امام کے پیچھے قراءت
کرنے کی ممانعت ۔(قسط ۳)
(رسول اللہﷺ کے
کلام مبارک سے)
-
مولانا نذیر الدین قاسمی
دلیل نمبر ۳ :
امام
ابو داود ،سیلمان بن الاشعث السجستانی ؒ (م۲۷۵ھ)
نے کہا :
حدثنا
القعنبي، عن مالك، عن ابن شهاب، عن ابن أكيمة الليثي، عن أبي هريرة، أن رسول الله
صلى الله عليه وسلم انصرف من صلاة جهر فيها بالقراءة فقال: «هل قرأ معي أحد منكم
آنفا؟»، فقال رجل: نعم، يا رسول الله، قال: «إني أقول مالي أنازع القرآن؟»، قال:
فانتهى الناس عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه النبي صلى
الله عليه وسلم بالقراءة من الصلوات حين سمعوا ذلك من رسول الله صلى الله عليه
وسلم۔
حضرت ابو ہریرہؓ
فرماتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم ﷺ ایک ایسی نماز سے فارغ ہوئے جس میں آپ ﷺ نے جہراً
(زور سے) قراءت فرمائی تھی، پھر آپ نے دریافت فرمایا :کیا ابھی تم میں سےبھی کسی
نے میرے ساتھ ساتھ قراءت کی؟تو ایک صاحب نے عرض کیا : جی ہاں ، اےاللہ کےرسول، آپ
نے ارشاد فرمایا : تبھی تو میں کہوں کہ قرآن میں مجھ سے کشمکش کیوں کی جارہی ہے۔
آگے( حضرت ابو
ہریرہؓ) کہتے ہیں:جب لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا تو لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ(نماز پڑھتے ہوئے)قراءت
کرنے سے رک گئے ، ان نمازوں میں جن میں آپ ﷺ بلند آواز سے قراءت فرماتے۔
(سنن ابو داود:
حدیث نمبر ۸۲۶)
یہ روایت
باکل صریح ہے کہ جہری نمازوں میں قراءت منسوخ ہوگئی تھی۔
اس حدیث کو امام
ابو داود ؒ(م۲۷۵ھ)،امام ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ)،امام ترمذی ؒ(م۲۷۹ھ)،امام
ابو علی الطوسیؒ(م۳۱۲ھ)،حافظ ابن حبانؒ(م۳۵۴ھ)،امام ابو عبد اللہ
الحاکم ؒ (م۴۰۵ھ)، حافظ بغوی ؒ (م۵۱۶ھ)، حافظ اعبد الحق الاشبیلیؒ(م۵۸۱ھ)،حافظ
ابن قطان ؒ (م۶۲۸ھ) وغیرہ نے صحیح یا حسن قرار دیا ہے۔(سنن ابو داود: حدیث نمبر ۸۲۶،
شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص ۱۴۳۲،صحیح ابن
حبان : حدیث نمبر ۱۸۴۹،مصابیح السنۃ : ج۱: ص ۳۳۲)
لہذا یہاں پر روات
کی تفصیل کی ضرورت نہیں ۔[1]
اعتراض :
اثری
صاحب نے کئی حفاظ سے نقل کیا کہ ’’ فانتهى الناس عن القراءة مع رسول
الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه ‘‘ کے الفاظ امام
زہری ؒ (م۱۲۵ھ) کا مدرج ہے، حضرت ابو ہریرہ کے الفاظ نہیں ہے۔
الجواب :
اولاً امام
ابو داود ؒ (م۲۷۵ھ) نے کہا کہ :
’’ وقال ابن السرح في حديثه: قال معمر: عن الزهري، قال
أبو هريرة: فانتهى الناس ‘‘۔
امام ابو داؤد ؒ
لکھتے ہیں: ابن سرحؒ نے اپن.ی حدیث میں یہ (بھی) کہا ہےکہ: معمرؒ ،زہریؒ سے روایت
کرتے ہوئے کہتے ہیں: حضرت ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا: ’’پس لوگ رک گئے‘‘۔(سنن ابو
داود : حدیث نمبر ۸۲۷)[2]
اسی
طرح ثقہ ،عابد ،ابو محمد عبد اللہ بن
عون الخراز البغدادی ؒ (م۲۳۲ھ) کی
روایت کے اخیر میں بھی یہ جملہ ہے کہ ابو
ہریرہ ؓ نے فرمایا:( لوگوں نے جہری نمازوں میں قراءت ترک کردی)۔(شرح ابن ماجہ لمغلطائی : ص ۱۴۳۲)
غالباً یہی وجہ ہے کہ :
مشہورمتکلم
و صدوق[3]
امام ابومنصورماتریدی ؒ (م۳۳۳ھ)،محدث
ابو عبد اللہ ، محمد بن علی
المازریؒ(م۵۳۶ھ)، حافظ
الحدیث ،امام، قاضی عیاض القرطبیؒ(م۵۴۴ھ)،
حافظ ابو العباس القرطبی ؒ (م۶۵۶ھ) وغیرہ نے’’ فانتهى الناس
عن القراءة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيما جهر فيه ‘‘ کے
جملہ کو حضرت ابو ہریرہ ؓ کا قول قرار دیا ہے۔(تاویلات اہل
السنۃ للماتریدی
: ج۵: ص ۱۲۸،شرح التلقین : ج۱ :ص ۵۹۴، ۵۱۷، اکمال
للقاضی عیاض :ج۲: ص ۲۷۸ ،المفہم للقرطبی ج۲: ص۲۸)
اور یہی راجح ہے۔ واللہ اعلم
بالفرض اگر اثری صاحب کی یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ یہ
امام زہریؒ کا قو ل ہے،امام ابوہریرہؓ کا نہیں ، تب بھی یہ جملہ اپنی پوری قوت کے
ساتھ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ صحابہ
کرام ؓ ، حضرت نبی اکرم ﷺکی اقتداء میں نماز پڑھتے ہوئے ، جہری نمازوں میں قراءت
نہیں کرتے تھے، چنانچہ :
خود
اہل حدیث حضرات کا اصول ہے کہ راوی حدیث اپنی حدیث کو دوسروں سے زیادہ جانتا ہے۔(فتاوی
الشیخ الالبانی فی المدینۃ و الامارات : ص۱۴۶،فتاوی البانیہ:ص۲۳۶)، تو امام زہری ؒ (م۱۲۵ھ) اس حدیث کو
دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں، لہذا ان کے
الفاظ کا اعتبار کیا جائے گا۔
اسی طرح حافظ ابن
تیمیہ ؒ(م۷۲۸ھ) کہتے ہیں :
وهذا إذا كان من كلام الزهري فهو من أدل الدلائل على أن الصحابة لم
يكونوا يقرءون في الجهر مع النبي - صلى الله عليه وسلم - فإن الزهري من أعلم أهل
زمانه، أو أعلم أهل زمانه بالسنة، وقراءة الصحابة خلف النبي - صلى الله عليه وسلم
-
اور جب یہ امام زہریؒ کا کلام ہے، تو یہ اس بات پرسب
سے مضبوط دلیل ہے پر کہ صحابہ کرام ؓ جہری نمازوں میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تلاوت
نہیں کرتے تھے، اس لئے کہ امام زہری ؒ اپنے زمانہ کے سب سے بڑے عالم ، نیز سنت اور
نبی اکرم ﷺ کے پیچھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی قراءت کے بارے میں سب سے زیادہ
علم رکھنے والے ہیں۔(الفتاوی الکبری : ج۲: ص ۲۹۱)
لہذا
قول راجح یہی ہے کہ یہ ابو ہریرہ ؓ کا قول ہے۔واللہ اعلم
اور اثری
صاحب کا اعتراض مردود ہے۔
دلیل نمبر ۴ :
امام
بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) نے کہا :
أخبرنا
أبو الحسن علي بن أحمد بن الحمامي المقرئ أنا أحمد بن سلمان الفقيه نا إبراهيم بن
الهيثم نا آدم نا ابن أبي ذئب , عن محمد بن عمرو , عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان
, عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما كان من صلاة يجهر فيها
الإمام بالقراءة فليس لأحد أن يقرأ معه۔
حضرت
ابوہریرہؓ فرماتےہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نماز میں امام جہر سے قراءت کرتا ہو،تو اس نماز
میں کسی لئے جائز نہیں ہے کہ
وہ امام کے ساتھ قراءت کرے۔(کتاب القراءۃ للبیہقی : ص ۱۴۴)
سند کی تحقیق :
(۱) امام
بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) مشہور ثقہ، حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام للذہبی)
(۲) ابو الحسن،علی بن احمد بن عمر بغدادیؒ(م۴۱۷ھ) بھی ثقہ،فاضل
،مقری ہیں۔( السَّلسَبِيلُ النَّقِي في تَرَاجِمِ شيُوخ البَيِهَقِيّ:
ص۴۷۰)
(۳) احمد
بن سلمان ، ابو بکر النجاد ؒ(م۳۴۸ھ) صدوق ،مکثر ہیں۔(الدلیل المغنی : ص ۹۱)[4]
(۴) ابراہیم
بن
الہیثم البلدی
ؒ (م۲۸۰ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۲۶۳)
(۵) آدم
بن ابی ایاس ؒ (م۲۲۱ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ،عابد ہیں۔(تقریب :
رقم ۱۳۲)
(۶) محمد
بن عبد الرحمٰن بن ابی ذئب ؒ (م۱۵۹ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،فاضل ، فقیہ
ہیں۔(تقریب : رقم ۶۰۸۲)
(۷) محمد
بن عمرو بن عطاء ، ابو عبد اللہ المدنی ؒ (م۱۲۰ھ)
بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب
: رقم ۶۱۸۷)
(۸) محمد
بن عبد الرحمٰن بن ثوبان ؒ بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۶۰۶۸)
(۹) ابو
ہریرہ ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ اور حافظ الصحابہ ہیں۔
لہذا
اس سند کے تمام روات ثقہ ہیں،پس سند صحیح ہے۔
اعتراض :
اثری
صاحب نے امام بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) سے
نقل کیا ہےکہ یہ روایت منکر ہے اور مجموع اخبار میں ، میں نے اسے
کہیں نہیں پایا۔(توضیح الکلام : ص ۷۹۱)
الجواب :
چونکہ
اس روایت کے شواہد موجود ہیں۔(دیکھئے : دلیل نمبر ۲ اور اسکے شاہد و متابعات ) لہذا
امام بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ) کا اعتراض غیر صحیح ہے۔ واللہ اعلم
دلیل نمبر ۵:
حافظ
ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۳۵ھ) نے کہا :
نا
زيد بن الحباب، نا معاوية بن صالح، قال: حدثني أبو الزاهرية، قال: حدثني كثير بن
مرة الحضرمي، قال: سمعت أبا الدرداء، يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفي
كل صلاة قراءة؟ فقال: نعم فقال رجل من الأنصار: وجبت هذه، فقال له - وكان أقرب
القوم إليه : ما أرى الإمام إذا أم القوم إلا قد كفاهم۔
رسول
ﷺسے سوال کیا گیا : کیا ہر نماز میں قراءت ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا : ہاں ۔ ایک انصاری ؓ نے کہا
کہ پھر تو قراء ت واجب ہوگئی، تو رسول ﷺ نے ابو درداء سے کہا کہ جبکہ وہ آپ ﷺ سے سب سے
قریب تھے کہ میں تو یہی جانتا ہوں کہ امام کی قراءت مقتدیوں
کو کافی ہے۔(مسند ابن ابی شیبہ : ج۱: ص ۴۷)
سند کی تحقیق :
(۱) حافظ
ابو بکر ابن ابی شیبہؒ(م۲۳۵ھ) مشہور شیخین کے مشہور استاذ اور ثقہ،امام اور ثبت،حافظ الحدیث
ہیں۔
(۲) زید
بن الحبابؒ(م۲۳۰ھ) مسلم اور سنن
اربع کے راوی ، ثقہ،حافظ الحدیث اور امام
ہیں۔(سیر : ج۹: ص ۳۹۳)
آپؒ کی توثیق درج
ذیل ہے :
- حافظ
وکیع ؒ (م۱۹۸ھ) نے کہا : نعم الرجل زيد بن
حباب۔
- امام
یحیی بن معین ؒ (م۲۳۳ھ) نے کہا : ثقۃ۔
- امام
علی بن المدینیؒ (م۲۳۳ھ)نے کہا : ثقۃ۔
- ثقہ،ثبت،امام
عبید اللہ القواریری ؒ (م۲۳۵ھ) نے کہا : كان أبو الحسين العكلى ذكيا حافظا عالما ۔
- حافظ
عثمان بن ابی شیبہ ؒ (م۲۳۹ھ) نے کہا : ثقۃ۔
- امام
احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) نے کہا : وكان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح۔
- حافظ
احمد بن صالح المصریؒ (م۲۴۸ھ) نے کہا : و
كان
ثقۃ معروفا بالحديث ، صدوقا إلا أنه كان يأنف أن يخرج
كتابه، فكان يملي من حفظه، فربما وهم في الشيء، وكان راوية عن معاوية بن صالح
والثوري وحسين بن واقد، وكان صاحب سنة، وكان محتاجا فقيرا متعففا كثير الحديث۔
- حافظ
ابو سعید الأشج(م۲۵۷ھ)نے کہا : وكان نعم الرجل، كان والله حسن الخلق ۔
- امام
عجلیؒ(م۲۶۱ھ) نے کہا : ثقۃ۔
- امام
ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ) نے کہا : صدوق ، صالح الحدیث۔
- امام ،حافظ
ابو مسلم،ابراہیم بن عبد اللہ الکجی ؒ(م۲۹۲ھ) نے کہا : كان ثقة معروفا بالحديث،
صاحب سنة صدوقا كثير الحديث، كيسا صابرا على القدر حالا۔
- حافظ
ابو زکریا الازدیؒ(م۳۳۴ھ) نے کہا : وكان
زيد فاضلا صالحا متعللا ۔
- حافظ ابن یونس مصری ؒ (م۳۴۷ھ)
نے کہا :
كان جوالا فى البلاد فى طلب الحديث ، و كان حسن الحديث۔
- حافظ
ابن عدی ؒ (م۳۶۵ھ) نے کہا : له حديث كثير ، و هو
من أثبات مشائخ الكوفة ممن لا يشك فى صدقه ،
والذى قاله ابن معين عن أحاديثه عن
الثورى ، إنما له أحاديث عن الثورى يستغرب بذلك الإسناد ، وبعضها ينفرد برفعه ، و
الباقى عن الثورى ، و غير الثورى مستقيمة كلها۔
- امام
ابو الحسن الدارقطنیؒ (م۳۸۵ھ) نے کہا :
ثقۃ۔
- امام
ابن شاہین ؒ (م۳۸۵ھ)نے ثقات میں شمار کیا ہے۔
- حافظ
ابن ماکولاؒ(م۴۷۵ھ) نے کہا : ثقۃ۔
- حافظ
ابو سعد السمعانیؒ(م۵۶۲ھ) نے کہا : كان صاحب حديث ۔
- امام
ابن خلفون ؒ (م۶۳۶ھ) نے ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔
- حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)نے کہا : الإِمَامُ، الحَافِظُ،
الثِّقَةُ، الرَّبَّانِيُّ،و كان حافظا زاهدا رحالا جوالا۔
- حافظ
ماردینیؒ(م۷۵۰ھ) نے کہا : زيد
بن الحباب ثقة مشهور ۔
- حافظ
ابن رجب ؒ (م۷۹۵ھ) نے کہا : زيد بن الحباب ثقة مشهور ۔
- حافظ
زین الدین عراقی ؒ (م۸۰۶ھ) نے کہا : زيد
بن الحباب ثقة حافظ ۔
- حافظ
بصیریؒ(م۸۴۰ھ) نے کہا : ثقۃ۔
- حافظ
ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے بھی ان کو ثقہ قرار دیا ہے۔
- محدث
عینی ؒ (م۸۵۵ھ) نے کہا : ثقۃ۔
ان کے علاوہ
اور بھی
کئی ائمہ نے ان کی توثیق کی ہے۔
لہذا
زید بن الحباب ؒ (م۲۳۰ھ) ثقہ، حافظ الحدیث اور ثبت ،امام ہیں۔
(تہذیب التہذیب :
ج۳: ص ۴۰۲،تاریخ الاسلام : ج۵: ص ۷۵، سیر : ج۹: ص ۳۹۳،اکمال تہذیب الکمال : ج۵: ص
۱۴۴، الجوھر النقی : ج۱ :ص ۲۸۶،شرح علل الترمذی : ج۲ :ص ۸۱۳،طرح
التثریب
: ج۴: ص ۳۷،اتحاف الخیرۃ المھرۃ : ج۲: ص ۱۵۶،نتائج الافکار : ج۱: ص ۲۶،نخب الافکار : ج۱۴: ص ۴۳۳)[5]
(۳) معاویہ بن صالح حمصیؒ (م۱۷۰ھ) مسلم ،سنن
اربع کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تحریر تقریب التہذیب : رقم ۶۷۶۲)
(۴) ابو
الزاھریۃ الحمصیؒ(م۱۰۰ھ) بھی صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۱۱۵۳)
(۵) کثیر
بن مرۃ الحمصیؒ سنن اربع کے راوی اور ثقہ
ہیں۔(تقریب : رقم ۵۶۳۱)
(۶) ابو
درداء الانصار ی ؓ (م۳۲ھ) مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
لہذا س کی سند
صحیح اور تمام روات ثقہ ہیں۔ [6]
نیز زید بن الحباب
ؒ (م۲۳۰ھ) کے متابعات بھی موجود
ہے۔
متابع نمبر ۱ :
اور
امام ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸ھ) نے اس روایت کی ایک اور سند ذکر کی ہے : چنانچہ وہ کہتے ہیں
کہ
أخبرنا
أبو عبد الله الحافظ , ثنا أبو العباس محمد بن يعقوب نا محمد بن إسحاق , ثنا أبو
صالح , حدثني معاوية بن صالح , حدثني أبو الزاهرية , حدثني كثير بن مرة الحضرمي ,
قال: سمعت أبا الدرداء , يقول: سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أفي كل صلاة
قراءة؟ فقال: «نعم» فقال رجل من الأنصار: وجبت هذه فقال لي رسول الله صلى الله
عليه وسلم وكنت أقرب القوم إليه: ما أرى الإمام إذا أم القوم إلا قد كفاهم۔(کتاب
القراءت للبیہقی : ص ۱۷۱)
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام
ابوبکر البیہقیؒ(م۴۵۸ھ)،
(۲) امام
ابو عبد اللہ الحاکم صاحب المستدرکؒ(م۴۰۵ھ)،
(۳) ابو
العباس ،محمد بن یعقوب الاصم ؒ (م۳۴۶ھ) وغیرہ مشہور ائمہ ثقات
میں سے ہیں۔
(۴) محمد
بن اسحاق ،ابو بکر الصاغانیؒ(م۲۷۰ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ،ثبت ،حجت
،امام ہیں۔(تقریب : رقم ۵۷۲۱،سیر)
- حافظ
ذہبیؒ(م۷۴۸ھ) نے کہا : ’’ طوَّف وجال، وأكثر التّرْحال، وبرع فِي العِلَل والرجال‘‘۔(تاریخ
الاسلام : ج۶: ص ۳۹۴) ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ ’’ وَكَانَ ذَا مَعْرِفَةٍ
وَاسِعَةٍ، وَرِحلَةٍ شَاسعَةٍ ‘‘۔ (سیر :
ج۱۲: ص ۵۹۲)،
نیز حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)
نے آپ ؒ کو ’’ ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل ‘‘
میں بھی شمار کیا ہے۔(ذکر من
یعتمد : ص۱۹۳)، ابو مزاحم الخاقانیؒ(م۳۲۵ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ كان الصاغانى يشبه يحيى بن معين فى وقته ‘‘
امام صاغانیؒ اپنے وقت میں ابن معین ؒ کے مشابہ تھے۔
ائمہ
نے انکی اعلی درجہ کی توثیق کی ہے۔ (تہذیب الکمال : ج۲۴: ص ۳۹۶،تاریخ ابن عساکر
: ج۵۰: ص ۲۰)
(۵) ابو
صالح، عبد اللہ بن صالح المصری کاتب اللیث ؒ (م۲۲۲ھ) کی توثیق مفسر کرتے
ہوئے، حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ(م۸۵۲ھ) نے کہا :
’’ظاهر كلام هؤلاء الأئمة أن حديثه في الأول كان مستقيمًا ثم طرأ عليه
فيه تخليط، فمقتضى ذلك أن ما يجيئ من روايته عن أهل الحذق كيحيى بن معين البخاري
وأبي زرعة وأيى حاتم فهو من صحيح حديثه ‘‘
ان ئمہ کے کلام کا
ظاہر ہے کہ ابو صالح ؒ کی پہلے زمانے کی
احادیث مستقیم تھی، پھر بعد میں
ان میں تخلیط آگئی، لہذا یہ اس بات کا
مقتضی ہے کہ جو احادیث ، ان سے
حدیث کے ماہر ین، جیساکہ یحیی بن معینؒ، بخاریؒ، ابو زرعہؒ، ابوحاتمؒ روایت کریں، تو ان کی وہ حدیث صحیح ہوگی۔(تحفة
اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير التقريب :
ج۱: ص ۴۸۲)
نوٹ :
ابو صالح ؒ(م۲۲۲ھ)
کی یہ حدیث بھی، حدیث کے ماہر،امام العلل و الرجال ،ثقہ ،ثبت
،حافظ الحدیث محمد بن اسحاق، ابو بکر
الصاغانیؒ(م۲۷۰ھ) نے روایت کی ہے،جیسا کہ تفصیل گزرچکی۔
لہذا اس روایت میں ابو صالح ؒ(م۲۲۲ھ)
پر کلام باطل و مردود ہے۔
(۶) معاویہ
بن صالح الحمصیؒ (م۱۷۰ھ)،
(۷) ابو
الزاھریۃ الحمصیؒ(م۱۰۰ھ)،
(۸) کثیر
بن مرۃ الحمصیؒ وغیرہ کی توثیق گزرچکی۔
(۹) ابو
درداء الانصار ی ؓ (م۳۲ھ) مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
لہذا
یہ سند حسن ہے۔
متابع نمبر ۲:
حافظ
مغلطائی ؒ (م۷۶۲ھ) نے اس روایت کی
تیسری سند بھی ذکر کی ہے،چنانچہ حافظ ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) سے نقل کرتے
ہوئےکہتے ہیں :
قال الطبراني في الكبير: ثنا عبدان بن أحمد ثنا زيد بن الحريش، ثنا
عمرو بن الوليد الأغصف عن معاوية عن يونس
بن ميسرة عن أبي إدريس عن أبي الدرداء: " سأل رجل النبي- عليه السلام- فقال:
أفي كل صلاة قراءة: قال: " نعم " قال رجل من القوم: وجب هذا: فقال-
عليِه السلام-: ما أرى الإمام إذا قرأ إلا
كان كافيًا۔(معجم الکبیر للطبرانی بحوالہ شرح ابن ماجۃ للمغلطائی : ص ۱۴۲۱)
سند کی تحقیق :
(۱) حافظ ابو القاسم الطبرانی ؒ (م۳۶۰ھ) مشہور ثقہ،
حافظ الحدیث ہیں۔(ارشاد القاصی والدانی)
(۲) عبدان
بن احمد سے مراد عبد اللہ بن احمد بن موسی،ابو محمد العسکری القاضی ؒ (م۳۰۷ھ)
ہیں، اور وہ ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(ارشاد
القاصی والدانی : ص ۳۶۸)
(۳) زید
بن الحریش الاھوازی ؒ (م۲۴۱ھ) بھی صدوق ، صاحب حدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام
: ج۵: ص ۱۱۴۳،کتاب الثقات للقاسم : ج۴: ص
۳۷۴،الکامل : ج۱: ص ۴۵۹، ۷۹،صحیح ابن حبان : حدیث نمبر ۱۳۴۵،مجمع الزوائد : حدیث
نمبر ۱۸۰۲۸)
(۴) عمرو
بن الولید الاغضف ؒ (م۱۸۱ھ) بھی ثقہ
ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۷: ص ۳۷۱،التذییل علی کتب
الجرح و التعدیل : ص۲۲۱)
(۵) معاویہ
بن یحیی الصدفی کی روایات میں کلام
ہے،حافظ ابن حبان ؒ نے کہاہے کہ ان کا حافظہ
آخری عمر میں متغیر ہوگیا تھا۔(میزان الاعتدال:ج۴: ص ۱۳۸)
بعض ائمہ نے کہا
کہ جو روایات انہوں نے شام میں بیان کی ہیں وہ احسن ہیں اور جو ’’رے‘‘ میں بیان کی
ہیں وہ ضعیف ہیں،بعض نے کہا عیسی بن یونس اور
اسحاق بن سلیمان الرازی سے مروی روایات مقلوبہ ہیں۔(تہذیب التہذیب وغیرہ)
حافظ ابن حجر
عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے بھی کہا : ’’ ضعيف
و ما حدث بالشام أحسن مما حدث بالرى‘‘ ۔ (تقریب : رقم ۶۷۷۲)
اور امام دارقطنی
ؒ (م۳۸۵ھ) کہتے ہیں ’’ حدثهم بالري بأحاديث من حفظه
وهم فيها على الزهري، وأما روايته عن الزهري فهي من غير طريق إسحاق مستقيمة، يشبه
أن يكون من كتابه ‘‘
کہ معاویہ
نے جو روایات رئے میں اپنے حافظہ سے
بیان کی ہیں، ان روایات میں زہری سے بیان کرنے میں ان کو وہم ہواہے، اور
اسحاق کی طریق سے علاوہ سے
مروی ان کی عن الزہری کی روایات مستقیم
ہیں ،گویا وہ معاویہ کی کتاب لی گئی ہیں۔(موسوعۃ اقوال امام الدارقطنی : ج۲: ص ۶۵۶)، حافظ ابن
حبان ؒ (م۳۵۶ھ) کہتے ہیں کہ ’’في رواية الشاميين عند الهقل بن زياد وغيره أشياء مستقيمة، تشبه حديث
الثقات
‘‘شامی
حضرات کی روایات میں الھقل بن
زیاد کے پاس اور ان کے علاوہ دیگر
حضرات کے پاس معاویہ کی روایات میں
کی کئی روایات مستقیم ہیں، جو کہ ثقات کی حدیث کے مشابہ ہیں۔(المجروحین : ج۳: ص ۳)
زیر بحث روایت
میں عمرو بن الولید الاغضف ؒ (م۱۸۱ھ)
کے تعلق سے ائمہ کی صراحت نہیں ملی کہ
انہوں نے معاویہ سے ان کے حافظہ کے متغیر ہونے سے پہلے روایت لی ہے
یا نہیں، لیکن متابعات ہو نے کی صورت میں
ان پر کلام کرنا ہی فضول و بیکار ہے۔
(۶) یونس
بن میسرۃ بن حلبسؒ(م۱۳۲ھ) بھی ثقہ،عابد ہیں۔(تقریب
: رقم ۷۹۱۶)
(۷) ابو
ادریس الخولانی ؒ(م۸۰ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تہذیب التہذیب : ج۵: ص ۸۶)
(۸) ابو
درداء الانصاری ؓ (م۳۲ھ) مشہور
صحابی ہیں۔(تقریب)
لہذا متابعت کی وجہ سےیہ روایت بھی حسن ہے۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ابو بکر الجصاص الرازی ؒ (م۳۷۰ھ)،قاضی
ابو عبد الوہاب المالکی ؒ(م۴۲۲ھ)، امام قدوری ؒ (م۴۲۸ھ) ، حافظ
مغلطائی (م۷۶۲ھ)، حافظ ہیثمی ؒ (م۸۰۷ھ) وغیرہ نے اس روایت کو
مرفوعاً تسلیم کیا ہے۔(شرح مختصر الطحاوی : ج۱: ص ۶۵۴،الاشراف علی نکت مسائل الخلاف : ج۱: ص ۲۴۰، التجرید
القدوری : ج۲: ص ۵۱۲،شرح ابن ماجہ للمغلطائی : ص۱۴۳۹، مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۲۶۴۴)
خلاصہ یہ کہ یہ حدیث ثابت ہے اور ’’ ما
أرى الإمام إذا أم القوم إلا قد كفاهم ‘‘ کا قول مرفوع
ہے۔ واللہ اعلم
دلیل نمبر ۶:
حضرت
ابو بکرۃ ؓ(م۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ
أنه
انتهى إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك
للنبي صلى الله عليه وسلم فقال: زادك الله حرصا ولا تعد۔
انہوں
نے نبی ﷺ رکوع کی حالت میں پایا، تووہ بھی صف میں ملنے سے پہلے رکوع
میں چلے گئے،(اور بعد میں آہستہ
آہستہ چلتے ہوئے صف میں مل گئے)، پھر انہوں نے اس بات کا ذکر نبی ﷺ سے کیا، تو رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی تجھے نیکی کرنے پراور حریص کرے،دوبارہ
ایسا نہ کرنا۔(صحیح بخاری : حدیث نمبر ۷۸۳)
وضاحت :
اگر
سورہ فاتحہ کا پڑھنا ضروری ہوتا، جیساکہ غیر مقلدین حضرات کا اصرار ہے، تو امام کے ساتھ
رکوع میں ملنے والے کی رکعت کا اعتبار نہ ہوتا، لیکن اس صحیح اور مرفوع
حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ امام کے
ساتھ رکوع میں ملنے والے کی وہ رکعت صحیح و درست ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت
ابو بکرۃ ؓ کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
لہذا
یہ روایت صریح ہے کہ مقتدی پر سورہ فاتحہ
کا پڑھنا واجب نہیں ہے۔[7]
دلیل نمبر ۷:
مشہور
ثقہ،حافظ الحدیث اور امام ابو عبد اللہ
محمد بن یزید القیروانیؒ(م۲۷۳ھ) نے کہا :
حدثنا
علي بن محمد قال: حدثنا وكيع، عن إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن الأرقم بن شرحبيل، عن
ابن عباس، قال: " لما مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم مرضه الذي مات فيه،
كان في بيت عائشة، فقال: ادعوا لي عليا قالت عائشة: يا رسول الله ندعو لك أبا بكر؟ قال:
ادعوه قالت حفصة: يا رسول الله ندعو لك
عمر؟ قال: ادعوه قالت أم الفضل: يا رسول
الله ندعو لك العباس؟ قال: نعم، فلما اجتمعوا رفع رسول الله صلى الله عليه وسلم
رأسه، فنظر فسكت، فقال عمر: قوموا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم جاء بلال
يؤذنه بالصلاة، فقال: مروا أبا بكر فليصل بالناس فقالت عائشة: يا رسول الله إن أبا
بكر رجل رقيق حصر ومتى لا يراك يبكي، والناس يبكون، فلو أمرت عمر يصلي بالناس،
فخرج أبو بكر فصلى بالناس، فوجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في نفسه خفة، فخرج
يهادى بين رجلين، ورجلاه تخطان في الأرض، فلما رآه الناس سبحوا بأبي بكر فذهب
ليستأخر، فأومأ إليه النبي صلى الله عليه وسلم أي مكانك، فجاء رسول الله صلى الله
عليه وسلم فجلس عن يمينه، وقام أبو بكر، وكان أبو بكر يأتم بالنبي صلى الله عليه
وسلم، والناس يأتمون بأبي بكر، قال ابن عباس: وأخذ رسول الله صلى الله عليه وسلم
من القراءة من حيث كان بلغ أبو بكر ۔
حضرت
ابن عباس ؓ فرماتے ہیں (جس کا خلاصہ یہ ) کہ انحضرت ﷺ جب مرض الموت
میں مبتلا ہوئے، تو حضرت ابو بکر ؓ کو آپ
نے امامت سپرد کی۔ تا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کریں۔ ایک مرتبہ آپ ﷺ کو خیال
ہوا کہ میں باجماعت نماز ادا کروں۔ پہلے آپ ﷺ کو تکلیف زیادہ تھی۔ پھر جب مرض میں
تخفیف ہوئی۔تو آپ ﷺ دو آدمیوں کے سہارے
پر آہستہ آہستہ چل کر مسجد میں پہنچے اور آپ
کے پاؤں مبارک زمین پر گھسٹتے جاتے تھے۔
اس
سے پہلے ابو بکر ؓ نماز شروع کرچکے تھے۔ اور ایک حد تک قرآت بھی کرچکے تھے۔
غرضیکہ آپ صفوں میں سے گزرتے ہوئے حضرت ابو بکر کے پہلو میں جاپہنچے وہ پیچھے ہٹ
آئے اور ان کی جگہ آنحضرت ﷺ تشریف لے
گئے اور بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ چونکہ آپ بیماری کی وجہ سے بلند آواز سے بول نہیں
سکتے تھے۔ اس لئے حضرت ابو بکر ؓ نے لوگوں
تک آواز پہنچانے میں مکبر کا فریضہ انجام دیا اور جب آپ ﷺ پہنچے
تو وہیں سے آپ ﷺ نے قراءت شروع کی، جہاں تک
ابو بکر قراءت کرچکے تھے۔(سنن ابن ماجہ : حدیث نمبر ۱۲۳۵)
سند کی تحقیق :
(۱) امام ابو عبد اللہ محمد بن یزید القیروانیؒ(م۲۷۳ھ)
مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تہذیب
التہذیب)
(۲) حافظ
علی بن محمد الطنافسیؒ(م۲۳۵ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۳۵)
(۳) امام
وکیع بن الجراح ؒ (م۱۹۷ھ) صحیحین کے
مشہور ثقہ راوی، حجت،امام ا ور
حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب : رقم ۷۴۱۷،اکمال تہذیب الکمال)
(۴) اسرائیل
بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی
الکوفی ؒ(م۱۶۰ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۴۰۱)
اور
ان کا اپنے دادا ابو اسحاق
السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) کی روایت میں کیا مقام ہے، اس کو ملاحظہ
فرمائیے :
- صدوق
،امام یونس بن ابی اسحاق ؒ (م۱۵۲ھ) نے کہا : ’’اذهبوا
إلى ابنى إسرائيل ، فهو أروى عنه منى ، و
أتقن لها منى ، و هو كان قائد جده ‘‘۔
- اسرائیل
بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی
الکوفی ؒ(م۱۶۰ھ) نے خود اپنے بارے میں کہا : ’’ كنت أحفظ حديث أبي إسحاق كما
أحفظ السورة من القرآن ‘‘۔
- ثقہ،ثبت،حافظ
حجاج الاعور ؒ (م۲۰۶ھ) نے کہا : ’’ قلنا لشعبة حدثنا حديث أبى إسحاق‘‘ تو جواب میں امام شعبہ بن الحجاج ؒ (م۱۶۰ھ)
نے کہا :’’ سلوا عنها إسرائيل فإنه أثبت فيها منى ‘‘۔
- سلام
بن سلیم ،ابو الاحوص الکوفی ؒ (م۱۷۹ھ):’’ ذكر عن أبى إسحاق قال : ما ترك لنا إسرائيل كوة ولا سفطا إلا دحسها
كتبا
‘‘۔
- امام
عبد الرحمٰن بن مہدی ؒ (م۱۹۸ھ) نے کہا : ’’ إسرائيل فى أبى إسحاق أثبت من شعبة و الثورى ‘‘۔
- امام
یحیی بن معینؒ(م۲۳۳ھ) نے کہا : ’’ إِسرَائيل
أثبت في أَبي إِسحَاق من شَيبَان ‘‘۔
- امام ابو حاتم الرازی ؒ (م۲۷۷ھ) نے کہا : ’’ ثقة صدوق من أتقن أصحاب أبى إسحاق ‘‘۔
ایک
اور مقام پر کہا : ’’ إسرائيل سماعه من أبي إسحاق قديم ‘‘۔(الجامع فی الجرح و التعدیل : ج۲: ص ۲۹۳)
- امام
ابو عیسی الترمذی ؒ (م۲۷۹ھ) نے کہا : ’’ إسرائيل ثبت فى أبى إسحاق ‘‘۔
- امام
ابو الحسن الدارقطنی ؒ(م۳۸۵ھ) نے کہا : ’’ إسماعيل، يعني ابن أبي خالد، وإن كان ثقة فهؤلاء (يعني شعبة والثوري
وإسرائيل) أقوم منه لحديث أبي إسحاق ‘‘۔
اور
ایک مقام پر کہا : ’’ إسرائيل من الحفاظ عن أبي إسحاق ‘‘۔
- امام
بیہقی ؒ (م۴۵۸ھ)۔(السنن الکبری : ج۷: ص ۱۰۸)
- حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے کہا : ’’ نعم، ليس هو في التثبت كسفيان وشعبة، ولعله يقاربهما في حديث جده،
فإنه لازمه صباحا ومساء عشرة أعوام ‘‘۔
- حافظ
ابن القیمؒ (م۷۵۱ھ) نے کہا : ’’ إسرائيل أعلم بجده ‘‘۔
- حافظ
صلاح الدین العلائی ؒ (م۷۶۱ھ) نے کہا :
’’وقال ابن معين: إنما أصحاب أبي إسحاق شعبة وسفيان الثوري قلت: ومثلهم
أيضا إسرائيل بن يونس وأقرانه ولم يعتبر أحد من الأئمة ما ذكر من اختلاط أبي إسحاق
احتجوا به مطلقا وذلك يدل على أنه لم يختلط في شيء من حديثه ‘‘۔(المختلطین
للعلائی
: ص ۹۴)
- حافظ
ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ) نے کہا : ’’
سماعه من أبي إسحاق في غاية الإتقان للزومه إياه لأنه جده وكان خصيصًا به ‘‘۔
ایک
اور مقام پر کہا کہ ’’ من أثبت الناس في جده ‘‘۔
(تہذیب التہذیب :
ج۱ : ص ۲۶۱،موسوعۃ اقوال ابی الحسن الدارقطنی : ج۱: ص ۱۱۹،سیر
: ج۷: ص ۳۵۸،اعلام الموقعین : ج۳: ص ۱۳۲، تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن
حجر من الرواة في غير التقريب : ج۱: ص ۲۸۹)
اس
تفصیل سے معلوم ہوا کہ اسرائیل بن یونس ؒ
(م۱۶۰ھ) اپنے دادا ابو اسحاق السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) کی روایت میں
قدیم السماع، اثبت الناس،اتقن اور حافظ ہیں۔ واللہ اعلم [8]
(۵) ابو
اسحاق،عمرو بن عبد اللہ السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) صحیحین کے روات اور
ثقہ،مکثر اور
عابد ہیں۔(تقریب : رقم ۵۰۶۵)[9]
(۶) ارقم
بن شرجیلؒ سنن ابن ماجہ کے راوی اور ثقہ
ہیں۔(تقریب : رقم ۲۹۹)
(۷) عبد
اللہ بن عباس ؓ (م۶۸ھ) مشہور صحابی رسول ﷺ اور امام المفسرین ہیں۔
لہذا یہ سند صحیح
ہے۔
حافظ ضیاء الدین
مقدسی ؒ (م۶۴۳ھ)،شیخ شعیب الارنووط اور شیخ عادل مرشد وغیرہ نے صحیح اور حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ (م۸۵۲ھ)
نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔(الاحادیث المختارۃ للمقدسی : ج۹: ص ۴۹۷، حاشیہ
مسند احمد بتحقیق الارنووط و عادل : ج۵: ص ۳۴۸،فتح الباری : ج۲: ص ۱۷۴)
اس روایت کے متابع و شاہد :
متابع نمبر ۱ :
اسرائیل
بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی
الکوفی ؒ(م۱۶۰ھ) کی طرح، ابو اسحاق،عمرو بن عبد اللہ السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) سے زکریا بن ابی زائدۃ ؒ (م۱۴۹ھ) نے بھی
یہی روایت نقل کی ہے۔چنانچہ حافظ ابویعلی الموصلی ؒ(م۳۰۷ھ) کہتے ہیں :
حدثنا
أبو معمر، حدثنا ابن أبي زائدة، عن أبيه، عن أبي إسحاق، عن الأرقم بن شرحبيل، عن
ابن عباس: أن النبي صلى الله عليه وسلم أخذ من القراءة من حيث انتهى أبو بكر۔(مسند ابو یعلی الموصلی : ج۵: ص ۹۷، حدیث نمبر ۲۷۰۸)
شیخ
حسین سلیم اسد نے اس روایت کی سند کو صحیح
قرار دیا ہے۔ (مسند ابو یعلی الموصلی
بتحقیق شیخ حسین : ج۵: ص ۹۷، حدیث نمبر
۲۷۰۸)
متابع نمبر ۲ :
امام ابو یعلی الموصلیؒ(م۳۰۷ھ) ہی کہتے ہیں
:
حدثنا
موسى بن محمد، حدثنا عبد الله بن رجاء، حدثنا قيس بن الربيع، عن ابن أبي السفر، عن
ابن شرحبيل، عن ابن عباس، عن العباس قال: دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم
وعنده نساؤه فاستترن مني إلا ميمونة، فدق له سعطة فلد، فقال: لا يبقين في البيت
أحد إلا لد إلا العباس، فإنه لم تصبه يميني. ثم قال: مروا أبا بكر يصلي بالناس.
فقالت عائشة لحفصة: قولي له إن أبا بكر إذا قام ذلك المقام بكى. فقالت له، فقال:
مروا أبا بكر يصلي بالناس. فصلى أبو بكر، ثم وجد رسول الله صلى الله عليه وسلم خفة
فخرج، فلما رآه أبو بكر تأخر، فأومأ إليه بيده: أي مكانك. فجاء فجلس إلى جنبه،
فقرأ رسول الله صلى الله عليه وسلم من حيث انتهى أبو بكر۔(مسند
ابو یعلی الموصلی : ج۱۲: ص ۶۲، حدیث نمبر ۶۷۰۴)
اس
روایت کے تمام روات ثقہ ہیں، سوائے قیس بن الربیع ؒ(م۱۶۹ھ) وہ صدوق اور مختلط ہیں۔(تقریب : رقم ۵۵۷۳)، نیزعبد
اللہ بن رجاء البصری ؒ(م۲۲۰ھ) کے علاوہ قیس بن الربیع ؒ(م۱۶۹ھ) سے
یہ روایت محمد بن الصلت ؒ(م۲۲۰ھ) اور یحیی بن آدم ؒ(م۲۰۳ھ) وغیرہ
نے بھی نقل کی ہے۔( جزء فيه ستة مجالس من أمالي القاضي أبي يعلى الفراء : ص
۶۷،طبع دار
البشائر، كتاب الفوائد (الغيلانيات) : ص ۲۸۰)
یعنی
مختلط راوی کا ایک جماعت کو یہ روایت ایک ہی طرح بیان کرنا، اس بات کی دلیل ہے کہ
یہ روایت قیس بن الربیع ؒ (م۱۶۹ھ) کے پاس محفوظ تھی۔(اتحاف النبیل : ج۲:ص۲۵۳)،لہذا
اعتراض مردود ہے۔
شاہد نمبر ۳ :
حافظ
اسد بن موسی ؒ (م۲۱۲ھ) نے کہا :
حدثنا أبو معاوية عن عبد
الرحمن بن أبي بكر عن ابن أبي مليكة عن عائشة في حديث طويل في مرض النبي صلى الله
عليه وسلم: ورأى رسول الله صلى الله عليه
وسلم من نفسه خفة، فانطلق يهادي بين رجلين، فذهب أبو بكر يستأخر فأشار إليه النبي
صلى الله عليه وسلم بيده: مكانك، فاستفتح النبي صلى الله عليه وسلم من حيث انتهى
أبو بكر من القراءة۔(فضائل الصحابۃ : ج۴: ص ۱۰۷)
اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں،سوائے عبد الرحمٰن بن ابی
بکر ؒ کے،وہ ضعیف ہیں،لیکن متابعات میں قابل ذکر
ہیں۔(تہذیب التہذیب : ج۶: ص ۱۴۶)
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ یہ روایت متابع و شاہد کے ساتھ
اور بھی قوی و مضبوط ہوگئی ہے۔
وضاحت :
- محدث ابو المآثر ،مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اعظمی ؒ (م۱۴۱۲ھ)
کہتے ہیں :
مصنف الفرقان لکھتے ہیں : ترک فاتحہ کلاً یا جزء ًآپ نے
کیوں اختیار فرمایا اور یہ رکعت بلافاتحہ کے کیسے درست ہوئی ، سو اس وقت اگر قراءت
مقتدی منسوخ ہوچکی تھی ، تو یہ ترک فاتحہ موجہ ہوسکتا ہے، ورنہ کسی طرح موجہ نہیں
ہوسکتا ہے، مگر چونکہ قرأت اس وقت منسوخ ہوچکی تھی اور آپ کا شمول درمیان رکعت کا
اس نماز میں اقتداء اً ہوا تھا اس لئے آپ نے ترک فاتحہ کلاً یا جزءاً اختیار
فرمایا اور اسی وجہ سے یہ رکعت بلافاتحہ کے درست ہوئی، اور اگر آپ کا شمول اماماً
ہوا تھا اور آپ اول ہی سے امام بن کر شامل ہوئے تھے ، تب بھی ترک فاتحہ کی یہی
وجہ ہوگی ، کیونکہ آپ کی یہ امامت خلافۃً عن الامام السابق تھی اور خلیفۃ الامام
امام سابق کا مقتدی حکمی ہوتا ہے اور قراءۃ گذشتہ اس کے ذمہ سے ساقط
ہوجاتی ہے، انتہیٰ ملخصاً۔
اور پھر محدث اعظمی ؒ نے ان کی تائید بھی کی ہے۔ (حدر اللثام عن وجہ تحقیق الکلام )
- ثقہ، عالم اور امام
اہل سنت مولانا سرفراز خان صفدر ؒ (م۱۴۳۰ھ)
کہتے ہیں کہ
(اس روایت سے معلوم ہوا کہ) آنحضرت ﷺسے پوری سورہ
فاتحہ چھوٹ گئی تھی یا اس کا اکثر
حصہ مگر
باوجود اسکے، آپ ﷺکی نماز ادا ہوگئی اور آپ ﷺ نے اس نماز کو صحیح
اور درست سمجھا۔(احسن الکلام : ص ۳۰۵)
اگر
کوئی ثقہ راوی کسی حدیث کو کبھی مرفوعاً ،کبھی موقوفاً ، کبھی مرسلاً بیان
کرتا ہے
تو
وہ حدیث مرفوع ہی گی۔
-
مولانا نذیر الدین قاسمی
ائمہ محدثین کا اصول ہے کہ اگر کوئی ثقہ راوی کسی حدیث کو کبھی مرفوعاً ،کبھی موقوفاً ، کبھی مرسلاً بیان
کرتا ہے ، تو وہ حدیث مرفوعاً ہی تسلیم کی جائے گی۔
(۱) چنانچہ
حافظ ابو زکریا ،یحیی بن شرف النووی ؒ (م۶۷۶ھ) لکھتے ہیں کہ
بينا أن الصحيح بل الصواب الذي عليه الفقهاء والأصوليون ومحققوا
المحدثين أنه إذا روي الحديث مرفوعا وموقوفا أو موصولا ومرسلا حكم بالرفع والوصل
لأنها زيادة ثقة وسواء كان الرافع والواصل أكثر أو أقل في الحفظ والعدد والله أعلم
ہم بیان کر آئے ہیں کہ صحیح بلکہ ایسی درست بات جس پر فقہاء ، اصولین اور محقق محدثین متفق
ہیں ، یہ ہے کہ جب کوئی حدیث مرفوع اور موقوف روایت کی گئی ہو۔یا موصول اور مرسل
بیان ہوئی ہو، تو اس صورت میں حدیث مرفوع اور متصل ہی سمجھی جائے گی چاہے رفع اور
وصل کرنے والے حفظ اور عدد میں زیادہ ہوں
یا کم حدیث بہرحال مرفوع ہوگی،اس لئے کہ یہ ثقہ کی زیادتی ہے۔ ۔ (شرح مسلم
للنووی : ج۶: ص ۲۹)
(۲) حافظ زین
الدین عراقی ؒ (م۸۰۶ھ) نے کہا : کہ
إذا
وقع الاختلاف من راو واحد ثقة في المسألتين معا فوصله في وقت وأرسله في وقت، أو
رفعه في وقتٍ، ووقفه في وقت، فالحكم على الأصحّ لوصله ورفعه، لا لإرساله ووقفه۔
اگر ایک
ہی ثقہ راوی سے معاً دو مسئلوں میں اختلاف پیدا ہو کہ کسی وقت وہ (روایت کو) موصول بیان کرتا ہے اور کسی وقت
مرسل یا کسی وقت وہ مرفوع بیان کرتا ہے اور کسی وقت موقوف۔تو صحیح قول کی بنا پر
اس کے موصول اور مرفوع ہونے کا حکم کیا جائےگا نہ کہ مرسل اور موقوف ہونے کا۔(شرح
الفیۃ العراقی :ج۱: ص ۲۳۳)
- حافظ
عراقی ؒ(م۸۰۶ھ) اپنی ایک اور کتاب تخریج احادیث الاحیاء میں لکھتے ہیں کہ
الصحيح الذي عليه الجمهور أن الراوي إذا روى الحديث مرفوعا وموقوفا
فالحكم للرفع ; لأن معه في حالة الرفع زيادة، هذا هو المرجح عند أهل الحديث۔(بحوالہ فتح المغیث : ج۱: ص ۲۲۰)
معلوم ہوا کہ حافظ عراقی ؒ کےنزدیک جمہور کے نزدیک یہی قول ہے اور یہی قول محدثین
کےنزدیک بھی راجح ہے۔
(۳) حافظ ابو عمرو ابن الصلاح ؒ (م۶۴۳ھ) نے اس کو ’’اصح ‘‘
قرار دیا ہے۔(مقدمہ ابن الصلاح : ص ۷۲،ت عتر)
(۴) حافظ ابو محمد،الزیلعی ؒ (م۷۶۲ھ) نے
کہا : ’’ إذا رفع
ثقة حديثا، ووقفه آخر، أو فعلهما شخص واحد في وقتين ترجح الرافع، لأنه أتى بزيادة ‘‘۔(النصب
الرایۃ : ج۱: ص ۱۹)
(۵) حافظ ابو العباس القرطبی ؒ (م۶۵۶ھ)۔(المفہم للقرطبی : ج۵: ص ۱۴۷-۱۴۸)
(۶) امام
أبو الخطاب الكَلْوَذَاني ؒ(م۵۱۰ھ)
۔(التمهيد في أصول الفقه:ج۳: ص ۱۴۴)
(۷) امام مجد الدین ابن تیمیہ ؒ(م۶۵۲ھ) نے
کہا : ’’ إذا
أسند الراوى مرة وأرسل أخرى أو وقف مرة ووصل مرة قبل المسند والمتصل ‘‘۔(المسودة في أصول الفقه: ص ۲۵۱)
(۸) محدث ابو عبد اللہ، محمد بن ابراہیم الکنانی
الحمویؒ(م۷۳۳ھ) نے کہا : ’’ لو
أرسل ثقة حديثا تارة وأسنده أخرى أو رفعہ ثقات ووقفه ثقات أو وصله ثقات وقطعه ثقات
فالحكم في الجميع لزيادة الثقة من الإسناد والرفع والوصل والله أعلم ‘‘۔(المنهل الروي في مختصر علوم الحديث النبوي: ص ۴۵)
(۹) امام عثمان بن عمر ابن الحاجبؒ(م۶۴۶ھ)
نے کہا : ’’ وَإِذا
أسْند الحَدِيث وأرسلوه أَو رَفعه ووقفوه أَو وَصله وقطعوه فَحكمه حكم الزِّيَادَة
‘‘۔
(۱۰) حافظ
ابو عبد اللہ الزرکشی ؒ (م۷۹۲ھ) نے ابن الحاجب ؒ کے قول کی تائید کی ہے۔(النکت للزرکشی : ج۲: ص ۱۸۸)
(۱۱) حافظ ابن الملقنؒ(م۸۰۴ھ) نے کہا :
’’ فالحكم لمن أسنده إذا كان عدلا
ضابطا سواء خالف واحدا أو جماعة كذا صححه
الخطيب وهو الصحيح في الفقه وأصوله ‘‘۔
(۱۲) حافظ
المشرق،خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳ھ) نے بھی اس
کو صحیح قرار دیا ہے۔(المقنع : ج۱: ص ۱۵۱)
(۱۳) فاضل ،امام
ابن العینیؒ(م۸۹۳ھ) نے بھی حافظ عراقی ؒ
کی تائید کی ہے۔(شرح الفیۃ لابن
العینی : ص ۱۱۵)
خلاصہ یہ کہ اگر کوئی
ثقہ راوی کسی حدیث کو کبھی مرفوعاً
،کبھی موقوفاً ، کبھی مرسلاً بیان کرتا ہے ، تو وہ حدیث مرفوعاً
ہی تسلیم کی جائے گی۔
[1] نوٹ :
اس
روایت میں ابن شہاب الزہریؒ(م ۱۲۵ھ)نے ابن اکیمۃ ؒ(م۱۰۱ھ)سے
سماع کی تصریح کردی ہے،لہذا ان پر اس روایت میں تدلیس کا الزام مردود ہے۔
[2] اعتراض :
ارشاد
الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ اگر جملہ زہری ؒ کا ہے، تو بھی مرسل اوراگر یہ انھوں نے
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے نقل کیا ہے،
تو بھی مرسل۔(توضیح الکلام : ص ۷۵۴)
الجواب
:
امام زہری ؒ (م۱۲۵ھ) کے قول
کو مرسل کہنا مردود ہے،کیونکہ امام زہری ؒ
نے ’’
قال أبو هريرة: فانتهى الناس‘‘ کا جملہ اس حدیث کے فوراً بعد کہا ہے۔ لہذا یہی سمجھا جائے گا کہ زہری ؒ کو
حضرت ابو ہریرہ ؓ کا یہ قول ابن اکیمۃ ؒ(م۱۰۱ھ)کے
واسطہ سے ملا،جیسا کہ محدثین کا منہج ہے۔تفصیل کے لئے
دیکھئے غیر مقلد عالم،کفایت اللہ سنابلی
کی کتاب ۴ دن قربانی کی مشروعیت
: ص ۱۵۔
لہذا اثری صاحب کا اعتراض مردود ہے۔
[3] دیکھئے ص :۲۸۔
[4] اثری صاحب نے نقل
کیا کہ ابو بکر النجاد کوآخری عمر میں
اختلاط ہوگیا تھا ، لیکن ان سے یہ روایت
ابو الحسن،علی بن احمد بن عمر
بغدادیؒ (م۴۱۷ھ) نے نقل کی ہے، جو
ابو بکر النجاد ؒ سے روایت کرنے
میں مکثر ہیں،اور خود امام بیہقیؒ(م۴۵۸ھ)، امام ابو عبد اللہ الحاکم ؒ (م۴۰۵ھ)
کے نزدیک ’’أبو
الحسن علي بن أحمد المقرئ ببغداد، أنا أحمد بن سلمان النجاد‘‘ کی
سند مقبول ہے۔(الخلافیات للبیہقی : ج۱:
ص ۳۰۱) نیز اثری صاحب کا اعتراض اسلئے
بھی مردود ہے کہ اس روایت کے معنوی متابع
و شاہد موجود ہیں۔( دیکھئے : دلیل نمبر۲ اور اس کے شواہد و متابعات)
[5] اعتراض
:
ان
سب توثیقات کے باوجود اثری صاحب اور ان کے
شیخ یحیی گوندلوی کہتےہیں کہ امام احمد ؒ فرماتے ہیں کثیر الخطاء
ہے،اورامام ابن حبان ؒ ثقات میں فرماتے ہیں کہ وہ خطا کرجاتے تھے۔پھر
آگے ان کو صدوق کثیر الخطاء کہتے ہیں۔(توضیح
الکلام : ص ۹۶۷-۹۶۸)
الجواب
:
اکثر
ائمہ نے ان کو ثقہ،ثبت،فاضل،ذکی،امام،حافظ الحدیث اور صاحب حدیث قرار دیا ہے۔
لہذا
جمہور کے مقابلے میں امام احمد ؒ کی جرح
غیر صحیح اور مرجوح ہے۔
نیز
امام احمد ؒ (م۲۴۱ھ)نےتسلیم کیا
ہے کہ ’’ و كان يضبط الألفاظ عن معاوية بن صالح ‘‘ زید، معاویہ کے الفاظ کو ضبط (محفوظ) رکھتے تھے، اور ہماری یہ روایت بھی معاویہ بن صالح الحمصی(م۱۷۰ھ)
سے ہی مروی ہے،لہذا زید بن الحباب عن
معاویہ کی روایت میں زید کا ضابط ہونا، تو
خود امام احمد ؒ کے نزدیک مسلم ہے۔لہذا امام احمد ؒ کی جرح ’’ عن
معاوية بن صالح ‘‘ کے علاوہ پر محمول ہوگی۔
نیز
حافظ ابن حجر ؒ (م۸۵۲ھ) نے بھی ان کو ’’يخطىء فى حديث
الثورى‘‘
قرار دیا ہے۔(تقریب)،اس سے بھی
معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک کثیر الخطاء
کی جرح عام نہیں ہے۔اور ’’زید بن الحباب عن معاویہ بن صالح ‘‘صحیح
مسلم کی شرط پر ہے۔
اسی طرح شیخ الالبانیؒ(م۱۴۲۰ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ في زيد بن الحباب كلام لايضر إن شاء الله تعالى ‘‘۔(الصحیحۃ
:ج۴:ص۲۷۵) نیز دیکھئے نثل النبال بمعجم الرجال
الذين ترجم لهم فضيلة الشيخ المحدث أبو إسحاق الحويني :ج۲:ص۳۰۔
اور امام ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ) تو جرح میں
متشدد ہیں،جیسا کہ ائمہ حدیث واقف ہیں، لہذا ان حضرات کی جرح سے زید بن الحباب ؒ (م۲۳۰ھ)
کی روایت پر کوئی فرق نہیں پڑھتا، خاص طور سے
جب کہ ان کا متابع بھی موجود
ہے۔لہذا ان پر اعتراض ہی مردود ہے۔
[6] اعتراض
:
اثری صاحب کہتے ہیں کہ ابو صالح
جو کثیر الغلط ہیں، وہ اسے معاویہ بن صالح سے مرفوع بیان کرتے ہیں، اور زید
ؒ گو اس کا متابع ہے، مگر اس کی حدیث میں
بھی وہم پایاجاتا ہے۔ پھر امام حمد ؒ،اور
فضلؒ اسی( زید بن الحباب )سے یہ جملہ موقوف بیان کرتے ہیں۔ گو زید خود اس روایت
میں متردد ہیں۔ کبھی اسے
مرفوع اور کبھی موقوف بیان کرتے ہیں۔
ان کے برعکس امام عبد الرحمٰن بن
مہدیؒ،امام عبد اللہ بن وہبؒ اور حماد بن خالدؒ اسے معاویہ بن صالح ؒ سے موقوف ہی
بیان کرتے ہیں۔۔۔خداراذرا غور کیجیے ! ایک طرف ثقہ،ثبت اور حافظ الحدیث راوی تو
اسے موقوف بیان کریں، مگر ان کے مقابلہ میں صدوق، کثیر الخطا راوی (اور ان میں بھی
ایک موقوف بیان کرنے والا) اسے مرفوع نقل کرے،تو ترجیح کس کو ہوگی ؟ ثقہ اوثق کی مخالفت کرے تو روایت شاذ ہوگی مگر
صدوق کثیر الخطا کی روایت ، کیا مخالفت میں مقبول اور محفوظ ہوگی ؟؟ (توضیح الکلام
:ص ۹۶۸)
الجواب
:
اولا زید بن
الحباب ؒ(م۲۳۰ھ) کو صدوق کثیر
الخطاء کہنا مردود ہے۔ کیونکہ وہ ثقہ،ثبت،فاضل،ذکی،امام،حافظ
الحدیث اور صاحب حدیث ہیں اور امام احمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) نے ان کو خاص معاویہ بن صالح ؒ (م۱۷۰ھ) کی روایت
میں ’’ضابط‘‘ قرار دیا ہےاور یہاں
بھی معاویہ ؒ کی روایت ہے، جیسا کہ
تفصیل گزرچکی،اس لحاظ سے اس روایت میں زید بن الحباب ؒ(م۲۳۰ھ) پر
کثیر الخطا کی جرح فٹ ہی نہیں ہوتی۔
دوم ابوصالح،عبد
اللہ بن صالح المصریؒ(م۲۲۲ھ) کے بارے میں قول فیصل آرہا ہے کہ جب ان سے اہل حذق روایت کریں،
تو ان کی حدیث صحیح ہوگی۔(ص: ۱۱) لہذا ان کا کثیر الغلط ہونا بھی مضر نہیں،
کیونکہ یہاں ان سےیہ روایت امام العلل اور
امام الجرح و التعدیل ، محمد بن اسحاق الصاغانیؒ(م۲۷۰ھ) نے لی ہے۔ نیز ان کے متابع ، ایک اورثقہ
راوی عمرو بن الولید الاغضف ؒ (م۱۸۱ھ) بھی موجود ہیں، جیسا کے
تفصیل آرہی ہے۔
لہذا
ابوصالح،عبد اللہ بن صالح المصریؒ(م۲۲۲ھ)
پر اعتراض مردود ہے۔
سوم زید بن
الحباب ؒ (م۲۳۰ھ) یہ روایت
موقوفاً بھی بیان کرتے ہیں، جس کا
اقرار اثری صاحب نےبھی کیا ہے۔ لہذا زید بن الحباب ؒ (م۲۳۰ھ) نے یہاں دوسرے حفاظ کی موافقت کی ہے۔اور اس موافقت
کے علاوہ انہوں نے ایک زائد روایت بھی نقل کی ہے ،جس میں انہوں نے اس کو مرفوعاً
نقل کیا ہے،پس یہ زیادتی ہوئی، مخالفت
نہیں،اور ثقہ،حافظ،ثبت،امام اور صاحب حدیث کی زیادتی قابل قبول ہوتی ہے۔لہذا یہ زیادتی مقبول ہے ، اثری صاحب کا اسےمخالفت کہنا مردود ہے۔ واللہ اعلم
چہارم ائمہ محدثین کا اصول ہے کہ اگر کوئی
ثقہ راوی کسی حدیث کو کبھی مرفوعاً
،کبھی موقوفاً ، کبھی مرسلاً بیان کرتا ہے ، تو وہ حدیث مرفوعاً
ہی تسلیم کی جائے گی۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ص :۲۳) اور زید
بن الحباب ؒ (م۲۳۰ھ)
ثقہ،امام،حافظ الحدیث اور ثبت ،فاضل ہیں، جیسا کہ گزرچکا، لہذا ان کااس روایت کو کبھی مرفوعاً اور
کبھی موقوفاً بیان کرنا مضر نہیں ہے۔ لہذا
الفاظ ’’ ما
أرى الإمام إذا أم القوم إلا قد كفاهم‘‘ کا مرفوع ہونا ہی راجح ہے۔ واللہ اعلم
[7] اثری صاحب نے اس روایت
کا کوئی مناسب جواب نہیں دیا، بلکہ الٹا یہ کہنے لگے کہ وہ رکعت جس میں قیام اور فاتحہ رہ
جائے،اس کو مکمل رکعت شمار کرنا صحیح نہیں
ہے، امام علی بن مدینی ؒ،امام بخاری ؒ کی بھی یہی رائے ہے۔(توضیح الکلام : ص
۸۱۴)حالانکہ امام ا بن مدینی ؒ،امام
بخاریؒ سے سند صحیح کے ساتھ یہ بات ثابت
نہیں ہے۔کیونکہ جز القراءۃ امام بخاری ؒ (م۲۵۶ھ) سے ثابت نہیں ۔(مجلہ الاجماع :ش۲:ص۳)
نیز ان شاءاللہ آنے والے شماروں میں اس
مسئلہ پر صحیح احادیث کے ساتھ تفصیلاً بحث آرہی ہے کہ کیا رکوع ملنے سے رکعت ہوگی،یا
نہیں۔ لہذا اثری صاحب کی بات غیر
صحیح ہے۔
[8] نوٹ :
جمہور
کے ان ارشادات کے خلاف، اثری صاحب کا یہ
کہنا کہ اسرائل نے اپنے دادا سے پہلے اور بعد از اختلاط دونوں حالتوں میں سماع کیا ہے۔(توضیح الکلام
: ص ۸۲۷) باطل و مردود ہے۔ کیونکہ یہ بات ائمہ میں سے کسی نے نہیں کہی ہے۔فیما
اعلم۔
نیز اسرائیل بن یونس ؒ (م۱۶۰ھ) کی ولادت (۱۰۰ھ)
میں ہوئی،(تہذیب الکمال )، جب کہ ابو اسحاق السبیعی الکوفیؒ
کی وفات (م۱۲۹ھ) ہوئی۔ اور
ابو اسحاق السبیعی الکوفیؒ
کا اختلاط آخری عمر میں ہوا۔
اس
لحاظ سے قارئین خود
فیصلہ کریں، کہ کیا اسرائیل ؒ(م۱۶۰ھ) کا ابو اسحاق ؒ(م۱۲۹ھ) سماع بعد
الاختلاط ہوسکتا ہے ؟؟؟، لہذا امام احمد ؒ وغیرہ کے اقوال شاذ اور غیر صحیح ہے۔
اور
راجح یہی ہے کہ اسرائیل بن یونس ؒ (م۱۶۰ھ) اپنے دادا ابو اسحاق
السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) کی روایت میں
قدیم السماع، اثبت الناس،اتقن اور حافظ ہیں۔ واللہ اعلم
[9] نوٹ :
ابو
اسحاق
السبیعی الکوفیؒ (م۱۲۹ھ) پر تدلیس کا الزام
بھی مردود ہے،کیونکہ ان کے متابع عبد اللہ بن ابی سفر ؒ موجود ہیں۔(جزء فيه ستة مجالس من أمالي القاضي أبي يعلى الفراء : ص
۶۷،طبع دار
البشائر،مسند
ابو یعلی الموصلی : ج۱۲: ص ۶۲،كتاب الفوائد
(الغيلانيات) : ص ۲۸۰)، نیز ایک
شاہد ابن ابی ملیکۃ ؒ (م۱۱۷ھ)
بھی موجود ہیں۔(عمدۃ القاری : ج۵: ص ۱۸۷)، لہذا ان پر تدلیس کا الزام باطل
ہے۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر16
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں