نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , سیدنا امام شعبی رحمہ اللہ کا اثر , سیدنا امام حکم رحمہ اللہ کا اَثر , سیدنا امام حسن بصری رحمہ اللہ کا اَثر , امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ کا اثر ,

 


 مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث 

  ( 25 ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ                                                                       (قسط:۵)

(۵)سیدنا امام شعبی رحمہ اللہ کا اثر

             رَوَی الْاِمَامُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ عَاصِمٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنَْ یَّدْخُلَ بِھَا قَالَ لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔

 (مصنف ابن ابی شیبہ : ۴؍۱۹ )

            ترجمہ: جو آدمی ہم بستری سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیتا ہے کے بارے میں شعبی نے فرمایا: وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک دوسرے خاوند سے نکاح کر لے ۔

تحقیق السند

 (۱،۲)امام ابن ابی شیبہ اور امام شعبی کا تذکرہ پہلے ہوچکا ہے ۔

(۳)عبدۃ بن سلیمان الکلابی الکوفی ، یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم و سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ، رجل صالح ہیں ۔

( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۲۶۷، تہذیب الکمال : ۱۸؍۵۳۰)

(۴)عاصم الاحول البصری ، یہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ و حافظ ہیں۔     

 ( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۱۳، سیر اعلام النبلاء : ۶؍۱۲)

(۶)سیدنا امام حکم رحمہ اللہ کا اَثر

          رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ الْمَنْصُوْرِ قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا مطرف عَنِ الْحَکَمِ اَنَّہٗ قَالَ اِذَا قَالَ ھِیْ طَالِقٌثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَاِذَا قَالَ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ بِانَتْ بِالْاُوْلٰی وَلَمْ یَکُنِ الْاُخْرَیَیْنِ شَیْ ءٌ۔

 (سنن سعید بن منصور :۱؍۲۶۶ حدیث: ۱۰۸۰ )

            ترجمہ: حَکَم سے روایت ہے جب آدمی کہے : اسے تین طلاقیں ہیں تو وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔ اور جب کہے: تو طلاق والی، تو طلاق والی، تو طلاق والی ہے تو پہلی طلاق کے ساتھ جدا ہو جائے گی اور دوسری دوطلاقیں کچھ واقع نہیں ہوں گی۔

تحقیق السند

 (۱)سعید بن منصور ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 (تذکرۃالحفاظ: ۲؍۵،تہذیب الکمال : ۱۱؍۷۷)

(۲)ہشیم ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( تہذیب الاسماء :۲؍۱۳۸، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۸۲، تہذیب الکمال : ۳؍۲۷۳)

(۳)امام مطرف بن طریق الکوفی ، ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( سیر اعلام النبلاء :۶؍۱۲۷، تہذیب الکمال : ۲۸؍۶۲)

(۴)حکم بن عتیبہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۸۸،سیر اعلام النبلاء : ۵؍۲۰۸)

 (۷)سیدنا امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا اثر

          رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ الْمَنْصُوْرِ قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا اَبُوْ بِشْرٍ عَنْ سَعِیْدٍ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ

اِذَا قَالَ اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا لَمْ تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔

(سنن سعید بن منصور :۱؍۲۶۷ حدیث: ۱۰۸۷ )

            ترجمہ: سعید بن جبیر سے روایت ہے جب آدمی اپنی غیر مدخولہ بیوی سے کہے : تجھے تین طلاقیں ہیں تو وہ اس کے حلال نہیں یہاں تک دوسرے خاوند سے نکاح کرلے ۔

 تحقیق السند

(۱،۲)سعید بن منصور اور ہشیم کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے ۔

(۳)امام ابو بشر جعفر بن ایاس وھو ابن ابی وحشیۃ الواسطی ، یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ واثبت الناس فی سعید بن جبیر ہیں۔

 ( تہذیب الکمال : ۵؍۵، تہذیب لابن حضر : ۲؍۸۳)

 (۴)سعید بن جبیر الکوفی ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( تہذیب الکمال :۱۰؍ ۳۵۸، تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۶۰)

(۸)سیدنا امام حسن بصری رحمہ اللہ کا اَثر

            رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ الْمَنْصُوْرِ قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا حُمَیْدٌ عَنِ الْحَسَنِ اَنَّہٗ قَالَ فِیْمَنْ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ ٗ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا قَالَ رَغِمَ اَنْفُہٗ لَمْ اَجِدْہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔

( سنن سعید بن منصور : ۱؍۲۶۷)

            ترجمہ: حسن نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں اس کی ناک خاک آلود ہو میں اس کے لیے کوئی چارہ نہیں پاتا یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔

تحقیق السند

(۱،۲)سعید بن منصور اور ہشیم کاتذکرہ پہلے ہوچکا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔

(۳)حمید الطویل ،، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقۃو صدوق و لاباس بہ ہیں۔

 (تہذیب لابن حجر : ۳؍۳۸،تذکرۃ الحفاظ: ۱۱۱۴)

(۴)امام حسن بصری رحمہ اللہ ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔          

 ( تہذیب الاسماء :۱؍۱۶۱، تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۵۷)

 فائدہ  :

             یہاں سند میں حمید الطویل ہیں، ان کے متعلق شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کا اِقتباس پڑھتے جائیں ۔ وہ لکھتے ہیں:

            ’’ راقم الحروف نے حافظ ابن حجر اور ابو بکر البردیجی وغیرہما پر اعتماد کرتے ہوئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حمید الطویل کی کئی معنعن روایات کو ضعیف قرار دیا تھا ، لیکن اَب صحیح واسطہ اور خاص دلیل معلوم ہونے کے بعد رجوع کرتا ہوں اور صحیح یہ ہے کہ حمید کی انس رضی اللہ عنہ سے معنعن روایت بھی صحیح ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔‘‘

( علمی مقالات: ۵؍۲۱۷)

             یہاں یہ وضاحت مطلوب ہے کہ علی زئی صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ پر اعتماد کرتے ہوئے

حمید الطویل کو مدلس بتایااوراس کی تدلیس کو مدار بنا کر کئی حدیثوں کی تضعیف کردی ۔ غیرمقلدین کے ہاں یہ طرز عمل تقلید کہلائے گا یا کچھ اور ؟

(۹)امام حماد بن ابی سلیمان رحمہ اللہ کا اثر

             رَوَی الْاِمَامُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ مِسْعِرٍ عَنْ حَمَّادٍ مِثْلَ قَوْلِھِمْ یَعْنِیْ اِذَا طَلَّقَ الْبِکْرَ ثَلَاثًا فَجَمَعَھَا لَمْ تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ فَرَّقَھَا بَانَتْ بِالْاُوْلٰی وَلَمْ تَکُنِ الْاُخْرَیَانِ شَیْئًا ۔

 (مصنف عبد الرزاق :۶؍۳۳۷،حدیث :۱۰۸۶ا )

            ترجمہ: حماد نے فرمایا: جب آدمی اپنی کنواری بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیں تو وہ اس کے حلال نہیں یہاں تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر لے ۔ پس اگر وہ اسے الگ الگ طلاقیں دے تو پہلی طلاق کے ساتھ جدا ہو جائے گی اور دوسری دو واقع نہیں ہوں گی ۔

تحقیق السند

(۱)امام عبد الرزاق رحمہ اللہ کے ثقہ ہونے کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے ۔

(۲)امام سفیان بن عیینہ ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 (تہذیب الاسماء :۱؍۲۲۴، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۹۳)

(۳)مسعر بن کدام الکوفی ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( تہذیب الاسماء : ۲؍۸۹، تذکرۃ الحفاظ:۱؍۱۴۱)

(۴)امام حماد بن ابی سلیمان ، صحیح بخاری معلقا، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔

 ( تہذیب الکمال: ۷؍۲۷۹، سیر اعلام النبلاء : ۵؍۲۳۱)

          فائدہ:

            سند میں سفیان بن عیینہ کا عنعنہ ہے۔اس کے متعلق غیرمقلدین کی کتابوں کے حوالے پڑھ لیں۔

 مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں ان کے پانچ مراتب بیان کئے ہیں(۱)جس سے بہت کم تدلیس ثابت ہو جیسے یحی بن سعید انصاری ہیں۔ (۲) جس کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہو اور اپنی صحیح میں اس سے روایت بیان کی ہو کیوں کہ اس کی تدلیس اس کی مرویات کے مقابلہ میں کم ہے۔ اوروہ فی نفسہ امام ہے جیسے ثوری ۔یا وہ ثقہ سے ہی تدلیس کرتا ہے جیسے کہ ابن عیینہ ہے۔ ‘‘

 ( خیر الکلام صفحہ ۴۷،ناشر: مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ ، سن اشاعت: جنوری ؍۲۰۰۲ء )

گوندلوی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:

            ’’ دوسرے طبقہ کے مدلسین کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے :ائمہ حدیث نے ان کی تدلیس برداشت کی ہے ۔ اور ان کی حدیث صحیح سمجھی ہے کیوں کہ یہ لوگ امام تھے اور تدلیس کم کرتے تھے جیسے امام ثوری ہیں یا صرف ثقہ سے تدلیس کرتے تھے جیسے ابن عیینہ ہیں۔ طبقات المدلسین ص ۲۔‘‘

 ( خیر الکلام صفحہ ۲۱۴،ناشر: مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ ، سن اشاعت: جنوری ؍۲۰۰۲ء )

 شیخ محمد خبیب اثری نے امام ابن حبان رحمہ اللہ کے متعلق لکھا:

            ’’ ان کے ہاں جو مدلس صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی

تصریح کے بغیر بھی قبول کی جائے گی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ صرف ثقہ ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدم صراحت سماع کے باوجود قبول کی جائے گی ۔ دنیا میں صرف سفیان بن عیینہ ایسے راوی ہیں، جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں ۔ سفیان بن عیینہ کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے ، جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے ۔ (مقدمہ صحیح ابن حبان :۱؍۹۰ ، الاحسان )‘‘

 (مقالاتِ اثریہ صفحہ ۲۰۸)

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...