نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قیام میں دو پیروں کے درمیان کا کتنا فاصلہ ہونا چاہیے ?

 


قیام میں دو پیروں کے درمیان کا کتنا  فاصلہ ہونا چاہیے ؟

موٓلف:حضرت  مفتی شعیب اللہ خان صاحب  دامت برکاتہم

                                         حاشیہ:مولانا نذیر الدین قاسمی

ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر10

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


اہل حدیث حضرات نماز باجماعت میں ایک دوسرے کے پاؤں ملاکر کھڑا ہونا ضروری سمجھتے ہیں ، جس کی وجہ وہ حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا (رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ) کہ ہم میں سے آدمی اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملاتا تھا ، اور حضرت انسؓ کی روایت میں ہے کہ ہمارا ایک ساتھی دوسرے ساتھی کے کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملاتا تھا ۔(بخاری : ۱/۱۰۰)

مؤلفِ ’’حدیث نماز‘‘بھی ان حدیثوں کو بیان کرکے احناف کو بھی اس پر عمل کی دعوت دے رہے ہیں ، کہ تم اگر اہل سنت ہو تو اس پر عمل کرو؛ کیونکہ یہ بھی سنت ہے۔ (دیکھئے حدیثِ نماز : ۵۳- ۵۴)

            اس موقعہ پر بھی مؤلفِ ’’ حدیث نماز‘‘ نے اپنی عادت کے مطابق بڑی ہی مبالغہ آرائیاں کی ہیں ، ہم پہلے احناف کا بلکہ تمام ہی ائمہ کا مذہب اور حدیثوں کا صحیح مطلب علماء کے کلام سے پیش کرتے ہیں ۔

تسویۂ صف اور جمہور کا مذہب :

اس میں کوئی اختلاف کسی کو بھی نہیں کہ صفوں کے درمیان برابری اہم کام ہے، امام شافعیؒ ، امام ابوحنیفہؒ، اور امام مالکؒ صفوف کی برابری کو سنت قرار دیتے ہیں اور بعض حضرات فرض وواجب ہونے کے بھی قائل ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ’’ علّامہ ابن عبد البر ؒ نے ’’الاستذکار‘‘ میں فرمایا کہ تسویۂ صفوف کے بارے میں آثارِ متواترہ وارد ہوئے ہیں ، جن میں نبی کریم ﷺ سے تسویۂ صفوف کا امر منقول ہے، اور اس پر خلفائے راشدین کا عمل بھی ہے، نیز اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ (اوجز المسالک :۳ ؍ ۲۹۵)

پاؤں سے پاؤں ملانے کا معنیٰ  :

لیکن سوال یہ ہے کہ صفوں میں برابری کا مطلب کیا ہے، مؤلف ِ ’’حدیث نماز‘‘ اور دیگر غیرمقلدین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہر آدمی اپنا پاؤں دوسرے کے پاؤں سے ملائے، اور اس پر حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث جو اوپر نقل کی گئی، اس سے استدلال کرتے ہیں ، حالانکہ اس کا یہ مطلب کسی نے نہیں لیا، اس لیے حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے فرمایا کہ یہ غیرمقلدین کے مختارات میں سے ہے جس کا سلف میں نام ونشان نہیں ۔ (فیض الباری : ۲؍۲۳۷)

اور مؤلفِ ’’حدیث نماز‘‘نے ترقی کرکے یہ بھی فرمادیا کہ حنفی مذہب کی کتابوں میں ہم اہل حدیثوں کی طرح آپ کو بھی یہی حکم ہے کہ مل کر کھڑے رہو، اور درمیان میں جگہ نہ چھوڑو الخ ۔ (حدیث ِ نماز:۵۳)

ہم کہتے ہیں کہ اس میں تو شک نہیں کہ ہماری کتابوں میں مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں جگہ نہ چھوڑنے کا حکم ہے، مگر مل کر کھڑے ہونے کا یہ مفہوم جو غیرمقلدین نے لیا ہے کہ پاؤں سے پاؤں ملانا چاہیے ، یہ کہاں سے اخذ کرلیا ؟ کتب احناف میں اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ تسویۂ  صفوف میں اتصال کا حکم ہے۔

اس لئے آئیے ، دیکھیں کہ علماء نے ان احادیث کا کیا مطلب بیان کیا ہے؛ کیونکہ حدیث کا وہی مطلب معتبر ہوگا جو شراحِ حدیث نے بیان کیا ہے:

(۱)       حدیث کے مشہور شارح علامہ ابن حجرعسقلانیؒ حضرت نعمانؓ کی اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: 

 ’’المراد بذلک المبالغۃ فی تعدیل الصف وسد خللہ ‘‘ 

اس سے مراد صف کی برابری میں اور درمیانِ صف میں جگہ بند کرنے میں مبالغہ بیان کرنا ہے۔(فتح الباری: ۲؍۲۱۱)

(۲)       علامہ قسطلانی شافعیؒ (م۹۲۳؁ھ)نے نعمان بن بشیر ؓ کی مذکورہ حدیث کا مطلب ان الفاظ سے بیان کیا ہے:

 ’’ المراد بذلک المبالغۃ فی تعدیل الصف وسد خللہ‘‘

یعنی الزاقِ منکب وقدم سے مراد ، تعدیل صف میں مبالغہ اور خلل کو بند کرنا ہے۔(ارشاد الساری شرحِ بخاری : ۲؍۷۶)

(۳)      شارح بخاری علامہ بدر الدین العینی ؒ (م۸۵۵؁ھ) اس کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’ أشار بھذا إلی المبالغۃ فی تعدیل الصفوف وسد الخلل فیہ‘‘

یعنی الزاقِ منکب وقدم سے تعدیل صفوف اور درمیانی جگہوں کو بند کرنے میں مبالغہ کی جانب اشارہ ہے۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری : ۴؍۳۶۰)

(۴)      محدث شہیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ(م۱۳۵۳؁ھ) نے فرمایا کہ حافظ ابن حجرؒ نے کہا کہ مراد اس سے تعدیل صف میں مبالغہ ہے اور خلل کو  بند کرنا ہے، یہی فقہاء اربعہ کے یہاں اس کا مطلب ہے کہ درمیان میں جگہ نہ چھوڑی جائے کہ جس میں تیسراداخل ہوسکے، نیز فرمایا کہ صحابہ اور تابعین کے تعامل سے ہم نے سمجھا کہ ’’إلزاقِ منکب‘‘(یعنی کندھے ملانے سے) صحابہ کی مراد صرف آپس میں ملنا اور جگہ نہ چھوڑنا ہے۔ (فیض الباری : ۲؍۲۳۶)

(۵)      شارح ترمذی علامہ یوسف بنوریؒ فرماتے ہیں :

’’ والحاصل أن المراد ھو التسویۃ والإعتدال لکیلا یتأخر أو یتقدم فالمحاذاۃ بین المناکب وإلزاق الکعاب کنایۃً عن التسویۃ ‘‘

یعنی حاصل  یہ کہ مراد تسویہ اور اعتدال ہے ، تاکہ کوئی موخر اور مقدم نہ ہو، پس کاندھوں کے درمیان برابری اور ٹخنوں کا ملانا یہ تسویہ ٔ صفوف سے کنایہ ہے۔(معارف السنن :۲؍۲۹۸)

(۶)       حضرت مفتی مہدی حسن صاحب ؒ   ’’قلائد الأزہار شرح کتاب الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’بس الزاقِ منکب بالمنکب اور الزاق کعب بکعب ورکبہ برکبہ وقدم بقدم اور محاذاتِ اعناق ومحاذاتِ مناکب‘‘ 

یہ تمام کی تمام ایک ہی معبر ومعنون کی تعبیرات ہیں اور وہ اعتدال وتسویہ اور مقابہ اور آپس میں محاذات اور اتصال ہے جیسا کہ مخفی نہیں ہے، اور الزاقِ حقیقی کے معنی مراد نہیں ہیں اور کیسے مراد لے سکتے ہیں جبکہ گھٹنے سے گھٹنے کا ملانا متحقق ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ مشاہدہ ہے، پس مراد محض محاذات ہےاور اور اس کا سوائے اس کے جس کو بصیرت نہ ہو انکار نہیں کرسکتا ۔ (قلائد الازہار : ۲؍۶۷)

شراح حدیث کی ان تشریحات سے واضح ہوا کہ قدم سے قدم یا کاندھے سے کاندھا ملانے سے مقصود صرف صفوں کی درستی وبرابری میں مبالغہ بیان کرنا ہے ، اور اس کا حقیقی معنے مراد نہیں۔

الزاقِ کعب کے حقیقی معنیٰ مراد نہیں :

اور اس کی دلیل یہ ہے کہ :

(۱)       حضرت نعمان بن بشیرؓ کی ایک روایت میں ’’ٹخنے سے ٹخنہ‘‘ ملانے کا ذکر ہے، اور دوسری میں بجائے ٹخنہ کے ’’پیر سے پیر‘‘ ملانے کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی ’’ کاندھے سے کاندھا ‘‘ ملانے کا بھی ذکر ہے۔

اور ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کو جمع کرنا مشکل ہے کہ ٹخنے بھی ایک دوسرے سے ملیں اور کاندھے بھی ، اسی لئے ٹخنے ملانے کی روایت پر اہل حدیث نہ عمل کرتے ہیں اور نہ عمل کرسکتے ہیں ،  البتہ پیر سے پیر ملانے کی روایت پر عمل کرتے ہیں ، شاید یہ تاویل کرتے ہوں کہ ٹخنے ملانے سے مراد پیر ملانا ہی ہے، مگر اس کے بجائے ان کو یہ تاویل کرنا چاہیے کہ اصل تو ٹخنے ملانا ہی اس کو قدم سے بھی تعبیر کردیا گیا ہے۔

لہذا ٹخنے سے ٹخنے ملاکر کھڑا ہونا چاہیے ، تاکہ دونوں روایات پر عمل ہو، مگر ٹخنے ملانے کا تو ذکر بھی نہیں کرتے ، عمل تو بعد کی بات ہے۔

اسی طرح حضرت انسؓ کی روایت میں کاندھے ملانے کا بھی ذکر ہے، مگر اس کا اہل حدیث لوگ کوئی تذکرہ بھی نہیں کرتے، محض قدم ملانے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں باتوں پر عمل مشکل ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مراد اس کا حقیقی معنیٰ نہیں ہے، بلکہ صرف مبالغہ ہے۔

(۲)       اس کے حقیقی معنیٰ مراد نہ ہونے پر ’’ابوداؤد‘‘ کی ایک حدیث اشارہ کرتی ہے، اس میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ ہی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

’’فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہٖ ورکبتہ برکبۃ صاحبہ وکعبہ بکعبہٖ ‘‘

 یعنی میں نے دیکھا کہ آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے سے اور اپنے ٹخنے کو (اپنے ساتھی کے ) ٹخنے سے ملاتا تھا۔ (ابوداؤد :۱؍۹۷، سنن بیہقی:۳؍۱۴۳)

امام ابن الملقن ؒ  (م۸۰۴؁ھ)نے ’’خلاصہ البدر المنیر‘‘ میں ابن خزیمہ وابن حبان سے ، امام ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ)نے ’’فتح الباری‘‘ میں ، اور زرقانی ؒنے ’’شرح مؤطا‘‘ میں اس حدیث کی ابن خزیمہ ؒ سے تصحیح نقل کی ہے۔ (خلاصۃ البدر المنیر : ۱؍۲۸، فتح الباری: ۲؍ ۲۱۱، زرقانی علی المؤطا:۱؍۴۵۲)

اس حدیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ساتھ گھٹنوں کا بھی ذکر ہے ، حالانکہ اس کو ملانے کا کوئی بھی قائل نہیں ، کیا اہل حدیث  لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کبھی گھٹنوں سے گھٹنے ملاتے ہیں ؟

علامہ انور شاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۳؁ھ) نے فرمایا کہ خود غور کرو کہ کیا پیروں سے پیر ملانے کے ساتھ ساتھ کاندھے سے کاندھا ملانا بغیر مشقت کے ممکن بھی ہے؟ بلکہ کوشش کے بعد بھی ممکن نہیں ہے۔ (فیض الباری: ۲؍۲۳۷)

غرض یہ کہ حضرت نعمان بن بشیرؓ اور حضرت انسؓ کا مطلب اس سے یہ ہرگز نہیں کہ حقیقۃً پاؤں سے پاؤں اور کندھوں سے کندھا ملاتے تھے، بلکہ بتلانا مقصود ہے کہ درمیان میں حتی الامکان جگہ نہ چھوڑتے تھے اور سب کے سب مل ایسا کھڑے ہوتے کہ اگر تیر بھی پھینکا جائے تو دوسرے کونے میں کسی کو لگے بغیر پہنچ جاتا تھا؛ کیونکہ کوئی مقدم اور کوئی مؤخر نہ ہوتا تھا، اگر اس کو حقیقت پر محمول کیا جائے تو ظاہر ہے کہ بلامشقت ِ شدید اس پر عمل کرنا ممکن نہیں اور تکلف وتصنع کے بغیر اس کو اپنا نا خارج از امکان ہے؛

کیونکہ ایک طرف تو کندھوں کو ملانا اور پھر اس کے ساتھ ہی پیروں سے پیر اور ٹخنوں سے ٹخنے اور مزید گھٹنوں سے گھٹنے ملانا بڑا مشکل ہے، اسی لیے یہ حضرات اہلِ حدیث کندھوں والی بات کی طرف توجہ اور التفات ہی نہیں کرتے ، اور نہ ٹخنوں وگھٹنوں والی بات کی طرف توجہ دیتے ہیں ، صرف قدم ملانے کی طرف متوجہ اور اسی پر مصر ہیں ۔

(۳)      حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :

 ’’راصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالأعناق ‘‘

صفوف کو ملاؤ اور صفوف کو قریب قریب قائم کرو اور گردنوں کو برابر کرو۔ کہ کوئی اوپر کوئی نیچے نہ ہو۔ (نسائی شریف : ۱؍ ۹۳، سنن بیہقی ۳؍۱۴۲)[1]

اس روایت میں گردنوں کو بھی برابر کرنے کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے، تو کیا اس پر عمل ممکن بھی ہے کہ بڑی گردن والا اور چھوٹی گردن والا دونوں برابر ہوکر کھڑے ہوجائیں ؟ معلوم ہوا کہ یہ محض تسویۂ صفوف اور اعتدالِ قائمین سے کنایہ ہے کہ سب برابر برابر کھڑے ہوں ، کوئی آگے پیچھے نہ ہو، کوئی اونچ نیچ نہ ہو، تاکہ صفوفِ ملائکہ سے مکمل مشابہت ہوجائے ، اور اسی کا مختلف احادیث میں حکم دیا گیا ہےمثلاً :

حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ :

 ’’ کان رسول اللہ ﷺ یمسح عواتقنا ویقول : استووا ولا تختلفوا‘‘

رسول اللہ ﷺ نماز میں ہمارے کندھوں کو چھوتے اور فرماتے کہ برابر کھڑے ہو، اور اختلاف نہ کرو۔ (مسلم : ۱؍۱۸۱، نسائی : ۱؍ ۹۳)

اور حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ :

 ’’کان رسول اللہ ﷺ یتخلل الصفوف من ناحیۃ إلیٰ ناحیۃ ، یمسح مناکبنا صدورنا، ویقول : لا تختلفوا فتختلف قلوبکم ‘‘

رسول اللہ ﷺ صفوں کے درمیان ادھر سے ادھر جاتے اور ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے(یعنی برابر کرتے تھے) اور فرماتے اختلاف نہ کرو، کہ کہیں تمہارے دلوں میں اختلاف نہ آجائے۔(نسائی : ۱؍۹۳)[2]

ایک دوسری روایت میں حضرت نعمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں  کو اس طرح سیدھا فرماتے گویا کہ آپ تیر (کا نشانہ) برابر کر رہے ہوں ۔ (مسلم : ۱؍۱۸۲، سنن بیہقی : ۳؍۱۴۳)

ان تمام روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوگا کہ مقصود صفوف کی درستی ہے، جس کو مختلف تعبیرات  سے بیان کیا گیا ہے اور یہ سب بغرض تسویہ اور مبالغہ فی الاعتدال بیان فرمایا گیا ہے، اور صرف پیر ہی ملانا کوئی مقصود ہوتا تو نبی کریم ﷺ ’’ حاذوا بالاعناق‘‘ کی طرح اس کو بھی بیان فرماتے ، نیز آپ جب کاندھوں اور سینوں کو چھوتے ہوئے ان کو برابر فرما رہے تھے تو پیروں کو بھی ضرور ملاتے ہوئے اور یہ فرماتےہوئے جاتےکہ ان کو ملاؤ۔ وإذ لیس فلیس۔

حاصل یہ کہ مقصود ان تمام اصحاب کا تسویۂ صفوف  کو بیان کرنا ہے، پیر کو ملانا یا کندھوں کو ملانا بیان کرنا مقصود نہیں ہے، اور یہ تعبیرات ہیں جو مبالغہ بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں ۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ العلام۔

دو پیروں کے درمیان کا فاصلہ

جب نماز میں کھڑے ہوں تو علماء حنفیہ نے لکھا ہے کہ دو پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا مستحب ہے، اس پر تنقید کرتے ہوئے مؤلف ’’ حدیثِ نماز ‘‘ نے لکھا ہے کہ :

            ’’ بعض کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ صف میں کھڑے ہو کر اپنے دونوں پاؤں کے درمیان صرف چار انگل کی جگہ رکھے، تو یہ بات عقل ونقل کے بالکل خلاف ہے، اور یہ بات نہ اللہ و رسول کی فرمودہ اور نہ صحابۂ کرام کی اختیار کردہ ، اور نہ کسی امام کی بیان کردہ، بلکہ اس قدر  بے اعتناء ہے کہ اس کی سند اور دلیل روئے زمین پر کہیں موجود نہیں ہے ‘‘۔(حدیث ِ نماز :ص ۵۶)

            راقم عفی اللہ عنہ کہتا ہے کہ مؤلفِ ’’ حدیث ِ نماز‘‘ کا یہ دعویٰ کہ یہ عقل ونقل کے خلاف ہے، مبنی علی الجہالت ہے اور بے بنیاد      اور خلافِ تحقیق بات ہے، نیز حقائق سے عدمِ واقفیت اور ظاہر پرستی کا تباہ کن نتیجہ ہے، اس لئے ہم یہاں پر بعون اللہ تعالیٰ ناظرین کے سامنے   چند سطور لکھ کر مسئلہ کی اصل نوعیت  کو واشگاف کریں گے۔

چار انگل سے تحدید مراد نہیں  :

            سب سے پہلے یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ احناف کے یہاں دونوں قدم کے درمیان چار انگل کا فاصلہ جو بیان کیا گیا ہے اس سے تحدید مراد نہیں ہے، خود احناف کی کتابوں میں اس تصریح موجود ہے ، مولانا بنوریؒ نے لکھا کہ :

’’ حق یہ ہے کہ قدمین کے درمیان فصل میں کوئی تحدید نہیں ہے ‘‘ ۔  (معارف السنن : ۲؍۲۹۸)

            اسکے علاوہ احناف کا عمل خود علماء کا ہو یا غیر علماء کا یہ بتلاتا ہے کہ مراد تحدید نہیں ہے کوئی بھی اس تحدید کو حقیقت پر محمول نہیں کرتا ، رہے بعض جہلاء ان کا تو کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی ان سے مذہبِ احناف پر کوئی حرف آسکتا ہے۔

            اب رہا یہ کہ کتابوں میں اس کی قید کیوں لگائی گئی ؟ تو اصل بات یہ ہے کہ آدمی کو بے تکلف کھڑے ہونے میں کم وبیش چار انگل کا فاصل کافی ہوتا ہے ، اور اگر کسی کو بے تکلف کھڑے ہونے کے لئے اس سے زیادہ فاصلہ کا تقاضا ہو تو اس کی بلا سکی کراہت کے اجازت ہے،       

تو اصل یہ ہے کہ آدمی بے تکلف اور بلا تصنع کھڑا ہوسکے، اور چونکہ معمولی ڈیل  ڈول والوں کے لئے عموماً چار انگل کا فاصلہ کافی  ہوتا ہے، اسی لئے اس کو ذکر کیا گیا ہے، ورنہ اس سے تحدید مراد نہیں ہے، اور اس کے بیان کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ کم علمی کی بناء پر ایسے معاملات میں متردد وپریشان رہتے ہیں ، تو ان جیسے لوگوں کی سہولت کی غرض سے ایسےاحکام لکھ دیے جاتے ہیں جن کا ماخذ قرآن وحدیث ہی ہوتا ہے۔

            جب یہ معلوم ہوگیا کہ چار انگل کی تحدید نہیں ہے ، بلکہ کم وبیش اتنی مقدار مراد ہے، تو یہ بات واضح ہوگئی کہ مؤلفِ ’’ حدیث ِ نماز‘‘ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکے جس کو ہم نے اوپر حقائق سے عدمِ واقفیت اور ظاہر پرستی سے تعبیر کیا تھا، اس تحدید کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے استنجاء مں تین ڈھیلے لینے کا حکم فرمایا ،

اس سے فرقہ ظاہریہ نے یہ سمجھا کہ تین کا عدد خاص طور سے مراد ہے ، اور احناف نے اس کی حقیقت اور اصلیت کو پہچان کر کہا کہ مراد تحدید نہیں بلکہ مراد استنزاہ وصفائی ہے ، خود وہ دو ڈھیلوں سے حاصل ہوجائے ، یا تین سے ، یا اس سے زائد سے ، مگر چونکہ عموماً تین عدد ڈھیلوں سے حاجت پوری  ہو جاتی ہے ، اس لیے حدیث میں تین کا ذکر فرمادیا۔

اسی طرح یہاں فقہاء کے کلام میں چار انگل سے تحدید مراد نہیں ، بلکہ انسان کی  ہیئت طبعی کا اندازہ لگاکر بتایا گیا ہے کہ دو پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصل ہونا چاہیے ، اور اس ہیئت ِ طبعی وحالتِ وضعی کو خشوع وخضوع میں دخل ہے ؛ کیونکہ اسکے خلاف میں تکلف اور تصنع ہے جو کہ خوش میں خلل ڈالتا ہے ۔

اوراتنی بات احادیث سے ثابت ہے کہ قیام میں حالتِ وضعی کو باقی رکھنا چاہیے ، چنانچہ : 

(۱)       حضرت عبد اللہ بن الزبیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

’’ صَفُّ الْقَدَمَیْنِ وَوَضْعُ الْیُمْنٰی عَلیٰ الْیُسْرٰی مِنَ السُّنَّۃِ ‘‘۔

یعنی پیروں  کو ملا کر رکھنا اور دائیں ہاتھ کو (نماز میں ) بائیں پر رکھنا سنت ہے۔ (ابوداؤد : ۱؍۱۱۰)[3]

(۲)       حضرت ابن مسعود ؓ کے صاحبزادے حضرت ابوعبیدہ تابعیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کو حضرت عبد اللہ نے نماز میں دونوں پیروں کو ملائے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ:

 ’’ خَالَفَ السُّنَّۃَ وَلَوْ رَاوَحَ بينهما كان أفضل ‘‘

اس نے سنت کی مخالفت کی ، اگر یہ مراوحہ کرتا تو افضل تھا کہ دونوں کو ملاکر نہ کھڑا ہوتا اور آرام سے بلاتکلف کھڑا ہوتا ، دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر مراوحہ کرتا تو مجھے زیادہ اچھا معلوم ہوتا ۔ (نسائی شریف : ۱؍ ۱۰۳)[4]

یہ دونوں روایتیں اگر چہ کہ موقوف ہیں ، مگر دونوں ہی بحکم ِ مرفوع ہیں ؛ کیونکہ صحابی کا لفظ  سنت کہنامرفوع ہونے پر دلیل ہوتا ہے ۔  علامہ نووی ؒ  لکھتے ہیں :

’’ وأما إذا قال الصحابی : أمرنا بکذا أو نھینا عن کذا أو من السنۃ کذا ، فکلہ مرفوع علی المذھب الصحیح الذی قالہ الجمہور من أصحاب الفنون ‘‘۔

یعنی جب صحابی یوں کہے کہ ہم کو اس کا حکم دیا گیا ، یا اس سے روکا گیا ، یا سنت میں سے یہ ہے، تو یہ سب کا سب ، صحیح مذہب کے اعتبار سے مرفوع ہے جس کے جمہور اہل ِ فن قائل ہیں ۔ (مقدمہ شرح مسلم:ج۱ :ص ۱۷)

اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی ’’ شرح النخبۃ : ۸۳‘‘ میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔

اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ان سے روایت کرنے والے حضرت ابو عبیدہ ؒ ہیں ، ان کے بارے میں محدثین نے کہا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے ان کا سماع ثابت نہیں ، چنانچہ امام ترمذیؒ نے ’’ باب ماجاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بأیتھن یبدأ ‘‘ اور ’’باب ما جاء فی مقدار القعود فی الرکعتین الأولیین ‘‘ میں فرمایا : ’’ إن أبا عبیدۃ لم یسمع من أبیہ ‘‘ اسی طرح امام طحاویؒ نے بھی ’’وضو بالنبیذ‘‘ کے مسئلہ میں اس کی صراحت کی ہے ۔ (سنن ترمذی : ۱؍۴۳و ۱؍۸۵، طحاوی : ۱؍۷۵)

مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا سماع ’’ طبرانی ‘‘ کی ایک روایت سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے جس میں انہوں ’’سَمِعَ‘‘ کے لفظ سے اپنے والد سے سننا بیان کیا ہے ، علامہ بدر الدین العینیؒ نے ’’ عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں ان لوگوں کا رد کرتے ہوئے جو ابو عبیدہ کے اپنے والد سے سماع نہ ہونے کے قائل ہیں ، لکھا ہے کہ : یہ قول مردود ہے ، پھر ’’ معجم اوسط طبرانی‘‘ کی روایت اور ’’ مستدرک حاکم ‘‘ کی روایت کے حوالے سے سماع ثابت کیا ہے، اور نیز آگے چل کر فرمایا کہ سماع نہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ؛ کیونکہ حضرت عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کی عمر سات برس کی تھی ، اور سات برس کا بچہ جب غیروں واجنبیوں سے سماع کرسکتا ہے تو خود اپنے باپ سے کیوں نہیں کرسکتا ؟ ۔ (عمدۃ القاری : ۲؍۴۲۹ – ۴۳۰)

لہذا حضرت ابن مسعودؓ سے ان کا سماع محقق ہے ، اور یہ حدیث منقطع نہیں بلکہ متصل ہے۔ [5]

 غور کیجئے کہ ان روایات میں سے ایک میں ’’ صف القدم ‘‘ یعنی پیروں کے  ملانے کو سنت کہا گیا ہے، اور دوسری روایت میں ’’ صف القدم ‘‘ ہی کو خلافِ سنت بتلایا گیا ہے، اور دونوں میں اگر چہ لفظاً تعارض معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً  کوئی تعارض نہیں ہے؛ کیونکہ پہلی روایت  میں صفِ قدم سے مراد زیادہ کشادہ کرنے کی نفی ہے  اور دوسری روایت میں صفِ قدم سے مراد زیادہ ملانے کی نفی ہے، اور دوسری روایت میں ’’ خَالَفَ السُّنَّۃَ وَلَوْ رَاوَحَ بينهما كان أفضل ‘‘ کے الفاظ اس مراد پر صریح دلالت کر رہے  ہیں ؛ کیونکہ زیادہ ملانے میں بھی راحت نہیں بلکہ کلفت ہے اور زیادہ کشادہ کرنے میں بھی کلفت ومشقت ہے ، تو مطلب دونوں روایات کا یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ جو صورت بلا تکلف وتصنع حاصل ہوتی ہے، اس پر قائم رہنا سنت ہے جو کہ مراوحہ ہے۔

مراوحہ کی تفسیر :

مراوحہ کے معنیٰ اہل لغت نے یہ لکھے ہیں کہ کبھی اس قدم پر کھڑا ہونا اور کبھی دوسرے پر کھڑا ہونا ۔  (لسان العرب : ۲؍۴۵۵، القاموس المحیط : ۱؍۲۸۲)

اور علامہ کشمیریؒ نے اس کے معنیٰ ’’ تفریج بین  القدمین ‘‘ (دو قدموں کے درمیان فاصلہ رکھنا) بیان کئے ہیں ۔(فیض الباری : ۲؍۲۳۷)

            راقم کہتا ہے کہ ’’ روِح : بکسر العین ‘‘ کے معنیٰ کشادہ ہونے کے ہیں ، اس سے ’’ مراوحہ ‘‘ بمعنیٰ کشادہ کرنا ہے اور اس کی تائید سیاقِ کلام سے بھی ہوتی ہے، چونکہ ’’صف بمعنیٰ ضم ‘‘ کے مقابلہ میں مراوحہ بولنا اس کے بمعنیٰ ’’ تفریج ‘‘ ہونے کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم

نیز ’’ مصنف عبد الرزاق‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کا بھی یہی طریقہ بتایا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے سے حضرت نافع نے بتایا کہ

 ’’ إن ابن  عمر کان لا یفرسخ بینھما ولا یمس إحداھما الأخریٰ وقال بین ذلک ‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر قدموں کو کشادہ نہیں رکھتے تھے اور اور نہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے مس کرتے تھے، فرمایا کہ ان کے درمیانی شکل ہوتی تھی ۔(مصنف عبد الرزاق : ۲؍۲۶۴)[6]

نیز ،ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے نماز میں دونوں قدموں کو  ملانے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ : 

’’أما ھکذا حتی تماس بینھما فلا ، ولکن وسطاً بین ذلک ‘‘ 

اس طرح کہ دونوں قدم مس ہوجائیں ، ایسا نہیں لیکن درمیانی صورت ہو۔ (مصنف عبد الرزاق : ۲؍۲۶۴)[7]

حاصل یہ ہے کہ ان روایات میں قدموں  کو زیادہ ملانے اور زیادہ کشادہ رکھنے کو  خلافِ سنت کہا گیا ہے، لہذا معتدل طریقہ کرنا چاہیے ، اور یہ بات چونکہ عموماً چار انگل سے یا کم و بیش سےحاصل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کا ذکر فقہاء نے کیا ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے فقہاء کرام نے غسل کے تین فرائض بیان کئے ہیں ، ایک کلی کرنا ، دوسرے ناک میں پانی ڈالنا ، اور تیسرے سارے بدن پر پانی بہانا، حالانکہ یہ تعبیر نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں ، مگر اس کے باوجود اس کو بے دلیل نہیں کہہ سکتے ؛ کیونکہ یہ در اصل قرآن میں بیان کردہ حکم : ’’ وإن کنتم جنباً فاطھروا ‘‘۔ (المائدۃ : ۶) کی ایک دوسری تعبیر ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ غسل میں خوب اچھی طرح پاک ہوجاؤ، اور یہ پاکی اس طرح ہوگی کہ جہاں تک بدن میں پانی پہنچایا جاسکتا ہے وہاں تک پانی پہنچاؤ، لہذا فقہاء نے اندازہ لگایا اور فرمایا کہ تین فرض ہیں اور بعض اعظاء کو الگ الگ شمار اور فرائض کی تعداد اس سے زیادہ بتائی ، یہ سب در اصل اسی حکم خداوندی کی مختلف تعبیرات ہیں ، ان کو بے دلیل نہیں کہا جاسکتا۔

اسی طرح زیر بحث مسئلہ میں فقہاء کا  یہ کہنا کہ چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہیے، حدیث ہی کی ایک آسان ونئی تعبیر ہے اس کو بے دلیل کہنا ، اسلوب بیان سے ناواقفیت ہے۔

            اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ یہ بات بطریقِ عقل بھی اور بطریقِ نقل بھی ثابت ہے :  بطریق نقل تو ابھی مذکور ہوا ، ربا بطریقِ عقل تو اس کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس طرح بلاتکلف کھڑے ہونے میں خشوع وخضوع جو کہ مقصود اعظم ہے ، حاصل ہوتا ہے، اس کے خلاف کرنے میں خشوع وخضوع میں خلل  ہوتا ہے ، لہذا اس نظریہ ٔ عقلی سے بھی اس کی تائید ہوگئی اور ساتھ ہی مؤلف کا بے بنیاد دعویٰ باطل ہوگیا۔ واللہ أعلم وعلمہ أتمّ ۔ [8]

 



[1] اس حدیث کو حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ)، حافظ عبد الرووف المناویؒ(م۱۰۳۱؁ھ)،امام،حافظ،محدث اور فقیہ علی بن احمد العزیزیؒ(م۱۰۷۰؁ھ) وغیرہ نےصحیح کہا ہے۔(الاحادیث المختارۃ  للمقدسی : ج۷: ص۴۱-۴۲، التيسير بشرح الجامع الصغيرللمناوی : ج۲: ص۲۵، السراج المنير شرح الجامع الصغير في حديث البشير النذير : ج۳: ص۱۷۶)،شیخ الالبانی ؒ، سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي وغیرہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(سنن نسائی بتحقیق الالبانی : حدیث نمبر ۸۱۵، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۰: ص ۲۵۸)

[2] یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ الالبانی ؒ، سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي وغیرہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(سنن نسائی بتحقیق الالبانی : حدیث نمبر ۸۱۱، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۰: ص ۲۴۱)

 

[3] اس روایت کے تمام روات ثقہ  یا صدوق ہیں۔امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ) اس سند کو حسن اور امام ابن المقلن ؒ ۸۰۴؁ھ) نے اس سند کو جید کہتے ہیں۔(خلاصۃ الاحکام للنووی : ج۱: ص۳۵۷،البدر المنیر لابن المقلن : ج۳: ص۵۱۲)،شیخ الالبانی ؒ نے  اس حدیث ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’هذا إسناد ضعيف أيضا , زرعة هذا لم يرو عنه إلا اثنان:العلاء هذا أحدهما , ولم يوثقه غير ابن حبان والعلاء بن صالح ثقة فى حفظه ضعف ‘‘۔(ارواء الغلیل : ج۲: ص۷۴)، لیکن دوسرے سلفی علماء نے مثلاً شیخ زبیر علی زئی  نے کہا : کہ اس کی سند حسن ہے اور  زرعہ الکوفی سے ۲ ثقہ راویوں نے روایت کی ہے۔ اور ان کو ابن حبانؒ،ذہبیؒ اور ضیاء الدین مقدسی ؒ نے  ثقہ قرار دیا ہے۔(سنن ابی داود : تحقیق زبیر علی زئی : حدیث نمبر ۷۵۴)اسی طرح  ایک اور سلفی شیخ   محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي نے بھی کہا : کہ ’’ رجال هذا الإسناد ثقات، وزرعة، وإن قال في التقريب: مقبول، لكنه وثقه ابن حبان، وقال الذهبي في "الكاشف": ثقة. فالظاهر أن الحديث صحيح، وإن ضعفه بعضهم. والله تعالى أعلم ‘‘۔(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۱: ص ۳۲۵)  اور العلاء بن صالح کی جمہور ائمہ کی توثیق کی ہے۔ لہذا یہ حدیث حسن ہے۔

[4] اس روایت کے بھی تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔جیسا کہ سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي نے ثابت کیا ہے۔ (ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۱: ص ۳۲۰)، مگر شیخ الإثيوبي نے کہا : کہ  اس کی سند منقطع ہے۔کیونکہ ابو عبیدہ  کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا سماع  ابن مسعود ؓ  سے ثابت ہے۔ نیز بعض ائمہ  نے اس  ’’ابو عبیدۃ عن ابن مسعود‘‘ کی سند کو منقطع تسلیم کیا،مگراس سند سے مروی حدیث کو جید،اور مضبوط قرار دیا ہے۔جس کی تفصیل  ص: پر موجود ہے۔لہذا یہ اعتراض سے حدیث کو نقصان نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام نسائیؒ ۳۰۳؁ھ)  نے بھی  کہا : کہ ’’ أبو عبيدة لم يسمع من أبيه والحديث جيد ‘‘ ابو عبیدہ  ان کے والد سے کا سماع نہیں سنا، لیکن حدیث مضبوط ہے۔(السنن الکبری للنسائی : ج۱: ص ۴۶۴)

[5] دیکھئے ص :۔

[6] اس کی سند صحیح ہے۔امام عبد الرزاق الصنعانیؒ ۲۱۱؁ھ)،امام ابن جریجؒ۱۵۰؁ھ)،امام نافع مولی ابن عمرؒ۱۱۷؁ھ) وغیرہ مشہور ائمہ ثقات ہیں۔

[7] اس کی سند بھی صحیح ہے۔امام عبد الرزاق الصنعانیؒ ۲۱۱؁ھ)،امام ابن جریجؒ۱۵۰؁ھ)،امام عطاء بن ابی رباحؒ۱۱۴؁ھ) وغیرہ مشہورثقہ روات ہیں۔

[8] نماز میں پاوٓں زیادہ پھیلانے ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی  مذمت :

(۱)         مشہور سلفی عالم  شیخ  محمد بن صالح العثیمینؒ(م۱۴۲۱؁ھ) سے سوال کیا گیا :

              سئل فضيلته: يوجد جماعة يفرجون بين أرجلهم في الصلاة قدر ذراع، فقال لهم أحد الجماعة لو تقربون أرجلكم حتى يكون بين الرجلين بسطة كف اليد لكان أحسن، فردوا عليه بقولهم: إنك راد للحق لأن فعلنا هذا قد أمر به الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، آمل منك جزاك الله خيراً أن توضح لنا هذه المسألة توضيحاً وافياً؟

فأجاب بقوله: التفريج بين الرجلين إذا كان يؤدي إلى فرجة في الصف، بحيث يكون ما بين الرجل وصاحبه منفتحاً من فوق فإنه مكروه لما يلزم عليه من مخالفة أمر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالتراص؛ ولأنه يفتح فرجة تدخل منها الشياطين.

وكان بعض الناس يفعله أخذاً مما رواه البخاري عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أنه قال: "وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه"  ، وهذا معناه: تحقيق المحاذاة والمراصة، والإنسان إذا فرج بين قدميه بمقدار ذراع سوف ينفتح ما بين المنكبين مع صاحبه، فيكون الفاعل مخالفاً لما ذكره أنس - رضي الله عنه - عن فعل الصحابة رضي الله عنهم.

وأما قول من يفرج: إن هذا قد أمر به النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنما أمر بالمحاذاة فقال: "أقيموا الصفوف ، وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولا تذروا فرجات الشيطان، ومن وصل صفاً وصله الله، ومن قطع صفاً قطعه الله". ولم يقل: "فرجوا بين أرجلكم"، ولم يقل: "ألزقوا المنكب بالمنكب والقدم بالقدم"، ولكن الصحابة - رضي الله عنهم - كانوا يفعلونه تحقيقاً للمحاذاة ولكن إذا لزم من إلزاق الكعب بالكعب انفراج ما بين المنكبين صار وقوعاً فيما نهى عنه النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من فرج الشيطان.

وأما قول أحد الجماعة خلوا بين أرجلكم بسطة كف فلا أعلم له أصلاً من السنة، والله أعلم.

(ترجمہ کرنا ہے)۔(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين : ج۱۳: ص ۲۸-۲۹)

ایک اور مقام پر شیخ نے ’’ كعبه بكعب ‘‘ کی حدیث کے بارے میں کہا : ’’ ليس يدل على أنك تفتح القدمين حتى تلصقها بكعب أخيك‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔( تعليقات ابن عثيمين على الكافي لابن قدامة: ج۲: ص۱۹)

(۲)         ایک اور مشہور سلفی ،امام عبد العزیز بن   عبد اللہ بن بازؒ(م۱۴۲۰؁ھ) سے پوچھا گیا :

              مسألة في حكم المبالغة في التفريج بين القدمين

س: نلاحظ أن بعض الناس يبالغ في الفتحة ما بين القدمين حتى إنه يؤذي من بجانبه

ج: ينبغي لكل مصل ألا يؤذي جاره، وأن يحرص على سد الخلل من دون إيذاء، كل واحد يطلب من أخيه أن يقرب حتى يلزق قدمه بقدمه بدون محاكة ولا إيذاء، المقصود سد الخلل، فلا يفشج ويباعد بين رجليه ويؤذي جيرانه، ولا يمتنع الجيران من القرب منه، بل كل واحد يقرب من أخيه ويسد الخلل، كما أمر بهذا النبي عليه الصلاة والسلام، فإنه قال: سدوا الفرج، وقال أنس رضي الله عنه: «كان أحدنا يلصق قدمه بقدم صاحبه فينبغي لك يا عبد الله أن تلاحظ سد الخلل وسد الفرج من دون أن تؤذي جيرانك بالفشج، وهو كذلك جارك يحرص على أن يستقيم في وقفته وفي موضع قدميه؛ حتى يأخذ سد الخلل من دون الإيذاء من كل واحد لجاره۔

(ترجمہ کرنا ہے)۔( فتاوى نور على الدرب: ج۱۲: ص۲۳۵)

(۳)        اسی طرح جامع ازھر کے مفتی  عطیہ سقر نے کہا :  قیام میں دونوں قدموں کے درمیان  بہت فاصلہ کرنا عرفاً  قبیح اور بُرا ہے۔اگے مفتی صاحب نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔مفتی  صاحب کے الفاظ  یہ ہیں :

’’ التفريج بين الأقدام بمسافة كبيرة تتفاحش عرفا كما يقول المالكية والحنابلة، وتزيد على الشبر كما يقول الشافعية وعلى الأصابع الأربعة كما يقول الحنفية، وذلك مكروه ‘‘  ۔(فتاوى دار الإفتاء المصرية: ج۹: ص۸۶، احسن الکلام فی  الفتاوی والاحکام المعروف فتاوی مفتی عطیہ صقر:ج۳:ص۳۲۳)

(۴)        نیز مشہور سعودی دار الافتاء  میں کئی سلفی اور  کبار سعودی  علماء   ،مثلاً  شیخ صالح بن فوزان،

(۵)        شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ  بن محمد آلہ شیخ،

(۶)         شیخ  عبد اللہ بن غدیان ،

(۷)        شیخ ابو زید بکر  وغیرہ نے بھی کہا : ’’ لا تفريجا كثيرا بين رجليه بل يكون معتدلا ‘‘ دونوں قدموں   کے درمیان  بہت فاصلہ کرنا نہ  چاہئے،بلکہ ان کو معتدل حالت  میں رکھنا   چاہئے۔(فتاوى اللجنة الدائمة- المجموعة الثانية-: ج۵: ص ۳۵۷)

(۸)        ایک اور سعودی سلفی عالم  شیخ عبداللہ  بن عبد الرحٰمن بن جبرین  کہتے ہیں کہ  ’’ أيضاً نلاحظ أن بعضهم يُفرج بين قدميه إذا قام فيترك بين قدميه نحو ذراع أو أكثر، فيكون بذلك متسبباً في وجود فرجة بينه وبين الآخر، فيكون هناك تفريج كبير بين الأقدام، وقصده من ذلك العمل بظاهر الحديث، وهو إلصاق الكعب بالكعب، فنقول: لا يلزم الالتماس، ولكن التقارب هو المطلوب فقط، فإذا حصل التقارب لم يحصل هذا التفرق، ولا الفرج ولا الاختلال ‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔ (شرح عمدۃ الاحکام لابن جبرین : ج۱۲: ص۶)

(۹)         شیخ عبد الکریم الخضیر سعودی،سلفی عالم   حدیث’’ كعبه بكعب ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ ليس معنى هذا أنه إذا كان بينك وبين أخيك فرجة أو خلل أن تمد رجلك وهو يمد رجله إلى أن يصل بعضكم إلى بعض، ما هو بالحل في سد الخلل وسد هذه الفرج أن الإنسان يمد رجليه ويباعد ما بينهما حتى يصل إلى رجل أخيه لا؛ لأنه إذا حصلت المحاذاة بالأقدام في هذه الصورة لم تحصل المحاذاة بالمناكب، والمطلوب المحاذاة بالمناكب والأقدام، فالإنسان عليه أن يأخذ من الصف بقدر جسمه لتتم المحاذاة، وإلا إذا فحج بين رجليه ومد وباعد ما بينهما الفرج موجودة، ولا يتم امتثال المحاذاة محاذاة الرجلين فقط، بل لا بد أن تكون المحاذاة بالأقدام وبالمناكب أيضاً، وبعض الناس يحرص على تطبيق السنة ويؤذي الناس برجليه، وبعض الناس لا يحتمل مثل هذه التصرفات، بعضهم يصير حساس، قد يترك الصلاة إذا مست رجله، بعض الناس حساس، فالإنسان يختبر جاره إذا كان يرتب على تطبيق هذه السنة محظور أعظم يترك هذا، يترك بينه وبينه فرجة يسيرة جداً بحيث لا تكون خلل في الصف، ولا يؤثر على صلاة أخيه، ولا شك أن الالتصاق بين الصفوف والتراص أمرٌ مطلوب، لكن بحيث لا يترتب عليه أثر أشد منه ‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔  (شرح موٓطا للخضیر : ج۲۵: ص ۱۷)

(۱۰)       غیر مقلد ،اہل حدیث مبلغ ، ابو زید ضمیر صاحب کہتے ہیں :

’’دوسری بات یہ کہ دونوں پاؤں نماز میں،دونوں پاؤں پھیلانایہ کوئی نیکی نہیں ہے ، بلکہ یہ خلافِ اصل ہے ، حدیث میں کیا ہے ، اللہ کے نبی ﷺکیا فرماتے؟ ’’استووا ‘‘ آج بھی آپ دیکھیں ائمہ ، بہت سارے علماء  کہتے ہیں :’’استووا ‘‘ ٹھیک ٹھیک کھڑے رہو، ’’واعتدلوا‘‘ اعتدال کے ساتھ کھڑے رہو، بیلنس کھڑے رہو ، یہ نہیں کہ پاؤں پھیلاکے  آدمی کھڑے رہ رہا ، بے چارہ ایک آدمی ثواب مل جاتا ، پہلی صف میں وہ بھی آجاتا ، اس کی بھی جگہ پر قبضہ کرکے پاؤں پھیلا کےٹھہرا ہے،کیا ضرورت ہےاس کو ، قبضہ کرنے آیا مسجد میں ، گھر میں جگہ نہیں تیرے، کیوں آرہایہاں پہ، تو اس طرح سے پاؤں پھیلاکے ٹھہرنا ، کندھوں کے ملنے میں رکاوٹ ہے، کندھے ملنا چاہیے کہ نہیں ؟ کندھے ہی ملنا چاہیے، اب پاؤں پھیلاؤگے تو رکوع میں کیسے جاؤگے،ویسے ہی ؟  رکوع میں بیلنس نہیں رہ جائے گا آپ کا ، لوگ کیا کرتے ہیں ، رکوع میں پاؤں سمیٹ لیتے ہیں ،پھر صف سے قدم نہیں مل رہے ہیں آپ کے، تو آپ ایسا کچھ مت کرو جو ہماری دعوت کیلئے تنقید کا ذریعہ بنے ، وہی کام کرو جو ثابت ہے، بہت سے لوگ آتے ہیں ، بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں ، دیوبندی ہیں یا دوسری مسجدوں میں  جو ہمارے بھائی جاتےہیں وہ لوگ  دیکھتے ہیں، یہ آئےایک دم  پاؤں پھیلائے، ہاتھ ایسا ، سر بھی ایسا ، وہ لوگ  خود کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ  یہ نماز پڑھنے کیلئے نہیں کشتی لڑنے کیلئے آئے ہیں ، اور واقعی لگتا بھی ایسا ہی ہے دیکھ کے اس کو ، ایک دم تکبر کے ساتھ ، پاؤں پھیلاکے ، ہے کوئی تمہاری مسجد میں بتاؤ، تو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، ہم ادب سے ٹھہریں ، اللہ کے سامنے کھڑا ہےبھائی ، ڈرے وہ کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ، اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوں ، وہ ان کی ٹکر میں کھڑا  رہتا ہے، ہے کوئی رفع الیدین کو روکنے والا ، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے ، ہم اللہ کیلئے نماز پڑھ رہے ہیں ، کسی کی ضد سے نہیں پڑھ رہے ہیں‘‘ ۔

دیکھئے ان کا وڈیوں

 

(۱۱)        اہل حدیث حضرات کے مجتہد العصر ،مولانا عبد اللہ روپڑی  لکھتے ہیں  : بعض لوگ قدم زیادہ چوڑے کرکے کھڑے ہوتے ہیں جس سے کندھے نہیں ملتے وہ غلطی کرتے ہیں،کیونکہ اس حدیث میں جیسے قدم ملانے کا ذکر ہے کندھے ملانے کا بھی ذکر ہے۔(فتاوی علماء حدیث : ج۱ : ص۲۱)

              معلوم ہوا کہ خود سلفی  اور اہل حدیث علماء  نماز میں پاوٓں زیادہ پھیلانے اور  ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی مذمت اور اس سے منع کرچکے ہیں۔لہذا  قرآن اور حدیث کو اسلاف کے فہم سے سمجھنے کا دعوی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ   وہ حدیث ’’ كعبه بكعب ‘‘   کے تحت  اسلاف کا فہم  پیش کریں کہ  اسلاف نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملاتے  یا اس کے قائل تھے ۔ورنہ  خود اپنے علماء   کی نصیحت کو قبول کرلیں کہ  نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملانا سنت نہیں ہے۔

موٓلف:حضرت  مفتی شعیب اللہ خان صاحب  دامت برکاتہم

                                         حاشیہ:مولانا نذیر الدین قاسمی

اہل حدیث حضرات نماز باجماعت میں ایک دوسرے کے پاؤں ملاکر کھڑا ہونا ضروری سمجھتے ہیں ، جس کی وجہ وہ حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ حدیث میں ہے کہ حضرت نعمان بن بشیر ؓ نے فرمایا کہ میں نے دیکھا (رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ) کہ ہم میں سے آدمی اپنے ساتھی کے ٹخنے سے ٹخنہ ملاتا تھا ، اور حضرت انسؓ کی روایت میں ہے کہ ہمارا ایک ساتھی دوسرے ساتھی کے کاندھے سے کاندھا اور قدم سے قدم ملاتا تھا ۔(بخاری : ۱/۱۰۰)

مؤلفِ ’’حدیث نماز‘‘بھی ان حدیثوں کو بیان کرکے احناف کو بھی اس پر عمل کی دعوت دے رہے ہیں ، کہ تم اگر اہل سنت ہو تو اس پر عمل کرو؛ کیونکہ یہ بھی سنت ہے۔ (دیکھئے حدیثِ نماز : ۵۳- ۵۴)

            اس موقعہ پر بھی مؤلفِ ’’ حدیث نماز‘‘ نے اپنی عادت کے مطابق بڑی ہی مبالغہ آرائیاں کی ہیں ، ہم پہلے احناف کا بلکہ تمام ہی ائمہ کا مذہب اور حدیثوں کا صحیح مطلب علماء کے کلام سے پیش کرتے ہیں ۔

تسویۂ صف اور جمہور کا مذہب :

اس میں کوئی اختلاف کسی کو بھی نہیں کہ صفوں کے درمیان برابری اہم کام ہے، امام شافعیؒ ، امام ابوحنیفہؒ، اور امام مالکؒ صفوف کی برابری کو سنت قرار دیتے ہیں اور بعض حضرات فرض وواجب ہونے کے بھی قائل ہیں۔

حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ ’’ علّامہ ابن عبد البر ؒ نے ’’الاستذکار‘‘ میں فرمایا کہ تسویۂ صفوف کے بارے میں آثارِ متواترہ وارد ہوئے ہیں ، جن میں نبی کریم ﷺ سے تسویۂ صفوف کا امر منقول ہے، اور اس پر خلفائے راشدین کا عمل بھی ہے، نیز اس میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ (اوجز المسالک :۳ ؍ ۲۹۵)

پاؤں سے پاؤں ملانے کا معنیٰ  :

لیکن سوال یہ ہے کہ صفوں میں برابری کا مطلب کیا ہے، مؤلف ِ ’’حدیث نماز‘‘ اور دیگر غیرمقلدین اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ہر آدمی اپنا پاؤں دوسرے کے پاؤں سے ملائے، اور اس پر حضرت نعمان بن بشیر ؓ کی حدیث جو اوپر نقل کی گئی، اس سے استدلال کرتے ہیں ، حالانکہ اس کا یہ مطلب کسی نے نہیں لیا، اس لیے حضرت مولانا انور شاہ صاحب کشمیریؒ نے فرمایا کہ یہ غیرمقلدین کے مختارات میں سے ہے جس کا سلف میں نام ونشان نہیں ۔ (فیض الباری : ۲؍۲۳۷)

اور مؤلفِ ’’حدیث نماز‘‘نے ترقی کرکے یہ بھی فرمادیا کہ حنفی مذہب کی کتابوں میں ہم اہل حدیثوں کی طرح آپ کو بھی یہی حکم ہے کہ مل کر کھڑے رہو، اور درمیان میں جگہ نہ چھوڑو الخ ۔ (حدیث ِ نماز:۵۳)

ہم کہتے ہیں کہ اس میں تو شک نہیں کہ ہماری کتابوں میں مل کر کھڑے ہونے اور درمیان میں جگہ نہ چھوڑنے کا حکم ہے، مگر مل کر کھڑے ہونے کا یہ مفہوم جو غیرمقلدین نے لیا ہے کہ پاؤں سے پاؤں ملانا چاہیے ، یہ کہاں سے اخذ کرلیا ؟ کتب احناف میں اس کا ذکر نہیں ہے بلکہ تسویۂ  صفوف میں اتصال کا حکم ہے۔

اس لئے آئیے ، دیکھیں کہ علماء نے ان احادیث کا کیا مطلب بیان کیا ہے؛ کیونکہ حدیث کا وہی مطلب معتبر ہوگا جو شراحِ حدیث نے بیان کیا ہے:

(۱)       حدیث کے مشہور شارح علامہ ابن حجرعسقلانیؒ حضرت نعمانؓ کی اسی حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ: 

 ’’المراد بذلک المبالغۃ فی تعدیل الصف وسد خللہ ‘‘ 

اس سے مراد صف کی برابری میں اور درمیانِ صف میں جگہ بند کرنے میں مبالغہ بیان کرنا ہے۔(فتح الباری: ۲؍۲۱۱)

(۲)       علامہ قسطلانی شافعیؒ (م۹۲۳؁ھ)نے نعمان بن بشیر ؓ کی مذکورہ حدیث کا مطلب ان الفاظ سے بیان کیا ہے:

 ’’ المراد بذلک المبالغۃ فی تعدیل الصف وسد خللہ‘‘

یعنی الزاقِ منکب وقدم سے مراد ، تعدیل صف میں مبالغہ اور خلل کو بند کرنا ہے۔(ارشاد الساری شرحِ بخاری : ۲؍۷۶)

(۳)      شارح بخاری علامہ بدر الدین العینی ؒ (م۸۵۵؁ھ) اس کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں :

’’ أشار بھذا إلی المبالغۃ فی تعدیل الصفوف وسد الخلل فیہ‘‘

یعنی الزاقِ منکب وقدم سے تعدیل صفوف اور درمیانی جگہوں کو بند کرنے میں مبالغہ کی جانب اشارہ ہے۔ (عمدۃ القاری شرح بخاری : ۴؍۳۶۰)

(۴)      محدث شہیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ(م۱۳۵۳؁ھ) نے فرمایا کہ حافظ ابن حجرؒ نے کہا کہ مراد اس سے تعدیل صف میں مبالغہ ہے اور خلل کو  بند کرنا ہے، یہی فقہاء اربعہ کے یہاں اس کا مطلب ہے کہ درمیان میں جگہ نہ چھوڑی جائے کہ جس میں تیسراداخل ہوسکے، نیز فرمایا کہ صحابہ اور تابعین کے تعامل سے ہم نے سمجھا کہ ’’إلزاقِ منکب‘‘(یعنی کندھے ملانے سے) صحابہ کی مراد صرف آپس میں ملنا اور جگہ نہ چھوڑنا ہے۔ (فیض الباری : ۲؍۲۳۶)

(۵)      شارح ترمذی علامہ یوسف بنوریؒ فرماتے ہیں :

’’ والحاصل أن المراد ھو التسویۃ والإعتدال لکیلا یتأخر أو یتقدم فالمحاذاۃ بین المناکب وإلزاق الکعاب کنایۃً عن التسویۃ ‘‘

یعنی حاصل  یہ کہ مراد تسویہ اور اعتدال ہے ، تاکہ کوئی موخر اور مقدم نہ ہو، پس کاندھوں کے درمیان برابری اور ٹخنوں کا ملانا یہ تسویہ ٔ صفوف سے کنایہ ہے۔(معارف السنن :۲؍۲۹۸)

(۶)       حضرت مفتی مہدی حسن صاحب ؒ   ’’قلائد الأزہار شرح کتاب الآثار‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’بس الزاقِ منکب بالمنکب اور الزاق کعب بکعب ورکبہ برکبہ وقدم بقدم اور محاذاتِ اعناق ومحاذاتِ مناکب‘‘ 

یہ تمام کی تمام ایک ہی معبر ومعنون کی تعبیرات ہیں اور وہ اعتدال وتسویہ اور مقابہ اور آپس میں محاذات اور اتصال ہے جیسا کہ مخفی نہیں ہے، اور الزاقِ حقیقی کے معنی مراد نہیں ہیں اور کیسے مراد لے سکتے ہیں جبکہ گھٹنے سے گھٹنے کا ملانا متحقق ہی نہیں ہوسکتا، جیسا کہ مشاہدہ ہے، پس مراد محض محاذات ہےاور اور اس کا سوائے اس کے جس کو بصیرت نہ ہو انکار نہیں کرسکتا ۔ (قلائد الازہار : ۲؍۶۷)

شراح حدیث کی ان تشریحات سے واضح ہوا کہ قدم سے قدم یا کاندھے سے کاندھا ملانے سے مقصود صرف صفوں کی درستی وبرابری میں مبالغہ بیان کرنا ہے ، اور اس کا حقیقی معنے مراد نہیں۔

الزاقِ کعب کے حقیقی معنیٰ مراد نہیں :

اور اس کی دلیل یہ ہے کہ :

(۱)       حضرت نعمان بن بشیرؓ کی ایک روایت میں ’’ٹخنے سے ٹخنہ‘‘ ملانے کا ذکر ہے، اور دوسری میں بجائے ٹخنہ کے ’’پیر سے پیر‘‘ ملانے کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی ’’ کاندھے سے کاندھا ‘‘ ملانے کا بھی ذکر ہے۔

اور ظاہر ہے کہ ان دونوں باتوں کو جمع کرنا مشکل ہے کہ ٹخنے بھی ایک دوسرے سے ملیں اور کاندھے بھی ، اسی لئے ٹخنے ملانے کی روایت پر اہل حدیث نہ عمل کرتے ہیں اور نہ عمل کرسکتے ہیں ،  البتہ پیر سے پیر ملانے کی روایت پر عمل کرتے ہیں ، شاید یہ تاویل کرتے ہوں کہ ٹخنے ملانے سے مراد پیر ملانا ہی ہے، مگر اس کے بجائے ان کو یہ تاویل کرنا چاہیے کہ اصل تو ٹخنے ملانا ہی اس کو قدم سے بھی تعبیر کردیا گیا ہے۔

لہذا ٹخنے سے ٹخنے ملاکر کھڑا ہونا چاہیے ، تاکہ دونوں روایات پر عمل ہو، مگر ٹخنے ملانے کا تو ذکر بھی نہیں کرتے ، عمل تو بعد کی بات ہے۔

اسی طرح حضرت انسؓ کی روایت میں کاندھے ملانے کا بھی ذکر ہے، مگر اس کا اہل حدیث لوگ کوئی تذکرہ بھی نہیں کرتے، محض قدم ملانے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ اس کی وجہ یہی ہے کہ دونوں باتوں پر عمل مشکل ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مراد اس کا حقیقی معنیٰ نہیں ہے، بلکہ صرف مبالغہ ہے۔

(۲)       اس کے حقیقی معنیٰ مراد نہ ہونے پر ’’ابوداؤد‘‘ کی ایک حدیث اشارہ کرتی ہے، اس میں حضرت نعمان بن بشیر ؓ ہی کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :

’’فرأیت الرجل یلزق منکبہ بمنکب صاحبہٖ ورکبتہ برکبۃ صاحبہ وکعبہ بکعبہٖ ‘‘

 یعنی میں نے دیکھا کہ آدمی اپنے کندھے کو اپنے ساتھی کے کندھے سے اور اپنے گھٹنے کو اپنے ساتھی کے گھٹنے سے اور اپنے ٹخنے کو (اپنے ساتھی کے ) ٹخنے سے ملاتا تھا۔ (ابوداؤد :۱؍۹۷، سنن بیہقی:۳؍۱۴۳)

امام ابن الملقن ؒ  (م۸۰۴؁ھ)نے ’’خلاصہ البدر المنیر‘‘ میں ابن خزیمہ وابن حبان سے ، امام ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ)نے ’’فتح الباری‘‘ میں ، اور زرقانی ؒنے ’’شرح مؤطا‘‘ میں اس حدیث کی ابن خزیمہ ؒ سے تصحیح نقل کی ہے۔ (خلاصۃ البدر المنیر : ۱؍۲۸، فتح الباری: ۲؍ ۲۱۱، زرقانی علی المؤطا:۱؍۴۵۲)

اس حدیث میں کندھوں اور ٹخنوں کے ساتھ گھٹنوں کا بھی ذکر ہے ، حالانکہ اس کو ملانے کا کوئی بھی قائل نہیں ، کیا اہل حدیث  لوگ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے کبھی گھٹنوں سے گھٹنے ملاتے ہیں ؟

علامہ انور شاہ کشمیریؒ (م۱۳۵۳؁ھ) نے فرمایا کہ خود غور کرو کہ کیا پیروں سے پیر ملانے کے ساتھ ساتھ کاندھے سے کاندھا ملانا بغیر مشقت کے ممکن بھی ہے؟ بلکہ کوشش کے بعد بھی ممکن نہیں ہے۔ (فیض الباری: ۲؍۲۳۷)

غرض یہ کہ حضرت نعمان بن بشیرؓ اور حضرت انسؓ کا مطلب اس سے یہ ہرگز نہیں کہ حقیقۃً پاؤں سے پاؤں اور کندھوں سے کندھا ملاتے تھے، بلکہ بتلانا مقصود ہے کہ درمیان میں حتی الامکان جگہ نہ چھوڑتے تھے اور سب کے سب مل ایسا کھڑے ہوتے کہ اگر تیر بھی پھینکا جائے تو دوسرے کونے میں کسی کو لگے بغیر پہنچ جاتا تھا؛ کیونکہ کوئی مقدم اور کوئی مؤخر نہ ہوتا تھا، اگر اس کو حقیقت پر محمول کیا جائے تو ظاہر ہے کہ بلامشقت ِ شدید اس پر عمل کرنا ممکن نہیں اور تکلف وتصنع کے بغیر اس کو اپنا نا خارج از امکان ہے؛

کیونکہ ایک طرف تو کندھوں کو ملانا اور پھر اس کے ساتھ ہی پیروں سے پیر اور ٹخنوں سے ٹخنے اور مزید گھٹنوں سے گھٹنے ملانا بڑا مشکل ہے، اسی لیے یہ حضرات اہلِ حدیث کندھوں والی بات کی طرف توجہ اور التفات ہی نہیں کرتے ، اور نہ ٹخنوں وگھٹنوں والی بات کی طرف توجہ دیتے ہیں ، صرف قدم ملانے کی طرف متوجہ اور اسی پر مصر ہیں ۔

(۳)      حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ :

 ’’راصوا صفوفکم وقاربوا بینھا وحاذوا بالأعناق ‘‘

صفوف کو ملاؤ اور صفوف کو قریب قریب قائم کرو اور گردنوں کو برابر کرو۔ کہ کوئی اوپر کوئی نیچے نہ ہو۔ (نسائی شریف : ۱؍ ۹۳، سنن بیہقی ۳؍۱۴۲)[1]

اس روایت میں گردنوں کو بھی برابر کرنے کا حکم خود رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا ہے، تو کیا اس پر عمل ممکن بھی ہے کہ بڑی گردن والا اور چھوٹی گردن والا دونوں برابر ہوکر کھڑے ہوجائیں ؟ معلوم ہوا کہ یہ محض تسویۂ صفوف اور اعتدالِ قائمین سے کنایہ ہے کہ سب برابر برابر کھڑے ہوں ، کوئی آگے پیچھے نہ ہو، کوئی اونچ نیچ نہ ہو، تاکہ صفوفِ ملائکہ سے مکمل مشابہت ہوجائے ، اور اسی کا مختلف احادیث میں حکم دیا گیا ہےمثلاً :

حضرت ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ :

 ’’ کان رسول اللہ ﷺ یمسح عواتقنا ویقول : استووا ولا تختلفوا‘‘

رسول اللہ ﷺ نماز میں ہمارے کندھوں کو چھوتے اور فرماتے کہ برابر کھڑے ہو، اور اختلاف نہ کرو۔ (مسلم : ۱؍۱۸۱، نسائی : ۱؍ ۹۳)

اور حضرت براء بن عازبؓ سے مروی ہے کہ :

 ’’کان رسول اللہ ﷺ یتخلل الصفوف من ناحیۃ إلیٰ ناحیۃ ، یمسح مناکبنا صدورنا، ویقول : لا تختلفوا فتختلف قلوبکم ‘‘

رسول اللہ ﷺ صفوں کے درمیان ادھر سے ادھر جاتے اور ہمارے سینوں اور کندھوں کو چھوتے(یعنی برابر کرتے تھے) اور فرماتے اختلاف نہ کرو، کہ کہیں تمہارے دلوں میں اختلاف نہ آجائے۔(نسائی : ۱؍۹۳)[2]

ایک دوسری روایت میں حضرت نعمان ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہماری صفوں  کو اس طرح سیدھا فرماتے گویا کہ آپ تیر (کا نشانہ) برابر کر رہے ہوں ۔ (مسلم : ۱؍۱۸۲، سنن بیہقی : ۳؍۱۴۳)

ان تمام روایات کو سامنے رکھنے سے معلوم ہوگا کہ مقصود صفوف کی درستی ہے، جس کو مختلف تعبیرات  سے بیان کیا گیا ہے اور یہ سب بغرض تسویہ اور مبالغہ فی الاعتدال بیان فرمایا گیا ہے، اور صرف پیر ہی ملانا کوئی مقصود ہوتا تو نبی کریم ﷺ ’’ حاذوا بالاعناق‘‘ کی طرح اس کو بھی بیان فرماتے ، نیز آپ جب کاندھوں اور سینوں کو چھوتے ہوئے ان کو برابر فرما رہے تھے تو پیروں کو بھی ضرور ملاتے ہوئے اور یہ فرماتےہوئے جاتےکہ ان کو ملاؤ۔ وإذ لیس فلیس۔

حاصل یہ کہ مقصود ان تمام اصحاب کا تسویۂ صفوف  کو بیان کرنا ہے، پیر کو ملانا یا کندھوں کو ملانا بیان کرنا مقصود نہیں ہے، اور یہ تعبیرات ہیں جو مبالغہ بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں ۔ ھذا ما عندنا والعلم عند اللہ العلام۔

دو پیروں کے درمیان کا فاصلہ

جب نماز میں کھڑے ہوں تو علماء حنفیہ نے لکھا ہے کہ دو پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصلہ ہونا مستحب ہے، اس پر تنقید کرتے ہوئے مؤلف ’’ حدیثِ نماز ‘‘ نے لکھا ہے کہ :

            ’’ بعض کتابوں میں جو یہ لکھا ہے کہ صف میں کھڑے ہو کر اپنے دونوں پاؤں کے درمیان صرف چار انگل کی جگہ رکھے، تو یہ بات عقل ونقل کے بالکل خلاف ہے، اور یہ بات نہ اللہ و رسول کی فرمودہ اور نہ صحابۂ کرام کی اختیار کردہ ، اور نہ کسی امام کی بیان کردہ، بلکہ اس قدر  بے اعتناء ہے کہ اس کی سند اور دلیل روئے زمین پر کہیں موجود نہیں ہے ‘‘۔(حدیث ِ نماز :ص ۵۶)

            راقم عفی اللہ عنہ کہتا ہے کہ مؤلفِ ’’ حدیث ِ نماز‘‘ کا یہ دعویٰ کہ یہ عقل ونقل کے خلاف ہے، مبنی علی الجہالت ہے اور بے بنیاد      اور خلافِ تحقیق بات ہے، نیز حقائق سے عدمِ واقفیت اور ظاہر پرستی کا تباہ کن نتیجہ ہے، اس لئے ہم یہاں پر بعون اللہ تعالیٰ ناظرین کے سامنے   چند سطور لکھ کر مسئلہ کی اصل نوعیت  کو واشگاف کریں گے۔

چار انگل سے تحدید مراد نہیں  :

            سب سے پہلے یہ بات ملحوظ رکھنا چاہیے کہ احناف کے یہاں دونوں قدم کے درمیان چار انگل کا فاصلہ جو بیان کیا گیا ہے اس سے تحدید مراد نہیں ہے، خود احناف کی کتابوں میں اس تصریح موجود ہے ، مولانا بنوریؒ نے لکھا کہ :

’’ حق یہ ہے کہ قدمین کے درمیان فصل میں کوئی تحدید نہیں ہے ‘‘ ۔  (معارف السنن : ۲؍۲۹۸)

            اسکے علاوہ احناف کا عمل خود علماء کا ہو یا غیر علماء کا یہ بتلاتا ہے کہ مراد تحدید نہیں ہے کوئی بھی اس تحدید کو حقیقت پر محمول نہیں کرتا ، رہے بعض جہلاء ان کا تو کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی ان سے مذہبِ احناف پر کوئی حرف آسکتا ہے۔

            اب رہا یہ کہ کتابوں میں اس کی قید کیوں لگائی گئی ؟ تو اصل بات یہ ہے کہ آدمی کو بے تکلف کھڑے ہونے میں کم وبیش چار انگل کا فاصل کافی ہوتا ہے ، اور اگر کسی کو بے تکلف کھڑے ہونے کے لئے اس سے زیادہ فاصلہ کا تقاضا ہو تو اس کی بلا سکی کراہت کے اجازت ہے،       

تو اصل یہ ہے کہ آدمی بے تکلف اور بلا تصنع کھڑا ہوسکے، اور چونکہ معمولی ڈیل  ڈول والوں کے لئے عموماً چار انگل کا فاصلہ کافی  ہوتا ہے، اسی لئے اس کو ذکر کیا گیا ہے، ورنہ اس سے تحدید مراد نہیں ہے، اور اس کے بیان کی ضرورت اس لئے ہوتی ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہ کم علمی کی بناء پر ایسے معاملات میں متردد وپریشان رہتے ہیں ، تو ان جیسے لوگوں کی سہولت کی غرض سے ایسےاحکام لکھ دیے جاتے ہیں جن کا ماخذ قرآن وحدیث ہی ہوتا ہے۔

            جب یہ معلوم ہوگیا کہ چار انگل کی تحدید نہیں ہے ، بلکہ کم وبیش اتنی مقدار مراد ہے، تو یہ بات واضح ہوگئی کہ مؤلفِ ’’ حدیث ِ نماز‘‘ اس حقیقت کو نہیں سمجھ سکے جس کو ہم نے اوپر حقائق سے عدمِ واقفیت اور ظاہر پرستی سے تعبیر کیا تھا، اس تحدید کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے حدیث میں جناب رسول اللہ ﷺ نے استنجاء مں تین ڈھیلے لینے کا حکم فرمایا ،

اس سے فرقہ ظاہریہ نے یہ سمجھا کہ تین کا عدد خاص طور سے مراد ہے ، اور احناف نے اس کی حقیقت اور اصلیت کو پہچان کر کہا کہ مراد تحدید نہیں بلکہ مراد استنزاہ وصفائی ہے ، خود وہ دو ڈھیلوں سے حاصل ہوجائے ، یا تین سے ، یا اس سے زائد سے ، مگر چونکہ عموماً تین عدد ڈھیلوں سے حاجت پوری  ہو جاتی ہے ، اس لیے حدیث میں تین کا ذکر فرمادیا۔

اسی طرح یہاں فقہاء کے کلام میں چار انگل سے تحدید مراد نہیں ، بلکہ انسان کی  ہیئت طبعی کا اندازہ لگاکر بتایا گیا ہے کہ دو پیروں کے درمیان چار انگل کا فاصل ہونا چاہیے ، اور اس ہیئت ِ طبعی وحالتِ وضعی کو خشوع وخضوع میں دخل ہے ؛ کیونکہ اسکے خلاف میں تکلف اور تصنع ہے جو کہ خوش میں خلل ڈالتا ہے ۔

اوراتنی بات احادیث سے ثابت ہے کہ قیام میں حالتِ وضعی کو باقی رکھنا چاہیے ، چنانچہ : 

(۱)       حضرت عبد اللہ بن الزبیر ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

’’ صَفُّ الْقَدَمَیْنِ وَوَضْعُ الْیُمْنٰی عَلیٰ الْیُسْرٰی مِنَ السُّنَّۃِ ‘‘۔

یعنی پیروں  کو ملا کر رکھنا اور دائیں ہاتھ کو (نماز میں ) بائیں پر رکھنا سنت ہے۔ (ابوداؤد : ۱؍۱۱۰)[3]

(۲)       حضرت ابن مسعود ؓ کے صاحبزادے حضرت ابوعبیدہ تابعیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی کو حضرت عبد اللہ نے نماز میں دونوں پیروں کو ملائے ہوئے دیکھا تو فرمایا کہ:

 ’’ خَالَفَ السُّنَّۃَ وَلَوْ رَاوَحَ بينهما كان أفضل ‘‘

اس نے سنت کی مخالفت کی ، اگر یہ مراوحہ کرتا تو افضل تھا کہ دونوں کو ملاکر نہ کھڑا ہوتا اور آرام سے بلاتکلف کھڑا ہوتا ، دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ اگر مراوحہ کرتا تو مجھے زیادہ اچھا معلوم ہوتا ۔ (نسائی شریف : ۱؍ ۱۰۳)[4]

یہ دونوں روایتیں اگر چہ کہ موقوف ہیں ، مگر دونوں ہی بحکم ِ مرفوع ہیں ؛ کیونکہ صحابی کا لفظ  سنت کہنامرفوع ہونے پر دلیل ہوتا ہے ۔  علامہ نووی ؒ  لکھتے ہیں :

’’ وأما إذا قال الصحابی : أمرنا بکذا أو نھینا عن کذا أو من السنۃ کذا ، فکلہ مرفوع علی المذھب الصحیح الذی قالہ الجمہور من أصحاب الفنون ‘‘۔

یعنی جب صحابی یوں کہے کہ ہم کو اس کا حکم دیا گیا ، یا اس سے روکا گیا ، یا سنت میں سے یہ ہے، تو یہ سب کا سب ، صحیح مذہب کے اعتبار سے مرفوع ہے جس کے جمہور اہل ِ فن قائل ہیں ۔ (مقدمہ شرح مسلم:ج۱ :ص ۱۷)

اور حافظ ابن حجرؒ نے بھی ’’ شرح النخبۃ : ۸۳‘‘ میں اس کی تصریح فرمائی ہے۔

اور حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت میں ان سے روایت کرنے والے حضرت ابو عبیدہ ؒ ہیں ، ان کے بارے میں محدثین نے کہا ہے کہ حضرت ابن مسعود ؓ سے ان کا سماع ثابت نہیں ، چنانچہ امام ترمذیؒ نے ’’ باب ماجاء فی الرجل تفوتہ الصلوات بأیتھن یبدأ ‘‘ اور ’’باب ما جاء فی مقدار القعود فی الرکعتین الأولیین ‘‘ میں فرمایا : ’’ إن أبا عبیدۃ لم یسمع من أبیہ ‘‘ اسی طرح امام طحاویؒ نے بھی ’’وضو بالنبیذ‘‘ کے مسئلہ میں اس کی صراحت کی ہے ۔ (سنن ترمذی : ۱؍۴۳و ۱؍۸۵، طحاوی : ۱؍۷۵)

مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا سماع ’’ طبرانی ‘‘ کی ایک روایت سے صراحت کے ساتھ ثابت ہے جس میں انہوں ’’سَمِعَ‘‘ کے لفظ سے اپنے والد سے سننا بیان کیا ہے ، علامہ بدر الدین العینیؒ نے ’’ عمدۃ القاری شرح بخاری‘‘ میں ان لوگوں کا رد کرتے ہوئے جو ابو عبیدہ کے اپنے والد سے سماع نہ ہونے کے قائل ہیں ، لکھا ہے کہ : یہ قول مردود ہے ، پھر ’’ معجم اوسط طبرانی‘‘ کی روایت اور ’’ مستدرک حاکم ‘‘ کی روایت کے حوالے سے سماع ثابت کیا ہے، اور نیز آگے چل کر فرمایا کہ سماع نہ ہونے کی کوئی وجہ بھی نہیں ؛ کیونکہ حضرت عبد اللہ کی وفات کے وقت ان کی عمر سات برس کی تھی ، اور سات برس کا بچہ جب غیروں واجنبیوں سے سماع کرسکتا ہے تو خود اپنے باپ سے کیوں نہیں کرسکتا ؟ ۔ (عمدۃ القاری : ۲؍۴۲۹ – ۴۳۰)

لہذا حضرت ابن مسعودؓ سے ان کا سماع محقق ہے ، اور یہ حدیث منقطع نہیں بلکہ متصل ہے۔ [5]

 غور کیجئے کہ ان روایات میں سے ایک میں ’’ صف القدم ‘‘ یعنی پیروں کے  ملانے کو سنت کہا گیا ہے، اور دوسری روایت میں ’’ صف القدم ‘‘ ہی کو خلافِ سنت بتلایا گیا ہے، اور دونوں میں اگر چہ لفظاً تعارض معلوم ہوتا ہے مگر حقیقتاً  کوئی تعارض نہیں ہے؛ کیونکہ پہلی روایت  میں صفِ قدم سے مراد زیادہ کشادہ کرنے کی نفی ہے  اور دوسری روایت میں صفِ قدم سے مراد زیادہ ملانے کی نفی ہے، اور دوسری روایت میں ’’ خَالَفَ السُّنَّۃَ وَلَوْ رَاوَحَ بينهما كان أفضل ‘‘ کے الفاظ اس مراد پر صریح دلالت کر رہے  ہیں ؛ کیونکہ زیادہ ملانے میں بھی راحت نہیں بلکہ کلفت ہے اور زیادہ کشادہ کرنے میں بھی کلفت ومشقت ہے ، تو مطلب دونوں روایات کا یہ ہے کہ اعتدال کے ساتھ جو صورت بلا تکلف وتصنع حاصل ہوتی ہے، اس پر قائم رہنا سنت ہے جو کہ مراوحہ ہے۔

مراوحہ کی تفسیر :

مراوحہ کے معنیٰ اہل لغت نے یہ لکھے ہیں کہ کبھی اس قدم پر کھڑا ہونا اور کبھی دوسرے پر کھڑا ہونا ۔  (لسان العرب : ۲؍۴۵۵، القاموس المحیط : ۱؍۲۸۲)

اور علامہ کشمیریؒ نے اس کے معنیٰ ’’ تفریج بین  القدمین ‘‘ (دو قدموں کے درمیان فاصلہ رکھنا) بیان کئے ہیں ۔(فیض الباری : ۲؍۲۳۷)

            راقم کہتا ہے کہ ’’ روِح : بکسر العین ‘‘ کے معنیٰ کشادہ ہونے کے ہیں ، اس سے ’’ مراوحہ ‘‘ بمعنیٰ کشادہ کرنا ہے اور اس کی تائید سیاقِ کلام سے بھی ہوتی ہے، چونکہ ’’صف بمعنیٰ ضم ‘‘ کے مقابلہ میں مراوحہ بولنا اس کے بمعنیٰ ’’ تفریج ‘‘ ہونے کی تائید کرتا ہے۔ واللہ اعلم

نیز ’’ مصنف عبد الرزاق‘‘ میں حضرت عبد اللہ بن عمر کا بھی یہی طریقہ بتایا گیا ہے، چنانچہ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے سے حضرت نافع نے بتایا کہ

 ’’ إن ابن  عمر کان لا یفرسخ بینھما ولا یمس إحداھما الأخریٰ وقال بین ذلک ‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر قدموں کو کشادہ نہیں رکھتے تھے اور اور نہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے مس کرتے تھے، فرمایا کہ ان کے درمیانی شکل ہوتی تھی ۔(مصنف عبد الرزاق : ۲؍۲۶۴)[6]

نیز ،ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے نماز میں دونوں قدموں کو  ملانے کے بارے میں پوچھا تو فرمایا کہ : 

’’أما ھکذا حتی تماس بینھما فلا ، ولکن وسطاً بین ذلک ‘‘ 

اس طرح کہ دونوں قدم مس ہوجائیں ، ایسا نہیں لیکن درمیانی صورت ہو۔ (مصنف عبد الرزاق : ۲؍۲۶۴)[7]

حاصل یہ ہے کہ ان روایات میں قدموں  کو زیادہ ملانے اور زیادہ کشادہ رکھنے کو  خلافِ سنت کہا گیا ہے، لہذا معتدل طریقہ کرنا چاہیے ، اور یہ بات چونکہ عموماً چار انگل سے یا کم و بیش سےحاصل ہوجاتی ہے، اس لیے اس کا ذکر فقہاء نے کیا ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسے فقہاء کرام نے غسل کے تین فرائض بیان کئے ہیں ، ایک کلی کرنا ، دوسرے ناک میں پانی ڈالنا ، اور تیسرے سارے بدن پر پانی بہانا، حالانکہ یہ تعبیر نہ قرآن میں آئی ہے اور نہ حدیث میں ، مگر اس کے باوجود اس کو بے دلیل نہیں کہہ سکتے ؛ کیونکہ یہ در اصل قرآن میں بیان کردہ حکم : ’’ وإن کنتم جنباً فاطھروا ‘‘۔ (المائدۃ : ۶) کی ایک دوسری تعبیر ہے ؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ غسل میں خوب اچھی طرح پاک ہوجاؤ، اور یہ پاکی اس طرح ہوگی کہ جہاں تک بدن میں پانی پہنچایا جاسکتا ہے وہاں تک پانی پہنچاؤ، لہذا فقہاء نے اندازہ لگایا اور فرمایا کہ تین فرض ہیں اور بعض اعظاء کو الگ الگ شمار اور فرائض کی تعداد اس سے زیادہ بتائی ، یہ سب در اصل اسی حکم خداوندی کی مختلف تعبیرات ہیں ، ان کو بے دلیل نہیں کہا جاسکتا۔

اسی طرح زیر بحث مسئلہ میں فقہاء کا  یہ کہنا کہ چار انگل کا فاصلہ ہونا چاہیے، حدیث ہی کی ایک آسان ونئی تعبیر ہے اس کو بے دلیل کہنا ، اسلوب بیان سے ناواقفیت ہے۔

            اس سے بخوبی واضح ہوگیا کہ یہ بات بطریقِ عقل بھی اور بطریقِ نقل بھی ثابت ہے :  بطریق نقل تو ابھی مذکور ہوا ، ربا بطریقِ عقل تو اس کی طرف اشارہ ہوچکا ہے، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اس طرح بلاتکلف کھڑے ہونے میں خشوع وخضوع جو کہ مقصود اعظم ہے ، حاصل ہوتا ہے، اس کے خلاف کرنے میں خشوع وخضوع میں خلل  ہوتا ہے ، لہذا اس نظریہ ٔ عقلی سے بھی اس کی تائید ہوگئی اور ساتھ ہی مؤلف کا بے بنیاد دعویٰ باطل ہوگیا۔ واللہ أعلم وعلمہ أتمّ ۔ [8]

 



[1] اس حدیث کو حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ)، حافظ عبد الرووف المناویؒ(م۱۰۳۱؁ھ)،امام،حافظ،محدث اور فقیہ علی بن احمد العزیزیؒ(م۱۰۷۰؁ھ) وغیرہ نےصحیح کہا ہے۔(الاحادیث المختارۃ  للمقدسی : ج۷: ص۴۱-۴۲، التيسير بشرح الجامع الصغيرللمناوی : ج۲: ص۲۵، السراج المنير شرح الجامع الصغير في حديث البشير النذير : ج۳: ص۱۷۶)،شیخ الالبانی ؒ، سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي وغیرہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(سنن نسائی بتحقیق الالبانی : حدیث نمبر ۸۱۵، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۰: ص ۲۵۸)

[2] یہ حدیث صحیح ہے۔ شیخ الالبانی ؒ، سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي وغیرہ نے بھی اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔(سنن نسائی بتحقیق الالبانی : حدیث نمبر ۸۱۱، ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۰: ص ۲۴۱)

 

[3] اس روایت کے تمام روات ثقہ  یا صدوق ہیں۔امام نوویؒ ۶۷۶؁ھ) اس سند کو حسن اور امام ابن المقلن ؒ ۸۰۴؁ھ) نے اس سند کو جید کہتے ہیں۔(خلاصۃ الاحکام للنووی : ج۱: ص۳۵۷،البدر المنیر لابن المقلن : ج۳: ص۵۱۲)،شیخ الالبانی ؒ نے  اس حدیث ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’هذا إسناد ضعيف أيضا , زرعة هذا لم يرو عنه إلا اثنان:العلاء هذا أحدهما , ولم يوثقه غير ابن حبان والعلاء بن صالح ثقة فى حفظه ضعف ‘‘۔(ارواء الغلیل : ج۲: ص۷۴)، لیکن دوسرے سلفی علماء نے مثلاً شیخ زبیر علی زئی  نے کہا : کہ اس کی سند حسن ہے اور  زرعہ الکوفی سے ۲ ثقہ راویوں نے روایت کی ہے۔ اور ان کو ابن حبانؒ،ذہبیؒ اور ضیاء الدین مقدسی ؒ نے  ثقہ قرار دیا ہے۔(سنن ابی داود : تحقیق زبیر علی زئی : حدیث نمبر ۷۵۴)اسی طرح  ایک اور سلفی شیخ   محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي نے بھی کہا : کہ ’’ رجال هذا الإسناد ثقات، وزرعة، وإن قال في التقريب: مقبول، لكنه وثقه ابن حبان، وقال الذهبي في "الكاشف": ثقة. فالظاهر أن الحديث صحيح، وإن ضعفه بعضهم. والله تعالى أعلم ‘‘۔(ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۱: ص ۳۲۵)  اور العلاء بن صالح کی جمہور ائمہ کی توثیق کی ہے۔ لہذا یہ حدیث حسن ہے۔

[4] اس روایت کے بھی تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔جیسا کہ سلفی شیخ محمد بن علي الإثيوبي الوَلَّوِي نے ثابت کیا ہے۔ (ذخيرة العقبى في شرح المجتبى: ج۱۱: ص ۳۲۰)، مگر شیخ الإثيوبي نے کہا : کہ  اس کی سند منقطع ہے۔کیونکہ ابو عبیدہ  کا سماع ان کے والد سے ثابت نہیں ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا سماع  ابن مسعود ؓ  سے ثابت ہے۔ نیز بعض ائمہ  نے اس  ’’ابو عبیدۃ عن ابن مسعود‘‘ کی سند کو منقطع تسلیم کیا،مگراس سند سے مروی حدیث کو جید،اور مضبوط قرار دیا ہے۔جس کی تفصیل  ص: پر موجود ہے۔لہذا یہ اعتراض سے حدیث کو نقصان نہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ امام نسائیؒ ۳۰۳؁ھ)  نے بھی  کہا : کہ ’’ أبو عبيدة لم يسمع من أبيه والحديث جيد ‘‘ ابو عبیدہ  ان کے والد سے کا سماع نہیں سنا، لیکن حدیث مضبوط ہے۔(السنن الکبری للنسائی : ج۱: ص ۴۶۴)

[5] دیکھئے ص :۔

[6] اس کی سند صحیح ہے۔امام عبد الرزاق الصنعانیؒ ۲۱۱؁ھ)،امام ابن جریجؒ۱۵۰؁ھ)،امام نافع مولی ابن عمرؒ۱۱۷؁ھ) وغیرہ مشہور ائمہ ثقات ہیں۔

[7] اس کی سند بھی صحیح ہے۔امام عبد الرزاق الصنعانیؒ ۲۱۱؁ھ)،امام ابن جریجؒ۱۵۰؁ھ)،امام عطاء بن ابی رباحؒ۱۱۴؁ھ) وغیرہ مشہورثقہ روات ہیں۔

[8] نماز میں پاوٓں زیادہ پھیلانے ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی  مذمت :

(۱)         مشہور سلفی عالم  شیخ  محمد بن صالح العثیمینؒ(م۱۴۲۱؁ھ) سے سوال کیا گیا :

              سئل فضيلته: يوجد جماعة يفرجون بين أرجلهم في الصلاة قدر ذراع، فقال لهم أحد الجماعة لو تقربون أرجلكم حتى يكون بين الرجلين بسطة كف اليد لكان أحسن، فردوا عليه بقولهم: إنك راد للحق لأن فعلنا هذا قد أمر به الرسول صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، آمل منك جزاك الله خيراً أن توضح لنا هذه المسألة توضيحاً وافياً؟

فأجاب بقوله: التفريج بين الرجلين إذا كان يؤدي إلى فرجة في الصف، بحيث يكون ما بين الرجل وصاحبه منفتحاً من فوق فإنه مكروه لما يلزم عليه من مخالفة أمر النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالتراص؛ ولأنه يفتح فرجة تدخل منها الشياطين.

وكان بعض الناس يفعله أخذاً مما رواه البخاري عن أنس بن مالك - رضي الله عنه - أنه قال: "وكان أحدنا يلزق منكبه بمنكب صاحبه وقدمه بقدمه"  ، وهذا معناه: تحقيق المحاذاة والمراصة، والإنسان إذا فرج بين قدميه بمقدار ذراع سوف ينفتح ما بين المنكبين مع صاحبه، فيكون الفاعل مخالفاً لما ذكره أنس - رضي الله عنه - عن فعل الصحابة رضي الله عنهم.

وأما قول من يفرج: إن هذا قد أمر به النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فالنبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إنما أمر بالمحاذاة فقال: "أقيموا الصفوف ، وحاذوا بين المناكب، وسدوا الخلل، ولا تذروا فرجات الشيطان، ومن وصل صفاً وصله الله، ومن قطع صفاً قطعه الله". ولم يقل: "فرجوا بين أرجلكم"، ولم يقل: "ألزقوا المنكب بالمنكب والقدم بالقدم"، ولكن الصحابة - رضي الله عنهم - كانوا يفعلونه تحقيقاً للمحاذاة ولكن إذا لزم من إلزاق الكعب بالكعب انفراج ما بين المنكبين صار وقوعاً فيما نهى عنه النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ من فرج الشيطان.

وأما قول أحد الجماعة خلوا بين أرجلكم بسطة كف فلا أعلم له أصلاً من السنة، والله أعلم.

(ترجمہ کرنا ہے)۔(مجموع فتاوى ورسائل فضيلة الشيخ محمد بن صالح العثيمين : ج۱۳: ص ۲۸-۲۹)

ایک اور مقام پر شیخ نے ’’ كعبه بكعب ‘‘ کی حدیث کے بارے میں کہا : ’’ ليس يدل على أنك تفتح القدمين حتى تلصقها بكعب أخيك‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔( تعليقات ابن عثيمين على الكافي لابن قدامة: ج۲: ص۱۹)

(۲)         ایک اور مشہور سلفی ،امام عبد العزیز بن   عبد اللہ بن بازؒ(م۱۴۲۰؁ھ) سے پوچھا گیا :

              مسألة في حكم المبالغة في التفريج بين القدمين

س: نلاحظ أن بعض الناس يبالغ في الفتحة ما بين القدمين حتى إنه يؤذي من بجانبه

ج: ينبغي لكل مصل ألا يؤذي جاره، وأن يحرص على سد الخلل من دون إيذاء، كل واحد يطلب من أخيه أن يقرب حتى يلزق قدمه بقدمه بدون محاكة ولا إيذاء، المقصود سد الخلل، فلا يفشج ويباعد بين رجليه ويؤذي جيرانه، ولا يمتنع الجيران من القرب منه، بل كل واحد يقرب من أخيه ويسد الخلل، كما أمر بهذا النبي عليه الصلاة والسلام، فإنه قال: سدوا الفرج، وقال أنس رضي الله عنه: «كان أحدنا يلصق قدمه بقدم صاحبه فينبغي لك يا عبد الله أن تلاحظ سد الخلل وسد الفرج من دون أن تؤذي جيرانك بالفشج، وهو كذلك جارك يحرص على أن يستقيم في وقفته وفي موضع قدميه؛ حتى يأخذ سد الخلل من دون الإيذاء من كل واحد لجاره۔

(ترجمہ کرنا ہے)۔( فتاوى نور على الدرب: ج۱۲: ص۲۳۵)

(۳)        اسی طرح جامع ازھر کے مفتی  عطیہ سقر نے کہا :  قیام میں دونوں قدموں کے درمیان  بہت فاصلہ کرنا عرفاً  قبیح اور بُرا ہے۔اگے مفتی صاحب نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔مفتی  صاحب کے الفاظ  یہ ہیں :

’’ التفريج بين الأقدام بمسافة كبيرة تتفاحش عرفا كما يقول المالكية والحنابلة، وتزيد على الشبر كما يقول الشافعية وعلى الأصابع الأربعة كما يقول الحنفية، وذلك مكروه ‘‘  ۔(فتاوى دار الإفتاء المصرية: ج۹: ص۸۶، احسن الکلام فی  الفتاوی والاحکام المعروف فتاوی مفتی عطیہ صقر:ج۳:ص۳۲۳)

(۴)        نیز مشہور سعودی دار الافتاء  میں کئی سلفی اور  کبار سعودی  علماء   ،مثلاً  شیخ صالح بن فوزان،

(۵)        شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ  بن محمد آلہ شیخ،

(۶)         شیخ  عبد اللہ بن غدیان ،

(۷)        شیخ ابو زید بکر  وغیرہ نے بھی کہا : ’’ لا تفريجا كثيرا بين رجليه بل يكون معتدلا ‘‘ دونوں قدموں   کے درمیان  بہت فاصلہ کرنا نہ  چاہئے،بلکہ ان کو معتدل حالت  میں رکھنا   چاہئے۔(فتاوى اللجنة الدائمة- المجموعة الثانية-: ج۵: ص ۳۵۷)

(۸)        ایک اور سعودی سلفی عالم  شیخ عبداللہ  بن عبد الرحٰمن بن جبرین  کہتے ہیں کہ  ’’ أيضاً نلاحظ أن بعضهم يُفرج بين قدميه إذا قام فيترك بين قدميه نحو ذراع أو أكثر، فيكون بذلك متسبباً في وجود فرجة بينه وبين الآخر، فيكون هناك تفريج كبير بين الأقدام، وقصده من ذلك العمل بظاهر الحديث، وهو إلصاق الكعب بالكعب، فنقول: لا يلزم الالتماس، ولكن التقارب هو المطلوب فقط، فإذا حصل التقارب لم يحصل هذا التفرق، ولا الفرج ولا الاختلال ‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔ (شرح عمدۃ الاحکام لابن جبرین : ج۱۲: ص۶)

(۹)         شیخ عبد الکریم الخضیر سعودی،سلفی عالم   حدیث’’ كعبه بكعب ‘‘کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ ليس معنى هذا أنه إذا كان بينك وبين أخيك فرجة أو خلل أن تمد رجلك وهو يمد رجله إلى أن يصل بعضكم إلى بعض، ما هو بالحل في سد الخلل وسد هذه الفرج أن الإنسان يمد رجليه ويباعد ما بينهما حتى يصل إلى رجل أخيه لا؛ لأنه إذا حصلت المحاذاة بالأقدام في هذه الصورة لم تحصل المحاذاة بالمناكب، والمطلوب المحاذاة بالمناكب والأقدام، فالإنسان عليه أن يأخذ من الصف بقدر جسمه لتتم المحاذاة، وإلا إذا فحج بين رجليه ومد وباعد ما بينهما الفرج موجودة، ولا يتم امتثال المحاذاة محاذاة الرجلين فقط، بل لا بد أن تكون المحاذاة بالأقدام وبالمناكب أيضاً، وبعض الناس يحرص على تطبيق السنة ويؤذي الناس برجليه، وبعض الناس لا يحتمل مثل هذه التصرفات، بعضهم يصير حساس، قد يترك الصلاة إذا مست رجله، بعض الناس حساس، فالإنسان يختبر جاره إذا كان يرتب على تطبيق هذه السنة محظور أعظم يترك هذا، يترك بينه وبينه فرجة يسيرة جداً بحيث لا تكون خلل في الصف، ولا يؤثر على صلاة أخيه، ولا شك أن الالتصاق بين الصفوف والتراص أمرٌ مطلوب، لكن بحيث لا يترتب عليه أثر أشد منه ‘‘(ترجمہ کرنا ہے)۔  (شرح موٓطا للخضیر : ج۲۵: ص ۱۷)

(۱۰)       غیر مقلد ،اہل حدیث مبلغ ، ابو زید ضمیر صاحب کہتے ہیں :

’’دوسری بات یہ کہ دونوں پاؤں نماز میں،دونوں پاؤں پھیلانایہ کوئی نیکی نہیں ہے ، بلکہ یہ خلافِ اصل ہے ، حدیث میں کیا ہے ، اللہ کے نبی ﷺکیا فرماتے؟ ’’استووا ‘‘ آج بھی آپ دیکھیں ائمہ ، بہت سارے علماء  کہتے ہیں :’’استووا ‘‘ ٹھیک ٹھیک کھڑے رہو، ’’واعتدلوا‘‘ اعتدال کے ساتھ کھڑے رہو، بیلنس کھڑے رہو ، یہ نہیں کہ پاؤں پھیلاکے  آدمی کھڑے رہ رہا ، بے چارہ ایک آدمی ثواب مل جاتا ، پہلی صف میں وہ بھی آجاتا ، اس کی بھی جگہ پر قبضہ کرکے پاؤں پھیلا کےٹھہرا ہے،کیا ضرورت ہےاس کو ، قبضہ کرنے آیا مسجد میں ، گھر میں جگہ نہیں تیرے، کیوں آرہایہاں پہ، تو اس طرح سے پاؤں پھیلاکے ٹھہرنا ، کندھوں کے ملنے میں رکاوٹ ہے، کندھے ملنا چاہیے کہ نہیں ؟ کندھے ہی ملنا چاہیے، اب پاؤں پھیلاؤگے تو رکوع میں کیسے جاؤگے،ویسے ہی ؟  رکوع میں بیلنس نہیں رہ جائے گا آپ کا ، لوگ کیا کرتے ہیں ، رکوع میں پاؤں سمیٹ لیتے ہیں ،پھر صف سے قدم نہیں مل رہے ہیں آپ کے، تو آپ ایسا کچھ مت کرو جو ہماری دعوت کیلئے تنقید کا ذریعہ بنے ، وہی کام کرو جو ثابت ہے، بہت سے لوگ آتے ہیں ، بہت سے لوگ تنقید کرتے ہیں ، دیوبندی ہیں یا دوسری مسجدوں میں  جو ہمارے بھائی جاتےہیں وہ لوگ  دیکھتے ہیں، یہ آئےایک دم  پاؤں پھیلائے، ہاتھ ایسا ، سر بھی ایسا ، وہ لوگ  خود کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ  یہ نماز پڑھنے کیلئے نہیں کشتی لڑنے کیلئے آئے ہیں ، اور واقعی لگتا بھی ایسا ہی ہے دیکھ کے اس کو ، ایک دم تکبر کے ساتھ ، پاؤں پھیلاکے ، ہے کوئی تمہاری مسجد میں بتاؤ، تو ایسا نہیں کرنا چاہیے ، ہم ادب سے ٹھہریں ، اللہ کے سامنے کھڑا ہےبھائی ، ڈرے وہ کہ میں کس کے سامنے کھڑا ہوں ، اللہ رب العالمین کے سامنے کھڑا ہوں ، وہ ان کی ٹکر میں کھڑا  رہتا ہے، ہے کوئی رفع الیدین کو روکنے والا ، تو ایسا نہیں ہونا چاہیے ، ہم اللہ کیلئے نماز پڑھ رہے ہیں ، کسی کی ضد سے نہیں پڑھ رہے ہیں‘‘ ۔

دیکھئے ان کا وڈیوں

 

(۱۱)        اہل حدیث حضرات کے مجتہد العصر ،مولانا عبد اللہ روپڑی  لکھتے ہیں  : بعض لوگ قدم زیادہ چوڑے کرکے کھڑے ہوتے ہیں جس سے کندھے نہیں ملتے وہ غلطی کرتے ہیں،کیونکہ اس حدیث میں جیسے قدم ملانے کا ذکر ہے کندھے ملانے کا بھی ذکر ہے۔(فتاوی علماء حدیث : ج۱ : ص۲۱)

              معلوم ہوا کہ خود سلفی  اور اہل حدیث علماء  نماز میں پاوٓں زیادہ پھیلانے اور  ٹخنے سے ٹخنہ ملانے کی مذمت اور اس سے منع کرچکے ہیں۔لہذا  قرآن اور حدیث کو اسلاف کے فہم سے سمجھنے کا دعوی کرنے والوں سے گزارش ہے کہ   وہ حدیث ’’ كعبه بكعب ‘‘   کے تحت  اسلاف کا فہم  پیش کریں کہ  اسلاف نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملاتے  یا اس کے قائل تھے ۔ورنہ  خود اپنے علماء   کی نصیحت کو قبول کرلیں کہ  نماز میں ٹخنے سے ٹخنہ ملانا سنت نہیں ہے۔



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر10

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں


تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...