امام ابو حنیفہ ؒپر کفر سے توبہ
کرانے کے الزام کا تحقیقی جواب۔
تحقیق:
طحاوی الحنفی
نظر ثانی و اضافہ: مولانا نذیر الدین قاسمی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر 9
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
امام
اعظم ؒ کے خلاف بہت سی روایات کذاب، حاسد اور کم فہم راویان کی مرہون منت
ہیں،انہیں اعتراضات میں سے ایک اعتراض جسے فرقہ اہل حدیث کا صرف متعصب طبقہ پیش
کرتا ہے ،معتدل اور اہل علم اس قسم کے اعتراضات
سے دامن پاک رکھتے ہیں، بلکہ ایسے الزامات پر اعتماد بھی نہیں کرتے؛ اس لیے
یہاں مخاطب وہی طبقہ ہے جو تعصب میں انتہا درجے کو پہنچا ہواہے،قارئین کرام کے سامنے اس
مسئلے کی اصل حقیقت اور وضاحت دی جائےگی۔
ہم
اعتراض کی وہ روایات لکھ دیتےہیں جو معترض مثلاً شیخ مقبل بن ھادی کے مطابق صحیح، حسن
اور مقبول ہیں۔
قال الخطيب رحمه الله تعالى (ج13 ص393):
أخبرنا القاضي أبو بكر الحيري حدثنا أبو العباس محمد بن
يعقوب الأصم قال سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت أسد بن موسى قال: استتيب أبو
حنيفة مرتين۔
قال عبد الله بن أحمد رحمه الله (ج1 ص210):
حدثنا أحمد بن محمد بن يحيى بن سعيد القطان حدثنا يحيى
بن آدم حدثنا شريك وحسن بن صالح أنهما شهدا أبا حنيفة وقد استتيب من الزندقة مرتين۔
قال الإمام أحمد رحمه الله (ج3ص239):
كتب إليّ ابن خلاد قال: سمعت يحيى قال: حدثنا سفيان قال:
استتاب أصحاب أبي حنيفة أبا حنيفة مرتين أو ثلاثاً۔
قال الإمام أحمد رحمه الله في «العلل» (ج2ص545):
سمعت سفيان بن عيينة يقول: استتيب أبو حنيفة مرتين. فقال
له أبو زيد: يعني حماد بن دليل رجل من أصحاب سفيان لسفيان: في ماذا؟ فقال سفيان:
تكلم بكلام فرأى أصحابه أن يستتيبوه فتاب۔
قال عبد الله بن أحمد رحمه الله في «السنة» (ج1ص219):
حدثني أبو موسى (3) الأنصاري قال سمعت أبا خالد الأحمر
يقول: استتيب أبو حنيفة من الأمر العظيم مرتين۔
قال أبو زرعة الدمشقي في «تاريخه» (ج1ص505):
حدثنا أبو مسهر قال حدثني يحيى بن حمزة عن شريك قال:
استتيب أبو حنيفة مرتين۔
قال العقيلي رحمه الله (ج4 ص282):
حدثنا محمد بن (2) عيسى قال حدثنا إبراهيم بن سعيد قال
سمعت معاذ بن معاذ العنبري يقول: استتيب أبو حنيفة من الكفر مرتين۔
یہ
تمام روایات سلفی شیخ مقبل بن ھادی کی
کتاب ’نشر الصحیفۃ‘
سے لی گئی ہیں۔
الجواب نمبر ۱
:
یہ
تمام روایات جس کو شیخ مقبل نے ذکر کیا ہے ، اسی طرح اور دوسری روایات جو کتب
تاریخ اور اسماء الرجال میں موجود ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی صراحۃً یہ منقول
نہیں کہ امام صاحب ؒ کو کفر سے توبہ کرتے یا کراتے ہوئے راوی نے بالمشافہۃ خود دیکھا ہو۔
لہذاایسی
روایت سے امام صاحب ؒ پر کسی قسم کا بھی
اعترا ض نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ آدمی پر کفر کا الزام لگانا ، زنا سے بھی بڑی
تہمت ہے ، اور زنا عینی گواہوں سے ثابت ہوتا ہے نہ کہ ناقلین سے۔
اب
چاہے ۴ کے بجائے ۱۰ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں آدمی نے زنا کیا ، لیکن ان میں سے کوئی
بھی عینی شاہد نہیں ہے ، تو کیا مذہب اسلام اس آدمی پر زنا کی سزا مقرر کرے گا؟
ہر
گز نہیں ، بس یہی معاملہ امام صاحبؒ کے تعلق سے مروی ان روایات کا ہے جن میں کفر
سے ان کی توبہ کرنے یا کروانے کا ذکر ہے۔
ہم
یہی کہتے ہیں کہ جتنی روایتیں ذکر کی گئی ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی صراحت نہیں
کہ راوی نے بالمشافہہ اور بالمشاہدۃ اپنی
آنکھوں سے امام صاحبؒ کو کفر سے توبہ کرتے یا کراتے ہوئے دیکھا ہو۔
لہذا
اس طرح کی روایات چاہے ۶ ہوں یا ۱۰، ان سے امام صاحبؒ کی ذات پر کوئی اعتراض نہیں
ہوسکتا ، اور ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح کی روایات صرف افواہوں کی بنیاد
پر ہوسکتی ہے، کہیں بھی کسی صحیح روایت میں کوئی ثقہ راوی یاشاگرد بالمشافہہ امام
صاحبؒ سے اس طرح کی بات نقل نہیں کرسکتا۔[1]
الغرض
اس طرح کی روایات سے امام صاحب ؒ پر اعتراض کرنا باطل ومردود ہے۔
الجواب نمبر۲
:
امام
لالکائیؒ (م۴۱۸ھ) کہتے ہیں :
’’أنا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي بَكْرٍ،
أنا مُحَمَّدُ بْنُ مَخْلَدٍ، قَالَ: نا الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قَالَ: نا
مُؤَمَّلٌ، قَالَ: نا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبَّادَ بْنَ كَثِيرٍ، يَقُولُ:
" اسْتُتِيبَ أَبُو حَنِيفَةَ مَرَّتَيْنِ "
عباد
بن کثیرؒ (ضعیف راوی) کہتے ہیں کہ
ابو حنیفہ سے دو مرتبہ توبہ کرائی گئی۔(شرح
أصول اعتقاد أھل السنة والجماعة رقم ١٨٣٠)
معلوم
ہوا سفیانؒ نے یہ روایت عباد بن کثیرؒ سے
سنی تھی اور عباد مشہور ضعیف راوی
ہیں۔(تقریب : ۳۱۳۹)
لہذا
سفیان ؒ کی یہ روایت باطل و مردود
ہے،نیز اس بات کا قوی احتمال ہے کہ یہ
بات سفیان ثوری ؒ(م۱۶۱ھ) سے سننے کے بعد، انکے معاصر[2]
اورشاگرد مثلاً ابو خالداحمرؒ،شریک بن عبد اللہ نخعیؒ،ابن عیینہؒ،معاذ بن معاذ
عنبریؒ وغیرہ نے نقل کردی ہو ۔ (تہذیب الکمال : ج۱۱: ص۱۵۴،تفسیر قرطبی : ج۱۰: ص
۱۳۰،المعجم الاوسط للطبرانی : ج۴ : ص ۲۴۲،حدیث نمبر ۴۰۸۸)
اور
پھرسفیان کے شاگرد ابن عیینہؒ سے ان شاگرد امام احمد ؒ اور اسد بن موسیؒ وغیرہ نے
اس بات کو آگے بڑھادیا ہو۔ مگر کسی نے بھی امام ابو حنیفہؒ سے سماع یا خود دیکھنے
کی تصریح کے ساتھ یہ واقعہ نقل نہیں کیا۔واللہ اعلم[3]
الجواب نمبر۳
:
ان
تمام روایات میں اس بات کی وضاحت نہیں ہے کہ آخر ایسی کونسی بات تھی جس سے توبہ
کروائی گئی، چنانچہ آگے کے اقوال میں یہ بات واضح کی جائے گی کہ آخر کونسا ایسا
مسئلہ تھا جس سے امام صاحب سے ان کے اصحاب کی طرف سے گزارش کی گئی۔
امام
ابن عبدالبر ؒ(م۴۶۳ھ)کہتے ہیں:
وَذَكَرَ
السَّاجِيُّ فِي كِتَابِ الْعِلَلِ لَهُ فى بَاب أَبى حنيفَة أَنه استتيب فى
خَلْقِ الْقُرْآنِ فَتَابَ وَالسَّاجِيُّ مِمَّنْ كَانَ يُنَافِسُ أَصْحَابَ أَبِي
حَنِيفَةَ"۔
ساجیؒ نے اپنی کتاب العلل میں باب ابی حنیفہ
میں ذکر کیا ہے کہ ابو حنیفہ سے خلق قرآن کے مسئلے میں توبہ کا مطالبہ کیا گیا تو
انہوں نے توبہ کرلی اور ساجی ان لوگوں میں سے تھے جو ابو حنیفہ کے اصحاب کے ساتھ
مقابلہ کرتے تھے۔(الانتقاء:ص١٥٠)
ساجی
کےقول کے تحت وہ مسئلہ جس سے امام
صاحب سے رجوع کرایا گیا وہ خلق قرآن کا ہے جسے سفیان اور شریک نے کفر کہا ہے ـ
اسی
طرح امام احمدؒ (م۲۴۱ھ)سے بھی انکے بیٹے نقل کرتے ہیں:
"استتابوه
أظن في هذه الآية: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} قال: هو
مخلوق."
"ان
کو توبہ کرائی گئ میرے خیال میں اس آیت کے متعلق تھی﴿ سبحن
ربک رب العزة عما یصفون ﴾ آپ نے کہا کہ یہ
مخلوق ہےـ" (العلل
ج٢ص٥٤٦)
حافظ
ابن جوزيؒ(م۵۹۷ھ) کہتے ہیں:
"أَخْبَرَنَا
عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ قال: أخبرنا أبو بكر أحمد بن علي الحافظ
قَالَ:المشهور عَنْ أبي حنيفة أنه كَانَ يَقُول بخلق القرآن ثُمَّ استتيب منه
"
احمد
بن علی الحافظؒ(م۴۶۳ھ) کہتے
ہیں" ابو حنیفہ کے حوالے سے مشہور ہے کہ وہ خلق قرآن کے قائل تھے مگر ان سے
رجوع کرایا گیاـ" (المنتظم
ج ٨ ص١٣٣)[4]
أن
تمام اقوال سے جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ امام صاحب سے توبہ کرائی گئی ،خلق
قرآن کے مسئلے میں۔
توجہ
فرمائیں :
ان
ائمہ کی روایت عقل اور شواہد کےبھی خلاف
ہے،امامؒ خلق قرآن کے مسئلے میں اہل سنت کی ہی رائے رکھتے ہیں، امام کے شاگردوں
میں سے کوئی بھی ایسا ثقہ راوی نہیں ہے جس نے یہ گواہی دی ہو کہ میں نے خود امام صاحبؒ کو قرآن کو مخلوق
کہتے ہوئے سنا، بلکہ امام کے ثقہ اصحاب سے تو اس بات کی نفی ملتی ہے
تو پھر یہی اصحاب امام سے قرآن کے مسئلے میں کیسے توبہ لے سکتے ہیں؟
۱- امام ابو بکر احمد بن حسین بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کہتے ہیں:
"وقرأت
في كتاب أبي عبد الله محمد بن محمد بن يوسف بن إبراهيم الدقاق بروايته عن القاسم
بن أبي صالح الهمذاني , عن محمد بن أيوب الرازي , قال: سمعت محمد بن سابق , يقول:
سألت أبا يوسف , فقلت: أكان أبو حنيفة يقول القرآن مخلوق؟ , قال: معاذ الله , ولا
أنا أقوله , فقلت: أكان يرى رأي جهم؟ فقال: معاذ الله ولا أنا أقوله "
رواته ثقات
محمد
بن سابق کہتے ہیں میں نے ابو یوسف سے پوچھا :
"
کیا ابو حنیفہ قرآن کو مخلوق کہتے تھے؟ انہوں نے کہا : اللہ کی پناہ! میں
بھی ایسا نہیں کہتا ، میں نے کہا : کیا وہ
جہم والے خیالات رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا اللہ کی پناہ! میں بھی ایسا نہیں
کہتا "۔(الأسماء والصفات للبیہقی:١/ ٢١١ رقم ٥٥٠،اسناده صحيح)
اس
روایت کے روات کی تحقیق یہ ہے :
i –
محمد بن محمد بن یوسف بن ابراھیم الدقاق ؒ صدوق ہیں۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم:
۲ / ۱۲۸۷)
ii –
ان کے شیخ القاسم بن أبي
صالح الهمذاني (م۳۳۸ھ)بھی
صدوق ہیں۔(تاریخ الاوسلام : ج۷: ص ۷۲۰)
iii- محدث محمد بن ایوب
الرازی ؒ (م۲۹۴ھ) متفقہ طور پر ثقہ ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم : ج۸ : ص
۱۹۷)
iv - ابو سعید محمد بن
سعید بن سابق الرازیؒ (م۲۱۶ھ) سنن ابو داود اور نسائی کے راوی اور ثقہ ہیں۔ (تقریب
: رقم ۵۹۱۰)
v- امام قاضی ابو یوسف ؒ (م۱۸۲ھ)بھی
مشہور ثقہ،ثبت ، فقیہ اور حافظ الحدیث ہیں۔(تلامذہ امام ابو حنیفہ کا محدثانہ
مقام از حافظ ظہور احمد الحسینی : ص ۱۳۸)
معلوم
ہوا کہ اس روایت کی سند حسن ہے۔
اسی
طرح امام صاحب ؒ کے دیگر اصحاب کی بھی یہی
گواہی ہے کہ امام صاحب ؒ قرآن کو مخلوق
نہیں کہتے تھے،چنانچہ :
۲- حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۵۸ھ)
کہتے ہیں کہ :
" (أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم) وقال
النخعي: حدثنا محمد بن شاذان الجوهري قال: سمعت أبا سليمان الجوزجاني، ومعلى بن
منصور الرازي يقولان: ما تكلم أبو حنيفة ولا أبو يوسف، ولا زفر، ولا محمد، ولا أحد
من أصحابهم في القرآن، وإنما تكلم في القرآن بشر المريسي، وابن أبي دؤاد، فهؤلاء
شانوا أصحاب أبي حنيفة."
محمد
بن شاذان جوہریؒ کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلیمان الجوزجانی(ثقہ امام) اور معلی بن
منصور رازی(ثقہ فقیہ) کو کہتے ہوئےسنا کہ امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف، امام محمد اور امام
زفر نے قرآن کے بارے میں لب کشائی نہیں کی، بشر مریسی اور ابن ابی دُؤَاد نے
اس بارے میں لب کشائی (قرآن کو مخلوق کہنا) کی اور امام ابوحنیفہ ؒاور ان کے اصحاب
کی شان کو مجروح کیا۔ (تاریخ
بغداد وذیولہ ط العلمیة : ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ) مشہور
امام،ثقہ،متقن،حافظ المشرق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۴۱۸،
سیراعلام النبلاء :ج۱۸:
ص ۱۵۹)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ) بھی ثقہ،امام،حافظ ہیں۔(سیراعلام النبلاء :ج۱۷: ص ۵۹۳)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ) ثقہ ہیں۔(تاریخ
الاسلام : ج۸: ص ۴۸۲)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) ثقہ،قاضی ہیں۔(ارشاد القاصی و الدانی : ص۴۳۹)
v- محمد بن شاذان الجوھری البغدادی ؒ (م۲۸۶ھ)
بھی ثقہ ہیں۔ (تقریب : رقم ۵۹۵۰)
vi- معلی بن منصور الرازیؒ (م۲۱۱ھ) صحیحین کے راوی ہے اور ثقہ،سنی، فقیہ
ہیں۔(تقریب :رقم ۶۸۰۶)
اسی طرح ان کے متابع امام
ابو سلیمان الجوزجانی بھی صدوق ہیں۔ (تاریخ
بغداد :ج۱۵: ص ۲۶،تحقیق بشار)
معلوم
ہوا کہ یہ سند صحیح ہے ۔
وضاحت
:
امام ابو سلیمان جوزجانیؒ اور امام معلی بن
منصورؒ (م۲۱۱ھ) دونوں ،امام ابو
یوسفؒ (م۱۸۲ھ)اور امام محمد بن
الحسنؒ (م۱۸۹ھ) کے شاگرد ہیں،اوردونوں نے اس معاملے میں
امام صاحب ؒ کی طرف اس نسبت کا انکار کیا ہے جو دلیل ہے کہ امام ؒ سے
خلق قرآن کے مسئلے میں ایسا کچھ بھی مروی نہیں جو قابل گرفت ہو بلکہ امام ابو
سلیمان الجوزجانی کے متعلق ابن ابی حاتم نے یہاں تک کہا ہے کہ وہ خلق قرآن کے قائل
کی تکفیر کرتے تھے ـ(تاریخ
بغداد :ج۱۵: ص ۲۶،تحقیق بشار)
۳- حافظ المشرق خطیب بغدادی ؒ (م۴۵۸ھ)
کہتے ہیں کہ:
"(أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم)قال
النخعي: حدثنا أبو بكر المروزي قال: سمعت أبا عبد الله أحمد بن حنبل يقول: لم يصح
عندنا أن أبا حنيفة كان يقول القرآن مخلوق‘‘۔
امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ)کہتےہیں کہ ہمارے نزدیک امام ابو حنیفہ ؒ کے تعلق سے یہ بات صحیح نہیں ہے کہ انہوں نے کہا
: ’’قرآن مخلوق ہے‘‘۔(
تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) وغیرہ کی توثیق گزرچکی۔
v- ابوبکر احمد
بن علی القرشی المروزی القاضی ؒ (م۲۹۲ھ) ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۸۱)
vi- امام احمد بن محمد بن حنبلؒ (م۲۴۱ھ)
مشہور ثقہ،امام،حافظ الحدیث اور حجت ہیں۔(تقریب)
معلوم ہو ا کہ یہ سند
صحیح ہے۔[5]
۴- امام ابو عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) اپنے
کتاب میں کہا :
حدثنا أحمد بن محمد بن مسلم حدثنا علي بن
الحسن الكراعي قال قال أبو يوسف ناظرت أبا حنيفة ستة أشهر فاتفق رأينا على أن من
قال القرآن مخلوق فهو كافر۔
امام ابو یوسفؒ (م۱۸۲ھ) کہتے ہیں
کہ میں امام ابو حنیفہؒ سے ۶ مہینے مناظرہ کیا اور پھر ہم اس بات پر متفق ہو گئے کہ جو کوئی کہے
کہ قرآن مخلوق ہے وہ کافر ہے۔(بحوالہ العلو للعلي الغفارللذہبی : ص ۱۵۲، ص۱۴۳،۱۷۴)
سند کی تحقیق :
i- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ)
مشہور ثقہ ،امام جرح و تعدیل اور امام بن امام ہیں۔ ( الثقات للقاسم)
ii- احمد
بن محمد بن یزید بن مسلم الانصاری ؒ (م۲۷۴ھ)
صدوق راوی ہیں۔ (کتاب الثقات للقاسم:ج۲: ص ۸۷)
iii- علی
بن الحسن التمیمیؒ بھی صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۴۷۱۰)
iv- ابو
یوسف ؒ (م۱۸۲ھ)کی توثیق گزرچکی۔
معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے۔اور
شیخ البانی ؒ نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔( العلو بتحقیق الالبانی : ص ۱۵۵)
۵- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ) نےاپنی
کتاب میں کہا :
قال أحمد بن القاسم بن عطية سمعت
أبا سليمان الجوزجاني يقول سمعت محمد بن الحسن يقول والله لا أصلي خلف من يقول
القرآن مخلوق ولا استفتاني ألا أمرت بالإعادة۔
امام محمدؒ فرماتے ہیں
: کہ قسم بخدا، میں اس شخص کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا ، جو قرآن کو مخلوق کہے، اور
اگر وہ مجھ سے فتویٰ پوچھے گا تو میں اسے نماز کے اعادہ کا حکم دوں گا۔(بحوالہ العلو للعلي الغفارللذہبی : ص ۱۵۲، ص۱۴۳،۱۷۴)
سند کی تحقیق :
i- امام عبد الرحمٰن بن ابی حاتم الرازی ؒ (م۳۲۷ھ)
کی توثیق گزرچکی۔
ii- حافظ احمد بن قاسم
بن عطیہؒ بھی ثقہ ہیں۔(کتاب
الثقات للقاسم : ج۱ : ص ۴۶۲)
iii- امام
ابو سلیمان الجوزجانیؒ کی توثیق گزرچکی۔
iv- امام حافظ فقیہ محمد بن الحسن شیبانی ؒ (م۱۸۹ھ) مشہور امام ربانی،اورثقہ مجتہد ہیں۔(تلامذہ امام ابو حنیفہ کا
محدثانہ مقام، از حافظ ظہور احمد الحسینی
: ص ۳۲۳)
ملاحظہ
فرمائیں !امام صاحب ؒ کے خاص شاگرد امام محمدؒ بھی
نہ قرآن کو مخلوق مانتےہیں اور نہ ہی اس
شخص کی اقتداء میں نماز پڑتے ہیں،جو قرآن کو مخلوق کہے۔
۶- حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
نے کہا :
(أخبرنا الخلال قال: أخبرنا علي بن عمرو
الحريري، أن علي بن محمد بن كاس النخعي، حدثهم) وقال النخعي حدثنا نجيح بن إبراهيم، حدثني ابن كرامة - وراق أبي بكر ابن أبي شيبة- قال: قدم ابن مبارك
على أبي حنيفة. فقال له أبو حنيفة: ما هذا الذي دب فيكم؟ قال له : رجل يقال له
جهم، قال: وما يقول؟ قال: يقول القرآن مخلوق، فقال أبو حنيفة: ﴿كبرت كلمة تخرج من
أفواههم إن يقولون إلا كذبا﴾۔
ابن
کرامۃؒ کہتے ہیں کہ امام ابن مبارکؒ ، امام ابو حنیفہ ؒ کے پاس آئے ، تو امام ابو
حنیفہؒ نے ان سے کہا : تمہارے یہاں یہ کیا باتیں چل رہی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ایک
آدمی ہے جسے جہم کہا جاتا ہے ، امام صاحب نے کہا: اس کا کیا کہنا ہے ؟ انہوں نے
کہا : وہ کہتا ہے کہ قرآن مخلوق ہے ، تو امام ابو حنیفۃ ؒ فرمایا : بڑی سنگین بات
ہے جو ان کے منہ سے نکل رہی ہے ، جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔
( تاریخ بغداد وذيولہ ، ط العلمية ج ١٣ ص ٣٧٤)
سند کی تحقیق :
i- خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳ھ)
ii- الحسن بن محمد الخلالؒ (م۴۳۹ھ)
iii- علی بن عمرو الحریریؒ (م۳۸۰ھ)
iv- ابو القاسم علی بن محمدبن کاس النخعیؒ (م۳۲۴) وغیرہ کی توثیق گزرچکی۔
v- فقیہ نجیح بن ابراہیم الکوفی ؒ (م۲۷۸ھ) صدوق ہیں۔[6]
vi- محمد بن عثمان بن کرامہ ؒ (م۲۵۶ھ) بھی ثقہ،صاحب
حدیث ہیں۔(تقریب : رقم ۶۱۳۴،الکاشف)
لہذا
اس روایت کی سند بھی حسن ہے۔
۷- ثقہ ثبت حافظ الحدیث فقیہ جرح و تعدیل کے
ماہر،امام طحاویؒ (م۳۲۱ھ) اپنی مشہور کتاب ’العقیدۃ
الطحاویۃ‘ میں فرماتے ہیں کہ :
’ إن
القرآن كلام الله منه بدا بلا كيفية قولا وأنزله على رسوله وحيا وصدقه المؤمنون
على ذلك حقا وأيقنوا أنه كلام الله تعالى بالحقيقة ليس بمخلوق‘۔
یقیناً قرآن ، اللہ کا کلام ہے ، جو بلا
کسی کیفیت کے، بطور قول کے اسی سے ظاہر ہوا ، جسے اللہ نے وحی کے ذریعہ اپنے رسول ﷺ
پر اتارا ، اور ایمان والوں نے اسی طرح اس کے حق ہونے کی تصدیق کی ، اور انہوں نے
یقین کیا کہ وہ حقیقت میں اللہ کا کلام ہے مخلوق نہیں ہے۔
اوراس کتاب کے شروع میں
کہتے ہیں کہ ’’ هذا ذكر بيان
عقيدة أهل السنة والجماعة على مذهب فقهاء الملة أبي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفي
وأبي يوسف يعقوب بن إبراهيم الأنصاري وأبي عبد الله محمد بن الحسن الشيباني رضوان
الله عليهم أجمعين ‘‘۔
یہ فقہاء ملت امام ابوحنیفہ ، امام ابو یوسف اور امام محمدرحمہم
اللہ کے مذہب پر اہل سنت وجماعت کے عقیدہ کا بیان ہے ۔ ( عقیدۃ الطحاوی : ص ۴۰،۳۱)
اہل سنت کے عقیدے کی اس بنیادی کتاب میں بھی
صراحت ہے کہ امام ابو حنیفہ ؒ اور
ان کے اصحاب ؒ ،قرآن کو مخلوق
نہیں،بلکہ کلام اللہ مانتے تھے۔
۸- حافظ
الحدیث ،امام مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ (م۶۰۶ھ)فرماتے ہیں کہ :
لو
ذهبنا إلى شرح مناقبه وفضائله لأطلْنا الخُطب، ولم نصلْ إلى الغرض منها، فإنه كان
عالماً عاملاً، زاهداً، عابداً، ورعاً، تقياً، إماماً في علوم الشريعة مرضياً، وقد
نسب إليه وقيل عنه من الأقاويل المختلفة التي نجلُّ قدره عنها ويتنزه منها؛ من
القول بخلقِ القرآن، والقول بالقدر، والقول بالإرجاء، وغير ذلك مما نُسب إليه.
ولا حاجة إلى ذكرها ولا إلى ذكر قائليها، والظاهر أنه
كان منزهاً عنها، ويدل على صحة نزاهته عنها، ما نشر الله تعالى له من الذِّكْر
المنتشر في الآفاق، والعلم الذي طبق الأرض، والأَخْذ بمذهبه وفقهه والرجوع إلى
قوله وفعله، وإن ذلك لو لم يكن لله فيه سرّ خفي، ورضى إِلهيّ، وفقه الله له لما
اجتمع شطرُ الإسلامِ أو ما يقاربهُ على تقليده، والعمل برأيه ومذهبه حتى قد عُبِدَ
اللهُ ودِيْنَ بفقهه، وعُمل برأيه، ومذهبه، وأُخذَ بقوله إلى يومنا هذا ما يقارب
أربعمائة وخمسين سنة،
وفي هذا أدل دليل على صحة مذهبه، وعقيدته، وأنما قيل عنه
هو منزَّه منه، وقد جمع أبو جعفر الطحاوي - وهو من أكبر الآخذين بمذهبه - كتاباً
سماه «عقيدةُ أبي حنيفةَ - رحمه الله-» وهي عقيدةُ أهل السُّنَّة والجماعة، وليس
فيها شيء مما نُسبَ إليه وقيل عنه، وأصحابه أخبرُ بحاله وبقوله من غيرهم، فالرجوعُ
إلى ما نقلوه عنه أوْلى مما نقله غيرُهم عنه، وقد ذُكِر أيضاً سبب قول من قال عنه
ما قال والحامل له على ما نسب إليه، ولا حاجة بنا إلى ذكر ما قالوه، فإن مثل أبي
حنيفة ومحلُه في الإسلام لا يحتاجُ إلى دليل يُعْتَذَرُ به مما نُسب إليه. والله
أعلم
اگر ہم آپکے مناقب وفضائل کی تفصیل میں جائیں گے تو بات
طویل ہوجائیگی ، اور ہم مقصد تک نہیں پہنچ پائیں گے ، یقیناً آپ عالمِ باعمل، عابد وزاہد ، متقی پرہیزگار،
اور علوم شریعت کے پسندیدہ امام ہیں ، اور آپ کی طرف منسوب کرکے یا آپ کے بارے
میں جو باتیں کہی گئی ہیں ، ہم آپ کی شان کو اس سے بلند سمجھتے ہیں ، آپ ان
چیزوں سے بری ہیں ، یعنی قرآن کو مخلوق کہنا، تقدیر کے بارے میں کلام کرنا ، یا
ارجاء کا عقیدہ رکھنا ، وغیرہ چیزیں جو آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں ۔
نہ ان باتوں کو بیان کرنے کی نہ انکے قائلین کا تذکرہ
کرنے کی ضرورت ہے ،واضح طور پر آپ ان باتوں سے بری ہیں ، ’’ان باتوں سے آپ بری
ہیں‘‘ اس بات کے صحیح ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے عالم میں آپ کا
شہرہ فرمادیا، اور آپ کا علم جس نے روئے زمین کو بھر دیا، اور آپ کے مذہب وفقہ
کو اختیار کیا گیا، اور آپ کے قول وفعل کی طرف رجوع کیا گیا، اگر اس میں اللہ
تعالیٰ کا کوئی رازِ سربستہ اور رضاء الٰہی جس (کے حصول ) کی اللہ نے آپ کو توفیق
دی ، شامل نہ ہوتی تو تمام مسلمانوں میں سے تقریباً آدھی تعداد آپ کی تقلید اور
آپ کی رائے ومذہب کے مطابق عمل کرنے پر مجتمع نہ ہوتی ، یہاں تک کہ آج تقریباً
ساڑھے چار سو سال سے آپ کی فقہ اورآپ کی رائے ومذہب پر عمل کرکے نیز آپ کے قول
کو اختیار کرکے ، اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے دین کے پر عمل کیا جارہا ہے۔
یہ آپ کے مذہب وعقیدہ کے صحیح ہونے اور جو کچھ آپ کی
طرف منسوب کیا گیا ہے ، اس سے آپ کے بری ہونے کی بہت مضبوط دلیل ہے ، ابو جعفر
طحاویؒ جو آپ کے مذہب کے سب سے بڑے اختیار کرنے والوں میں سے ہیں ، انہوں نے ’عقیدۃ
ابی حنیفۃ ‘نامی ایک کتاب تالیف فرمائی ہے ، وہ اہل سنت وجماعت ہی کے عقائد ہیں ،
ان میں آپ کی طرف منسوب کردہ اور آپ کے بارے میں کہی گئی باتوں میں سے کچھ بھی
موجود نہیں ، دوسروں کے مقابلہ میں آپ کے اصحاب، آپ کے حال و قال سے زیادہ واقف
ہیں ، اس لئے جو کچھ انہوں نے آپ سے نقل کیا اس کی طرف رجوع کرنا زیادہ بہتر ہے
بنسبت دوسروں کی نقل کردہ چیزوں کے ، کہنے والے نے کس سبب سے آپ کے بارے میں کہا
، اور آپ کی طرف باتیں منسوب کرنے کیلئے کیا چیز باعث بنی ، یہ بھی بیان کیا گیا
ہے ، لیکن لوگوں نے جو کچھ کہا ہے وہ سب ذکر کرنے کی ہمیں کوئی حاجت نہیں ، اس لئے
کہ ابو حنیفہ ؒ جیسی شخصیت اور اسلام میں آپ کا مقام ومرتبہ کسی دلیل کا محتاج
نہیں ، نہ آپ کی طرف منسوب کردہ باتوں کے
بارے میں کوئی عذر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
واللہ اعلم ۔ (جامع الاصول : ج۱۲: ص۹۵۳-۹۵۴)
امام حافظ مجد الدین ابن الاثیر الجزریؒ (م۶۰۶ھ)
کے اس جامع کلام کے بعد،مزید کچھ اور عرض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
۹- امام
ابو حنیفہؒ (م۱۵۰ھ) اپنی کتاب ’ الفقه الاكبر ‘[7] میں فرماتے ہیں’’الْقُرْآن
غير مَخْلُوق‘‘قرآن
مخلوق نہیں ہے۔ ( الفقه الاكبر: ص ۲۰)
لہذا
جب امام صاحب ؒ قرآن کو مخلوق مانتے ہی نہیں تھے، تو پھر رجوع کس مسئلے سے
کرایا گیا؟
یہ
یاد رکھا جائے کہ بسند صحیح اور سماع کی
تصریح کےساتھ یہ بات ثابت نہیں ہے کہ امام سے توبہ ،خلق قرآن کے مسئلے میں کرائی
گئی تھی۔
الجواب نمبر ۴ :
دوسری
روایت میں اس واقعہ کی صحیح تشریح موجود ہے،چنانچہ:
محدث
عبدالقادر القرشیؒ (م۷۷۵ھ)کہتے ہیں :
"وَقَالَ
أَبُو الْفضل الْكرْمَانِي لما دخل الْخَوَارِج الْكُوفَة ورأيهم تَكْفِير كل من
أذْنب وتكفير كل من لم يكفر قيل لَهُم هَذَا شيخ هَؤُلَاءِ فَأخذُوا الإِمَام
وَقَالُوا تب من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَقيل لَهُم أَنه قَالَ أَنا
تائب من كفركم فَأَخَذُوهُ فَقَالَ لَهُم أبعلم قُلْتُمْ أم بِظَنّ قَالُوا بِظَنّ
قَالَ إِن بعض الظَّن إِثْم وَالْإِثْم ذَنْب فتوبوا من الْكفْر قَالُوا تب أَيْضا
من الْكفْر فَقَالَ أَنا تائب من كل كفر فَهَذَا الذى قَالَه الْخُصُوم أَن
الإِمَام استتيب من الْكفْر فى طَرِيق الْحجاز... "
صدوق
،امام،فقیہ ابو الفضل کرمانی ؒ(م۵۴۳ھ)کہتے ہیں کہ :
"
جب خوارج کوفہ میں داخل ہوئے، اور ان کا مذہب یہ تھا کہ وہ ہر گناہ گار کو کافر
قرار دیتے تھے ، اور (جو عاصی کو کافر نہ کہے) اس کی بھی تکفیر کرتے تھے ، تو کسی نے ان سے کہا کہ یہ(امام
ابو حنیفہؒ) سب کے استاد ہیں، تو انہوں نے
امام کو پکڑ لیا اور کہا کفر سے توبہ کرو تو امام ابو حنیفہ نے کہا :کہ میں ہر
کفر سے توبہ کرتا ہوں۔
مگر
خوارج سے پھرکسی نے کہہ دیا کہ ابو حنیفہ نے کہا ہے کہ میں تمہارے کفر سے توبہ
کرتا ہوں ۔
تو
خوارج نے امام کو پکڑ لیا ،تو امام صاحب نے کہا کہ: ایسا تم نے کسی یقین کی بنیاد
پر کہا ہے یا پھر تمہارا گمان ہے ؟ تو وہ کہنے لگے کہ ظن کی بنیاد پر ،امام صاحب نے
کہا کہ:﴿ ان بعض الظن إثم﴾۔
(بعض گمان گناہ ہیں) اور إثم گناہ ہے پس تم کفر سے توبہ کرو، پھر وہ خوارج أمام سے
کہنے لگے کہ: کفر سے تم بھی توبہ کرو تو
امام نے کہا کہ کہ میں ہر کفر سے توبہ کرتا ہوں۔
یہ وہ بات جس کو خصم یعنی مخالف نے ذکر
کیا ہے کہ امام نے حجاز کے راستے میں توبہ کی... "
(الجواھر
المضیة في طبقات الحنفية ج ١ ص٤٨٧، ٤٨٨)
اسی
طرح ثبت،امام قاضی ابن ابی العوامؒ (م۳۳۵ھ)کہتے ہیں کہ :
"وجدت
في كتابي من حديث الحسن بن حماد سجادة، وقد حدثت به عنه قال: ثنا أبو قطن عمرو بن
الهيثم قال: أردت الخروج إلى الكوفة فقلت لشعبة: من تكاتب بالكوفة؟ قال: أبو حنيفة
وسفيان الثوري، فقلت: أكتب لي إليهما، فكتب، وصرت إلى الكوفة، فسألت عن أسن
الرجلين؟ فقيل: أبو حنيفة، فدفعت إليه الكتاب، فقال: كيف أخي أبو بسطام؟ قلت بخير،
فلما قرأ الكتاب قال: ما عندنا فلك مبذول، وما عند غيرنا فاستعن بنا نعينك، ومضيت
إلى الثوري فدفعت إليه كتابه، فقال لي مثل ما قال أبو حنيفة، فقلت له، شيء يروى
عنك تقول: إن أبا حنيفة استتيب من الكفر مرتين، أهو الكفر الذي هو ضد الإيمان؟
فقال: ما سألني عن هذه المسألة أحد غيرك منذ كلمت بها، وطأطأ رأسه ثم قال: لا،
ولكن دخل واصل الشاري إلى الكوفة فجاء إليه جماعة فقالوا له: إن هاهنا رجلاً لا
يكفر أهل المعاصي يعنون أبا حنيفة، فبعث فأحضره وقال: يا شيخ بلغني أنك لا تكفر
أهل المعاصي؟ قال: هو مذهبي، قال: إن هذا كفر، فإن تبت قبلناك وإن أبيت قتلناك،
قال: مم أتوب؟ قال: من هذا، قال: أنا تائب من الكفر، ثم خرج، فجاءت جماعة من أصحاب
المنصور فأخرجت واصلاً عن الكوفة، فلما كان بعد مدة وجد من المنصور خلوة فدخلها،
فجاءت تلك الجماعة فقالت: إن الرجل الذي كان تاب قد راجع قوله، فبعث فأحضره فقال:
يا شيخ بلغني أنك راجعت ما كنت تقول، فقال: وما هو؟ فقال: إنك لا تكفر أهل
المعاصي، فقال: هو مذهبي، قال: فإن هذا عندنا كفر، فإن تبت منه قبلناك وإن أبيت
قتلناك، قال: والشراة لا يقتلون حتى يستتاب ثلاث مرات، فقال: مم أتوب؟ قال: من
الكفر، قال: فإني تائب من الكفر، قال: فهذا هو الكفر الذي استتيب منه."
ابو
قطن نے کہا کہ "میں نے کوفہ جانے کا ارادہ کیا تو شعبہ ؒ سے کہا آپ کوفہ میں
کسی کی طرف رقعہ لکھنا چاہتے ہیں تو انہوں نے کہا ابوحنیفہ ؒ اور سفیان ثوریؒ کی
طرف لکھنا چاہتا ہوں ۔
تو
میں نے کہا آپ مجھے ان دونوں کی طرف لکھ دیں، تو انہوں نے لکھ دیا اور میں
کوفہ چلا گیا اور میں نے وہاں لوگوں سے پوچھا کہ ابو حنیفہؒ اور سفیان ثوریؒ سے
زیادہ عمر والے کون ہیں تاکہ میں ان کو رقعہ پہلے پہنچاؤں تو مجھے بتایا گیا کہ
ابوحنیفہؒ عمر رسیدہ ہیں تو میں نے ان کو رقعہ دیا ،انہوں نے کہا میرے بھائی ابو بسطام کیا حال ؟ میں نے کہا :وہ خیریت سے تھے، جب انہوں نے رقعہ
پڑھا تو کہا: جو چیز ہمارے پاس ہے وہ پیش
خدمت ہے اور جو ہمارے پاس نہیں کسی اور کے پاس ہے ،اس کیلئے ہم مدد کریں گے، پھر
میں سفیان ثوری رحمہ اللہ کے پاس گیا اور
ان کو وہ رقعہ پہنچایا تو انہوں نے بھی مجھے وہی کہا جو ابوحنیفہ نے کہا تھا۔
پھر
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے حوالہ سے ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں
بیشک ابوحنیفہ سے دو مرتبہ کفر سے توبہ طلب کی گئی تھی؟ کیا وہ ایسا کفر تھا جو
ایمان کی ضد ہے ؟ تو انہوں نے کہا :جب سے میں نے یہ بیان کیا ہے اس وقت سے لے کر
اب تک اس مسلے کے بارے میں تمہارے
سوا کسی نے مجھ سے نہیں پوچھا اور اپنا سر جھکا لیا پھر کہا: نہیں ایسا نہیں تھا، لیکن واصل البخاری کوفہ
میں داخل ہوا تو اس کے پاس ایک جماعت آئی
تو انہوں نے اس سے کہا بیشک یہاں ایک ایسا آدمی جو گنہگاروں کو کافر نہیں کہتا اور ان کی مراد اس شخص سے ابو حنیفہ تھے ۔
تو اس نے پیغام بھیجا تو وہ اس کے پاس حاضر ہوئے
،اس نے کہا: اے شخص مجھے یہ بات پہنچی ہے
کہ آپ اہل معاصی (گناہ گار) کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا کہ یہ تو میرا مذہب
ہے ، اس نے کہا: یہ یقیناً کفر ہے، پس اگر تو نے توبہ کرلی تو ہم تیری توبہ قبول
کرلیں گے،اور اگر تو نے انکار کیا توہم تجھے قتل کردیں گے ، انہوں نے کہا: کس بات
سے توبہ کروں؟ اس نے کہا: اسی سے، انہوں
نے کہا: میں کفر سے توبہ کرتا ہوں، پھر وہ چلے گئے ،پھر منصور کے ساتھیوں کی ایک جماعت
آئی جنہوں نے واصل کو کوفہ سے نکال دیا، کچھ مدت کے بعدپھرواصل نے موقع پایا تو وہ کوفہ میں داخل ہوگیا تو وہی
جماعت اس کے پاس آکر کہنے لگی بیشک وہ آدمی جس نے توبہ کی تھی اس نے رجوع کرلیا ہے،
اس نے بلانے کے لیے پیغام بھیجا تو آپ اس کے پاس حاضر ہوئے ، اس نے کہا :اے شیخ! مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ
بیشک آپ اپنے اسی نظریہ کی طرف لوٹ گئے ہیں جو پہلے تھا تو انہوں نے کہا: وہ کیا
ہے؟ تو اس نے کہا بے شک آپ گناہ گاروں کو کافر نہیں کہتے تو انہوں نے کہا: وہ تو
میرا مذہب ہے، تو اس نے کہا : ہمارے نزدیک کفر ہے پس اگر آپ نے توبہ کرلی تو ہم تمہاری
قبول کرلیں گے اگر آپ نے انکار کیا تو ہم آپ کو قتل کردیں گے،سفیان ثوری کہتے ہیں کہ : خوارج اس وقت تک قتل نہیں کرتے تھے جب تک کہ تین مرتبہ توبہ نہ
کروالیں ، تو انہوں نے کہا: میں کس چیز سے توبہ کروں ؟،اس نے کہا: کفر سے ، امام
صاحب نے کہا: بیشک میں کفر سے توبہ کرتا
ہوں، پس یہی وہ کفر ہے جس سے ابو حنیفہؒ سے توبہ طلب کی گئی تھی۔" (فضائل
أبي حنيفة وأخبار ص ٧٤،٧٥ رقم ٨٤ )
سند کی تحقیق :
i- امام
قاضی ابن ابی العوامؒ (م۳۳۵ھ) مشہور ثقہ،ثبت امام ہیں ۔(دو ماہی مجلہ الاجماع : شمارہ
نمبر ۲ : ص ۳)
ii- محدث حسن بن
حماد سجادۃؒ (م۲۴۱ھ) سنن ابو داود
اور سنن نسائی کے راوی اورصدوق ہیں۔(تقریب
:رقم ۱۲۳۰)
iii- عمرو بن الھیثم ابو
القطنؒ
(م۲۰۰ھ) صحیح مسلم اور سنن اربع کے راوی
اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۱۳۰)
معلوم
ہوا کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ ہیں۔
اس
روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ امام صاحب سے جس بات سے توبہ کرائی گئی تھی دراصل وہ قابلِ اعتراض بات ہی
نہ تھی، جسے صرف تعصب کی بنا پر پھیلایا گیا۔
[1]
اس
سے امام صاحبؒ پر ہونے والے ایک اعتراض کا جواب ہوگیا ، وہ یہ کہ غیرمقلدین اعتراض
کرتے ہیں کہ امام صاحبؒ کے نزدیک جوتے کی عبادت جائز ہے ، اور دلیل میں یہ روایت
ذکر کرتے ہیں کہ امام یعقوب بن سفیان (م ۲۷۷ھ) کہتے ہیں کہ :
حدثني علي بن عثمان بن نفيل حدثنا ابو مسهر حدثنا يحي بن حمزة وسعيد
يسمع: أن أبا حنيفة قال: لو أن رجلا عبد هذه النعل يتقرب بها إلى الله لم أر
بذلك بأسا. فقال سعيد: هذا الكفر صراحا۔(المعرفۃ والتاریخ : ج۲: ص ۷۸۴)
اس روایت میں بھی یحییٰ بن حمزہ نے صراحت نہیں کی کہ انہوں
نے یہ بات خود امام صاحب ؒ سے سنی ہے یا نہیں۔
لہذا ایسی فضول روایت سے امام صاحبؒ پر اعتراض باطل ومردود
ہے۔
[2] یعنی
حسن بن صالح بن حیؒ۔
[3] غالباً یہی وجہ ہے کہ ثقہ،ثبت امام عبد اللہ بن داود
الخریبیؒ (م۲۱۳ھ) نے اس سفیان ثوری ؒ کی اس روایت کو جھوٹی قرار دیا ہے۔
حافظ
المغرب امام ابن عبدالبر ؒ (م۴۶۳ھ) نےاس کی سند یوں بیان فرمائی ہے :
قال أبو يعقوب ونا أبو قتيبة سلم ابن الفضل قال نا محمد بن يونس الكديمي
قال سمعت عبد الله بن داود الخريبي يوما وقيل له يا
أبا عبد الرحمن إن معاذا يروي عن سفيان الثوري أنه قال استتيب أبو حنيفة مرتين
فقال عبد الله بن داود هذه والله كذب۔(الانتقاء
لابن عبد البر: ص۱۵۰)
حافظ
المغرب امام ابن عبدالبر ؒ (م۴۶۳ھ) اور ابو یعقوب یوسف ابن احمدؒ(م۳۸۸) کی توثیق مجلہ
الاجماع : شمارہ نمبر ۳ : ص ۲۸۴ پر موجود ہے،سلم بن الفضل ابو قتیبہؒ (م۳۵۰ھ)
صدوق ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۸۹۰)،البتہ محمد بن یونس کدیمیؒ (م۲۸۶ھ)
ضعیف ہیں، جیسا کہ حافظ ؒ نے تقریب میں تحریر فرمایا ہے۔(رقم ۶۴۱۹) لیکن
چونکہ دلائل سے ثابت ہوا کہ ثوری ؒ کی روایت
باطل ہے۔لہذا یہاں پر محمد بن یونس الکدیمیؒ (م۲۸۶ھ) پر جرح فضول
اور بیکار ہے۔
[4]
اس عبارت میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ خطیب بغدادی ؒ نے
مشہور کا لفظ استعمال کیا ہے ، نہ کہ ثابت کا ۔
[5]
اس روایت سے ۲ باتیں ممکن ہوسکتی ہیں:
۱- پہلے قول کی، امام احمد کی طرف راوی نے
غلط نسبت کی ہے۔
اور
وہ قول یہ ہے کہ امام احمد سے ان کے بیٹے
نقل کرتے ہیں کہ:
"استتابوه
أظن في هذه الآية: {سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ} قال: هو
مخلوق."
"ان
سے جو توبہ کرائی گئی، میرے خیال میں وہ اس آیت کے متعلق تھی﴿ سبحن
ربک رب العزة عما یصفون ﴾ آپ نے کہا کہ یہ
مخلوق ہےـ" (العلل
ج٢ص٥٤٦)
۲- امام احمدؒ کا پہلا کا قول تحقیق پر مبنی نہیں تھا بعد میں
آپ نے اپنے قول سے رجوع کرلیا ـ واللہ
اعلم
[6]
ان کوامام ابن حبان نے کتاب
الثقات میں شمار کیا ہے،اورامام ابن عدی ؒنے
باجود ان کا علم ہونے کے،ان کا ترجمہ الکامل میں ذکر نہیں کیا۔ یعنی یہ
راوی،امام ابو احمد ابن عدی ؒ کے نزدیک صدوق یا ثقہ ہیں،جیسا کہ غیرمقلدین کا اصول
ہے۔(کتاب الثقات لابن حبان : ج۹: ص ۲۲۰، الکامل : ج۲ : ص۲۵۴،انوار البدر :
ص۲۲۵)، لہذا یہ راوی صدوق ہیں۔
[7] (اتحاف السادة المتقين بشرح إحياء علوم الدين:ج۲: ص۱۲)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں