مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ , سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا
فتویٰ
رئیس محمد
ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت انس ( رضی اللہ عنہ) قانونِ فاروقی کے پیشِ نظر ایک
وقت کی طلاقِ ثلاثہ کوتین قرار دیتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے کہ موصوف نے اپنے
فتویٰ مذکورہ کو بیان کرکے کہا حضرت عمر کا فرمان یہی تھا ۔‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۱۷۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ کا فتویٰ
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ
حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ قَالَ حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ عَنْ
سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ جَاْءَ رَجُلٌ اِلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ اِنِّیْ
طَلَّقْتُ امْرَاَتِیْ اَلْفًا اَوْ مِائَۃً قَالَ بَانَتْ مِنْکَ بِثَلَاثٍ
وَسَائِرُھُنَّ وِزْرٌ اِتِّخَذْتَ آیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۲، ح
۱۸۰۹۲ باب فی الرجل
یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد )
شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘
( حاشیہ صفحہ مذکورہ )
ابوداؤد میں ہے :
’’ مجاہد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے
پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین
طلاقیں دے دی ہیں ۔ چنانچہ وہ خاموش رہے حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اس کو اس پر
واپس کر دیں گے ۔ (رجوع کرنے کا حکم دے دیں گے ) پھر بولے : تم میں ایک اُٹھتا ہے
اور حماقت کا ارتکاب کرتا ہے ، پھر کہتا ہے : ابن عباس! ابن عباس! تحقیق اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ہے : ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجا جو اللہ کا تقوی
اختیار کرے ، اللہ اس کے لیے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے ۔ ‘‘ تو نے اللہ کا
تقویٰ اختیار نہیں کیا ،لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی
نافرمانی کی اور بیوی تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ‘‘
( ابوداؤد مترجم
:۲؍۶۷۸ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی )
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اس
حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ [ اسنادہ صحیح ] اخرجہ النسائی فی الکبری ، ح : ۱۱۶۰۲ والطبری فی
تفسیرہ : ۲۸؍۸۴، والطبرانی فی الکبیر : ۱۱؍۸۸،۸۹ ، ح: ۱۱۳۹ من حدیث اسماعیل بہ وصححہ ابن حجر فی الفتح : ۹؍۳۶۲ ‘‘
( تخریج ابوداؤد باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث حدیث : ۲۱۹۷)
علی زئی صاحب مذکورہ عبارت کے
بعد لکھتے ہیں:
’’ وَتَوَاتَرَ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہٗ اَفْتٰی بِوُقُوْعِ الثَّلَاثِ فِی الْمَدْخُوْلَۃِ
وَاَمَّا غَیْر الْمَدْخُوْلَۃِ فَکَانَ یَرَاھَا وَاحِدَۃً ۔‘‘
(تخریج ابوداؤد باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث حدیث : ۲۱۹۷)
ترجمہ: ابن عباس سے متواتراً ثابت ہے کہ بلاشبہ انہوں نے
مدخولہ عورت کے بارے میں تین طلاقوں کے وقوع کافتویٰ دیا اور غیر مدخولہ کی طلاقوں
کو ایک سمجھتے تھے ۔
غیرمقلدین یہ بھی لکھ چکے کہ متواتر
حدیثوں کی کسی سند میں اگر کوئی کمزوری بھی ہوتو وہ مضر نہیں ۔
چنانچہ شیخ
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:
’’ مشہور و متواتر نسخہ سند کا
محتاج نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( علمی مقالات : ۲؍۳۱۹)
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ متواتر حدیث کے ہر راوی کی صحتِ اسناد کا تقاضا نہایت
درجہ یتیمی علم کا ثبوت ہے ۔ ‘‘
( مقالاتِ اثری
:۲؍۴۷)
اعتراض: سیدنا ابن عباس کے اَثر
میں اضطراب ہے ۔
حکیم محمد
صفدر عثمانی غیرمقلد نے لکھا:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بوجہ اضطراب اور موقوف
ہونے کے قابلِ حجت نہ تھا ۔ کیوں کہ ان سے کئی قسم کی روایتیں مشہور ہو چکی ہیں
کسی میں ایک ہزار طلاق کا ذِکر ہے ، کسی میں ستاروں کے برابر کا، کسی میں سو کا ،
کسی میں تین کا ۔پھر کسی میں غیر مدخولہ کا ذِ کر ہے ۔اس شدید اضطراب کی وجہ سے یہ
فتویٰ قابل ِقبول نہیں ۔ ‘‘
( احسن الابحاث
صفحہ ۴۶)
جواب:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا
سے مروی آثار میں’’ ایک ہزار ، ستاروں برار، سو اور تین طلاق‘‘ سب کا حاصل یہ ہے
ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اُن میں اضطراب کہاں
؟مدخولہ اور غیرمدخولہ کی بابت اضطراب کا دعوی تو کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان میں
کیسے اضطراب ہے۔ اگر اس مزعوم اضطراب کی وضاحت کی ہوتی تو غور کرنے والوں کو غور
کاموقع ملتا ۔
باقی رہا یہ فرق کہ سیدنا عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدخولہ کی تین طلاقوں کو تین اورغیرمدخولہ کی تین کو
ایک قرار دینا ۔ توعرض ہے کہ غیرمدخولہ کی تین طلاق ایک تب ہوتی ہے جب اسے الگ الگ
لفظ سے طلاق ، طلاق ،طلاق کہا گیا ہو۔اس لئے کہ غیرمدخولہ پہلی بار بولے جانے والے
لفظ طلاق سے نکاح سے نکل جاتی ہے ،دوسرا اور تیسرا لفظ بولے جانے کے وقت وہ بیوی
نہیں رہتی ۔ احناف کی طرف سے یہی وضاحت مولانا داؤد ارشد غیرمقلد(دین الحق
:۲؍۶۶۲)اور شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد( تحفہ ٔاحناف صفحہ ۳۴۷) کی زبانی آگے سیدنا عبد
اللہ بن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ کے اَثر کے تحت آرہی ہے ،ان شاء اللہ۔
غیرمقلدین
کو دعوی ہے کہ احادیث و آثار کو فہم محدثین اور فہم سلف کے مطابق ماننا چاہیے تو
سوال ہے کیا محدثین اور اسلاف نے سیدنا عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اَثر کو مضطرب قرار دے کر رَد کیا ہے یا اسے
صحیح اور
غیرمضطرب سمجھ کر قبول فرمایا؟
مزید یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہا کا اَثر سندًا صحیح ہے اور غیرمقلدین کو بھی اس کے صحیح و ثابت ہونے
کا اعتراف ہے جیسا کہ آئندہ صفحات میں باحوالہ منقول ہوگا، ان شاء اللہ ۔ خود حکیم
صاحب بھی اس کی سند پرجرح نہ کر سکے۔ اگلی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین کے ’’محدث العصر
‘‘ شیخ زبیر علی زئی نے کہا کہ صحیح سند سے مروی مضمون میں اضطراب ہو ہی نہیں
سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ عرض ہے کہ اگر متن میں اضطراب ہے تو سند صحیح
نہیں ہے اور اگر سند صحیح ہے تو متن میں اضطراب کہاں سے آگیا؟‘‘
( علمی مقالات :۲؍۳۹۴)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد مسئلہ تین طلاق میں
مذاہب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ دوسرے یہ کہ اگر عورت
مدخولہ ہے تو تینوں طلاق پڑ جاویں گی اور جومدخولہ نہیں ہے تو ایک طلاق پڑے گی ایک
جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ
عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۹)
حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا : میرے چچا نے اپنی بیوی
کو تین طلاقیں دے دی ہیں ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ تیرے چچا
نے اللہ کی نافرمانی کی ہے ، پس اللہ نے اس کو پیشمانی میں ڈال دیا ہے او ر اس نے
شیطان کی پیروی کی ہے ، اب اس کے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع
اور حلالہ صفحہ۱۲۰ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
حاشیہ میں اس پہ حوالہ السنن الکبری
للبیہقی :۷؍۳۳۷، حدیث: ۱۵۳۷۶، مصنف عبدالرزاق ، حدیث : ۱۰۷۷۹ دیا گیا ہے ۔
مولانا عمر
فاروق سعیدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہما سے تین طلاق کے مسئلے میں دو قول وارد ہیں ...
ایک یہ کہ تین طلاق کے لفظ سے
طلاق ہو جاتی ( یعنی تین ) اور اکثر روایات اسی طرح کی ہیں اور دوسرا یہ کہ واقع
نہیں ہوتی ( بلکہ ایک ہوتی ہے ) جیسے عکرمہ نے ان سے روایت کیا ہے ۔‘‘
( ابو داو مترجم
:۲؍۶۸۱)
تنبیہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما کی طرف تین کے ایک ہونے کی روایت ابی داود کے بارے میں شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے کہا کہ یہ موصولاً مجھے نہیں ملی اور اگر یہ صحیح ثابت ہوجائے تو
یہ غیرمدخولہ عورت کے لیے ہے ۔ ( تخریج ابوداؤد ، حدیث : ۲۱۹۷)
علی زئی کے اپنے الفاظ باب نمبر:۱۳
’’چند مزید شبہات کا ازالہ ‘‘ میں درج ہوں گے ان شاء اللہ ۔
مزید یہ کہ غیرمقلدین کئی مقامات پر
اُن روایات کو ترجیح دے چکے جو اکثری ہیں ۔تو یہاں بھی اپنے اصول کے مطابق اکثری
روایات کو راجح سمجھیں۔
’’ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات
پہنچی کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : میں نے اپنی بیوی
کو سو طلاقیں دی ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے
فرمایا: اسے تیری طرف سے تین طلاقیں تو واقع ہو گئیں جب کہ ستانوے کے ذریعہ تم نے
اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کیا۔‘‘
( مشکوۃ المصابیح: ۲؍۳۴۲تحت
حدیث :۳۲۹۳ترجمہ ابو انس محمد سرور گوہر غیرمقلد ، نظر ثانی حافظ عبد الستارحماد
،طبع مکتبہ اسلامیہ )
حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد
اِس کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ تحقیق : شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس
کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ‘‘
(مترجم
مؤطا امام مالک : کتاب الطلاق ، باب ما جآ ء فی البتۃصفحہ ۵۶۹)
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اس
حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ حسن ، رواہ مالک ۲؍۵۵۰ح
۱۱۹۵‘‘ ( مشکوۃ المصابیح: ۲؍۳۴۲تحت حدیث :۳۲۹۳)
یعنی یہ حدیث حسن ہے اسے امام
مالک نے روایت کیا۔
علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے مؤطامالک وغیرہ
چند کتب کاتذکرہ کرکے کہا:
’’جن مفسدوں کا قول ان کتابوں کے خلاف ہو، ان کا قول انہی
کے منہ پر پھینک ماریں۔‘‘
( رفع العاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۳؍۳۹۱،مہتاب کمپنی لاہور )
رئیس محمدندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ موصوف ابوداود نے اس سلسلے میں اپنے اس دعویٰ پر حضرت
ابن عباس سے مروی شدہ متعدد ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا مفاد یہ ہے کہ موصوف ابن
عباس عکرمہ کی نقل کردہ روایت مذکورہ کے بعد ایک وقت کی طلاق ِ ثلاثہ کو تین قرار
دینے لگے تھے ۔ ( سنن ابی داود :۲؍۲۲۷،۲۲۸) صاحب عون المعبود نے عون المعبود و
تعلیق المغنی دونوں میں صراحت کے ساتھ مذکور ہ بالا دونوں روایات کو صحیح قرار دیا
ہے اور اصول اہلِ علم کے مطابق یہ دونوں روایات صحیح بھی ہیں ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۲۵۱)
ندوی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ہم معترف ہیں کہ ابن ِ عباس کا ایک فتویٰ اہلِ
تقلید کے مطابق ہے ۔‘‘
( تنویر الآفاق
صفحہ ۱۷۰)
مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلدنے بھی
تسلیم کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ تین طلاقوں کو
تین قرار دینے کا ہے۔ ان کی عبارت فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۵۰۴کے حوالہ سے باب
نمبر.... کے تحت مذکور ہے۔
مولانا داود
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ہمیں اس چیز کا اعتراف ہے کہ بعض روایات میں ابن عباس
رضی اللہ عنہ کا فتویٰ تینوں طلاقیں واقع ہوجانے کا بھی ہے ۔‘‘
(دین الحق :۲؍۶۶۹)
حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
اکٹھی دی گئی تین
طلاقوں کو
تین ہی کہتے تھے ۔ (اِغَاثَۃُ
اللَّہْفَان :۱؍۳۲۹)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا
تین کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ و تابعین نے یہی
فتویٰ دینا شروع کر دیا حتی کہ اس حدیث کے راوی صحابی حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ
عنہ بھی یہی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا ۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی فیصلہ ایسا رائج ہوا کہ بعد کے فقہاء نے بھی
اس کی پابندی کی حتی کہ یہ شرعی مسئلہ بن گیا جب کہ حقیقتا ً یہ انتظامی اور
تعزیری فیصلہ تھا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی ۵؍۲۹۴)
ہماری اسی کتاب میں حافظ ابن قیم رحمہ
اللہ اور مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی کی عبارات منقول ہیں کہ سیدنا عمر رضی
اللہ عنہ کا یہ فیصلہ شرعی تھا ۔
مولانا
عبد الرحمن کیلانی غیر مقلد نے عبد الرحمن الجزیری کی کتاب ’’ کتاب الفقہ المذاھب الاربعۃ صفحہ ۲۴۳ ‘‘ کے حوالہ سے لکھا:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بلاشبہ مجتہدین میں سے تھے جن
پر دین کے معاملہ میں اعتماد کیا جاتا ہے، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنا
جائز ہے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ :۳۰ )
کیلانی صاحب ہی لکھتے ہیں:
’’اب حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ کا وہ تعزیری فتویٰ بھی
ملاحظہ فرمائیے جو قاری صاحب نے درج فرمایا ہے۔ہم صرف ترجمہ پر اکتفا کریں گے ۔ :
’’حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آکرکہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں
دے دی ہیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہو
گئے۔ میں نے گمان کیا ، شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو واپس لوٹا دیں
گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ تم میں ایک شخص حماقت کر بیٹھتا ہے ، پھر کہتا
ہے اے ابن عباس رضی اللہ عنہ ! اے ابن عباس رضی اللہ عنہ !اور اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لیے آسانی کی راہ
نکالتا ہے اور بلاشبہ تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرا، میں تیرے لیے اس سے نکلنے کی
کوئی راہ نہیں پاتا ہوں ۔ تو نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تیری بیوی تجھ سے جدا ہو
گئی۔ (ابو داود ص ۲۹۹، بحوالہ منہاج ص۳۱۰) ...یہ فتویٰ سائل کو اس کی حماقت کی سزا
کے طور پر دیا جا رہا ہے ۔ ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ۷۰ ، ۷۱ )
کیلانی صاحب اس پر جرح نہیں کر
سکے تو اسے ’’سزا‘‘ قرار دے کر آگے چلتا بنے ہیں ۔
شیخ یحی عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ مفسر قرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں
غیر مدخولہ عورت کو[ ایک کلمہ سے (ناقل)] دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی شمار ہوتی
ہیں اور وہ اس خاوند کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔
دیکھئے :( عمدۃ الاثات، ص: ۷۲، ابوداودمع العون ، ص: ۲۲۷، بیہقی : ۷؍ ۳۳۵‘‘دیگر
فتاویٰ مثلاً ابوداؤد رقم : ۲۱۹۸ ، وغیرہ ملحوظ رکھیں۔ ‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ ۳۳۴)
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد نے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابوداودتین کے ایک ہونے کا فتوی نقل کیا
جو کہ ضعیف اور موؤل ہے، پھر لکھا:
’’بے شک حضرت ابن عباس سے اس کے
خلاف بھی مروی ہے۔ ‘‘
( نکاح محمدی
صفحہ ۳۵،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
ابو الاقبال سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام ؓ میں حبر الامۃ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ
بن عباس ؓ ... نے دَور فاروقی میں سیاست عمرؓ کی مناسبت سے تین کا فتویٰ بھی دیاہے
۔ ‘‘
(مذہب حنفی
کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۹)
غیرمقلدین
کی عورت حافظہ مریم مدنی نے ایک مضمون ’’ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم ‘‘
لکھا۔ اس میں حالتِ غصہ میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے پر دلائل دیتے ہوئے دارقطنی
۴؍۱۳ سے درج ذیل دلیل نقل کی:
’’ مجاہدبیان کرتے
ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین
طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: ’’ مجھ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ تیرے
لئے وہ حلال کردوں جو اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے
اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لیاہے۔ ‘‘
(ماہ نامہ محدث لاہور ،مدیر
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ،شعبان ؍۱۴۳۲ھ... مطابق جولائی ؍۲۰۱۱ء صفحہ ۳۵)
عجیب طرز عمل ہے کہ جس اثر سے حالتِ
غصہ میں طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی،اسی میں تین طلاقوں کے وقوع کی بات بھی ہے
جسے غیرمقلدین نظر انداز کر دیا کرتے ہیں۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی
تسلیم کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے نزدیک اکٹھی دی گئی تین
طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ان کی عبارت آگے ’’صحابہ کرام کا اجماع ‘‘ عنوان کے تحت
مذکور ہوگی ان شاء اللہ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں