نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مراسیل امام ابراہیم النخعیؒ ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک صحیح،مضبوط اور جید ہیں۔

 

 مراسیل امام ابراہیم النخعیؒ 

ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک صحیح،مضبوط اور جیدہیں۔


- مولانا نذیر الدین قاسمی                                                                  


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


ائمہ جرح و تعدیل کےنزدیک امام ابراہیم النخعیؒ۹۶؁ھ)کی مراسیل حجت ہیں۔

دلائل درج ذیل ہیں :

۱)         امام العلل امام الجرح والتعدیل یحیی بن معینؒ۲۳۳؁ھ)فرماتےہیں کہ:

’’مرسلات ابراہیم صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین وحدیث الضحک فی الصلاۃ ‘‘۔

 ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل صحیح ہیں سوائےحدیث تاجر البحریناورحدیث الضحک فی الصلا ۃ کے۔ (تاریخ یحیی بن معین بروایت الدوری رقم :۹۵۸) اسکین ملاحظہ فرمائے

ابن محرز ؒ کی روایت میں ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ:

            ’’مرسلات ابراہیم اصح من مرسلات سعید بن المسیب والحسن ‘‘۔

ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات،سعید بن المسیب ؒ اورحسن بصری ؒ کی مرسل روایات سےزیادہ صحیح ہیں ۔ (تاریخ یحیی بن معین بروایت ابن محرز ج:۱ص:۱۲۰)

اسکین  :

معلوم ہواکہ ابن معین ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایا ت صحیح اور حجت ہیں ۔

۲)        امام عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱؁ھ) نے ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے،امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کیا ہے :

            أبوداؤد  عن ابراہیم بن یزید النخعی عن عائشۃ قالت : کانت ید رسول اللہ    الیمنی لطہورہ وطعامہ  وکانت یدہ الیسری لخلاءہ وما کا ن من أذی ً۔

قال أبو العباس الدوری : لم یسمع ابراہیم بن یزید النخعی من عائشۃ ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔ (احکام الوسطی ج:۱ص: ۱۳۲)

معلوم ہواکہ امام عبدالحق اشبیلی ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی کی مرسل روایات صحیح اور قابل حجت ہیں ۔

۳)        الامام الحافظ ابن سید الناسؒ۷۳۴؁ھ)کے نزدیک بھی امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں ۔

انہوں نے بھی ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کر کے بتایا کہ ان کے نزدیک ابراہیم النخعی کی مرسل روایا ت حجت ہیں،چنانچہ فرماتے ہیں کہ :

            وحدیث عائشۃ :رواہ الامام  أحمد وأبوداؤد من حدیث ابراہیم وہوابن یزید النخعی عن عائشۃقالت : کانت ید رسول اللہ  ﷺ الیمنی لطہورہ وطعامہ وکانت یدہ الیسری لخلا ئہ وما کان من أذی ۔

        قال العباس بن محمد الدور ی عن ابن معین :لم یسمع ابراہیم من عائشۃ ، ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔(النفح الشذی شرح جامع الترمذی ج:۱ص: ۱۷۷)

۴)        امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’مرسلات ابراہیم النخعی لا بأس بہا‘‘

امام ابراہیم النخعیؒ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ہے۔(التاریخ والمعرفہ ج:۳ص: ۲۳۹،واسنادہ صحیح ) اسکین  :

 معلوم ہواکہ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ابراہیم نخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح ہیں ۔

۵)        امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            ’’ان اصح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقۃ کمراسیل مجاہد وابراہیم والشعبی فہو مرسل جید لا بأس بہ ‘‘۔

 اگر(مرسل روایت کی) متوسط تابعی تک سند صحیح ہے،جیسے مجاہدؒ،ابراہیم  النخعی ؒ اور شعبی ؒ کی مراسیل ، تو وہ مضبوط مرسل ہے،اور ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔(الموقظۃ ص: ۴۰)

اسکین :

معلوم ہواکہ ان کے نزدیک بھی مراسیل ابراہیم النخعی میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔

۶)        حافظ ابو العباس ابن تیمیہ الحرانی  ؒ ۷۲۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

’’ان مراسیل ابراہیم من احسن المراسیل ‘‘

یقینا ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل سب سے اچھی مراسیل میں سے ہیں ۔(مجوع الفتاوی ج:۳۱ص: ۳۵۳)

مزید کہتے ہیں کہ :

’’مراسیل ابراہیم جیاد ‘‘

 ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل بہترین اور عمدہ ہیں ۔(الصارم المسلول ص: ۵۸۴)

۷)        حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’اجمعوا أن مراسیل ابراہیم صحاح ‘‘

محدثین کا اتفاق ہے کہ ابراہیم نخعی کی مراسیل صحیح ہیں ۔(الاستذکار :ج:۶ص: ۱۳۷)

 

ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) کی مراسیل صحیح کیوں ہیں ؟؟

۸)         اس کی وجہ بھی  حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) ذکر کیا کہ :

            وکل من عرف أنہ لا یأخذ الا عن ثقۃ فتدلیسہ ومرسلہ مقبول فمراسیل سعید بن المسیب ،ومحمد بن سیرین وابراہیم النخعی عندہم صحاح ۔

ہر وہ راوی جس کے بارے میں یہ مشہور ہو کہ وہ صرف ثقہ راویوں سے ہی روایات لیتا ہے تو اسکی تدلیس اور مرسل روایت مقبول ہے،اس لئے سعید ابن المسیب ،اور محمد بن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کی مرسل روایات محدثین کے نزدیک صحیح ہیں۔

(التمہید لابن عبدالبر ج: ۱ص: ۳۰ ، واللفظ لہ ،الاستذکار ج:۸ص: ۱۳)  

اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :

۱)         امام ابراہیم نخعی ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ۔

۱۱)        ابراہیم النخعیؒ کی تدلیس مقبول ہے ۔

۱۱۱)      ان کی  علی الاطلاق مراسیل بھی صحیح ہیں ۔

۹)         حافظ ابن تیمیہؒ (م ۷۲۸؁ھ) نے بھی کہا ہے کہ :

’’لا یرسل الا عن ثقۃ ،کسعید بن المسیب ،وابراہیم النخعی ،ومحمد بن سیرین‘‘ 

۔۔۔وہ لوگ جو صرف ثقہ سے  ارسال کرتے  ہیں،مثلاً  سعید بن المسیب ؒ،ابراہیم نخعی ؒ، محمد بن سیرین ؒ  ۔۔۔۔۔ (اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ج:۲ص:۳۵۰)

-          حافظ صلاح الدین علائی ؒ ۷۶۱؁ھ) کہتے ہیں کہ :

۱۰)       امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا   کہ  :

 ’’ قال الإمام الشافعي رحمه الله کان ابن سیرین  وعروۃ بن الزبیر وطاووس وابراہیم النخعی وغیر واحد من التابعین یذہبون الی ان لا یقبلو ا الحدیث الا عن ثقۃ ‘‘

امام شافعی ؒنے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاؤس اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف ثقہ  کی حدیث کو قبول کرتے تھے ۔

ایک اور روایت میں کہا کہ :

’’لايقبلوا الحديث إلا عن ثقة يعرف ما يروي ويحفظ وما رأيت أحدا من أهل الحديث يخالف هذا المذهب‘‘

امام شافعی ؒ نے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاؤس  اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے تھے،جو اپنی روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو اور میں نے کسی بھی اہل الحدیث کو نہیں دیکھا جو اس مذہب کی مخالفت کرتا ہو۔ (جامع التحصیل ص: ۶۸،۶۹،الکفایۃ:ص۱۳۲،التمہید لابن عبد البر:ج۱:ص۳۹)

۱۱)        امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ)ابراہیم نخعی اور سعید بن المسیب کی مرسل روایات کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’مرسلات سعید بن المسیّب أصحّ المرسلات ، ومرسلات إبراہیم النّخعیّ لا بأس بھا ، ولیس فی المرسلات أضعف شیء من مرسلات الحسن وعطاء ابن أبی رباح ، فإنّھما یأخذان عن کلّّ أحد‘‘۔

سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کی مرسل روایات،مرسلات میں سب سے زیادہ صحیح ہیں ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ، جبکہ مرسلات میں حسن بصری رحمہ اللہ اور عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ کی مرسلات سے بڑھ کر  کوئی ضعیف نہیں ، کیونکہ وہ دونوں ہر ایک سے روایات لیتے تھے ۔ (المعرفۃ والتاریخ للفسوی :ج۳: ص ۲۳۹)

امام احمد ؒ کے اس قول سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ ان کے نزدیک  ابراہیم النخعی وسعید بن المسیب ثقات کے علاوہ کسی سے روایت نہیں لیتے تھے جس کی وجہ سے ان کی مراسیل مقبول ہیں۔

۱۲)       محدث أبو الولید الباجی ؒ (م۴۷۴؁ھ)  لکھتے ہیں  کہ :

’’لا يرسل الا عن الثقات كإبراهيم النخعي و سعيد بن المسيب ‘‘

            ابراہیم النخعی اور سعید بن المسیب ثقہ راویوں کے علاوہ کسی سے بھی ارسال نہیں کرتے تھے۔

(الإشارة في معرفة الأصول ص: ٢٣٠،نزہۃ  النظر : ص ۸۳،ت عتر)

ان تمام حوالوں  کا خلاصہ یہ ہے کہ:

-      ابراہیم نخعیؒ کی تمام  مراسیل صحیح  و جید ہیں اور ان میں کوئی  حرج نہیں ہے،  سوائے حدیث تاجر البحرین اور حدیث الضحک فی الصلا ۃ کے۔

-      اس لئے کہ امام،حافظ ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔کما قال الائمۃ الجرح و التعدیل[1]۔

ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کا ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین کےنزدیک مقام اور مرتبہ :

            ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل کی  حجیت ثابت ہونے کے بعد  ’’ ابراہیم عن عبد اللہ ‘‘ کی  روایت کا   خاص طور سے ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین کے نزدیک کیا مقام  ہے،اس کو ملاحظہ فرمائے :

۱۳)       امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید القطان ؒ ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

            ’’ان مراسیل ابراہیم عن ابن مسعود وعمر صحاح کلہا وما ارسل منہا أقوی من الذی أسند ‘‘

یقیناابراہیم نخعیؒ کی ابن مسعود ؓاورعمر ؓسے تمام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور ان کی مرسل حدیث، مسند حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔(التمہید لابن عبدالبر ج:۱۵ص: ۹۴)

۱۴)       ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ،امام ابو جعفرطحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) صحیح  سند کے ساتھ ابراہیم نخعی ؒ کے قول[2]  کو ذکر کرنے بعد ،اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ :

            ’’ فأخبر أن ما أرسله عن عبد الله , فمخرجه عنده أصح من مخرج ما ذكره عن رجل بعينه عن عبد الله ‘‘

            ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) خود ذکر کرتے ہیں کہ  (جب)  وہ  عبد اللہ ؓ سے مرسلاً  روایت کریں،تو اس  کا مخرج   (روایت)  ابراہیم نخعیؒ(م۹۶؁ھ) کے نزدیک متصل روایت  سے زیادہ صحیح ہے۔(شرح معانی الآثار : حدیث نمبر ۱۳۶۲،نیز دیکھئے   شرح ابو داود للعینی : ج۳: ص ۳۰۱)

۱۵)       حافظ المغرب ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) یہ بھی کہتے ہیں کہ:

            عن سلیما ن عن الاعمش قال قلت لابراہیم اذا حدثتنی حدیثا فأسندہ فقال اذا قلت عن عبداللہ یعنی ابن مسعود فاعلم أنہ عن غیر واحد ،واذا سمیت لک أحدا فہو الذی سمیت قال أبو عمر الی ہذا نزع من  اصحابنا من زعم أن مرسل الامام أولی من مسندہ لان فی ہذا الخبر ما یدل علی ان مراسیل ابراہیم النخعی أقوی من مسانیدہ وہو لعمری کذلک ۔

امام اعمشؒ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابراہیم النخعی سے کہا کہ جب آپ مجھے کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سند بھی بیان کردیں،تو انہوں فرمایا :میں جب کہوں کہ عبداللہ بن مسعود سے مروی ہےتو تم جان لو کہ وہ کئی لوگوں سے مروی ہے ۔(یعنی کئی لوگوں سے میں نے اس روایت کو سنا ہے) اورجب میں تم سے کسی ایک کا نام بیان کروں تو میں نے وہ روایت انہیں سے سنی ہے۔ (یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے)

امام ابن عبدالبر ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ اس قول سے ہمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ہے،جن کایہ ماننا ہے کہ امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے بہتر ہے،اس لئے کہ اس روایت میں دلیل ہے کہ ابراہیم نخعی ؒکی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے زیادہ اقوی ہیں،آگے ابن عبدالبر ؒ تائید میں کہتے ہیں کہ یقینا مراسیل ابراہیم اسی طرح ہیں۔ (التمہید لابن عبدالبر ج:۱ص: ۳۷،۳۸)

۱۶)       حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ)  ابراہیم  نخعیؒ  کے قول کی شرح میں کہتے ہیں کہ ’’ہذا یقتضی ترجیح المرسل علی المسند ‘‘ ابراہیم نخعی ؒ  کا یہ قول ان کی مرسل روایت کا ان کی مسند روایت پر ترجیح کا تقاضا کرتا ہے ۔ (شرح علل ترمذی ص: ۵۴۲)

۱۷)      امام  ابو الحسن الدارقطنی ؒ(م۳۸۵؁ھ) ’’عن ابراہیم  عن ابن مسعود ‘‘ کے دفاع میں کہتے ہیں کہ:

’’فهذه الرواية وإن كان فيها إرسال فإبراهيم النخعي هو أعلم الناس بعبد الله وبرأيه وبفتياه , قد أخذ ذلك عن أخواله علقمة , والأسود , وعبد الرحمن ابني يزيد , وغيرهم من كبراء أصحاب عبد الله , وهو القائل: " إذا قلت لكم: قال عبد الله بن مسعود فهو عن جماعة من أصحابه عنه , وإذا سمعته من رجل واحد سميته لكم ‘‘

            اس روایت میں  اگر چہ(ابراہیم کا)  ارسال ہے،لیکن  ابراہیم نخعی ؒ عبد اللہ بن مسعود ؓ  کے اجتہاد اور فتاوی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے،جو انہوں نے اپنے ماموؤں علقمہ ، اسود  بن یزید ،عبد الرحمن بن یزید وغیرہ  ابن مسعودؓ کے بڑے بڑے شاگردوں سے حاصل کیا تھا، وہ کہتے تھے کہ جب میں تم سے  کہوں کہ ابن مسعودؓ نے کہا : تو (سمجھ لو،) وہ ابن مسعودؓ کے اصحاب کی ایک جماعت سے    مروی ہے،اور  جب  میں ان کا  کوقول کسی ایک آدمی سے سنتا، تو میں اس ایک آدمی کا نام  تم لوگوں  سے ذکر کرتا ہوں۔(سنن  دارقطنی : ج۴ : ص ۲۲۶،حدیث نمبر ۳۳۶۵)

۱۸)       حافظ علاء الدین مغلطائیؒ(م۷۶۲؁ھ) بھی ابراہیم عن عبد اللہ  کی روایت کی صحت کو تسلیم کرتے ہے۔(شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۴۶۸)

۱۹)       امام،حافظ علی بن عثمان الماردینی ؒ(م۷۵۰؁ھ)ابراہیم  کی مرسل  روایت کو  ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ :

            ’’ وقد ذكر البيهقى في هذا الكتاب عن ابن معين ان مرسلات النخعي صحيحة الا حديثين ليس هذا منهما وقد بسطنا الكلام على صحة مرسل النخعي في باب المبتوتة ‘‘

            اور  امام  بیہقی ؒ(م۴۵۸؁ھ)  نے اسی کتاب میں  ابن معین ؒ سے روایت ذکر کی ہے کہ ابراہیم  کی مرسلات صحیح ہیں سوائے ۲ حدیثوں کے،یہ مرسل  روایت ان میں سے نہیں ہے،اور ہم نے ابراہیم نخعی کی مراسیل کی صحت  پر تفصیلی کلام   باب المبتوتة میں کیا ہے۔ (الجور النقی : ج۷: ص ۳۷۹)[3]

۲۰)      حافظ ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں کہ :

’’ فإن قيل: فهل عرف أحد غير ابن المسيب كان لا يرسل إلا عن ثقة.

قلنا: نعم، فقد صحح الإمام أحمد مراسيل إبراهيم النخعي لكن خصه غيره بحديثه عن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - كما تقدم ‘‘

پھر اگر کہا جائے کہ ابن مسیب ؒ کے علاوہ  کیا کوئی ہے جو صرف ثقہ سے ارسال کرتا ہے؟

تو ہم  کہتے ہیں کہ ہاں ! امام احمد بن حنبل ؒ نے ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو صحیح قرار دہا ہے،لیکن دوسرے لوگوں نے اس کو ابن مسعود ؓ کے حدیث کے ساتھ خاص  کیا ہیں،جیسا کہ گزرچکا۔(النکت لابن حجر : ج۲: ص ۵۵)

۲۱)       محدث عینیؒ(م۸۵۵؁ھ) نے بھی  ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کی صحت کو تسلیم کیا اور اس کو متصل کی روایت سے اولی اور اقوی قرار دیا ہے۔(نخب الافکار : ج۴: ص ۱۸۴)

۲۲)      امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ)  بھی فرماتے ہیں کہ:

 ’’ أما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا ‘‘

ابراہیم نخعی ؒ  جب صحابہ میں سےابن مسعود ؓ سے روایت کریں ،تو انہوں نے خود صراحت کیا ہے ،کہ اس روایت  میں ان کے شیوخ ثقہ ہیں،اور جب  وہ ابن مسعود ؓ کے علاوہ سے روایت کریں ،تو وہاں پر کوئی  امام صاحب نے صراحت نہیں  کی۔(النکت : ج۲ : ص ۵۵۷، جامع التحصیل  للعلائی : ص۱۴۱،صحیح ابی داود  للالبانی : ج۶: ص ۳۰۱)

۲۳)      حافظ صلاح الدین العلائیؒ(م۷۶۱؁ھ) نے کہا : کہ ’’ جماعة من الأئمة صححوا مراسيله كما تقدم وخص البيهقيي ذلك بما أرسله عن ابن مسعود ‘‘۔(جامع التحصیل  للعلائی :ص۱۴۱)

۲۴)      حافظ ولی الدین ،ابن العراقی ؒ(م۸۲۶؁ھ) ۔(تحفۃ التحصیل : ص۲۰،انوار الطریق : ص ۸)

۲۵)      امام ،حافظ، امیر المومنین فی الحدیث،علی بن المدینیؒ(م۲۳۴؁ھ) کے نزدیک بھی ابراہیم  نخعی ؒ کی مراسیل علی الاطلاق  مقبول ہے۔[4]

۲۶)       حافظ ابن القیمؒ(م۷۵۱؁ھ)نےبھی ابراہیم نخعی عن ابن مسعود ؓکی ایک مرسل روایت پر ابن حزم ؒ کے اعتراض کا بہترین جواب دیا ہے اور ثابت کیاہے کہ ابراہیم نخعی عن ابن مسعود کی روایت مقبول ہے۔

ان کے الفاظ یہ ہیں :

            ابراہیم لم یسمع من عبداللہ ،ولکن الواسطۃ بینہ وبین اصحاب عبداللہ کعلقمہ ونحوہ،وقد قال ابراہیم : اذا قلت قال عبداللہ فقد حدثنی بہ غیر واحد عنہ واذا قلت :قال فلان عنہ فہو عمن سمیت اوکما قال ،ومن المعلوم ان بین ابراہیم وعبداللہ ائمۃ ثقات لم یسم قط منہما ولا مجروحا ولا مجہولا فشیوخہ الذین أخذ عنہم عن عبداللہ أئمۃ أجلاء  نبلاء  وکانوا کما قیل : سرج الکوفۃ وکل من لہ ذوق فی الحدیث اذا قال ابراہیم :قال عبداللہ لم یتوقف فی ثبوتہ عنہ ،وان کان غیرہ ممن فی طبقتہ لوقال :قال عبداللہ لا یحصل لنا الثبت بقولہ ،فابراہیم عن عبداللہ نظیر ابن المسیب عن عمر ونظیر مالک عن ابن عمر ،فان الوسائط بین ہؤلاء وبین الصحابۃ رضی اللہ عنہم اذا سموہم وجدوا من اجل الناس وأوثقہم وأصدقہم ،ولا یسمون سواہم البتۃ ،ودع ابن مسعود فی ہذہ المسألۃ ۔ (زاد المعاد ج:۵ص: ۵۸۰)[5]

۲۷)      امام ابوداؤد ؒنے بھی ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو ابو اسحق سبیعی کی مراسیل پر ترجیح دی ہے ۔

(اکمال تہذیب الکمال للمغلطائی ج: ۱ص: ۳۲۰)

اسی طرح درج ذیل سلفی ، غیر سلفی  و عرب علماء  کے نزدیک ’’ابرہیم عن ابن مسعود‘‘کی سند مقبول وصحیح  ہے:

۲۸)      شیخ ابو عبد الرحمٰن مقبل بن ہادی ؒ۔(بشائر الفرح بتقریب   فوائد  الامام الوداعی:ص ۱۲۹)

۲۹)      شیخ سعد بن عبد اللہ بن عبد العزیز آل حمید۔

(التفسیر من سنن سعید بن منصور : ج۳: ص ۱۲۱۸،ت سعد بن عبداللہ)

۳۰)      شیخ امام بن علی بن امام۔(مسند الفاروق : ج۱: ص ۱۲۱،ت امام بن علی)

۳۱)       شیخ جمال بن محمد السید۔(ابن قیم و جہودہ فی خدمۃ السنۃ : ج۳: ص ۲۲۵)

۳۲)      شیخ یوسف بن ماجد المقدسی الحنبلی۔(المقرر علی ابواب المحرر : ج۲ : ص ۲۶۷)

۳۳)      شیخ ناصر بن محمد  بن عبد العزیز العبد اللہ۔(المطالب العالیۃ : ج۳: ص ۶۱۶،ت  ناصر بن محمد)

۳۴)      شیخ محمد بن ظافر بن عبد اللہ الشہری۔(المطالب العالیۃ : ج۱۵: ص ۲۹۷،ت  محمد بن ظافر)

۳۵)      شیخ عادل مرشد۔

۳۶)      شیخ شعیب الارنووطؒ۔(سنن ابو داود : ج۷: ص ۵۳۷،ت  الارنووط،مسند احمد: ت الارنووط،عادل)

۳۷)     غیر مقلدشیخ  غلام محمد بن زکریا  پاکستانی ۔(ما صح من آثار الصحابۃ فی الفقہ : ج۱ : ص ۹۴)

۳۸)      شیخ عبد القادر الارنووطؒ۔(جامع الاصول : ج۱ : ص ۱۱۷،ت عبد القادر الارنووط)

۳۹)      شیخ بشار العواد معروف۔(تہذیب الکمال : ج۲: ص ۲۳۹،ت  بشار)

۴۰)      شیخ  محمد عمرو عبد اللطیف۔(تبییض الصحیفۃ باصول الاحادیث الضعیفۃ : ج۱: ص ۹۲)

۴۱)       شیخ ابو المنذر محمود بن محمد المنیاوی۔(شرح الموفظۃ للذہبی: ص ۱۲۶)

۴۲)      شیخ ابراہیم بن عبد اللہ بن عبد الرحمٰن المدیہش۔(تخریج احادیث حیاۃ الحیوان للدمیری : ص۱۰۰۱)

۴۳)      شیخ خالد بن ضیف اللہ الشلاحی ۔(التبیان فی  تخریج احادیث  بلوغ المرام : ج۷: ص ۵۱۸)

۴۴)      شیخ محمد بن رزق  بن  طرھونی۔(موسوعہ فضائل سور و آیات القران-قسم الصحیح: ج۲ : ص ۴۷۱)

۴۵)      شیخ عبد العزیز بن مرزوق الطریفی۔

( التحجيل في تخريج ما لم يخرج من الأحاديث والآثار في إرواء الغليل : ص۲۷۸)

۴۶)      شیخ ناصر الدین الالبانیؒ۔[6]

خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل ،محدثین اور علماء کے نزدیک امام ابراہیم النخعی عن عبد اللہ  کی مرسل روایات صحیح اورحجت ہیں ،لہذا ان کی مراسیل کا انکار کرنا باطل ومردود ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

’’ابراہیم النخعی عن عبد اللہ   ‘‘ اور دیگر مراسیل ائمہ  پر ارشاد الحق اثری صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات ۔

            اثری صاحب مراسیل ابراہیم  کی تصحیح میں صرف امام احمد ؒ  کا حوالہ ذکر کیا اور آگے کہتے ہیں کہ :

            ’’لیکن اصولاً یہ بات بھی محل نظر ہے،بلاشبہ حضرت ابراہیم النخعیؒ نے صراحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ  کی سند میں میرے شیوخ ثقہ ہیں،مگر راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی  شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا جب راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال نہیں،تو ابراہیم ؒ کے اس قول میں یہ امتیاز اور ترجیح کیوں ہے ؟ غالباً اس بنا پر حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ:

             اس بات پراتفاق ہے کہ ابراہیم ؒ حجت ہیں مگر جب  وہ ابن مسعودؓ وغیرہ سے مرسل روایت کریں تو حجت نہیں۔ (میزان)

            علامہ زیلعیؒ ایک حدیث کے متعلق  نقل کرتے ہیں کہ :

             محمد بن جابر ؒ پر  بہت سے ائمہ نے کلام کیا ہے اور ابراہیم ؒ کی حضرت  ابن مسعودؓ سے ملاقات نہیں ہوئی،پس یہ  حدیث ضعیف اور منقطع ہے۔(توضیح الکلام : ۵۴۴)

الجواب :

اولاً        ’’ابراہیم النخعی عن عبد اللہ   ‘‘ کی سند کی تصحیح کرنے والے ائمہ میں امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ)کے ساتھ،امام یحیی بن سعید القطانؒ(م۱۹۸؁ھ)،امام یحیی بن معینؒ(م۲۳۳؁؁ھ)،امام علی بن المدینیؒ(م۲۳۴؁ھ)،ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ، امام ابو جعفرطحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ)،امام ابو الحسن الدارقطنیؒ(م۳۸۵؁ھ)، امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ)،حافظ المغرب،امام  ابن عبد البرؒ (م۴۶۳؁ھ)،امام،حافظ،أبو الولید الباجی ؒ (م۴۷۴؁ھ)،امام عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱؁ھ)،حافظ ابو العباس ابن تیمیہ الحرانی ؒ ۷۲۸؁ھ)،حافظ ابن سید الناس ؒ ۷۳۴؁ھ)،امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ)،امام،حافظ علی بن عثمان الماردینی ؒ (م۷۵۰؁ھ)،حافظ ابن القیم ؒ(م۷۵۱؁ھ)،حافظ صلاح الدین علائی ؒ ۷۶۱؁ھ)،حافظ علاء الدین مغلطائیؒ (م۷۶۲؁ھ)، حافظابن رجبؒ (م۷۹۵؁ھ)،حافظ ولی الدین ،ابن العراقیؒ (م۸۲۶؁ھ)حافظ ابن حجرؒ(م۸۵۲؁ھ)،محدث عینیؒ (م۸۵۵؁ھ)  وغیرہ ائمہ بھی ہیں۔

            نیز  موجودہ زمانے  کے سلفی  ،غیر سلفی وعرب محققین  کی ایک جماعت نے بھی اس سند کی صحت کو تسلیم  کیا ہے۔ جس کی تفصیل گزرچکی۔

دوم     :

i)         حافظ ذہبیؒ کے صاحبزادے المحدث،المسند الکبیر،مسند الدنیا،ابو ہریرہ عبد الرحمٰن بن محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ (م۷۹۹؁ھ)،[7]

ii)        ابوہریرہ کے صاحبزادے،یعنی حفید الذہبی ابو عبد اللہ محمد بن عبد الرحمٰن بن محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ (م۸۰۳؁ھ)،[8]

iii)      اور سبط الذہبی،ابو محمد عبد القادر بن  محمد بن علی الدمشقیؒ(م۸۰۳؁ھ)[9] وغیرہ   سے مروی نسخہ   میزان الاعتدال میں  امام ابراہیم نخعی کا ترجمہ ہی موجود نہیں ہے۔

چنانچہ،حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲؁ھ)  نے ان تینوں  علماء کے حوالے سے حافظ ذہبیؒ کی میزان الاعتدال روایت کی ہے۔(لسان المیزان : ج۱: ص ۱۹۴، ت ابو الفتح)

یہ بات بھی  قابل غور ہے کہ حفید الذہبی ابو عبد اللہ محمد بن عبد الرحمٰن بن محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ (م۸۰۳؁ھ)، کی پیدائش(م۷۳۲؁ھ)  میں ہوئی اور سبط الذہبی،ابو محمد عبد القادر بن  محمد بن علی الدمشقیؒ(م۸۰۳؁ھ) کی پیدائش (م۷۲۹؁ھ) میں ہوئی۔

یعنی ان دونوں حضرات نے  حافظ ذہبیؒ سے ان کی آخری عمر  میں سماع کیا ۔

اس لحاظ سے اس کا بات قوی امکان ہے  کہ حافظ ذہبیؒ نے میزان   الاعتدال  میں موجود مراسیل ابراہیم نخعی کے فیصلے سے رجوع فرما لیاہو،کیونکہ حافظ ذہبی ؒ کا گھرانہ اس بات پر متفق ہے کہ   ان کی کتاب میزان میں ابراہیم نخعیؒ کا ترجمہ موجود نہیں ۔

نیز اپنی ایک اور کتاب میں حافظ ذہبیؒ نے مراسیل ابراہیم   کے بارے میں کہا کہ ان میں کوئی حرج نہیں۔(دیکھئے ص :۴ )

لہذا قرائن اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں  کہ میزان کی عبارت سے حافظ ذہبیؒ نے  رجوع کیا۔واللہ اعلم،

سوم      حافظ زیلعیؒ کے حوالے میں  صرف اتنا ہے کہ  ابراہیم  عن عبد اللہ کی سند منقطع ہے،اور اس بات کا اقرار ہم بھی کرتے ہے کہ ابراہیم نخعی  نے عبد اللہ کو نہیں پایا،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابراہیم عن عبد اللہ  کی روایت  ،آیا محدثین نے قبول کیا ہے یا نہیں،خود حافظ زیلعیؒ (م۷۶۲؁ھ)نے نصب الرایہ : ج۱: ص ۴۱۰، پر ابراہیم عن عبداللہ  کی سند  کو رد کرنے والوں  کے لئے امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کے حوالے سے  جواب نقل کیا ہے۔

لہذا  حافظ زیلعیؒ  کا حوالہ بھی اثری صاحب کے لئے مفید نہیں۔

چہارم    اثری صاحب نے کہا تھا   کہ ’’ بلاشبہ حضرت ابراہیم النخعیؒ نے صراحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ  کی سند میں میرے شیوخ ثقہ ہیں،مگر راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی  شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا جب راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال نہیں،تو ابراہیم ؒ کے اس قول میں یہ امتیاز اور ترجیح کیوں ہے ؟ ‘‘ ۔

لیکن ’’ عبد اللہ عن ابراہیم‘‘ کے مسئلہ میں  ابراہیم  اور عبد اللہ  کے درمیان ایک  راوی  نہیں بلکہ  کئی  ثقہ روات ہیں۔

لہذا  یہاں پر اخبرنی ثقۃ  نہیں بلکہ اخبرنی  ثقات ہے اور ایسی صورت میں   روایت کی تصحیح  واضح ہے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل نے صراحت کی ہے۔

نیز جمع کی صورت میں  ہر راوی کا ضعیف ہونا بھی بہت ہی بعید ہے،خاص طور  پر جب کہ وہ روات  خود ابراہیم نخعیؒ  کے نزدیک ثقہ ہوں۔

لہذا اثری صاحب کا اعتراض مردود ہے۔

پنجم        اثری صاحب بھی عجیب ہیں،ایک طرف کہتے ہیں کہ  راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی  شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا، راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال نہیں ہوتا، دوسری طرف   مدلسین کے عنعنہ والی روایت کو صحیح تسلیم کرتے ہیں۔

            مثلاًامام زہریؒ کی تدلیس کے بارے میں کہتے ہیں کہ  ان  کو مدلسین کے  تیسرے طبقے میں شمار کرنا صحیح نہیں ہے۔ اور موصوف نے ائمہ کے حوالوں سے ثابت کیا کہ ان کی تدلیس قابل قبول ہے۔(توضیح الکلام : ص ۳۵۸)[10]

            لیکن قارئین ! قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ جس امام ابراہیم نخعی ؒ  کی مراسیل کو ائمہ جرح و تعدیل نے صحیح قرار دیا ، اورتصریح کی کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں اور خاص طور سے ’’ابراہیم عن عبد اللہ‘‘ کی روایت کی تصحیح کو   امام دارقطنیؒ،امام بیہقیؒ،حافظ ابن  حجر ؒ وغیرہ  ائمہ نے بھی تسلیم کیا ہے،وہاں   اثری صاحب کہتے ہیں کہ ’’ راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی  شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا، راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال نہیں ‘‘۔

            دوسری طرف اثری صاحب   امام  زہریؒ   کی عنعنہ والی روایت کوقبول کیا ،وجہ یہ بتائی  کہ  ائمہ نے ان کے عنعنہ کو قبول  کیا،حالانکہ ان کی عنعنہ والی روایت میں  یہ بالکل بھی صراحت نہیں کہ  اس میں  ان کے شیخ ثقہ ہیں،بلکہ الٹا زہری ؒ کے بارے میں ائمہ جرح و تعدیل نے صراحت کی ہے کہ وہ  ہر ایک (یعنی ثقہ اورضعیف) سے روایت لیتے تھے۔(جامع التحصیل : ص۳۷،۷۸،الرسالۃ للشافعی : ص۴۳۹)، بلکہ اثری صاحب بھی خود تسلیم کرتے  ہوئے لکھتے ہیں کہ اسی طرح وہ (یعنی زہریؒ) ضعفاء سے بھی روایت کرتے ہیں۔(اعلاء السنن فی المیزان : ص۲۸۹)

معلوم ہوا کہ   صحت میں،زہریؒ کی عنعنہ  ،ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل  کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی ،بلکہ فنی  اعتبار سے مراسیل ابراہیم نخعی  کی صحت کا جو مقام ہے اس سے بھی  اس کی حالت بری ہے،لیکن چونکہ اثری صاحب کو اپنی روایت ثابت کرنا تھا،اس لئے محض متاخرین  ائمہ کے حوالے سے  زہریؒ کی عنعنہ   کو مقبول مان لیا۔

اور پھر  جب اثری صاحب کے نزدیک  ’’ راوی کا اخبرنی ثقۃ   کہنا‘‘حدیث کی تصحیح پر دال نہیں، تو زہری ؒ کی عنعنہ میں موجود ’’ عن رجل   ‘‘ کیسے حدیث کی تصحیح پر دال ہے ؟؟؟

اگر کوئی  غیر مقلد یہ کہے کہ زہری ؒ کی عنعنہ میں ’’عن رجل‘‘ کا احتمال ہے،یقین نہیں،

 تم ہم کہتے ہیں کہ کیا  اہل حدیث حضرات  اپنے دین کی بنیاد  احتمالات پر رکھنا چاہتے  ہیں ؟؟  کیونکہ یہاں  بات  صرف زہری ؒ کی عنعنہ  کی نہیں، بلکہ  تمام مدلسین کے عنعنہ  والی روایت کی ہے۔لہذا جب ان میں ہر  ایک کی عنعنہ میں ’’ عن رجل   ‘‘ کا حتمال ہے۔

تو کس بنیاد  پراثری صاحب اور دیگر غیر مقلدین حضرات بعض مدلسین کی  عنعنہ والی روایت قبول کرتے ہیں ؟[11]

 کیا وہ اپنے دین کی بنیاد احتمالات  پر نہیں رکھ رہے ہیں ؟؟

مزید  اثری صاحب خود کہتے ہیں کہ جب کسی  روایت میں  احتمال ہو،تو اس سے استدلال باطل ہوجاتا ہے۔

(توضیح الکلام : ص۸۳۲)

لہذا اثری صاحب اور موجودہ اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ:

(۱)       وہ یا تو مرسل کی طرح ، تدلیس کے مسئلہ میں بھی  امام  شافعیؒ  کا مسلک قبول کریں اور ہر مدلس کی ہر عنعنہ والی روایت کو مردود تسلیم کریں،جیسا کہ زبیر علی زئی وغیرہ کا مسلک ہے۔۔(نور العینین: ص ۴۵۷)

(۲)       یا  جس طرح اثری صاحب اور دیگر غیرمقلدین حضرات تدلیس کے مسئلہ میں امام  شافعیؒ  کے مسلک کے بجائے دوسرے ائمہ کے اقوال کو قبول کرتے ہیں ویسے ہی  ان پر لازم ہے کہ وہ مراسیل میں بھی امام شافعیؒ کے مسلک کے بجائے دوسرے ائمہ کے اشادات اور تصریحات کے مطابق ائمہ تابعین کی مراسیل کو قبول کریں۔

            اور  یاد رہے کہ ائمہ تابعین کی مراسیل کو قبول کرنے میں  جو علت غیر مقلدین پیش کریں گے،وہی علت تدلیس میں بھی ہوگی، جیسا کہ ابن حبان ؒ ،سبط ابن العجمی ؒ وغیرہ ائمہ کے حوالے گزرچکے۔

مراسیل ائمہ کو قبول نہ  کرنے  کا بہانہ :

            ائمہ  محدثین کا بعض ائمہ تابعین  کی مراسیل کو صحیح کہنا ثابت ہے،

مگر ان کےجواب میں اثری صاحب کہتے ہیں :

            اس قسم کے اقوال محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘کے قبیل سے ہیں،ورنہ بعض تابعین کی مراسیل کو بعض پر ترجیح دینے یا اصح کہنے کے کیا معنی ؟ ضعیف کو ضعیف پر بھی ترجیح ہوتی ہے،جیسا کہ خیر الکلام : ص ۳۵۳ میں ہے مگر مؤلف احسن الکلام لکھتے ہیں :

            ’’یہ محض طفل تسلی ہے کیوں کہ ان مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں۔‘‘ (احسن : ج۱: ص ۱۱۸)

            لیکن یہ بھی محض دعویٰ ہے،اس کے برعکس خطیب بغدادی امام شافعی ؒ وغیرہ کے اسی قسم کے اقوال نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

            کہ امام شافعی ؒ نے اسے  ترجیح دی ہے اور مرسل سے ترجیح جائز ہے،اگر چہ اثبات حکم کے لئے اس سے استدلال صحیح نہیں اور یہی قول صحیح ہے۔

            یہی بات امام بیہقی ؒ نے کہی ہے۔دیکھئے تدریب الراوی : ص ۱۲۱،

لہذا ان اقوال کی بنا پر بعض مراسیل کو فی نفسہا صحیح سمجھنا محض دعویٰ ہے۔(توضیح الکلام : ص۵۴۲)

الجواب :

          اثری صاحب  کی عبارت  میں درج ذیل  باتیں قابل غور ہیں  :

(۱)       ائمہ  محدثین کا بعض ائمہ  کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘کے قبیل سے ہیں۔

(۲)       خطیب بغدادیؒ ،بیہقی ؒ کے اقوال  ؟

(۳)      ان مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں کیا محض دعویٰ ہے ؟؟

۱:        کیا  محدثین کا بعض ائمہ  کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘کے قبیل سے ؟؟

            ائمہ  محدثین کا بعض ائمہ  کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘  کے قبیل سے ہے، ارشاد الحق اثری صاحب کا یہ کہنا غیر صحیح اور مردود ہے،کیونکہ ائمہ  جرح و تعدیل کے الفاظ بالکل صریح اور واضح  طور پر  مراسیل کے علی الاطلاق صحیح  ہونے پر دلالت کرتے ہیں،مثلاً :

ا)         امام یحیی بن سعید  القطان ؒ (م۱۹۸؁ھ) کہتے ہیں کہ  :

            ’’ أن مراسيل الحسن وجد لها أصلا إلا حديثا أو حديثين ‘‘

حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کی اصل موجود ہے،سوائےایک یا دوحدیثوں کے۔

-          اس کی شرح میں حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            ’’ يدل على أن مراسيله جيدة ‘‘

 یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ان کی مرسل حدیثیں مضبوط ہیں ۔

(العلل الصغیر للترمذی : ص۷۵۴ ،شرح علل الترمذی لابن رجب  ۱/۵۳۶)

۲)        امام علی بن المدینیؒ (م۲۳۴؁ھ) فرماتے ہیں :

            ’’مرسلات الحسن البصري التي رواها عنه الثقات صحاح ما أقل ما يسقط منها‘‘

            حسن بصریؒ کی مرسل حدیثیں،جنہیں ثقہ راویوں نے ان سے روایت کیا ہے ، وہ صحیح ہیں ، ان میں سے بہت کم ساقط ہیں ۔ (التاریخ وأسماء المحدثین وکناہم للمقدمی ۲۰۱)

۳)        امام ابو زرعہ الرازی ؒ (م۲۶۱؁ھ) کہتے ہیں کہ :

’’كل شيء يقول الحسن، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجدت له أصلاً ثابتا ما خلا أربعة أحاديث‘‘

 ہروہ حدیث جسےحسن بصریؒ نے(مرسلاً )روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے، تو میں نے پایا کی اس حدیث کی اصل ہے اور وہ حدیث ثابت ہے،سوائے چار حدیثوں کے ۔

(کتاب الضعفاء لابی زرعہ :ج۳: ص ۸۵۷)

-          حافظ سیوطی ؒ کہتے ہیں کہ :

قلت: وقد عدّ الحديث في الموضوعات، وتعقبه شيخ الإسلام ابن حجر العسقلاني بأن ابن المديني أثنى على مراسيل الحسن والإسناد حسن إليه۔

(ابن الجوزی ؒ نے )حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کو موضوعات میں شمار کیا تو ابن حجرؒ نے ان پر رد کیا کہ ابن المدینیؒ نے حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کی تعریف کی ہے اور اس حدیث کی سند حسن بصریؒ تک حسن ہے ۔ (الدرر المنثورۃ :ص۱۰۵)

-          علامہ سیوطی ؒ دوسری جگہ پر لکھتے ہیں :

            قال شيخ الإسلام: إسناده إلى الحسن حسن، ومراسيله أثنى عليها أبو زرعة، وابن المديني، فلا دليل على وضعه ۔

 شیخ الاسلام ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند حسن بصریؒ تک حسن ہے اور ان کی مرسل حدیثوں کی ابو زرعہ اور ابن المدینی ؒ نے تعریف کی ہے ، اسلئے اس کو موضوع کہنے کی کوئی دلیل نہیں ۔

(تدریب الراوی ۱/۳۳۹)

            اور حافظ سیوطی  نے بھی سکوت کے ذریعہ  حافظ ابن حجرؒ کی تائید کی ہے۔(انوار الطریق : ص۸)

-         حسن بصری ؒ کی مرسل روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام نووی ؒ (م۶۷۶؁ھ)کہتے ہیں کہ :

 أثنى على ابن المدينى، وأبو زرعة على مراسيل الحسن۔

          ابن المدینیؒ اور ابو زرعہ رازی ؒنے حسن بصریؒ کی مرسل حدیثوں کی تعریف کی ہے۔

(تہذیب الاسماء واللغات :ج۱: ص۱۶۲)

            قارئین  ! غور فرمائیے ، ائمہ متقدمین کی عبارات  سے ائمہ محدثین نے کہی بھی ارشاد الحق اثری کی تاویل مراد نہیں لی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثیں ابن حجر ؒ کے نزدیک حجت ہیں ۔

(۴)      امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) فرماتے ہیں :

            ’’مرسلات الحَسَن ليس بها بَأسٌ‘‘۔

              حسن البصری کی مراسیل میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (موسوعة أقوال يحيى بن معين : ج۱ : ص ۴۴۵)

(۵)      امام ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

حسن بصری ؒ کی یہ مرسل حدیث صحیح ہے کہ صہیب ؓ ، روم میں( سب سے )پہلے( اسلام لانے والوں میں سے) ہیں ۔ (تاریخ الاسلام:ج ۲:ص۳۳۸)

(۶)       امام العلل ، امام علی بن المدینیؒ (م۲۳۴؁ھ)،امام یعقوب  بن شیبہ السدوسیؒ(م۲۶۲؁ھ)،حافظ ابن رجبؒ (م۷۹۵؁ھ) وغیرہ نے  ’’ابوعبیدۃعن ابن مسعود‘‘ کی حدیثوں کو غیر منکر،صحیح بلکہ ثبت قرار دیا ہے۔(شرح علل ترمذی لابن رجب : ج۱:ص۵۴۴،فتح الباری لابن رجب : ج۷: ص۳۴۲،ج۷: ص۱۷۴،ج۸: ص ۳۵۰) ،حافظ المغرب ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے بھی اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔چنانچہ وہ  کہتے ہیں :’’ روى عن أبيه وقد اختلف في سماعه منه وأجمعوا على أنه ثقة في كل ما رواه ‘‘۔ (الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة العلم بالكنى لابن عبد البر : ج۲: ص۸۱۰،نیز دیکھئے التمہید لابن عبد البر : ج۲۴: ص۲۹۳) امام ابو عبد الرحمٰن النسائی ؒ (م۳۰۳؁ھ) بھی نے کہا : ’’ أبو عبيدة لم يسمع من أبيه والحديث جيد‘‘۔(السنن الکبری للنسائی : ج۱: ص ۴۶۴)

            ان سے معلوم ہوا کہ ان  ائمہ  کے نزدیک  ’’ابوعبیدۃعن ابن مسعود‘‘ کی روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح،غیر منکر،جید بلکہ ثبت ہے۔

            لیکن کسی نے بھی ارشاد الحق اثری کی تاویل مراد نہیں لی ،بلکہ ان کو ظاہر پر ہی محمول کیا۔

(۷)      ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو بھی ائمہ متقدمین  نے صحیح ،درست اور بلکہ مسند سے اقوی تسلیم کیا ہیں،اور متاخرین ائمہ محدثین نے بھی ان کی مراسیل کو مانا  ہیں،اور بعض نے ’’ابراہیم عن عبد اللہ‘‘ کی روایت کو خصوصاً قبول کیا ہے، جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔(دیکھئے ص :۱ )

            لیکن کیا کسی نےان کے اقوال سے  اثری صاحب کی تاویل مراد لی ؟؟

            خلاصہ یہ کہ ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال  مراسیل کی تصحیح پر صریح ہے اور پھر محدثین  نے بھی اس سے علی الطلاق مراسیل کی تصحیح مراد لی  ہے،جیسا کہ گزرچکا۔

            اور کسی نےان کے اقوال سے  اثری صاحب کی تاویل مراد نہیں لی،لہذاسلف اور ائمہ محدثین کے فہم کے مقابلے میں اثری صاحب کی تاویل باطل و مردود ہے۔

۲ :       خطیب بغدادیؒ ،بیہقی ؒ کے اقوال  ؟

اولاً

            حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) نے اپنی عبارت میں درصل مراسیل  کے سلسلے میں امام شافعی ؒ کے مسلک کو واضح کیا کہ ان کے نزدیک مرسل سے استدلال جائز نہیں ہے،کیونکہ امام شافعی ؒ کا مراسیل ابن مسیب کی تعریف کرنے کی وجہ سے،   بعض فقہاء شافعیہ رحم اللہ علیہم نے امام شافعی ؒ کے نزدیک ان  کا حجت ہونا مانا ہے،ان کے رد میں خطیب کہتے ہیں کہ صحیح قول میں  شافعی ؒ  کے نزدیک مرسل سے استدلال جائز نہیں ہے۔

          حافظ المشرقؒ کی پوری عبارت یہ ہیں :

            أخبرنا القاضي طاهر بن عبد الله الطبري، أنا أبو طاهر محمد بن عبد الرحمن المخلص، ثنا أبو بكر أحمد بن عبد الله بن سيف، حدثنا المزني , قال: قال الشافعي: «وإرسال ابن المسيب عندنا حسن» قال الخطيب: اختلف الفقهاء من أصحاب الشافعي في قوله هذا , منهم من قال: أراد الشافعي به أن مرسل سعيد بن المسيب حجة , لأنه روى حديثه المرسل في النهي عن بيع اللحم بالحيوان , وأتبعه بهذا الكلام , وجعل الحديث أصلا إذ لم يذكر غيره , فيجعل ترجيحا له , وإنما فعل ذلك لأن مراسيل سعيد تتبعت فوجدت كلها مسانيد عن الصحابة من جهة غيره ,

ومنهم من قال: لا فرق بين مرسل سعيد بن المسيب وبين مرسل غيره من التابعين , وإنما رجح الشافعي به والترجيح بالمرسل صحيح , وإن كان لا يجوز أن يحتج به على إثبات الحكم , وهذا هو الصحيح من القولين عندنا , لأن في مراسيل سعيد ما لم يوجد مسندا بحال من وجه يصح , وقد جعل الشافعي مراسيل كبار التابعين مزية على من دونهم , كما استحسن مرسل سعيد بن المسيب على من سواه۔(الکفایۃ للخطیب  : ص ۴۰۴-۴۰۵)

            اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ خطیب ؒ  صرف  امام شافعی ؒ کا صحیح مسلک واضح کیا ہے،لیکن اس سے دوسرے  ائمہ کے نزدیک مرسل کا غیر صحیح  ہونا لازم نہیں آتا،خاص طور سے جب کہ ان حضرات نے واضح اور صریح طور پر مراسیل کی تصحیح فرمائی ہے،جیسا کہ گزرچکا، اور خطیب نے   ائمہ کے اقوال(مثلاً امام احمد ؒ وغیرہ)  کا رد بھی  نہیں کیا،بلکہ صرف  امام شافعی ؒ کے صحیح مسلک   کوواضح کیا۔

لہذا  دوسرے ائمہ کے اقوال کے رد میں،اس حوالے سے اثری صاحب  کا  استدلال صحیح نہیں ہے۔

دوم      امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) کا قول ، اثری صاحب نے تدریب الراوی سے نقل کیا ہے،چنانچہ امام سیوطیؒ(م۹۱۱؁ھ) کے الفاظ یہ ہیں :

         فاختلف أصحابنا في معنى قوله: وإرسال ابن المسيب عندنا حسن، على وجهين حكاهما الشيخ أبو إسحاق الشيرازي في اللمع، والخطيب البغدادي وغيرهما.

أحدهما: معناه أنه حجة عنده بخلاف غيرها من المراسيل، قالوا: لأنها فتشت فوجدت مسندة.

والثاني أنها ليست بحجة عنده بل هي كغيرها، قالوا وإنما رجح الشافعي بمرسله، والترجيح بالمرسل جائز، قال الخطيب: وهو الصواب.

والأول ليس بشيء ; لأن في مراسيله ما لم يوجد مسندا بحال من وجه يصح، وكذا قال البيهقي.

قال: وزيادة ابن المسيب في هذا على غيره أنه أصح التابعين إرسالا فيما زعم الحفاظ.

قال المصنف: فهذان إمامان حافظان فقيهان شافعيان متضلعان من الحديث والفقه والأصول والخبرة التامة بنصوص الشافعي ومعاني كلامه۔(تدریب الراوی : ج۱: ص ۲۲۵)

            غور فرمائیے ! یہاں بھی امام بیہقی ؒ نے  ائمہ کے اقوال کے رد میں کچھ بھی نہیں کہا،بلکہ صرف امام شافعی ؒ کے صحیح مسلک کی نشادہی کی ہے۔

            اور پھر آگے امام سیوطی ؒ کا کلام بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) اور امام  خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) یہ دونوں شافعی  امام،حافظ الحدیث،فقیہ ،حدیث،فقہ اور اصول  کے ماہر اور بہت زیادہ علم رکھنے والے اور امام شافعیؒ کے نصوص اور ان کے کلام کے معانی کے مکمل معلومات والے تھے۔

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں امام  بیہقیؒ نے کسی امام  کا رد نہیں کیا،بلکہ صرف امام شافعی ؒ کے صحیح مسلک کی نشادہی کی ، لہذااس حوالے سےبھی  اثری صاحب  کا  استدلال بے فائدہ ہے۔

سوم      تدلیس کے مسئلہ میں بھی امام شافعی ؒ کے مسلک  کی توضیح میں  حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) نے بھی یہی بات کہی ہے کہ  مدلس راوی کی روایت  صرف سماع کی تصریح کے ساتھ ہی مقبول ہے،اور یہی ہمارے نزدیک صحیح  قول ہے۔(نور العینین : ص ۴۷۸)،

امام بیہقیؒ  کا بھی یہی قول ہے۔( نور العینین للشیخ زبیر علی زئی : ص۴۷۸)

اب  تدلیس کے مسئلے میں امام شافعیؒ ، خطیبؒ اور بیہقیؒ کی عبارات  کا جو جواب اثری صاحب دینگے،وہی جواب ہمارے طرف سے ابراہیم نخعیؒ،وغیرہ  ائمہ کی  مراسیل کے سلسلے میں ہوگا،

چہارم   [خطیبؒ اور بیہقیؒ کی عبارت اثری صاحب کے  خلاف ہے]

خطیبؒ اور بیہقیؒ کی عبارت ،جیسا کہ اثری صاحب نے نقل کیا ہے،اس میں ہے کہ مرسل سے ترجیح جائز اور صحیح  ہے،کیا اثری صاحب اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں  ؟؟؟

            ایک صحیح روایت میں رسول اللہ ﷺ نے مقتدیوں کو قراءت سے معنی کرتے ہوئے امام کی قراءت کو مقتدی کی قراءت قرار دیا ہے،اور دوسری روایت میں امام کے پیچھے قراءت کا حکم بھی دیا،

لیکن  ۴،۴ مرسل  روایات میں  یہ ہے کہ پہلے امام کے پیچھے قراءت تھی اور بعد ترک کردی گئی۔(تفسیر ابن جریر،تفسیر ابن ابی حاتم،احکام القران للطحاوی،کتاب القراءۃ للبیہقی  وغیرہ)

            چونکہ مرسل سے ترجیح جائز اور صحیح ہے،جیسا کہ اثری صاحب نے ائمہ سے نقل کیا ہے، تو کیا مراسیل کی ترجیح  کی وجہ سے،اثری صاحب امام کے پیچھے قراءت نہ کرنے کی روایات کو ترجیح  دیں گے ؟؟؟

            اسی طرح تراویح کے مسئلہ میں بھی۸ رکعات کی روایت کے مقابلے میں  یزید بن خصیفہ ؒ کی  ۲۰ رکعات کی روایت کی تائید بھی مراسیل سے ہوتی ہے۔

            اثری صاحب ! جواب دیں کہ کیا ۲۰ کعات کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی۔

۳ :      ان مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں کیا محض دعویٰ ہے ؟؟

            اس پر تفصیلی کلام  پہلی گزرچکا کہ  ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال  مراسیل کی تصحیح پر صریح ہیں اور پھر محدثین  نے بھی اس سے علی الطلاق مراسیل کی تصحیح مراد لی  ہے۔(دیکھئے ص :۲۹)

            اس پر مزید ایک اور مثال امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی ہے کہ ان ہوں نے مراسیل ابراہیم نخعی ؒ کے بارے میں کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہےتو حافظ ابن حجر ؒ نے امام احمد ؒ  کے قول سےنخعیؒ کے مراسیل کی علی الاطلاق تصحیح مراد لی ہے۔ (دیکھئے ص :۹ )

            نیز اثری صاحب نے بھی اس کو  اپنی کتاب   میں نقل کیا ہے۔(توضیح الکلام : ص ۵۴۳) لیکن شاید موصوف نے اس پر غور نہیں کیا۔

            برحال  اثری صاحب کا یہ  کہنا کہ  ’’ مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح کہنا محض دعویٰ ہے ‘‘ باطل اور مردود ہے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

       حسن بصری ؒ کی مراسیل پر بحث ۔

(اثری صاحب کے اعتراض کا جواب)

            اثری صاحب نے  امام احمد،ابن سعد اور دارقطنی  رحم اللہ علیہم وغیرہ ائمہ کے اقوال ذکر کئے ہے کہ حسن  بصری ؒ کی مراسیل ضعیف ہیں، لیکن تحقیق کی روشنی میں یہ بات صحیح نہیں ہے،کیونکہ:

(۱)       ہمارے علم کے مطابق ان  ائمہ  کے قول کی بنیاد  درصل  ابن سیرین ؒ کا  قول ہےکہ حسن بصریؒ  ہر ایک سے روایت لیتے تھے،اور امام احمد ؒ کے قول میں اس کی صراحت بھی ہے،نیز امام  احمد ؒ ،امام دارقطنی ؒ نے ابن سیرین ؒ کا یہ قول اپنی کتابوں میں نقل بھی کیا ہے۔(علل احمد بروایت عبد اللہ : رقم ۹۸۹،سنن دارقطنی : ج۱: ص ۱۷۰)

            لیکن جس طرح  ابو العالیہ ؒ(م۹۳؁ھ) کے حق  میں ابن سیرینؒ کا  یہ قول صحیح نہیں تھا۔( جس کی تفصیل آنے والے شماروں میں آئےگی؎) بالکل اسی طرح  حسن بصری ؒ کے بارے میں بھی ان کا  یہ کہنا غیر صحیح ہے۔

کیونکہ حسن بصری ؒ کے  اکثر شیوخ   ثقہ ہیں اور تہذیب الکمال میں امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) نے حسن بصری ؒ کے جتنے شیوخ ذکر کئے ہے،وہ تمام کے تمام ثقہ ہیں[12] ، ان میں کوئی شیخ بھی ضعیف نہیں ہے۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ  عام طور سے ثقہ سے روایت کرتے تھے،غالباً یہی وجہ ہے کہ  امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) کے نزدیک امام حسن بصری ؒ (م۱۱۰ ؁ھ) صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔(الاجماع : ش۶ : ص۱۹ )

            لہذا حسن بصری ؒ کے بارے میں ہر ایک سے روایت لینے کی بات صحیح نہیں ہے۔

(۲)       خود حسن بصری ؒ (م۱۱۰؁ھ) سے بھی  ان کی مراسیل کی تصحیح وارد ہوئی ہے،چنانچہ امام بخاری ؒ (۲۵۶؁ھ) کہتے ہیں کہ :

قال الهيثم بن عبيد: حدثني أبي، عن الحسن، قال: قال رجل: إنك تحدثنا قال النبي صلى الله عليه وسلم، فلو كنت تسند لنا، قال: والله ما كذبناك، ولا كذبنا، لقد غزوت إلى خراسان، معنا فيها ثلاث مئة من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم.

            ایک آدمی نے حسن بصری ؒ سے کہا کہ  آپؒ حضورﷺسے مرسلاً  روایت بیان کرتے ہیں مناسب ہوتا کہ آپؒ  ہم سے سند بیان کرتے،تو  حسن بصری ؒ نے کہا : اللہ کی قسم ،نہ ہم سے جھوٹ کہا گیا اور نہ ہم جھوٹ کہتے ہیں ،یقیناً میں خراسان غزوہ میں تھا، جس میں ہمارے ساتھ۳۰۰ ؍اصحاب رسول ﷺتھے۔(تاریخ کبیر للبخاری : ج۵: ص ۴۵۲)[13]

            اس روایت میں خود  حسن بصری ؒ نےمراسیل کی تصحیح کی اور کہا کہ وہ صحابہ ؓ سے مروی ہے،حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ وهذا يدل على أن مراسيل الحسن، أو أكثرها عن الصحابة ‘‘ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ مراسیل حسن  یا اکثر   حسن بصری ؒ کے مراسیل صحابہ ؓ سے مروی ہے۔(شرح علل ترمذی : ج۱: ص ۵۳۸)،  اسی طرح ایک اور  روایت میں ہے کہ  :

            قا ل البخاری حدثني عبدة، قال: حدثنا عبد الصمد، قال: حدثنا مبارك؛ شهدت الحسن، وقال له إبراهيم بن إسماعيل، الكوفي: نحب أن تسند لنا، قال: سل، قال: حديثك في قيام الساعة؟ قال: حدثني به ثلاثة، حدثني جابر بن عبد الله، وحدثنيه أنس بن مالك، وحدثنيه عبد الله بن قدامة العنبري، وكان امرئ صدق، عن الأسود بن سريع، فما سألوه يومئذ، عن شيء إلا أسند، فخرجوا، وقالوا: كنا نخدع عن هذا الشيخ۔

            اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ مبارک بن فضالہ ؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن اسماعیل الکوفی ؒ نے حسن بصری ؒ  سے عرض کیا کہ : ہماری خواہش ہے کہ آپ ہم سے مسنداً (حدیث ) بیان فرمائیں ، آپ نے فرمایا : (ٹھیک ہے ) پوچھو، مبارک بن فضالہ نے کہا :  قیام الساعۃ کے بارے میں آپ کی حدیث ؟ تو حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ  اس حدیث کو مجھ سے ۳ لوگوں نے بیان کی ہے:

(۱)       انس بن مالکؓ

(۲)       جابر بن عبد اللہؓ

(۳)      عبد اللہ بن قدامہ العنبریؒ  عن الاسود بن سریع   ؓ

            اور حسن بصری ؒ     عبد اللہ بن قدامہ العنبری ؒ کو  صدوق  آدمی کہتے   ہیں،آگے راوی کہتے ہیں کہ :

’’ فما سألوه يومئذ عن شيء إلا أسند، فخرجوا، وقالوا: كنا نخدع عن هذا الشيخ ‘‘

تو اس روز آپ سے جس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے اس کی سند بیان فرمائی ، پھر جب وہ نکلے تو کہنے لگے : ہم اس شیخ سے دھوکہ میں رہے۔(تاریخ کبیر للبخاری : ج۱: ص ۳۱۴)[14]

            اس روایت سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ حسن بصری ؒ کی مراسیل  عام طور سے صحابہ ؓ سے مروی ہے،لہذا  مراسیل حسن صحیح اور ثابت ہیں۔

۳)        پھر  امام یحیی بن سعید قطانؒ(م۱۹۸؁ھ)،امام یحیی بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)، امام علی بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)،ابو زرعہ الرازی ؒ (م۲۶۱؁ھ) وغیرہ ائمہ نے   حسن بصری ؒ کی مراسیل کی تصحیح فرمائی ہے،بلکہ امام یحیی بن سعید قطانؒ(م۱۹۸؁ھ)  کا قول مفسر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ حدیث جس میں حسن بصری ؒ نے مرسلاً کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مگر ہم نے ان کی مرسل حدیث کی اصل پالی سوائے۱یا  ۲ حدیثوں کے،تقریباً یہی بات امام ابو زرعہ ؒ(م۲۶۱؁ھ)نے بھی کہی ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔(دیکھئے،ص:۲۹)

             امام حسن  بصری ؒ کے شاگرد ثقہ،ثبت امام یونس بن عبیدؒ(م۱۳۹؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’رحم الله الحسن ما قال شيئا، وإلا وجدت له أصلا ‘‘ اللہ حسن بصری ؒ  پر رحم کریں،ہر وہ چیز جو انہوں نے کہی،میں نے اس کی اصل پائی ہے۔

(شرح مشکل الآثار : ج۱۲: ص ۱۰۴)،[15]

            حافظ عبد الغنی بن سعید مصریؒ(م۴۰۹؁ھ) اپنی کتاب ’’آداب المحدث والمحدث‘‘ میں نصر بن مرزوقؒ اور سلمہ بن مکتل ؒ  کی سند سے خصیب بن ناصح ؒ (م۲۰۸؁ھ) [صدوق راوی] کا قول نقل کیا ہے کہ :

            كان الحسن إذا حدثه رجل واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم بحديث ذكره. فإذا حدثه أربعة بحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ألقاهم، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم۔

            جب حسن بصریؒ سے کوئی ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ، تو وہ اس ایک آدمی کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث  بیان کرتے،اور جب ان سے ۴،۴ آدمی  رسول اللہ ﷺ  کی کوئی حدیث بیان کرتے، تو حسن بصریؒ انکے نام حذف کرکے،مرسلاً کہتے  کہ  رسول اللہ ﷺنے کہا۔(شرح علل ترمذی :ج۱:ص۵۳۶،۵۰۲)

            امام احمد بن حنبلؒ نے بھی مراسیل حسن کی تصحیح کی ہے،چنانچہ ابو طالب  احمد بن حمید ؒ(م۲۴۴؁ھ) کی روایت میں امام احمد ؒ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ :

            ما قال الحسن، قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-، وجدناه من حديث أبي هريرة وعائشة وسَمُرة، قال: صدق۔

            حسن بصری ؒ نے جب جب بھی حضورﷺسے مرسلاً روایت بیان کی،ہم نے اس کو حضرت ابو ہریرہؓ،عائشہؓ اور سمرہؓ سے مروی پایا،اس پر امام احمد ؒ نے کہا کہ  سچ ہے۔

            اسی طرح مہنا بن یحیی،ابو عبد اللہ الشامیؒ کی روایت میں  امام  احمد ؒ سے سوال کیا گیا کہ :

’’ هل شيء يجيء عن الحسن؟ قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ قال: هو صحيح، ما نكاد نجدها إلا صحيحة ‘‘

کیا حسن بصری مرسلاً  عن النبیﷺکی سند سے کوئی  قابل مذمت روایت آئی ہے ؟، تو امام احمد ؒ نے جواب دیا :  وہ سند صحیح ہے،اور کہا کہ  ہم اسے صحیح ہی پاتے ہیں ۔(العدة في أصول الففہ لابن الفراء : ج۳: ص ۹۲۴)

اور اثری صاحب کی  پیش کردہ  امام احمد ؒ کی روایت کے بارے میں حنبلی مسلک کے مشہور امام،فقیہ محمد بن مفلح المقدسی ؒ(م۷۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ شاید امام احمد ؒ نے اپنے قول سے حسن بصری ؒ کی کوئی  خاص مرسل روایت مراد لی ہو۔ (الفروع لابن مفلح : ۳: ص ۲۲۷)

اسی طرح امیرالمومنین فی الحدیث عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱؁ھ) نے حسن بصریؒ کی ایک مرسل روایت کو جید کہا ۔(المرض والکفارات لابن ابی الدنیا : ص۳۹) اور امام ابو نعیم الاصبہانیؒ(م۴۳۰؁ھ) کے نزدیک بھی مراسیل حسن بصری مقبول ہیں۔(حلیۃ الاولیاء : ج۶: ص ۱۶۵)

            اس لحاظ سے مراسیل حسن بصری کےمصححین کو ترجیح حاصل ہوگی،کیونکہ ان کا کلام مفسر  بھی ہے اور تحقیقی بھی ۔ واللہ اعلم[16]

          خلاصہ یہ کہ حسن بصری کی مراسیل بھی راجح قول میں مقبول اور صحیح  ہیں۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

ابراہیم نخعی کے شیوخ میں مجہولین ؟؟؟

(ائمہ کے اعتراضات کے جوابات)

امام ابوبکر بیہقیؒ،امام حاکم ؒ،امام علی بن المدینیؒ،امام شافعی ؒ وغیرہ ائمہ نے امام ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ میں  مجہولین کی نشادہی کی ہے۔

۱-         امام ابوبکر بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            ’’ أشار البيهقي إلى أن هذا إنما يجيء فيما جزم به إبراهيم النخعي عن ابن مسعود وأرسله عنه لأنه قيد فعله فأما غيرها فإنا نجده يروي عن قوم مجهولين لا يروي عنهم غيره مثل هني بن نويره وجذامة الطائي وقرثع الضبي ويزيد بن أوس وغيرهم‘‘  

            اور جب ابراہیم عبد اللہ بن مسعود ؓ کے علاوہ کسی اور سے ارسال کریں،تو یقیناً ہم نے ان کو  کئی مجہول رواۃ  مثلاً   : هني بن نويره ، خزامة الطائي ، قرثع الضبي ، يزيد بن أوس وغیرہ سے روایت کرتے پایا،جن سے ان کے علاوہ کوئی روایت نہیں کرتا ۔(جامع التحصیل : ص۷۹،شرح علل الترمذی : ج۱: ص ۵۴۲)

۲-        ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ جیسا کہ حافظ ؒ نے نقل کیا ہے :

            من المعلوم أن إبراهيم ما سمع من أحد من الصحابة، فإذا حدث عن النبي - صلى الله عليه وسلم - يكون بينه وبينه اثنان أو أكثر فيتوقف في قبوله من هذه الحيثية، وأما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا - والله أعلم –

          یہ معلوم ہے کہ ابراہیم نخعی ؒ نے کسی صحابیؓ سے نہیں سنا،لہذا جب وہ حضور ﷺسے مرسلاً بیان کریں تو ان کے اور حضورﷺ کے درمیان ۲ یا ۲ سے واسطے ہوسکتے ہیں،لہذا  اس حیثیت سے تو ان کی مراسیل کو قبول کرنے میں توقف کیاجاناچائیے،اور جہاں تک ان کا صحابہ ؓ سے کوئی روایت نقل کرنےکی بات ہے،تو اگر وہ ابن مسعودؓ سے روایت کریں،تو یقیناً  ابراہیم نخعیؒ نے خود صراحت کی کہ ابن مسعود ؓ سے روایات کرنے میں ان کے شیوخ ثقہ ہیں،اور دوسروں  سے روایت کرنے میں ان کی کوئی صراحت نہیں ہے۔(النکت ابن حجر : ج۲: ص ۵۵۷)[17]

۳-        امام حاکم ؒ(م۴۰۵؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            أخبرني عبد الله بن محمد بن حمويه الدقيقي قال: حدثنا جعفر بن أبي عثمان الطيالسي قال: حدثني خلف بن سالم قال: سمعت عدة من مشايخ أصحابنا، تذاكروا كثرة التدليس والمدلسين، فأخذنا في تمييز أخبارهم، فاشتبه علينا تدليس الحسن بن أبي الحسن، وإبراهيم بن يزيد النخعي؛ لأن الحسن كثيرا ما يدخل بينه وبين الصحابة، أقواما مجهولين، وربما دلس عن مثل عتي بن ضمرة، وحنيف بن المنتجب، ودغفل بن حنظلة، وأمثالهم، وإبراهيم أيضا يدخل بينه وبين أصحاب عبد الله مثل هني بن نويرة، وسهم بن منجاب، وخزامة الطائي، وربما دلس عنهم۔

        خلف بن سالم ؒ(م۲۳۱؁ھ) کہتے ہیں کہ میں نے ہمارے اصحاب کے کئی مشائخ کو  کثرت تدلیس اور مدلسین کا مذاکرہ  کرتے ہوئے سنا : ۔۔۔۔۔وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم نخعی ؒ اپنے اور اصحاب عبد اللہ کے درمیان  مجہولین کی ایک قوم مثلاً  هني بن نويرة، وسهم بن منجاب، خزامة الطائي کو داخل کرتے ااور کبھی کبار ان سے تدلیس بھی کرتے۔ (معرفۃ علوم الحدیث للحاکم : ص ۱۰۸)[18]

            امام بیہقیؒ نے بھی یہی کلام نقل کیا ہے۔(الخلافیات: ج۳ :ص ۲۳)[19]

۴-        امام علی بن المدینیؒ (م۲۳۴؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            وقال علي: نظرت فإذا قلَّ رجل من (التابعين) إلا وقد حدث عن رجل لم يرو عنه أحدٌ غيره قال: فقال رجل: يا أبا الحسن فإبراهيم النخعي عمن روى من المجهولين فقال: قد روى عن يزيد بن أوس عن علقمة فمن يزيد ابن أوس لا نعلم أحدًا روى عنه غير إبراهيم۔

            میں نے ٖغور کیا تو (معلوم ہوا) کہ تابعین میں اکثر لوگ ہیں  جو ایسے ایک  آدمی  سے روایت کرتے ہیں،جن سے ان کے علاوہ کوئی اور روایت نہیں کرتا،تو ایک آدمی نے کہا :  ائے ابو االحسن ! تو  ابراہیم نخعی ؒ  کن  مجہولین سے روایت کرتے ہیں؟،تو ابن مدینیؒ نے کہا : کہ  انہوں نے یزید بن اوس عن علقمہ کی سند روایت کی ہے،ہم ابراہیم نخعی ؒ کے علاوہ کسی اور کو نہیں جانتے جو یزید بن اوس  سے روایت کرتا ہو۔( التاريخ وأسماء المحدثين وكناهم للمقدمی :ص۳۰۰)[20]

۵-        امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

أفرأيت قَرْثَع الضبي  وقزعة  وسهم بن منجاب  حين روى إبراهيم عنهم، وروى عن عبيد بن نَضْلة  أهم أولى أن يروى عنهم أو وائل بن حجر وهو معروف عندكم بالصحابة وليس واحد من هؤلاء فيما زعمت معروفا عندكم بحديث ولا شيء؟

قَرْثَع الضبي،  قزعة  اورسهم بن منجاب  جن سے ابراہیم نخعیؒ  نے روایت کی ہے۔۔۔۔ان میں کوئی بھی  تم لوگوں کے  نزدیک نہ حدیث  کے اعتبار سے معروف ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کے اعتبار سے۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۲: ص ۲۱)[21]

خلاصہ یہ کہ ان ائمہ نے درج ذیل شیوخ ابراہیم نخعی کو مجہول قرار دیا ہے :

(۱)       هني بن نويرۃ۔

(۲)       يزيد بن أوس۔

(۳)      قرثع الضبي۔

(۴)      خزامة الطائي۔

(۵)      قزعة بن یحیی۔

(۶)       سهم بن منجاب  

الجواب :

            تحقیق کے میزان میں یہ تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں،جس کی تفصیل درج ذیل ہیں :

(۱)       هني بن نويرۃ ؒ کی توثیق :

            هني بن نويرۃکو ابن حبان ؒ اورامام عجلیؒ  نے ثقات  میں شمار کیا ہے،جبکہ امام عجلیؒ  نے ان کو ثقہ بھی قرار دیا ہے، امام  ابوداود ؒ نے کہا وہ عبادت گزروں میں سے ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۳۰ : ص ۳۱۸،معرفۃ الثقات للعجلی:رقم ۱۵۳۲)، امام عینیؒ ،محدث احمد بن الصدیق الغماری ؒاور علامہ شاکر ؒ نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔(نخب الافکار : ج۱۵: ص ۲۷۱، المداوي لعلل الجامع الصغير وشرحي المناوي:ج۲: ص ۱۵،مسند احمد بتحقیق احمد شاکر : ج۴: ص ۱۱)،امام ابراہیم نخعی ؒ کے نزدیک بھیهني بن نويرۃ   ثقہ ہیں،کیونکہ ابراہیم ؒ نے ان سے روایت لی ہے،اور وہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت نقل کرتے تھے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل کا کہنا ہے۔(دیکھئے ص : ۶)امام ابو نعیم اصبہانیؒ نے ان کوعلماء تابعین میں شمار کیا ہے۔(حلیۃ الاولیاء : ج۴ : ص ۲۳۳)،نیز امام ابن الجارودؒ،امام ابن حبانؒ،امام عینیؒ  اور امام ابو داود ؒ (بذریعہ سکوت ) وغیرہ نے  ان کی حدیث  کی تصحیح کی ہے۔(المنتقی لابن الجارود : ص۲۱۴،صحیح ابن حبان : حدیث نمبر ۵۹۹۴، نخب الافکار : ج۱۵: ص ۲۷۱،سنن ابو داود : حدیث نمبر ۲۶۶۶)اور کسی حدیث کی تصحیح و تحسین اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(الاجماع:ش۴: ص ۲) اس لحاظ سےان ائمہ کے نزدیک بھیهني بن نويرۃ  کم از کم صدوق  ہیں۔

            لہذا ان کو مجہول کہنا غیر صحیح اور مردود ہے۔

کیا هني بن نويرۃسے صرف ابراہیم نخعی ؒ نے روایت کی  ؟؟

            هني بن نويرۃسے  ابراہیم نخعی ؒ کے ساتھ ساتھ ابو جبیر العابد اور ابو حمزہ وغیرہ نے بھی روایت کیا ہے۔ (الکاشف : ج۲: ص ۳۳۹،المؤتَلِف والمختَلِف للدارقطنی : ج۴: ص ۲۳۰۸،الاکمال ابن ماکولا: ج۷: ص ۳۱۹)،      

(۲)      يزيد بن أوسؒ کی توثیق :

            ابن حبان ؒ نےان کوثقات میں شمارکیا ہے۔(ج۵: ص۵۴۰) امام ابو داود ؒ،حافظ مغلطائیؒ نے ان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(سنن ابو داود : حدیث  نمبر ۳۱۳۰،شرح ابن ماجہ : ص۹۹۲،سنن النسائی : حدیث نمبر ۱۸۶۵)، اسی طرح ابن مندہؒ،ابو علی النیساپوریؒ، عبد الغنی بن سعیدؒ،ابن عدیؒ،دارقطنیؒ،ابو یعلی الخلیلیؒ،خطیب بغدادیؒ،ابو طاہر سلفیؒ،ابو علی ابن السکنؒ وغیرہ نے بھی ان کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(النکت لابن حجر : ج۱: ص ۴۸۲)،

اور کسی محدث کا کسی حدیث کی تصحیح و تحسین کرنا، اسکی طرف سے اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے، جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(الاجماع:ش۴: ص ۲) اس لحاظ ان ائمہ کے نزدیک بھی يزيد بن أوس کم از کم صدوق  ہیں۔

            اور پھر امام ابراہیم نخعی ؒ کے نزدیک بھی يزيد بن أوس ثقہ ہیں،کیونکہ ابراہیم ؒ نے ان سے روایت لی ہے،اور وہ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے ہی روایت نقل کرتے تھے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل کا کہنا ہے۔(دیکھئے ص : ۶)

            لہذا ان کو مجہول کہنا صحیح نہیں ہے۔واللہ اعلم

(۳)     قرثع الضبيؒ کی توثیق :

            قرثع الضبیؒ کو مجہول کہنا مردود ہےکیونکہ حافظ ابن حجرعسقلانی ؒ ،شیخ محمد بن علی  الإثيوبي الوَلَّوِي،شیخ اکرم بن محمد الاثری وغیرہ ان کو صدوق اور امام عجلیؒ  ثقہ کہتے ہیں۔(تقریب : رقم ۵۵۳۳، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۶: ص ۲۲۶،المعجم الصغير لرواة الامام ابن جرير الطبري :ج۲: ص ۴۶۶، معرفۃ الثقات للعجلی : رقم ۱۱۷۶)  اور بھی ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے۔دیکھئے  (صحیح ابن خزیمہ : حدیث نمبر ۱۷۳۲، المستدرک للحاکم : ج۱: ص ۴۱۲،حدیث نمبر ۱۰۲۸،موضح الاوہام للخطیب : ج۱: ص ۱۶۳)

            اور ابراہیم نخعی ؒ کے علاوہ ایک جماعت نے ان سے روایت بھی لی ہے۔(مغانی الاخیار للعینی : ج۲: ص ۴۷۸، تہذیب التہذیب : ج۸: ص ۳۶۸)

(۴)     خزامة الطائيؒ  کی توثیق :

            امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،حافظ المغرب ابن عبد البرؒ(م۴۶۳؁ھ)،امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴؁ھ)، اور حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ) وغیرہ نے  صراحت کی کہ امام ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  مطلقاً  ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

            اس لحاظ سے خزامة الطائي  کم از کم صدوق ہیں۔واللہ اعلم

(۵)     قزعة بن یحییؒ  کی توثیق :

          قزعة بن یحیی ؒ صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۵۴۷،مناقب شافعی للبیہقی : ج۲: ص ۲۱،ت سید احمد صقر)

(۶)      سهم بن منجابؒ   کی توثیق :

            سهم بن منجاب  ؒ صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۶۷۱)

            اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ شیوخ ابراہیم میں کوئی بھی مجہول نہیں ہے۔اور امام ابراہیم نخعی ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے  تھے،لہذا ائمہ جرح و تعدیل  کے مذہب اور ارشادات کے مطابق ان کی مراسیل صحیح ،لاباس بہ ،جید اور مضبوط ہیں۔واللہ اعلم



[1] حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) کہتے ہیں کہ :

فإن قيل: فهل عرف أحد غير ابن المسيب كان لا يرسل إلا عن ثقة.

قلنا: نعم، فقد صحح الإمام أحمد مراسيل إبراهيم النخعي لكن خصه غيره بحديثه عن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - كما تقدم.

وأما مراسيله عن غيره، فقال يحيى القطان: "كان شعبة يضعف مرسل إبراهيم النخعي عن علي - رضي الله تعالى عنه -".

وقال يحيى بن معين: "مراسيل إبراهيم النخعي صحيحة إلا حديث تاجر البحرين وحديث القهقهة"

قلت: وحديث القهقهة مشهور رواه الدارقطني وغيره من طريقه. وقد أطنب البيهقي في الخلافيات في ذكر طرقه وعلله۔

وأما حديث تاجر البحرين، فأشار به إلى ما رواه أبو بكر بن أبي شيبة في "مصنفه" عن وكيع عن الأعمش، عن إبراهيم النخعي قال: "إن رجلا قال يا رسول الله! إني رجل تاجر أختلف إلى البحرين فأمره أن يصلى ركعتين".

وقال البيهقي: "من المعلوم أن إبراهيم ما سمع من أحد من الصحابة، فإذا حدث عن النبي - صلى الله عليه وسلم - يكون بينه وبينه اثنان أو أكثر فيتوقف في قبوله من هذه الحيثية، وأما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا - والله أعلم -"۔(النکت لابن حجر : ج۲ : ص ۵۵۶-۵۵۷)

حافظ ؒکی اس عبارت میں ۳ باتیں قابل غور ہے۔

(۱)         ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  صرف  عبد اللہ بن مسعودؓ  کی روایت  میں ثقہ سے روایت کرتے ہیں،دوسروں میں  نہیں ۔

(۲)         ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    تصحیح میں امام احمدؒ  منفرد ہیں۔

(۲)         ابراہیم نخعی عن علی کی روایت ضعیف  ہے۔

پہلی شق کا جواب :

              امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،حافظ المغرب ابن عبد البرؒ(م۴۶۳؁ھ)،امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴؁ھ)، اور حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ) وغیرہ نے  صراحت کی کہ امام ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  مطلقاً  ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

               لہذا ارسال عن  عبد اللہ  کے سلسلہ میں ابراہیم نخعی کے قول کے ساتھ ساتھ ،  دیگر ائمہ جرح و تعدیل  کے اقوال پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  مطلقاً  ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

لہذا اسے صرف عن عبد اللہ  کے ساتھ خاص کرنا غیر صحیح ہے۔

دوسری شق کا جواب :

              امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱؁ھ) کے ساتھ ساتھ ،امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) ،امام یحیی بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)امام ا بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)، حافظ المغرب  ؒ (م۴۶۳؁ھ)، امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴؁ھ)،حافظ عبد الحق الاشبیلی ؒ(م۵۸۱؁ھ)،حافظ ابن تیمیہ ؒ (م۷۲۸؁ھ)حافظ ابو الفتح بن سید الناس ؒ(م۷۳۴؁ھ)حافظ ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) وغیرہ  ائمہ نے ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    تصحیح  کی ہے ۔

              لہذا معلوم ہوا کہ  ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    جید،صحیح اور حجت ہیں۔ الحمد للہ

نوٹ نمبر۱:

              امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) اور امام علی بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)  کا حوالہ  آگے آرہا ہے۔

نوٹ نمبر۲  :

              امام یحیی بن معین ؒ نے حدیث تاجر البحرین اور حدیث الضحک فی الصلا ۃ کے علاوہ علی الاطلاق   ابراہیم ؒ کی تمام مراسیل کی  تصحیح فرمائی ہے،لہذا ان کا  قول بھی   امام احمد ؒ کی تائید میں ہے ۔

اور ابراہیم نخعیؒ  نے حدیث الضحک فی الصلا ۃ  کوبطریق  ابو ہشام، ابو العالیہ ؒ سے ارسال کیا ہے۔(الخلافیات للبیہقی : ج۱ : ص ۴۰۸) اور ہم ثابت کرچکے ہے کہ یہ حدیث ابو العالیہ کی طریق سے رسول اللہ ﷺ تک متصل ثابت ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔ (مجلہ الاجماع : ش۶: ص ۶،سنن الداقطنی : ج۱ : ص ۳۱۱)

اس لحاظ سے صرف  حدیث تاجر البحرین ہی باقی رہتی ہے۔ واللہ اعلم

تیسری شق کا جواب :

              اگر چہ شعبہؒ (م۱۶۰؁ھ)نے ابراہیم عن علی کی روایت کو ضعیف کہا،لیکن آگے  خود ناقل امام یحیی بن سعید القطان ؒ (م۱۹۸؁ھ) امام شعبہؒ(م۱۶۰؁ھ)  کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  ’’ إبراهيم عن علي أحب إلي من مجاهد عن علي ‘‘  ابراہیم نخعی عن علی کی روایت مجھے مجاہد عن علی کی روایت  سے زیادہ محموب ہے ۔(الکفایۃ : ص ۳۸۷)،

مجاہد عن علی  کی سند کا حال :

              مجاہد بن جبرؒ (م۱۰۴؁ھ) کا  حضرت علی ؓ  سے سماع کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف ہے،ائمہ عظام   کی ایک جماعت مثلاً امام بخاریؒ(م۲۵۶؁ھ)،امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ(م۳۷۸؁ھ)،حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ)،امام ابو عبد اللہ یاقوت الحموی ؒ(م۶۲۶؁ھ)،حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) وغیرہ کے نزدیک مجاہد بن جبر ؒ کا سماع  حضرت علی ؓ سے ثابت ہے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری : ج۷: ص ۴۱۱،طبع حیدرآباد، الاسماء و الکنی للحاکم الکبیر : ج۴ : ص ۸۸، الاحادیث المختارۃ للمقدسی : ج۲: ص ۳۳۹،ارشاد الاریب للحموی : ج۵ : ص ۲۲۷۲، اتحاف المھرۃ لابن حجر : ج۱۸ : ص ۱۶۰،تہذیب التہذیب : ج۱۰: ص ۴۲)،

اور مجاہد ؒ (م۱۰۴؁ھ) کی پیدائش (۲۱؁ھ) ہوئی،اس لحاظ سے حضرت علی ؓ (م۴۰؁ھ) سے سماع بھی ممکن تھا اور  ایک روایت میں مجاہد ؒ نے حضرت علی ؓ سے سماع کی تصریح  بھی کردی،جس کو مجاہدؒ  سے ان کے ۳،۳ شاگرد،ثقہ،حجۃ،امام ایوب   سختیانیؒ (م۱۳۱؁ھ)،ثقہ،ثبت، حافظ الحدیث وھیب بن خالد ؒ(م۱۶۵؁ھ) اور ثقہ راوی موسی الطحان ؒ وغیرہ  نے بیان کیا ہے۔ (الاعلام للزرکلی : ج۵: ص ۲۷۸،حلیۃ الاولیاء  لابی نعیم : ج۱ : ص ۷۰، الاحادیث المختارۃ للمقدسی : ج۲: ص۳۳۶-۳۳۷)

’’مجاہد عن علی‘‘   کی بارے میں امام یحیی بن سعید القطان ؒ کی  رائے :

-            امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ أما مجاهد عن علي فليس بها بأس؛ إنه قد أسند عن ابن أبي ليلى، عن علي ‘‘ جہاں تک مجاہد عن علی کی سند کی بات ہے،تو ان میں کوئی  حرج  نہیں ہے۔اس لئے  کہ مجاہد ؒ اس کو  ابن ابی لیلیٰ عن علی سےمسند بیان کرتے ہیں۔(تاریخ ابن ابی خیثمہ: ج۱: ص ۲۰۲)

              لہذا جب مجاہد عن علی کی سند میں کوئی حرج نہیں،تو  ابراہیم عن علی کی سند  امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کے نزدیک اصح اور ثبت  ہوگی،یہی وجہ ہے کہ ہم نے اوپر  کہا کہ امام یحیی  القطان ؒ (م۱۹۸؁ھ) نے  امام شعبہؒ(م۱۶۰؁ھ) کا  رد کیا ہے۔

امام یحیی بن سعید القطان ؒکی نظر میں ابراہیم نخعیؒ(م۹۶؁ھ) کی  دیگر مراسیل  کا مقام  :

              امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید القطان ؒ ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’ان مراسیل ابراہیم عن ابن مسعود وعمر صحاح کلہا وما ارسل منہا أقوی من الذی أسند ‘‘

یقیناابراہیم نخعی ؒ کی ابن مسعود ؓ اور عمر ؓ سے تمام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور ان کی مرسل حدیث مسند حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔(التمہید لابن عبدالبر ج:۱۵ص: ۹۴)

اسکین :

              معلوم ہوا کہ امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کے نزدیک ابراہیم نخعیؒ کی تمام مراسیل مطلقاً مقبول اور مضبوط ہیں۔

-            امام احمدبن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)  سے  بھی پوچھا گیا کہ  ’’ أيما أحب إليك: إبراهيم عن عليّ، أو مجاهد عن عليّ ‘‘  آپؒ کے نزدیک  کون سی روایت  زیادہ محموب ہے،ابراہیم عن علی یا مجاہد عن علی ،تو امام احمدؒ  جواب میں کہتے ہیں کہ ’’إبراهيم عن عليّ؛ لأن هذا كان مقيمًا ‘‘ ابراہیم عن علی ، اس لئے کہ یہ (ابراہیم ) (کوفہ ہی میں ) مقیم تھے۔(الجامع لعلوم الإمام أحمد - علوم الحديث: ج۱۵: ص ۴۱۹)

              معلوم ہوا کہ ائمہ کے نزدیک  ابراہیم عن علی کی مرسل  روایت بھی درست ،صحیح ومضبوط ہے،اور یہی راجح ہے ۔  واللہ اعلم

[2]  حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) نے بھی اس قول  کی سند کو صحیح کہا ہے۔(النکت لابن حجر : ج۲: ص۵۵۵)

[3] اس سے معلوم ہوا کہ امام،حافظ علی بن عثمان الماردینی ؒ(م۷۵۰؁ھ) کے نزدیک ابراہیم نخعی  کی مراسیل علی الاطلاق  صحیح ہے۔

[4] حافظ صلاح الدین علائیؒ(م۷۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’من عرف عادته أنه لا يرسل إلا عن ثقة فيقبل مرسله۔۔۔۔۔ وهذا اختيار جماعة كثيرين من أئمة الجرح والتعديل كيحيى بن سعيد القطان وعلي بن المديني وغيرهما‘‘

                        جو راوی  عادتاً عام طور سے  صرف ثقہ سے  روایت کرتا ہے، تو اس کی مرسل قبول کی جائےگی،یہ  جمہور ائمہ جرح و تعدیل مثلاً  یحیی بن سعید القطانؒ ،علی بن المدینی ؒ  وغیرہ  کا قول ہیں۔(جامع التحصیل : ص ۳۷)

              اور ابراہیم نخعیؒ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے،جیسا کہ  تفصیل ص:۶  پر موجود  ہے۔

  معلوم ہوا کہ  ابن المدینی ؒ کے مذہب کے مطابق بھی ابراہیم  نخعی ؒ کی مراسیل علی الاطلاق  مقبول ہے۔

[5] ابن قیم ؒ کی عبارت میں امام بیہقی  ؒ کے اعتراض ’’ابراہیم النخعی وان کان ثقۃ فانا نجدہ یروی عن قوم مجہولین لا یروی عنہم غیرہ مثل ہنی بن نویرۃ وحزافۃ الطائی وفرثع الضبی ویزید بن اویس وغیرہم ‘‘ کا بھی جواب آچکا ہے،لہذا امام بیہقی ؒ  کااعتراض صحیح نہیں ہے ۔

نیز خود محدثین(جن میں امام شافعی ؒ بھی شامل ہیں انہوں) نے بھی واضح کیا ہےکہ امام ابراہیم النخعی ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں،جس کی تفصیل گزر چکی،لہذا یہ کہنا کہ امام ابراہیم نخعی ؒ مجہولین سے روایت کرتے ہیں صحیح نہیں ہے ۔ نیز دیکھئے ص :۴۳ ۔

[6] قال شیخ المعلّمی ؒ :  

أقول:وليس هذا الخبر من تلك الأربعة.

وروى الثوري عن «حماد بن أبي سليمان عن إبراهيم قال: قال عبد الله: لا تقطع اليد إلا في ترس أو حجفة. قلت لإبراهيم: كم قيمته؟ قال: دينار» .والثوري يدلس، وحماد سيئ الحفظ، حتى قال حبيب بن أبي ثابت: «وكان حماد يقول: قال إبراهيم: ط فقلت والله إنك لتكذب أو إن إبراهيم ليخطئ» . وقد قال حماد نفسه لما قيل له: قد سمعت من إبراهيم؟ : «إن العهد قد طال بإبراهيم» . وإبراهيم عن عبد الله منقطع، وما روي عنه (1) أنه قال: إذا قلت: قال عبد الله، فهو عن غير واحد عن عبد الله. لا يدفع الانقطاع لاحتمال أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد الله، أو ممن لقيه وليس بثقة، (2) واحتمال أن يغفل إبراهيم عن قاعدته،

(۱)     قال شیخ الالبانیؒ : قلت: تصدير المصنف رحمه الله لقول إبراهيم المذكور بقوله: «روي» مما يشعر إصطلاحاً - بأنه لم يثبت عنده، ولعل عذره في ذلك أنه لم يقف على إسناده، وإلا لجزم بصحته، فقد أخرجه ابن سعد في «الطبقات» (6 / 190) : أخبرنا عمروا بن الهيثم أبوقطن قال: حدثنا شعبة عن الأعمش قال: قلت: لإبراهيم: إذا حدثتني عن عبد الله فأسند، قال: إذا قلت: قال عبد الله، فقد سمعته من غير واحد من أصحابه، وإذا قلت: حدثني فلان، فحدثني فلان» . وهذا إسناد صحيح رجال ثقات، وقد أخرجه أبو زرعة الدمشقي في «تاريخ دمشق» (ق 131 / 2) : حدثنا أحمد بن سيبويه قال: حدثنا عمرو بن الهيثم به، إلا أنه قال: «فحدثني وحده» .

أقول:وإذا تأمل الباحث في قول إبراهيم «من غير واحد من أصحابہ» يتبين له ضعف بعض الإحتمالات التي أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال: قال ابن مسعود، فأن قوله: «من أصحابه» يبطل قول المصنف «أن يسمع إبراهيم من غير واحد ممن لم يلق عبد الله» ، كما هو ظاهر. وعذره في ذلك، أنه نقل قول إبراهيم هذا من «التهذيب» ، ولم يقع فيه قوله: «من أصحابه» الذي هو نص في الاتصال. ن.

(۲)     قال شیخ الالبانیؒ : قلت: هذا فيه بعد. فأننا لا نعلم في أصحاب ابن مسعود المعروفين من ليس بثقة، ثم أن عبارته المتقدمة منا آنفاً صريحة في أنه لا يسقط الواسطة بينه وبين ابن مسعود إلا الذي كان حدثه عنه أكثر من واحد من أصحابه. فكون الأكثر منهم - لا الواحد - غير ثقة بعيد جداً. لا سيما وإبراهيم إنما يروي كذلك مشيراً إلى صحة الرواية عن ابن مسعود. والله أعلم.(التنکیل للمعلمی مع تعلیقات الالبانی : ج۲ : ص ۸۹۸)

قال شیخ الالبانیؒ : وإسناده صحيح؛ لأن مراسيل إبراهيم- وهو ابن يزيد النَّخَعِيّ- عن ابن مسعود صحيحة؛ كما قال البيهقي۔(صحیح ابی داود : ج۶: ص ۳۰۱)

قال شیخ الالبانیؒ :  قلت: وإسناده حسن ورجاله كلهم ثقات رجال مسلم، غير شيخ الطبراني وهو علي بن عبد العزيز - وهو البغوي - ثقة حافظ، وإبراهيم هو ابن يزيد النخعي. وقد يقول قائل : إنه مرسل منقطع بين إبراهيم وابن مسعود فكيف تحسن إسناده؟ فأقول: نعم، ولكن جماعة من الأئمة صححوا مراسيله، وخص البيهقي ذلك بما أرسله عن ابن مسعود كما نقله في " التهذيب ". وقول البيهقي هو الصواب، لقول الأعمش: قلت لإبراهيم: أسند لي عن ابن مسعود، فقال إبراهيم: إذا حدثتكم عن رجل عن عبد الله فهو الذي سمعت، وإذا قلت: قال عبد الله، فهو عن غير واحد عن عبد الله. فهذا صريح في أن ما أرسله عن ابن مسعود يكون بينه وبين ابن مسعود أكثر من واحد، وهم وإن كانوا مجهولين، فجهالتهم مغتفرة، لأنهم جمع من جهة ومن التابعين - بل وربما من كبارهم - من جهة أخرى، وهذه فائدة أخرى سبق أن ذكرتها في موضع آخر، لا يحضرني الآن۔ (الصحیحۃ : ج۵ : ص ۳۱۷)

[7] ذیل التقیید للفاسی : ج۲: ص ۹۴،العقد الثمین  للفاسی : ج۲ :ص ۴۷،توضیح المشتبہ لابن ناصر الدین: ج۴ :ص ۴۸

[8] انباء الغمر لابن حجر : ج۲ : ص ۱۸۷، الضوء اللامع  للسخاوی :ج۷: ص ۳۰۱۔

[9] الضوء اللامع  للسخاوی : ج۴: ص ۲۹۱۔

[10] ایک وضاحت :

              تدلیس اور ارسال  کو جن ائمہ نے رد کیا ،ان کے نزدیک ان دونوں میں  علت ایک ہی ہے،یعنی روایت میں  راوی کا پوشیدہ ہونا، البتہ ارسال میں راوی کا پوشیدہ ہونا یقینی ہوتا ہے،جبکہ  تدلیس میں  راوی کے پوشدہ ہونے کا شبہ ہوتا ہے، مگر  دونوں میں  علت ایک ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ سبط ابن العجمیؒ (م۸۴۳؁ھ) کہتے ہیں کہ  اگر وہ مدلس ایسے الفاظ (سے روایت کو) بیان کرے جن میں [راوی کے پوشیدہ ہونے کا]  احتمال ہو،تواس  کا حکم مرسل کا حکم ہے۔(نور العینین : ص ۴۶۷)،

یہی بات  امام ابو عبد اللہ ابن جماعہ الحمویؒ (م۷۳۳؁ھ)،حافظ ابن المقلنؒ(م۸۰۴؁ھ)،حافظ عراقیؒ،(م۸۰۶؁ھ)،امام علی بن محمد الجرجانی ؒ(م۸۱۶؁ھ)،امام ابن الصلاحؒ(م۶۴۳؁ھ) وغیرہ  نے  بھی کہی ہے،اور حافظ زرکشیؒ (م۷۹۴؁ھ) نے کہا کہ  یہی امام شافعی ؒ کا مذہب ہے کہ  مدلس کی عنعنہ والی روایت  مرسل کے حکم میں ہے۔ (منہل الروی للحموی : ص۷۲،المقنع  : ج۱ : ص ۱۵۷،شرح الفیہ للعراقی : ج۱: ص ۲۳۸، الدیباج المذہب للجرجانی : ص ۶۱،مقدمہ ابن الصلاح : ص ۷۵،ت عتر،النکت للزرکشی : ج۲: ص ۸۷) اسی طرح حافظ ابن حبان ؒ (م۳۵۴؁ھ) کہتے ہیں کہ  اگر ہم مدلس کی وہ روایت  قبول کریں جس میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی،اگر چہ وہ ثقہ تھا،تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم منقطع اور مرسل روایات قبول کریں۔(نور العینین : ص ۴۸۳)

              ان ائمہ کی تصریح  سے معلوم ہوا کہ  مدلس  کی عنعنہ والی روایت  مرسل کے حکم میں ہے۔دونوں میں موجود علت کی یکسانیت کی وجہ سے،

[11] اس کے جواب میں  اگر کوئی کہے کہ ائمہ دین  نے ان مدلسین کے عنعنہ   کو قبول کیا ہے، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ  بعض ائمہ کی مراسیل کے بارے میں  بھی محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل  نے صراحت کی ہے کہ  ان کی مراسیل میں کوئی حرج نہیں ہے،ان کی مراسیل صحیح ہیں وغیرہ وغیرہ (مثلاً ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل وغیرہ )، تو پھر ان  ائمہ کی مراسیل قبول کرنے میں کونسی مصیبت  آجاتی ہے ؟؟؟

[12] تہذیب الکمال میں امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) نے حسن بصری ؒ کے جتنے شیوخ ذکر کئے وہ تمام کے تمام ثقہ ہیں۔(ج۶: ص ۹۵) عبد اللہ بن عثمان الثقفیؒ بھی صدوق ہیں،امام ابو داود ؒ نے ان کی روایت پر سکوت کیا اور حافظ ابن حجرؒ  ان کی روایت کو حسن اور لاباس بہ  کہتے  ہے۔ (تغلیق التعلیق : ج۴: ص ۴۲۲،الاصابہ : ج۴: ص ۲۲) اور کسی حدیث کی تصحیح و تحسین  اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہےجیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے،(مجلہ الاجماع:ش۴: ص ۲ )،   لہذا وہ بھی صدوق ہیں،البتہ صرف ایک  شیخ یزید بن ابان الرقاشیؒ     (م قبل ۱۲۰؁ھ) پر کلام ہے، بعض نے توثیق کی اور بعض نے جرح ،لیکن حافظ ابن عدیؒ نے کہا کہ جب ان سے بصری اور کوفی  کے  ثقہ لوگ روایت کریں،تو مجھے امید ہے کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہوگا ۔(تہذیب التہذیب : ج۱۱: ص ۳۰۹،الکامل:ج۹:ص۱۳۱)،اس لحاظ سےیزید کی روایت میں حسن بصریؒ صدوق ہیں۔واللہ اعلم

[13] اس روایت کے تمام روات ثقہ  اور صدوق ہیں،لہذا  سند حسن ہے،حافظ ذہبی ؒ کے تحقیق کے مطابق  ہیثم  بن عبیدؒ کی وفات  (۲۱۱؁ھ سے  ۲۲۰ ؁ھ) کے درمیان ہوئی ہے،اس لحاظ سے ان سے امام بخاری ؒ  کا سماع ممکن ہے،لہذا سند متصل ہے۔

[14] اس روایت  کے تمام روات ثقہ یا صدوق  ہیں، اور مبارک بن فضالہ ؒ(م۱۶۶؁ھ) پر گر چہ تدلیس کا الزام ہے، پر انہوں نے حسن بصری ؒ کی شاگردی میں ۱۳ یا ۱۴ سال گزارے ۔(تہذیب التہذیب : ج۱۰:ص ۲۶) لہذا طویل رفاقت کی وجہ سے انکی حسن بصری ؒ سے معنعن روایت قبول ہے،جیسا کہ ائمہ کا مسلک ہے۔(الاجماع : ش۳: ص۲۳۱،میزان الاعتدال:ترجمہ سلیمان الاعمش)  الغرض یہ سند بھی حسن ہے۔

[15] اس کی سند یوں ہے :

              قال الطحاوی : وجدنا إبراهيم بن مرزوق قد حدثنا حدثنا سعيد بن عامر , عن شعبة , عن سليمان , عن أبي وائل قال: قال حذيفة في تأويل هذه الآية: " في النفقة " قال شعبة: فحدثت به يونس، فقال: رحم الله الحسن ما قال شيئا، وإلا وجدت له أصلا۔(شرح مشکل الآثار : ج۱۲: ص ۱۰۴)

              اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں۔

[16] اس سےاس  بات کی طرف بھی  اشارہ ملتا ہے کہ حسن بصری صرف ثقہ یا  صدوق سے ہی روایت کرتے ہیں،تب ہی تو ان کی مراسیل کی اصل پائی گئی۔ واللہ اعلم

[17] امام بیہقی ؒ نے ان دونوں عبارتوں میں ابراہیم عن عبد اللہ کی سند کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔

[18] اس اثر سے استدلال باطل ہے،کیونکہ اسکی سند میں  عبد اللہ بن محمد بن دقیق الحمویہ الدقیقیؒ     غیر ثقہ ہے۔(الروض الباسم : ج۱: ص ۶۱۰)

[19] ابراہیم نخعی  عن عبد اللہ کی سند کو امام بیہقیؒ  نے دوسرے مقام پر ضعیف مانا ہے ۔(الخلافیات : ج۱:ص ۳۶۹)، اور امام شافعی ؒ کے کلام کی شرح میں کہا کہ ’’هذا إبراهيم النخعي يقول: قال عبد الله في أحاديث سمعها من أقوام مجهولين ‘‘ یہ ابراہیم نخعی ؒمجہولین قوم سے سنی ہوئی احادیث کے باریمیں کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود ؓ نے کہا۔(خلافیات:ج۳:ص۲۳)  لیکن  نمبر ۱ اور نمبر ۲ پر موجود خود ان  ہی کا ارشاد ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کی صحت میں ہے کہ امام ابراہیم نخعی ؒ  نے خود صراحت کی کہ ان کےاور ابن مسعود ؓ کے درمیان شیوخ   ثقہ ہیں۔(دیکھئے ص :۴۴ )

 اس سے معلوم ہوا  جب ابراہیم نخعی ؒ نے ان کےاور ابن مسعود ؓ کے درمیان شیوخ   کو ثقہ کہا ،تو   امام بیہقی ؒ کا اعتراض ’’کہ ابراہیم نخعی ؒمجہولین کی قوم سے ابن مسعود ؓ احادیث سنی‘‘ خود ان کی عبارت سے مردود ثابت ہوا ہے، لہذا  ان کا اعتراض صحیح نہیں اور ابراہیم نخعی ؒ  اور ابن مسعود ؓ کے درمیان شیوخ   ثقہ ہیں،جیسا کہ امام بیہقیؒ  نے نقل کیا ہے۔

نیز ان کا اعتراض اس وجہ سے بھی غیر صحیح ہے،کیونکہ ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ میں کوئی راوی بھی ضعیف نہیں ہے، اور جن روات  پر مجہول ہونے کا اعتراض کیا گیا ہے،انکی توثیق آگےآرہی ہے،الغرض شیوخ ابراہیم نخعی میں کوئی بھی مجہول نہیں،بلکہ وہ  تمام کے تمام صدوق یا ثقہ ہیں،اور امام بیہقیؒ  کا   دوسرا قول شاذ اور غیر مقبول ہے۔واللہ اعلم

[20] اس روایت سے معلوم ہوا کہ  امام علی  بن المدینیؒ کے نزدیک شیوخ ابراہیم نخعی  میں مجہول صرف  یزید بن اوس ہی ہیں،کیونکہ سائل کےسوال  میں جمع کا  لفظ ’’مجہولین‘‘ تھا،جس کے جواب میں ابن المدینی ؒ نے صرف ایک راوی یزید بن اوس ؒ کا نام ذکر کیا ہے،لہذا  یزید بن اوس کے علاوہ ابن المدینیؒ کے نزدیک تمام شیوخ ابراہیم ثقہ یا صدوق ہیں،یعنی ابن المدینیؒ کے نزدیک  ابراہیم نخعی ؒنےعام طورسے ثقہ سے روایت کرتے تھے۔والحمدللہ

نوٹ :

              یزید بن اوسؒ صدوق ہیں۔دیکھئے ص :۴۹ ۔

[21] اس کے خلاف خود  امام شافعی ؒ فرماتے ہیں  کہ  ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاوس  اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف ثقہ  کی حدیث کو قبول کرتے تھے،نیز  ایک اور روایت میں امام شافعی ؒ نے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاوس  اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے تھے،جو اپنی روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو اور میں نے کسی بھی اہل الحدیث کو نہیں دیکھا جو اس کی مخالفت کرتا ہو۔دیکھئے ص :۷ ۔

              لہذا جب امام شافعی ؒ کے نزدیک ،امام ابراہیم نخعی ؒ  صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے تھے، جو اپنی روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو ۔توپھر ابراہیم نخعی ؒ کے شیوخ کس طرح  مجہول ہو سکتے ہیں۔

               خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعیؒ کے اعتراض کا جواب خود امام صاحب نے دے رکھا ہے۔نیز دیکھئے ص :۴۶ ۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...