’’ابراہیم النخعی عن عبد اللہ ‘‘ اور دیگر مراسیل ائمہ پر ارشاد الحق اثری صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات ۔
’’ابراہیم
النخعی عن عبد اللہ ‘‘
اور دیگر مراسیل ائمہ پر ارشاد الحق اثری صاحب کے اعتراضات اور ان کے جوابات ۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
اثری صاحب مراسیل ابراہیم
کی تصحیح میں صرف امام احمد ؒ کا
حوالہ ذکر کیا اور آگے کہتے ہیں کہ :
’’لیکن
اصولاً یہ بات بھی محل نظر ہے،بلاشبہ حضرت ابراہیم النخعیؒ نے صراحت کی ہے کہ حضرت
ابن مسعود ؓ کی سند میں میرے شیوخ ثقہ
ہیں،مگر راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی
شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا جب راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر
دال نہیں،تو ابراہیم ؒ کے اس قول میں یہ امتیاز اور ترجیح کیوں ہے ؟ غالباً اس بنا
پر حافظ ذہبیؒ نے لکھا ہے کہ:
اس بات پراتفاق ہے کہ ابراہیم ؒ حجت ہیں مگر
جب وہ ابن مسعودؓ وغیرہ سے مرسل روایت
کریں تو حجت نہیں۔ (میزان)
علامہ
زیلعیؒ ایک حدیث کے متعلق نقل کرتے ہیں کہ
:
محمد بن جابر ؒ پر بہت سے ائمہ نے کلام کیا ہے اور ابراہیم ؒ کی
حضرت ابن مسعودؓ سے ملاقات نہیں ہوئی،پس
یہ حدیث ضعیف اور منقطع ہے۔(توضیح
الکلام : ۵۴۴)
الجواب :
اولاً ’’ابراہیم النخعی عن عبد
اللہ ‘‘
کی سند کی تصحیح کرنے والے ائمہ میں امام احمد بن حنبلؒ
(م۲۴۱ھ)کے ساتھ،امام یحیی بن سعید القطانؒ(م۱۹۸ھ)،امام یحیی بن
معینؒ(م۲۳۳ھ)،امام علی بن المدینیؒ(م۲۳۴ھ)،ثقہ،ثبت،حافظ
الحدیث ، امام ابو جعفرطحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)،امام ابو الحسن الدارقطنیؒ(م۳۸۵ھ)، امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ)،حافظ
المغرب،امام ابن عبد البرؒ (م۴۶۳ھ)،امام،حافظ،أبو الولید الباجی ؒ (م۴۷۴ھ)،امام
عبدالحق اشبیلی ؒ (م ۵۸۱ھ)،حافظ
ابو العباس ابن تیمیہ الحرانی ؒ (م۷۲۸ھ)،حافظ
ابن سید الناس ؒ (م ۷۳۴ھ)،امام
ذہبی ؒ (م ۷۴۸ھ)،امام،حافظ علی
بن عثمان الماردینی ؒ (م۷۵۰ھ)،حافظ ابن القیم ؒ(م۷۵۱ھ)،حافظ
صلاح الدین علائی ؒ (م ۷۶۱ھ)،حافظ علاء الدین
مغلطائیؒ (م۷۶۲ھ)، حافظابن رجبؒ (م۷۹۵ھ)،حافظ ولی الدین ،ابن العراقیؒ (م۸۲۶ھ)حافظ
ابن حجرؒ(م۸۵۲ھ)،محدث عینیؒ (م۸۵۵ھ) وغیرہ ائمہ بھی ہیں۔
نیز موجودہ زمانے
کے سلفی ،غیر سلفی وعرب محققین کی ایک جماعت نے بھی اس سند کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ جس کی تفصیل گزرچکی۔
دوم :
i) حافظ
ذہبیؒ کے صاحبزادے المحدث،المسند الکبیر،مسند الدنیا،ابو ہریرہ عبد الرحمٰن بن
محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ (م۷۹۹ھ)،[1]
ii) ابوہریرہ
کے صاحبزادے،یعنی حفید الذہبی ابو عبد اللہ محمد بن عبد الرحمٰن بن محمد بن احمد
بن عثمان الذہبیؒ (م۸۰۳ھ)،[2]
iii) اور
سبط الذہبی،ابو محمد عبد القادر بن محمد
بن علی الدمشقیؒ(م۸۰۳ھ)[3]
وغیرہ سے مروی نسخہ میزان
الاعتدال میں امام ابراہیم نخعی کا ترجمہ
ہی موجود نہیں ہے۔
چنانچہ،حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے ان تینوں
علماء کے حوالے سے حافظ ذہبیؒ کی میزان الاعتدال روایت کی ہے۔(لسان المیزان
: ج۱: ص ۱۹۴، ت ابو الفتح)
یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حفید الذہبی ابو عبد اللہ محمد
بن عبد الرحمٰن بن محمد بن احمد بن عثمان الذہبیؒ (م۸۰۳ھ)، کی پیدائش(م۷۳۲ھ)
میں ہوئی اور سبط الذہبی،ابو محمد عبد
القادر بن محمد بن علی الدمشقیؒ(م۸۰۳ھ)
کی پیدائش (م۷۲۹ھ) میں ہوئی۔
یعنی ان دونوں حضرات نے حافظ ذہبیؒ سے ان کی آخری عمر میں سماع کیا ۔
اس لحاظ سے اس کا بات قوی امکان
ہے کہ حافظ ذہبیؒ نے میزان الاعتدال
میں موجود مراسیل ابراہیم نخعی کے فیصلے سے رجوع فرما لیاہو،کیونکہ حافظ
ذہبی ؒ کا گھرانہ اس بات پر متفق ہے کہ
ان کی کتاب میزان میں ابراہیم نخعیؒ کا ترجمہ موجود نہیں ۔
نیز اپنی ایک اور کتاب میں حافظ ذہبیؒ
نے مراسیل ابراہیم کے بارے میں کہا کہ ان
میں کوئی حرج نہیں۔(دیکھئے ص :۴ )
لہذا قرائن اس بات کی طرف اشارہ کرتے
ہیں کہ میزان کی عبارت سے حافظ ذہبیؒ
نے رجوع کیا۔واللہ اعلم،
سوم حافظ
زیلعیؒ کے حوالے میں صرف اتنا ہے کہ
ابراہیم عن عبد اللہ کی سند منقطع
ہے،اور اس بات کا اقرار ہم بھی کرتے ہے کہ ابراہیم نخعی نے عبد اللہ کو نہیں پایا،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ
ابراہیم عن عبد اللہ کی روایت ،آیا محدثین نے قبول کیا ہے یا نہیں،خود حافظ
زیلعیؒ (م۷۶۲ھ)نے نصب الرایہ : ج۱: ص ۴۱۰، پر ابراہیم عن
عبداللہ کی سند کو رد کرنے والوں کے لئے امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) کے حوالے
سے جواب نقل کیا ہے۔
لہذا
حافظ زیلعیؒ کا حوالہ بھی اثری
صاحب کے لئے مفید نہیں۔
چہارم اثری
صاحب نے کہا تھا کہ ’’ بلاشبہ
حضرت ابراہیم النخعیؒ نے صراحت کی ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ کی سند میں میرے شیوخ ثقہ ہیں،مگر راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا جب راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر
دال نہیں،تو ابراہیم ؒ کے اس قول میں یہ امتیاز اور ترجیح کیوں ہے ؟ ‘‘ ۔
لیکن ’’ عبد اللہ عن ابراہیم‘‘ کے مسئلہ میں ابراہیم
اور عبد اللہ کے درمیان ایک راوی
نہیں بلکہ کئی ثقہ روات ہیں۔
لہذا
یہاں پر اخبرنی ثقۃ نہیں بلکہ اخبرنی ثقات ہے اور ایسی صورت میں
روایت کی تصحیح واضح ہے،جیسا کہ ائمہ جرح و تعدیل نے صراحت کی
ہے۔
نیز جمع کی صورت میں
ہر راوی کا ضعیف ہونا بھی بہت ہی بعید ہے،خاص طور پر جب کہ وہ روات خود ابراہیم نخعیؒ کے نزدیک ثقہ ہوں۔
لہذا اثری صاحب کا اعتراض مردود ہے۔
پنجم اثری
صاحب بھی عجیب ہیں،ایک طرف کہتے ہیں کہ راوی کا
اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا، راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال
نہیں ہوتا، دوسری طرف مدلسین کے عنعنہ والی روایت کو صحیح تسلیم
کرتے ہیں۔
مثلاًامام
زہریؒ کی تدلیس کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کو
مدلسین کے تیسرے طبقے میں شمار کرنا صحیح
نہیں ہے۔ اور موصوف نے ائمہ کے حوالوں سے ثابت کیا کہ ان کی تدلیس قابل قبول ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۳۵۸)[4]
لیکن
قارئین ! قابل غور مسئلہ یہ ہے کہ جس امام ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کو ائمہ جرح و تعدیل نے صحیح قرار دیا
، اورتصریح کی کہ وہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں اور خاص طور سے ’’ابراہیم عن عبد اللہ‘‘ کی روایت کی تصحیح کو
امام دارقطنیؒ،امام بیہقیؒ،حافظ ابن
حجر ؒ وغیرہ ائمہ نے بھی تسلیم کیا
ہے،وہاں اثری صاحب کہتے ہیں کہ ’’ راوی کا اخبرنی ثقۃ یا اخبرنی شیخ ثقۃ کے الفاظ ادا کرنا، راوی کی توثیق اور حدیث کی تصحیح پر دال
نہیں ‘‘۔
دوسری
طرف اثری صاحب امام زہریؒ کی عنعنہ والی روایت کوقبول کیا ،وجہ یہ
بتائی کہ
ائمہ نے ان کے عنعنہ کو قبول کیا،حالانکہ
ان کی عنعنہ والی روایت میں یہ بالکل بھی
صراحت نہیں کہ اس میں ان کے شیخ ثقہ ہیں،بلکہ الٹا زہری ؒ کے بارے
میں ائمہ جرح و تعدیل نے صراحت کی ہے کہ وہ
ہر ایک (یعنی ثقہ اورضعیف) سے روایت لیتے تھے۔(جامع التحصیل : ص۳۷،۷۸،الرسالۃ للشافعی : ص۴۳۹)، بلکہ اثری صاحب بھی خود تسلیم کرتے
ہوئے لکھتے ہیں کہ اسی طرح وہ (یعنی زہریؒ) ضعفاء سے بھی روایت کرتے ہیں۔(اعلاء
السنن فی المیزان : ص۲۸۹)
معلوم ہوا کہ صحت میں،زہریؒ کی عنعنہ ،ابراہیم نخعی ؒ کی مراسیل کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی ،بلکہ فنی اعتبار سے مراسیل ابراہیم نخعی کی صحت کا جو مقام ہے اس سے بھی اس کی حالت بری ہے،لیکن چونکہ اثری صاحب کو
اپنی روایت ثابت کرنا تھا،اس لئے محض متاخرین
ائمہ کے حوالے سے زہریؒ کی
عنعنہ کو مقبول مان لیا۔
اور پھر جب اثری صاحب کے نزدیک ’’ راوی
کا اخبرنی ثقۃ کہنا‘‘حدیث
کی تصحیح پر دال نہیں،
تو زہری ؒ کی عنعنہ میں موجود ’’ عن رجل ‘‘ کیسے حدیث کی
تصحیح پر دال ہے ؟؟؟
اگر کوئی غیر مقلد یہ
کہے کہ زہری ؒ کی عنعنہ میں ’’عن
رجل‘‘ کا احتمال ہے،یقین
نہیں،
تم ہم کہتے ہیں کہ
کیا اہل حدیث حضرات اپنے دین کی بنیاد احتمالات پر رکھنا چاہتے ہیں ؟؟ کیونکہ یہاں
بات صرف زہری ؒ کی عنعنہ کی نہیں، بلکہ
تمام مدلسین کے عنعنہ والی روایت کی
ہے۔لہذا جب ان میں ہر ایک کی عنعنہ میں ’’ عن رجل ‘‘ کا حتمال ہے۔
تو کس بنیاد پراثری
صاحب اور دیگر غیر مقلدین حضرات بعض مدلسین کی
عنعنہ والی روایت قبول کرتے ہیں ؟[5]
کیا وہ اپنے دین کی
بنیاد احتمالات پر نہیں رکھ رہے ہیں ؟؟
مزید اثری صاحب خود
کہتے ہیں کہ جب کسی روایت میں احتمال ہو،تو اس سے استدلال باطل ہوجاتا ہے۔
(توضیح
الکلام : ص۸۳۲)
لہذا اثری صاحب اور موجودہ اہل حدیث حضرات سے گزارش ہے کہ:
(۱) وہ یا تو مرسل
کی طرح ، تدلیس کے مسئلہ میں بھی امام شافعیؒ کا مسلک قبول کریں اور ہر مدلس کی ہر عنعنہ والی
روایت کو مردود تسلیم کریں،جیسا کہ زبیر علی زئی وغیرہ کا مسلک ہے۔۔(نور
العینین: ص ۴۵۷)
(۲) یا جس طرح اثری صاحب اور دیگر غیرمقلدین حضرات تدلیس
کے مسئلہ میں امام شافعیؒ کے مسلک کے بجائے دوسرے ائمہ کے اقوال کو قبول
کرتے ہیں ویسے ہی ان پر لازم ہے کہ وہ
مراسیل میں بھی امام شافعیؒ کے مسلک کے بجائے دوسرے ائمہ کے اشادات اور تصریحات کے
مطابق ائمہ تابعین کی مراسیل کو قبول کریں۔
اور یاد رہے کہ ائمہ تابعین کی مراسیل کو قبول کرنے
میں جو علت غیر مقلدین پیش کریں گے،وہی
علت تدلیس میں بھی ہوگی، جیسا کہ ابن حبان ؒ ،سبط ابن العجمی ؒ وغیرہ ائمہ کے
حوالے گزرچکے۔
مراسیل ائمہ کو قبول نہ
کرنے کا بہانہ :
ائمہ محدثین کا بعض ائمہ تابعین کی مراسیل کو صحیح کہنا ثابت ہے،
مگر ان کےجواب میں اثری صاحب کہتے ہیں :
اس قسم
کے اقوال محض ’’احسن شئی فی
الباب‘‘کے قبیل سے
ہیں،ورنہ بعض تابعین کی مراسیل کو بعض پر ترجیح دینے یا اصح کہنے کے کیا معنی ؟
ضعیف کو ضعیف پر بھی ترجیح ہوتی ہے،جیسا کہ خیر الکلام : ص ۳۵۳ میں ہے مگر
مؤلف احسن الکلام لکھتے ہیں :
’’یہ محض
طفل تسلی ہے کیوں کہ ان مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں۔‘‘
(احسن : ج۱: ص ۱۱۸)
لیکن یہ
بھی محض دعویٰ ہے،اس کے برعکس خطیب بغدادی امام شافعی ؒ وغیرہ کے اسی قسم کے اقوال
نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :
کہ امام
شافعی ؒ نے اسے ترجیح دی ہے اور مرسل سے
ترجیح جائز ہے،اگر چہ اثبات حکم کے لئے اس سے استدلال صحیح نہیں اور یہی قول صحیح
ہے۔
یہی بات
امام بیہقی ؒ نے کہی ہے۔دیکھئے تدریب الراوی : ص ۱۲۱،
لہذا ان اقوال کی بنا پر بعض مراسیل کو فی نفسہا صحیح
سمجھنا محض دعویٰ ہے۔(توضیح الکلام : ص۵۴۲)
الجواب :
اثری صاحب کی
عبارت میں درج ذیل باتیں قابل غور ہیں :
(۱) ائمہ محدثین کا بعض ائمہ کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘کے قبیل سے ہیں۔
(۲) خطیب
بغدادیؒ ،بیہقی ؒ کے اقوال ؟
(۳) ان مراسیل
میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں کیا محض دعویٰ ہے ؟؟
۱: کیا محدثین کا بعض ائمہ کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن
شئی فی الباب‘‘کے قبیل سے ؟؟
ائمہ محدثین کا بعض ائمہ کی مراسیل کو صحیح کہنا، محض ’’احسن شئی فی الباب‘‘ کے قبیل سے ہے، ارشاد
الحق اثری صاحب کا یہ کہنا غیر صحیح اور مردود ہے،کیونکہ ائمہ جرح و تعدیل کے الفاظ بالکل صریح اور واضح طور پر
مراسیل کے علی الاطلاق صحیح ہونے پر
دلالت کرتے ہیں،مثلاً :
ا) امام یحیی
بن سعید القطان ؒ (م۱۹۸ھ) کہتے
ہیں کہ :
’’ أن مراسيل الحسن وجد
لها أصلا إلا حديثا أو حديثين ‘‘
حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کی اصل موجود ہے،سوائےایک یا دوحدیثوں
کے۔
- اس کی شرح
میں حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵ھ) کہتے ہیں کہ :
’’ يدل
على أن مراسيله جيدة ‘‘
یہ اس بات کی دلیل ہے
کہ ان کی مرسل حدیثیں مضبوط ہیں ۔
(العلل الصغیر للترمذی : ص۷۵۴ ،شرح علل الترمذی لابن رجب
۱/۵۳۶)
۲) امام علی بن
المدینیؒ (م۲۳۴ھ) فرماتے ہیں :
’’مرسلات الحسن البصري التي رواها عنه
الثقات صحاح ما أقل ما يسقط منها‘‘
حسن بصریؒ
کی مرسل حدیثیں،جنہیں ثقہ راویوں نے ان سے روایت کیا ہے ، وہ صحیح ہیں ، ان میں سے
بہت کم ساقط ہیں ۔ (التاریخ وأسماء المحدثین وکناہم
للمقدمی :ص۲۰۱)
۳) امام ابو
زرعہ الرازی ؒ (م۲۶۱ھ) کہتے ہیں کہ :
’’كل
شيء يقول الحسن، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم وجدت له أصلاً ثابتا ما خلا
أربعة أحاديث‘‘
ہروہ حدیث جسےحسن بصریؒ
نے(مرسلاً )روایت کرتے ہوئے کہا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے، تو میں نے پایا کی اس
حدیث کی اصل ہے اور وہ حدیث ثابت ہے،سوائے چار حدیثوں کے ۔
(کتاب الضعفاء لابی زرعہ :ج۳: ص ۸۵۷)
- حافظ سیوطی ؒ کہتے ہیں کہ :
قلت: وقد عدّ الحديث في الموضوعات، وتعقبه شيخ
الإسلام ابن حجر العسقلاني بأن ابن المديني أثنى على مراسيل الحسن والإسناد حسن
إليه۔
(ابن الجوزی ؒ نے )حضرت حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں کو موضوعات
میں شمار کیا تو ابن حجرؒ نے ان پر رد کیا کہ ابن المدینیؒ نے حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثوں
کی تعریف کی ہے اور اس حدیث کی سند حسن بصریؒ تک حسن ہے ۔ (الدرر المنثورۃ :ص۱۰۵)
- علامہ سیوطی ؒ دوسری جگہ پر لکھتے ہیں :
قال شيخ الإسلام: إسناده إلى الحسن حسن، ومراسيله أثنى عليها أبو
زرعة، وابن المديني، فلا دليل على وضعه ۔
شیخ الاسلام ابن حجر ؒ کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند
حسن بصریؒ تک حسن ہے اور ان کی مرسل حدیثوں کی ابو زرعہ اور ابن المدینی ؒ نے تعریف
کی ہے ، اسلئے اس کو موضوع کہنے کی کوئی دلیل نہیں ۔
(تدریب الراوی ۱/۳۳۹)
اور حافظ
سیوطی نے بھی سکوت کے ذریعہ حافظ ابن حجرؒ کی تائید کی ہے۔(انوار الطریق
: ص۸)
- حسن بصری ؒ کی مرسل روایت کو ذکر کرنے کے بعد امام نووی ؒ (م۶۷۶ھ)کہتے ہیں کہ :
أثنى على ابن
المدينى، وأبو زرعة على مراسيل الحسن۔
ابن المدینیؒ اور ابو زرعہ رازی ؒنے حسن بصریؒ کی مرسل حدیثوں
کی تعریف کی ہے۔
(تہذیب الاسماء واللغات :ج۱: ص۱۶۲)
قارئین ! غور فرمائیے ، ائمہ متقدمین کی عبارات سے ائمہ محدثین نے کہی بھی ارشاد الحق اثری کی
تاویل مراد نہیں لی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ حسن بصری ؒ کی مرسل حدیثیں ابن حجر ؒ کے
نزدیک حجت ہیں ۔
(۴) امام یحیی بن معینؒ
(م۲۳۳ھ) فرماتے ہیں :
’’مرسلات الحَسَن ليس بها بَأسٌ‘‘۔
حسن البصری کی مراسیل میں کوئی حرج نہیں
ہے۔ (موسوعة أقوال يحيى بن معين : ج۱ : ص ۴۴۵)
(۵) امام ذہبی ؒ (م۷۴۸ھ) کہتے
ہیں کہ :
حسن بصری ؒ کی یہ مرسل حدیث صحیح ہے کہ صہیب ؓ ، روم میں( سب
سے )پہلے( اسلام لانے والوں میں سے) ہیں ۔ (تاریخ الاسلام:ج ۲:ص۳۳۸)
(۶) امام
العلل ، امام علی بن المدینیؒ (م۲۳۴ھ)،امام یعقوب بن شیبہ السدوسیؒ(م۲۶۲ھ)،حافظ ابن رجبؒ
(م۷۹۵ھ) وغیرہ نے ’’ابوعبیدۃعن
ابن مسعود‘‘ کی حدیثوں کو غیر منکر،صحیح بلکہ ثبت
قرار دیا ہے۔(شرح علل ترمذی لابن رجب : ج۱:ص۵۴۴،فتح الباری لابن رجب : ج۷:
ص۳۴۲،ج۷: ص۱۷۴،ج۸: ص ۳۵۰) ،حافظ المغرب ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ) نے بھی
اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔چنانچہ وہ
کہتے ہیں :’’ روى عن أبيه وقد اختلف في
سماعه منه وأجمعوا على أنه ثقة في كل ما رواه ‘‘۔
(الاستغناء في معرفة المشهورين من حملة
العلم بالكنى لابن عبد البر : ج۲: ص۸۱۰،نیز
دیکھئے التمہید لابن عبد البر : ج۲۴: ص۲۹۳) امام ابو عبد الرحمٰن النسائی ؒ
(م۳۰۳ھ) بھی نے کہا : ’’ أبو عبيدة لم يسمع من أبيه والحديث جيد‘‘۔(السنن الکبری للنسائی : ج۱: ص ۴۶۴)
ان سے
معلوم ہوا کہ ان ائمہ کے نزدیک
’’ابوعبیدۃعن ابن مسعود‘‘ کی
روایت مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ صحیح،غیر منکر،جید بلکہ ثبت
ہے۔
لیکن کسی نے بھی ارشاد الحق اثری کی تاویل مراد نہیں لی ،بلکہ ان کو ظاہر پر ہی محمول کیا۔
(۷) ابراہیم
نخعی ؒ کی مراسیل کو بھی ائمہ متقدمین نے
صحیح ،درست اور بلکہ مسند سے اقوی تسلیم کیا ہیں،اور متاخرین ائمہ محدثین نے بھی
ان کی مراسیل کو مانا ہیں،اور بعض نے ’’ابراہیم عن عبد اللہ‘‘ کی روایت کو خصوصاً قبول کیا ہے، جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔(دیکھئے ص :۱ )
لیکن کیا
کسی نےان کے اقوال سے اثری صاحب کی تاویل
مراد لی ؟؟
خلاصہ یہ
کہ ائمہ جرح و تعدیل کے اقوال مراسیل کی
تصحیح پر صریح ہے اور پھر محدثین نے بھی
اس سے علی الطلاق مراسیل کی تصحیح مراد لی ہے،جیسا کہ گزرچکا۔
اور کسی
نےان کے اقوال سے اثری صاحب کی تاویل مراد
نہیں لی،لہذاسلف اور ائمہ محدثین کے فہم کے مقابلے میں اثری صاحب کی تاویل باطل و
مردود ہے۔
۲ : خطیب بغدادیؒ ،بیہقی ؒ کے اقوال ؟
اولاً
حافظ
المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳ھ) نے اپنی عبارت میں درصل مراسیل کے سلسلے میں امام شافعی ؒ کے مسلک کو واضح کیا
کہ ان کے نزدیک مرسل سے استدلال جائز نہیں ہے،کیونکہ امام شافعی ؒ کا مراسیل ابن
مسیب کی تعریف کرنے کی وجہ سے، بعض فقہاء شافعیہ رحم اللہ علیہم نے امام شافعی
ؒ کے نزدیک ان کا حجت ہونا مانا ہے،ان کے
رد میں خطیب کہتے ہیں کہ صحیح قول میں
شافعی ؒ کے نزدیک مرسل سے استدلال
جائز نہیں ہے۔
حافظ المشرقؒ کی پوری عبارت یہ ہیں :
أخبرنا القاضي
طاهر بن عبد الله الطبري، أنا أبو طاهر محمد بن عبد الرحمن المخلص، ثنا أبو بكر
أحمد بن عبد الله بن سيف، حدثنا المزني , قال: قال الشافعي: «وإرسال ابن المسيب
عندنا حسن» قال الخطيب: اختلف الفقهاء من أصحاب الشافعي في قوله هذا , منهم من
قال: أراد الشافعي به أن مرسل سعيد بن المسيب حجة , لأنه روى حديثه المرسل في
النهي عن بيع اللحم بالحيوان , وأتبعه بهذا الكلام , وجعل الحديث أصلا إذ لم يذكر
غيره , فيجعل ترجيحا له , وإنما فعل ذلك لأن مراسيل سعيد تتبعت فوجدت كلها مسانيد
عن الصحابة من جهة غيره ,
ومنهم من قال: لا فرق بين مرسل سعيد بن المسيب وبين
مرسل غيره من التابعين , وإنما رجح الشافعي به والترجيح بالمرسل صحيح , وإن كان لا
يجوز أن يحتج به على إثبات الحكم , وهذا هو الصحيح من القولين عندنا , لأن في
مراسيل سعيد ما لم يوجد مسندا بحال من وجه يصح , وقد جعل الشافعي مراسيل كبار
التابعين مزية على من دونهم , كما استحسن مرسل سعيد بن المسيب على من سواه۔(الکفایۃ للخطیب
: ص ۴۰۴-۴۰۵)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ خطیب ؒ
صرف امام شافعی ؒ کا صحیح مسلک واضح کیا ہے،لیکن اس
سے دوسرے ائمہ کے نزدیک مرسل کا غیر
صحیح ہونا لازم نہیں آتا،خاص طور سے جب
کہ ان حضرات نے واضح اور صریح طور پر مراسیل کی تصحیح فرمائی ہے،جیسا کہ گزرچکا،
اور خطیب نے ائمہ کے اقوال(مثلاً امام
احمد ؒ وغیرہ) کا رد بھی نہیں کیا،بلکہ صرف امام شافعی ؒ کے صحیح مسلک کوواضح
کیا۔
لہذا
دوسرے ائمہ کے اقوال کے رد میں،اس حوالے سے اثری صاحب کا
استدلال صحیح نہیں ہے۔
دوم امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کا قول ، اثری
صاحب نے تدریب الراوی سے نقل کیا ہے،چنانچہ امام سیوطیؒ(م۹۱۱ھ) کے الفاظ
یہ ہیں :
فاختلف أصحابنا في معنى قوله: وإرسال ابن المسيب عندنا حسن، على
وجهين حكاهما الشيخ أبو إسحاق الشيرازي في اللمع، والخطيب البغدادي وغيرهما.
أحدهما:
معناه أنه حجة عنده بخلاف غيرها من المراسيل، قالوا: لأنها فتشت فوجدت مسندة.
والثاني
أنها ليست بحجة عنده بل هي كغيرها، قالوا وإنما رجح الشافعي بمرسله، والترجيح
بالمرسل جائز، قال الخطيب: وهو الصواب.
والأول
ليس بشيء ; لأن في مراسيله ما لم يوجد مسندا بحال من وجه يصح، وكذا قال البيهقي.
قال:
وزيادة ابن المسيب في هذا على غيره أنه أصح التابعين إرسالا فيما زعم الحفاظ.
قال
المصنف: فهذان إمامان حافظان فقيهان شافعيان متضلعان من الحديث والفقه والأصول
والخبرة التامة بنصوص الشافعي ومعاني كلامه۔(تدریب الراوی
: ج۱: ص ۲۲۵)
غور فرمائیے ! یہاں بھی امام بیہقی ؒ
نے ائمہ کے اقوال کے رد میں کچھ بھی نہیں
کہا،بلکہ صرف امام شافعی ؒ کے صحیح مسلک کی نشادہی کی ہے۔
اور پھر آگے امام سیوطی ؒ کا کلام
بھی اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) اور امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳ھ) یہ دونوں
شافعی امام،حافظ الحدیث،فقیہ ،حدیث،فقہ
اور اصول کے ماہر اور بہت زیادہ علم رکھنے
والے اور امام شافعیؒ کے نصوص اور ان کے کلام کے معانی کے مکمل معلومات والے تھے۔
اس
تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہاں امام بیہقیؒ
نے کسی امام کا رد نہیں کیا،بلکہ صرف امام
شافعی ؒ کے صحیح مسلک کی نشادہی کی ، لہذااس حوالے سےبھی اثری صاحب
کا استدلال بے فائدہ ہے۔
سوم تدلیس کے مسئلہ میں بھی امام شافعی ؒ کے
مسلک کی توضیح میں حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳ھ)
نے بھی یہی بات کہی ہے کہ مدلس راوی کی روایت صرف سماع کی تصریح کے ساتھ ہی مقبول ہے،اور یہی
ہمارے نزدیک صحیح قول ہے۔(نور العینین
: ص ۴۷۸)،
امام
بیہقیؒ کا بھی یہی قول ہے۔( نور العینین للشیخ زبیر علی زئی : ص۴۷۸)
اب
تدلیس کے مسئلے میں امام شافعیؒ ، خطیبؒ
اور بیہقیؒ کی عبارات کا جو جواب اثری
صاحب دینگے،وہی جواب ہمارے طرف سے ابراہیم نخعیؒ،وغیرہ ائمہ کی مراسیل کے سلسلے میں ہوگا،
چہارم [خطیبؒ اور بیہقیؒ
کی عبارت اثری صاحب کے خلاف ہے]
خطیبؒ
اور بیہقیؒ کی عبارت ،جیسا کہ اثری صاحب نے نقل کیا ہے،اس میں ہے کہ مرسل سے ترجیح
جائز اور صحیح ہے،کیا اثری صاحب اس کو
ماننے کے لئے تیار ہیں ؟؟؟
ایک صحیح
روایت میں رسول اللہ ﷺ نے مقتدیوں کو قراءت سے معنی کرتے ہوئے امام کی قراءت کو مقتدی
کی قراءت قرار دیا ہے،اور دوسری روایت میں امام کے پیچھے قراءت کا حکم بھی دیا،
لیکن ۴،۴ مرسل روایات میں
یہ ہے کہ پہلے امام کے پیچھے قراءت تھی اور بعد ترک کردی گئی۔(تفسیر ابن
جریر،تفسیر ابن ابی حاتم،احکام القران للطحاوی،کتاب القراءۃ للبیہقی وغیرہ)
چونکہ
مرسل سے ترجیح جائز اور صحیح ہے،جیسا کہ اثری صاحب نے ائمہ سے نقل کیا ہے، تو کیا
مراسیل کی ترجیح کی وجہ سے،اثری صاحب امام
کے پیچھے قراءت نہ کرنے کی روایات کو ترجیح دیں گے ؟؟؟
اسی طرح
تراویح کے مسئلہ میں بھی۸ رکعات کی روایت کے مقابلے میں یزید بن خصیفہ ؒ کی ۲۰ رکعات کی روایت کی تائید بھی مراسیل سے ہوتی
ہے۔
اثری
صاحب ! جواب دیں کہ کیا ۲۰ کعات کی روایت کو ترجیح حاصل ہوگی۔
۳ : ان مراسیل
میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح ہیں کیا محض دعویٰ ہے ؟؟
اس پر
تفصیلی کلام پہلی گزرچکا کہ ائمہ جرح و تعدیل
کے اقوال مراسیل کی تصحیح پر صریح ہیں اور
پھر محدثین نے بھی اس سے علی الطلاق
مراسیل کی تصحیح مراد لی ہے۔(دیکھئے ص :۲۹)
اس پر
مزید ایک اور مثال امام احمد بن حنبل ؒ کی بھی ہے کہ ان ہوں نے مراسیل ابراہیم
نخعی ؒ کے بارے میں کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہےتو حافظ ابن حجر ؒ نے امام احمد
ؒ کے قول سےنخعیؒ کے مراسیل کی علی
الاطلاق تصحیح مراد لی ہے۔ (دیکھئے ص :۹ )
نیز اثری
صاحب نے بھی اس کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔(توضیح الکلام : ص ۵۴۳)
لیکن شاید موصوف نے اس پر غور نہیں کیا۔
برحال اثری صاحب کا یہ کہنا کہ
’’ مراسیل میں مطلقاً بعض مراسیل فی نفسہا صحیح کہنا محض دعویٰ
ہے ‘‘ باطل اور مردود
ہے۔
[1] ذیل
التقیید للفاسی : ج۲: ص ۹۴،العقد الثمین
للفاسی : ج۲ :ص ۴۷،توضیح المشتبہ لابن ناصر الدین: ج۴ :ص ۴۸
[2] انباء
الغمر لابن حجر : ج۲ : ص ۱۸۷، الضوء اللامع
للسخاوی :ج۷: ص ۳۰۱۔
[3] الضوء
اللامع للسخاوی : ج۴:
ص ۲۹۱۔
[4] ایک وضاحت :
تدلیس
اور ارسال کو جن ائمہ نے رد کیا ،ان کے نزدیک
ان دونوں میں علت ایک ہی ہے،یعنی روایت
میں راوی کا پوشیدہ ہونا، البتہ ارسال میں
راوی کا پوشیدہ ہونا یقینی ہوتا ہے،جبکہ
تدلیس میں راوی کے پوشدہ ہونے کا
شبہ ہوتا ہے، مگر دونوں میں علت ایک ہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حافظ سبط ابن
العجمیؒ (م۸۴۳ھ) کہتے ہیں کہ اگر
وہ مدلس ایسے الفاظ (سے روایت کو) بیان کرے جن میں [راوی کے پوشیدہ ہونے کا] احتمال ہو،تواس کا حکم مرسل کا حکم ہے۔(نور العینین : ص ۴۶۷)،
یہی
بات امام ابو عبد اللہ ابن جماعہ الحمویؒ (م۷۳۳ھ)،حافظ
ابن المقلنؒ(م۸۰۴ھ)،حافظ عراقیؒ،(م۸۰۶ھ)،امام علی بن
محمد الجرجانی ؒ(م۸۱۶ھ)،امام ابن الصلاحؒ(م۶۴۳ھ) وغیرہ نے بھی
کہی ہے،اور حافظ زرکشیؒ (م۷۹۴ھ) نے کہا کہ یہی امام شافعی ؒ کا مذہب ہے کہ مدلس کی عنعنہ والی روایت مرسل کے حکم میں ہے۔ (منہل الروی للحموی :
ص۷۲،المقنع : ج۱ : ص ۱۵۷،شرح الفیہ
للعراقی : ج۱: ص ۲۳۸، الدیباج المذہب للجرجانی : ص ۶۱،مقدمہ ابن الصلاح : ص ۷۵،ت
عتر،النکت للزرکشی : ج۲: ص ۸۷) اسی طرح حافظ ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ) کہتے
ہیں کہ اگر ہم مدلس کی وہ روایت قبول کریں جس میں اس نے سماع کی تصریح نہیں کی،اگر
چہ وہ ثقہ تھا،تو ہم پر یہ لازم ہے کہ ہم منقطع اور مرسل روایات قبول کریں۔(نور
العینین : ص ۴۸۳)
ان
ائمہ کی تصریح سے معلوم ہوا کہ مدلس
کی عنعنہ والی روایت مرسل کے حکم
میں ہے۔دونوں میں موجود علت کی یکسانیت کی وجہ سے،
[5] اس کے جواب
میں اگر کوئی کہے کہ ائمہ دین نے ان مدلسین کے عنعنہ کو قبول کیا ہے، تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ بعض ائمہ کی مراسیل کے بارے میں بھی محدثین اور ائمہ جرح و تعدیل نے صراحت کی ہے کہ ان کی مراسیل میں کوئی حرج نہیں ہے،ان کی
مراسیل صحیح ہیں وغیرہ وغیرہ (مثلاً ابراہیم نخعیؒ کی مراسیل وغیرہ )، تو پھر
ان ائمہ کی مراسیل قبول کرنے میں کونسی
مصیبت آجاتی ہے ؟؟؟\
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر11
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں