امام کے پیچھے قراءت کا مسئلہ(قسط ۱)
-مولانا نذیر الدین قاسمی
امام
کے پیچھے قراءت کرنے کا مسئلہ فقہاء کے درمیان اختلافی ہے۔
لیکن قرآن و حدیث
کے روشنی میں راجح یہی ہے کہ امام
کے پیچھے قراءت کرنا متروک ہے۔(اعلاء السنن : ج۴: ص ۵۶،۱۳۲) اور نبی
ﷺ اور صحابہ ؓ سے امام کے پیچھے قرآت
کرنے کی ممانعت ثابت ہے ۔
دلائل درج ذیل ہیں
:
دلیل نمبر ۱ :
اللہ
تعالی فرماتے ہیں کہ
وَإِذَا
قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ۔
جب قرآن
پڑھا جائے،تو تم کان لگا ئے رہوا ، اور خاموش
رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(سورۃ
الاعراف : ۲۰۴)
فہم سلف و ائمہ
مفسرین کی تفسیر :
(۱) امام
المفسرین ،حافظ الحدیث ،امام مجاہد بن
جبرؒ(م۱۰۴ھ) کہتے ہیں کہ
قال:
كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرأ في صلاة فيها قراءة، فسمع قراءة فتى من
الأنصار، فأنزل الله عز وجل: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}
آنحضرت
ﷺ نماز میں قراءت فرمارہے تھے کہ آپ ﷺ نے ایک انصاری نوجوان کو قراءت کرتے سنا،جس
پر یہ آیت (وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا)
نازل ہوئی۔(احکام القرآن للطحاوی : ج۱ : ص ۲۴۴)[1]
(۲) ایک اور
قول میں امام مجاہد ؒ(م۱۰۴ھ) فرماتے ہیں کہ
عن
مجاهد، قال: " قرأ رجل خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنزلت: {وإذا قرئ
القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون}
رسول
اللہ ﷺ کے پیچھے ایک آدمی نے قرات کی،تو یہ آیات’’
وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون
‘‘ نازل ہوئی۔(تفسیر ابن ابی حاتم : ج۵:
ص ۱۶۴۶)[2]
(۳) امام محمد بن مسلم ،ابو بکر الزہریؒ(م۱۲۵ھ)
کہتے ہیں کہ
عن
الزهري، قال: نزلت هذه الآية في فتى من الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما
قرأ شيئا قرأه، فنزلت: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}۔
یہ آیت آنصار کے ایک نوجوان کے واقعہ
میں نازل ہوئی ہے۔رسول اللہ ﷺ جب جب بھی نماز میں قرات کرتے تھے،تو وہ بھی
قرات کرتے،تو اس پر یہ
آیات {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا} نازل ہوئی۔(تفسیر الطبری لابن جریر:
ج۱۰: ص ۶۵۹)[3]
(۴) مشہور کبار تابعی،امام،مفسر رفیع بن مہران
،ابو العالیہؒ(م۹۳ھ) فرماتے ہیں
کہ
عن
أبي العالية , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " إذا صلى فقرأ أصحابه
فنزلت {فاستمعوا له وأنصتوا} فسكت القوم وقرأ النبي صلى الله عليه وسلم۔
جب
جب بھی رسول اللہ ﷺ نماز میں قراءت کرتے ،تو آپﷺ کے اصحاب ؓ بھی قراءت کرتے ،تو
اس پر یہ آیات’’ فاستمعوا له
وأنصتوا‘‘ نازل ہوئی،پھر اس کے بعد اصحاب خاموش
ہوگئےاور رسول اللہ ﷺ قراءت فرماتے۔(کتاب القراءۃ للبیہقی : ج۱۰۷)[4]
(۵) ایک اور مشہورکبار تابعی امام،مفسر اور عالم
بالقران،محمد بن کعب القرظی ؒ(م۱۰۸ھ) فرماتے ہیں کہ
عن
محمد بن كعب , قال: " كانوا يتلقون من رسول الله صلى الله عليه وسلم , إذا
قرأ شيئا قرأوا معه حتى نزلت هذه الآية التي في الأعراف {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا
له وأنصتوا}
صحابہؓ رسول اللہ ﷺ کے پیچھے قراءت کرتے تھے،جب رسول
اللہ ﷺ قراءت کرتے، تو آپﷺ کے ساتھ صحابہ ؓ بھی قراءت کرتے تھے، یہاں تک کہ سورہ
اعراف کی یہ آیت{وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا} نازل ہوئی۔
نیز
ابو صخر الخراطؒ(م۱۸۹ھ) کی روایت
میں اضافہ ہے کہ محمد بن کعب القرظیؒ کہتے
ہیں کہ ’’ فَقَرَأَ وَأَنْصِتُوا ‘‘ آیت کے نزول کے بعد صرف رسول اللہ ﷺ نے قراءت
کی اور صحابہ ؓ خاموش ہوگئے۔(كتاب القراءة خلف الإمام للبیہقی :ص ۱۱۰،تفسیر ابن ابی حاتم:ج۵: ص ۱۶۴۵)[5]
(۶) امام المفسر ین ،حضرت
عبداللہ بن عباس ؓ (م۶۸ھ) فرماتے
ہیں کہ
عن عبد الله بن عباس , " أن رسول
الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل {وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} فهذه في
المكتوبة، ثم قال ابن عباس: وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذا لأجفى من الحمير
رسول اللہ ﷺ نے
نماز میں قراءت کی،تو آپ ﷺ کے پیچھے ، اصحاب ؓ نے بھی قراءت کی، تو آپﷺ پر قراءت مختلط
ہوگئی تو یہ آیات نازل ہوئی، تو یہ فرض نماز کے بارے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(القراءۃ
خلف الامام للبیہقی : ص ۱۰۹،تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰،الاعتبار للحازمی
: ص ۹۸)[6]
(۷) ابو عبد الرحمٰن،عبد اللہ بن مسعودؓ (م۳۳ھ)فرماتے
ہیں کہ
عن عبد الله قال: لعلكم تقرون؟ قلنا: نعم قال: ألا تفقهون؟ مالكم لا
تعقلون؟ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون
کیا تم لوگ امام کے پیچھے قراءت کرتے
ہو ؟ تو راوی نے کہا : ہاں ، تو ابن مسعود ؓ نے کہا : کیا تم لوگ سمجھتے
اور عقل نہیں رکھتے،جب قرآن کی تلاوت ہو، تو اس کی طرف کان لگاوٓ اور
خاموش رہو، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔(تفسیر ابن ابی حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶)[7]
(۸) ایک اور روایت میں فرماتے ہیں کہ
عن عبد الله بن مسعود , قال في القراءة
خلف الإمام: «أنصت للقرآن كما أمرت؛ فإن في القراءة لشغلا وسيكفيك ذلك الإمام
قراءت سننے کے لئے خاموش رہو،جیساکہ
حکم دیاگیا ہے،کیوں کہ قراءت میں شغل ہے۔امام
کا پڑھنا ہی تمھیں کافی ہے۔(القراءۃ
خلف الامام : ۱۰۹،مصنف عبد الرزاق : رقم ۲۸۰۳)[8]
(۹) ایک
حدیث میں آیا ہے کہ
أن
ابن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام
وكان إبراهيم يأخذ به
ابن مسعود ؓ امام کے پیچھے قراءت نہیں
کرتے تھے، راوی حدیث(غالباً امام حمادؒ)
کہتے ہیں کہ امام ابراھیم النخعیؒ کا بھی یہی مسلک تھا۔(معجم الکبیر
للطبرانی :ج۹: ص ۲۶۴، حدیث نمبر ۹۳۱۳)[9]
(۱۰) اور ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’ أن عبد الله بن مسعود
كان لا يقرأ خلف الإمام فيما جهر فيه، وفيما يخافت فيه في الأوليين، ولا في
الأخريين، وإذا صلى وحده قرأ في الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، ولم يقرأ في
الأخريين شيئا ‘‘
ابن مسعود ؓ امام کے پیچھے نہ جہری نماز میں قراءت کرتے تھے اور نہ سری
نماز میں،نہ پہلی دو رکعتوں میں اور نہ
پچھلی دو رکعتوں میں اور جب اکیلے نماز پڑھتے تھے تو پہلی دو رکعتوں میں ام القرآن اور کوئی دوسری سورت
پڑھتے ۔(موطا امام محمد : حدیث نمبر
۱۲۰)[10]
(۱۱) مسند ابی حنیفہ لابن خسرو میں امام ابراھیم
نخعیؒ(م۹۶ھ) کا ایک اور تفصیلی قول موجود ہے کہ وہ فرماتے ہیں
کہ
’’ عن
إبراهيم أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام لا في
الركعتين الأوليين ولا في غيرهما،و قال: ما قرأ علقمة بن قيس خلف الإمام حرفاً قط
فيما يجهر فيه بالقراءة ولا فيما لا يجهر فيه ولا قرأ في الركعتين الأخريين بأم
الكتاب ولا غيرها خلف الإمام ولا أصحاب عبد الله جميعاً
‘‘
ابن
مسعود ؓ امام کے پیچھے قراءت نہیں کرتے تھے نہ پہلی دو رکعتوں میں اور نہ ہی اس کے علاوہ میں، اور ابراہیم نخعیؒ
کہتے ہیں کہ علقمہ بن قیس نے کبھی بھی سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے ام القرآن یا کسی دوسری صورت کے ایک حرف کی بھی
قراءت نہیں کی، اسی طرح نماز
کے (پہلی) اورآخری رکعتوں میں بھی امام
کے پیچھے کوئی قراءت نہیں کی۔اور اسی طرح عبد اللہ بن مسعود ؓ کے تمام اصحاب سری
اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے ام القرآن یا کسی دوسری صورت کے ایک حرف کی بھی
قراءت نہیں کرتے تھے۔(مسند ابی
حنیفہ لابن خسرو : ج۱ : ص ۳۳۰)[11]
(۱۲) عبد اللہ بن مسعود ؓ ایک اور روایت میں
فرماتے ہیں کہ ’’وودت أن الذي يقرأ خلف الإمام ملئ فوه نتنا
‘‘ میں چاہتا ہوں کہ جو شخص امام کے پیچھے قراءت کرتا
ہے اس کا منہ بدبو سے بھرجائے۔(القراءۃ خلف الامام للبخاری : ص ۱۳)[12]
(۱۳) امام ابو عبد اللہ ، احمد بن محمد بن حنبل ؒ (م۲۴۱ھ) کہتے ہیں کہ
’’ أجمع الناس
أن هذِه الآية في الصلاة ‘‘
لوگ اس
بات پر متفق ہیں کہ یہ آیات نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔(مسائل ابو داود :
رقم ۲۲۳)، ایک بار امام صاحب سے جب دل
ہی دل میں فاتحہ پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا ،تو کہتے ہیں کہ ’’قَالَ
لَا وَقَالَ {وَإِذا قرئَ الْقُرْآن فَاسْتَمعُوا لَهُ وأنصتوا}
‘‘ مت پڑھو، اور
کہا کہ جب قرآن کی تلاوت ہو، تو اس کی طرف کان لگاوٓ اور خاموش رہو، تاکہ
تم پر رحم کیا جائے۔(مسائل احمد بروایت عبداللہ : رقم ۲۵۴)
یہی
وجہ ہے کہ امام احمد بن حنبل ؒ کے مذہب لکھی پر جانے والی سب سے پہلی مختصر اور متن الفقہ میں
امام ابو القاسم الخرقیؒ(م۳۳۴ھ) لکھتے ہیں کہ
’’ المأموم إذا سمع قراءة الإمام فلا يقرأ ب
"الحمد" ولا بغيرها لقوله تعالى: {وإذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا
لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ} ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الاستحباب أن يقرأ في سكتات
الإمام وفيما لا يجهر فيه فإن لم يفعل فصلاته تامة لأن من كان له إمام فقراءة
الإمام له قراءة ‘‘
مقتدی
جب امام کی قراءت سنے ،تو نہ فاتحہ پڑھے اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی دوسری سورت،اللہ تعالی کے
قول[وإذا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا
لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ] کی وجہ سے ،اور جہری نماز میں امام کے سکتات
میں نیزسری نمازوں میں قراءت کرنا مستحب
ہے،لیکن اگر اس نے قراءت نہ کی،تو بھی اس کی نماز مکمل ہے اس لئے کہ جس کا کوئی امام ہے،تو امام کی قراءت ہی
مقتدی کی قراءت ہے۔ (مختصر الخرقی : ص
۲۴) س
(۱۴) مشہور مفسر،ثقہ حافظ الحدیث، امام ابو جعفر،
محمد بن جریر الطبریؒ(م۳۱۰ھ) آیت
مذکورہ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس
آیت کی تفسیر کے بارہ میں جتنے بھی اقوال
ہیں ان سب میں سب زیادہ راجح قول یہ ہے کہ اس کا شان نزول نماز اور خطبہ ہے،اور اگر
فرماتے ہیں کہ
وقد صح الخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بما ذكرنا من قوله:
"إذا قرأ الإمام فانصتوا" فالإنصات خلفه لقراءته واجب على من كان به
مؤتمًّا سامعًا قراءته، بعموم ظاهر القرآن والخبر عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
اور
جو کچھ ہم نے ذکر کیا اس کے بارے میں حضورﷺ سے
صحیح حدیث مروی ہے ، آپ کا ارشاد عالی ہے کہ جب امام قراءت کرے تو تم
خاموش رہو،لہذا جو شخص امام کے پیچھے اس
کی اقتداء کررہا ہو اور اس کی قراءت کو سن رہا ہو،اس پر واجب ہے کہ وہ خاموش رہے
امام کی قراءت کی وجہ سے، قرآن کریم کے
ظاہری الفاظ اور جناب رسول اللہ ﷺ کی حدیث کی وجہ سے۔(تفسیر ابن جریر : ج۱۳: ص
۳۵۳)
مشہور مفسر،محدث،حافظ ابن کثیرؒ(م۷۷۴ھ)
کہتے ہیں کہ
هذا
اختيار ابن جرير أن المراد بذلك [الإنصات في الصلاة وفي الخطبة؛ لما جاء في
الأحاديث من الأمر بالإنصات] خلف الإمام وحال الخطبة
امام ابن جریرؒ کا مسلک ہے کہ نماز
میں اور خطبہ میں خاموشی سےمراد امام کے پیچھےاور خطبے کے دوران خاموش رہنا ہے۔(تفسیر
ابن کثیر : ج۳: ص ۵۳۸)
(۱۵) ثقہ،ثبت
فقیہ اور مفسر امام سعید بن جبیرؒ(م۹۵ھ) اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ
سعيد
بن جبير يقول في قوله: (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا) قال: الإنصات: يوم
الأضحى، ويوم الفطر، ويوم الجمعة، وفيما يجهر به الإمام من الصلاة
جمعہ اور دونوں عیدوں کے دن (کے خطبوں کے وقت) اور
امام کی جہری نماز میں خاموش رہنا ہے۔(تفسیر ابن جریر : ج۱۳: ص ۳۵۱)[13]
معلوم ہوا کہ یہ آیات امام کے پیچھے قراءت کی ممانعت کے سلسلے میں نازل ہوئی ہے۔[14]
امام کے پیچھے قراءت کے مسئلے میں
امام مجاہد بن جبرؒ(م۱۰۴ھ) کا مسلک
ارشاد
الحق اثری صاحب نے امام مجاہد ؒ کی طرف منسوب ایک قول کو جزء القراءت للبخاری،کتاب القراءت للبیہقی،منصف
ابن ابی شیبہ وغیرہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا : کہ جب امام کے پیچھے قراءت نہ
کی جائے،تو نماز کو دوبارہ پڑھا جائے۔ (توضیح الکلام : ص ۴۹۳)
الجواب :
ان تینوں
کتابوں میں روایت کی سند میں امام اللیث بن ابی سلیمؒ(م۱۴۸ھ) موجود ہے۔جو
کہ خود اثری صاحب کے نزدیک ضعیف ہے۔(اعلاء السنن فی المیزان : ص ۳۵۰)
لہذا ان
کی روایات سے استدلال مردود ہے۔
ان کے
متابع میں جو روایت اثری صاحب نے ذکر کی،اس میں ایسی کوئی بات نہیں،جس سے امام
مجاہد ؒ کا یہ مسلک ثابت ہوتا ہو کہ وہ
سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت
کے قائل ہے۔
بلکہ اس روایت میں یہ ہے کہ
قال ابو بکر ابن ابی شیۃ : حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : صليت
إلى جنب عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، قال : فسمعته يقرأ خلف الإمام ، قال :
فلقيت مجاهدا فذكرت له ذلك ، قال : فقال مجاهد : سمعت عبد الله بن عمرو يقرأ خلف
الإمام
حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ) نے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہؒ(م۹۸ھ)
کے پہلو میں نماز پڑھی،تو انہوں نے عبیداللہ کو
امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا،تو حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ)
نے جب اس بات ذکر امام مجاہد ؒ سے کیا،تو امام مجاہدؒ نے کہا کہ میں عبداللہ بن
عمرو بن العاصؓ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث
نمبر ۳۷۷۱)
لیکن مصنف عبد
الرزاق : حدیث نمبر ۲۷۷۵ میں ہے کہ
عبد الرزاق، عن
ابن عيينة، عن حصين بن عبد الرحمن قال: سمعت عبيد الله بن عبد الله بن عتبة يقرأ
في الظهر والعصر مع الإمام۔
یہی راوی حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ) کہتے
ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہؒ(م۹۸ھ) کو امام کے ساتھ ظہر
اور عصر میں قراءت کرتے ہوئے سنا۔
سنن کبری بیہقی کی روایت میں امام مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں
نے خود ابن عتبہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ دونوں کو امام کے پیچھے قراءت کرتے
ہوئےسنا۔(:ج۲: ص ۲۴۲،حدیث نمبر ۲۹۴۰)
ایک روایت میں امام مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن
عمرو بن العاصؓ ظہر اور عصر میں قراءت کرتے سنا۔(مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر
۲۷۷۴)
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک اور روایت میں امام مجاہدؒ فرماتے
ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ ظہر میں سورہ مریم کی قراءت کرتے سنا۔(مصنف
ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۷۷۰)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان روایات کا تعلق صرف سری
نمازوں سے ہے۔ اورابن عتبہؒ (م۹۸ھ) کی قراءت، حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ)
کا سوال ،مجاہد ؒ کا جواب اور عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی قراءت بھی سری نمازوں
کے تعلق سے تھی۔
لہذا یہ روایت لیثؒ کی روایت کی تائد نہیں کرتی۔
مجاہد
ؒ کا صحیح مسلک :
صحیح روایات میں امام مجاہد ؒ(م۱۰۴ھ)
کا ارشاد موجود ہے کہ انہوں نے کہا کہ
آیت جب قراءت کی جائے،تو خاموش رہو، کا تعلق نماز سے ہے۔یعنی امام کے پیچھے قراءت
کے وقت خاموش رہنا ہے۔(تفسیر ابن جریر
:ج۱۳: ص ۳۴۹)،
ایک اورروایت میں امام مجاہد ؒ نے کہا
(جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) نماز میں امام کے قراءت کرتے وقت اور جمعہ کے دن ،خطبے
کے وقت خاموشی واجب ہے۔(تفسیر ابن ابی
حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶،وفی اسنادہ جابر الجعفی وہو ضعیف کمافی
تقریب لکن یقویہ بالمتابع،انظر تفسیر ابن
جریر
:ج۱۳: ص ۳۴۹)،
اس سے معلوم ہوا کہ امام مجاہدؒ کا
مسلک امام کے پیچھے خاموش رہنے کا ہے۔
اثری صاحب کی روایت کے راوی لیث بن
ابی سلیم کی ہی ایک اور روایت ہے کہ
وقال
عبد الرزاق، عن الثوري، عن ليث، عن مجاهد أنه كره إذا مر الإمام بآية خوف أو بآية
رحمة أن يقول أحد من خلفه شيئا، قال: السكوت
جب امام آیت خوف
یا آیت رحمت کی تلاوت کریں تو مقتدیوں میں کسی ایک آدمی کاایک حرف بھی کہنے کو،
امام مجاہدؒ نے مکروہ قرار دیا ہے اور کہا کہ امام کے پیچھے خاموش رہو۔(تفسیر
عبدالرزاق بحوالہ تفسیر ابن کثیر : ج۳: ص ۵۳۸)
امام ابن شہاب
الزہریؒ(م۱۲۵ھ) کا مسلک
امام
ابن شہاب الزہریؒ(م۱۲۵ھ) جہری نمازوں امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں
تھے۔چنانچہ ابن جریر الطبریؒ(م۳۱۰ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثني
المثنى قال: حدثنا سويد قال: أخبرنا ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري قال: لا يقرأ
مَن وراء الإمام فيما يجهر به من القراءة، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يُسْمِعهم
صوته، ولكنهم يقرءون فيما لم يجهر به سرًّا في أنفسهم. ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ
معه فيما يجهر به سرًّا ولا علانية. قال الله: (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا لعلكم ترحمون)
امام
زہری ؒ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے جہری نمازوں میں مقتدی قراءت نہ کریں،امام
کا پڑھنا ہی مقتدیوں کےلئے کافی ہے،چاہے
وہ مقتدیوں کو کچھ بھی نہ سناتا ہو،مقتدیوں کو نہ تو جہر سے قراءت کرنا جائز ہے،
اور نہ آہستہ سے۔ہاں سری نمازوں میں وہ اپنے دل میں قراءت کرسکتا ہے اور جہری نمازوں میں اس لئے منع ہے
کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا
له وأنصتوا لعلكم ترحمون ۔(تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰)
اس روایت کے تمام روات
ثقہ ہیں۔(دیکھئے ص : ۲۰)
معلوم ہوا کہ امام زہریؒ
جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں تھے۔البتہ سری نمازوں میں اس کی
اجازت دیتے تھے۔لیکن اس میں بھی وجوب کے قائل نہیں تھے۔واللہ اعلم
قراءت خلف الامام کے سلسلے میں عبد اللہ بن عباس ؓ
(م۶۸ھ)کا مسلک
صحیح روایات کے مطابق ابن عباس ؓ امام کے پیچھے جہری نماز میں قراءت کے قائل نہیں تھے۔
دلیل نمبر ۱:
چنانچہ امام ابو جعفر الطحاویؒ(م۳۲۱ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
ابن أبي داود، قال: ثنا أبو صالح الحراني، قال: ثنا حماد بن سلمة، عن أبي جمرة،
قال: قلت لابن عباس أقرأ والإمام بين يدي. فقال: «لا»
ابو جمرہ ؒ(م۱۲۸ھ)کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جب امام میرے
سامنے ہو،تو کیا میں قراءت کروں،تو ابن عباس ؓ نے کہا : کہ نہیں،مت کرو۔(شرح
معانی الآثار : ج۱: ص ۲۲۰،حدیث نمبر ۱۳۱۶)[15]
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام طحاوی
ؒ کی توثیق گزرچکی۔
(۲) ابو
اسحاق،ابراہیم بن ابی داود البرلسی ؒ(م۲۷۰ھ)،ثقہ،ثبت ،حافظ الحدیث ہیں۔(سیر
:ج ۱۳: ص ۳۹۳)
(۳) ابو صالح
عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۴۱۳۶)
(۴) حماد بن
سلمہؒ(م۱۶۷ھ) صحیح مسلم اورسنن اربع
کے راوی اور ثقہ،عابد ہیں۔(تقریب : رقم۱۴۹۹)
نوٹ :
محدثین
کا کہنا ہے کہ حماد بن سلمہؒ کا آخری عمر میں حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔ (ایضاً)،لیکن
حماد بن سلمہ سے ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) نے ان کے حافظہ
متغیر ہونے سے پہلےروایت لی ہے۔چنانچہ حافظ ذہبیؒ
ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ کے ترجمہ میں کہتے ہیں کہ
سار به أبوه وهو طفل، فنشأ بالبصرة، وتفقه، وكتب العلم، ثم رجع إلى
مصر مع والده
ابو صالح
عبدالغفار بن داود الحرانیؒ کے والد ان کو (بصرہ) لے گئے،جب کہ وہ بچے تھے،پھر ابو صالح ؒ نے بصرہ میں پرورش
پائی،دین کی سمجھ حاصل کی،علم کو لکھا،پھر اپنے والد کے ساتھ مصر واپس آگئے۔
اس کےچند
سطور کے بعد حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)
خود لکھتے ہیں کہ
قدم مصر مع أبيه في سنة إحدى وستين
ابو صالح
اپنے والد کے ساتھ (۱۶۱ھ) میں مصر آئے۔(سیر :ج۱۰: ص ۴۳۹) نیز امام
ابن یونس المصری ؒ(م۳۴۷ھ) نے بھی یہی بات کہی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۵:
ص ۶۲۲)
جب کہ
حماد بن سلمہؒ کی وفات (م۱۶۷ھ) میں ہوئی ہے۔اور محدثین کا کہنا ہے کہ حماد بن سلمہؒ کا ’’آخری
عمر میں حافظہ متغیر ‘‘ ہوگیا تھا۔ (تقریب،تہذیب التہذیب)، ثابت ہوا کہ
ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) نے حماد بن سلمہ سے ان کے حافظہ
متغیر ہونے سے پہلےسماع کیا۔
لہذا اس
روایت میں حماد بن سلمہؒ (م۱۶۷ھ) ثقہ ہیں اور ان پر حافظہ متغیر ہونے
الزام باطل و مردود ہے۔
(۵) ابو
جمرہ،نصر بن عمران البصریؒ(م۱۲۸ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،مضبوط ہیں۔(تقریب
: رقم ۷۱۲۲)
(۶) عبد اللہ
بن عباس ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۲ :
امام ابو محمد، عبد الرحمٰن ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۷ھ)
فرماتے ہیں کہ
حدثنا
أبي، ثنا النفيلي، ثنا مسكين بن بكير، ثنا ثابت بن عجلان، عن سعيد بن جبير، عن ابن
عباس، قال: " إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ
إِلَّا يوم جمعة، أو في صلاة مكتوبة أو يوم أضحى أو يوم فطر في قوله: {وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}
ابن عباس
ؓ کہتے ہیں کہ آیت وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا کے
مطابق ،مومن کے لئے فرض نماز میں،جمعہ ،عید الفطر اور عید الاضحی کے
دنوں میں (خطبے کے وقت) خاموش رہنا کے سوا کوئی گنجائش نہیں ہے۔(تفسیرا بن ابی
حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶، الدر المنثور :ج۳: ص ۶۳۷،قراءت خلف الامام للبیہقی : ص۱۰۸)[16]
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام
ابو محمد، عبد الرحمٰن ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۷ھ) اور
(۲) امام ابو
حاتم محمد بن ادریسؒ(م۲۷۷ھ) مشہورثقہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں۔
(۳) عبد اللہ بن
محمد،ابو جعفر النفیلیؒ(م۲۳۴ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ،حافظ الحدیث
ہیں۔(تقریب : رقم ۳۵۹۴)
(۴) مسکین بن
بکیرؒ(م۱۹۸ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق
ہیں۔(تقریب : رقم ۶۶۱۵،الکاشف)
(۵) ثابت بن
عجلان ؒ صحیح بخاری کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۸۲۲)
(۶) سعید بن
جبیرؒ(م۹۵ھ) مشہورثقہ،ثبت ائمہ
مفسرین میں سے ہیں۔(تقریب : رقم ۲۲۷۸)
(۷) عبد اللہ بن
عباس ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے۔
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ امام کے
پیچھے قراءت کے قائل نہیں تھے۔
اثری صاحب کے پیش کردہ روایات کے جوابات :
پہلی دلیل :
اثری
صاحب نے پہلی روایت عیزار بن حریث ؒ سے حوالے سے ذکر کی کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا :
کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھو۔(توضیح الکلام : ص ۴۶۱)
الجواب :
اس روایت
کا تعلق سری نماز سے ہے،چنانچہ ثقہ،ثبت ،حافظ الحدیث امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثنا
علي بن شيبة , قال: ثنا يزيد بن هارون قال: أنا إسماعيل بن أبي خالد عن العيزار بن
حريث عن ابن عباس رضي الله عنهما , قال: اقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب في الظهر
والعصر
ابن عباس
ؓ نے فرمایا : کہ ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے
سورہ فاتحہ پڑھو۔(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۰۶،حدیث نمبر ۱۲۱۹)
عیزار بن حریث ؒ کی اس روایت میں ظہر اور عصر کا ذکر
ہے۔لہذا یہ روایت سری نماز کے تعلق سے ہے۔
دوسری دلیل :
دوسری
روایت اثری صاحب کتاب القراءت للبیہقی کے
حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا : کہ امام کے پیچھے پڑھو خواہ وہ
بلند آواز سے پڑھ رہا ہو یا آہستہ ۔(توضیح
الکلام : ص۴۶۷)
الجواب :
کتاب
القراءت للبیہقی میں اس روایت کی ۲ سندیں
موجود ہے۔ان دونوں سندوں کے دفاع میں خود اثری صاحب کہتے ہیں کہ اور (پہلی سند میں) عقبہ بن عبد اللہ اصم اگرچہ
ضعیف ہے،لیکن لیث (بن ابی سیلم) اس کا متابع موجود ہے۔(توضیح الکلام : ص ۴۶۶-۴۶۷)
مگر یہاں
مسئلہ صرف ان ۲ حضرات کی روایت کا نہیں ہے۔بلکہ عقبہ بن عبد اللہ اصمؒ اور لیث
بن ابی سلیمؒ کی روایت ثقہ حضرات حماد بن
سلمہؒ(م۱۶۷ھ)،اور ثابت بن عجلان ؒ
کی روایات کے بھی خلاف ہے۔جن میں ابن عباس ؓ نے امام کے پیچھے قراءت سے منع
کیا ہے۔
لہذا
یہاں مخالفت ثقات کی وجہ سے عقبہ بن عبد اللہ اصمؒ اور لیث بن ابی سلیمؒ کی روایات
کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
تیسری دلیل :
تیسری
روایت کو اثری صاحب نے نقل کیا کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ کوئی نماز قراءت کے بغیر
نہ پڑھو۔اگر چہ تم فاتحہ ہی پڑھو۔
الجواب :
اس روایت کا تعلق مقتدی
سے نہیں ہے۔خود غیر مقلد عالم زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ ہر خاص دلیل ہر عام دلیل پر مقدم ہوتی ہے۔(تور العینین :
ص ۵۸) اور خاص روایات میں ابن عباس ؓ نے مقتدی کو امام کے پیچھے قراءت
کرنے سے روکا ہے۔دیکھئے ص : ۳۸،
لہذا اس روایت
کا مقتدی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خلاصہ :
عبد اللہ
بن عباس ؓ (م۶۸ھ) جہری نمازوں قراءت کے قائل نہیں تھے۔البتہ سری نمازوں
میں تھے۔
کیا
عبد اللہ بن مسعود ؓ امام پیچھے قراءت کے قائل تھے ؟؟
بعض ائمہ نےان روایات ’’ يكفيك ذلك
الإمام‘‘،’’ أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام‘‘
کو
صرف جہری نماز پر محمول کیا ہے، ان کا
کہنا ہے کہ سری نمازوں ابن مسعودؓ سے قراءت کرنے کی روایات مروی ہے۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کیونکہ
(۱) مذکورہ
بالا تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن
مسعود ؓ امام کے پیچھے مطلق قراءت کے قائل نہیں تھے۔نہ سری میں اور نہ ہی
جہری میں۔جیسا کہ روایات کے الفاظ ’’ يكفيك ذلك الإمام‘‘،’’ أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام‘‘ صاف
طور سے مطلق قراءت کے منع پر دلالت کرتے ہیں۔
پھر
روایت ’’ أن عبد الله بن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام
فيما جهر فيه، وفيما يخافت فيه ‘‘ صریح ہے کہ ابن
مسعودؓ نہ جہری نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے اور نہ سری میں۔
بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں الفاظ ہے ’’ كان لا يقرأ
خلف الإمام وكان إبراهيم يأخذ به ‘‘ کہ قراءت خلف الاما م کے سلسلے
میں ابراھیم نخعیؒ نے ابن مسعود ؓ کا
قول لیا ہے۔ ابراھیم نخعی ؒ کا
مسلک سری اور جہری دونوں نمازوں میں عدم
قراءت کا ہے۔(کتاب الآثار ابو یوسف :
ص ۲۴،مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ) لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایات مطلق قراءت
سے منع کرتی ہے۔
(۲) ابراھیم
نخعیؒ کے بارے میں امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ إبراهيم النخعي
هو أعلم الناس بعبد الله وبرأيه وبفتياه ‘‘ ابرھیم نخعی ؒ
وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ابن مسعود ؓ کی
اقوال اور فتاوی کو جاننے والے تھے۔(سنن دارقطنی : ج۴: ص ۲۲۶، حدیث نمبر ۳۳۶۵)، حافظ ذہبیؒ کہتے
ہیں کہ ’’ وَكَانَ بَصِيْراً بِعِلْمِ
ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‘‘ ابرھیم ابن مسعود ؓ کے علم کے ماہر تھے۔(سیر
: ج۴: ص ۵۲۱)، لہذا ابن مسعود ؓ کے سلسلےمیں ابراھیم نخعی ؒ کا قول دوسرے ائمہ
پر حجت ہوگا، اور یہ گزرچکا کہ وہ ابن
مسعود کے تعلق سے یہ واضح کرتے تھے کہ وہ
سری اور جہری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے عدم قراءت کے قائل تھے۔(دیکھئے ص : ۲۷)
(۳) عبد
اللہ بن مسعود ؓ کے تمام اصحاب سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے
ام القرآن یا کسی دوسری صورت کے ایک
حرف کی بھی قراءت کے قائل نہیں
تھے۔(دیکھئے ص :۲۲-۲۷) یہ بھی قوی
دلیل ہے کہ ابن مسعود ؓ کا مسلک
مطلق عدم قراءت کا تھا۔
(۴) سری
نمازوں میں ابن مسعودؓ سے قراءت کرنے کی تمام کی تمام روایات ضعیف یا غیر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ ثقہ ،حفاظ کی مطلق عدم قراءت کی
روایات کے خلاف بھی ہے۔ تفصیل
ملاحظہ فرمائے
- اثری صاحب نے پہلی روایت
شریک عن اشعث کی سند سے پیش فرمائی
اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۴۴۱)،
الجواب
:
اشعث
ؒ کی یہی روایت شعبہ ؒ نے بیان کیا ہے ،امام طحاوی ؒ کہتے ہیں کہ ’’ حدثنا أبو بكرة , وابن
مرزوق , قالا: ثنا أبو داود , قال: ثنا شعبة , عن أشعث بن أبي الشعثاء قال: سمعت
أبا مريم الأسدي يقول: «سمعت ابن مسعود رضي الله عنه يقرأ في الظهر
‘‘۔(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۱۰)، اس روایت میں ’’خلف الامام ‘‘
کے الفاظ نہیں ہے۔جو شریکؒ کی روایت میں ہے۔ معلوم ہوا کہ روایت میں ’’خلف الامام ‘‘ کے الفاظ نقل کرنے میں شریک ؒ منفرد ہے،اور شیخ الالبانی
ؒ کہتے ہیں کہ ’’ لا يحتج به إذا تفرد، ولا سيما إذا خالف غيره من الثقات الحفاظ
‘‘ شریک جب کسی روایت میں منفرد ہوتے ہے،تو
ان سے احتجاج نہیں کیا جائےگا، تو جب ثقہ،حافظ کی مخالفت کریں،تو وہ کس طرح
حجت ہوسکتے ہیں۔(اصل صفۃ الصلاۃ :ج۲ : ص ۷۱۶)، شیخ ابو اسحاق
الحوینی اثری صاحب بھی کہتے ہیں کہ ’’ شريك كان
سيىء الحفظ. وسيىء الحفظ لا يحتج به إذا انفرد، فكيف إذا خالف
‘‘۔(نزول الرکبۃ
: ص ۳۱)،
قریب قریب یہی بات شیخ مقبل کے شاگرد شیخ
ابو عبیدۃ عبد الرحمٰن الزاوی نے بھی کہی ہے۔(فتح الودود : ص ۱۲)
الغرض
شریکؒ اس روایت میں منفرد بھی ہے اور انہوں نے شعبہؒ کی مخالفت بھی
کی ہے ۔نیز ان کا کوئی ثقہ متابع بھی نہیں
ہے۔اور شریک کا تفرد کا دفاع کرتے ہوئے اثری صاحب
نے بھی شعبہ ؒ کی روایت ذکر کی۔مگر اس
پر توجہ نہیں دی کہ اس روایت
میں شریک ؒ نے دراصل شعبہؒ کی مخالفت کی ہے۔
یا
شاید موصوف نے اس تفرد اور مخالفت کو اصول
’’حدیث یفسر بعضہ بعضا ‘‘
سے دور کرنے کی کوشش کرہے ہے۔مگر اثری صاحب یہی اصول حضرت عبادۃ ؓ کی ’’لا
صلاۃ۔۔۔۔‘‘ والی روایت کے بارے میں بھول گئے۔
خلاصہ
یہ روایت مخالفت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
- دوسری روایت اثری صاحب نے لیثؒ کی سند سے پیش کی ۔(ایضاً)
جواب
:
خود اثری صاحب نے صراحت کی کہ یہ
روایت محض متابعات کے طور پیش کررہے ہیں۔(ایضا
: ص ۴۴۴)،مگر یہاں مسئلہ متابعات کا
نہیں ، بلکہ مخالفت کا ہے۔ غیر مقلدین حضرات جواب عنایت فرمائے کہ کیا لیث بن ابی سلیمؒ مخالفت کی صورت میں مقبول ہونگے ،کیونکہ
ثقہ،حفاظ نے ابن مسعودؓ سے مطلق قراءت
نہ کرنا نقل کیا ہے،جیسا کہ گزرچکا،
- تیسری روایت اثری صاحب نے’’ مومل
بن اسماعیل نا سفیان عن ابی اسحاق ‘‘کی سند سے ذکر کی۔(ایضاً : ص ۴۴۷)
جواب
:
اس روایت میں ابو اسحاقؒ اور
سفیان ثوریؒ کی تدلیس [جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک مضر
ہے] اور
مومل کے ضعف کے علاو ہ ایک اہم علت یہ ہے کہ مومل بن اسماعیل اس روایت میں ’’ فإن أحدكم تكون معه السورة فيقرأها
, فإذا فرغ ركع من قبل أن يركع الإمام , فلا تسابقوا قراءكم
‘‘ الفاظ میں منفرد ہے اور دوسرے ثقہ
حفاظ مثلاً زہیرؒ،ابو الاحوصؒ ،معمرؒ وغیرہ نے نے یہ روایت ابو اسحاقؒ سے نقل
کی،لیکن اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی : ج۹: ص
۲۷۵،مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۷۲۲۱)،لہذا یہ الفاظ ہی مشکوک ہے،جس کو
اثری صاحب متابعات میں پیش کیا ہے۔نیز مخالفت تو اپنی جگہ باقی ہے۔
- ایک روایت اثری صاحب نے یہ پیش کی
کہ جس میں علقمہ کا بیان ہے کہ ’’ صليت إلى جنب عبد الله
, فلم أعلم أنه يقرأ حتى جهر بهذه الآية {وقل رب زدني علما}
‘‘ میں ابن مسعود ؓ کے پہلو میں نماز پڑھی،مجھے پتا نہیں چلا کہ آپؓ قراءت کررہے ہے، یہاں تک کہ آپؓ نے
’’ وقل رب زدني علما
‘‘ زور سے پڑھا،
الجواب
:
اس
روایت میں کئی احتمالات ہیں۔
۱- اس روایت میں امام کے پیچھے پڑھنے کا ذکر نہیں،اس کے جواب میں موصوف
اثری نے پھر اس اصول’’حدیث
یفسر بعضہ بعضا ‘‘
کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ وضاحت کی گئی کہ شریکؒ اور موملؒ کی نفس روایت کے الفاظ ہی میں مخالفت ہے۔اور لیث
کی روایت بھی ان ثقہ ،حفاظ کے خلاف ہے۔ جس میں قراءت کا ممانعت وارد ہے۔لہذا ان روایت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
۲- ممکن ہے کہ انہوں نے یہ رکوع یا سجدہ
میں پڑھی ہو۔
۲- یا
ابن مسعودؓ نے یہ کلمات بطور دعا پڑھی ہو۔
الغرض جب احتمالات موجود ہے،تو
استدلال باطل ہوجاتا ہے۔جیسا کہ خود اثری صاحب نے کہا ہے۔(توضیح الکلام : ص۸۳۲)،
خلاصہ ابن مسعودؓ سری اور جہری نمازوں میں
قراءت کے قائل نہیں تھے۔واللہ اعلم
[1] ثقہ،ثبت،حافظ
الحدیث ،امام ابو جعفرطحاوی ؒ (م۳۲۱ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
ابن أبي مريم، قال: حدثنا الفريابي، عن ورقاء، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، في قوله
عز وجل: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} ، قال: كان رسول الله صلى الله
عليه وسلم يقرأ في صلاة فيها قراءة، فسمع قراءة فتى من الأنصار، فأنزل الله عز
وجل: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} ۔۔(احکام القرآن للطحاوی : ج۱ : ص ۲۴۴،ت الدكتور سعد الدين أونال ،ط : مركز البحوث الإسلامية التابع لوقف الديانة التركي ، استانبول)
سند کے روات کی تحقیق
درج ذیل ہے :
(۱) امام ابو جعفر،احمد بن محمد بن سلامۃ
طحاوی ؒ(م۳۲۱ھ) مشہور ثقہ،ثبت، محدث،فقیہ اور مصر کے حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب
الثقات للقاسم : ج۲: ص۳۶)
(۲) عبد اللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریمؒ (م۳۵۳ھ)
صدوق ہیں۔
محدث
مسلمہ بن قاسم ؒ(م۳۵۳ھ) نے کہا : کہ آپ ؒ ثقہ ہیں۔حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ (م۸۷۹ھ) نے بھی ان کو ثقات میں شمار کیا ہے۔(کتاب
الثقات للقاسم : ج۶ : ص ۱۱۰)، امام ابو نعیم اصبہانیؒ (م۴۳۰ھ)، امام
دارقطنی ؒ(م۳۸۵ھ)، امام ضیاء الدین مقدسیؒ (م۶۴۲ھ) وغیرہ نے ان کی
حدیث کی تحسین و تصحیح کی ہیں۔(المسند
المستخرج علی صحیح مسلم لابی نعیم : ج۱: ص
۴۰۵،سنن دارقطنی : ج۲: ص ۵۰۱،حدیث نمبر ۱۹۵۹،ج۳: ص ۴۰۴،حدیث نمبر ۲۸۴۴،الاحادیث الامختارۃ : ج۸: ص ۲۶۱،ج۱۰:
ص ۱۵۳،۱۵۴،۱۸۳) اور کسی حدیث کی تصحیح و تحسین اس حدیث کے ہر ہر راوی کی
توثیق ہوتی ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(الاجماع مجلہ : ش۴ : ص ۲) لہذا عبد اللہ بن محمد بن سعید بن ابی مریمؒ (م۳۵۳ھ)
صدوق ہیں۔نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے بھی ان سے مردی حدیث کی سند کے بارے
میں کہا : کہ اس کی سند صاف ہے۔(تذکرۃ
الحفاظ : ج۳ : ص ۸۸)
نوٹ :
امام
ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ) کی جرح غیر
صحیح ہے۔حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے
میزان میں کہا :
قال ابن عدي: حدث عن الفريابي بالبواطيل، ثم ساق له عن جده سعيد،
حدثنا ابن عيينة، عن عمرو بن دينار، عن ابن عباس في قوله تعالى :
وشاورهم في الامر قال أبو بكر وعمر: قال ابن عدي: إما أن يكون مغفلا أو يتعمد،
فإني رأيت له مناكير۔(میزان الاعتدال : ج۲: ص ۴۹۱)
مگر ان کی جس’’۲‘‘ احادیث کو ابن عدی ؒ نے غیر محفوظ اور باطل کہا ہے۔(الکامل
: ج۵ : ص ۴۱۹)،ان میں وہ منفرد ہی نہیں ہے۔مثلاً پہلی حضر ت ابو سعید خدری ؓ کی حدیث میں ابن ابی مریم کے متابع میں حسین بن ضحاک کے بھائی عبد الوہاب بن ضحاک النیساپوریؒ [صدوق] راوی موجود ہے۔(المتفق
و المفترق للخطیب : ج۳ : ص ۱۵۴۵)، اور دوسری ابن عباس کی حدیث میں ان کے متابع میں یحیی بن ایوب العلاف ؒ (م۲۸۹ھ) [صدوق]
موجود ہے۔(المستدرک للحاکم : ج۳ :
ص ۷۴،حدیث نمبر ۴۴۳۶) اس حدیث کو امام حاکم ؒ(م۴۰۵ھ) اور امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)
نے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔لہذا امام ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ) کی جرح غیر صحیح ہے۔
(۳) ورقہ بن
عمر بن کلیب الیشکریؒ صحیحین کے
راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۷۴۰۳)
(۴) عبد اللہ
بن ابی نجیح،ابو یسار المکیؒ (م۱۳۱ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۳۶۶۲)
(۵) امام
مجاہد بن جبرؒ(م۱۰۴ھ) مشہور ثقہ اور مضبوط ،حافظ الحدیث اور ائمہ تفسیر میں سے
ہیں۔(تقریب : رقم ۶۴۸۱،الکاشف للذہبی)
معلوم ہوا کہ یہ سند حسن ہے۔ واللہ اعلم
[2] مشہور ثقہ،حافظ
الحدیث اور امام الجرح و التعدیل،امام عبد
الرحمٰن ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۷ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا أبو سعيد
الأشج، ثنا أبو خالد، عن حجاج، عن ابن جريج، عن مجاهد، قال: " قرأ رجل خلف
رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنزلت: {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم
ترحمون}۔(تفسیر ابن ابی حاتم : ج۵ : ص ۱۶۴۶،ت أسعد محمد الطيب،ط مكتبة نزار مصطفى الباز - المملكة العربية السعودية)
سند کے روات کی تحقیق
درج ذیل ہے :
(۱) امام
عبد الرحمٰن ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۷ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور امام الجرح و التعدیل ہیں۔(کتاب الثقات
للقاسم : ج۶: ص ۲۹۶)
(۲) عبد
اللہ بن سعید الکندی،ابو سعید الاشج ؒ(م۲۵۷ھ)
صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب
: رقم ۳۳۵۴،الکاشف)
(۳) سلیمان
بن حیان ،ابو خالد الاحمرؒ(م۱۹۰ھ) بھی صحیحین کے راوی اور صدوق،امام ہیں۔(الکاشف للذہبی : رقم ۲۰۸۰)
(۴) عبد
الملک بن عبد العزیز ابن جریجؒ (م۱۵۰ھ)
بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ،فاضل اور مدلس راوی ہیں۔(تقریب : رقم ۴۱۹۳)
نوٹ :
اگر
چہ اس روایت میں ابن جریج ؒ(م۱۵۰ھ)
کا ’’عنعنہ‘‘ موجود ہے،لیکن ان کے متابع میں ثقہ راوی ’’ عبد اللہ بن ابی نجیح،ابو یسار المکیؒ (م۱۳۱ھ)‘‘
موجود ہے۔(دیکھئے پہلی روایت )،لہذا اس روایت میں ان پر تدلیس کا الزام باطل اور
مردود ہے۔
(۵) امام مجاہد بن
جبرؒ(م۱۰۴ھ) مشہور ثقہ و مضبوط
،حافظ الحدیث اور ائمہ تفسیر میں
سے ہیں۔(تقریب : رقم ۶۴۸۱،الکاشف
للذہبی)
معلوم
ہوا کہ یہ سند بھی حسن ہے۔
نوٹ نمبر ۱ :
امام
مجاہدؒ(م۱۰۴ھ) کی یہ تفسیر درایتاً متصل ہے ۔کیونکہ باقاعدہ مجاہد ؒ نے ابن عباس ؓ سے پوری تفسیر پڑھی ہے۔چنانچہ حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸ھ)
کہتے ہیں کہ
مجاہدؒ نے فرمایا ہیں
کہ میں نے مصحف قرآنی،حضرت ابن عباسؓ کے سامنے پیش کردیا،ہر آیت پر انہیں
ٹھہراتا اور ان سے مطلب سمجھتاتھا۔اسی وجہ سے امام سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے جب تمہیں تفسیر، مجاہد سے پہنچے تو بس بالکل کافی ہے۔(اصول تفسیر
لابن تیمیہ اردو : ص ۱۵،طبع المکتبۃ السلفیۃ)،ایک اور مقام پر
امام صاحب کہتے ہیں کہ
مجاهد بن جبر فإنه كان آية
في التفسير كما قال محمد بن إسحاق: حدثنا أبان بن صالح عن مجاهد قال: عرضت المصحف
على ابن عباس ثلاث عرضات من فاتحته إلى خاتمته أوقفه عند كل آية منه وأسأله عنها
وبه إلى الترمذي قال: حدثنا الحسين بن مهدي البصري حدثنا عبد الرزاق عن معمر عن
قتادة قال: ما في القرآن آية إلا وقد سمعت فيها شيئا وبه إليه قال حدثنا ابن أبي
عمر حدثنا سفيان بن عيينة عن الأعمش قال: قال مجاهد: لو كنت قرأت قراءة ابن مسعود
لم أحتج أن أسأل ابن عباس عن كثير من القرآن مما سألت. وقال ابن جرير: حدثنا أبو
كريب قال: حدثنا طلق بن غنام عن عثمان المكي عن ابن أبي مليكة قال: رأيت مجاهدا
سأل ابن عباس عن تفسير القرآن ومعه ألواحه قال: فيقول له ابن عباس اكتب حتى سأله
عن التفسير كله۔
امام
مجاہد بن جبرؒ تفسیر میں ایک آیت(نشانی) تھے،ایک روایت میں وہ خود کہتے ہیں
کہ میں نے ابن عباسؓ کے سامنےقرآن کریم
کو شروع سے اخیر تک تین مرتبہ پیش کیا، ہر
آیت پران کو ٹھہراتا اور ان سے اس آیت کے بارے میں معلوم کرتا،امام قتادہ ؒ کہتے
ہیں کہ قرآن کریم کی ہر آیت کے بارے میں ،میں نے کچھ نہ کچھ علم ضرور سن رکھا
ہے،ایک روایت میں اعمشؒ کہتے ہیں کہ مجاہدؒ فرماتے ہیں :اگر میں حضرت ابن مسعودؓ کی قراءت پڑھا ہوتاتو حضرت ابن عباسؓ سے
قرآن کریم کے بارے میں ، میں نے جو سوالات کئے تھے ان میں سےبہت سے سوالات کی
ضرورت ہی پیش نہ آتی ،ابن ملیکۃ ؒ کہتے ہیں کہ میں نے مجاہد کو ابن عباسؓ سے قرآن کی
تفسیر کے بارے میں سوال کرتے دیکھا ،اور مجاہدؒ کے پاس تختیاں تھیں،راوی کہتے ہیں
کہ ابن عباسؓ مجاہد سے کہتے لکھو،یہاں تک کہ مجاہد ؒ نے ابن عباس ؓ سے پوری
تفسیر پوچھ لی۔(مجموع الفتاوی : ج۱۳: ص ۳۶۸)
اسی
طرح شیخ الاسلام ؒ کے شاگر حافظ ابن القیمؒ (م۷۵۱ھ)نے بھی مجاہدؒ کے بارے میں یہی نقل کیا ہے۔دیکھئے الصواعق المرسلۃ : ج۳: ص ۹۲۴،
امام
احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱ھ)نے اصحاب ابن عباس میں پہلے نمبر پر مجاہدؒ کو ذکر کیا ہے۔(عللل احمد بروایت عبد اللہ : رقم ۲۷۶)،حافظ ذہبیؒ(۷۴۸ھ) کہتے
ہیں کہ ’’رَوَى عَنِ: ابْنِ عَبَّاسٍ - فَأَكْثَرَ وَأَطَابَ - وَعَنْهُ
أَخَذَ القُرْآنَ، وَالتَّفْسِيْرَ، وَالفِقْهَ ‘‘ انہوں نے ابن عباسؓ سے روایت کیا ، پس کثرت سے اور بہترین (روایت
)کیا، انہیں سے قرآن ، تفسیر اور فقہ
حاصل کیا ۔(سیر : ج۴: ص ۴۵۰)، امام ابن حزمؒ(م۴۵۶ھ) نے مجاہدؒ کو
مکہ کے الطبقۃ الاولی کے قراء میں
شمارکیا اور کہا کہ ان ہونے ابن عباسؓ کے
پاس قریب قریب ۲۷ بار مکمل قرآن پڑھا۔(اکمال
تہذیب الکمال :ج۱۱: ص ۷۹)، امام ابن کثیرؒ(م۷۷۴ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كان من أخصاء أصحاب ابن عباس ‘‘عبد اللہ بن عباسؓ کے اصحاب میں مجاہدؒ
خاص الخاص تھے۔(البدایہ و النہایہ : ج۹: ص ۲۵۰)
ان
اقوال سے معلوم ہوا کہ امام مجاہدؒنے قرآن کی تفسیر ابن عباس ؓسے لی ہے۔بلکہ کئی
بار قرآن کی مکمل تفسیر ابن عباسؓ سے سیکھی۔لہذا
تفسیر میں مجاہد کی مرسل روایت درصل
معنوی طور پر ابن عباسؓ سے مروی
ہوگی۔
بلکہ’’مجاہد عن رسول
اللہ ‘‘ کا معاملہ با لکل ’’علی بن ابی طلحۃ
عن ابن عباس‘‘ کی طرح ہے۔علی بن ابی طلحہؒ (م۱۴۳ھ) نے اگر چہ ابن عباس ؓ کو نہیں پایا،لیکن ائمہ نے صراحت کی ہے کہ ان ہونے ابن عباسؓ کے
ثقہ اصحاب مثلاً مجاہدؒ سے علم حاصل کیا
اور پھر ان سے ارسال کیا، اور یہی وجہ ہے کہ امام بخاریؒ،امام ابو حاتمؒ
وغیرہ محدثین نے اس سند’’علی بن ابی طلحۃ
عن ابن عباس‘‘ پر اعتماد کیا
ہے۔(میزان الاعتدال: ج۳: ص ۱۳۴،تحفة
اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غيرالتقريب : ج۱: ص ۵۸۶)،
بس یہی معاملہ تفسیر میں مجاہدؒ کی مرسل روایات کا ہے۔ اس لئے کہ اگر چہ مجاہدؒ نے رسول اللہ ﷺ کو نہیں
پایا،لیکن رسول اللہ ﷺ کے ثقہ صحابی ابن
عباسؓ سے علم تفسیر
حاصل کیا۔اور پھر ان سے ارسال کیا۔لہذا
تفسیر میں ’’مجاہد عن رسول اللہ ‘‘ کی سند معنوی طور پر متصل اور حجت ہوگی۔ واللہ
اعلم
نیز اس آیت [وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا] کے شان نزول میں مجاہدؒ کی روایت خاص طور سے متصل اور حجت ہیں۔کیونکہ جس
طرح مجاہدؒ نے اس آیت جو شان نزول بیان
کیا ہے۔بالکل اسی طرح وہی شان نزول عبداللہ بن عباس ؓ سے بھی مروی اور ثابت ہے۔(دیکھئے
ص :۱۸-۱۹ )
ارشاد الحق اثری اور دیگر علماء کا اعتراض اور اس کا جواب :
لہذا
مجاہدؒ کا ابن عباسؓ سے علم تفسیر
حاصل کرنا ،اور پھر اس آیت کا عبداللہ بن عباسؓ کی طرح ،مجاہدؒ کا بھی
وہی شان نزول بیان کرنا،یہ بات کو واضح کرتا ہے کہ مجاہدؒ نے یہ روایت
عبداللہ بن عباسؓ سے ہی سنی ہے۔لہذا یہ
روایت درایتاً متصل اور حجت ہیں ۔ نیز
ارشاد الحق اثری اور دیگر علماء کا اس روایت کو کو مرسل اور منقطع کہنا غیر صحیح
اور باطل ہے۔
نوٹ نمبر ۲ :
بقول
بعض علماء کے،اگر اس کو مرسل بھی تسلیم کرلیا جائے،تو بھی امام مجاہد بن جبرؒ(م۱۰۴ھ)
کی مراسیل ائمہ کے نزدیک مقبول اور دیگر
مراسیل سے بہتر ہے۔
(۱) امام ابو
داودؒ(م۲۷۵ھ) سے سوال کیا گیا کہ
مراسیل مجاہد بہتر ہے یا مراسیل عطاء ؟؟ تو جواب دیا کہ مراسیل مجاہد بہتر ہے
،کیونکہ عطاء ہر ایک سے روایت لیتے تھے۔(تہذیب الکمال : ج۲۷: ص ۲۳۳)
(۲) قریب
قریب یہی بات امام یحیی بن سعید القطانؒ(م۱۹۸ھ)
(۳) امام علی
بن المدینیؒ(م۲۳۳ھ)
(۴) امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱ھ) وغیرہ نے بھی کہی ہے۔(العلل
الصغیر للترمذی : ص ۷۵۴، المراسیل لابن ابی حاتم : ص ۴،الجامع العلوم الامام احمد
: علوم الحدیث : ج۱۵: ص ۴۱۸)
(۵) حافظ ابن
تیمیہؒ(م۷۲۸ھ) کہتے ہیں کہ مراسیل مجاہد حسن(اچھی) ہے۔(شرح عمدۃ لابن تیمیہ،کتاب الصلاۃ : ص ۱۵۳)
(۶) حافظ
ذہبیؒ(م۷۴۸ھ) کہتے ہیں کہ ابراھیم
نخعیؒ،شعبیؒ اور مجاہدؒ کی مراسیل مضبوط مراسیل ہیں اور ان میں کوئی حرج نہیں،ایک
جماعت نے ان کو قبول کیا اور ایک نے رد کیا۔(الموقطۃ : ص ۴۰)
(۷) شیخ
الالبانیؒ بھی کہتے ہیں کہ ’’ من المسلَّم عند العلماء أن مراسيل
مجاهد خير من مراسيل غيره من التابعين كعطاء وغيره، فإن لم يثبت سماعه للحديث من
أبي ذر؛ فهو مرسل صحيح، يمكن تقويته ببعض الشواهد ‘‘ علماء کے نزدیک یہ
مسلمات میں سے ہے کہ مراسیل مجاہد دیگر تابعین مثلاً عطاء وغیرہ سے بہتر ہے۔لہذا حدیث کے سلسلے میں اگرچہ
مجاہد کا سماع ابو ذرؓ سے ثابت نہیں،تو بھی مجاہد ؒ کی روایت صحیح مرسل ہے،جس کا
بعض شواہد کے ذریعہ قوی ہونا ممکن ہے۔(الصحیحۃ : ج۷: ص ۱۲۱۶)
معلوم ہوا کہ ائمہ اور علماء کے
نزدیک مراسیل مجاہد بہتر،اچھی اور مضبوط مراسیل ہے۔نیز وہ شواہد کے ذریعہ اور بھی قوی ہوسکتی ہے۔اس کے
مزید شواہد آگے آرہے ہیں،اس لحاظ بھی یہ
روایت مقبول اور قوی ہے۔لہذا اثری صاحب کا
اعتراض باطل ہے۔
[3] مشہورمفسر،امام محمد بن جریر الطبریؒ(م۳۱۰ھ) اس کی سند یوں بیان فرماتے ہیں کہ
حدثني أبو
السائب، قال: ثنا حفص، عن أشعث، عن الزهري، قال: " نزلت هذه الآية في فتى من
الأنصار كان رسول الله صلى الله عليه وسلم كلما قرأ شيئا قرأه، فنزلت: {وإذا قرئ
القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}۔(تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۴۶،ت: أحمد محمد
شاكر،ط: مؤسسة الرسالة)
سند کے
روات کی تفصیل یہ ہیں :
(۱) امام محمد بن جریر الطبریؒ(م۳۱۰ھ)
مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ائمہ تفسیر میں سے ہیں۔(کتاب الثقات
للقاسم : ج۸: ص ۲۱۵)
(۲) سلم
بن جنادۃ،ابوالسائب الکوفیؒ (م۲۵۴ھ) سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ کے راوی
اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۴۶۴)،نیز
ان کے متابع میں سفیان بن وکیع ؒ [مقبول
عند المتابعۃ] (تفسیر ابن جریر : ج۱۳: ص ۳۴۸) اور سہل بن
عثمان العسکریؒ (م۲۳۵ھ) [ثقہ] (القراءۃ خلف الامام للبیہقی :
ص ۱۱۵) وغیرہ موجود ہے۔
(۳) حفص
بن غیاث ؒ (م۱۹۵ھ) صحیحین کے راوی
اور ثقہ فقیہ ہیں۔(تقریب : رقم ۱۴۳۰)
نوٹ :
چونکہ
ان کے متابع میں سلیمان بن حیان ،ابو خالد الاحمرؒ(م۱۹۰ھ)[صدوق] ،عبد
الرحمٰن بن محمد بن زیاد المحاربیؒ (م۱۹۵ھ)
[ثقہ] (تفسیر ابن جریر : ج۱۳: ص ۳۴۸) اور یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃؒ (م۱۸۴ھ)[ثقہ،متقن] (القراءۃ
خلف الامام للبیہقی : ص ۱۱۵) وغیرہ موجود ہے۔لہذا اس روایت میں
حفص بن غیاث ؒ (م۱۹۵ھ) پر تدلیس
اور اختلاط کا الزام باطل اور مردود ہے۔
(۴) اشعث بن سوار الکوفی ؒ(م۱۳۶ھ)
صحیح مسلم اور سنن ترمذی،نسائی اور ابن ماجہ کے راوی ہے اور ان کے بارے میں
اختلاف ائمہ کا ہے۔بعض نے جرح کی اور بعض
نے توثیق کی ہے۔حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) اور حافظ نور الدین الہیثمیؒ (م۸۰۷ھ)
نے ان کو حسن الحدیث تسلیم کیا ہے۔(من
تكلم فيه وهو موثق للذہبی
: ص ۴۸،مجمع الزوائد : حدیث نمبر ۶۴۰۶،سینے پر ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام ،از
زبیر علی زئی : ص ۳۴)،حافظ الحدیث ،امام عبد الحق الاشبیلیؒ(م۵۸۱ھ)
کہتے ہیں کہ میں نے اشعث کے سلسلے میں ابن
عدی ؒ کے قول سے بہتر قول کسی کا نہیں
سنا، اور امام ابن عدیؒ (م۳۶۵ھ) کا قول یہ ہے کہ ’’ أشعث بْن سوار قد روى عَنْهُ أَبُو إِسْحَاق السبيعي، وشُعبة
وشَرِيك ولم أجد لأشعث فيما يرويه متنا منكرا إنما فِي الأحايين يخلط فِي الإسناد
ويخالف ‘‘اشعث بن سوار سے ابو اسحاق السبیعی ،شعبہ اور شریک نے
روایت کی ہے اور میں نے اشعث کی کوئی
روایت متن کے اعتبار سے منکر نہیں پائی،البتہ وہ
بعض مرتبہ میں سندوں کو ملادیتے ہے اور کبھی مخالفت کرتے ہیں۔(الکامل لابن عدی : ج۲ : ص
۴۵)
لیکن اس روایت میں ابن عدی ؒ کا قول ’’ يخلط فِي الإسناد ويخالف ‘‘ مضر
نہیں ہے۔کیونکہ یہاں پر نہ انہوں نے
مخالفت کی اور نہ ہی سند بیان کی۔بلکہ صرف
اپنے شیخ سے ایک قول نقل کیا ہے۔
لہذا
یہاں اس روایت میں وہ مقبول ہے۔
نوٹ :
اشعث
ؒ کی روایت کی تائید
امام زہریؒ(م۱۲۵ھ) کے ایک اور قول سے بھی ہوتی ہے،جس میں امام صاحب ؒ نے اسی آیات سے امام کے
پیچھے (خاص طور سے جہری نماز میں ) قراءت نہ کرنے پر استدلال فرمایاہے۔(تفسیر ابن
جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰)، لہذا
معلوم ہوا کہ امام زہریؒ(م۱۲۵ھ) نے نزدیک یہ آیات قراءت خلف الامام کے بارے میں نازل ہوئی ہے،جس
کا تذکرہ اشعث کی روایت میں ہے۔
لہذا
متابعات کی صورت میں اشعثؒ اور بھی معتبر
ہوجاتے ہیں۔نیز غالباًیہی وجہ ہے کہ ائمہ
مفسرین ،مثلاً ،امام ابو اسحاق ثعلبی ؒ (م۴۷۹ھ)،امام ابو الحسن الواحدی
النیساپوری ؒ(م۴۶۸ھ)،حافظ ابن جوزیؒ (م۵۹۷ھ)،وغیرہ نے امام زہریؒ (م۱۲۵ھ)کے
اس قول کو باالجزم نقل کیا ہے۔(تفسیر
ثعلبی: ج۴: ص ۳۲۱،اسباب النزول : ص ۲۳۳،زاد المسیر : ج۲: ص ۱۸۳)
پھرمجاہدؒ،محمد بن
کعب القرظیؒ،ابو العالیہؒ کی بھی روایات ان کے شواہد میں موجود ہے۔خلاصہ یہ کہ اس روایت میں ان پر جرح باطل اور مردود
ہے۔
(۵) امام
محمد بن مسلم ،ابو بکر الزہریؒ(م۱۲۵ھ) صحیحین کے راوی اور مشہور حافظ الحدیث اور فقیہ ہیں،جس کی عظمت اور شان پر سب کا اتفاق ہے۔(تقریب)
لہذا
یہ سند حسن مرسل ہے۔
[4] امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ)
فرماتے ہیں کہ
أخبرنا أبو عبد
الله الحافظ , أنا أبو علي الحسين بن علي الحافظ , نا أبو يعلى , نا المقدمي , نا
عبد الوهاب , عن المهاجر , عن أبي العالية , قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم
" إذا صلى فقرأ أصحابه فنزلت {فاستمعوا له وأنصتوا} فسكت القوم وقرأ النبي
صلى الله عليه وسلم۔ (كتاب القراءة خلف الإمام للبیہقی : ص ۱۰۷،ت: محمد السعيد بن بسيوني زغلول،ط: دار الكتب العلمية – بيروت)
روات کی
تحقیق درج ذیل ہے :
(۱) امام
ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات
للقاسم،تاریخ الاسلام للذہبی)
(۲) امام
ابو عبد اللہ الحاکم الصغیرؒ(م۴۰۵ھ) بھی مشہور ثقہ حافظ الحدیث اور
المستدرک علی الصحیحین کے مصنف ہیں۔( کتاب الثقات للقاسم : ج۸: ص ۳۹۲)
(۳) امام
ابو علی حسین بن علی الحافظ ؒ(م۳۴۹ھ)
بھی مشہور مضبوط،حافظ الحدیث اور صاحب التصنیفات ہیں۔(سیر
للذہبی: ج۱۶: ص ۵۱)
(۴) امام
ابو یعلی الموصلیؒ (م۳۰۷ھ) بھی مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور صاحب مسند ہیں۔(کتاب
الثقات للقاسم : ج۱: ص ۴۳۰)
(۵) محمد
بن ابوبکر،ابو عبد اللہ المقدمیؒ(م۲۳۴ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب
: رقم ۵۷۶۱)
(۶) عبد
الوھاب بن عبد المجید الثقفیؒ(م۱۹۴ھ) بھی صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب
: رقم ۴۲۶۱)
نوٹ :
عبد الوھاب ؒ آخری عمر میں مختلط
ہوگئے تھے،اور حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ قلت: لكن ما ضره تغيره،
فإنه لم يحدث زمن التغير بشيء ‘‘ میں
کہتا ہوں کہ عبد الوھابؒ کا مختلط ہونا نقصان دےنہیں ہے،اس لئے کہ انہوں نے حالت
اختلاط میں کوئی روایت بیان نہیں کی۔(سیر : ج۹: ص ۲۳۹)
(۷) مجاھر بن مخلد ،ابو مخلدسنن ترمذی،نسائی
اور ابن ماجہ کے راوی اور ثقہ ہیں۔(التذييل علي كتب الجرح والتعديل : ص ۳۱۶)
(۸) رفیع
بن مہران ،ابو العالیہؒ(م۹۳ھ) مشہور کبار تابعی،امام،مفسر اور ثقہ،حافظ
الحدیث ہیں۔(سیر : ج۴: ص ۲۰۷،تقریب : رقم ۱۹۵۳)
معلوم ہوا کہ اس روایت کے تمام روات ثقہ
اور سند صحیح مرسل ہے۔
ایک اعتراض اور اس کا جواب :
ارشاد
الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ ابو العالیہؒ الریاحی کی مراسیل کے متعلق امام شافعیؒ
فرماتے ہیں کہ ریاحی کی حدیث ہوائی باتیں
ہیں۔نیز موصوف آگے امام بیہقیؒ سے بھی یہی نقل کرتے ہیں کہ ابو العالیہؒ
ثقہ اور ضعیف ہر قسم کے راویوں سے روایت کرتے ہیں۔(توضیح الکلام : ص :
۵۳۳،۵۳۴)
الجواب :
امام
ابن سیرین ؒ نے بھی کہا کہ ابو العالیہ
الریاحیؒ روایت لینے میں پرواہ نہیں کرتے
تھے کہ وہ اپنی حدیث کس سے لے رہے ہے۔(اتحاف النبیل : ج۲: ص ۱۳۶)لیکن حقیقت
یہ ہے کہ یہ تمام باتیں غیر صحیح ہے۔وجوہات ملاحظہ فرمائے
۱ولاً امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) کا قول ’’ حديث أبي العالية الرياحي رياح
‘‘ارشاد الحق اثری صاحب نے میزان الاعتدال سے نقل
کیا ہے۔حالانکہ جہاں سے موصوف نے
نقل کیا،اسی کتاب میزان الاعتدال میں اگلی سطر میں حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے
صراحت کی، کہ ’’‘فإنما أراد به حديثه الذي أرسله في القهقهة فقط ومذهب الشافعي
أن المراسيل ليست بحجة، فأما إذا أسند أبو العالية فحجة‘‘ امام شافعیؒ نے اس سے صرف نماز میں قہقہہ کے مسئلہ میں وارد شدہ ابو
العالیہ ؒ کی مرسل مراد لی ہے، اور امام
شافعیؒ کامذہب یہ ہے کہ مراسیل حجت نہیں ہے،جب ابو العالیہ کسی روایت کو مسند
(یعنی متصل) بیان کریں تو وہ روایت ان کے نزدیک
حجت ہے۔(میزان الاعتدال : ج۲ : ص ۵۴)
اس
صراحت سے معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ)
کا قول ’’ حديث أبي العالية الرياحي رياح ‘‘
صرف نماز میں قہقہہ کے مسئلہ میں موجود ابو العالیہ ؒ کی مرسل روایت
کے بارے میں ہی تھا۔ لیکن اثری صاحب
نے حافظ ذہبیؒ کی تشریح کو چھپا کر اس قول
کو علی الاطلاق بتانے کی کوشش کی۔(اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے)
اسی طرح ’’ومذهب
الشافعي أن المراسيل ليست بحجة، فأما إذا أسند أبو العالية فحجة‘‘کی
عبارت سے امام ذہبیؒ نے امام شافعیؒ کا مسلک اور مذہب بیان کی کہ امام شافعیؒ
کامذہب یہ ہے کہ مراسیل حجت نہیں ہے،جب ابو العالیہ کسی روایت کو مسند (یعنی متصل)
بیان کریں تو وہ روایت امام شافعی ؒکے نزدیک
حجت ہے۔(میزان الاعتدال : ج۲ : ص ۵۴)
لیکن غیر مقلدین کے محدث یحیی
گوندلوی صاحب نےصرف عبارت ’’ فأما إذا أسند أبو العالية فحجة‘‘ نقل
کرکےاس عبارت کو امام ذہبیؒ کا اپنے قول بتانے،بلکہ علی الاطلاق قول ثابت کرنے
کی کوشش کی اور مرسل بیان کرنے کی صورت میں علی الاطلاق ابوالعالیہؒ کا عدم حجت ہونا
بیان کیا ہے۔(خیر الکلام : ص ۲۵۲)
حالانکہ قارئین ! آپ نے دیکھا کہ
حافظ ذہبیؒ نے یہاں پر اپنا یا علی
الاطلاق قول نہیں بلکہ امام شافعیؒ کا
مسلک و مذہب بیان کیا ہے۔(اللہ ان کی غلطی کو معاف فرمائے)
نیز حافظ ذہبیؒ کی طرح،حافظ ابن
حجرؒ (م۸۵۲ھ) امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) کا قول ’’ حديث أبي العالية الرياحي رياح ‘‘ کے
بارے میں کہتے ہیں کہ ’’ يعني في القهقهة ‘‘امام
شافعی ؒ کا قول نماز میں قہقہہ لگانے کے
مسئلہ میں وارد شدہ ابو العالیہ کی حدیث کے بارے میں ہے۔(تحفة
اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن حجر من الرواة في غير التقريب : ج۱:
ص ۳۸۵)،حافظ
ابن رجب ؒ فرماتے ہیں کہ ’’ يشير إلى هذا المرسل ‘‘
امام شافعی ؒ نے اپنے قول سے اس قہقہہ
والی ابو العالیہ ؒ کی مرسل
کی طرف اشارہ کیا ہے۔(شرح علل ترمذی : ج۱ : ص ۵۵۱)،امام ابو حاتم ؒ (م۲۷۷ھ)
فرماتے ہیں کہ ’’يَعْنِي: مَا يُرْوَى فِي الضَّحِكِ فِي
الصَّلاَةِ
‘‘
یعنی امام شافعی ؒ کے نزدیک ابو العالیہ
کی وہ حدیث ہوائی بات ہے جو نماز میں
قہقہہ لگانے کے مسئلہ میں ان ہونے
روایت کی ہے۔(سیر : ج۴: ص ۲۱۲)، امام ابن عدی ؒ(م۳۶۵ھ) کہتے ہیں کہ
’’ عني الشَّافِعِي بذلك حَدِيثه فِي الضحك فِي الصَّلَاة
‘‘ امام
شافعیؒ نے اپنے قول سے ابو العالیہؒ کی
نماز میں قہقہہ لگانے کے مسئلہ میں موجود
حدیث مراد لی ہے اور آگے ابن عدیؒ کہتے ہیں کہ ان کی باقی ساری حدیثیں مستقیم اور
صالح ہیں۔(فتح الباری لابن حجر : ج۱: ص ۴۰۲،الکامل : ج۴: ص ۱۰۵،الضعفاء لابن
الجوزی : ج۱: ص ۲۸۵)،امام ابو عبد اللہ الحاکمؒ(م۴۰۵ھ) کہتے ہیں کہ ’’ إنما أراد الشافعي بقوله: حديث أبي
العالية الرياحي رياح: حديثه في القهقهة وحده ‘‘ امام شافعی ؒ نے اپنے قول سے تنہا ابوالعالیہؒ کی نماز میں قہقہہ لگانے کے
مسئلہ میں موجود حدیث مراد لی ہے۔(مناقب
الشافعی للبیہقی : ج۱ : ص ۵۴۳)
لہذا ان تمام ائمہ کی
وضاحت سے معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) کا قول ’’حديث
أبي العالية الرياحي رياح‘‘
صرف اور صرف نماز میں قہقہہ
کے مسئلہ میں موجود ابو العالیہ ؒ کی
مرسل روایت کے بارے میں ہی تھا اور ان کی
باقی احادیث (جس میں یہ
تفسیری روایت بھی میں شامل ہے)
مستقیم (صحیح) اور صالح ہیں۔ واللہ اعلم
نوٹ :
نماز میں قہقہہ لگانے کے سلسلے میں
ابو العالیہ الریاحیؒ کی روایت مرسل نہیں،مسند ہے۔چنانچہ امام ابو الحسن دارقطنیؒ (م۳۸۵ھ)
نے ثقہ،ثبت راوی حافظ خالد بن عبد اللہ الوسطیؒ(م۱۸۲ھ) کے طریق سے ایک روایت نقل کی،جس میں ابو العالیہؒ نے ’’انصار ‘‘کے
ایک آدمی سے روایت کی ہے۔(سنن الداقطنی : ج۱ : ص ۳۱۱) اور طبرانی نے ثقہ،حافظ اور امام مہدی بن میمون ؒ(م۱۷۲ھ)
کی طریق سے اس انصاری کا نام ابو موسی
اشعریؓ ذکر کیا ہے۔(الاجماع : شمارہ ۶: ص۶ )، لہذا یہ روایت
مسند اور مقبول ہے۔ اور امام
دارقطنیؒ کا اعتراض صحیح نہیں ہے۔
دوم امام ابوبکر البیہقیؒ(م۴۵۸ھ) کے
قول کی بنیاد ،امام محمد بن سیرینؒ(م۱۱۰ھ) کے قول پر ہے۔چنانچہ خود امام
بیہقیؒ(م۴۵۸ھ) کہتے ہیں کہ ’’ مراسيل
أبي العالية ليست بشيء كان لا يبالي عمن أخذ حديثه كذا قال محمد بن سيرين ‘‘ ابو
العالیہؒ کی مراسیل کچھ بھی نہیں ہے۔وہ
پرواہ نہیں کرتے تھے کہ وہ اپنی حدیث کس سے لے رہے ہیں۔ اسی طرح محمد بن
سیرینؒ نے کہا۔(سنن کبری للبیہقی : ج۱: ص ۲۲۶،حدیث نمبر ۶۷۹)
لیکن تحقیق کے میزان میں ابن سیرینؒ
(م۱۱۰ھ) کا یہ قول انصاف پر مبنی
نہیں ہے،جس کی تفصیل آرہی ہے۔لہذا امام ابوبکر البیہقیؒ(م۴۵۸ھ) کا قول
صحیح نہیں ہے۔
سوم ابن سیرینؒ
(م۱۱۰ھ) کا یہ کہنا کہ ابو العالیہ
الریاحیؒ روایت لینے میں پرواہ نہیں کرتے
تھے کہ وہ اپنی حدیث کس سے لے رہے ہے۔(اتحاف النبیل : ج۲: ص ۱۳۶)، غیر
صحیح ہے۔کیونکہ
- خود امام ابو العالیہؒ (م۹۳ھ)
کہتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ میں ایک آدمی کے بارے میں سنتا کہ وہ صاحب علم ہے تو میں چند دن سفر کرکے جاتا،تا
کہ اس سے روایت اور علم کا سماع کروں،لیکن میں سب سے پہلے اس کی نماز کو پرکھتا،اگر اس کی
نماز اچھی ہوتی،تب میں اس سے روایت اور علم کا سوال کرتا، ورنہ بغیر کچھ سنے میں لوٹ کر واپس آجاتا،اور میں
کہتا کہ ’’هو لما سواها أضيع ‘‘۔(تاریخ
الاسلام : ج۲: ص ۱۲۰۳،الکامل : ج۴: ص ۹۴،و اسنادہ حسن)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ امام ابو
العالیہؒ (م۹۳ھ) علم اور روایت لینے میں چھان بین اور غور فکر کرتے تھے۔
- دوسری روایت جس کو حافظ ذہبیؒ نے ذکر کیا ہے اس میں ابو العالیہؒ لوگوں سے کہتے ہیں کہ ’’ أنتم أكثر صلاة وصياما ممن
كان قبلكم، ولكن الكذب قد جرى على ألسنتكم ‘‘ تم
لوگ پہلے لوگوں سے زیادہ نماز اور روزے
زیادہ رکھتے ہو، لیکن تمہاری زبانوں پر جھوٹ جاری رہتا ہے۔(تاریخ
الاسلام : ج۲: ص ۱۲۰۴،علل احمد بروایت عبد اللہ : رقم ۳۶۱)
اس روایت سے بھی معلوم ہوا کہ ابو
العالیہؒ لوگوں کے باتوں کی تحقیق کرنے والے تھے۔تب ہی تو وہ کہہ
رہے کہ لوگوں کی زبانوں پر جھوٹ جاری ہے۔
- ابو العالیہؒ کی چھانبین کی ایک مثال
،ابن سعد ؒ کی وہ روایت ہے جس میں ابو العالیہ ؒ کہتے ہیں کہ ’’
كنا نسمع الرواية بالبصرة عن أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فلم نرض حتى
ركبنا إلى المدينة فسمعناها من أفواههم ‘‘ ہم بصرہ میں اصحاب رسول ﷺ کے حوالہ سے روایت سنتے تھے،لیکن ہم مطمئن نہیں ہوتے،یہاں
تک کہ ہم مدینہ پہنچ کر ان ہی روایت کو
اصحاب رسول ﷺ کی زبانوں سے سن نہ لیتے۔(طبقات ابن سعد : ج۷: ص ۸۰،طبع دار الکتب
علمیہ )
نیز
اگر امام ابو العالیہؒ ثقہ اور ضعیف ہر
قسم کے راویوں سے روایت کرتے ہیں،جیسا کہ ارشاد الحق اثری اور دیگر علماء کا بیان
ہے۔توپھر ان کے شیوخ میں ضعیف اور کمزور راوی ہونے چاہئے،مگر جتنے روات سے ابو العالیہؒ نے روایت لی ہے وہ
تمام کے تمام ہماری علم کے مطابق ثقہ یا صدوق ،حسن الحدیث ہیں۔(تہذیب الکمال :
ج۹: ص ۲۱۵)
اس
لحاظ سے بھی ابو العالیہؒ کا غیر ثقہ سے
روایت کرنا محال ہے۔ واللہ اعلم
خلاصہ
یہ کہ ابن سیرینؒ کا یہ کہنا ’’کہ ابو
العالیہ الریاحیؒ روایت لینے میں پرواہ
نہیں کرتے تھے کہ وہ اپنی حدیث کس سے لے رہے ہیں‘‘ تحقیق بلکہ خود ابو العالیہ ؒ (م۹۳ھ)
کے قول کی روشنی میں غیر صحیح ہے۔ اور راجح یہی ہے کہ وہ روایت لینے میں چھا ن بین کرتے اور ثقہ یا صدوق سے روایت لیتے تھے۔
واللہ اعلم
[5] امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ)
فرماتے ہیں کہ
أخبرنا أبو نصر عمر بن عبد العزيز بن عمر بن قتادة
أنا أبو منصور العباس بن الفضل النضروي , نا أحمد بن نجدة , نا سعيد بن منصور , نا
أبو معشر , عن محمد بن كعب , قال: " كانوا يتلقون من رسول الله صلى الله عليه
وسلم , إذا قرأ شيئا قرأوا معه حتى نزلت هذه الآية التي في الأعراف {وإذا قرئ
القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}۔(كتاب القراءة خلف الإمام للبیہقی :ص ۱۱۰)
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۲) عمر
بن عبد العزیز بن قتادہ ،ابو نصر الانصاری، النعمانیؒ ثقہ ہیں۔( السَّلسَبِيلُ النَّقِي في تَرَاجِمِ شيُوخ البَيِهَقِيّ: ص
۵۱۳)
(۳) عباس
بن فضل،ابو منصور الھرویؒ(م۳۷۲ھ) بھی ثقہ راوی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۸:
ص ۳۷۴)
(۴) محدث
احمد بن نجدۃ،ابو الفضل الھرویؒ(م۲۹۶ھ) ثقات میں سے ہیں۔(سیر اعلام
النبلاء : ج۱۳: ص ۵۷۱)
(۵) امام
سعید بن منصورؒ(م۲۲۷ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،حافظ الحدیث اور صاحب تصنیف
ہیں۔(تقریب : رقم ۲۳۹۹، الکاشف)
(۶) نجیح
بن عبد الرحمٰن ،ابو معشر المدنیؒ(م۱۷۰ھ) ضعیف ہے۔لیکن محمد بن کعب
القرظیؒ سے روایت کرنے میں صالح اور درست ہیں۔نیز امام احمد بن حنبل ؒ کےنزدیک
ابو معشرؒ کی محمد بن کعب القرظی سے مروی تفسیری روایات مقبول ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۲۹: ص ۳۲۵)
لہذا
اس روایت میں ابو معشر المدنیؒ(م۱۷۰ھ) مقبول اور حسن الحدیث ہیں۔
نوٹ :
ابو
معشر المدنیؒ(م۱۷۰ھ) آخری عمر میں مختلط ہوگئے تھے،لیکن ان کے متابع میں [صدوق، حسن الحدیث] ابو صخر الخراطؒ(م۱۸۹ھ) صحیح مسلم اور
سنن اربع کے راوی موجود ہے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:ج۵: ص ۱۶۴۵ ،تفسیر من جامع ابن وھب: ج۲: ص ۵۹) لہذا اس روایت
میں ابو معشر المدنیؒ(م۱۷۰ھ) پر
مختلط ہونے کا الزام باطل اور مردود ہے۔
(۷) محمد
بن کعب القرظی ؒ(م۱۰۸ھ) مشہورکبار تابعی،ثقہ ، امام،مفسر اور عالم بالقران
ہیں۔(تقریب : رقم ۶۲۵۷،
الکاشف،سیر،تہذہب الاسماء و اللغات
للنووی،نخب الافکار للعینی : ج۱۰: ص ۴۶۱)
معلوم
ہوا کہ یہ سند حسن مرسل ہے۔
ایک
وضاحت :
تہذہب الکمال میں موجود امام محمد بن کعب القرظی ؒ(م۱۰۸ھ) کے شیوخ
کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امام محمد
بن کعب القرظیؒ ثقہ یا صدوق سے روایت لیتے ہیں۔ کیونکہ تہذہب الکمال میں موجود ان کے شیوخ
میں سے کوئی بھی شیخ ضعیف نہیں ہے۔(تہذیب الکمال : ج۲۶: ص ۳۴۱،طبقات ابن سعد :
ج۴: ص ۷۰،طبع دار الکتب العلمۃ)
مرسل
معتضد کی بحث :
اور
ہم نے ثابت کیا کہ کبار تابعی ابو العالیہؒ (م۹۳ھ) عادتاً ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ اور ان کی تائید میں محمد
بن کعب القرظیؒ(م۱۰۸ھ) کی مرسل روایت
بھی موجود ہے۔ اور محمد بن کعبؒ بھی عادتاً ثقہ سے روایت کرتے ہیں، جیساکہ گزرچکا۔اور پھر
زہریؒ(م۱۲۵ھ) کی بھی مرسل روایت
موجود ہے۔ان حضرات کی تائید میں صحابہ ؓ کے فتوے اور جمہور اہل علم کا بھی یہی قول
ہے۔(جس کی تفصیل انشاء اللہ آنے والے شماروں میں آئےگی)، لہذا امام شافعیؒ
اور ائمہ عظام ؒ کے
اصول کی روشنی میں ابو
العالیہؒ،محمد بن کعب القرظیؒ اور زہریؒ کی مرسل روایات اس مسئلہ میں مقبول ہیں۔(دیکھئے مجلہ الاجماع :
ش۱۲: ص ۱)
نیز
امام مجاہدؒ کی روایت جو کہ درایتاً متصل
اور ابن عباس ؓ سے مروی ثابت شدہ روایت بھی موجود ہے جن سے ابوالعالیہؒ،محمد بن کعب القرظیؒ اور زہریؒ کی
اس مسئلہ میں موجود مرسل روایات کا صحیح ،ثبت اور حجت ہونا واضح ہے۔نیز امام
شافعیؒ اور ائمہ عظام ؒ کے
اصول کے مطابق بھی ابو العالیہؒ،محمد بن کعب القرظیؒ اور زہریؒ کی اس مسئلہ میں
موجود مرسل روایات صحیح اور حجت ہیں۔
اہل
حدیث حضرات کے نزدیک مرسل معتضد حجت ہے۔(الاجماع
: ش۱: ص ۶۵)، مگر ارشاد الحق اثری صاحب اور دیگر علماء اس پر چند اعتراضات کئی ہیں، جو مع جواب ملاحظہ
فرمائے۔
اعتراض
نمبر ۱ :
یحیی گوندلوی صاحب کہتے ہیں کہ مرسل معتضد اس وقت حجت ہوتی ہے،جب تابعی کی
عادت ہو کہ جب چھوڑے تو ثقہ چھوڑے۔مگر ابو
العالیہ کے متعلق ثابت نہیں ، اس کے بعد موصوف نے حافظ ذہبیؒ کی عبارت نقل کی۔(خیر الکلام : ص ۲۵۹)
الجواب
نمبر۱ :
ابو
العالیہؒ کے متعلق یہ ثابت نہیں کہ وہ غیر ثقہ سے ارسال کرتے تھے، راجح یہی ہے کہ
وہ روایت لینے میں چھا بین کرتے اور ثقہ یا صدوق سے روایت لیتے تھے۔
واللہ اعلم (دیکھئے ص :۱۳)
الجواب
نمبر۲ :
اگر بالفرض ابو العالیہؒ غیر ثقہ سے
ارسال کرتے تھے، تب بھی ابن عباس ؓ کی متصل روایت کی وجہ سے ابو العالیہؒ
کی مرسل روایت امام شافعیؒ اور ائمہ عظام ؒ
کے اصول کی روشنی میں مقبول اور حجت ہے۔دیکھئے مجلہ الاجماع : ش ۱۲: ص ۱-۱۱
وغیرہ۔
اعتراض
نمبر ۲ :
ارشاد الحق اثری صاحب کہتے ہیں کہ بلاشبہ مرسل معتضد حجت ہیں، مگر اسی وقت جب کہ
وہ صحیح روایات کے خلاف نہ ہو۔
الجواب
:
اولاً ہمارے
علم کے مطابق اثری صاحب نے یہ شرط امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) سے لی ہے کیونکہ
انہوں نے یہ شرط اپنی کتاب میں ذکر کی ہے۔(کتاب القراءت للبیہقی : ص ۲۰۱)، اور یہاں مرسل صحیح حدیث کے خلاف نہ ہو، سے امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کی
مراد یہ ہے کہ ثقہ
مرسِل اپنی روایت میں اوثق راوی
کی روایت کے الفاظ کی مخالفت
نہ کرتا ہو۔کیونکہ امام
بیہقیؒ جگہ جگہ امام
شافعی ؒ کے آثار سے استدلال کیا
ہے اور امام شافعی ؒ
کے آثار میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ’’ يكون إذا شرك أحدا من الحفاظ في حديث لم يخالفه , فإن خالفه وجد
حديثه أنقص كانت في هذه دلائل على صحة مخرج حديثه ومتى خالف ما وصفت أضر بحديثه
حتى لا يسع أحدا منهم قبول مرسله ‘‘۔(معرفہ السنن و الآثار :
ج۱: ص ۱۶۲)نیز امام بیہقیؒ نے کتاب
القراءۃ میں شرائط کتاب المدخل کے حوالہ
سے نقل کیا ہے۔(کتاب القراءت للبیہقی :
ص ۲۰۱)، اور کتاب المدخل میں
بھی وہی بات ہے جو ہم نے کتاب المعرفۃ کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ (کتاب
المدخل للبیہقی : ج۱: ص ۳۷۴،ت محمد عوامہ)،لہذا
یہاں پر شرط صحیح حدیث سے مراد شاذ والی
بات ہے،جس کا ابو العالیہ ؒ والی روایت
سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے۔کیونکہ ابو العالیہؒ نے اپنی روایت کے الفاظ کو بیان کرنے میں کسی بھی اوثق راوی کی مخالفت
نہیں کی۔
دوم اگر
ارشاد الحق اثری صاحب کو اصرار ہے کہ یہاں پر صحیح حدیث سے مراد اس مسئلے میں موجود دوسری صحیح متصل روایات ہے تو عرض ہے کہ اثری صاحب کے اس مفہوم کی تردید ،امام نووی ؒ (م۶۷۶ھ)
کےکلام سے ہوتی ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ ’’ فإن
صح مخرج المرسل بمجيئه من وجه آخر مسنداً أو مرسلاً أرسله من أخذ عن غير رجال
الأول كان صحيحاً، ويتبين بذلك صحة المرسل وأنهما صحيحان لو عارضهما صحيح من طريق
رجحناهما عليه إذا تعذر الجمع ‘‘ لہذا اگر حدیث مرسل کا مخرج صحیح ثابت
ہوجائے،دوسری طریق سے وہ حدیث اس طور پر
مسند یا مرسل آجائے کہ اسے ایسےشخص نے ارسال کیا ہو جس نے پہلی مرسل حدیث کے رجال
سے حدیث نہ لی ہو،تو یہ صحیح ہوجائےگی اور اسی کے ساتھ مرسل کی صحت واضح ہوجائےگی
اور یہ دونوں مرسل صحیح ہوں گی اور ان
دونوں کے مقابلے میں کوئی حدیث صحیح ایک سند سے آجائے اور ان جمع و تطبیق متعذر
ہو،تو ہم ان دونوں مرسل حدیثوں کو اس صحیح حدیث پر ترجیح دیں گے۔(التقریب
للنووی : ص ۳۵)،
لہذا
راجح بات وہی ہے جو ہم نے(اولاً کے تحت) ذکر کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ امام شافعی ؒ اور دیگر ائمہ محدثین کے اصول کی روشنی
میں بھی یہ مرسل روایات مقبول ،صحیح اور حجت ہیں۔ان کا انکار محض اصول محدثین سے
ناواقفیت کا نتیجہ ہے۔
[6] امام بیہقیؒ (م۴۵۸ھ)
فرماتے ہیں :
أخبرنا أبو الحسن علي بن أحمد بن
عبدان أنا أحمد بن عبيد الصفار , نا عبيد بن شريك , نا ابن أبي مريم , نا ابن
لهيعة , عن عبد الله بن هبيرة , عن عبد الله بن عباس أن رسول
الله صلى الله عليه وسلم قرأ في الصلاة فقرأ أصحابه وراءه فخلطوا عليه فنزل {وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا} فهذه في
المكتوبة، ثم قال ابن عباس: وإن كنا لا نستمع لمن يقرأ إنا إذا لأجفى من الحمير۔(القراءۃ خلف الامام للبیہقی
: ص ۱۰۹)
سند کے راویوں کی تحقیق :
(۱) امام
ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸ھ) کی
توثیق گزرچکی۔
(۲) ابو
الحسن،علی بن احمد بن عبدانؒ ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۹: ص ۲۵۷)
(۳) احمد
بن عبید ،ابو الحسن الصفار ؒ بھی ثقہ اور مضبوط راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم :
ج۱: ص ۴۰۸)
(۴) عبید
بن احمد بن شریک،ابو محمد بغدادیؒ(م۲۸۵ھ) بھی صدوق، محدث اور رحال ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۶: ص ۷۷۷،کتاب الثقات للقاسم : ج۷ : ص ۵۰)
(۵) سعید
بن ابی مریم،ابو محمد المصریؒ(م۲۲۴ھ)
صحیحین کے راوی اور ثقہ اور مضبوط فقیہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۲۸۶)
(۶) عبد
اللہ بن لھیعۃ المصریؒ
(م۱۷۴ھ) صحیح
مسلم ،سنن ابو داود اور سنن ابن ماجہ کے راوی اور صدوق ہیں اوروہ
کتابوں کے جلنے کے بعد مختلط ہوگئے
تھے۔جن لوگوں نے ان سے ان کے کتاب جلنے سے پہلے روایت کی مثلاً ابن مبارک ،ابن وھب
وغیرہ،ان کا سماع مضبوط اور سند صحیح ہے۔(تقریب
: رقم ۳۵۶۳،سیر : ج۸: ص ۱۱،الکواکب النیرات
: ص ۴۸۱، اکمال تہذیب الکمال : ج۸: ص ۱۴۴)
اور
اس روایت کو ان سےابو محمد ، سعید بن ابی مریم
مصریؒ (م۲۲۴ھ) نے روایت کیا ہے۔اور ان کا سماع ابن لھیعہؒ سے ان کے
کتب کے جلنے سے پہلے کا ہے۔( اکمال
تہذیب الکمال : ج۸: ص ۱۴۵)
لہذا
اس روایت میں ابن لھیعہؒ (م۱۷۴ھ) صدوق اور حسن الحدیث ہیں۔
نوٹ نمبر۱ :
ابو
محمد ، سعید بن ابی مریم المصریؒ (م۲۲۴ھ)
کے علاوہ ، ابن لھیعہؒ (م۱۷۴ھ)،سے
یہ روایت عبد اللہ بن مبارکؒ(م۱۸۱ھ) اور بشر بن عمر الازدیؒ(م۲۰۹ھ)
وغیرہ نے بھی روایت کی ہے۔(تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰،الاعتبار
للحازمی : ص ۹۸)
تفسیر
ابن جریر کی سند یوں ہے کہ :
حدثني المثنى
قال: حدثنا سويد قال: أخبرنا ابن المبارك، عن ابن لهيعة، عن ابن هبيرة، عن ابن
عباس أنه كان يقول في هذه: (واذكر ربك في نفسك تضرعًا وخيفة) ، هذا في المكتوبة.
وأما ما كان من قصص أو قراءة بعد ذلك، فإنما هي نافلة. إن نبي الله صلى الله عليه
وسلم قرأ في صلاة مكتوبة، وقرأ وراءه أصحابه، فخلَّطوا عليه قال: فنزل القرآن:
(وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون) ، فهذا في المكتوبة۔(تفسیر
ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰)
سند کی
مختصر تحقیق :
مصنف کتاب
امام ابن جریر الطبریؒ (م۳۱۰ھ) مشہور مفسر ،محدث،فقیہ اور ثقہ حافظ
الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام للذہبی،کتاب الثقات للقاسم)، المثنی سے مراد
المثنی بن ابراھیم الطبری الآبلی ہے۔اور حافظ ابن کثیرؒ(م۷۷۴ھ) نے ان کو
ضمناً ثقہ قرار دیا ہے۔(معجم الشیوخ
للطبری : ص۴۲۰،۴۳۵، معجم الصغیر لرواۃ
الامام ابن جریر الطبری : ج۲: ص۴۸۳ )، لہذا ٓپؒ صدوق ہیں۔تیسرے راوی
سوید بن نصرؒ بھی ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۲۶۹۹) ،خلاصہ یہ کہ یہ روایت ابن
مبارک عن ابن لھیعۃ سے بھی
مروی ہے۔
نوٹ نمبر ۲ :
اس
روایت میں ابن لھیعۃ ؒ پر تدلیس کا الزام
بھی مردود ہے۔کیونکہ ابن عباس ؓ کے ۳،۳
شاگرد (مجاہدؒ،ابو العالیہؒ اور محمد بن کعب القرظیؒ) نے یہی روایت ابن لھیعۃ ؒ سے بہت
پہلےمرسلاً بیان کی ہے۔لہذا ابن لھیعۃ ؒ کی متصل روایت کی
اصل معلوم ہوتی ہے۔جس کی وجہ سے ان پر تدلیس کا الزام باطل و مردود ہے۔
اور
شیخ الالبانی ؒ کے نزدیک ابن لھیعۃ ؒ سے جب عبادلہ
(ابن مبارک،ابن وہب،مقری وغیرہ) روایت کریں،تو ابن لھیعۃ ؒ کی روایت مقبول
ہوتی ہے،اگر چہ اس روایت میں ان کا
’عنعنہ‘ موجود ہو۔کیونکہ شیخ الالبانیؒ کہتےہیں کہ حافظ ابن حجرؒ بھی ایسا اہی
کرتے تھے۔(اتحاف النبیل : ج۱: ص ۱۵۸)،نیز حافظ عبد الغنی بن سعید المصریؒ(م۴۰۹ھ) بھی کہتے ہیں کہ ’’ إذا روى العبادلة ابن وهب وابن المبارك والمقرئ عن ابن لهيعة فهو سند
صحيح
‘‘
جب عبادلہ ابن لھیعۃ ؒ سے روایت کرے تو
وہ روایت سنداً صحیح ہوتی ہے۔(اکمال تہذیب الکمال : ج۸: ص ۱۴۴)
خلاصہ یہ کہ اس روایت میں ابن لھیعۃ ؒ پر تدلیس کا الزام
بھی مردود ہے۔
غیر مقلدین کے لئے ایک لمحہ فکریہ :
مکحول
ؒ کے سلسلے میں غیر مقلدین کہتے ہیں کہ ابن حبانؒ اور ذہبیؒ ارسال خفی کو تدلیس
کہتے ہیں جیسا کہ زبیر علی زئی اور ارشاد الحق اثری صاحب کا کہنا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کے
نزدیک مکحول مدلس نہیں ہے۔(مسئلہ فاتحہ
خلف الامام:ص۶۳،توضیح الاکلام : ۳۱۲،۳۱۴) یحیی گوندلوی صاحب کا بھی یہی نظریہ
ہے۔(خیر الکلام : ص ۱۶۷)
تو
عرض ہے کہ عبد اللہ بن لھیعۃ المصریؒ
(م۱۷۴ھ) پر بھی متقدمین میں سے
کسی نے تدلیس کا الزام نہیں لگایا،سوائے
ابن حبان ؒ کے،جیسا کہ شیخ محمد بن
عمرو نےکاکہنا ہے یہی وجہ ہے کہ شیخ موصوف نے عبد اللہ بن لھیعۃ المصریؒ
(م۱۷۴ھ) کو تدلیس سے بری قرار دیا ہے اور
ان کے شاگر ابو محمد عصام بن
مرعی اور شیخ محمد بن طالعت نے ان کی تائید فرمائی ہے۔(النکت
الرفیعۃ
: ص ۲۷،معجم المدلسین لابن طالعت : ص ۲۷۸)
امید
ہے کہ غیر مقلدین بھی اپنے اصول کے مطابق عبد اللہ بن لھیعۃ المصریؒ
(م۱۷۴ھ) کو تدلیس سے بری قرار دینگے۔
(۷) عبد
اللہ بن ھبیرۃ المصریؒ(م۱۲۶ھ)
صحیح مسلم اور سنن اربع کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۳۶۷۸)
(۸) عبد
اللہ بن عباسؓ (م۶۸ھ) مشہور صحابی رسول ﷺ اور قرآن کے عظیم مفسر ہیں۔(تقریب،سیر)
لہذا یہ سند حسن
ہے۔
نوٹ :
بعض
علماء نے اس روایت کو منقطع قرار دیا ہے
اور کہا کہ عبد اللہ بن ھبیرۃ المصریؒ(م۱۲۶ھ) نے ابن عباس ؓ (م۶۸ھ) کو نہیں پایا ہے۔لیکن یہ
صحیح نہیں ہے۔کیونکہ عبد اللہ بن ھبیرۃ
المصریؒ(م۱۲۶ھ) کی ولادت (م۴۰ھ) میں ہوئی اور ابن عباس ؓ
کی وفات (م۶۸ھ) میں یعنی ان کی وفات کے وقت عبد اللہ بن ھبیرۃ المصریؒ(م۱۲۶ھ) کی عمر’’ ۲۸ ‘‘ سال
تھی،لہذا جب امکان لقاء کا قوی احتمال ہے، تو
یہ بات ، اس کے روایت کے متصل ہونے
کے لئے کافی ہے۔کما قال مسلم وغیرہ
نیز حافظ ابن حبان ؒ(م۳۵۴ھ) نے عبد اللہ بن ھبیرۃ المصریؒ(م۱۲۶ھ) کو حضرت ابو ہریرہ ؓ (م۵۹ھ)
کا شاگردبتایا ہے۔(کتاب الثقات لابن حبان : ج۵: ص ۵۴) اور حضرت ابو
ہریرہ ؓکی وفات(م۵۹ھ) ہوئی ہے۔(تقریب)،
لہذا جب ابن
ھبیرۃ المصریؒ (۵۹ھ) میں وفات پا
نے والے صحابی ؓ کےشاگرد ہے۔تو وہ (۶۸ھ) میں وفات پا نے والے ابن
عباسؓ کے شاگرد کیوں کر نہیں ہوسکتے ؟؟
لہذا یہ سند متصل
ہے۔
[7] امام ابن ابی حاتم
ؒ (م۳۲۷ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا أبو سعيد
الأشج، ثنا ابن فضيل، وأبو خالد، عن داود بن أبي هند، عن أبي نضرة، عن أسير بن
جابر المحاربي، عن عبد الله، قال: " لعلكم تقرون؟ قلنا نعم، قال: ألا تفقهون؟
ما لكم لا تعقلون؟ {وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا لعلكم ترحمون}۔(تفسیر
ابن ابی حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶)
سند کے
روات کی تحقیق :
(۱) امام
عبد الرحمٰن ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۷ھ) کی توثیق گزرچکی۔
(۲) امام ابو سعید الاشجؒ(م۲۵۷ھ) بھی
صحیحین کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۳۳۵۴)
(۳) ابن فضیل سے مراد صحیحین کے صدوق
راوی محمد بن فضیل الضبیؒ(م۱۹۵ھ)ہے
، اور ان کے متابع میں صدوق امام ابو خالد
الاحمر ؒ (م۱۹۱ھ) ہے،جن کی توثیق گزرچکی۔
(۴) داود بن ابی ہندؒ (م۱۴۰ھ) صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ،متقن ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۱۷)
(۵) ابو
نضرۃ ،منذر بن مالک بصریؒ (م۱۰۹ھ) بھی صحیح مسلم کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۶۸۹۰)
(۶) اسیر بن
جابر المحاربیؒ(م۸۵ھ) صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب: رقم ۷۸۰۸)
(۷) عبد اللہ بن مسعودؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم
ہوا کہ اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔
ایک
اعتراض اور اس کا جواب :
اثری صاحب مولانا سرفراز خان
صفدر صاحب ؒ کے حوالہ سے داود بن ابی ہند
ؒ کو کثیر الاضطراب کہتے ہیں۔ حالانکہ داود بن ابی ہند ؒ (م۱۴۰ھ) کو ’’کثیر الاضطراب ‘‘ کہنا درست نہیں
۔کیونکہ تہذیب التہذیب میں یہ قول
بلا سند ہے۔اور ایسے بلا سند اقوال غیر مقلدین کے نزدیک باطل اور مردود
ہوتے ہے۔ نیز اثری صاحب کا یہ کہنا ہےکہ
یہ روایت داود کے اضطراب کی بنا پر ضعیف ہے۔کیونکہ داود کی یہی روایت کتاب القراءت للبیہقی میں موجود ہے اور اس کی سند ’’داودعن ابی
نضرۃ عن رجل عن عبد اللہ ‘‘ میں رجل کا اضافہ ہے۔(توضیح الکلام : ص
۵۲۱) لیکن اضطراب کی وجہ سے روایت اس وقت ضعیف ہوتی ہے جب
کہ اضطراب پایا جائے اور ترجیح کی صورت نہ
پائی جائے۔ (دیکھئے مسنون رکعات تراویح
: ص ۵۷،از کفایت اللہ سنابلی)،
اور یہاں پراضطراب کو دفع کرنے کے لئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ممکن داود بن ابی ہندؒ کو یہ روایت دونوں طریق سے ملی ہو،کیونکہ نہ داود بن ابی ہند مدلس ہیں اور
نہ ہی ابو نضرۃ ،منذر بن مالک بصریؒ (م۱۰۹ھ)۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ شیخ محمد بن اشرف الفائز نے اس روایت کو
مضبوط قرار دیا ہے۔(التفسیر البیسط : ج۹
: ص ۵۶۵)،حافظ
المغرب،امام ابن عبد البر ؒ (م۴۶۳ھ)
بھی اسے ابن مسعودؓ کا قول کہتے ہے۔(الاستذکار : ج۱: ص ۴۶۵)، یعنی حافظ
المغر ب ؒ کے نزدیک بھی اس روایت میں داود
بن بی ہندؒ پر اضطراب کی جرح مردود ہے۔
لہذا اثری صاحب کا اعتراض باطل ہے۔
[8] الحافظ الکبیر
،امام عبد الرزاق الصنعانیؒ(م۲۱۱ھ) کہتے ہیں کہ
عن منصور، عن
أبي وائل قال: جاء رجل إلى عبد الله فقال: يا أبا عبد الرحمن، أقرأ خلف الإمام؟
قال: أنصت للقرآن فإن في الصلاة شغلا، وسيكفيك ذلك الإمام ۔(مصنف عبد الرزاق : رقم ۲۸۰۳)
اس روایت تمام روات ثقہ اور مشہور
ہیں۔لہذا یہ سند صحیح ہے۔ و اللہ اعلم
[9] امام ابو القاسم
الطبرانیؒ(م۳۶۰ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا علي بن عبد العزيز، ثنا حجاج بن المنهال، ثنا
حماد بن سلمة، عن حماد، عن إبراهيم، «أن ابن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام» وكان
إبراهيم يأخذ به۔(معجم الکبیر للطبرانی :ج۹: ص ۲۶۴، حدیث
نمبر ۹۳۱۳)
سند کے روات کی تحقیق
:
(۱) امام ابو القاسم طبرانی ؒ (م۳۶۰ھ)
مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم)
(۲) ابو الحسن علی بن عبد العزیزؒ(م۲۸۷ھ)
بھی ثقہ راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۷: ص ۲۲۳،تاریخ الاسلام : ج۶: ص ۷۸۲)
(۳) حجاج بن منھال ؒ (م۲۱۷ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،فاضل ہیں۔(تقریب :
رقم ۱۱۳۷)
(۴) حماد بن سلمہؒ(م۱۶۷ھ)
نوٹ :
اس روایت میں حماد بن سلمہؒ پر اختلاط کا الزام مردود ہے۔کیونکہ
آپؒ کے متابع میں ثقہ،حافظ الحدیث امام ابوحنیفہؒ ہیں۔(مسند ابی حنیفہ لابن خسرو : ج۱: ص
۳۳۰، دیکھئے ص :۲۸)
(۵) حماد بن ابی سلیمانؒ(م۱۲۰ھ) اور
نوٹ :
اگرچہ حمادؒ بھی آخری عمر میں مختلط
ہوگئے تھے۔لیکن ثقہ،حافظ الحدیث امام ابوحنیفہؒ
نے ان سے ان کے اختلاط سے پہلے علم حاصل کیا تھا۔(دیکھئے ص : ۶۴)
نیز حماد کے متابع میں منصور ؒ بھی
موجود ہے۔(دیکھئے ص : ۲۴)
لہذا اس روایت میں آپؒ پر اختلاط کی جرح مردود ہے۔
(۶) ابراھیم
نخعیؒ (م۹۶ھ) وغیرہ مشہور ائمہ
ثقات میں سے ہیں۔
وضاحت :
ابراھیم نخعی عن عبد اللہ کی روایات
ائمہ اور علماء کے نزدیک قوی اور حجت
ہیں۔دیکھئے الاجماع : ش ۳ : ص ۲۵۱،ش
۱۱: ص ۱۔
لہذا منقطع کا اعتراض بھی مردود ہے۔بلکہ ائمہ کے اقوال سے نا واقفیت کا نتیجہ
ہے۔نیز یہ روایت متصل بھی وارد ہوئی ہے۔
[10] ثقہ،حافظ الحدیث
،امام محمدؒ (م۱۸۹ھ) کہتے ہیں کہ
أخبرنا محمد بن أبان بن صالح القرشي، عن
حماد، عن إبراهيم النخعي، عن علقمة بن قيس، «أن عبد الله بن مسعود كان لا يقرأ خلف
الإمام فيما جهر فيه، وفيما يخافت فيه في الأوليين، ولا في الأخريين، وإذا صلى
وحده قرأ في الأوليين بفاتحة الكتاب وسورة، ولم يقرأ في الأخريين شيئا ۔ (موطا امام محمد :
حدیث نمبر ۱۲۰)
اس
روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔مگر راوی محمد بن ابان بن صالح
پر کلام ہے لیکن امام احمد بن
حنبلؒ کہتے ہیں کہ محمد بن ابان جھوٹ
بولنے والوں میں سے نہیں ہے۔امام ابو حاتم ؒ کہتے ہیں کہ ان کے احادیث مجازی
طور پر لکھی جائے،مگر احتجاج نہ کیا جائے،ابن عدی کہتے ہیں کہ ضعف کے
باوجود ان کی احادیث لکھی جائے۔(الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم : ج۷: ص ۱۹۹،الکامل لابن عدی :
ج۷: ص ۲۹۸) امام عبد الحق الاشبیلی ؒ(م۵۸۱ھ) کہتے ہیں کہ ’’ هذا يرويه محمد بن أبان بن صالح وكان من
رؤساء المرجئة، فتكلم فيه من أجل ذلك، ومع ذلك يكتب حديثه ‘‘ اسے محمد بن ابان بن صالح روایت کرتے ہیں ، وہ مرجئہ کے
سرغنوں میں سے تھے، تو اسی وجہ سے ان پر کلام کیا گیا ، اس کے باوجود ان کی حدیث
لکھی جائے گی۔(الاحکام الوسطی : ج۴: ص ۳۵۱)، امام عبد الحق الاشبیلی ؒ(م۵۸۱ھ) کی تائید کرتے ہوئے امام ابن قطان الفاسی ؒ (م۶۲۳ھ)
کہتے ہیں کہ ’’هَذَا مَا ذكر، وَهُوَ كَمَا قَالَ ‘‘۔(بیان وھم لابن قطان : ج۳: ص ۲۲۴)
ان اقوال سے معلوم ہوا کہ محمد بن ابان بن صالحؒ ضعیف ہے،
لیکن متابعات کی صورت میں قابل ذکر ہے۔
اعتراض نمبر ۱ :
مگر اثری صاحب کا کہنا ہے کہ ان علماء نے ان کے بارے میں ’’لیس
بثقۃ،لیس بشیی،لا یکتب حدیثہ‘‘ جیسا کہ الفاظ کہے ہیں۔جس کی روایت متابعات میں قابل استشہاد و اعتبار نہیں۔(توضیح
الکلام : ص ۹۹۸)،
الجواب :
اثری صاحب یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔کیونکہ جن ائمہ
نے محمد بن ابانؒ کے بارے میں ’’لیس بثقۃ،لیس بشیی،لا یکتب حدیثہ‘‘ جیسا کہ الفاظ کہے ہیں،وہ تمام کے
تمام ائمہ یعنی ابن معینؒ،نسائی اور ابن
حبانؒ متشدد ہیں۔ جب کہ
امام احمد بن حنبلؒ،ابن عدیؒ جیسا
ائمہ جن کو خود اثری صاحب معتدل
تسلیم کرتے ہے۔(مقالات ارشاد الحق الاثری : ج۴: ص ۱۵۹) ان کو متابعات کی
صورت میں مقبول مانا ہے۔اور جرح و تعدیل میں تعارض کے وقت،اگر جرح متشددین کی طرف
سے ہو، تو وہ رد کردی جاتی ہے،جیسا کہ غیر مقلد کفایت اللہ سنابلی صاحب کا کہنا
ہے۔(انوار البدر : ص ۱۸۷)، نیز امام ابوحاتمؒ،ابن قطان الفاسیؒ نے بھی
باوجود متشدد ہونے کے ان کو متابعات میں قابل ذکر مانا ہے۔اور متشددین
جب توثیق کرتے ہیں تو ان کی توثیق بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔(انوار البدر : ص
۱۸۷)، لہذا اثری صاحب کا اعتراض ہی فضول
ہے۔
اعتراض نمبر ۲ :
اگے
اثری صاحب کہتے ہیں کہ صفدر صاحب تنہا محمد بن ابان کو نہ دیکھیں،حماد کی بھی فکر
کریں،الغرض موطا کا یہ اثر قطعاً ضعیف ہے۔(ایضاً)
الجواب :
امام
حماد بن ابی سلیمان ؒ (م۱۲۰ھ) ثقہ،امام،مجتہد ،کریم ،سخی ہیں۔(لکاشف :
رقم ۱۲۲۱)،ان کا اخری عمر میں اختلاط ہوگیا تھا۔لیکن حماد سے روایت کرنے میں محمد بن ابان ؒ منفرد
نہیں،ثقہ ،حافظ الحدیث امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰ھ) ان کے متابع میں موجود
ہے،جنہوں نے حمادؒ کے پاس ایک عرصہ گزار دیا۔ دیکھئے (ص : ۶۴)، لہذا حماد ؒ
پر اختلاط کی جرح مردود ہے۔ نیز حماد کے متابع میں منصور ؒ بھی موجود ہے۔(دیکھئے
ص :۲۴) اور محمد بن ابانؒ کے ضعف کا قائل کو ن نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا وہ متابع کی صورت میں قابل ذکر ہے
یا نہیں ۔حالانکہ ائمہ نے صراحت کی ہے کہ
متابعات کی صورت میں ان کی روایت کو ذکر
کیا جاسکتا ہے۔اور یہاں اس روایت میں ان کے متابع میں ثقہ،حافظ الحدیث امام ابو
حنیفہؒ (م۱۵۰ھ) وغیرہ کئی روات موجود
ہیں۔لہذا اس روایت میں محمد بن ابان ؒ
مقبول ہیں۔
[11] ثقہ،حافظ الحدیث
،امام ابو عبد اللہ ابن خسروؒ(م۵۲۲ھ)
کہتے ہیں کہ
أخبرنا
الشيخ أبو الحسين المبارك بن عبد الجبار قراءة قال: أخبرنا أبو منصور محمد بن محمد
بن عثمان السواق قال: حدثنا أبو بكر أحمد بن جعفر بن حمدان قال: حدثنا بشر بن موسى
قال: حدثنا أبو عبد الرحمن عبد الله بن يزيد المقرئ قال: حدثنا أبو حنيفة، عن
حماد، عن إبراهيم أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام لا في الركعتين
الأوليين ولا في غيرهما،و قال: ما قرأ علقمة بن قيس خلف الإمام حرفاً قط فيما يجهر
فيه بالقراءة ولا فيما لا يجهر فيه ولا قرأ في الركعتين الأخريين بأم الكتاب ولا
غيرها خلف الإمام ولا أصحاب عبد الله جميعاً۔(مسند ابی حنیفہ لابن خسرو : ج۱ : ص ۳۳۰)
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام
ابو عبد اللہ ابن خسروؒ(م۵۲۲ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(الاجماع : ش ۵:
ص۱۰۵)
(۲) محدث
ابو حسین مبارک بن عبد الجبارؒ (م۵۰۰ھ) بھی ثقہ اور مضبوط راوی ہیں۔(تاریخ
الاسلام : ج۱۰ : ص ۸۳۰)
(۳) ابو
منصور محمد بن محمد بن عثمان ؒ(م۴۴۰ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۹
: ص ۵۹۵)
(۴) احمد
بن جعفر بن حمدان،ابو بکر القطیعیؒ(م۳۶۷ھ)
بھی ثقہ،امام ہیں۔(ایضاً : ج۸ : ص ۲۸۲)
(۵) امام ابو علی،بشر بن موسی بن صالحؒ(م۲۸۸ھ)
بھی مشہور ثقہ،عاقل،امام ہیں۔(ایضاً :
ج۶: ص ۷۲۴)
(۶) امام
ابو عبد الرحمٰن ،عبد اللہ بن یزید المقری ؒ (م۲۱۳ھ) صحیحین کے راوی اور
ثقہ ،فاضل مقری ہیں۔(تقریب : رقم ۳۷۱۵)
(۷) امام
ابو حنیفہ،نعمان بن ثابت ؒ(م۱۵۰ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور اپنی روایت
میں ثبت و مضبوط ہیں۔(تفصیل انشاء اللہ آنے والے شماروں میں آئےگی)
(۸) حماد بن ابی سلیمان ؒ (م۱۲۰ھ)
(۹) امام
ابراہیم نخعیؒ(م۹۶ھ) مشہور ائمہ ثقات میں سے ہیں۔
لہذا یہ سند صحیح ہے۔ اور امام ابراہیم نخعیؒ کی
مراسیل ائمہ کے نزدیک صحیح اور مضبوط ہیں،جس کے حوالے گزرچکے۔
[12] امام ابو عبد اللہ
محمد بن اسماعیل بخاریؒ(م۲۵۶ھ) کہتے ہیں کہ
وروى
أبو حباب، عن سلمة بن كهيل، عن إبراهيم، قال في نسخة عبد الله: وودت أن الذي يقرأ
خلف الإمام ملئ فوه نتنا۔(القراءۃ خلف الامام للبخاری : ص ۱۳)
سند کے روات کی تحقیق
:
(۱) امام ابو عبد اللہ
محمد بن اسماعیل بخاریؒ(م۲۵۶ھ) مشہور
ثقہ ،امام،حافظ الحدیث،محدث، اور حجت ہیں۔(تقریب ،الکاشف)
(۲) خالد
بن الحباب،ابو حبابؒ بھی صدوق ہیں۔ امام ابو حاتم ؒ(م۲۷۷ھ) کہتے ہیں کہ ان کی احادیث لکھی جائے،امام قاسم بن
قطلوبغاؒ (م۸۷۶ھ) اور حافظ ابن حبان ؒ (م۳۵۴ھ)نے ان کو ثقات میں
شمار کیا ہے۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۴: ص ۹۳)،
اعتراضات :
اثری
صاحب کہتے ہیں کہ ابو حباب ؒ متکلم فیہ راوی ہے۔اور امام بخاری ؒ نے اس کی پوری سند ذکر نہیں کی۔(توضیح
الکلام : ۹۹۸)
جوابات :
اثری
صاحب نے میزان کے حوالے سے ان پر جرح کی
ہے۔لیکن میزان الاعتدال میں لکھا ہے کہ ’’ روى عن سليمان التيمي أدركه
أبو حاتم، وسمع منه، وقال: يكتب حديثه وقال غيره: ليس بذاك ‘‘۔(میزان : ج ا:
ص۶۲۹) اب یہ غیرہ کون ہے،اثری صاحب ہی بتائے، کیا غیر مقلدین کے نزدیک مجہول کی بات مقبول ہے ؟؟؟ خاص طور سے جب کہ دوسرے ائمہ نے توثیق کی ہے۔
اور
ابو الحباب،خالد بن الحبابؒ کو حافظ ذہبیؒ
نے اس طبقے میں شمارکیا ہے،جن کی وفات
( ۲۱۱ھ تا ۲۲۰ھ) کے درمیان ہوئی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۵: ص
۳۰۴) اس لحاظ سے امام بخاری ؒ (م۲۵۶ھ) کا ان سے سماع ممکن
ہے۔لہذا اثری صاحب یہ کہنا کہ
امام بخاری ؒ نے اس کی پوری سند
ذکر نہیں کی قابل غور ہے۔
یاد
رہے کہ ابراھیم عن عبد اللہ کی روایت قوی اور مضبوط ہوتی ہے۔دیکھئے (مجلہ الاجماع : ش۱۱: ص ۱۳
)، لہذا اس روایت کو مرسل کہنا بھی مردود ہے۔بلکہ صحیح یہی ہے کہ یہ روایت
درایتاً متصل ہے۔
نیز ان کے متابع میں امام طحاوی ؒ
کی ایک روایت موجود ہے، وہ کہتے ہیں کہ
’’ حدثنا أبو بكرة، قال: ثنا أبو داود، قال:
ثنا حديج بن معاوية، عن أبي إسحاق، عن علقمة، عن ابن مسعود، قال: «ليت الذي يقرأ
خلف الإمام ملئ فوه ترابا ‘‘۔(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۱۹)
اس روایت پر اثری صاحب نے درج ذیل اعتراضات کئے ہیں۔
- حدیج
متکلم فیہ ہے۔
- ابو
اسحاق ؒ مدلس و مختلط ہے۔
- علقمہ
سے ابو اسحاق سے سماع ثابت نہیں۔(توضیح : ص ۹۹۸)
جوابات :
(۱) حدیج پر کلام ہے،لیکن برحال وہ متابع کی صورت میں
مقبول ہیں۔اور یہاں ان کے متابعات موجود ہے۔ نیز ابواسحاق السبیعیؒ(م۱۲۰ھ)
کے شاگرد محمد بن عجلانؒ(م۱۴۸ھ)
نے بھی اس روایت کو مرسلاً بیان کیا ہے۔(مصنف
عبد الرزاق : رقم ۲۸۰۶) لہذا جرح مردود ہے۔
(۲) ائمہ
کے نزدیک ابو اسحاق کبھی کبھار تدلیس کرنے والے ہیں۔لہذا ان کی تدلیس خود غیر مقلدین کے اصول سے مقبول
ہے۔دیکھئے (مجلہ الاجماع : ش ۹: ص۲۳) ،اس روایت میں ابو اسحاق پر مختلط کا
اعتراض بھی مردود ہے،کیونکہ ان کے متابع
میں ثقہ،امام ابراھیم نخعیؒ (م۹۶ھ)
موجود ہے۔
(۳) ابو
اسحاق السبیعیؒ(م۱۲۰ھ) کا سماع علقمہ سے ثابت ہے۔دیکھئے مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر ۵۹۱۸۔
لہذا یہ تمام اعتراضات مردود ہے۔ پھر ایک
تیسری سند امام ابو بکر البیہقیؒ(م۴۵۸ھ) نے ذکر کی ہے۔ (کتاب القراءۃ
للبیہقی : ص ۱۶۸) چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’’أخبرنا أبو بكر
أحمد بن الحسن القاضي ثنا أبو العباس محمد
بن يعقوب نا يحيى بن أبي طالب , نا عمرو بن عبد الغفار , عن ابن أبي ليلى ,
عن الحكم , عن إبراهيم , عن علقمة , عن عبد الله , قال: «لأن أعض على جمر الغضا
أحب إلي من أن اقرأ خلف الإمام ‘‘۔اس سند میں عمرو بن عبد الغفار ؒ متکلم
فیہ راوی ہے۔ لیکن ان کے متابع میں
ابراہیم نخعی کی مرسل روایت موجود ہے ، جیسا کہ گزرچکا،(ص:)، لہذا اس روایت میں ان پر کلام فضول اور بیکار ہے اور
ابن ابی لیلیؒ متابعات میں مقبول ہیں۔لہذا
اس روایت کی اصل معلوم ہوتی ہے۔شاید اسی وجہ
سے امام بیہقیؒ کو کہنا پڑھا کہ ’’ هذا إن سلم من عمرو بن عبد الغفار ثم من
محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى فالمراد بالقراءة الجهر‘‘۔(ایضاً)
آخر
میں شیخ الالبانی ؒ کا قول بھی ملاحظہ فرمائیے،شیخؒ نے تقریباً
یہی روایت ابن مسعود ؓ کے شاگرد
علقمہ بن قیس ؒ سے مقطوعاً صحیح
ثابت مانا اور کہا کہ ’’ قلت: وعلقمة والأسود بن يزيد من الذى
تفقهوا على ابن مسعود رضى الله عنه , فلعلهما تلقيا ذلك عنه , فإن ثبت ذلك , فهو
دليل على صحته عن ابن مسعود , وإن كان إسناده عنه ضعيفاً , كما رأيت‘‘ میں
کہتا ہوں کہ علقمہؒ اور اسود بن یزیدؒ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے ابن مسعود ؓ
سے فقہ حاصل کیا ، تو شاید یہ (مسئلہ) انہوں نے ان (ابن مسعودؓ) سے سیکھا ہو، پس
اگر یہ ثابت ہوجائے تو یہ دلیل ہوگی کہ یہ (مسئلہ عدم قراءت خلف الإمام) ابن
مسعودؓ سے صحیح طور پر منقول ہے، اگر چہ ان (ابن مسعودؓ) تک اس (اثر) کی سند ضعیف
ہے،جیسا کہ آپ نے دیکھا ۔ (ارواء الغلیل : ج۲ : ص ۲۸۱)
الغرض یہ پوری
تفصیل بتا رہی ہے کہ یہ روایت ابن مسعود ؓ
سے ثابت ہے۔واللہ اعلم
[13] امام ابن جریر
طبریؒ (م۳۱۱ھ) فرماتے ہیں کہ
حدثني المثنى
قال: حدثنا سويد قال: أخبرنا ابن المبارك، عن بقية بن الوليد قال: سمعت ثابت بن
عجلان يقول: سمعت سعيد بن جبير يقول في قوله: (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا) قال: الإنصات: يوم الأضحى، ويوم الفطر، ويوم الجمعة، وفيما يجهر به
الإمام من الصلاة۔(تفسیر ابن جریر : ج۱۳: ص ۳۵۱)
اس روایات کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔(دیکھئے ص : ۲۰)
نیز اس روایت سے معلوم
ہوا کہ سعید بن جبیرؒ(م۹۵ھ) جہری نمازوں قراءت میں قائل نہیں تھے۔البتہ سری میں تھے۔ (کتاب
الآثار لابی یوسف : ص۲۴،کتاب الآثار لابی عبد اللہ محمد بن الحسن : ج۱:ص ۱۸۶)
[14] اثری صاحب نے ائمہ احناف کے حوالے پیش کرکے یہ بتانے کی
کوشش کی کہ ائمہ احناف کےنزدیک یہ آیات
کا تعلق جہری نمازوں سے ہے،سری سے نہیں ۔(توضیح الکلام : ص ۶۲۵)
الجواب :
اثری صاحب کے بقول جب ائمہ احناف کے نزدیک یہ آیت کا تعلق جہری نماز سے ہے۔اور اس آیت
سے جہری نمازوں میں قراءت منسوخ ہے۔جیسا کہ توضیح الکلام میں موصوف نے حوالے ذکر کئے ہیں۔
تو اثری صاحب اور غیر مقلدین سے
گزارش ہے کہ کم سے کم اس آیت سے جہری
نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کو منسوخ تسلیم کرلیں،کیونکہ بقول ان کے
ائمہ احناف اور ان کے علاوہ ائمہ اسلاف مثلاً عبد اللہ بن مسعود ؓ،ابن عباسؓ،مجاہدؒ،ابو
العالیہؒ،محمد بن کعب القرظیؒ،سعید بن جبیرؒ،زہریؒ،امام احمد بن حنبلؒ،امام ابن
جریر طبریؒ،وغیرہ نے بھی اس آیت کا شان نزول قرات خلف الامام تسلیم کیا ہے۔
نیز ان ائمہ اسلاف میں سے کسی کا
مسلک بھی کم سے کم جہری نماز میں قراءت کرنے کا نہیں ہے۔ و الحمد للہ
لہذا
موجودہ غیر مقلدین اور علماء غیر مقلدین
سے گزارش ہے کہ ضد چھوڑدے، ان باتوں پر غور کریں اور کم سے کم شیخ الالبانی ؒ کی
طرح جہری نمازوں میں قراءت کو منسوخ و متروک تسلیم کرلیں۔ وما
علینا الا بلاغ المبین،
[15] شرح معانی الآثار کے مطبوعہ نسخے میں ابو جمرہ کے بجائے ابو حمزہ
لکھا ہے۔جو کہ غلط اور کاتب کی غلطی کا نتیجہ ہے۔صحیح ابو جمرہ ہے،جو کہ ابن عباس
ؓ کے شاگرد اور حماد بن سلمہ ؒ کے استاذ ہیں۔
[16] تفسیر ابن ابی حاتم کے مطبوع نسخہ میں کاتب کی غلطی کی وجہ سے ’’ إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ إِلَّا يوم جمعة ‘‘ کے بجائے ’’ إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَي يوم جمعة ‘‘ آگیا ہے۔لیکن امام سیوطیؒ نے یہی روایت کو جب ابن ابی حاتم ؒ کی تفسیر سے نقل کیا تو ’’ إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ إِلَّا يوم جمعة ‘‘ کے الفاظ نقل کیا ہے۔لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ اسے بات کو نوٹ کرلیں۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر14
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں