باب:13
[عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابی العز عقائد میں سلفی ہیں]
مشہور محدث امام طحاوی کی عقائد پر لکھی ہوئی ایک مختصر مگر جامع تصنیف ہے۔ اس کی ایک شرح جو عام طور سے دستیاب ہے اور سلفی اس کی خوب نشر واشاعت کرتے ہیں وہ ابن ابی العز حنفی کی طرف منسوب ہے۔ بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تصنیف کسی حنفی عالم کی ہے جنہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر حنفی ائمہ اور اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد کا التزام کیا ہو گا لیکن واقع میں ایسا نہیں ہے۔ المکتب الاسلامی کے ناشر زہیر الشاویش اپنے طبع کردہ نسخے میں ابن ابی العز حنفی کا تعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
یہ امام ابو جعفر طحاوی کی کتاب عقیدہ کی شرح ہے جو ہم سلف صالحین ( مراد ہیں سلفی بزرگ) کے عقائد کو اور خالص توحید جاننے کی رغبت رکھنے والوں کے لیے چوتھی مرتبہ چھاپ رہے ہیں ۔ اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ تحقیق و بیان کے اعتبار سے، عمق اور احاطہ کی رو سے اور سلف کے منہج حق کو اختیار کرنے کے اعتبار سے یہ قیمتی کتاب تقریبا بے نظیر ہے۔
اسی لیے امام طحاوی کے عقیدہ کی کتاب کی بہت سے علماء نے تعریف کی اور اس کی شرح بھی بہت سے علماء نے لکھی۔ لیکن مشہور و معروف شرحوں میں سے یہ شرح سب سے بہتر ہے اور اس میں سلف کے عقائد کو بہت اچھے اسلوب میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کے شارح شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد ابن قیم کی کتابوں سے بکثرت نقل کرتے ہیں لیکن ان کا حوالہ نہیں دیتے جس کی وجہ شاید یہ ہے کہ متعصب اور حشویہ اور دیگر علماء سو ، جن کا وقت کے بعض حکام پر بڑا اثر رسوخ تھا ان کی سلفیوں سے لڑائی چل رہی تھی اور اس وجہ سے بعض سلفی اپنے عقائد کا تعلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے تھے“۔
[ہم کہتے ہیں]
اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ ابن ابی العز جنہوں نے یہ شرح لکھی یا تو وہ سلفی ہی تھے یا صفات متشابہات میں سلفیوں سے متفق تھے۔ زہیر شاویش مزید لکھتے ہیں : ہمارا اس پر یقین ہے کہ شیخ الاسلام ( ابن تیمیہ ) کے شاگردوں کا خصوصاً ابن قیم کا اور حافظ ابن کثیر کا ابن ابی العز پر گہرا اثر ہوا اور اس وجہ سے وہ سلف ( یعنی سلفیوں) کے منہج کی طرف مڑے اور اس کو انہوں نے اختیار کیا اور تحقیق میں انہوں نے دوسروں کی آراء میں مقید رہنے کے بجائے حریت فکر کو اختیار کیا اور علمی جمود کو توڑا اور اس سے بچتے رہے۔ ابن قیم کا اثر ان کی کتابوں کی ان کثیر نقول سے واضح ہے جو ابن ابی العز اس شرح میں لائے ہیں ۔ ہمارا غالب گمان یہ ہے کہ ابن ابی العزابن قیم کے ساتھ رہے بھی ہیں اور ان سے انہوں نے استفادہ بھی کیا ہے لیکن وہ ابن قیم کا حوالہ نہیں دیتے اور اسی طرح جب وہ ابن قیم کی عبارت نقل کرتے ہیں تو ان کا حوالہ بھی نہیں دیتے۔ بسا اوقات وہ عمدا ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ان کی کتاب کا فائدہ زیادہ ہو اور موافق و مخالف (ان کو حنفی سمجھ کر .... عبد الواحد ) سب ہی اس شرح سے فائدہ اٹھائیں ۔ رہے حافظ ابن کثیر تو ابن ابی العز نے اپنی اس شرح میں تین جگہوں پر ان کا ذکر کیا ہے اور ان کو اپنا شیخ کہا ہے
ابن ابی العز اپنی شرح کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
" و ممن قام بهذا الحق من علماء المسلمين الامام ابو جعفر احمد بن محمد بن سلامة الازدى الطحاوى تغمده الله برحمة بعد المائتين فان مولده سنة تسع و ثلاثين ومائتين و وفاته سنة احدى و عشرين وثلاثه مئة فاخبر رحمه الله عما كان عليه السلف و نقل عن الامام ابي حنيفة النعمان بن ثابت الكوفى وصاحبيه ابي يوسف يعقوب بن ابراهيم الحميري الانصارى و محمد بن الحسن الشيبانيص ما كانوا يعتقدونه من اصول الدين و يدينون به رب العالمين
( شرح العقيدة الطحاوية ص 69)
( ترجمہ: دوصدیوں کے بعد اٹھنے والے فتنوں کی سرکوبی اور ان کے سد باب کے لیے جو علماء کھڑے ہوئے ان میں سے ایک امام طحاوی بھی تھے ۔ ان کی پیدائش کا سال 239 ہجری ہے اور ان کی وفات 321 ہجری میں ہوئی۔ انہوں نے ان عقائد کو ذکر کیا جن پر سلف صالحین تھے اور جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ، امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کے بھی عقائد تھے ۔“
[ہم کہتے ہیں]
عقیدہ طحاویہ تو انتہائی مختصر متن ہے اور اس جیسی کتاب کی شرح کی ضرورت ہوتی ہی ہے۔ لیکن ابن ابی العز نے یہ عجیب کام کیا کہ بجائے اس کے کہ اپنی شرح میں حنفیہ یا اہل سنت کے مسلمہ عقائد اور ان کی مسلمہ تفصیل لکھتے انہوں نے کسی بھی تصریح کے بغیر صفات متشابہات میں ابن تیمیہ اور سلفیوں کی عبارتیں نقل کر کے سلفیوں کا عقیدہ رائج کرنے کی کوشش کی۔ عوام بلکہ عام علماء تک بھی باریکیوں سے باخبر نہیں ہوتے لہذا وہ ان کو منفی سمجھ کر ان پر اعتماد کریں گے لیکن فکر ابن تیمیہ کی حاصل ہو گی ۔ بعض فقہی مسائل میں بھی ابن ابی العز نے ابن تیمیہ کے مسلک کو اختیار کیا ہے جس کی تفصیل شعیب ارنوط کے مقدمہ میں موجود ہے۔
ہم یہاں یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ ابن ابی العز کے بڑے (یعنی باپ دادا) حنفی تھے لیکن ابن ابی العز عقائد میں خود حنفی نہ رہے تھے اور انہوں نے سلفی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اب آگے نام ابن ابی العز کی شرح میں سے چند مثالیں ذکر کرتے ہیں جو ہمارے دعوے پر واضح دلیل ہیں
(1) امام طحاوی رحمہ اللہ نے لکھا:
و تعالى عن الحدود والغايات والاركان والاعضاء والادوات، لاتحويه الجهات الست كسائر المبتدعات 238) شرح العقيدة الطحاويه
(ترجمہ: اور اللہ تعالی حدود و غایات سے، ارکان واعضاء سے بلند و بالا ہیں اور چھ جہات اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتیں ۔ اللہ تعالیٰ دیگر بدعتی امور کی طرح ان مذکور باتوں سے بھی پاک ہیں )۔
امام طحاوی رحمہ اللہ کا یہ کلام اوپر ذکر ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس سے بلند و بالا ہیں کہ ان کے لیے ارکان، اعضاء اور آلات ہوں لیکن ابن ابی العزمتن کے مضمون کے برخلاف سلفیوں کا عقیدہ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’ جہاں تک ارکان، اعضاء اور آلات کے الفاظ کا تعلق ہے تو ان سے صفات کی نفی کرنے والوں نے بعض ایسی صفات کی نفی کی ہے جو دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں مثلا ید (ہاتھ ) اور وجہ (چہرہ) ۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اپنی کتاب الفقہ الاکبر میں لکھتے ہیں: ”اللہ کا ید، وجہ اور نفس ہے جیسا کہ ان کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کیا ہے۔ تو ید (ہاتھ ) اللہ کی صفت ہے بلا کیف اس لیے یہ نہ کہا جائے کہ اللہ کے ید (ہاتھ) سے مراد اس کی قدرت اور نعمت ہے کیونکہ اس میں صفت کا ابطال ہے۔ یہ بات جو امام ابوحنیفہ نے فرمائی دلائل قطعیہ سے ثابت ہے. لیکن ان صفات کو اعضاء جوارح، آلات یا ارکان نہیں کہا جائے گا کیونکہ رکن ماہیت کا جزو ہوتا ہے (جیسے انسان کی ماہیت کے دور کن ہیں : حیوان اور ناطق ) جب کہ اللہ تعالیٰ احد صمد ہیں ان کے اجزاء نہیں ہیں ۔ اسی طرح اعضاء کے لفظ میں تفریق و تقطیع کا معنی ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس سے بلند ہیں۔ جوارح کے لفظ میں کسب اور انتفاع کا معنی ہوتا ہے اور ادوات سے مراد آلات ہوتے ہیں جن سے کوئی ذات جلب منفعت اور دفع مضرت کا کام لیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حق میں یہ تمام الفاظ منفی ہیں ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ کی صفات میں ان کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا قرآن وحدیث میں وارد ہونے والے الفاظ ہی صحیح معنی والے ہیں اور فاسد احتمالات سے پاک ہیں“۔
[ہم کہتے ہیں]
پیچھے ہم اس بات کو وضاحت سے بیان کر چکے ہیں کہ ید (ہاتھ ) اور وجہ (چہرے) اور قدم (پاؤں) سے سلفی ان کا معنی اعضاء و ارکان اور آلات کا کرتے ہیں البتہ ان کی کیفیت یعنی شکل وصورت کو مخلوق کی مثل نہیں مانتے۔ امام ابوحنیفہ ید ( ہاتھ ) وجہ ( چہرے) اور قدم ( پاؤں ) وغیرہ سے صفات مراد لیتے ہیں اور ان کے ظاہری و حقیقی معنی مراد نہیں لیتے اور ان کی حقیقت کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں جب کہ سلفی ان کو اعضاء وجوارح میں سے مانتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھوں سے کام کئے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے کانوں سے سنتے ہیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں اور اعضاء وجوارح کو حقیقت کے اعتبار سے صفات نہیں کہا جاتا۔ لیکن سلفی مختلف حیلے بہانوں سے ان پر اعضاء و جوارح کا اطلاق نہیں کرتے۔ اس سے بہر حال حقیقت نہیں بدلتی ۔ غرض سلفی امام طحاوی رحمہ اللہ کے لکھنے کے برخلاف اللہ کے لیے اعضاء وجوارح مانتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں