نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مرسل معتضد پراہل حدیث علماء کے اعتراضات کے جوابات ۔

 

 

مرسل معتضد پراہل حدیث علماء کے اعتراضات کے جوابات ۔

            اہل حدیث حضرات کے نزدیک  مرسل معتضد حجت ہے۔(الاجماع : ش۱: ص ۶۵)، مگر ارشاد الحق اثری صاحب اور دیگر علماء  اس پر چند اعتراضات کئی ہیں، جو مع جواب ملاحظہ فرمائیے۔

اعتراض نمبر ۱ :

            یحیی گوندلوی صاحب کہتے ہیں کہ  مرسل معتضد اس وقت حجت ہوتی ہے،جب تابعی کی عادت  ہو کہ جب چھوڑے تو ثقہ چھوڑے،مگر ابو العالیہ الریاحیؒ کے متعلق ثابت نہیں ، اس کے بعد موصوف نے حافظ ذہبیؒ کی  عبارت نقل کی۔(خیر الکلام : ص ۲۵۹)

الجواب نمبر۱ :

ابو العالیہؒ (م۹۳؁ھ)کے  متعلق  یہ ثابت نہیں کہ  وہ غیر ثقہ سے ارسال کرتے تھے، لہذا راجح یہی ہے کہ وہ روایت لینے میں  چھا ن بین کرتے اورعام طور سے ثقہ یا صدوق سے روایت لیتے  تھے۔  (اس کی تفصیل اگلے شمارے میں آئےگی)

الجواب نمبر۲ :

            اگر بالفرض ابو العالیہؒ غیر ثقہ سے ارسال کرتے تھے، تب بھی ابن عباس ؓ کی متصل روایت (القراءۃ خلف الامام للبیہقی : ص ۱۰۹،تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰،الاعتبار للحازمی : ص ۹۸)  کی وجہ سے ابو العالیہؒ کی  مرسل روایت امام شافعیؒ اور  ائمہ عظام ؒ   کے  منہج کے مطابق مقبول اور حجت  ہے، دیکھئے ص :۸ ۔

            لہذا اہلحدیث حضرات یا تو یہ روایت  مرسل معتضد ہونے کی وجہ قبول کرلیں،ورنہ  سلف و ائمہ محدثین کے منہج   کے مقابلے میں آکر،مرسل معتضد کی حجیت کا انکار کردیں،جیساکہ زبیر علی زئی صاحب نے کیا ہے۔(اختصار علوم الحدیث مترجم : ص ۳۷)

            لیکن گزارش ہے کہ امام شافعی ؒ ،ائمہ محدثین کانام  اور مرسل معتضد کی حجیت،اور اس کے اصول و ضوابط کا اقرار کرکے،اس روایت کا انکار نہ کریں۔

اعتراض نمبر ۲ :

            ارشاد الحق  اثری صاحب کہتے ہیں کہ  بلاشبہ مرسل معتضد حجت ہے، مگر اسی وقت جب کہ وہ صحیح روایات کے خلاف نہ ہو۔

الجواب :

اولاً:      ہمارے علم کے مطابق اثری صاحب نے یہ شرط امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) سے لی ہے کیونکہ انہوں نے یہ شرط اپنی کتاب میں ذکر کی ہے۔(کتاب القراءت للبیہقی : ص ۲۰۱)،   اور یہاں مرسل صحیح حدیث کے خلاف  نہ ہو، سے امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) کی مراد  یہ ہے کہ  ثقہ  مرسِل اپنی روایت   میں اوثق راوی کی روایت کے الفاظ  کی  مخالفت   نہ کرتا ہو،کیونکہ  امام بیہقیؒ  جگہ  جگہ امام  شافعی ؒ  کے آثار سے استدلال کیا ہے اور  امام  شافعی ؒ  کے آثار میں اس کی صراحت موجود ہے کہ ’’ يكون إذا شرك أحدا من الحفاظ في حديث لم يخالفه , فإن خالفه وجد حديثه أنقص كانت في هذه دلائل على صحة مخرج حديثه ومتى خالف ما وصفت أضر بحديثه حتى لا يسع أحدا منهم قبول مرسله ‘‘۔(معرفہ السنن و الآثار : ج۱: ص ۱۶۲)نیز  امام بیہقیؒ نے کتاب القراءۃ  میں شرائط کتاب المدخل کے حوالہ سے نقل  کیا ہے۔(کتاب القراءت للبیہقی : ص ۲۰۱)،   اور کتاب المدخل میں بھی  وہی بات ہے جو ہم نے  کتاب المعرفۃ کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ (کتاب المدخل للبیہقی : ج۱:  ص ۳۷۴،ت محمد عوامہ)،لہذا یہاں پر  شرط صحیح حدیث سے مراد شاذ والی بات ہے،جس کا  ابو العالیہ ؒ والی  روایت   سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے،کیونکہ ابو العالیہؒ  نے اپنی روایت کے الفاظ  کو بیان کرنے میں کسی بھی اوثق راوی کی مخالفت نہیں کی۔

دوم :      اگر ارشاد الحق اثری صاحب کو اصرار ہے کہ یہاں پر صحیح حدیث سے مراد  اس مسئلے میں موجود دوسری  صحیح متصل روایات  ہے تو عرض ہے کہ  امام نووی ؒ (م۶۷۶؁ھ) نے اس اصول  کا رد کیا ہے،چنانچہ وہ  فرماتے ہیں کہ ’’ فإن صح مخرج المرسل بمجيئه من وجه آخر مسنداً أو مرسلاً أرسله من أخذ عن غير رجال الأول كان صحيحاً، ويتبين بذلك صحة المرسل وأنهما صحيحان لو عارضهما صحيح من طريق رجحناهما عليه إذا تعذر الجمع ‘‘ لہذا اگر حدیث مرسل کا مخرج صحیح ثابت ہوجائے،دوسری طریق سے وہ  حدیث اس طور پر مسند یا مرسل آجائے کہ اسے ایسے شخص نے ارسال کیا ہو جس نے پہلی مرسل حدیث کے رجال سے حدیث نہ لی ہو،تو یہ صحیح ہوجائےگی اور اسی کے ساتھ مرسل کی صحت واضح ہوجائےگی اور یہ دونوں مرسل صحیح ہوں گی اور  ان دونوں کے مقابلے میں کوئی  حدیث صحیح  ایک سند سے آجائے اور ان میں جمع و تطبیق متعذر ہو،تو ہم ان دونوں مرسل حدیثوں کو اس صحیح حدیث پر ترجیح دیں گے۔ (التقریب للنووی : ص ۳۵)

            لہذا راجح بات وہی ہے  جو  ہم نے(اولاً کے تحت)  ذکر کی ہے۔

            خلاصہ یہ کہ مرسل معتضد  یعنی وہ مرسل جس کی تائید دوسری ضعیف مرسل یا مسند ہوجائے،تو وہ امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ) کے ساتھ ساتھ محدثین اورائمہ کے نزدیک  صحیح اور حجت ہے۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر12

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر معتزلی ہونے کا الزام۔

  کیا امام ابو حسن کرخی رحمہ اللہ فروعا حنفی اور اصولا معتزلی تھے ؟ اعتراض : سلف صالحین سے بغض رکھنے والے بعض نام نہاد سلفی یعنی غیر مقلد اہل حدیث   ، امام ابو الحسن کرخی رحمہ اللہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ فروع میں تو وہ حنفی تھے لیکن عقائد میں وہ معتزلی تھے ۔ جواب:  امام کرخی رحمہ اللہ علیہ کا تعارف کرنے والوں میں سے کچھ لکھتے ہیں کہ وہ معتزلہ کے سردار تھے جیسا کہ امام ذہبی شافعی رحمہ اللہ  سير أعلام النبلاء  جلد 15  صفحہ 472 پر لکھتے ہیں  《 وكان رأسا في الاعتزال 》۔ مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہےکہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی دلیل نہیں تھی، بس خطیب بغدادی شافعی رحمہ اللہ کی تاریخ بغداد سے بات لی اور چل پڑے۔ خطیب بغدادی نے اپنی سند کے ساتھ ابو الحسن بن فرات کا امام کرخی رحمہ اللہ کے متعلق یہ قول نقل کیا ہے۔ حَدَّثَنِي الأَزْهَرِيّ، عَنْ أَبِي الْحَسَن مُحَمَّد بْن الْعَبَّاس بن الفرات. ....   قال: وكان مبتدعا رأسا في الاعتزال، مهجورا على قديم الزمان ( تاريخ بغداد ت بشار عواد: جلد 12،  صفحہ 74)  کہ وہ (معاذ اللہ) بدعتی تھے...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...