ ہے۔(الروض الباسم
: ج۱: ص ۶۱۰)
[3] ابراہیم نخعی عن عبد اللہ کی سند کو امام بیہقیؒ نے دوسرے مقام پر ضعیف مانا ہے ۔(الخلافیات
: ج۱:ص ۳۶۹)، اور امام شافعی ؒ کے کلام کی شرح میں کہا کہ ’’هذا
إبراهيم النخعي يقول: قال عبد الله في أحاديث سمعها من أقوام مجهولين ‘‘ یہ
ابراہیم نخعی ؒمجہولین قوم سے سنی ہوئی احادیث کے باریمیں کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن
مسعود ؓ نے کہا۔(خلافیات:ج۳:ص۲۳) لیکن
نمبر ۱ اور نمبر ۲ پر موجود خود ان
ہی کا ارشاد ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کی صحت میں ہے کہ امام ابراہیم
نخعی ؒ نے خود صراحت کی کہ ان کےاور ابن
مسعود ؓ کے درمیان شیوخ ثقہ ہیں۔(دیکھئے
ص :۴۴ )
اس سے معلوم ہوا جب ابراہیم نخعی ؒ نے ان کےاور ابن مسعود ؓ کے
درمیان شیوخ کو ثقہ کہا ،تو امام بیہقی ؒ کا اعتراض ’’کہ ابراہیم نخعی
ؒمجہولین کی قوم سے ابن مسعود ؓ احادیث سنی‘‘ خود ان کی عبارت سے مردود ثابت
ہوا ہے، لہذا ان کا اعتراض صحیح نہیں اور
ابراہیم نخعی ؒ اور ابن مسعود ؓ کے درمیان
شیوخ ثقہ ہیں،جیسا کہ امام بیہقیؒ نے نقل کیا ہے۔
نیز
ان کا اعتراض اس وجہ سے بھی غیر صحیح ہے،کیونکہ ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ میں کوئی
راوی بھی ضعیف نہیں ہے، اور جن روات پر
مجہول ہونے کا اعتراض کیا گیا ہے،انکی توثیق آگےآرہی ہے،الغرض شیوخ ابراہیم نخعی
میں کوئی بھی مجہول نہیں،بلکہ وہ تمام کے
تمام صدوق یا ثقہ ہیں،اور امام بیہقیؒ
کا دوسرا قول شاذ اور غیر مقبول
ہے۔واللہ اعلم
[4] اس روایت سے معلوم
ہوا کہ امام علی بن المدینیؒ کے نزدیک شیوخ ابراہیم نخعی میں مجہول صرف
یزید بن اوس ہی ہیں،کیونکہ سائل کےسوال
میں جمع کا لفظ ’’مجہولین‘‘ تھا،جس
کے جواب میں ابن المدینی ؒ نے صرف ایک راوی یزید بن اوس ؒ کا نام ذکر کیا
ہے،لہذا یزید بن اوس کے علاوہ ابن
المدینیؒ کے نزدیک تمام شیوخ ابراہیم ثقہ یا صدوق ہیں،یعنی ابن المدینیؒ کے
نزدیک ابراہیم نخعی ؒنےعام طورسے ثقہ سے
روایت کرتے تھے۔والحمدللہ
نوٹ :
یزید بن اوسؒ صدوق ہیں۔دیکھئے ص
:۴۹ ۔
[5] اس کے خلاف
خود امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ ابن سیرین اور ابراہیم
نخعی،طاوس اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف ثقہ کی حدیث کو قبول کرتے تھے،نیز ایک اور روایت میں امام شافعی ؒ نے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاوس
اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے تھے،جو اپنی
روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو اور میں نے کسی بھی اہل الحدیث کو نہیں
دیکھا جو اس کی مخالفت کرتا ہو۔دیکھئے ص :۷ ۔
لہذا
جب امام شافعی ؒ کے نزدیک ،امام ابراہیم نخعی ؒ
صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے
تھے، جو اپنی روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو ۔توپھر ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ
کس طرح مجہول ہو سکتے ہیں۔
خلاصہ
یہ ہے کہ امام شافعیؒ کے اعتراض کا جواب خود امام صاحب نے دے رکھا ہے۔نیز دیکھئے ص
:۴۶ ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں