نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرسل معتضد کی بحث اور اہل حدیث علماء کے اعتراضات کے جوابات ۔

 

مرسل معتضد کی بحث

اور

اہل حدیث علماء کے اعتراضات کے جوابات ۔

- مولانا نذیر الدین قاسمی

مرسل معتضد کے سلسلے میں امام شافعی ؒ کے ارشاد اور اس کی شرح :

مشہور ثقہ مجتہد،ناصر الحدیث ،امام محمد بن ادریس الشافعی ؒ  (م۲۰۴؁ھ) فرماتے ہیں کہ :

         المنقطع مختلف فمن شاهدَ أصحاب رسول الله من التابعين، فحدَّث حديثاً منقطعاً عن النبي: اعتُبر عليه بأمور:

منها: أن ينظر إلى ما أَرسل من الحديث، فإن شَرِكَه فيه الحفاظ المأمونون، فأسندوه الى رسول الله بمثل معنى ما روى: كانت هذه دلالةً على صحة مَن قبل عنه وحفظه.

وإن انفرد بإرسال حديث لم يَشركه فيه من يُسنده قُبِل ما ينفرد به من ذلك.

ويعتبر عليه بأن ينظر: هل يوافقه مرسِل غيره ممن قُبل العلم عنه من غير رجاله الذين قُبل عنهم؟

فإن وُجد ذلك كانت دلالةً يَقوى له مرسلُه، وهي أضعف من الأولى.

وإن لم يُوجَد ذلك نُظر إلى بعض ما يُروى عن بعض أصحاب رسول الله قولاً له، فإن وُجد يُوافق ما روى عن رسول الله كانت في هذه دلالةٌ على أنه لم يأخذ مرسَلَه إلا عن أصل يصح إن شاء الله.

وكذلك إن وُجد عوامُّ من أهل العلم يُفتون بمثل معنى ما روى عن النبي.

قال "الشافعي": ثم يُعتبر عليه: بأن يكون إذا سمى من روى عنه لم يسمِّي مجهولاً ولا مرغوباً عن الرواية عنه، فيُستدل بذلك على صحته فيما روى عنه.

ويكون إذا شَرِك أحداً من الحفاظ في حديث لم يخالفه، فإن خالفه وُجد حديثه أنقصَ: كانت في هذه دلائل على صحة مخرج حديثه.

ومتى ما خالف ما وصفت أضرَّ بحديثه، حتى لا يسع أحداً منهم قبول مرسله

قال: وإذا وجدت الدلائل بصحة حديثه بما وصفت أحببنا أن نقبل مرسله

امام شافعی ؒ کی شرائط کا خلاصہ :

قبول مراسیل کیلئے امام شافعیؒ نے ۷ شرائط ذکر کی ہیں،۳ مرسِل کے لئے اور ’۴‘ اس  مرسَل روایت کے لئے:

مرسِل (ارسال کرنے والے)  کے  لئے  شرائط :

(۱)       کبار تابعین میں شمار کیا جاتا ہو۔(بنیادی شرط)[1]

(۲)       مرسِل : غیر ثقہ،مجہول سے روایت کرنے کا عادی نہ ہو۔

(۳)      اس کی مرفوع حدیثیں شاذ نہ ہوں۔

مرسَل روایت کے لئے  شرائط :

(۱)       وہ مرسَل  روایت کسی دوسری طریق سے متصل و مسند آئی ہو۔

(۲)       کسی دوسری طریق سے مرسلاً مروی ہو۔

(۳)      صحابہ کرام ؓ کے فتاوی سے اس کی توثیق ہو رہی ہو۔

(۴)      جمہور اہل علم کے درمیان مقبول ہو۔

(ماخوذ من کتاب الرسالہ للشافعی   بحوالہ  علوم الحدیث مطالعہ و تعارف : ص ۱۳۳-۱۳۴،طبع مقامی جمعیت اہل حدیث،علی گڑھ،یوپی)

ایک اہم وضاحت :

            یہاں پر امام شافعی ؒ نے ۷ شرائط ذکر کی ہیں:لیکن  ان ۷ شرائط کے ذکر کا مقصد یہ ہرگزنہیں کہ  امام شافعی ؒ کے نزدیک  مرسَل اسی وقت حجت ہوسکتی ہے جب ۷  کے ۷  مکمل شرائط اس مرسِل اور مرسَل روایت میں   پائی جائیں۔

بلکہ ان کے نزدیک اگر مرسِل (ارسال کرنے والے) صرف  کبار تابعین میں سے ہوں،اور اس مرسِل (ارسال کرنے والے)  کی مرسَل  روایت میں ،امام شافعی ؒ کی مرسَل روایت کیلئےذکر کردہ  درج ذیل ۴ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی  پائی جائے،تو وہ ان کے نزدیک حجت ہوگی۔وہ ۴ شرائط   یہ ہیں :

(۱)       وہ مرسَل  روایت کسی دوسری طریق سے متصل و مسند آئی ہو۔

(۲)       کسی دوسری طریق سے مرسلَاً مروی ہو۔

(۳)      صحابہ کرام ؓ کے فتاوی سے اس کی توثیق ہو رہی ہو۔

(۴)      جمہور اہل علم کے درمیان مقبول ہو۔

            خلاصہ یہ کہ  امام شافعی ؒ کے نزدیک حدیث مرسَل اس وقت حجت اور مقبول ہوگی ،جبکہ  ارسال کرنے والا تابعی کبار تابعین میں سے ہو،اور ان کی ذکر کردہ مرسَل حدیث کے لئے  شرائط میں سےکوئی ایک شرط پائی جائے۔

امام شافعی ؒ کے کلام سے اس کی دلیل :

            کتاب الام میں موجود امام شافعی ؒ کے کلام میں’’ إن لم يُوجَد‘‘اگر یہ شرط نہ پائی گئی تو۔۔۔یہ الفاظ صاف طور سے دلالت کررہے ہیں کہ  ان کے نزدیک مرسل حدیث کے لئےمذکورہ بالا تمام  شرائط کا یکجا ہونا ضروری نہیں۔

 دیکھئے : مناقب الشافعی للبیہقی : ج۲: ص ۳۱،المدخل للبیہقی : ج۱:ص۳۷۴،الکفایۃ للخطیب : ص ۴۰۵۔

امام شافعیؒ کے کلام  کی شرح ائمہ محدثین سے :

(۱)       امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            فالشافعي رحمه الله، يقبل مراسيل كبار التابعين إذا انضم إليها ما يؤكدها

            امام شافعی ؒ کبار تابعین کی مراسیل کو  اس وقت قبول کرتےہیں جبکہ دوسری روایت سے اس کی تائید ہوتی ہو۔ (مناقب الشافعی : ج۲: ص ۳۲)،

اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک مرسَل روایت کو کسی ایک بھی شرط سے تائید مل جائے، تو یہ ان کے نزدیک مرسل کے حجت ہونے کے لئے کافی ہے۔

 (۲)       حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ  (م۸۵۲؁ھ)۔

(۳)      امام نووی ؒ (م۶۷۶؁ھ) وغیرہ نے امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) کے کلام کو مختصراً  ذکر کیا کہ :

’’يقبل إن اعتضد بمجيئه من وجه آخر يباين الطرق  الأولى مسندا كان أو مرسلا؛ ليترجح احتمال كون المحذوف ثقة في نفس الأمر ‘‘ 

مرسَل کو قبول کیا جائےگا اگر وہ دوسرے طریق سے مسنداً یا مرسلاً آئی ہو، تاکہ (ارسال میں) محذوف راوی کے ثقہ ہونے کا احتمال راجح ہو جائے۔(نزہۃ النظر لابن حجر : ص ۸۳،تحقیق عتر، شرح مسلم للنووی : ج۱ : ص ۳۰)،

ان ائمہ نے بھی  امام شافعی ؒ کے شرائط کا مقصد  اصل میں کسی ایک شرط سے مرسل روایت کو  تائید  حاصل ہونا مراد  لیا ہے۔

(۴)      حافظ ابن کثیرؒ (م۷۷۴؁ھ) کہتے ہیں کہ:

 ’’ الذي عول عليه كلامه في الرسالة " أن مراسيل كبار التابعين حجة، إن جاءت من وجه آخر ولو مرسلة، أو اعتضدت بقول صحابي أو أكثر العلماء، أو كان المرسل لو سمى لا يسمي إلا ثقة، فحينئذ يكون مرسله حجة، ولا ينتهض إلى رتبة المتصل‘‘

 کتاب الرسالۃ (ص:  ۴۶۱)میں امام شافعیؒ کا کلام ، جس پر اعتماد کیا گیا ہے یہ  ہے کہ  کبار تابعین کی مرسل روایات اگر دوسری سند سے آجائیں چاہے یہ سند مرسل ہی ہو یاکسی صحابی یاجمہور علماء کا قول اس کا مؤید ہو یا ارسال کرنے والے (تابعی) جب اپنے استاد کا نام لیں تو صرف ثقہ کا ہی نام لیں،اس حالت میں ان کی مرسل حجت ہوتی ہے اور یہ متصل کے درجے تک نہیں پہنچتی۔(اختصار علوم الحدیث مع الباحث الحثیث  : ص۴۹، اختصار علوم الحدیث مترجم : ص ۳۷)،

 (۵)      حافظ ابن الصلاح ؒ (م۶۴۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

  ’’ نص الشافعي رضي الله عنه في مراسيل التابعين: أنه يقبل منها المرسل الذي جاء نحوه مسندا، وكذلك لو وافقه مرسل آخر ‘‘

تابعین کی مراسیل کے سلسلہ میں امام شافعیؒ نے تصریح کی  کہ وہ  اس مرسل کو جو اسی طرح مسند بھی آئی ہو، قبول کرتے ہیں،اور ایسے ہی اگر دوسری مرسل اسکے موافق آجائےتب بھی امام شافعیؒ اس  مرسل کو قبول کرتے ہیں۔ (مقدمہ ابن الصلاح : ص ۳۲،ت عتر)،

(۶)       حافظ ابن الملقنؒ(م۸۰۴؁ھ) (امام مسلم کا قول کہ مرسل حجت نہیں ہے،  کے بعد )  کہا کہ:

’’ نعم إن صح مخرج المرسل كمجيئه من وجه آخر مسندا أي وإن كان ضعيفا كما أسلفنا في آخر النوع الثاني أو مرسلا أرسله من أخذه من غير رجال الأول قلت أو قول صحابي أو عوام أهل العلم كما قاله الشافعي في الرسالة أو فعل صحابي أو بقياس أو بقول الأكثرين أو ينتشر من غير دافع أو يعمل به أهل العصر أو لا دلالة سواه كما قاله الشافعي في الجديد كما أفاده المارودي   أو عرف أنه لا يرسل إلا عن عدل كان صحيحا ويتبين بذلك صحة المرسل ‘‘

البتہ اگر مرسل کا مخرج صحیح ہو ، جیسے کہ دوسرے طریق سے مسنداً آجائے ، بھلے وہ طریق ضعیف ہی کیوں نہ ہو، جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے نوع ثانی کے اخیر میں ، یا یہ کہ (وہ مرسل روایت )کسی دوسری سند سے بھی مرسلاآجائے، میں کہتا ہوں یا یہ کہ کسی صحابیؓ کا قول یا عامۃً علماء کا قول ( اس مرسل کے موافق ہو) جیسا کہ امام شافعیؒ نے رسالہ میں کہا ہے، یا یہ کہ صحابی ؓ کا عمل یا قیاس یا اکثر کا قول (اس کے موافق ہو) یا یہ کہ بغیر کسی خاص وجہ  کے وہ مرسل پھیل چکی ہو،یا یہ کہ کسی زمانہ میں اس پر عمل کیا گیا ہو، یا یہ کہ اس کے علاوہ کوئی دلیل نہ ہو، جیسا کہ امام شافعیؒ نے قول جدید میں  کہا ہے، جیسا کہ امام ماوردیؒ نے بیان کیا ہے، یا ارسال کرنے والے کے بارے میں یہ معروف ہو کہ وہ عدل راوی سےہی ارسال کرتا ہے، تو وہ مرسل روایت صحیح ہوگی اور اس کے ذریعہ مرسل کی صحت واضح ہوگی۔(المقنع لابن الملقن : ج۱ : ص ۱۳۵)،

(۷)      محدث  رضی الدین ابن الحنبلیؒ(م۹۷۱؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            عند الشَّافِعِي بِأحد خَمْسَة أُمُور أَن يسْندهُ غَيره أَو أَن يُرْسِلهُ آخر وشيوخهما مُخْتَلفَة أَو أَن يعضده قَول صَحَابِيّ أَو أَن يعضده قَول / أَكثر الْعلمَاء أَو أَن يعرف أَنه لَا يُرْسل إِلَّا عَن عدل۔

            امام شافعیؒ کے نزدیک پانچ میں سے کسی ایک چیز کے ذریعہ کہ دوسرے نے اسے مسنداً بیان کیا ہو، یا کسی اور بھی اسے مرسلا روایت کیا ہو جبکہ دونوں کے شیوخ مختلف ہوں ، یا کسی صحابی کے قول سے اس کی تائید ہوتی ہو، یا اکثر علماء کا قول اس کا مؤید ہو یا ارسال کرنے والے کے بعد یہ معروف ہو کہ وہ عدل راوی سے ہی ارسال کرتا ہے۔ (قفو الأثر في صفوة علوم الأثر: ص ۶۷)

(۸)      امام ابو عبد اللہ ،محمد بن ابراھیم بن سعد اللہ الکنانی الحمویؒ(م۷۳۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

            وقد جعل الشافعي لمراسيل كبار التابعين مزية كما استحسن مرسل سعيد ثم المنقول عن الشافعي على ما نقله البيهقي وغيره أن المرسل إن أسنده حافظ غير مرسله أو أرسله عن غير شيوخ الأول فيه أو عضده قول صحابي أو فتوى أكثر العلماء أو عرف أنه لا يرسل إلا عن عدل قبل۔

            امام شافعیؒ نے کبارِ تابعین کی مراسیل کو خصوصیت دی ہے ، جیسا کہ آپ نے سعید ؒ کی مرسل کو پسند کیا ہے، پھر امام شافعیؒ سے منقول ہے جیسا کہ امام بیہقی ؒ اور دوسروں نے نقل کیا ہے کہ اگر مرسل حدیث کو کسی دوسرے حافظ نے مسنداً بیان کیا ہو ، یا مرسلاً ہی بیان کیا ہو مگر اس مرسِل کے شیخ ، اول مرسِل کے شیخ کے علاوہ ہوں ، (یعنی دونوں مرسِلوں کے شیخ الگ الگ ہوں ) یا صحابیؓ کے قول یا اکثر علماء کے فتویٰ سے اس کی تائید ہوتی ہو، یا یہ معروف ہو کہ وہ عدل راوی سے ہی ارسال کرتا ہو ، تو وہ مرسَل روایت قبول کی جائے گی ۔(المنھل الروی للحموی : ص ۴۳)،

(۹)       حافظ سخاوی ؒ (م۹۰۲؁ھ) کہتے ہیں کہ

            وقوله أو يفصل أشار به إلى ما نص عليه الشافعى - رحمه الله - تعالى فى " الرسالة " حيث قال: إن مراسيل كبار التابعين حجة إن جاءت من وجه آخر، ولو مرسلة، أو كان المرسل لو سمى، لا يسمى إلا ثقة، كذا إذا اعتضدت بقول صحابى أو أكثر العلماء يكون حجة، ولا ينتهى إلى رتبة المتصل

            متن کا قول ’’یا تو اس میں تفصیل کی جائے گی ‘‘ آپ کا اشارہ امام شافعیؒ کے اس قول کی طرف ہے جو آپ نے اپنی کتاب ’’ الرسالہ ‘‘ میں صراحت سے بیان کیا ہے، چنانچہ آپ کہتے ہیں : کبارِ تابعین کی مراسیل حجت ہیں ، جبکہ وہ دوسری سند سے آئیں ، چاہے وہ دوسری سند مرسل ہی کیوں نہ ہو، یا ارسال کرنے والا جب بھی اپنے شیخ کا نام لے تو کسی ثقہ کا ہی نام لے (یعنی یہ معروف ہو کہ ان کے تمام شیوخ ثقہ ہیں)اسی طرح کسی صحابیؓ یا اکثر علماء کے قول سے اس کی تائید ہوتی ہو ، تو وہ مرسل حجت ہوگی ، لیکن تب بھی متصل حدیث کے درجہ تک نہیں پہنچے گی۔۔(الغاية في شرح الهداية في علم الرواية للسخاوی : ص ۱۶۷)

(۱۰)      حافظ ابن رجبؒ (م۷۹۵؁ھ) نے بھی تقریباً  یہی کہا ہے۔(شرح علل ترمذی : ج۱: ص ۵۴۹)

          ائمہ کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ  امام شافعی ؒ کے نزدیک  مرسل حجت ہوگی،جب ان کے ذکر کردہ شرائط  میں سے کوئی ایک شرط سے مرسل روایت کو تائید حاصل ہوجائے۔

امام شافعی ؒ کے منہج سے اس کی دلیل :

پہلی مثال :

            امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) نے ’’ النهي عن بيع اللحم بالحيوان ‘‘ کے مسئلے میں  سعید بن المسیبؒ کی ایک مرسل  حدیث سے احتجاج کیا ہےکہ:  

            أخبرنا مالك عن زيد بن أسلم عن سعيد بن المسيب أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - نهى عن بيع الحيوان باللحم۔(کتاب الام : ج۳: ص ۸۲)

          امام شافعیؒ کے اس احتجاج کی شرح میں امام ابو بکر البیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) کہتے ہیں کہ :

            ۔۔۔أكد (مرسل ابن المسيب) في (النهي عن بيع اللحم بالحيوان) : - بقول الصديق -رضي الله عنه-وبأنه روي من أوجه أخر مرسلاً۔۔۔

            حیوان کے گوشت کی بیع  کی ممانعت  میں ابن مسیبؒ کی مرسل کو تائید حاصل ہوتی ہے:

 (۱)       صدیق اکبرؓ کے قول سے اور

 (۲)       ایک دوسری مرسل  روایت سے (رسالة الإمام أبي بكر البيهقي إلى الإمام أبي محمد الجويني: ص ۹۱-۹۲)

            اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی ؒ  کے نزدیک حدیث مرسل میں ان کی ذکر کردہ تمام شرائط کا ہونا ضروری نہیں ۔

دوسری مثال :

امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے حسن بصری ؒ کی مرسل روایت نقل کی کہ  ’’لا نكاح إلا بولي وشاهدي عدلٍ‘‘ اور فرمایا :

            وهذا وإن كان منقطعا دون النبي - صلى الله عليه وسلم - فإن أكثر أهل العلم يقول به ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (قال الشافعي) : وهو ثابت عن ابن عباس - رضي الله عنهما - وغيره من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم -

            یہ حدیث اگر چہ منقطع ہے ،  رسول اللہ ﷺ سے (متصل) نہیں ہے،لیکن اکثر اہل علم یہی کہتے ہیں کہ  نکاح میں ولی اور عادل گواہ ہونے چاہئے، اور یہی بات ابن عباس ؓ اور دیگر اصحاب رسول ﷺ سے ثابت ہے۔ (کتاب الام للشافعی : ج۵:ص۱۸۰)

            امام صاحب ؒ کی اس عبارت پر غور کریں کہ اس میں آپؒ  نے مرسل کی تائید میں تمام شرائط کا لحاظ نہیں رکھا، بلکہ صرف ۲ شرائط کا ذکر کیا:

(۱)       اکثر اہل علم کا یہی قول ہے۔

(۲)       صحابی ؓ کے فتوی سے اس کی تائید ہوتی ہے۔

            اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک  مرسل کی تائید میں ان کے ذکر کردہ شرائط میں سے کوئی ایک شرط بھی پائی جائےتب بھی مرسل حجت ہوگی۔

ایک قابل غور  بات :

            امام شافعی ؒ نے  حسن بصری ؒ کی مراسیل سے احتجاج کیا ہے،جبکہ غیر مقلدین حضرات  اور ائمہ محدثین کی ایک جماعت  کے نزدیک  حسن بصری ؒ ہر ایک سے (یعنی ثقہ اور ضعیف دونوں طرح کے لوگوں سے) روایت لیتے تھے۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : ج۲: ص ۷۳،سلسلۃ الحادیث الصحیحۃ : ج۶: ص ۷۵۶،توضیح الکلام : ص ۵۴۴)

            لیکن اسکے باوجود بھی جب حسن بصریؒ کی مراسیل کی تائید ان کی کسی دوسری شرط سے ہوئی،تو امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ)  نے ان کی مراسیل سے احتجاج کیا،دلیل پکڑی، صرف ایک مقام پر نہیں بلکہ کئی مقامات پر امام شافعی ؒ نے مراسیل حسن بصری سے  احتجاج کیا ہے، دیکھئے :رسالة الإمام أبي بكر البيهقي إلى الإمام أبي محمد الجويني: ۹۱-۹۲، کتاب الام : ج۱:ص۲۳۴،ج۳: ص ۷۲۔

امام عطاء بن ابی رباح ؒ (م۱۱۴؁ھ) کی مراسیل سے امام شافعی ؒ کا احتجاج :

            حسن بصری ؒ کے مراسیل کے ساتھ ساتھ  امام شافعی ؒ  نے امام عطاء بن ابی رباح ؒ (م۱۱۴؁ھ) کی مراسیل سے  بھی احتجاج کیا ہے۔( رسالة الإمام أبي بكر البيهقي إلى الإمام أبي محمد الجويني: ص ۹۴)  جبکہ ائمہ جرح و تعدیل اس پر متفق ہیں کہ وہ ہر ایک سے روایت لیتے تھے۔(اتحاف النبیل : ج۲ : ص ۱۴۲)

            اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ مرسل روایت میں اگر کبار تابعی ہر ایک سے روایت کرنے والا ہو،تب بھی اس کی مراسیل حجت ہوں گی،بشرطیکہ ان کی مرسل روایت کی تائید امام شافعی ؒ کی بیان کردہ کسی ایک شرط سے ہوجائے۔

            اور امام ابو عبد اللہ ،محمد بن ابراھیم بن سعد اللہ الکنانی الحمویؒ(م۷۳۳؁ھ)،حافظ ابن کثیرؒ،حافظ ابن المقلن ؒ، حافظ سخاوی ،محدث ابن الحنبلیؒ وغیرہ نے کہا کہ اگر  تابعی کبیر صرف ثقہ سے روایت کرنے والا ہو،تو ایسے راوی کی تنہا مرسل روایت مستقل شرط ہونے کی وجہ سے، امام شافعیؒ کے نزدیک مقبول اور حجت ہوگی۔ (دیکھئے  : ص۴ )[2]

امام شافعی ؒ کے نزدیک کبار تابعی  سے مراد کون  ؟؟؟

            امام شافعی ؒنے مراسیل کو قبول کرنے میں پہلی بات یہ کہی ہے کہ  راوی کبار تابعین میں سے ہو،یہی وجہ ہے کہ ہم نے اس شرط کو بنیادی شرط قرار دیاہے،کیونکہ اگر راوی کبار تابعی میں سے نہ ہو،تو امام شافعی ؒ اس کی مراسیل کو حجت نہیں سمجھتے۔دیکھئے کتاب الرسالۃ : ص ۴۶۵۔

یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ذکر کردیا جائے کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک کبار تابعی  سے مراد کون لوگ ہیں؟؟

حافظ ابن رجب ؒ (م۷۹۵؁ھ)امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کی عبارت کی شرح میں کہتے ہیں  (جس کا خلاصہ یہ ہے):

            أن يكون من كبار التابعين فإنهم لا يروون غالبا إلا عن صحابي، أو تابعي كبير۔

            کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک کبار تابعی وہ ہے،جو عام طور ے صحابی  ؓ یا   (متقدِم) کبار تابعی سے روایت کریں۔

(شرح علل ترمذی : ج۱: ص ۵۴۷)

            معلوم ہوا کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک کبار تابعی وہ  ہے جو عام طور ے صحابی  ؓ یا   متقدِم کبار تابعی سے روایت کرے،

            یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ؒاور ایک جماعت کے نزدیک حسن بصریؒ،عطاء بن ابی رباحؒ،طاووسؒ،عروۃ بن زیبرؒ، سلیمان بن یسارؒ،ابن سیرین ؒ وغیرہ حضرات کبار تابعین میں سے ہیں۔ ( رسالة الإمام أبي بكر البيهقي إلى الإمام أبي محمد الجويني: ص ۹۴)

خلاصہ :

ان تمام وجوہات کی بنا پر اس مضمون کے شروع میں امام شافعی ؒ  کی شرائط کو ۲ حصہ میں تقسیم کیا گیاتھا ،

-i         مرسِل (ارسال کرنے والے) کے لئےشرائط۔

-ii       مرسل روایت کی شرائط۔

اور پھر امام شافعی ؒکے کلام،منہج اور ائمہ محدثین کے فہم کے مطابق    یہ واضح کیا گیا کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اصل راوی کبیر تابعی ہو اور اگر اس کی مرسل روایت  میں (امام شافعی ؒ کی ذکردہ   مرسل روایت کی۴ شرائط میں سے) کوئی ایک شرط پائی جائے،تو ایسی روایت امام شافعیؒ کے نزدیک مقبول اورحجت  ہیں۔نیز ائمہ محدثین کے نزدیک بھی مرسل معتضدمقبول ہیں۔

مرسل معتضد کے سلسلہ میں دیگر ائمہ محدثین کے ارشادات :

            امام شافعی ؒ کی طرح محدثین کی ایک جماعت بھی  مرسل معتضد  کو حجت مانتی ہے:

(۱)         امام ابوبکر بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ)  فرماتے  ہیں :

’’ أن يكون الذي أرسله من كبار التابعين الذين إذا ذكروا من سمعوا منه ذكروا قوما عدولا يوثق بخبرهم. فهذا إذا أرسل حديثا نظر في مرسله، فإن انضم إليه ما يؤكده من مرسل غيره، أو قول واحد من الصحابة، أو إليه ذهب عوامّ من أهل العلم- فإنّا نقبل مرسله في الأحكام ‘‘

 یہ کہ اس (روایت )کو مرسلاً بیان کرنے والا ایسے کبارِ تابعین میں سے ہوکہ جب وہ اپنے شیوخ کا ذکر کریں  تو ایسے لوگ ذکر کریں جو عادل ہوں جن کی خبر پر اعتماد کیا جاتا ہو،تو ایسا راوی جب کوئی حدیث مرسلاً بیان کرے تو اس کی مرسل روایت میں غور کیا جائے گا، اگر اسکے ساتھ کوئی ایسی چیز مل جاتی ہےجس سے اسے تقویت ہوتی ہے، جیسے کسی اور کی مرسل یا صحابہ ؓ میں سے کسی کا قول یا عامۃً اہل علم اسی طرف گئے ہوں ، تو اسکی مرسل کو ہم احکام میں قبول کرتے ہیں ۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی : ج۱: ص ۴۰)

(۲)       امام  ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں:

             ’’ فإن المرسل إذا صح إلى تابعي كبير، فهو حجة عند خلق من الفقهاء ‘‘

پھر مرسَل جب تابعی کبیر  تک صحیح   ہو،تو وہ فقہاء کی ایک جماعت کے نزدیک حجت ہے۔(الموقظۃ : ص ۳۹)،

(۳)      حافظ ابن الصلاح ؒ (م۶۴۳؁ھ)کہتے  ہیں :

’’اعلم أن حكم المرسل حكم الحديث الضعيف، إلا أن يصح مخرجه بمجيئه من وجه آخر‘‘

جان لو!مرسل ضعیف حدیث کے حکم میں ہے،الا یہ کہ اس کا مخرج صحیح ثابت ہو،  اس طور پر کہ دوسری سند سے بھی آجائے۔(مقدمہ ابن الصلاح : ص ۵۳)، 

(۴)      حافظ سخاویؒ(م۹۰۲؁ھ) فرماتے  ہیں :

’’ إِذَا صَحَّ يَعْنِي ثَبَتَ (لَنَا) أَهْلِ الْحَدِيثِ، خُصُوصًا الشَّافِعِيَّةَ، تَبَعًا لِنَصِّ إِمَامِهِمْ (مَخْرَجُهُ) أَيِ: اتِّصَالُ الْمُرْسَلِ (بِمُسْنَدٍ) يَجِيءُ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ صَحِيحٍ أَوْ حَسَنٍ أَوْ ضَعِيفٍ يَعْتَضِدُ بِهِ (أَوْ) بِـ (مُرْسَلٍ) آخَرَ (يُخْرِجُهُ) أَيْ: يُرْسِلُهُ (مَنْ لَيْسَ يَرْوِي عَنْ رِجَالِ) أَيْ: شُيُوخِ رَاوِي الْمُرْسَلِ (الْأَوَّلِ) حَتَّى يَغْلِبَ عَلَى الظَّنِّ عَدَمُ اتِّحَادِهِمَا (نَقْبَلْهُ) بِالْجَزْمِ‘‘

جب ہمارےنزدیک(یعنی)اہل حدیث،خاص کر شافعیہ کے نزدیک ، ان کے امام کی تصریح کے مطابق ، اس کا مخرج صحیح یعنی ثابت ہوجائے، کسی مسند کی وجہ سے، جو صحیح یا حسن یا ضعیف سے سند آئےجس سے وہ مرسل تقویت پائے، یا کسی دوسری مرسل کی وجہ سے ،جسے ایسا راوی ارسالاً بیان کر رہا ہو جس کے شیوخ پہلی مرسل روایت کرنے والے کے شیوخ کے علاوہ ہوں ، (یعنی دونوں ارسال کرنے والوں کے شیوخ الگ الگ ہوں) یہاں تک کہ یہ غالب گمان ہوجائے کہ دونوں کا مخرج ایک نہیں ہے، تو یقیناً ہم اسے قبول کریں گے۔

(فتح المغیث  : ج۱ : ص ۱۸۳، مزید تفصیل کے لئے دیکھئے    الغاية في شرح الهداية في علم الرواية للسخاوی : ص ۱۶۶)

(۵)      حافظ ابو الفضل العراقیؒ (م۸۰۶؁ھ) کہتے ہیں :

’’ لَكِنْ إذا صَحَّ لَنَا مَخْرَجُهُ ... بمُسْنَدٍ أو مُرْسَلٍ يُخْرِجُهُ

مَنْ لَيْسَ يَرْوِي عَنْ رِجَالِ الأوَّلِ ... نَقْبَلْهُ ‘‘

        لیکن جب اس کا مخرج ہمارے نزدیک ثابت ہوجائے، کسی اور مسند کی وجہ سے ، یا کسی ایسی مرسل کی وجہ سے ، جسے ایسے راوی نے روایت کیا ہو جو پہلے کے رجال سے روایت نہیں کرتا ہے، تو ہم اس مرسل کو قبول کریں گے۔ (الألفیۃ للعراقی  : ص ۱۰۴، نیز دیکھئے  شرح  التبصرة والتذكرة = ألفية للعراقي: ج۱ : ص ۲۰۷)،

(۶)       امام نووی ؒ (م۶۷۶؁ھ) فرماتے ہیں :

’’ فإن صح مخرج المرسل بمجيئه من وجه آخر مسنداً أو مرسلاً أرسله من أخذ عن غير رجال الأول كان صحيحاً، ويتبين بذلك صحة المرسل وأنهما صحيحان لو عارضهما صحيح من طريق رجحناهما عليه إذا تعذر الجمع ‘‘

لہذا اگر حدیث مرسل کا مخرج صحیح ثابت ہوجائے،دوسری طریق سے وہ  حدیث اس طور پر مسند یا مرسل آجائے کہ اسے ایسےشخص نے ارسال کیا ہو جس نے پہلی مرسل حدیث کے رجال سے حدیث نہ لی ہو،تو یہ صحیح ہوجائےگی اور اسی کے ساتھ مرسل کی صحت واضح ہوجائےگی اور یہ دونوں مرسل صحیح ہوں گی اور  ان دونوں کے مقابلے میں کوئی  حدیث صحیح  ایک سند سے آجائے اور ان جمع و تطبیق متعذر ہو،تو ہم ان دونوں مرسل حدیثوں کو اس صحیح حدیث پر ترجیح دیں گے۔(التقریب للنووی : ص ۳۵)،

(۷)      امام ابو عبد اللہ ،محمد بن ابراھیم بن سعد اللہ الکنانی الحمویؒ(م۷۳۳؁ھ) کہتے ہیں :

’’ حكم الْمُرْسل حكم الضَّعِيف إِلَّا أَن يَصح مخرجه بمجيئه من وَجه آخر إِمَّا مُسْندًا أَو مُرْسلا عَن غير رجال الأول فَيكون حجَّة محتجا بِهِ ‘‘

مرسل کا حکم وہی ہےجو ضعیف کا حکم  ہے، الا یہ کہ اس کا مخرج صحیح ثابت ہوجائے ، اس طور پر کہ وہ دوسری سند سے آجائے ، یا تو مسنداً یا مرسلاً مگر اس کے رواۃ دوسرے ہوں ، اس صورت میں وہ حجت ہوگی ، اس سے حجت پکڑی جائے گی۔(المنھل الروی للحموی : ص ۴۳)،

(۸)      حافظ ابن حجرؒ (م۸۵۲؁ھ) کہتے ہیں :

’’ أن المجموع حجة ‘‘

   مرسل  اور اسکی تائید کرنے والی دوسری مرسل یا مسند کا مجموعہ حجت ہے۔(النکت لابن حجر : ج۲ : ص ۵۶۶)،

(۹)    امام شرف الدین الطیبیؒ(م۷۴۳؁ھ) فرماتے ہیں :

’’ قيل يُحتج بالمرسل مطلقًا، وردَّه قومٌ مطلقًا، والأَوْلى إن صح مخرجه لمجيئه من وجه آخر مُسندًا عن غير رجال الأول، فهو حُجَّةٌ وعليه جماهير العلماء والمحدثين ولذلك احتج الشافعي بمراسيل ابن المسيب ‘‘

ایک قول ہے کہ مرسل سے مطلقا احتجاج کیا جائےگا، جبکہ دوسرے لوگوں نے اسے مطلقاً رد کیا ہے، اور اولیٰ یہ ہے کہ اگر اس کا مخرج صحیح ہو ، اس طور پر دوسری سند سے مسنداً مروی ہو ، جس کے روات پہلی (مرسل) کے کے روات کے علاوہ ہوں ، تو وہ حجت ہوگی ، جمہور علماء اور محدثین کا یہ مذہب ہے، اسی وجہ سے امام شافعیؒ نے ابن المسیبؒ کی مراسیل سے حجت پکڑی ہے۔(الخلاصۃ فی معرفۃ الحدیث : ص ۷۲)،

(۱۰)     حافظ ابن القیمؒ(م۷۵۱؁ھ) کہتے ہیں :

’’ الْمُرْسَلُ إِذَا اتَّصَلَ بِهِ عَمِلَ، وَعَضَّدَهُ قِيَاسٌ، أَوْ قَوْلُ صَحَابِيٍّ، أَوْ كَانَ مُرْسِلُهُ مَعْرُوفًا بِاخْتِيَارِ الشُّيُوخِ وَرَغْبَتِهِ عَنِ الرِّوَايَةِ عَنِ الضُّعَفَاءِ وَالْمَتْرُوكِينَ وَنَحْوِ ذَلِكَ مِمَّا يَقْتَضِي قُوَّتَهُ عُمِلَ بِهِ ‘‘

مرسل سے جب عمل جڑا ہو اور قیاس یا قول صحابی اس کو تقویت دے رہا ہو،یا ارسال کرنے والا (ثقہ) شیوخ کو اختیار کرنے اور ضعفاء ومتروکین سے اعراض کرنے میں معروف ہو ، اسی طرح دوسری چیزیں ہوں جو اس کی تقویت کا تقاضا کرتی ہوں ،تو اس (مرسل) پر عمل کیا جائےگا۔(زاد المعاد : ج۱: ص ۳۶۷)  

-          ایک اور مقام پرامام صاحب ؒ  کہتے ہیں :

’’ هذه الآثار يقوي بعضها بعضا، وقد تعددت مخارجها واختلفت طرقها، ومرسلها يعضد بمسندها ‘‘

یہ آثار ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں ، ان کی مخارج متعدد ہیں اور سندیں مختلف ہیں ، اور ان میں مرسل مسند سے مؤید ہو رہی ہیں۔(زاد المعاد : ج۱: ص ۳۶۷)

(۱۱)     حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ) کہتے ہیں :

’’ المرسل إذا روى من جهات مختلفة لا سيما ممن له عناية بهذا الأمر ويتبع له كان كالمسند ‘‘

مرسل جب مختلف سندوں سے روایت کی گئی ہو  خاصکر اس شخص کی طرف سے جسے اس چیز(حدیث شریف)   کا اہتمام ہواور اس کی اتباع کیا جاتی ہو ، تو وہ (مرسل) مسند کی طرح ہوگی۔(الصارم المسلول : ص ۱۴۳)،

-          ایک اور مقام پر کہتے ہیں :

’’ هذا المرسل قد عضده ظاهر القرآن والسنة، وقال به جماهير أهل العلم من الصحابة والتابعين ومرسله من أكابر التابعين، ومثل هذا المرسل يحتج به باتفاق الأئمة الأربعة ‘‘

اس مرسل کو قرآن و سنت کا ظاہر تقویت دے رہا ہے، اور صحابہ وتابعین میں سے جمہور اہل علم اسی کے قائل ہیں ، اور اس کو مرسلاً بیان کرنے والا بڑے درجے کے تابعین میں سے ہے، اس طرح کی مرسل سے  باتفاق ائمہ اربعہ حجت پکڑی جاتی ہے۔(الفتاوی الکبری : ج۲: ص ۲۸۹)،

-          ایک جگہ تحریر کرتے ہیں :

’’ المرسل في أحد قولي العلماء حجة كمذهب أبي حنيفة ومالك وأحمد في إحدى الروايتين عنه، وفي الآخر هو حجة إذا عضده قول جمهور أهل العلم، وظاهر القرآن أو أرسل من وجه آخر، وهذا قول الشافعي، فمثل هذا المرسل حجة باتفاق العلماء‘‘

مرسل، علماء کے دو میں اسے ایک قول میں حجت ہے، جیسا کہ امام ابو حنیفہ ، امام مالک اورایک روایت میں امام احمد کا مذہب ہے ، اور دوسرے قول میں وہ اس وقت حجت ہے ،جب جمہور اہل علم کے قول اور ظاہر قرآن سے اسے تقویت ہوتی ہو، یا دوسری سند سے مرسلاً بیان کی گئی ہو، یہ امام شافعیؒ کا قول ہے، تو اس طرح کی مرسل باتفاق علماء حجت ہے ۔(ایضاً : ج۳: ص ۱۰۹، دیکھئے  بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكلامية: ج۶: ص ۴۴۸)

          معلوم ہوا کہ مرسل معتضد  یعنی وہ مرسل جس کی تائید دوسری ضعیف مرسل یا مسند سے ہوجائے،تو وہ امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ) کے ساتھ ساتھ محدثین اورائمہ کے نزدیک  صحیح اور حجت ہے۔


[1] اس شرط کو بنیادی شرط کہنے کی وجہ آگے آرہی ہے۔

[2]  یہ شرط درصل امام شافعی ؒ نے ارسال کرنے والے(یعنی مرسِل) کیلئے مقرر فرمائی ہے،یہ شرط کوئی لازمی شرط نہیں بلکہ اگر پائی جائے، تونورعلی نور ہے۔

ورنہ چونکہ راوی کبار تابعین میں سے ہے،جوکہ بنیادی شرط ہے ،(ص:۲)اور ارسال کرنے والے کی  مرسل روایت میں امام شافعی ؒ کی (مرسل روایت کیلئے) ذکر کردہ  شرائط  میں سے کوئی ایک شرط بھی  پائی جائے،تو  اس مرسِل راوی کا  ہر ایک سے روایت کرنے کا احتمال ختم ہوجاتا ہے اور اس خاص  مرسل روایت میں اس کا ہر ایک سے روایت کرنے والی بات نقصان دہ نہیں ہے۔

یہی وجہ ہے کہ امام شافعی ؒ نے ایسے لوگوں کی مراسیل سے بھی احتجاج کیا ہے، جو محدثین کی ایک جماعت کے نزدیک ہر ایک سے روایت لینے ولے ہیں۔(دیکھئے ص :۹)


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر12

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...