نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حسن بصری ؒ کی مراسیل پر بحث ۔

 

       حسن بصری ؒ کی مراسیل پر بحث ۔

(اثری صاحب کے اعتراض کا جواب)

            اثری صاحب نے  امام احمد،ابن سعد اور دارقطنی  رحم اللہ علیہم وغیرہ ائمہ کے اقوال ذکر کئے ہے کہ حسن  بصری ؒ کی مراسیل ضعیف ہیں، لیکن تحقیق کی روشنی میں یہ بات صحیح نہیں ہے،کیونکہ:

(۱)       ہمارے علم کے مطابق ان  ائمہ  کے قول کی بنیاد  درصل  ابن سیرین ؒ کا  قول ہےکہ حسن بصریؒ  ہر ایک سے روایت لیتے تھے،اور امام احمد ؒ کے قول میں اس کی صراحت بھی ہے،نیز امام  احمد ؒ ،امام دارقطنی ؒ نے ابن سیرین ؒ کا یہ قول اپنی کتابوں میں نقل بھی کیا ہے۔(علل احمد بروایت عبد اللہ : رقم ۹۸۹،سنن دارقطنی : ج۱: ص ۱۷۰)

            لیکن جس طرح  ابو العالیہ ؒ(م۹۳؁ھ) کے حق  میں ابن سیرینؒ کا  یہ قول صحیح نہیں تھا۔( جس کی تفصیل آنے والے شماروں میں آئےگی؎) بالکل اسی طرح  حسن بصری ؒ کے بارے میں بھی ان کا  یہ کہنا غیر صحیح ہے۔

کیونکہ حسن بصری ؒ کے  اکثر شیوخ   ثقہ ہیں اور تہذیب الکمال میں امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) نے حسن بصری ؒ کے جتنے شیوخ ذکر کئے ہے،وہ تمام کے تمام ثقہ ہیں[1] ، ان میں کوئی شیخ بھی ضعیف نہیں ہے۔

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حسن بصری ؒ  عام طور سے ثقہ سے روایت کرتے تھے،غالباً یہی وجہ ہے کہ  امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) کے نزدیک امام حسن بصری ؒ (م۱۱۰ ؁ھ) صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔(الاجماع : ش۶ : ص۱۹ )

            لہذا حسن بصری ؒ کے بارے میں ہر ایک سے روایت لینے کی بات صحیح نہیں ہے۔

(۲)       خود حسن بصری ؒ (م۱۱۰؁ھ) سے بھی  ان کی مراسیل کی تصحیح وارد ہوئی ہے،چنانچہ امام بخاری ؒ (۲۵۶؁ھ) کہتے ہیں کہ :

قال الهيثم بن عبيد: حدثني أبي، عن الحسن، قال: قال رجل: إنك تحدثنا قال النبي صلى الله عليه وسلم، فلو كنت تسند لنا، قال: والله ما كذبناك، ولا كذبنا، لقد غزوت إلى خراسان، معنا فيها ثلاث مئة من أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم.

            ایک آدمی نے حسن بصری ؒ سے کہا کہ  آپؒ حضورﷺسے مرسلاً  روایت بیان کرتے ہیں مناسب ہوتا کہ آپؒ  ہم سے سند بیان کرتے،تو  حسن بصری ؒ نے کہا : اللہ کی قسم ،نہ ہم سے جھوٹ کہا گیا اور نہ ہم جھوٹ کہتے ہیں ،یقیناً میں خراسان غزوہ میں تھا، جس میں ہمارے ساتھ۳۰۰ ؍اصحاب رسول ﷺتھے۔(تاریخ کبیر للبخاری : ج۵: ص ۴۵۲)[2]

            اس روایت میں خود  حسن بصری ؒ نےمراسیل کی تصحیح کی اور کہا کہ وہ صحابہ ؓ سے مروی ہے،حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ وهذا يدل على أن مراسيل الحسن، أو أكثرها عن الصحابة ‘‘ یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ مراسیل حسن  یا اکثر   حسن بصری ؒ کے مراسیل صحابہ ؓ سے مروی ہے۔(شرح علل ترمذی : ج۱: ص ۵۳۸)،  اسی طرح ایک اور  روایت میں ہے کہ  :

            قا ل البخاری حدثني عبدة، قال: حدثنا عبد الصمد، قال: حدثنا مبارك؛ شهدت الحسن، وقال له إبراهيم بن إسماعيل، الكوفي: نحب أن تسند لنا، قال: سل، قال: حديثك في قيام الساعة؟ قال: حدثني به ثلاثة، حدثني جابر بن عبد الله، وحدثنيه أنس بن مالك، وحدثنيه عبد الله بن قدامة العنبري، وكان امرئ صدق، عن الأسود بن سريع، فما سألوه يومئذ، عن شيء إلا أسند، فخرجوا، وقالوا: كنا نخدع عن هذا الشيخ۔

            اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ مبارک بن فضالہ ؒ کہتے ہیں کہ ابراہیم بن اسماعیل الکوفی ؒ نے حسن بصری ؒ  سے عرض کیا کہ : ہماری خواہش ہے کہ آپ ہم سے مسنداً (حدیث ) بیان فرمائیں ، آپ نے فرمایا : (ٹھیک ہے ) پوچھو، مبارک بن فضالہ نے کہا :  قیام الساعۃ کے بارے میں آپ کی حدیث ؟ تو حسن بصری ؒ کہتے ہیں کہ  اس حدیث کو مجھ سے ۳ لوگوں نے بیان کی ہے:

(۱)       انس بن مالکؓ

(۲)       جابر بن عبد اللہؓ

(۳)      عبد اللہ بن قدامہ العنبریؒ  عن الاسود بن سریع   ؓ

            اور حسن بصری ؒ     عبد اللہ بن قدامہ العنبری ؒ کو  صدوق  آدمی کہتے   ہیں،آگے راوی کہتے ہیں کہ :

’’ فما سألوه يومئذ عن شيء إلا أسند، فخرجوا، وقالوا: كنا نخدع عن هذا الشيخ ‘‘

تو اس روز آپ سے جس حدیث کے بارے میں پوچھا گیا آپ نے اس کی سند بیان فرمائی ، پھر جب وہ نکلے تو کہنے لگے : ہم اس شیخ سے دھوکہ میں رہے۔(تاریخ کبیر للبخاری : ج۱: ص ۳۱۴)[3]

            اس روایت سے بھی معلوم ہو تا ہے کہ حسن بصری ؒ کی مراسیل  عام طور سے صحابہ ؓ سے مروی ہے،لہذا  مراسیل حسن صحیح اور ثابت ہیں۔

۳)        پھر  امام یحیی بن سعید قطانؒ(م۱۹۸؁ھ)،امام یحیی بن معین ؒ(م۲۳۳؁ھ)، امام علی بن المدینی ؒ (م۲۳۴؁ھ)،ابو زرعہ الرازی ؒ (م۲۶۱؁ھ) وغیرہ ائمہ نے   حسن بصری ؒ کی مراسیل کی تصحیح فرمائی ہے،بلکہ امام یحیی بن سعید قطانؒ(م۱۹۸؁ھ)  کا قول مفسر ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہر وہ حدیث جس میں حسن بصری ؒ نے مرسلاً کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مگر ہم نے ان کی مرسل حدیث کی اصل پالی سوائے۱یا  ۲ حدیثوں کے،تقریباً یہی بات امام ابو زرعہ ؒ(م۲۶۱؁ھ)نے بھی کہی ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔(دیکھئے،ص:۲۹)

             امام حسن  بصری ؒ کے شاگرد ثقہ،ثبت امام یونس بن عبیدؒ(م۱۳۹؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’رحم الله الحسن ما قال شيئا، وإلا وجدت له أصلا ‘‘ اللہ حسن بصری ؒ  پر رحم کریں،ہر وہ چیز جو انہوں نے کہی،میں نے اس کی اصل پائی ہے۔

(شرح مشکل الآثار : ج۱۲: ص ۱۰۴)،[4]

            حافظ عبد الغنی بن سعید مصریؒ(م۴۰۹؁ھ) اپنی کتاب ’’آداب المحدث والمحدث‘‘ میں نصر بن مرزوقؒ اور سلمہ بن مکتل ؒ  کی سند سے خصیب بن ناصح ؒ (م۲۰۸؁ھ) [صدوق راوی] کا قول نقل کیا ہے کہ :

            كان الحسن إذا حدثه رجل واحد عن النبي صلى الله عليه وسلم بحديث ذكره. فإذا حدثه أربعة بحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم ألقاهم، وقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم۔

            جب حسن بصریؒ سے کوئی ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی حدیث بیان کرتا ، تو وہ اس ایک آدمی کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی حدیث  بیان کرتے،اور جب ان سے ۴،۴ آدمی  رسول اللہ ﷺ  کی کوئی حدیث بیان کرتے، تو حسن بصریؒ انکے نام حذف کرکے،مرسلاً کہتے  کہ  رسول اللہ ﷺنے کہا۔(شرح علل ترمذی :ج۱:ص۵۳۶،۵۰۲)

            امام احمد بن حنبلؒ نے بھی مراسیل حسن کی تصحیح کی ہے،چنانچہ ابو طالب  احمد بن حمید ؒ(م۲۴۴؁ھ) کی روایت میں امام احمد ؒ سے ایک آدمی نے سوال کیا کہ :

            ما قال الحسن، قال رسول اللَّه -صلى اللَّه عليه وسلم-، وجدناه من حديث أبي هريرة وعائشة وسَمُرة، قال: صدق۔

            حسن بصری ؒ نے جب جب بھی حضورﷺسے مرسلاً روایت بیان کی،ہم نے اس کو حضرت ابو ہریرہؓ،عائشہؓ اور سمرہؓ سے مروی پایا،اس پر امام احمد ؒ نے کہا کہ  سچ ہے۔

            اسی طرح مہنا بن یحیی،ابو عبد اللہ الشامیؒ کی روایت میں  امام  احمد ؒ سے سوال کیا گیا کہ :

’’ هل شيء يجيء عن الحسن؟ قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؟ قال: هو صحيح، ما نكاد نجدها إلا صحيحة ‘‘

کیا حسن بصری مرسلاً  عن النبیﷺکی سند سے کوئی  قابل مذمت روایت آئی ہے ؟، تو امام احمد ؒ نے جواب دیا :  وہ سند صحیح ہے،اور کہا کہ  ہم اسے صحیح ہی پاتے ہیں ۔(العدة في أصول الففہ لابن الفراء : ج۳: ص ۹۲۴)

اور اثری صاحب کی  پیش کردہ  امام احمد ؒ کی روایت کے بارے میں حنبلی مسلک کے مشہور امام،فقیہ محمد بن مفلح المقدسی ؒ(م۷۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ شاید امام احمد ؒ نے اپنے قول سے حسن بصری ؒ کی کوئی  خاص مرسل روایت مراد لی ہو۔ (الفروع لابن مفلح : ۳: ص ۲۲۷)

اسی طرح امیرالمومنین فی الحدیث عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱؁ھ) نے حسن بصریؒ کی ایک مرسل روایت کو جید کہا ۔(المرض والکفارات لابن ابی الدنیا : ص۳۹) اور امام ابو نعیم الاصبہانیؒ(م۴۳۰؁ھ) کے نزدیک بھی مراسیل حسن بصری مقبول ہیں۔(حلیۃ الاولیاء : ج۶: ص ۱۶۵)

            اس لحاظ سے مراسیل حسن بصری کےمصححین کو ترجیح حاصل ہوگی،کیونکہ ان کا کلام مفسر  بھی ہے اور تحقیقی بھی ۔ واللہ اعلم[5]

          خلاصہ یہ کہ حسن بصری کی مراسیل بھی راجح قول میں مقبول اور صحیح  ہیں۔



[1] تہذیب الکمال میں امام مزی ؒ (م۷۴۲؁ھ) نے حسن بصری ؒ کے جتنے شیوخ ذکر کئے وہ تمام کے تمام ثقہ ہیں۔(ج۶: ص ۹۵) عبد اللہ بن عثمان الثقفیؒ بھی صدوق ہیں،امام ابو داود ؒ نے ان کی روایت پر سکوت کیا اور حافظ ابن حجرؒ  ان کی روایت کو حسن اور لاباس بہ  کہتے  ہے۔ (تغلیق التعلیق : ج۴: ص ۴۲۲،الاصابہ : ج۴: ص ۲۲) اور کسی حدیث کی تصحیح و تحسین  اس حدیث کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہےجیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے،(مجلہ الاجماع:ش۴: ص ۲ )،   لہذا وہ بھی صدوق ہیں،البتہ صرف ایک  شیخ یزید بن ابان الرقاشیؒ     (م قبل ۱۲۰؁ھ) پر کلام ہے، بعض نے توثیق کی اور بعض نے جرح ،لیکن حافظ ابن عدیؒ نے کہا کہ جب ان سے بصری اور کوفی  کے  ثقہ لوگ روایت کریں،تو مجھے امید ہے کہ ان میں کوئی حرج نہیں ہوگا ۔(تہذیب التہذیب : ج۱۱: ص ۳۰۹،الکامل:ج۹:ص۱۳۱)،اس لحاظ سےیزید کی روایت میں حسن بصریؒ صدوق ہیں۔واللہ اعلم

[2] اس روایت کے تمام روات ثقہ  اور صدوق ہیں،لہذا  سند حسن ہے،حافظ ذہبی ؒ کے تحقیق کے مطابق  ہیثم  بن عبیدؒ کی وفات  (۲۱۱؁ھ سے  ۲۲۰ ؁ھ) کے درمیان ہوئی ہے،اس لحاظ سے ان سے امام بخاری ؒ  کا سماع ممکن ہے،لہذا سند متصل ہے۔

[3] اس روایت  کے تمام روات ثقہ یا صدوق  ہیں، اور مبارک بن فضالہ ؒ(م۱۶۶؁ھ) پر گر چہ تدلیس کا الزام ہے، پر انہوں نے حسن بصری ؒ کی شاگردی میں ۱۳ یا ۱۴ سال گزارے ۔(تہذیب التہذیب : ج۱۰:ص ۲۶) لہذا طویل رفاقت کی وجہ سے انکی حسن بصری ؒ سے معنعن روایت قبول ہے،جیسا کہ ائمہ کا مسلک ہے۔(الاجماع : ش۳: ص۲۳۱،میزان الاعتدال:ترجمہ سلیمان الاعمش)  الغرض یہ سند بھی حسن ہے۔

[4] اس کی سند یوں ہے :

              قال الطحاوی : وجدنا إبراهيم بن مرزوق قد حدثنا حدثنا سعيد بن عامر , عن شعبة , عن سليمان , عن أبي وائل قال: قال حذيفة في تأويل هذه الآية: " في النفقة " قال شعبة: فحدثت به يونس، فقال: رحم الله الحسن ما قال شيئا، وإلا وجدت له أصلا۔(شرح مشکل الآثار : ج۱۲: ص ۱۰۴)

              اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں۔

[5] اس سےاس  بات کی طرف بھی  اشارہ ملتا ہے کہ حسن بصری صرف ثقہ یا  صدوق سے ہی روایت کرتے ہیں،تب ہی تو ان کی مراسیل کی اصل پائی گئی۔ واللہ اعلم

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...