نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مراسیل امام ابراہیم النخعیؒ ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک صحیح،مضبوط اور جید ہیں۔

 

مراسیل امام ابراہیم   النخعیؒ

ائمہ جرح و تعدیل کے نزدیک صحیح،مضبوط اور جیدہیں۔

- مولانا نذیر الدین قاسمی                                                                  

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


ائمہ جرح و تعدیل کےنزدیک امام ابراہیم النخعیؒ۹۶؁ھ)کی مراسیل حجت ہیں۔

دلائل درج ذیل ہیں :

۱)         امام العلل امام الجرح والتعدیل یحیی بن معینؒ۲۳۳؁ھ)فرماتےہیں کہ:

’’مرسلات ابراہیم صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین وحدیث الضحک فی الصلاۃ ‘‘۔

 ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل صحیح ہیں سوائےحدیث تاجر البحریناورحدیث الضحک فی الصلا ۃ کے۔ (تاریخ یحیی بن معین بروایت الدوری رقم :۹۵۸) اسکین ملاحظہ فرمائے

ابن محرز ؒ کی روایت میں ابن معین ؒ کہتے ہیں کہ:

            ’’مرسلات ابراہیم اصح من مرسلات سعید بن المسیب والحسن ‘‘۔

ابراہیم نخعیؒ کی مرسل روایات،سعید بن المسیب ؒ اورحسن بصری ؒ کی مرسل روایات سےزیادہ صحیح ہیں ۔ (تاریخ یحیی بن معین بروایت ابن محرز ج:۱ص:۱۲۰)

اسکین  :

معلوم ہواکہ ابن معین ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایا ت صحیح اور حجت ہیں ۔

۲)        امام عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱؁ھ) نے ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے،امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کیا ہے :

            أبوداؤد  عن ابراہیم بن یزید النخعی عن عائشۃ قالت : کانت ید رسول اللہ    الیمنی لطہورہ وطعامہ  وکانت یدہ الیسری لخلاءہ وما کا ن من أذی ً۔

قال أبو العباس الدوری : لم یسمع ابراہیم بن یزید النخعی من عائشۃ ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔ (احکام الوسطی ج:۱ص: ۱۳۲)

معلوم ہواکہ امام عبدالحق اشبیلی ؒ کے نزدیک امام ابراہیم النخعی کی مرسل روایات صحیح اور قابل حجت ہیں ۔

۳)        الامام الحافظ ابن سید الناسؒ۷۳۴؁ھ)کے نزدیک بھی امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں ۔

انہوں نے بھی ابراہیم النخعی ؒ کی ایک مرسل روایت نقل کرکے امام ابن معین ؒ کا یہی قول نقل کر کے بتایا کہ ان کے نزدیک ابراہیم النخعی کی مرسل روایا ت حجت ہیں،چنانچہ فرماتے ہیں کہ :

            وحدیث عائشۃ :رواہ الامام  أحمد وأبوداؤد من حدیث ابراہیم وہوابن یزید النخعی عن عائشۃقالت : کانت ید رسول اللہ  ﷺ الیمنی لطہورہ وطعامہ وکانت یدہ الیسری لخلا ئہ وما کان من أذی ۔

        قال العباس بن محمد الدور ی عن ابن معین :لم یسمع ابراہیم من عائشۃ ، ومراسیلہ صحیحۃ الا حدیث تاجر البحرین ۔(النفح الشذی شرح جامع الترمذی ج:۱ص: ۱۷۷)

۴)        امام اہل السنۃ امام احمد بن حنبل ؒ ۲۴۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’مرسلات ابراہیم النخعی لا بأس بہا‘‘

امام ابراہیم النخعیؒ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ہے۔(التاریخ والمعرفہ ج:۳ص: ۲۳۹،واسنادہ صحیح ) اسکین  :

 معلوم ہواکہ امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک ابراہیم نخعی ؒ کی مرسل روایات صحیح ہیں ۔

۵)        امام ذہبی ؒ ۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            ’’ان اصح الاسناد الی تابعی متوسط الطبقۃ کمراسیل مجاہد وابراہیم والشعبی فہو مرسل جید لا بأس بہ ‘‘۔

 اگر(مرسل روایت کی) متوسط تابعی تک سند صحیح ہے،جیسے مجاہدؒ،ابراہیم  النخعی ؒ اور شعبی ؒ کی مراسیل ، تو وہ مضبوط مرسل ہے،اور ان میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔(الموقظۃ ص: ۴۰)

اسکین :

معلوم ہواکہ ان کے نزدیک بھی مراسیل ابراہیم النخعی میں کوئی خرابی نہیں ہے ۔

۶)        حافظ ابو العباس ابن تیمیہ الحرانی  ؒ ۷۲۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

’’ان مراسیل ابراہیم من احسن المراسیل ‘‘

یقینا ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل سب سے اچھی مراسیل میں سے ہیں ۔(مجوع الفتاوی ج:۳۱ص: ۳۵۳)

مزید کہتے ہیں کہ :

’’مراسیل ابراہیم جیاد ‘‘

 ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل بہترین اور عمدہ ہیں ۔(الصارم المسلول ص: ۵۸۴)

۷)        حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’اجمعوا أن مراسیل ابراہیم صحاح ‘‘

محدثین کا اتفاق ہے کہ ابراہیم نخعی کی مراسیل صحیح ہیں ۔(الاستذکار :ج:۶ص: ۱۳۷)

 

ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) کی مراسیل صحیح کیوں ہیں ؟؟

۸)         اس کی وجہ بھی  حافظ المغرب ابو عمر بن عبد البر ؒ (م ۴۶۳ھ) ذکر کیا کہ :

            وکل من عرف أنہ لا یأخذ الا عن ثقۃ فتدلیسہ ومرسلہ مقبول فمراسیل سعید بن المسیب ،ومحمد بن سیرین وابراہیم النخعی عندہم صحاح ۔

ہر وہ راوی جس کے بارے میں یہ مشہور ہو کہ وہ صرف ثقہ راویوں سے ہی روایات لیتا ہے تو اسکی تدلیس اور مرسل روایت مقبول ہے،اس لئے سعید ابن المسیب ،اور محمد بن سیرین اور ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کی مرسل روایات محدثین کے نزدیک صحیح ہیں۔

(التمہید لابن عبدالبر ج: ۱ص: ۳۰ ، واللفظ لہ ،الاستذکار ج:۸ص: ۱۳)  

اس سے تین باتیں معلوم ہوئیں :

۱)         امام ابراہیم نخعی ؒ صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے ۔

۱۱)        ابراہیم النخعیؒ کی تدلیس مقبول ہے ۔

۱۱۱)      ان کی  علی الاطلاق مراسیل بھی صحیح ہیں ۔

۹)         حافظ ابن تیمیہؒ (م ۷۲۸؁ھ) نے بھی کہا ہے کہ :

’’لا یرسل الا عن ثقۃ ،کسعید بن المسیب ،وابراہیم النخعی ،ومحمد بن سیرین‘‘ 

۔۔۔وہ لوگ جو صرف ثقہ سے  ارسال کرتے  ہیں،مثلاً  سعید بن المسیب ؒ،ابراہیم نخعی ؒ، محمد بن سیرین ؒ  ۔۔۔۔۔ (اقتضاء الصراط المستقیم لمخالفۃ اصحاب الجحیم ج:۲ص:۳۵۰)

-          حافظ صلاح الدین علائی ؒ ۷۶۱؁ھ) کہتے ہیں کہ :

۱۰)       امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا   کہ  :

 ’’ قال الإمام الشافعي رحمه الله کان ابن سیرین  وعروۃ بن الزبیر وطاووس وابراہیم النخعی وغیر واحد من التابعین یذہبون الی ان لا یقبلو ا الحدیث الا عن ثقۃ ‘‘

امام شافعی ؒنے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاؤس اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف ثقہ  کی حدیث کو قبول کرتے تھے ۔

ایک اور روایت میں کہا کہ :

’’لايقبلوا الحديث إلا عن ثقة يعرف ما يروي ويحفظ وما رأيت أحدا من أهل الحديث يخالف هذا المذهب‘‘

امام شافعی ؒ نے کہا کہ ابن سیرین اور ابراہیم نخعی،طاؤس  اور ان کے علاوہ دیگر تابعین صرف اس ثقہ راوی کی حدیث کو قبول کرتے تھے،جو اپنی روایت کو سمجھتا اور اسے یاد رکھتا ہو اور میں نے کسی بھی اہل الحدیث کو نہیں دیکھا جو اس مذہب کی مخالفت کرتا ہو۔ (جامع التحصیل ص: ۶۸،۶۹،الکفایۃ:ص۱۳۲،التمہید لابن عبد البر:ج۱:ص۳۹)

۱۱)        امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ)ابراہیم نخعی اور سعید بن المسیب کی مرسل روایات کے بارے میں فرماتے ہیں :

’’مرسلات سعید بن المسیّب أصحّ المرسلات ، ومرسلات إبراہیم النّخعیّ لا بأس بھا ، ولیس فی المرسلات أضعف شیء من مرسلات الحسن وعطاء ابن أبی رباح ، فإنّھما یأخذان عن کلّّ أحد‘‘۔

سعید بن مسیب  رحمہ اللہ کی مرسل روایات،مرسلات میں سب سے زیادہ صحیح ہیں ، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کی مرسل روایات میں کوئی حرج نہیں ، جبکہ مرسلات میں حسن بصری رحمہ اللہ اور عطاء بن ابی رباح  رحمہ اللہ کی مرسلات سے بڑھ کر  کوئی ضعیف نہیں ، کیونکہ وہ دونوں ہر ایک سے روایات لیتے تھے ۔ (المعرفۃ والتاریخ للفسوی :ج۳: ص ۲۳۹)

امام احمد ؒ کے اس قول سے یہ بات معلوم ہورہی ہے کہ ان کے نزدیک  ابراہیم النخعی وسعید بن المسیب ثقات کے علاوہ کسی سے روایت نہیں لیتے تھے جس کی وجہ سے ان کی مراسیل مقبول ہیں۔

۱۲)       محدث أبو الولید الباجی ؒ (م۴۷۴؁ھ)  لکھتے ہیں  کہ :

’’لا يرسل الا عن الثقات كإبراهيم النخعي و سعيد بن المسيب ‘‘

            ابراہیم النخعی اور سعید بن المسیب ثقہ راویوں کے علاوہ کسی سے بھی ارسال نہیں کرتے تھے۔

(الإشارة في معرفة الأصول ص: ٢٣٠،نزہۃ  النظر : ص ۸۳،ت عتر)

ان تمام حوالوں  کا خلاصہ یہ ہے کہ:

-      ابراہیم نخعیؒ کی تمام  مراسیل صحیح  و جید ہیں اور ان میں کوئی  حرج نہیں ہے،  سوائے حدیث تاجر البحرین اور حدیث الضحک فی الصلا ۃ کے۔

-      اس لئے کہ امام،حافظ ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے۔کما قال الائمۃ الجرح و التعدیل[1]۔

ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کا ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین کےنزدیک مقام اور مرتبہ :

            ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل کی  حجیت ثابت ہونے کے بعد  ’’ ابراہیم عن عبد اللہ ‘‘ کی  روایت کا   خاص طور سے ائمہ جرح وتعدیل اور محدثین کے نزدیک کیا مقام  ہے،اس کو ملاحظہ فرمائے :

۱۳)       امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید القطان ؒ ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

            ’’ان مراسیل ابراہیم عن ابن مسعود وعمر صحاح کلہا وما ارسل منہا أقوی من الذی أسند ‘‘

یقیناابراہیم نخعیؒ کی ابن مسعود ؓاورعمر ؓسے تمام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور ان کی مرسل حدیث، مسند حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔(التمہید لابن عبدالبر ج:۱۵ص: ۹۴)

۱۴)       ثقہ،ثبت،حافظ الحدیث ،امام ابو جعفرطحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) صحیح  سند کے ساتھ ابراہیم نخعی ؒ کے قول[2]  کو ذکر کرنے بعد ،اس کی شرح میں کہتے ہیں کہ :

            ’’ فأخبر أن ما أرسله عن عبد الله , فمخرجه عنده أصح من مخرج ما ذكره عن رجل بعينه عن عبد الله ‘‘

            ابراہیم نخعیؒ (م۹۶؁ھ) خود ذکر کرتے ہیں کہ  (جب)  وہ  عبد اللہ ؓ سے مرسلاً  روایت کریں،تو اس  کا مخرج   (روایت)  ابراہیم نخعیؒ(م۹۶؁ھ) کے نزدیک متصل روایت  سے زیادہ صحیح ہے۔(شرح معانی الآثار : حدیث نمبر ۱۳۶۲،نیز دیکھئے   شرح ابو داود للعینی : ج۳: ص ۳۰۱)

۱۵)       حافظ المغرب ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) یہ بھی کہتے ہیں کہ:

            عن سلیما ن عن الاعمش قال قلت لابراہیم اذا حدثتنی حدیثا فأسندہ فقال اذا قلت عن عبداللہ یعنی ابن مسعود فاعلم أنہ عن غیر واحد ،واذا سمیت لک أحدا فہو الذی سمیت قال أبو عمر الی ہذا نزع من  اصحابنا من زعم أن مرسل الامام أولی من مسندہ لان فی ہذا الخبر ما یدل علی ان مراسیل ابراہیم النخعی أقوی من مسانیدہ وہو لعمری کذلک ۔

امام اعمشؒ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام ابراہیم النخعی سے کہا کہ جب آپ مجھے کوئی حدیث بیان کریں تو اس کی سند بھی بیان کردیں،تو انہوں فرمایا :میں جب کہوں کہ عبداللہ بن مسعود سے مروی ہےتو تم جان لو کہ وہ کئی لوگوں سے مروی ہے ۔(یعنی کئی لوگوں سے میں نے اس روایت کو سنا ہے) اورجب میں تم سے کسی ایک کا نام بیان کروں تو میں نے وہ روایت انہیں سے سنی ہے۔ (یہ قول صحیح سند سے ثابت ہے)

امام ابن عبدالبر ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ اس قول سے ہمارے اصحاب نے دلیل پکڑی ہے،جن کایہ ماننا ہے کہ امام ابراہیم النخعی ؒ کی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے بہتر ہے،اس لئے کہ اس روایت میں دلیل ہے کہ ابراہیم نخعی ؒکی مرسل روایات ان کی مسند روایات سے زیادہ اقوی ہیں،آگے ابن عبدالبر ؒ تائید میں کہتے ہیں کہ یقینا مراسیل ابراہیم اسی طرح ہیں۔ (التمہید لابن عبدالبر ج:۱ص: ۳۷،۳۸)

۱۶)       حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ)  ابراہیم  نخعیؒ  کے قول کی شرح میں کہتے ہیں کہ ’’ہذا یقتضی ترجیح المرسل علی المسند ‘‘ ابراہیم نخعی ؒ  کا یہ قول ان کی مرسل روایت کا ان کی مسند روایت پر ترجیح کا تقاضا کرتا ہے ۔ (شرح علل ترمذی ص: ۵۴۲)

۱۷)      امام  ابو الحسن الدارقطنی ؒ(م۳۸۵؁ھ) ’’عن ابراہیم  عن ابن مسعود ‘‘ کے دفاع میں کہتے ہیں کہ:

’’فهذه الرواية وإن كان فيها إرسال فإبراهيم النخعي هو أعلم الناس بعبد الله وبرأيه وبفتياه , قد أخذ ذلك عن أخواله علقمة , والأسود , وعبد الرحمن ابني يزيد , وغيرهم من كبراء أصحاب عبد الله , وهو القائل: " إذا قلت لكم: قال عبد الله بن مسعود فهو عن جماعة من أصحابه عنه , وإذا سمعته من رجل واحد سميته لكم ‘‘

            اس روایت میں  اگر چہ(ابراہیم کا)  ارسال ہے،لیکن  ابراہیم نخعی ؒ عبد اللہ بن مسعود ؓ  کے اجتہاد اور فتاوی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے،جو انہوں نے اپنے ماموؤں علقمہ ، اسود  بن یزید ،عبد الرحمن بن یزید وغیرہ  ابن مسعودؓ کے بڑے بڑے شاگردوں سے حاصل کیا تھا، وہ کہتے تھے کہ جب میں تم سے  کہوں کہ ابن مسعودؓ نے کہا : تو (سمجھ لو،) وہ ابن مسعودؓ کے اصحاب کی ایک جماعت سے    مروی ہے،اور  جب  میں ان کا  کوقول کسی ایک آدمی سے سنتا، تو میں اس ایک آدمی کا نام  تم لوگوں  سے ذکر کرتا ہوں۔(سنن  دارقطنی : ج۴ : ص ۲۲۶،حدیث نمبر ۳۳۶۵)

۱۸)       حافظ علاء الدین مغلطائیؒ(م۷۶۲؁ھ) بھی ابراہیم عن عبد اللہ  کی روایت کی صحت کو تسلیم کرتے ہے۔(شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۴۶۸)

۱۹)       امام،حافظ علی بن عثمان الماردینی ؒ(م۷۵۰؁ھ)ابراہیم  کی مرسل  روایت کو  ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ :

            ’’ وقد ذكر البيهقى في هذا الكتاب عن ابن معين ان مرسلات النخعي صحيحة الا حديثين ليس هذا منهما وقد بسطنا الكلام على صحة مرسل النخعي في باب المبتوتة ‘‘

            اور  امام  بیہقی ؒ(م۴۵۸؁ھ)  نے اسی کتاب میں  ابن معین ؒ سے روایت ذکر کی ہے کہ ابراہیم  کی مرسلات صحیح ہیں سوائے ۲ حدیثوں کے،یہ مرسل  روایت ان میں سے نہیں ہے،اور ہم نے ابراہیم نخعی کی مراسیل کی صحت  پر تفصیلی کلام   باب المبتوتة میں کیا ہے۔ (الجور النقی : ج۷: ص ۳۷۹)[3]

۲۰)      حافظ ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں کہ :

’’ فإن قيل: فهل عرف أحد غير ابن المسيب كان لا يرسل إلا عن ثقة.

قلنا: نعم، فقد صحح الإمام أحمد مراسيل إبراهيم النخعي لكن خصه غيره بحديثه عن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - كما تقدم ‘‘

پھر اگر کہا جائے کہ ابن مسیب ؒ کے علاوہ  کیا کوئی ہے جو صرف ثقہ سے ارسال کرتا ہے؟

تو ہم  کہتے ہیں کہ ہاں ! امام احمد بن حنبل ؒ نے ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو صحیح قرار دہا ہے،لیکن دوسرے لوگوں نے اس کو ابن مسعود ؓ کے حدیث کے ساتھ خاص  کیا ہیں،جیسا کہ گزرچکا۔(النکت لابن حجر : ج۲: ص ۵۵)

۲۱)       محدث عینیؒ(م۸۵۵؁ھ) نے بھی  ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت کی صحت کو تسلیم کیا اور اس کو متصل کی روایت سے اولی اور اقوی قرار دیا ہے۔(نخب الافکار : ج۴: ص ۱۸۴)

۲۲)      امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ)  بھی فرماتے ہیں کہ:

 ’’ أما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا ‘‘

ابراہیم نخعی ؒ  جب صحابہ میں سےابن مسعود ؓ سے روایت کریں ،تو انہوں نے خود صراحت کیا ہے ،کہ اس روایت  میں ان کے شیوخ ثقہ ہیں،اور جب  وہ ابن مسعود ؓ کے علاوہ سے روایت کریں ،تو وہاں پر کوئی  امام صاحب نے صراحت نہیں  کی۔(النکت : ج۲ : ص ۵۵۷، جامع التحصیل  للعلائی : ص۱۴۱،صحیح ابی داود  للالبانی : ج۶: ص ۳۰۱)

۲۳)      حافظ صلاح الدین العلائیؒ(م۷۶۱؁ھ) نے کہا : کہ ’’ جماعة من الأئمة صححوا مراسيله كما تقدم وخص البيهقيي ذلك بما أرسله عن ابن مسعود ‘‘۔(جامع التحصیل  للعلائی :ص۱۴۱)

۲۴)      حافظ ولی الدین ،ابن العراقی ؒ(م۸۲۶؁ھ) ۔(تحفۃ التحصیل : ص۲۰،انوار الطریق : ص ۸)

۲۵)      امام ،حافظ، امیر المومنین فی الحدیث،علی بن المدینیؒ(م۲۳۴؁ھ) کے نزدیک بھی ابراہیم  نخعی ؒ کی مراسیل علی الاطلاق  مقبول ہے۔[4]

۲۶)       حافظ ابن القیمؒ(م۷۵۱؁ھ)نےبھی ابراہیم نخعی عن ابن مسعود ؓکی ایک مرسل روایت پر ابن حزم ؒ کے اعتراض کا بہترین جواب دیا ہے اور ثابت کیاہے کہ ابراہیم نخعی عن ابن مسعود کی روایت مقبول ہے۔

ان کے الفاظ یہ ہیں :

            ابراہیم لم یسمع من عبداللہ ،ولکن الواسطۃ بینہ وبین اصحاب عبداللہ کعلقمہ ونحوہ،وقد قال ابراہیم : اذا قلت قال عبداللہ فقد حدثنی بہ غیر واحد عنہ واذا قلت :قال فلان عنہ فہو عمن سمیت اوکما قال ،ومن المعلوم ان بین ابراہیم وعبداللہ ائمۃ ثقات لم یسم قط منہما ولا مجروحا ولا مجہولا فشیوخہ الذین أخذ عنہم عن عبداللہ أئمۃ أجلاء  نبلاء  وکانوا کما قیل : سرج الکوفۃ وکل من لہ ذوق فی الحدیث اذا قال ابراہیم :قال عبداللہ لم یتوقف فی ثبوتہ عنہ ،وان کان غیرہ ممن فی طبقتہ لوقال :قال عبداللہ لا یحصل لنا الثبت بقولہ ،فابراہیم عن عبداللہ نظیر ابن المسیب عن عمر ونظیر مالک عن ابن عمر ،فان الوسائط بین ہؤلاء وبین الصحابۃ رضی اللہ عنہم اذا سموہم وجدوا من اجل الناس وأوثقہم وأصدقہم ،ولا یسمون سواہم البتۃ ،ودع ابن مسعود فی ہذہ المسألۃ ۔ (زاد المعاد ج:۵ص: ۵۸۰)[5]

۲۷)      امام ابوداؤد ؒنے بھی ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو ابو اسحق سبیعی کی مراسیل پر ترجیح دی ہے ۔

(اکمال تہذیب الکمال للمغلطائی ج: ۱ص: ۳۲۰)

اسی طرح درج ذیل سلفی ، غیر سلفی  و عرب علماء  کے نزدیک ’’ابرہیم عن ابن مسعود‘‘کی سند مقبول وصحیح  ہے:

۲۸)      شیخ ابو عبد الرحمٰن مقبل بن ہادی ؒ۔(بشائر الفرح بتقریب   فوائد  الامام الوداعی:ص ۱۲۹)

۲۹)      شیخ سعد بن عبد اللہ بن عبد العزیز آل حمید۔

(التفسیر من سنن سعید بن منصور : ج۳: ص ۱۲۱۸،ت سعد بن عبداللہ)

۳۰)      شیخ امام بن علی بن امام۔(مسند الفاروق : ج۱: ص ۱۲۱،ت امام بن علی)

۳۱)       شیخ جمال بن محمد السید۔(ابن قیم و جہودہ فی خدمۃ السنۃ : ج۳: ص ۲۲۵)

۳۲)      شیخ یوسف بن ماجد المقدسی الحنبلی۔(المقرر علی ابواب المحرر : ج۲ : ص ۲۶۷)

۳۳)      شیخ ناصر بن محمد  بن عبد العزیز العبد اللہ۔(المطالب العالیۃ : ج۳: ص ۶۱۶،ت  ناصر بن محمد)

۳۴)      شیخ محمد بن ظافر بن عبد اللہ الشہری۔(المطالب العالیۃ : ج۱۵: ص ۲۹۷،ت  محمد بن ظافر)

۳۵)      شیخ عادل مرشد۔

۳۶)      شیخ شعیب الارنووطؒ۔(سنن ابو داود : ج۷: ص ۵۳۷،ت  الارنووط،مسند احمد: ت الارنووط،عادل)

۳۷)     غیر مقلدشیخ  غلام محمد بن زکریا  پاکستانی ۔(ما صح من آثار الصحابۃ فی الفقہ : ج۱ : ص ۹۴)

۳۸)      شیخ عبد القادر الارنووطؒ۔(جامع الاصول : ج۱ : ص ۱۱۷،ت عبد القادر الارنووط)

۳۹)      شیخ بشار العواد معروف۔(تہذیب الکمال : ج۲: ص ۲۳۹،ت  بشار)

۴۰)      شیخ  محمد عمرو عبد اللطیف۔(تبییض الصحیفۃ باصول الاحادیث الضعیفۃ : ج۱: ص ۹۲)

۴۱)       شیخ ابو المنذر محمود بن محمد المنیاوی۔(شرح الموفظۃ للذہبی: ص ۱۲۶)

۴۲)      شیخ ابراہیم بن عبد اللہ بن عبد الرحمٰن المدیہش۔(تخریج احادیث حیاۃ الحیوان للدمیری : ص۱۰۰۱)

۴۳)      شیخ خالد بن ضیف اللہ الشلاحی ۔(التبیان فی  تخریج احادیث  بلوغ المرام : ج۷: ص ۵۱۸)

۴۴)      شیخ محمد بن رزق  بن  طرھونی۔(موسوعہ فضائل سور و آیات القران-قسم الصحیح: ج۲ : ص ۴۷۱)

۴۵)      شیخ عبد العزیز بن مرزوق الطریفی۔

( التحجيل في تخريج ما لم يخرج من الأحاديث والآثار في إرواء الغليل : ص۲۷۸)

۴۶)      شیخ ناصر الدین الالبانیؒ۔[6]

خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ جرح و تعدیل ،محدثین اور علماء کے نزدیک امام ابراہیم النخعی عن عبد اللہ  کی مرسل روایات صحیح اورحجت ہیں ،لہذا ان کی مراسیل کا انکار کرنا باطل ومردود ہے


[1] حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) کہتے ہیں کہ :

فإن قيل: فهل عرف أحد غير ابن المسيب كان لا يرسل إلا عن ثقة.

قلنا: نعم، فقد صحح الإمام أحمد مراسيل إبراهيم النخعي لكن خصه غيره بحديثه عن ابن مسعود - رضي الله تعالى عنه - كما تقدم.

وأما مراسيله عن غيره، فقال يحيى القطان: "كان شعبة يضعف مرسل إبراهيم النخعي عن علي - رضي الله تعالى عنه -".

وقال يحيى بن معين: "مراسيل إبراهيم النخعي صحيحة إلا حديث تاجر البحرين وحديث القهقهة"

قلت: وحديث القهقهة مشهور رواه الدارقطني وغيره من طريقه. وقد أطنب البيهقي في الخلافيات في ذكر طرقه وعلله۔

وأما حديث تاجر البحرين، فأشار به إلى ما رواه أبو بكر بن أبي شيبة في "مصنفه" عن وكيع عن الأعمش، عن إبراهيم النخعي قال: "إن رجلا قال يا رسول الله! إني رجل تاجر أختلف إلى البحرين فأمره أن يصلى ركعتين".

وقال البيهقي: "من المعلوم أن إبراهيم ما سمع من أحد من الصحابة، فإذا حدث عن النبي - صلى الله عليه وسلم - يكون بينه وبينه اثنان أو أكثر فيتوقف في قبوله من هذه الحيثية، وأما إذا حدث عن الصحابة، فإن كان ابن مسعود- رضي الله تعالى عنه - فقد صرح هو بثقة شيوخه عنه وأما عن غيره فلا - والله أعلم -"۔(النکت لابن حجر : ج۲ : ص ۵۵۶-۵۵۷)

حافظ ؒکی اس عبارت میں ۳ باتیں قابل غور ہے۔

(۱)         ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  صرف  عبد اللہ بن مسعودؓ  کی روایت  میں ثقہ سے روایت کرتے ہیں،دوسروں میں  نہیں ۔

(۲)         ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    تصحیح میں امام احمدؒ  منفرد ہیں۔

(۲)         ابراہیم نخعی عن علی کی روایت ضعیف  ہے۔

پہلی شق کا جواب :

              امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)،امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،حافظ المغرب ابن عبد البرؒ(م۴۶۳؁ھ)،امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴؁ھ)، اور حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ) وغیرہ نے  صراحت کی کہ امام ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  مطلقاً  ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

               لہذا ارسال عن  عبد اللہ  کے سلسلہ میں ابراہیم نخعی کے قول کے ساتھ ساتھ ،  دیگر ائمہ جرح و تعدیل  کے اقوال پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ابراہیم نخعیؒ  (م۹۶؁ھ)  مطلقاً  ثقہ سے روایت کرتے تھے۔

لہذا اسے صرف عن عبد اللہ  کے ساتھ خاص کرنا غیر صحیح ہے۔

دوسری شق کا جواب :

              امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱؁ھ) کے ساتھ ساتھ ،امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) ،امام یحیی بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)امام ا بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)، حافظ المغرب  ؒ (م۴۶۳؁ھ)، امام ،محدث،حافظ ابوالولید الباجی ؒ(م۴۷۴؁ھ)،حافظ عبد الحق الاشبیلی ؒ(م۵۸۱؁ھ)،حافظ ابن تیمیہ ؒ (م۷۲۸؁ھ)حافظ ابو الفتح بن سید الناس ؒ(م۷۳۴؁ھ)حافظ ذہبی ؒ (م۷۴۸؁ھ) وغیرہ  ائمہ نے ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    تصحیح  کی ہے ۔

              لہذا معلوم ہوا کہ  ابراہیم ؒ کی مراسیل   کی علی الاطلاق    جید،صحیح اور حجت ہیں۔ الحمد للہ

نوٹ نمبر۱:

              امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) اور امام علی بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)  کا حوالہ  آگے آرہا ہے۔

نوٹ نمبر۲  :

              امام یحیی بن معین ؒ نے حدیث تاجر البحرین اور حدیث الضحک فی الصلا ۃ کے علاوہ علی الاطلاق   ابراہیم ؒ کی تمام مراسیل کی  تصحیح فرمائی ہے،لہذا ان کا  قول بھی   امام احمد ؒ کی تائید میں ہے ۔

اور ابراہیم نخعیؒ  نے حدیث الضحک فی الصلا ۃ  کوبطریق  ابو ہشام، ابو العالیہ ؒ سے ارسال کیا ہے۔(الخلافیات للبیہقی : ج۱ : ص ۴۰۸) اور ہم ثابت کرچکے ہے کہ یہ حدیث ابو العالیہ کی طریق سے رسول اللہ ﷺ تک متصل ثابت ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔ (مجلہ الاجماع : ش۶: ص ۶،سنن الداقطنی : ج۱ : ص ۳۱۱)

اس لحاظ سے صرف  حدیث تاجر البحرین ہی باقی رہتی ہے۔ واللہ اعلم

تیسری شق کا جواب :

              اگر چہ شعبہؒ (م۱۶۰؁ھ)نے ابراہیم عن علی کی روایت کو ضعیف کہا،لیکن آگے  خود ناقل امام یحیی بن سعید القطان ؒ (م۱۹۸؁ھ) امام شعبہؒ(م۱۶۰؁ھ)  کا رد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ  ’’ إبراهيم عن علي أحب إلي من مجاهد عن علي ‘‘  ابراہیم نخعی عن علی کی روایت مجھے مجاہد عن علی کی روایت  سے زیادہ محموب ہے ۔(الکفایۃ : ص ۳۸۷)،

مجاہد عن علی  کی سند کا حال :

              مجاہد بن جبرؒ (م۱۰۴؁ھ) کا  حضرت علی ؓ  سے سماع کے سلسلہ میں محدثین کا اختلاف ہے،ائمہ عظام   کی ایک جماعت مثلاً امام بخاریؒ(م۲۵۶؁ھ)،امام ابو احمد الحاکم الکبیرؒ(م۳۷۸؁ھ)،حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ)،امام ابو عبد اللہ یاقوت الحموی ؒ(م۶۲۶؁ھ)،حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) وغیرہ کے نزدیک مجاہد بن جبر ؒ کا سماع  حضرت علی ؓ سے ثابت ہے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری : ج۷: ص ۴۱۱،طبع حیدرآباد، الاسماء و الکنی للحاکم الکبیر : ج۴ : ص ۸۸، الاحادیث المختارۃ للمقدسی : ج۲: ص ۳۳۹،ارشاد الاریب للحموی : ج۵ : ص ۲۲۷۲، اتحاف المھرۃ لابن حجر : ج۱۸ : ص ۱۶۰،تہذیب التہذیب : ج۱۰: ص ۴۲)،

اور مجاہد ؒ (م۱۰۴؁ھ) کی پیدائش (۲۱؁ھ) ہوئی،اس لحاظ سے حضرت علی ؓ (م۴۰؁ھ) سے سماع بھی ممکن تھا اور  ایک روایت میں مجاہد ؒ نے حضرت علی ؓ سے سماع کی تصریح  بھی کردی،جس کو مجاہدؒ  سے ان کے ۳،۳ شاگرد،ثقہ،حجۃ،امام ایوب   سختیانیؒ (م۱۳۱؁ھ)،ثقہ،ثبت، حافظ الحدیث وھیب بن خالد ؒ(م۱۶۵؁ھ) اور ثقہ راوی موسی الطحان ؒ وغیرہ  نے بیان کیا ہے۔ (الاعلام للزرکلی : ج۵: ص ۲۷۸،حلیۃ الاولیاء  لابی نعیم : ج۱ : ص ۷۰، الاحادیث المختارۃ للمقدسی : ج۲: ص۳۳۶-۳۳۷)

’’مجاہد عن علی‘‘   کی بارے میں امام یحیی بن سعید القطان ؒ کی  رائے :

-            امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ أما مجاهد عن علي فليس بها بأس؛ إنه قد أسند عن ابن أبي ليلى، عن علي ‘‘ جہاں تک مجاہد عن علی کی سند کی بات ہے،تو ان میں کوئی  حرج  نہیں ہے۔اس لئے  کہ مجاہد ؒ اس کو  ابن ابی لیلیٰ عن علی سےمسند بیان کرتے ہیں۔(تاریخ ابن ابی خیثمہ: ج۱: ص ۲۰۲)

              لہذا جب مجاہد عن علی کی سند میں کوئی حرج نہیں،تو  ابراہیم عن علی کی سند  امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کے نزدیک اصح اور ثبت  ہوگی،یہی وجہ ہے کہ ہم نے اوپر  کہا کہ امام یحیی  القطان ؒ (م۱۹۸؁ھ) نے  امام شعبہؒ(م۱۶۰؁ھ) کا  رد کیا ہے۔

امام یحیی بن سعید القطان ؒکی نظر میں ابراہیم نخعیؒ(م۹۶؁ھ) کی  دیگر مراسیل  کا مقام  :

              امام الجرح والتعدیل یحیی بن سعید القطان ؒ ۱۹۸؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

              ’’ان مراسیل ابراہیم عن ابن مسعود وعمر صحاح کلہا وما ارسل منہا أقوی من الذی أسند ‘‘

یقیناابراہیم نخعی ؒ کی ابن مسعود ؓ اور عمر ؓ سے تمام کی تمام مرسل روایات صحیح ہیں اور ان کی مرسل حدیث مسند حدیث سے زیادہ قوی ہے ۔(التمہید لابن عبدالبر ج:۱۵ص: ۹۴)

اسکین :

              معلوم ہوا کہ امام یحیی بن سعید القطان ؒ(م۱۹۸؁ھ) کے نزدیک ابراہیم نخعیؒ کی تمام مراسیل مطلقاً مقبول اور مضبوط ہیں۔

-            امام احمدبن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)  سے  بھی پوچھا گیا کہ  ’’ أيما أحب إليك: إبراهيم عن عليّ، أو مجاهد عن عليّ ‘‘  آپؒ کے نزدیک  کون سی روایت  زیادہ محموب ہے،ابراہیم عن علی یا مجاہد عن علی ،تو امام احمدؒ  جواب میں کہتے ہیں کہ ’’إبراهيم عن عليّ؛ لأن هذا كان مقيمًا ‘‘ ابراہیم عن علی ، اس لئے کہ یہ (ابراہیم ) (کوفہ ہی میں ) مقیم تھے۔(الجامع لعلوم الإمام أحمد - علوم الحديث: ج۱۵: ص ۴۱۹)

              معلوم ہوا کہ ائمہ کے نزدیک  ابراہیم عن علی کی مرسل  روایت بھی درست ،صحیح ومضبوط ہے،اور یہی راجح ہے ۔  واللہ اعلم

[2]  حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) نے بھی اس قول  کی سند کو صحیح کہا ہے۔(النکت لابن حجر : ج۲: ص۵۵۵)

[3] اس سے معلوم ہوا کہ امام،حافظ علی بن عثمان الماردینی ؒ(م۷۵۰؁ھ) کے نزدیک ابراہیم نخعی  کی مراسیل علی الاطلاق  صحیح ہے۔

[4] حافظ صلاح الدین علائیؒ(م۷۶۱؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

’’من عرف عادته أنه لا يرسل إلا عن ثقة فيقبل مرسله۔۔۔۔۔ وهذا اختيار جماعة كثيرين من أئمة الجرح والتعديل كيحيى بن سعيد القطان وعلي بن المديني وغيرهما‘‘

                        جو راوی  عادتاً عام طور سے  صرف ثقہ سے  روایت کرتا ہے، تو اس کی مرسل قبول کی جائےگی،یہ  جمہور ائمہ جرح و تعدیل مثلاً  یحیی بن سعید القطانؒ ،علی بن المدینی ؒ  وغیرہ  کا قول ہیں۔(جامع التحصیل : ص ۳۷)

              اور ابراہیم نخعیؒ اپنے نزدیک صرف ثقہ سے روایت کرتے تھے،جیسا کہ  تفصیل ص:۶  پر موجود  ہے۔

  معلوم ہوا کہ  ابن المدینی ؒ کے مذہب کے مطابق بھی ابراہیم  نخعی ؒ کی مراسیل علی الاطلاق  مقبول ہے۔

[5] ابن قیم ؒ کی عبارت میں امام بیہقی  ؒ کے اعتراض ’’ابراہیم النخعی وان کان ثقۃ فانا نجدہ یروی عن قوم مجہولین لا یروی عنہم غیرہ مثل ہنی بن نویرۃ وحزافۃ الطائی وفرثع الضبی ویزید بن اویس وغیرہم ‘‘ کا بھی جواب آچکا ہے،لہذا امام بیہقی ؒ  کااعتراض صحیح نہیں ہے ۔

نیز خود محدثین(جن میں امام شافعی ؒ بھی شامل ہیں انہوں) نے بھی واضح کیا ہےکہ امام ابراہیم النخعی ؒ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں،جس کی تفصیل گزر چکی،لہذا یہ کہنا کہ امام ابراہیم نخعی ؒ مجہولین سے روایت کرتے ہیں صحیح نہیں ہے ۔ نیز دیکھئے ص :۴۳ ۔

[6] قال شیخ المعلّمی ؒ :  

أقول:وليس هذا الخبر من تلك الأربعة.

وروى الثوري عن «حماد بن أبي سليمان عن إبراهيم قال: قال عبد الله: لا تقطع اليد إلا في ترس أو حجفة. قلت لإبراهيم: كم قيمته؟ قال: دينار» .والثوري يدلس، وحماد سيئ الحفظ، حتى قال حبيب بن أبي ثابت: «وكان حماد يقول: قال إبراهيم: ط فقلت والله إنك لتكذب أو إن إبراهيم ليخطئ» . وقد قال حماد نفسه لما قيل له: قد سمعت من إبراهيم؟ : «إن العهد قد طال بإبراهيم» . وإبراهيم عن عبد الله منقطع، وما روي عنه (1) أنه قال: إذا قلت: قال عبد الله، فهو عن غير واحد عن عبد الله. لا يدفع الانقطاع لاحتمال أن يسمع إبراهيم عن غير واحد ممن لم يلق عبد الله، أو ممن لقيه وليس بثقة، (2) واحتمال أن يغفل إبراهيم عن قاعدته،

(۱)     قال شیخ الالبانیؒ : قلت: تصدير المصنف رحمه الله لقول إبراهيم المذكور بقوله: «روي» مما يشعر إصطلاحاً - بأنه لم يثبت عنده، ولعل عذره في ذلك أنه لم يقف على إسناده، وإلا لجزم بصحته، فقد أخرجه ابن سعد في «الطبقات» (6 / 190) : أخبرنا عمروا بن الهيثم أبوقطن قال: حدثنا شعبة عن الأعمش قال: قلت: لإبراهيم: إذا حدثتني عن عبد الله فأسند، قال: إذا قلت: قال عبد الله، فقد سمعته من غير واحد من أصحابه، وإذا قلت: حدثني فلان، فحدثني فلان» . وهذا إسناد صحيح رجال ثقات، وقد أخرجه أبو زرعة الدمشقي في «تاريخ دمشق» (ق 131 / 2) : حدثنا أحمد بن سيبويه قال: حدثنا عمرو بن الهيثم به، إلا أنه قال: «فحدثني وحده» .

أقول:وإذا تأمل الباحث في قول إبراهيم «من غير واحد من أصحابہ» يتبين له ضعف بعض الإحتمالات التي أوردها المصنف على ثبوت رواية إبراهيم إذا قال: قال ابن مسعود، فأن قوله: «من أصحابه» يبطل قول المصنف «أن يسمع إبراهيم من غير واحد ممن لم يلق عبد الله» ، كما هو ظاهر. وعذره في ذلك، أنه نقل قول إبراهيم هذا من «التهذيب» ، ولم يقع فيه قوله: «من أصحابه» الذي هو نص في الاتصال. ن.

(۲)     قال شیخ الالبانیؒ : قلت: هذا فيه بعد. فأننا لا نعلم في أصحاب ابن مسعود المعروفين من ليس بثقة، ثم أن عبارته المتقدمة منا آنفاً صريحة في أنه لا يسقط الواسطة بينه وبين ابن مسعود إلا الذي كان حدثه عنه أكثر من واحد من أصحابه. فكون الأكثر منهم - لا الواحد - غير ثقة بعيد جداً. لا سيما وإبراهيم إنما يروي كذلك مشيراً إلى صحة الرواية عن ابن مسعود. والله أعلم.(التنکیل للمعلمی مع تعلیقات الالبانی : ج۲ : ص ۸۹۸)

قال شیخ الالبانیؒ : وإسناده صحيح؛ لأن مراسيل إبراهيم- وهو ابن يزيد النَّخَعِيّ- عن ابن مسعود صحيحة؛ كما قال البيهقي۔(صحیح ابی داود : ج۶: ص ۳۰۱)

قال شیخ الالبانیؒ :  قلت: وإسناده حسن ورجاله كلهم ثقات رجال مسلم، غير شيخ الطبراني وهو علي بن عبد العزيز - وهو البغوي - ثقة حافظ، وإبراهيم هو ابن يزيد النخعي. وقد يقول قائل : إنه مرسل منقطع بين إبراهيم وابن مسعود فكيف تحسن إسناده؟ فأقول: نعم، ولكن جماعة من الأئمة صححوا مراسيله، وخص البيهقي ذلك بما أرسله عن ابن مسعود كما نقله في " التهذيب ". وقول البيهقي هو الصواب، لقول الأعمش: قلت لإبراهيم: أسند لي عن ابن مسعود، فقال إبراهيم: إذا حدثتكم عن رجل عن عبد الله فهو الذي سمعت، وإذا قلت: قال عبد الله، فهو عن غير واحد عن عبد الله. فهذا صريح في أن ما أرسله عن ابن مسعود يكون بينه وبين ابن مسعود أكثر من واحد، وهم وإن كانوا مجهولين، فجهالتهم مغتفرة، لأنهم جمع من جهة ومن التابعين - بل وربما من كبارهم - من جهة أخرى، وهذه فائدة أخرى سبق أن ذكرتها في موضع آخر، لا يحضرني الآن۔ (الصحیحۃ : ج۵ : ص ۳۱۷)



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...