مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل
بحث
باب نمبر:۲
تین طلاقوں کے تین ہونے پہ صحابہ کرام کے آثار
مسئلہ تین طلاق کے حوالہ سے صحابہ
کرام کے اقوال پڑھنے سے پہلے یہ جان لیں کہ ان کے اقوال کی حیثیت کیا ہے ؟
کسی نے سوال کیا کہ کیا صحابہ کا قول و فعل
ہمارے لئے دلیل بن سکتا ہے یا نہیں ؟
ابو البرکات
احمد غیرمقلد نے اس کا یوں جواب دیا :
’’ اللہ تعالیٰ نے سبیل المومنین کی اتباع کو اہمیت دی ہے ،
اس کی مخالفت کو جہنم رسید ہونے کا سبب قرار دیا۔لہٰذا جمہور صحابہ کا عمل و طریقہ
ہمارے لئے سنت ہے۔اس کی مخالفت جائز نہیں ہے۔ نیز نبی ؐ نے خلفائے راشدین کی سنت
کی اتباع کا حکم دیا ہے ۔ اور اللہ تعالیٰ نے اولی الامر کی اطاعت کا بھی حکم
فرمایا ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ
برکاتیہ صفحہ ۱۰۷، ۱۰۸)
ابو البرکات
احمد صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ اگر قرآن و حدیث
میں مسئلہ نہیں اور صحابہ کے اقوال موجود ہیں تو ایسی صورت میں اقوال صحابہ قیاس
پر مقدم ہوں گے کیوں کہ صحابہ بلاواسطہ نبیؐ کے شاگرد ہیں، دین کے متعلق ان کا علم
مضبوط تھا اور سمجھ گہری تھی،انہوں نے بغیر ملاوٹ کے سید الانبیاء سے علم حاصل کیا
ہے لہذا ان کی رائے ہماری رائے سے مقدم ہے ۔ ‘‘
( حوالہ مذکورہ
)
مولانا ابو بکر قدوسی غیرمقلدلکھتے ہیں :
’’ ایام خلافت راشدہ تاریخ اسلام کے اس سنہری دَور کی عکاسی
کرتی ہے کہ آج صدیاں
گزر جانے کے باوجود انسانی
تاریخ اس دَور کی کوئی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔‘‘
( عرضِ
ناشر:ایام خلافت ِ راشدہ صفحہ ۵۸،تالیف مولانا عبد الروف جھنڈا نگری، مکتبہ قدوسیہ
اردو بازار
لاہور، سن اشاعت: اکتوبر؍ ۲۰۰۱ء)
شاہد نذیر
غیرمقلد ( کراچی ) لکھتے ہیں:
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے دین براہ راست رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا اس لیے قرآن و سنت کے مفاہیم کو ان مبارک ہستیوں
سے زیادہ کوئی جاننے اور سمجھنے والا نہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم کسی صحابی کے
ایسے فعل کو بھی جس پر دیگر صحابہ نے کوئی نقد یا اعتراض نہ کیا ہو صرف احادیث کے
(بظاہر) مخالف ہونے کی بنیاد پر رد کردیں اور فہم صحابی کو یہ کہہ کر کوئی اہمیت
نہ دیں کہ موقوفات ِ صحابہ حجت نہیں ؟!!... کم از کم آثار اور موقوف روایات کو
اتنی اہمیت تو دی جانی چاہیے کہ اگر صحابہ میں اس بات کا کوئی مخالف موجود نہ ہو
تو اسے تسلیم کرتے ہوئے مسائل میں کچھ گنجائش ہی دے دی جائے اور کم از کم اس عمل
کا جواز ہی تسلیم کر لیا جائے ۔‘‘
(اشاعۃ الحدیث ،
اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)
شاہد نذیر آگے لکھتے ہیں:
’’ دلائل کی معرفت اور مکمل علم ہونے کے باوجود کسی صحابی
کا کوئی عمل بظاہر حدیث کے خلاف نظر آتاہو تو اس فعل صحابی اور حدیث رسول صلی اللہ
علیہ وسلم میں تطبیق و توفیق دینا ہی حق و صواب ہے وگرنہ دوسری صورت میں ہمیں یہ
تسلیم کرنا پڑے گا کہ صحابی نے جان بوجھ کر احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی
مخالفت کی ہے ، جب کہ ہمارا ایمان اور عقیدہ ان نفوس قدسیہ کے بارے میں یہ ہے کہ کوئی صحابی بھی جان بوجھ کرحدیث کے خلاف عمل نہیں
کر سکتا۔‘‘
( اشاعۃ الحدیث
، اشاعت ِ خاص حافظ زبیر علی زئی صفحہ۳۷۲)
شیخ غلام مصطفی ظہیرامن پوری
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ضروری ہے کہ راز دانِ
شریعت اور عارفان ِعلوم ِنبوت ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی
آرا اور ان کا عقیدہ بیان کر
دیا جائے، وہ لوگ جنہوں نے شریعت کا جام جہاں نما صاحب شریعت کے ہاتھوں سے لے کر
غٹک لیا تھا، شریعت کی چاندی جن کے سراپوں میں اُتر کر انہیں کافوری کر گئی تھی ۔
وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے براہ راست شاگرد رہے، انہیں تبلیغ
شریعت کا چارج دیا گیا۔ یہ چارج اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ اسلام کا ہر عقیدہ
و عمل انہیں ذی حشم ہستیوں سے لیا جائے گا، کسی دوسرے سے نہیں، اُن سے پوچھا جائے
گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس بات کا کیا معنی اور کیا مفہوم ہے ۔ ان
کی آراء ملاحظہ ہوں ۔ ‘‘
( ختم نبوت صفحہ
۱۵۸،۱۵۹ ،سن اشاعت: جنوری ؍۲۰۱۸ء)
مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی
عبارت پیچھے ہم نقل کر آئے ہیں کہ تین طلاق کو ایک قرار دینا کتاب و سنت اور
اجماعِ صحابہ کے خلاف ہے۔ کتاب و سنت سے طلاقِ ثلاثہ کے وقوع پر دلائل کے بعد اب
کچھ آثارِ صحابہ یہاں ذکر کرتے ہیں ۔
خلفائے راشدین کا مسلک
ویسے تو سارے صحابہ کرام امت کے لئے
رہبر و رہنما ہیں مگر ان میں سے خلفائے راشدین : سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا
عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی اتباع کرنے کی خاص کر تاکید آئی ہے۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ
الرَّاشِدِیْنَ ،میری سنت
اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا تم پر لازم ہے ۔
(ابو داود
۲؍۲۷۹، ترمذی۲؍۹۲، ابن ماجہ ۱؍۵بحوالہ مقدمہ رسالہ تراویح ۱۳)
مولانا محمد
حسین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ
الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَ عَضُّوْا عَلَیْھَا
بِالنَّوَاجِذِ،تم پر میری
سنت کو اختیار کرنا اور خلفاء راشدین جو ہدایت پر ہیں کی سنت کو اختیار کرنا لازم
ہے۔ اس سنت کو مضبوطی سے پکڑنا اور داڑھوں کے ساتھ تھامے رکھنا ...معلوم ہوا کہ
خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع بھی لازم اور ضروری ہے اور ان کی اتباع در اصل رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے کیوں کہ خلفاء راشدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنت ہی کی اتباع کرتے ہیں۔ ‘‘
( احادیث ِ
متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۱۱، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)
ابو حمزہ عبد
الخالق صدیقی غیرمقلد نے عَلَیْکُمْ
بِسُنَّتِی الخ حدیث درج
کرنے کے بعد لکھا:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی
روشنی میں خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ ، سیدنا ابو صدیق ، عمر ، عثمان اور عمر[
سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا نام پہلے درج ہو چکا۔یہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام
آناچاہیے تھا( ناقل )]رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرنا فرض ہے ۔ ‘ ‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۲۰،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
چوں
کہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے کی خاص کر تاکید ہے اس لیے صحابہ کرام میں سے
سب سے پہلے حضرات خلفائے راشدین کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا
فیصلہ
حَدَّثَنَااَبُوْبَکْرٍقَالَ
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍعَنْ شَقِیْقِ ابْنِ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ
اَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ اِذَا اُتِیَ بَرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ
ثَلَاثًا فِیْ مَجْلِسٍ اَوْجَعَہٗ ضَرْبًا وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۰،
ح۱۸۰۷۸باب مَنْ کَرِہَ اَنْ یُّطَلِّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہٗ
ثَلَاثًا فِیْ مَقْعَدٍ وَّاحِدً وَّاَجَازَ ذٰلَکَ عَلَیْہِ ،تخریج:شیخ
ابو محمد اسامہ بن ابراہیم )
ترجمہ
:انس سے روایت ہے کہ جب عمر کے پاس ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی عورت کوایک ہی
مجلس میں تین طلاقیں دے رکھی ہوتیں تو وہ اسے مارتے اور خاوند و بیوی دونوں میں
جدائی کرا دیتے ۔
صاحب ِ تخریج
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’ اِسْنَادُہٗ
لَابَاسَ بِہٖٖ، اس کی سند
میں کوئی حرج نہیں ۔
(حوالہ مذکورہ )
مولانا عبد
المتین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ
انہوں نے تین طلاق کو تین ہی جاری کر دیا ۔‘‘ ( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۵، مکتبہ
الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہ مولانا عبد اللطیف اثری،سن اشاعت: جون
؍۲۰۱۳ء )
حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ
تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا نفاذ کر دیاجائے تاکہ اس سخت اقدام سے لوگوں کو
کچھ تنبیہ ہو اور کثرت سے بیک وقت تین طلاقیں دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔‘‘
(ایک مجلس میں
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ ۴۵)
صلاح الدین صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے تیسرے سال میں،
جب دیکھا کہ لوگ کثرت سے طلاقیں دینے لگے ہیں ، تو لوگوں کو اس سے باز رکھنے کے
لیے تعزیزی اقدام کے طور پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی شمار کرنے
کاحکم دیا ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع
اور حلالہ صفحہ۶۸ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
مولانا عبدا لرحمن کیلانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک
مجلس کی تین طلاق کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ‘‘
( ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۷۴)
کیلانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو آپ
رضی اللہ عنہ نے تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ کر دیا ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۱)
کیلانی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ جرم بکثرت وقوع
پذیر ہونے لگا تو آپ رضی اللہ عنہ ایسے شخص کی تین طلاق شمار کرنے کے علاوہ اسے
بدنی سزا بھی دیتے۔‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۴)
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر بن خطاب فاروقِ اعظم نے اس معاملہ میں بعض لوگوں
کی بے راہ روی دیکھ کر ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین قرار دئیے جانے کے قانون کو
نافذ کر دیا۔ ‘‘
( تنویر الآفاق
صفحہ ۱۰۶)
مولاناثناء اللہ امرتسری
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت
عمر ؓ نے لوگوں کو روکنے کے لیے یہ حکم جاری کر دیا کہ جو کوئی تین طلاقیں دے گا
تین ہی شمار ہوں گی ۔‘‘
( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۱۰۰)
مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’
حضرت عمر رضی الہ عنہ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں
کو قائم رکھا ۔‘‘
( شرح بخاری داود راز :۷؍۳۳)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ
تینوں طلاق پڑ جاویں گی ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ
عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۹)
حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا
حکم ایک خلیفہ راشد نے جاری کیا ‘‘
( اہلِ حدیث اور
علمائے حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۶۷)
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد
(ناظم جمعیت اہلِ حدیث بمبئی)نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا:
’’ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دے کر عورت کو بائنہ
قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سرکاری حکم نامے کے ذریعہ یہ بات
مشتہر کرا دی کہ جو شخص بھی بیک زبان تین طلاقیں دے گا وہ تین شمار ہوں گی اور
ایسا کرنے والے پر وہ بُری سختی کرتے تھے ۔‘‘
( مجموعہ مقالات
دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۸۹ ، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
مختار صاحب نے آگے لکھا:
’’ آپ نے ایسی[ ایک مجلس کی ( ناقل ) تین طلاقوں کو تین
قرار دینے کا حکم نافذ فرمایا۔‘‘
( مجموعہ مقالات
ِ علمیہ در بارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ ۹۰)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا تین کو تین ہی نافذ کر دیا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی
۵؍۲۹۴)
مولانا محب اللہ شاہ راشدی
غیرمقلد نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا:
’’انہوں نے ایک
مجلس کی طلاقِ ثلاثہ کو تین قرار دیا ... ‘‘
( مقالات ِ
راشدیہ :۱؍۲۵۲)
راشدی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ جب لوگوں نے اس سنت کے خلاف دھڑا دھڑ ایک ہی مجلس میں
تین طلاقیں دینی شروع کر دیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سنت کی خلاف
ورزی کرنے والے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے یہ حکم نافذ کر دیا کہ چلو جب تم سنت کے
خلاف کرنے سے باز نہیں تو ہم بھی ان ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے
ہیں۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۱؍۲۵۲)
مولانا داود ارشد غیرمقلدلکھتے
ہیں:
’’حدیث میں یہ الفاظ صاف موجود ہیں :مَنْ تَعَجَّلَ اِنَاۃَ اللّٰہِ فِی الطَّلَاقِ اَلْزَمْنَاہُ اِیَّاہُ (شرح معانی
الاثار ص ۳۶ ج ۲)یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے
فرمایا کہ جو کوئی معاملہ طلاق کے اندر اللہ تعالیٰ کی عنایت فرمودہ مہلت سے رو
گردانی کرتے ہوئے عجلت سے ساری طلاقیں بیک وقت دے گا تو ہم اس کی ان طلاقوں کو اس
پر لازم کر دیں گے ۔‘‘
(دین الحق
:۲؍۶۶۵)
کچھ غیرمقلدین نے سیدنا عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی بنیاد پہ فتویٰ دیا کہ داڑھی کا مٹھی سے زائد بڑھا ہوا
حصہ کاٹا جا سکتا ہے۔ حافظ عبد المنان نور پوری غیرمقلد نے اس کی تردید کرتے ہوئے
کہاقابلِ اتباع صحابی کی بیان کردہ حدیث ہے ، نہ کہ صحابی کا اپنا عمل۔ اسی بات کو
آگے بڑھاتے ہوئے نور پوری صاحب نے طلاق ِ ثلاثہ کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
کا فرمان نقل کیا :
’’یہ جلد بازی سے کام لیتے ہیں
۔لہٰذا ہم تینوں ہی ان پر نافذ کر دیتے ہیں ۔‘ ‘
( داڑھی کی شرعی
حیثیت صفحہ۲۸)
نور پوری صاحب آگے کہتے ہیں:
’’اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نافذ کر دیں کیا یہ
بات ان کی دلیل ہے ؟جب کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صحابی بھی ہیں ۔ خلفائے راشدین
میں سے بھی ہیں ۔ اور پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے والد محترم بھی ہیں ۔
کیا دلیل بنتے ہیں؟ جس مرضی اہلِ حدیث سے جا کر مسئلہ پوچھوکہ تین طلاقیں ایک ہی
مجلس میں یک مشت دی ہوئی ہوں، تینوں ہو جاتی ہیں؟ تو تمام علماء یہی کہتے ہیں کہ
نہیں۔ ایک ہوگی۔ جب کہ ہمارے دوسرے بھائی ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس قول سے
فائدہ اُٹھاتے ہوئے تینوں کے نافذ ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ پھر کیوں نہیں تسلیم
کرتے؟ جب کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس روایت کے راوی بھی ہیں سوچو اور غور کرو
۔آخر انصاف بھی کچھ چیز ہے۔ ‘‘
(داڑھی کی شرعی
حیثیت صفحہ ۲۸)
شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ سیدنا انس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں کہ غیر
مدخول بہا کی تین طلاق تین ہیں۔ (دیکھئے سنن الکبری البیہقی :۷؍۳۳۴)‘‘
( تحفۂ احناف
صفحہ:۳۳۶)
غیرمدخولہ کو ایک ہی کلمہ سے تین طلاقیں دی گئی
ہوں توتین واقع ہوتی ہیں جیسا کہ آگے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
کے اثر کے تحت یہ بات آرہی ہے ان شاء اللہ۔
غیرمقلدین کے ’’مناظر اسلام ، محترم ،
مولانا،مفتی ‘‘ اللہ بخش ملتانی لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تین اکٹھی طلاقوں سے
روکنے کے لیے فرمایا: اِنَّ النَّاسَ قَدِ
اسْتَعْجَلُوْا فِیْ اَمْرٍ کَانَتْ لَھُمْ فِیْہِ اِنَاۃٌ‘‘یعنی لوگوں نے اس کام میں جس
میں مہلت تھی جلدی کی ۔ یعنی تین متفرقہ کی بجائے تین اکٹھی دینے لگ گئے۔ ’’ فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ ‘‘ کاش ہم تین کو تین
ہی نافذ کریں تو لوگ اکٹھی دینے سے باز آ جائیں ۔ ’’ فَاَمْضَاہُ ‘‘ تو پھر تین کو نافذ کر دیا ۔
‘‘
(نظر ثانی احسن
الابحاث صفحہ ۱۱)
حکیم محمد صفدر عثمانی
غیرمقلدنے مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی غیرمقلد کے متعلق لکھا:
’’ میر صاحب خود اسی پرچہ کے صفحہ نمبر ۶کالم نمبر۱ میں
فرماتے ہیں عمرؓ نے صرف یہ کیا ہے کہ اس کے ایک ہی دفعہ تین طلاق دینے پر تین طلاق
ہی کا حکم جاری کردیا ۔ ‘‘
( احسن الابحاث
صفحہ۲۶)
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں
دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص
کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جب کہ شریعت نے
سختی سے اس سے منع فرمایا ہے ۔ صحابہ کرام کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ کہ
ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں ۔‘‘
(مکالمہ صفحہ
۱۶۷ ، ناشر: دار الفکر الاسلامی ، طبع اول : جنوری ؍۲۰۱۸ء )
ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت میں یہ بھی
اعتراف ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی مشاورت سے تین طلاقوں کا
نفاذ کیا ۔
پروفیسر مسعود عالم فلاحی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فقہ
الواقع یا ضرورت کے تحت تین طلاق کو تین نافذ کیا تھا۔‘‘
(حلالہ سنٹر ز
اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۱۱۷)
ابو الاقبال سلفی صاحب غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمرؓ نے فرمایا : لوگوں نے اس کام میں جس میں ان کے
لیے آسانی تھی عجلت شروع کردی ہے ۔ اس لیے اچھا ہے کہ انہیں سب کو ان پر جاری کر
دیا جائے چنانچہ جاری کر دیں۔ ‘‘
(مذہب حنفی
کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۶)
غیرمقلدین کے فتاویٰ میں لکھا ہے :
’’حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اللہ کی کتاب سے مذاق کیا جانے
لگا، اکٹھی تین طلاقیں ہونے لگیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت عمرؓ سے سزا دلوائی
کہ انہوں نے تین اکٹھی طلاقوں کو تین ہی شمار کرکے اس کی بیوی کو اس سے علیحدہ کر
دیا ۔ ‘‘
( فتاویٰ نذیریہ : ۳؍۴۶)
مولانا محمد حنیف ندوی غیرمقلد
نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا:
’’ فیصلہ صادر فرمادیا کہ آئندہ یہ تین طلاقیں قطعی بینونت
و علیحدگی کا موجب ہوں گی اور رجوع کا حق نہیں دیا جائے گا۔ ‘‘
( مسئلہ اجتہاد صفحہ ۱۶۷)
غیرمقلدین
نے یہاں یہ عذر بھی تراشا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین قرار دینے
پہ بعد
میں نادم ہو
گئے تھے مگر ان کی طرف منسوب یہ بات ثابت نہیں ، حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد،مولانا
عبد الرحمن کیلانی غیرمقلداور خرم شہزاد غیرمقلد نے بھی اسے غیرثابت تسلیم کیا ہے
۔ جیسا کہ باب نمبر : ۱۵ میں باحوالہ مذکورہوگا ان شاء اللہ۔مزید یہ کہ اس روایت
کا مطلب کیا ہے اور غیرمقلدین اس سے کیا کشید کرتے ہیں ؟ یہ بھی آئندہ صفحات میں
تحریر کرنے کا ارادہ ہے وباللہ التوفیق ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
سیدنا
عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کے نافذ کر دینے کے فیصلے کو غیرمقلدین شریعت محمدی
کے خلاف محض سیاسی قرار دے کر کہتے ہیں ہم فاروقی نہیں کہ ان کے فیصلہ کو مانیں ۔
عرض ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا
یہ فیصلہ شرعی ہی تھا جیسا کہ فریق ثانی کے علماء نے برملا اعتراف کیا ہے ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلہ پر بحث کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فَلَمَّا
رَکِبَ النَّاسُ الْاَحْمُوْقَۃَ (اِلٰی اَنْ قَالَ ) اَجْرَی اللّٰہُ عَلٰی
لِسَانِ الْخَلِیْفَۃِ الرَّاشِدِ وَا لصَّحَابَۃِ مَعَہٗ شَرْعًا وَّقَدْرًا
اِلْزَامَھُمْ بِذٰلِکَ وَاِنْفَاذَہٗ عَلَیْھِمْ ۔‘‘
(اعلام الموقعین ۲؍۲۷)
جب لوگوں نے حماقت کا ارتکاب شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے
خلیفہ راشد [سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (ناقل)] اور ان کے ساتھ صحابہ کرام کی زبانوں
پر از روئے شرع اور تقدیر تین طلاقوں کو ان پرجاری اور نافذ کردیا ۔
حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ کی اس عبارت میں مذکور ’’ شَرْعًا، از روئے شرع ‘‘کی تصریح سے
ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقوں کے تین ہونے کو نافذ اور جاری
کرنا حکم شرعی ہی تھا، نہ کہ سیاسی۔ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو صحابہ
کرام نے بھی تسلیم کیا۔باقی رہی یہ بات کہ وہ کتنے صحابہ تھے ؟ مولانا شرف الدین
دہلوی صاحب کی تصریح کے مطابق تمام صحابہ کرام ہیں جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ کے حوالہ
سے ہماری اسی کتاب میں مذکورہے۔ نیز غیرمقلدین کے ’’امام العصر ‘‘ مولانامحمد
ابراہیم سیالکوٹی صاحب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو شرعی قرار دیا اور
اس کے سیاسی ہونے کی مدلل انداز میں تردید فرما دی ہے ۔ ان کی عبارت ہماری اسی
کتاب کے باب نمبر :۹ میں مذکورہے ۔
ابو
عدنان مولانا منیر قمر غیرمقلد نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے تین طلاقوں کے
نفاذسمیت ان کے فیصلوں کو دینی اعتبار سے مفیدقرار دیا جیسا کہ ان کی کتاب ’’ جشن
میلاد یوم وفات پر ؟ ایک تحقیق ، ایک تجزیہ صفحہ ۲۸ ، ناشر توحید پبلیکیشنز بنگلور
ہند ‘‘ کے حوالہ سے باب ...میں مذکور ہوگا ان شاء اللہ ۔
مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اجلہ صحابہ جیسے حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اور
عثمان غنی رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں ان سے تو کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو شرع
کے خلاف ہو۔ وحیدی ۔‘‘
( شرح بخاری
داود راز :۶؍۹۱)
سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کا موقف
رئیس محمد
ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک آدمی نے ابن مسعود سے پوچھا کہ بیوی کو سو طلاقیں دے
چکا ہے۔ ابن مسعود نے کہا صرف تین طلاقوں کی وجہ سے وہ حرام ہو چکی ہے باقی ستانوے
طلاقیں عدوان و سرکشی اور جرم و گناہ ہیں۔اسی طرح کی بات حضرت ابن مسعود ؓ کے
علاوہ متعدد صحابہ حضرت عثمان بن عفان، مغیرہ بن شعبہ ، حضرت عمربن خطاب وغیرہم سے
بھی مروی ہے ‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۱۰۳)
مولانا عبد الرحمن کیلانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بسا اوقات حضرت عمر رضی اللہ
عنہ کی عائد کردہ حدود و قیود کے مطابق فتوے دیا کرتے تھے ۔ یاکم از کم اس کی
مخالفت نہیں کرتے تھے۔ تطلیقات ِ ثلاثہ کا مسئلہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔جن صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم نے آپ رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کے مطابق فتوے دینا شروع کر دئیے
تھے ان کے نام یہ ہیں: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ، عبد اللہ بن عمرو بن
عاص رضی اللہ عنہ ، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ، انس بن مالک رضی اللہ عنہ ، عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ اور مغیرہ رضی اللہ عنہ ۔‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۷۹)
غیرمقلدین کے امام علامہ وحید الزمان
نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والے باغیوں کی بابت لکھا:
’’ کم بخت ، بڑے سنگدل اور ناخدا ترس تھے۔ حضرت عثمانؓ
سالہا سال صحبت ، رفاقت اور تربیت پا کر بھی خلاف ِشرع کام کر سکتے تھے، انہوں نے
کبھی نہ سوچا کہ ہمارے اس فکر وعمل سے خدا ،رسول اور قرآن کے ارشادات کی تکذیب
ہوتی ہے ۔ ‘‘
( لغات الحدیث :۲؍۵۱،ر)
وحید الزمان کی اس عبارت کے مطابق
سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عمل کو خلاف شرع کہنا قرآن و حدیث کی تکذیب ہے ۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا
فتویٰ
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ فَقَدْ صَحَّ
بِلَاشَکٍّ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ وَّ عَلِیٍّ وَّ ابْنِ عَبَّاسٍ الْاِلْزَامُ
بِالثَّلَاثِ لِمَنْ اَوْ قَعَھَا جُمْلَۃً وَّصَحَّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہٗ
جَعَلَھَا وَاحِدَۃً وَّلَمْ نَقِفْ عَلٰی نَقْلٍ صَحِیْحٍ عَنْ غَیْرِھِمْ مِّنَ
الصَّحَابَۃِ بِذٰلِکَ ۔
( اغاثۃ اللہفان: ۱؍۳۲۹)
بلاشبہ ابن مسعود ،علی، اور ابن عباس سے یہ ثابت ہے کہ جس
شخص نے اکٹھی تین طلاقیں دے دی ہوں تو یہ حضرات ان تین طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے
اور ابنِ عباس سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے تین طلاقوں کو [ غیرمدخولہ کے حق میں
(ناقل )] ایک قرار دیا اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات صحابہ کرام سے ہم کسی نقلِ
صحیح پر آگاہ نہیں ہو سکے۔‘‘
شیخ محمد بن اسماعیل امیر یمانی
لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمرؓ ، حضرت ابن عباس ؓ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہی
مذہب ہے اور حضرت علی ؓ سے بھی ایک روایت ( بلکہ صحیح روایت ہی حضرت علی ؓ سے یہی
ہے ) اور یہی مذہب حضرت عثمان ؓ کا نقل کیا گیا ہے ۔‘‘
( تعلیق المغنی :۲؍۴۳۰، بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ۳۷)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد’’
طلاق بتہ ‘‘پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک تین پڑیں گی۔ امام مالک
کا یہی مذہب ہے ۔‘‘
( شرح مؤطا امام
مالک صفحہ ۳۸۱)
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’مدیر تجلی نے تیسرے نمبر پر اپنے موقف کے حامی صحابہ میں
حضرت علی بن ابی طالب کا نام لیا ہے اور ہم معترف ہیں کہ حضرت علی سے بے شک بطریقِ
معتبر ایک فتویٰ اس طرح کا منقول ہے ۔‘‘
(تنویر الآفاق
صفحہ ۱۶۷)
خواجہ محمد قاسم غیر مقلد لکھتے
ہیں:
’’ چند صحابہ سے حضرت عمر ؓ کی تائید میں کچھ فتاویٰ مروی
ہیں جن کے نام یہ ہیں۔ حضرت ابوہریرہ ؓ ، حضرت عبدا للہ بن عمربن العاصؓ، حضرت
عمران بن حصین، عبد اللہ بن عباس ؓ ، حضرت علیؓ اور حضرت ابن مسعود ؓ وغیرہم رضوان
اللہ علیہم اجمعین۔‘‘
( تین طلاقیں
ایک وقت میں ایک ہوتی ہے صفحہ۱۰۳)
مولانا داود ارشد غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’پہلے
عرض کیا جا چکا ہے کہ حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہے کہ اگر کوئی شخص
اپنی بیوی کو ایک وقت میں ہزار طلاقیں دے دے ، تو اس کی وہ بیوی تین طلاقوں کی وجہ
سے حرام ہو جائے گی۔ اور باقی طلاقیں وہ شخص اپنی دیگر بیویوں پر تقسیم کر دے ۔ ‘‘
(دین الحق
:۲؍۷۰۷، مکتبہ غزنویہ لاہور ، تاریخ اشاعت:دسمبر ۲۰۰۱ء)
دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
کا موقف
صحابہ کرام میں سے خلفائے راشدین کا
مسلک غیرمقلدین کی تائیدی عبارات کے ساتھ اوپر بیان ہو چکا ۔ اب ہم دوسرے صحابہ
کرام کے مسلک پر حوالہ جات نقل کرتے ہیں اور حسب سابق غیرمقلدین کی اعترافی عبارات
بھی درج کریں گے ان شاء اللہ ۔
غیرمقلدین کی عبارات سے پہلے حافظ ابن قیم رحمہ
اللہ کا بیان پڑھ لیں۔ اکٹھی تین طلاقیں دینے کا کیا حکم ہے ؟ اس حوالہ سے وہ
مذاہب نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ پہلا مذہب یہ ہے کہ تینوں ہی واقع ہو جائیں گی، حضرات
ائمہ اربعہ،جمہور تابعین اور اکثریت سے حضرات صحابہ کرام کا یہی قول اور مسلک ہے
۔‘‘
( زاد المعاد
:۴؍۵۴ بحوالہ عمدۃ الآثاث صفحہ ۳۱)
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا
فتویٰ
رئیس محمد
ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت انس ( رضی اللہ عنہ) قانونِ فاروقی کے پیشِ نظر ایک
وقت کی طلاقِ ثلاثہ کوتین قرار دیتے تھے جیسا کہ اس روایت میں ہے کہ موصوف نے اپنے
فتویٰ مذکورہ کو بیان کرکے کہا حضرت عمر کا فرمان یہی تھا ۔‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۱۷۲)
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہ کا فتویٰ
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ
حَدَّثَنَا وَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ قَالَ حَدَّثَنِیْ عَمْرُو بْنُ مُرَّۃَ عَنْ
سَعِیْدِ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ جَاْءَ رَجُلٌ اِلٰی ابْنِ عَبَّاسٍ فَقَالَ اِنِّیْ
طَلَّقْتُ امْرَاَتِیْ اَلْفًا اَوْ مِائَۃً قَالَ بَانَتْ مِنْکَ بِثَلَاثٍ
وَسَائِرُھُنَّ وِزْرٌ اِتِّخَذْتَ آیَاتِ اللّٰہِ ھُزُوًا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۲، ح
۱۸۰۹۲ باب فی الرجل
یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد )
شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘
( حاشیہ صفحہ مذکورہ )
ابوداؤد میں ہے :
’’ مجاہد کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے
پاس بیٹھا تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین
طلاقیں دے دی ہیں ۔ چنانچہ وہ خاموش رہے حتی کہ مجھے گمان ہوا کہ وہ اس کو اس پر
واپس کر دیں گے ۔ (رجوع کرنے کا حکم دے دیں گے ) پھر بولے : تم میں ایک اُٹھتا ہے
اور حماقت کا ارتکاب کرتا ہے ، پھر کہتا ہے : ابن عباس! ابن عباس! تحقیق اللہ
تعالیٰ نے فرمایا ہے : ومن یتق اللّٰہ یجعل لہ مخرجا جو اللہ کا تقوی
اختیار کرے ، اللہ اس کے لیے نکلنے کی راہ پیدا فرما دیتا ہے ۔ ‘‘ تو نے اللہ کا
تقویٰ اختیار نہیں کیا ،لہٰذا میں تیرے لیے کوئی راہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی
نافرمانی کی اور بیوی تجھ سے جدا ہو گئی ۔ ‘‘
( ابوداؤد مترجم
:۲؍۶۷۸ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی )
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اس
حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ [ اسنادہ صحیح ] اخرجہ النسائی فی الکبری ، ح : ۱۱۶۰۲ والطبری فی
تفسیرہ : ۲۸؍۸۴، والطبرانی فی الکبیر : ۱۱؍۸۸،۸۹ ، ح: ۱۱۳۹ من حدیث اسماعیل بہ وصححہ ابن حجر فی الفتح : ۹؍۳۶۲ ‘‘
( تخریج ابوداؤد باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث حدیث : ۲۱۹۷)
علی زئی صاحب مذکورہ عبارت کے
بعد لکھتے ہیں:
’’ وَتَوَاتَرَ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ اَنَّہٗ اَفْتٰی بِوُقُوْعِ الثَّلَاثِ فِی الْمَدْخُوْلَۃِ
وَاَمَّا غَیْر الْمَدْخُوْلَۃِ فَکَانَ یَرَاھَا وَاحِدَۃً ۔‘‘
(تخریج ابوداؤد باب نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث حدیث : ۲۱۹۷)
ترجمہ: ابن عباس سے متواتراً ثابت ہے کہ بلاشبہ انہوں نے
مدخولہ عورت کے بارے میں تین طلاقوں کے وقوع کافتویٰ دیا اور غیر مدخولہ کی طلاقوں
کو ایک سمجھتے تھے ۔
غیرمقلدین یہ بھی لکھ چکے کہ متواتر
حدیثوں کی کسی سند میں اگر کوئی کمزوری بھی ہوتو وہ مضر نہیں ۔
چنانچہ شیخ
زبیر علی زئی غیرمقلد لکھتے ہیں ـ:
’’ مشہور و متواتر نسخہ سند کا
محتاج نہیں ہوتا ۔ ‘‘
( علمی مقالات : ۲؍۳۱۹)
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ متواتر حدیث کے ہر راوی کی صحتِ اسناد کا تقاضا نہایت
درجہ یتیمی علم کا ثبوت ہے ۔ ‘‘
( مقالاتِ اثری
:۲؍۴۷)
اعتراض: سیدنا ابن عباس کے اَثر
میں اضطراب ہے ۔
حکیم محمد
صفدر عثمانی غیرمقلد نے لکھا:
’’ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ بوجہ اضطراب اور موقوف
ہونے کے قابلِ حجت نہ تھا ۔ کیوں کہ ان سے کئی قسم کی روایتیں مشہور ہو چکی ہیں
کسی میں ایک ہزار طلاق کا ذِکر ہے ، کسی میں ستاروں کے برابر کا، کسی میں سو کا ،
کسی میں تین کا ۔پھر کسی میں غیر مدخولہ کا ذِ کر ہے ۔اس شدید اضطراب کی وجہ سے یہ
فتویٰ قابل ِقبول نہیں ۔ ‘‘
( احسن الابحاث
صفحہ ۴۶)
جواب:
سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا
سے مروی آثار میں’’ ایک ہزار ، ستاروں برار، سو اور تین طلاق‘‘ سب کا حاصل یہ ہے
ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں تو اُن میں اضطراب کہاں
؟مدخولہ اور غیرمدخولہ کی بابت اضطراب کا دعوی تو کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ان میں
کیسے اضطراب ہے۔ اگر اس مزعوم اضطراب کی وضاحت کی ہوتی تو غور کرنے والوں کو غور
کاموقع ملتا ۔
باقی رہا یہ فرق کہ سیدنا عبد اللہ بن
عباس رضی اللہ عنہ کی طرف سے مدخولہ کی تین طلاقوں کو تین اورغیرمدخولہ کی تین کو
ایک قرار دینا ۔ توعرض ہے کہ غیرمدخولہ کی تین طلاق ایک تب ہوتی ہے جب اسے الگ الگ
لفظ سے طلاق ، طلاق ،طلاق کہا گیا ہو۔اس لئے کہ غیرمدخولہ پہلی بار بولے جانے والے
لفظ طلاق سے نکاح سے نکل جاتی ہے ،دوسرا اور تیسرا لفظ بولے جانے کے وقت وہ بیوی
نہیں رہتی ۔ احناف کی طرف سے یہی وضاحت مولانا داؤد ارشد غیرمقلد(دین الحق
:۲؍۶۶۲)اور شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد( تحفہ ٔاحناف صفحہ ۳۴۷) کی زبانی آگے سیدنا عبد
اللہ بن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ کے اَثر کے تحت آرہی ہے ،ان شاء اللہ۔
غیرمقلدین
کو دعوی ہے کہ احادیث و آثار کو فہم محدثین اور فہم سلف کے مطابق ماننا چاہیے تو
سوال ہے کیا محدثین اور اسلاف نے سیدنا عبد
اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے اس اَثر کو مضطرب قرار دے کر رَد کیا ہے یا اسے
صحیح اور
غیرمضطرب سمجھ کر قبول فرمایا؟
مزید یہ کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس
رضی اللہ عنہا کا اَثر سندًا صحیح ہے اور غیرمقلدین کو بھی اس کے صحیح و ثابت ہونے
کا اعتراف ہے جیسا کہ آئندہ صفحات میں باحوالہ منقول ہوگا، ان شاء اللہ ۔ خود حکیم
صاحب بھی اس کی سند پرجرح نہ کر سکے۔ اگلی بات یہ ہے کہ غیرمقلدین کے ’’محدث العصر
‘‘ شیخ زبیر علی زئی نے کہا کہ صحیح سند سے مروی مضمون میں اضطراب ہو ہی نہیں
سکتا۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ عرض ہے کہ اگر متن میں اضطراب ہے تو سند صحیح
نہیں ہے اور اگر سند صحیح ہے تو متن میں اضطراب کہاں سے آگیا؟‘‘
( علمی مقالات :۲؍۳۹۴)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد مسئلہ تین طلاق میں
مذاہب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ دوسرے یہ کہ اگر عورت
مدخولہ ہے تو تینوں طلاق پڑ جاویں گی اور جومدخولہ نہیں ہے تو ایک طلاق پڑے گی ایک
جماعت کا یہ قول ہے جیسے ابن عباس اور اسحاق بن راہویہ وغیرہ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ
عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۹)
حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک شخص نے پوچھا : میرے چچا نے اپنی بیوی
کو تین طلاقیں دے دی ہیں ؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ’’ تیرے چچا
نے اللہ کی نافرمانی کی ہے ، پس اللہ نے اس کو پیشمانی میں ڈال دیا ہے او ر اس نے
شیطان کی پیروی کی ہے ، اب اس کے لیے اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع
اور حلالہ صفحہ۱۲۰ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
حاشیہ میں اس پہ حوالہ السنن الکبری
للبیہقی :۷؍۳۳۷، حدیث: ۱۵۳۷۶، مصنف عبدالرزاق ، حدیث : ۱۰۷۷۹ دیا گیا ہے ۔
مولانا عمر
فاروق سعیدی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حضرت ابن عباس رضی
اللہ عنہما سے تین طلاق کے مسئلے میں دو قول وارد ہیں ...
ایک یہ کہ تین طلاق کے لفظ سے
طلاق ہو جاتی ( یعنی تین ) اور اکثر روایات اسی طرح کی ہیں اور دوسرا یہ کہ واقع
نہیں ہوتی ( بلکہ ایک ہوتی ہے ) جیسے عکرمہ نے ان سے روایت کیا ہے ۔‘‘
( ابو داو مترجم
:۲؍۶۸۱)
تنبیہ: سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما کی طرف تین کے ایک ہونے کی روایت ابی داود کے بارے میں شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے کہا کہ یہ موصولاً مجھے نہیں ملی اور اگر یہ صحیح ثابت ہوجائے تو
یہ غیرمدخولہ عورت کے لیے ہے ۔ ( تخریج ابوداؤد ، حدیث : ۲۱۹۷)
علی زئی کے اپنے الفاظ باب نمبر:۱۳
’’چند مزید شبہات کا ازالہ ‘‘ میں درج ہوں گے ان شاء اللہ ۔
مزید یہ کہ غیرمقلدین کئی مقامات پر
اُن روایات کو ترجیح دے چکے جو اکثری ہیں ۔تو یہاں بھی اپنے اصول کے مطابق اکثری
روایات کو راجح سمجھیں۔
’’ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہیں یہ بات
پہنچی کہ ایک آدمی نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا : میں نے اپنی بیوی
کو سو طلاقیں دی ہیں، آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے
فرمایا: اسے تیری طرف سے تین طلاقیں تو واقع ہو گئیں جب کہ ستانوے کے ذریعہ تم نے
اللہ کی آیات کے ساتھ مذاق کیا۔‘‘
( مشکوۃ المصابیح: ۲؍۳۴۲تحت
حدیث :۳۲۹۳ترجمہ ابو انس محمد سرور گوہر غیرمقلد ، نظر ثانی حافظ عبد الستارحماد
،طبع مکتبہ اسلامیہ )
حافظ عمران ایوب لاہوری غیرمقلد
اِس کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ تحقیق : شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس
کی سند کو صحیح کہا ہے۔ ‘‘
(مترجم
مؤطا امام مالک : کتاب الطلاق ، باب ما جآ ء فی البتۃصفحہ ۵۶۹)
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اس
حدیث کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ حسن ، رواہ مالک ۲؍۵۵۰ح
۱۱۹۵‘‘ ( مشکوۃ المصابیح: ۲؍۳۴۲تحت حدیث :۳۲۹۳)
یعنی یہ حدیث حسن ہے اسے امام
مالک نے روایت کیا۔
علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے مؤطامالک وغیرہ
چند کتب کاتذکرہ کرکے کہا:
’’جن مفسدوں کا قول ان کتابوں کے خلاف ہو، ان کا قول انہی
کے منہ پر پھینک ماریں۔‘‘
( رفع العاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۳؍۳۹۱،مہتاب کمپنی لاہور )
رئیس محمدندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ موصوف ابوداود نے اس سلسلے میں اپنے اس دعویٰ پر حضرت
ابن عباس سے مروی شدہ متعدد ایسی روایات نقل کی ہیں جن کا مفاد یہ ہے کہ موصوف ابن
عباس عکرمہ کی نقل کردہ روایت مذکورہ کے بعد ایک وقت کی طلاق ِ ثلاثہ کو تین قرار
دینے لگے تھے ۔ ( سنن ابی داود :۲؍۲۲۷،۲۲۸) صاحب عون المعبود نے عون المعبود و
تعلیق المغنی دونوں میں صراحت کے ساتھ مذکور ہ بالا دونوں روایات کو صحیح قرار دیا
ہے اور اصول اہلِ علم کے مطابق یہ دونوں روایات صحیح بھی ہیں ۔ ‘‘
( تنویر الآفاق صفحہ ۲۵۱)
ندوی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں :
’’ہم معترف ہیں کہ ابن ِ عباس کا ایک فتویٰ اہلِ
تقلید کے مطابق ہے ۔‘‘
( تنویر الآفاق
صفحہ ۱۷۰)
مولانا عبد اللہ روپڑی غیرمقلدنے بھی
تسلیم کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا فتویٰ تین طلاقوں کو
تین قرار دینے کا ہے۔ ان کی عبارت فتاویٰ اہلِ حدیث :۱؍۵۰۴کے حوالہ سے باب
نمبر.... کے تحت مذکور ہے۔
مولانا داود
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ہمیں اس چیز کا اعتراف ہے کہ بعض روایات میں ابن عباس
رضی اللہ عنہ کا فتویٰ تینوں طلاقیں واقع ہوجانے کا بھی ہے ۔‘‘
(دین الحق :۲؍۶۶۹)
حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی اعتراف کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما
اکٹھی دی گئی تین
طلاقوں کو
تین ہی کہتے تھے ۔ (اِغَاثَۃُ
اللَّہْفَان :۱؍۳۲۹)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا
تین کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ و تابعین نے یہی
فتویٰ دینا شروع کر دیا حتی کہ اس حدیث کے راوی صحابی حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ
عنہ بھی یہی فتویٰ دینے لگے جس سے لوگوں نے اس روایت کو مشکوک سمجھ لیا ۔ حضرت عمر
رضی اللہ عنہ کا یہ سیاسی اور انتظامی فیصلہ ایسا رائج ہوا کہ بعد کے فقہاء نے بھی
اس کی پابندی کی حتی کہ یہ شرعی مسئلہ بن گیا جب کہ حقیقتا ً یہ انتظامی اور
تعزیری فیصلہ تھا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی ۵؍۲۹۴)
ہماری اسی کتاب میں حافظ ابن قیم رحمہ
اللہ اور مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی کی عبارات منقول ہیں کہ سیدنا عمر رضی
اللہ عنہ کا یہ فیصلہ شرعی تھا ۔
مولانا
عبد الرحمن کیلانی غیر مقلد نے عبد الرحمن الجزیری کی کتاب ’’ کتاب الفقہ المذاھب الاربعۃ صفحہ ۲۴۳ ‘‘ کے حوالہ سے لکھا:
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بلاشبہ مجتہدین میں سے تھے جن
پر دین کے معاملہ میں اعتماد کیا جاتا ہے، لہٰذا آپ رضی اللہ عنہ کی تقلید کرنا
جائز ہے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ :۳۰ )
کیلانی صاحب ہی لکھتے ہیں:
’’اب حضرت ابن ِ عباس رضی اللہ عنہ کا وہ تعزیری فتویٰ بھی
ملاحظہ فرمائیے جو قاری صاحب نے درج فرمایا ہے۔ہم صرف ترجمہ پر اکتفا کریں گے ۔ :
’’حضرت مجاہد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک آدمی آکرکہنے لگا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں
دے دی ہیں ۔ مجاہد رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ خاموش ہو
گئے۔ میں نے گمان کیا ، شاید ابن عباس رضی اللہ عنہ اس کی بیوی کو واپس لوٹا دیں
گے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’ تم میں ایک شخص حماقت کر بیٹھتا ہے ، پھر کہتا
ہے اے ابن عباس رضی اللہ عنہ ! اے ابن عباس رضی اللہ عنہ !اور اللہ تعالیٰ نے
فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لیے آسانی کی راہ
نکالتا ہے اور بلاشبہ تو اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرا، میں تیرے لیے اس سے نکلنے کی
کوئی راہ نہیں پاتا ہوں ۔ تو نے اللہ کی نافرمانی کی ہے، تیری بیوی تجھ سے جدا ہو
گئی۔ (ابو داود ص ۲۹۹، بحوالہ منہاج ص۳۱۰) ...یہ فتویٰ سائل کو اس کی حماقت کی سزا
کے طور پر دیا جا رہا ہے ۔ ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ۷۰ ، ۷۱ )
کیلانی صاحب اس پر جرح نہیں کر
سکے تو اسے ’’سزا‘‘ قرار دے کر آگے چلتا بنے ہیں ۔
شیخ یحی عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ مفسر قرآن ابن عباس رضی اللہ عنہما کے ہاں
غیر مدخولہ عورت کو[ ایک کلمہ سے (ناقل)] دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی شمار ہوتی
ہیں اور وہ اس خاوند کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرے۔
دیکھئے :( عمدۃ الاثات، ص: ۷۲، ابوداودمع العون ، ص: ۲۲۷، بیہقی : ۷؍ ۳۳۵‘‘دیگر
فتاویٰ مثلاً ابوداؤد رقم : ۲۱۹۸ ، وغیرہ ملحوظ رکھیں۔ ‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ ۳۳۴)
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد نے
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابوداودتین کے ایک ہونے کا فتوی نقل کیا
جو کہ ضعیف اور موؤل ہے، پھر لکھا:
’’بے شک حضرت ابن عباس سے اس کے
خلاف بھی مروی ہے۔ ‘‘
( نکاح محمدی
صفحہ ۳۵،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
ابو الاقبال سلفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’صحابہ کرام ؓ میں حبر الامۃ ترجمان القرآن حضرت عبد اللہ
بن عباس ؓ ... نے دَور فاروقی میں سیاست عمرؓ کی مناسبت سے تین کا فتویٰ بھی دیاہے
۔ ‘‘
(مذہب حنفی
کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۹)
غیرمقلدین
کی عورت حافظہ مریم مدنی نے ایک مضمون ’’ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم ‘‘
لکھا۔ اس میں حالتِ غصہ میں دی گئی طلاق کے واقع ہونے پر دلائل دیتے ہوئے دارقطنی
۴؍۱۳ سے درج ذیل دلیل نقل کی:
’’ مجاہدبیان کرتے
ہیں کہ ایک آدمی نے ابن عباس سے کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین
طلاقیں دے دی ہیں۔ تو ابن عباس نے فرمایا: ’’ مجھ میں اتنی جرات نہیں ہے کہ تیرے
لئے وہ حلال کردوں جو اللہ نے حرام کر دیا ہے ۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی ہے
اور اپنی بیوی کو اپنے اوپر حرام کر لیاہے۔ ‘‘
(ماہ نامہ محدث لاہور ،مدیر
ڈاکٹر حافظ حسن مدنی ،شعبان ؍۱۴۳۲ھ... مطابق جولائی ؍۲۰۱۱ء صفحہ ۳۵)
عجیب طرز عمل ہے کہ جس اثر سے حالتِ
غصہ میں طلاق کے واقع ہونے کی دلیل لی،اسی میں تین طلاقوں کے وقوع کی بات بھی ہے
جسے غیرمقلدین نظر انداز کر دیا کرتے ہیں۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے بھی
تسلیم کیا ہے کہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماکے نزدیک اکٹھی دی گئی تین
طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔ان کی عبارت آگے ’’صحابہ کرام کا اجماع ‘‘ عنوان کے تحت
مذکور ہوگی ان شاء اللہ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا
مسلک
ابو داود میں
ہے :
’’ محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ، محمد بن ایاس سے بیان
کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس، ابوہریرہ اور عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما
سے سوال کیا گیا کہ کنواری لڑکی کو اگر اس کا شوہر تین طلاقیں دے دے ( قبل
ازمباشرت ) تو؟ سب نے کہا کہ یہ شوہر کے لیے حلال نہیں حتی کہ کسی اور سے نکاح کرے
۔ ‘‘
( ابوداودمترجم
:۲؍۶۸۰حدیث:۲۱۹۸ ترجمہ مولانا عمر فاروق سعیدی غیرمقلد )
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد اِس
کی تخریج میں لکھتے ہیں:
’’ [صحیح ] اخرجہ البیھقی : ۷؍۳۵۴ من حدیث ابی
دواد بہ ، وحدیث مالک
فی المؤطا (یحی ) : ۲؍۵۷۰‘‘
( تخریج سنن ابی داود حدیث : ۲۱۹۸)
مولانا محمد جونا گڑھی غیرمقلد
کی کتاب ’’ نکاح محمدی ‘‘کے حاشیہ میں لکھا ہے :
’’ایوب کہتے ہیں حکم بن عیینہ امام زہری کے پاس مکہ گئے اور
میں بھی ان کے ساتھ تھا انہوں نے اس باکرہ کے بارے میں پوچھا جسے تین طلاق دے دی
جائے۔ زہری نے کہا کہ اس بارے میں ابن عباس، ابوہریرہ ، عبد اللہ بن عمرو سے پوچھا
گیا تھا اور سب نے کہا تھا کہ بغیر دوسرے شوہر سے شادی کئے وہ حلال نہیں ہو سکتی
۔‘‘
(حاشیہ نکاح
محمدی صفحہ ۲۱،ناشر اہل حدیث اکیڈمی مؤ ناتھ بھنجن یوپی)
سیدناعبد اللہ ابن مسعود رضی
اللہ عنہ کا فتویٰ
مؤطا مالک
میں ہے :
’’ ایک شخص عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور
کہا میں نے اپنی عورت کو دو سو طلاق دیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں
نے تجھ سے کیاکہا وہ بولا مجھ سے یہ کہا کہ عورت تیری تجھ سے بائن ہو گئی۔ ابن
مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا سچ ہے جو شخص طلاق دے گا اللہ کے حکم کے موافق تو اللہ
نے اس کی صورت بیان کر دی اور جو گڑ بڑکرے گا تاکہ ہم کو مصیبت اُٹھانا پڑے۔ وہ
لوگ سچ کہتے ہیں عورت تیری تجھ سے جد اہو گئی ۔ ‘‘
( مؤطا مالک ترجمہ وحیدا لزمان )
حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب اس کی تخریج میں
لکھتے ہیں:
’’ تحقیق : شیخ سلیم ہلالی اور
شیخ احمد علی سلیمان نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ ‘‘
(مترجم مؤطا
امام مالک : کتاب الطلاق ، باب ما جآ ء فی البتۃصفحہ ۵۶۹)
علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حافظ ابن حبان ؒ ( م ۳۵۴ھ) فرماتے ہیں : امام مالک ؒ
فقہائے مدینہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے رواۃ کے متعلق تحقیق سے کام لیا اور
روایت حدیث میں جو ثقہ نہ ہوں ان کی روایت سے اعراض کیا ۔ وہ صحیح روایت کے علاوہ
نہ کوئی روایت نقل کرتے ہیں اور نہ کسی غیر ثقہ سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ ‘‘
( کاروان ِ حدیث صفحہ ۳۵)
پھرعراقی صاحب نے شاہ ولی اللہ
محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا:
’’ محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کتاب کی تمام روایات مالکؒ اور
ان کے موافقین کی رائے میں صحیح ہیں۔ اور دوسروں کی رائے بھی اس سلسلہ میں یہی ہے
کہ موطا کی مرسل و منقطع روایات کی سند دوسرے طرق سے متصل ہے ۔ پس اس میں کوئی شبہ
نہ رہا کہ اس اعتبار سے وہ سب صحیح ہیں ۔ ‘‘
( کاروان حدیث
صفحہ ۳۷)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے مؤطامالک وغیرہ
چند کتب کاتذکرہ کرکے کہاـ:
’’جن مفسدوں کا قول ان کتابوں کے خلاف ہو، ان کا قول انہی
کے منہ پر پھینک ماریں۔‘‘
( رفع العاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۳؍۳۹۱،مہتاب کمپنی لاہور )
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ
حَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ
عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اَتَاہٌ رَجُلٌ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ
امْرَاَتِیْ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ مَرَّۃً قَالَ فَمَا قَالُوْا لَکَ؟قَالَ قَالُوْا
قَدْ حَرُمَتْ عَلَیْکَ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ لَقَدْ اَرَادُوْا اَنْ
یُبْقُوْا عَلَیْکَ بَانَتْ مَنْکَ بِثَلَاثٍ وَّسَائِرُھُنَّ عُدْوَانٌ ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۱، ح
۱۸۰۸۶ باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ
او الفا فی قول واحد)
ترجمہ: ہمیں ابو بکرنے بیان کیا ،کہا ہمیں ابو معاویہ نے
بیان کیا ، وہ اعمش سے ، وہ ابراہیم سے ، وہ عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہا : ایک
آدمی ان کے پاس آیا ۔ کہا: میں نے اپنی بیوی کو ننانوے طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا :
لوگوں نے آپ سے کیا کہا؟عرض کیا: لوگوں نے کہا : وہ آپ پر حرام ہو چکی ۔ فرمایا :
ان لوگوں نے آپ کے ساتھ نرمی کا ارادہ کیا ہے۔وہ تین طلاقوں کی وجہ سے تجھ سے جدا
ہو گئی اور باقی طلاقیں سرکشی اور ظلم ہیں ۔
شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’اسنادہ صحیح، اس کی سند
صحیح ہے ‘‘
( حاشیہ صفحہ مذکورہ )
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ
حَدَّثَنَاحَفْصٌ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ
عَبْدِ اللّٰہِ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ مِائَۃَ
تَطْلِیْقَۃٍ قَالَ حَرَّمَتْھَا ثَلَاثٌ وَسَبْعَۃٌ وَّ سَبْعُوْنَ عُدْوَانٌ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ
:۶؍۳۳۱، ح ۱۸۰۸۷ باب فی
الرجل یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد)
ترجمہ: ابوبکرنے ہمیں بیان کیا، کہا ہمیں حفص نے بیان کیا۔
وہ اعمش سے، وہ ابر اہیم سے،وہ علقمہ سے، وہ عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے
ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی تھیں فرمایا: اسے
تین طلاقوں نے حرام کر دیا ہے اور ستانوے طلاقیں ظلم و سرکشی ہیں ۔
شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح
ہے ‘‘
( حاشیہ صفحہ مذکورہ )
حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ
حَدَّثَنَاوَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مَنْصُوْرٍ وَالْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ
عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ
امْرَاَتِیْ مَائَۃً فَقَالَ بَانَتْ مِنْکَ بِثَلَاثٍ وَسَائِرُھُنَّ مَعْصِیَۃٌ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۱، ح ۱۸۰۸۸ باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد)
ترجمہ:
ہمیں ابو بکر نے بیان کیا، کہا ہمیں وکیع نے بیان کیا ،وہ سفیان سے ، وہ منصور اور
اعمش سے ، وہ ابراہیم سے ، وہ علقمہ سے ۔ انہوں نے کہا: ایک آدمی عبد اللہ کے پاس
آیا کہا: میں نے اپنی بیوی کو سوطلاقیں دی ہیں
۔ فرمایا : وہ تین طلاقوں کی وجہ سے تجھ سے جدا ہوگئی اور ساری
طلاقیں گناہ ہیں ۔
شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘
( حاشیہ صفحہ مذکورہ )
مولانا عبد الرحمن کیلانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’اسی طرح ایک اور صاحب اپنی بیوی کو دو سو طلاقیں دے کر
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس فتویٰ پوچھنے تشریف لائے تھے۔ انہیں
بھی آپ رضی اللہ عنہ نے یہی جواب [کہ بیوی جدا ہوگئی (ناقل )]دیا تھا ۔ موطا امام
مالک ، کتاب الطلاق ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ ۷۲ )
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ ہم معترف ہیں کہ بعض روایات میں ابن مسعود سے منقول ہے
کہ ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔‘‘
( تنویرالآفاق صفحہ ۱۶۳)
ابو الاقبال سلفی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ابن مسعود ؓ سے سیاست ِ فاروقی کے پیشِ نظر دوسرا فتوی
بھی مروی ہے ۔‘‘
(مذہب حنفی کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۹)
شیخ یحی عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ غیر مدخولہ عورت کی تین طلاقوں
کو بھی تین ہی قرار دیتے تھے جیسا کہ دیوبندی امام سر فراز صفدر دیوبند ی ابن
مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ نقل کرکے لکھتے ہیں اور ’’ طحاوی ‘‘ (۲؍۳۰) میں غیر
مدخول بہا کے لفظ بھی ہیں۔ ( عمدۃ الاثات ، ص : ۷۳)جب کہ احناف کے ہاں غیر مدخولہ
کو تین طلاق دی جائیں تو وہ پہلی سے جدا ہوجائے گی دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں
ہوگی۔ ‘‘
(تحفۂ احناف صفحہ ۳۲۸)
تنبیہ: غیر مدخولہ کو دی جانے والی
تین طلاقوں کے الفاظ کو دیکھا جاتا ہے ان الفاظ کے مدنظر کبھی تین ہوتی ہیں اور
کبھی ایک جیسا کہ مولانا داود ارشد غیرمقلد اور خود عارفی صاحب کی زبانی آگے
’’سیدنا عبد اللہ بن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ کا فتویٰ‘‘ کے تحت آ رہا ہے لہٰذا
یہ کہنا کہ یہ فتویٰ احناف کے خلاف ہے بلاوجہ خوش فہمی ہے۔ احناف کے بارے میں تو
جو کہنا تھا کہہ دیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعور رضی
اللہ عنہ کا مذکورہ فتوی غیرمقلدین کے خلاف ہے یا نہیں ؟
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تسلیم
کیا ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تین طلاقوں کو تین ہی کہتے تھے جیسا کہ
اوپر نقل ہو چکا ہے۔یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں ۔
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’ وَصَحَّ عَنِ
ابْنِ مَسْعُوْدٍ الْقَوْلُ بِاللِّزَامِ وَ صَحَّ عَنْہُ التَّوَقُّفُ۔ ‘‘ ابن مسعود
سے تین طلاقوں کے لازم کر دینے کا قول صحیح ہے۔ اور ان سے توقف کا قول بھی صحیح
ہے۔
( زاد المعاد :
۴؍۶۲)
توقف والی بات قابل تامل ہے خود حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ بلا شک کہہ کر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تین
طلاقوں کے تین ہونے کو منسوب کیاہے ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ابن عاص
رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
شیخ محمدیحی
عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص غیر مدخولہ کی یکجائی تین
طلاقوں کوتین ہی قرار دیتے تھے جیسا کہ ان سے منقول ایک فتوی کے الفاظ یہ ہیں : ’’
اَلْوَاحِدُۃُ تُبِیْنُھَا وَّالثَّلَاثُ تَحَرِّمُھَا
حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۔‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ:۳۳۵)
عارفی صاحب اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’ احناف کے ہاں غیر مدخولہ کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہے
اور مذکورہ بالا فتویٰ بھی غیر مدخولہ کے بارے میں ہے جو احناف کے مسلک کے صریح
مخالف ہے ۔ ‘‘
( حوالہ مذکورہ )
احناف کے ہاں غیرمدخولہ کی تین طلاقیں ہر حال
میں ایک نہیں بلکہ اس میں تفصیل ہے ۔
مولانا داود
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ فقہ حنفی میں غیر مدخولہ کے متعلق دو موقف پائے جاتے ہیں
پہلا موقف جس میں مرد تین بار علیحدہ علیحدہ طلاق کا لفظ بولتا ہے ، دوسرا موقف جس
میں مرد تینوں طلاقیں یکدم بولتا ہے ،پہلی صورت میں طلاق صرف ایک ہی رجعی ہوگی جب
کہ دوسری صورت میں تینوں ہی واقع ہو جائیں گی۔ ‘‘
( دین الحق
:۲؍۶۶۲)
عارفی صاحب بقلم خود لکھتے ہیں:
’’ احناف کا موقف یہ ہے کہ غیر مدخولہ کی دو حالتیں (ہیں )
اگر طلاق لفظ طالق ثلاثا سے (ہو ) تو تینوں واقع اور اگر متفرق الفاظ سے (ہو) تو
ایک واقع اور مدخولہ پر ہر حال میں تینوں طلاقیں واقع ہوں گی۔ ‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ:۳۴۷)
عارفی صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ احناف
کے ہاں ثلاثا کے لفظ سے دی جانے والی طلاقیں غیرمدخولہ کے حق میں بھی تین ہیں اور
سیدنا عبد اللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے الفاظ جو عارفی صاحب نے نقل کئے ہیں
اس میں الثلاثکا لفظ موجود ہے یعنی ان کے نزدیک ثلاث کے لفظ سے دی جانے والی
طلاقیں تین ہیں لہذا یہ فتوی احناف کے موافق ہے ، خلاف نہیں ہے ۔ البتہ غیرمقلدین
کے خلاف ضرور ہے ۔
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما
بعض لوگ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے تھے مگر
مولانا داود ارشد غیرمقلد نے صاف لکھ دیا کہ ان کی طرف منسوب تین کو ایک قرار دینے
کی روایتیں ضعیف ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ ہمیں اعتراف ہے کہ قصہ ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مروی
صحیح حدیث میں صرف ایک ہی طلاق کا ذِکر ہے ، اور جن میں (تین )طلاقوں کا ذکر ہے وہ
روایات ضعیف ہیں ۔‘‘
( دین الحق :
۲؍۶۶۶)
اہلِ بیت کا فتوی
قاضی شوکانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ جمہور تابعین اور حضرات صحابہ کرام کی اکثریت اور
ائمہ مذاہب اربعہ اور اہلِ بیت بھی ہیں یہی مذہب ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی
ہیں ۔‘‘
( نیل الاوطار :۶؍۲۴۵)
صحابہ کرام کے موقف پر کچھ مزید
حوالے
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بہر حال دوسرا مسلک ایک کلمہ سے تین طلاق کے واقع ہونے کا
ہے اس میں لوگوں نے اختلا ف کیا ہے ، اور اس میں چار مذہب ہیں پہلا مذہب یہ ہے کہ
تینوں واقع ہو جائیں گی ، حضرات ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین ؒ اور اکثریت سے صحابہ
کرام ؒ کا یہی قول اور مسلک ہے۔ ‘‘
( زاد المعاد
۴؍۵۴بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۲)
مولانا عبد القادر حصاروی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو اہلِ حدیث ایک ہی رجعی طلاق قر
ار دیتے ہیں ...لیکن جمہور صحابہ ،تابعین اور ائمہ اربعہ کایہ مذہب بتلایا جاتا ہے
کہ وہ اس طلاق کو طلاق بائنہ مغلظہ کہتے ہیں اور عورت کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
( شرعی داڑھی صفحہ ۸۳، شائع کردہ مکتبہ دار الحدیث راجو
وال )
غیرمقلدین صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ
عنہ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا مسئلہ
بیان ہوا ہے۔ اس کے متعلق مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے لکھا:
’’ عموماً صحابہ کا عمل اس کے
برعکس ہے ۔‘‘
( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بعض[بلکہ سب ( ناقل)] صحابہ رضی اللہ عنہم ایک مجلس کی
تین طلاقوں کے وقوع
کے قائل رہے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ: ۵۲)
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد
(ناظم جمعیت الِ حدیث بمبئی) لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کے اس حکم نامہ پر
عام صحابہ ؓ و تابعین نے محض سکوت اختیار کیا تھا ۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ حضرات
خلیفہ کو امت کی اپنی مصلحت و مفاد کا مجاز سمجھتے تھے۔‘‘
( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۹۳ ،
ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
مختار صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ عام صحابہ ؓ نے جو حضرت عمرؓ کے ساتھ مدینہ منورہ میں
موجود تھے، آپ کے اس اجتہاد پر سکوت اختیار کیا ۔‘‘
( مقالات علمیہ در بارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ ۹۴)
جب کسی صحابی کے فتوی پر دوسرے صحابہ
کرام سکوت اختیار کریں۔ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کے بقول وہ صحابہ کرام کا اجماعی
مسئلہ ہوتا ہے۔چنانچہ وہ ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ چوں کہ صحابہ ...کے زمانے میں ان کا مخالف ظاہر نہیں
ہوا، لہٰذا اس پر اجماع ہے۔ ‘‘
( توضیح الاحکام
:۱؍۲۲۱)
علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے
ہیں:
’’ اس کے خلاف کسی صحابی سے کچھ
ثابت نہیں،لہذا یہ اجماع ہے۔‘‘
( علمی مقالات :۶؍۳۴۹)
صحابہ کرام کا اجماع
باب :۱ کی ابتداء میں فتاویٰ ثنائیہ :
۲؍۲۱۹ کے حوالے سے مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی عبارت تحریر ہو چکی ہے کہ
تین طلاقوں کے تین ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اس طرح کا اعتراف شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے بھی کیاہے ۔
علی زئی صاحب نے امام شریح رحمہ اللہ کے فتوی
’’اکھٹی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’قُلْتُ :وَصَحَّ بِنَحْوِ
الْمَعْنٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَّغَیْرِہٖ مَنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ
عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ، وَلَا یُعْرَفُ لَھُمْ مُخَالِفٌ فِیْ ٓاِیْقَاعِ
الثَّلَاثَ جَمِیْعًا فَھٰذَا اِجْمَاعٌ ۔
( حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری :۳۷تحت حدیث : ۴۳)
میں
کہتا ہوں : اور اسی طرح کا مفہوم ابن عباس وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے
صحیح سند سے ثابت ہے اکھٹی تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں ان کا کوئی مخالف معلوم
نہیں،لہذا ایہ اجماعی مسئلہ ہے ۔
علی زئی یہ بھی لکھ چکے کہ اجماع کی حیثیت حدیث
سے زیادہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے تاویل مختلف الحدیث :۱۷۶سے امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ
سے نقل کیا ہے:
’’ ہمارے نزدیک روایت سے زیادہ، اجماع سے حق ثابت ہوتا ہے ،
کیوں حدیث پر سہو اور غفلت کا اعتراض ہو سکتا ہے، شبہات، تاویلات اور ناسخ منسوخ
کا احتمال ہوتا ہے اور یہ بھی ( کہا جا سکتا ہے ) کہ ثقہ نے غیر ثقہ سے لیا تھا
... اور اجماع ان باتوں سے محفوظ ہے۔ ‘‘
( علمی مقالات :
۵؍۹۶)
علی زئی کی ایک اور عبارت بھی
پڑھی لیں ۔وہ لکھتے ہیں :
’’ بات صحابی کی مانی جائے گی نہ کہ بعد میں آنے والے شخص
کی، جس کاقول و فعل بلکہ اس کی پوری ذات کسی صحابی کے قدموں کی خاک کے برابر بھی
نہیں ہے ۔ ‘‘
( نور العینین
صفحہ ۳۰۷ طبع ۲۰۰۶ء)
علی زئی نے اعتراف کیا کہ صحابہ کرام
تین طلاقوں کو تین کہتے ہیں اور یہ بھی اعلان کر دیاکہ صحابہ کرام کے مقابلہ میں
بعد والوں کی بات نہیں مانی جائے گی کیوں کہ بعد والے لوگ کسی صحابی کے قدموں کی
خاک کے برابر بھی نہیں۔
حافظ صلاح
الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِقدام کا پس منظر چوں کہ صحابہ
ٔ کرام کے علم میں تھا ، اس
لیے اس وقت صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہم نے بھی سکوت اختیار فرمایا۔‘‘
(ایک مجلس میں
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ۴۶ )
حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’چوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا،اس لئے
انہوں نے بھی اس [سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ (ناقل ) ]پر خاموشی اختیار کی
۔‘‘
( اہلِ حدیث اور
علمائے حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۶۶)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ
لکھتے ہیں:
’’ فَھُؤُلَاءِ
الصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ قَائِلُوْنَ وَابْنُ عَبَّاسٍ، ابن عباس سمیت سب صحابہ کرام
اکٹھی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں۔
( الاستذکار :۶؍۱۷۸)
اجماع صحابہ کی مخالفت کو اسلام
کی روح قرار دینے کی جسارت
بعض غیرمقلدین عجیب کش مکش کا شکار
ہیں انہیں یہ تسلیم ہے کہ تین طلاق کے تین ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ جب یہ
مان لیا تو اگلا سوال اٹھنا تھا کہ تم کیوں اس اجماع کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو ؟
تو اس کے جواب میں جسارت کر ڈالی کہ چوں کہ اجماعِ صحابہ کی مخالفت مضر نہیں،اس
لیے اس کے برعکس موقف اپنانا درست بلکہ یہ اسلام کی روح ہے۔
چنانچہ
پروفیسر قاضی مقبول احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اجماع صحابہ بعض معاملات میں
حجت نہیں ہے ایسا اجماع وقتی قانون کی وجہ سے تھا مثلاً...
حضرت عمر ؓ نے ام ولد لونڈی کی
بیع کی ممانعت کر دی ۔ تین طلاقوں کو نافذ کر دیا۔ شراب نوشی کی سزا چالیس سے
بڑھاکر اسی کوڑے کر دی۔ یہ اور اس کے قسم کے قانونی اجتہادات پر ایک عہد میں صحابہ
کا اجماع ہوا جو صرف وقتی قانونی اجماع تھا ۔ اس اجماع کے خلاف قانون سازی ہو سکتی
ہے ۔ ان کا یہ اجماع ایک وقتی مصلحت اور ضرورت کے تحت تھا۔ ہر خلیفہ اور ہر حکومت
اپنی ضرورت مصلحت کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے، یہی اسلام کی روح ہے۔ تعزیراتی
سزاؤں
میں صحابہ کا اجماع حجت نہیں
ہے۔‘‘
( اسلام اور اجتہاد صفحہ ۴۸، مکتبہ قدوسیہ لاہور )
پروفیسر صاحب نے اس عبارت میں اجماع
صحابہ کرام کی مخالفت کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے ’’ اسلام کی روح ‘‘ تک کہہ
دیا ۔افسوس !!
باب نمبر:۳
تابعین کا مسلک
ابو حمزہ عبد
الخالق صدیقی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ تابعین عظام رحمہم اللہ
کا گروہ بھی قابلِ اقتداء ہے کیوں کہ وہ خیرالقرون میں شامل ہیں اور انہوں نے علم
بالواسطہ صحابہ کرام سے سیکھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پروردہ آغوشِ رسالت
تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے : ﴿خیرکم قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ﴾تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے
کے ہیں ، (یعنی صحابہ کرام ) پھر وہ لوگ جوان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین ) پھر
وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں گے۔ (یعنی تابعین ) ‘‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۳۱،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
ابو حمزہ صاحب نے آگے لکھا:
’’ قارئین کرام! تابعین عظام رحمہم اللہ
نے علوم نبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا تھا، اور جو کچھ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم نے انہیں بتلایا ، وہ اُس پر عمل پیرا رہے ۔‘‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۳۴،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
حکیم محمد اشرف سندھوغیرمقلد نے
لکھا:
’’صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا درجہ ہے
لہذا اُن کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔‘‘
( اکمل البیان
فی شرح حدیث نجد قرن الشیطان صفحہ۳۳،دار الاشاعت اشرفیہ سندھو بلوکی ضلع قصور )
تابعین کی بابت مذکورہ تاثرات پڑھنے
کے بعد جانیے کہ تابعین عظام ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین
ہی مانتے تھے ۔جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے بیان کیا بلکہ خود متعدد غیرمقلدین نے
بھی تسلیم کیا کہ تابعین کا یہی مسلک تھا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید
بن جبیر ، عطاء بن ابی رباح ، مجاہد، عکرمہ، عمرو بن دینار، مالک بن الحویرث ،
محمد بن ایاس بن بکیر اور معاویہ بن ابی عیاش الانصاری ، تمام ( ثقہ و مشہور )
راوی حضرت ابن عباس سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار
دیا ہے۔
( سنن الکبری للبیہقی :۷؍۲۳۸)
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ نے مسئلہ تین طلاق پر مذاہب بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’ پہلا مذہب یہ ہے کہ تینوں ہی واقع ہو جائیں گی ، حضرات
ائمہ اربعہ ،جمہور تابعین اور اکثریت سے حضرات صحابہ کرام کا یہی قول اور مسلک ہے
۔‘‘
( زاد المعاد
:۴؍۵۴ بحوالہ عمدۃ الآثاث صفحہ ۳۱)
قاضی محمد بن شوکانی (المتوفی ۱۲۵۰ھ) غیرمقلد
کہتے ہیں:
جمہور تابعین اور حضرات صحابہ کرام کی اکثریت اور ائمہ
مذاہب اربعہ اور اہل بیت کا ایک طائفہ جن میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب
بھی ہیں یہی مذہب ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
( نیل الاوطار : ۶؍۲۴۵،بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۷)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا
تین کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ و تابعین نے یہی
فتویٰ دینا شروع کر دیا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی
۵؍۲۹۴)
امین صاحب نے اعتراف کرلیاکہ عام
صحابہ و تابعین کا یہی فتویٰ تھاکہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ۔
خرم شہزاد
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بے شمار تابعین سے ترک رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ
فاتحہ نہ پڑھنا ،فجر کی دو سنت (صلوۃ الفجرکی جماعۃ کے ہوتے ہوئے) پڑھ کر صلوۃ فجر
کی جماعۃ میں شامل ہونا، اور ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے طلاق کا
واقع ہو جانا، اور سجدوں میں رفع یدین کرنا وغیرہ بھی صحیح ثابت ہیں۔ ‘‘
( کیا خصی جانور کی قربانی سنت ہے ؟ صفحہ ۳۳)
خرم شہزادصاحب غیرمقلد ہونے کے ساتھ
ساتھ مشہور غیرمقلد حافظ زبیر علی زئی کے شاگرد ہیں جیسا کہ انہوں نے خود ہی شاگرد
ہونے کا اعتراف کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ راقم الحروف کے استاذِ محترم محدث العصر شیخ الحدیث حافظ
زبیر علی زئی رحمہ اللہ۔ ‘‘
( کیا خصی جانور
کی قربانی سنت ہے ؟ صفحہ ۴۴)
مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو اہلِ حدیث ایک ہی رجعی طلاق قر
ار دیتے ہیں ...لیکن جمہور صحابہ ،تابعین اور ائمہ اربعہ کایہ مذہب بتلایا جاتا ہے
کہ وہ اس طلاق کو طلاق بائنہ مغلظہ کہتے ہیں اور عورت کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
( شرعی داڑھی صفحہ ۸۳، شائع کردہ مکتبہ دار الحدیث راجو
وال )
تنبیہ:
حضرت علامہ عبد الغفار ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا ایک قلمی مضمون عنایت فرمایا جس میں
تین طلاقوں کے تین ہونے پر تابعین کے اقوال و فتاوی ہیں۔ ذیل میں وہ مضمون نقل کیا
جاتا ہے۔ اللہ انہیں بہترین جزا عطاکرے، آمین۔ اس باب میں مجھے کچھ لکھنا ہوا تو
فائدہ کے عنوان سے لکھوں گاان شاء اللہ، جس سے امتیاز ہوگا کہ فائدہ کے عنوان والی
عبارت میری ہے ۔ اتنی تمہید کے بعد اب ہم کچھ تابعین کے فتاوی و اقوال نقل کرتے
ہیں وباللہ التوفیق۔
(۱)سیدنا امام ابراہیم نخعی
رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ
الْمُحَدِّثُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِیِّ عَنِ الْحَسَنَ وَ عَنْ اَبِیْ
مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ اِذَا طَلَّقَ الرِّجُلُ ثَلاثًا وَّ لَمْ
یَدْخُلْ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَاِنْ قَالَ
اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ فَقَدْ بَانَتْ بِالْاُوْلٰی
وَلَیْسَتِ الثِّنَتَانِ بِشَیْ ءٍ قَالَ السَّفْیَانُ وَھَوَالَّذِیْ نَاخُذُ
بِہٖ۔
( مصنف عبد الرزاق :۶؍۳۳۴رقم: ۱۱۰۶۸، ومن طریق آخر صفحہ ۳۳۶رقم
۱۱۰۸۲ واسنادہ صحیح )
یہ اثر سنن سعید بن منصور :
۱؍۲۶۵، ۲۶۶اور مصنف ابن ابی شیبہ : ۴؍۱۹ میں بھی ہے ۔
ترجمہ: ابراہیم نے کہا: جس وقت آدمی نے تین طلاقیں دی ہوں
جب کہ ہم بستری نہ کی ہو۔ تو وہ عورت اس سے جدا ہو گئی یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند
سے نکاح کرے۔ اور اگر اس نے کہا : تو طلاق ولی ہے، تو طلاق ولی ہے، تو طلاق ولی
ہے۔ تو پہلی طلاق کے ساتھ جدائی ہوجائے گی اور دوسروں دو طلاقیں کچھ نہیں ہوں گی۔
سفیان نے کہا اسی بات کو ہم لیتے ہیں۔
تحقیق السند
سند کے رواۃ
کی توثیق درج ذیل ہے ۔
(۱)امام عبد
الرزاق رحمہ اللہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ للذھبی : ۱؍۲۶۶، سیر اعلام
النبلاء للذھبی : ۸؍ ۲۴۷)
(۲)سفیان
ثوری یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۱؍۲۲۷و تذکرۃ الحفاظ
للذھبی : ۱؍۱۵۱)
(۳)حسن بن
عبید اللہ الثقفی یہ صحیح مسلم و سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ صالح اور فقیہ
راوی ہیں۔
( تہذیب الکمال للمزی :۶؍۱۹۹، سیر
اعلام النبلاء للذھبی :۶؍۲۷۸)
(۴)ابو معشر
یہ صحیح مسلم ،ابوداود ، ترمذی اور نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ ، صالح، متقن اور
فقیہ راوی ہیں۔
( الثقات
للعجلی:۱؍۱۶۸،
تہذیب الکمال: ۹؍۵۰۴)
(۵)ابراہیم
نخعی رحمہ اللہ بخاری، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۸؍۱۰۴،تذکرۃ الحفاظ
للذھبی : ۱؍۵۹)
(۲)سیدناامام سعید بن المسیب
رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنْ
مَعْمَرٍ عَنْ قَتَادَۃَ عَنِ ابْنِ الْمُسَیِّبِ قَالَ اِذَا طَلَّقَ الرَّجُلُ
الْبِکْرَ ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
(مصنف عبد
الرزاق :۶؍۳۳۲،حدیث :۱۰۶۶ ۱)
ترجمہ: ابن المسیب نے فرمایا: جب آدمی اپنی کنواری بیوی کو
تین طلاقیں دے دے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر
لے ۔
تحقیق السند
اس اثر کے سب
رواۃ قابل اعتماد ہیں ۔
(۱)امام عبد
الرزاق رحمہ اللہ کے متعلق پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔
(۲)امام معمر
رحمہ اللہ کتب ستہ کے ثقہ راوی ہیں۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۲؍۱۰۲، تذکرۃ الحفاظ :
۱؍۱۴۲)
(۳)امام
قتادہ بن دعامہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ راری ہیں ۔
(سیر اعلام النبلاء للذھبی ج... ص ۲۶۹،تہذیب
لابن حجر : ۸؍۳۵۱)
(۴)سعید ابن
المسیب المدنی بخاری، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء للنووی: ۱؍۶۱۹،تہذیب الکمال للمزی: ۱۱؍۶۶، تذکرۃ الحفاظ للذھبی :
۱؍۴۴، سیر اعلام النبلاء : ۴؍۲۱۷)
(۳)سیدنا امام زہری رحمہ اللہ
کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ عَبْدُ الْاَعْلٰی عَنْ
مَعْمَرٍ عَنِ الزُّھْرِیِ فِیْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا
جَمِیْعًا...فَقَالَ فَقَدْ عَصٰی رَبَّہٗ وَبَانَتْ مِنْہُ امْرَاَتُہٗ۔
(مصنف ابن ابی
شیبہ : ۴؍۱۱ )
ترجمہ: زہری سے روایت ہے اس آدمی کے بارے میں جس نے اپنی
بیوی کو تین طلاقیں اکھٹی دی ہوں۔فرمایا: اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی
بیوی سے اس جدائی ہو گئی ۔
یہ اثر الاستذکار (۶؍۵) میں بھی
ہے ۔
تحقیق السند
(۱)ابن ابی
شیبہ بخاری ،مسلم کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ للذھبی: ۲؍۱۶،
سیر اعلام النبلاء للذھبی : ۱۱؍ ۱۲۱)
(۲)عبد
الاعلیٰ ،بخاری ، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور محدث، ثقہ، حافظ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۲۱۷،سیر
اعلام النبلاء : ۹؍۶۴۲)
(۳)معمر کا
تذکرہ پہلے ہو چکا ہے کہ ثقہ راوی ہے ۔
(۴)امام زہری رحمہ اللہ یہ کتب ستہ کے راوی ہیں
اور ثقہ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ للذھبی : ۱؍۸۹م،
تہذیب لابن الحجر: ۹؍۴۴۵)
فائدہ:
مولانا محمد جونا گڑھی کی کتاب ’’نکاح
محمدی صفحہ ۲۱ ‘‘ کے حاشیہ میں ہے کہ کسی نے امام زہری رحمہ اللہ سے باکرہ کو دی
گئی تین طلاقوں کو متعلق پوچھا تو انہوں نے حضرات صحابہ کرام :عبد اللہ بن عباس ،
ابوہریرہ اور عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہم کا فتوی سنا دیا کہ بغیر دوسرے شوہر
سے شادی کئے وہ حلال نہیں ہوسکتی۔ یہ اَثر صحابہ کرام کے آثار میں سیدناابو ہریرہ
رضی اللہ عنہ کے اَثرکے تحت ہم نقل کر چکے ہیں۔
(۴)سیدنا شریح رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ
نَا وَکِیْعٌ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ عَنِ الشَّعْبِیِّ عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ رَجُلٌ
اِنِّیْ طَلَّقْتُھَا مِائَۃً قَالَ بَانَتْ مِنْکَ بِثَلَاثٍ وَّسَائِرُھُنَّ
اِسْرَافٌ وَ مَعْصِیَۃٌ ۔
(مصنف ابن ابی
شیبہ : ۴؍۱۳ )
ترجمہ:
ایک آدمی نے کہا : میں نے اسے سو طلاقیں دی ہیں شریح نے فرمایا: تین طلاقوں کی وجہ
سے جدا ہوچکی اور باقی ساری طلاقیں اسراف اور گناہ ہے ۔
تحقیق السند
(۱)امام ابن
ابی شیبہ رحمہ اللہ کے متعلق اوپر گزرچکا کہ انتہائی ثقہ راوی ہیں ۔
(۲)وکیع بن
الجراح بخاری ،مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۲؍۱۴۳،تذکرۃ الحفاظ
للذھبی: ۱؍۲۷۳)
(۳)اسماعیل
بن ابی خالد الکوفی یہ بھی صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور
ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء : ۱؍۱۷۱، تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۱۱۵)
(۳)امام عامر
شعبی رحمہ اللہ ۔یہ بھی بخاری و مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ، ثبت اور
فقیہ ہیں۔
(تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۱۶۳، سیر اعلام النبلاء :
۴؍۲۹۴)
(۴)شریح
الکوفی۔یہ الادب المفرد للبخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور الفقیہ
، رجل صالح ثقہ اورصحیح الحدیث راوی ہیں۔
( سیر اعلام النبلاء : ۴؍۱۰۷،
تہذیب لابن حجر : ۴؍۳۳۰)
فائدہ:
ثَنَا اَبُوْ سَعِیْدٍ الاَشْج ثَنَا اَبُوْ خَالِدٍ عَنْ اِسْمَاعِیْلَ عَنِ
الشَّعْبِیِّ عَنْ شُرَیْحٍ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ
امْرَاَتِیْ مِائَۃَ فَقَالَ اَمَّا ثَلَاثٌ فَلَکَ وَ سَبْعَۃٌ وَّ تِسْعِیْنَ
فَوَضِیْعَۃٌ ۔
ترجمہ:شعبی شریح سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی آیا اور کہا
میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی ہیں۔شریح نے فرمایا تین تو تیری ہیں ستانوے ضائع
ہیں۔
(جز علی بن محمد الحمیری صفحہ ۳۷، حدیث :۴۳
)
شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلدحاشیہ میں اس اثر کے تحت لکھتے ہیں :
’’ رجالہ ثقات
ابو خالد لم ینفرد بہ‘‘ اس کے راوی قابل اعتماد ہیں ابو خالد یہاں متفرد نہیں ہے
۔
(جز علی بن
محمد الحمیری صفحہ ۳۷، حدیث :۴۳ )
(۵)سیدنا امام شعبی رحمہ اللہ
کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ ابْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ قَالَ عَبْدَۃُ بْنُ سُلَیْمَانَ عَنْ
عَاصِمٍ عَنِ الشَّعْبِیِّ فِی الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا قَبْلَ
اَنَْ یَّدْخُلَ بِھَا قَالَ لَا تَحِلُّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
(مصنف ابن ابی
شیبہ : ۴؍۱۹ )
ترجمہ: جو آدمی ہم بستری سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں
دے دیتا ہے کے بارے میں شعبی نے فرمایا: وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک دوسرے
خاوند سے نکاح کر لے ۔
تحقیق السند
(۱،۲)امام ابن ابی شیبہ اور امام شعبی کا تذکرہ
پہلے ہوچکا ہے ۔
(۳)عبدۃ بن
سلیمان الکلابی الکوفی ، یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم و سنن اربعہ کے راوی ہیں اور
ثقہ ، رجل صالح ہیں ۔
( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۲۶۷، تہذیب
الکمال : ۱۸؍۵۳۰)
(۴)عاصم
الاحول البصری ، یہ صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے ثقہ و حافظ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۱۳، سیر اعلام النبلاء :
۶؍۱۲)
(۶)سیدنا امام حکم رحمہ اللہ کا
اَثر
رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ الْمَنْصُوْرِ
قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا مطرف عَنِ الْحَکَمِ اَنَّہٗ قَالَ اِذَا قَالَ ھِیْ
طَالِقٌثَلاَثًا لَمْ تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَاِذَا
قَالَ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ بِانَتْ بِالْاُوْلٰی وَلَمْ
یَکُنِ الْاُخْرَیَیْنِ شَیْ ءٌ۔
(سنن سعید بن
منصور :۱؍۲۶۶ حدیث: ۱۰۸۰ )
ترجمہ: حَکَم سے روایت ہے جب آدمی کہے : اسے تین طلاقیں ہیں
تو وہ اس کے لیے حلال نہیں یہاں تک دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔ اور جب کہے: تو
طلاق والی، تو طلاق والی، تو طلاق والی ہے تو پہلی طلاق کے ساتھ جدا ہو جائے گی
اور دوسری دوطلاقیں کچھ واقع نہیں ہوں گی۔
تحقیق السند
(۱)سعید بن منصور ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور
سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
(تذکرۃالحفاظ: ۲؍۵،تہذیب الکمال : ۱۱؍۷۷)
(۲)ہشیم ،
صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء :۲؍۱۳۸، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۸۲،
تہذیب الکمال : ۳؍۲۷۳)
(۳)امام مطرف
بن طریق الکوفی ، ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( سیر اعلام النبلاء :۶؍۱۲۷، تہذیب الکمال :
۲۸؍۶۲)
(۴)حکم بن
عتیبہ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۸۸،سیر اعلام النبلاء :
۵؍۲۰۸)
(۷)سیدنا امام سعید بن جبیر رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ الْمَنْصُوْرِ
قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا اَبُوْ بِشْرٍ عَنْ سَعِیْدٍ بْنِ جُبَیْرٍقَالَ
اِذَا قَالَ اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا لَمْ
تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
(سنن سعید بن منصور :۱؍۲۶۷ حدیث: ۱۰۸۷ )
ترجمہ: سعید بن جبیر سے روایت ہے جب آدمی اپنی غیر مدخولہ
بیوی سے کہے : تجھے تین طلاقیں ہیں تو وہ اس کے حلال نہیں یہاں تک دوسرے خاوند سے
نکاح کرلے ۔
تحقیق السند
(۱،۲)سعید بن
منصور اور ہشیم کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے ۔
(۳)امام ابو
بشر جعفر بن ایاس وھو ابن ابی وحشیۃ الواسطی ، یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور
سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ واثبت الناس
فی سعید بن جبیر ہیں۔
( تہذیب الکمال : ۵؍۵، تہذیب لابن حضر : ۲؍۸۳)
(۴)سعید بن جبیر الکوفی ، صحیح بخاری، صحیح مسلم
اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الکمال :۱۰؍ ۳۵۸، تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۶۰)
(۸)سیدنا امام حسن بصری رحمہ
اللہ کا اَثر
رَوَی الْاِمَامُ سَعِیْدُ بْنُ
الْمَنْصُوْرِ قَالَ ھُشَیْمٌ قَالَ اَنَا حُمَیْدٌ عَنِ الْحَسَنِ اَنَّہٗ قَالَ
فِیْمَنْ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ ٗ ثَلَاثًا قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا قَالَ
رَغِمَ اَنْفُہٗ لَمْ اَجِدْہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
( سنن سعید بن منصور : ۱؍۲۶۷)
ترجمہ: حسن نے اس آدمی کے متعلق فرمایا جس نے اپنی غیر
مدخولہ بیوی کو تین طلاقیں دی ہوں اس کی ناک خاک آلود ہو میں اس کے لیے کوئی چارہ
نہیں پاتا یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر لے۔
تحقیق السند
(۱،۲)سعید بن
منصور اور ہشیم کاتذکرہ پہلے ہوچکا ہے کہ یہ ثقہ ہیں ۔
(۳)حمید
الطویل ،، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقۃو صدوق و لاباس بہ ہیں۔
(تہذیب لابن حجر : ۳؍۳۸،تذکرۃ الحفاظ: ۱۱۱۴)
(۴)امام حسن
بصری رحمہ اللہ ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء :۱؍۱۶۱، تذکرۃ الحفاظ : ۱؍۵۷)
فائدہ :
یہاں سند میں حمید الطویل ہیں، ان کے متعلق شیخ
زبیر علی زئی غیرمقلد کا اِقتباس پڑھتے جائیں ۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ راقم الحروف نے حافظ ابن حجر اور ابو بکر البردیجی
وغیرہما پر اعتماد کرتے ہوئے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے حمید الطویل کی کئی معنعن
روایات کو ضعیف قرار دیا تھا ، لیکن اَب صحیح واسطہ اور خاص دلیل معلوم ہونے کے
بعد رجوع کرتا ہوں اور صحیح یہ ہے کہ حمید کی انس رضی اللہ عنہ سے معنعن روایت بھی
صحیح ہوتی ہے ۔ واللہ اعلم ۔‘‘
( علمی مقالات: ۵؍۲۱۷)
یہاں یہ
وضاحت مطلوب ہے کہ علی زئی صاحب نے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ وغیرہ پر اعتماد کرتے
ہوئے
حمید الطویل
کو مدلس بتایااوراس کی تدلیس کو مدار بنا کر کئی حدیثوں کی تضعیف کردی ۔ غیرمقلدین
کے ہاں یہ طرز عمل تقلید کہلائے گا یا کچھ اور ؟
(۹)امام حماد بن ابی سلیمان
رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ ابْنِ عُیَیْنَۃَ عَنْ مِسْعِرٍ
عَنْ حَمَّادٍ مِثْلَ قَوْلِھِمْ یَعْنِیْ اِذَا طَلَّقَ الْبِکْرَ ثَلَاثًا
فَجَمَعَھَا لَمْ تَحِلَّ لَہٗ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ فَاِنْ
فَرَّقَھَا بَانَتْ بِالْاُوْلٰی وَلَمْ تَکُنِ الْاُخْرَیَانِ شَیْئًا ۔
(مصنف عبد
الرزاق :۶؍۳۳۷،حدیث :۱۰۸۶ا )
ترجمہ: حماد نے فرمایا: جب آدمی اپنی کنواری بیوی کو تین
طلاقیں اکٹھی دیں تو وہ اس کے حلال نہیں یہاں تک وہ دوسرے خاوند سے نکاح کر لے ۔
پس اگر وہ اسے الگ الگ طلاقیں دے تو پہلی طلاق کے ساتھ جدا ہو جائے گی اور دوسری
دو واقع نہیں ہوں گی ۔
تحقیق السند
(۱)امام عبد
الرزاق رحمہ اللہ کے ثقہ ہونے کا تذکرہ پہلے ہو چکا ہے ۔
(۲)امام
سفیان بن عیینہ ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
(تہذیب الاسماء :۱؍۲۲۴، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۱۹۳)
(۳)مسعر بن
کدام الکوفی ، صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء : ۲؍۸۹، تذکرۃ الحفاظ:۱؍۱۴۱)
(۴)امام حماد
بن ابی سلیمان ، صحیح بخاری معلقا، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ
ہیں۔
( تہذیب الکمال: ۷؍۲۷۹، سیر اعلام النبلاء :
۵؍۲۳۱)
فائدہ:
سند میں سفیان بن عیینہ کا عنعنہ
ہے۔اس کے متعلق غیرمقلدین کی کتابوں کے حوالے پڑھ لیں۔
مولانا محمد گوندلوی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حافظ ابن حجر نے طبقات المدلسین میں ان کے پانچ مراتب
بیان کئے ہیں(۱)جس سے بہت کم تدلیس ثابت ہو جیسے یحی بن سعید انصاری ہیں۔ (۲) جس
کی تدلیس کو ائمہ حدیث نے برداشت کیا ہو اور اپنی صحیح میں اس سے روایت بیان کی ہو
کیوں کہ اس کی تدلیس اس کی مرویات کے مقابلہ میں کم ہے۔ اوروہ فی نفسہ امام ہے
جیسے ثوری ۔یا وہ ثقہ سے ہی تدلیس کرتا ہے جیسے کہ ابن عیینہ ہے۔ ‘‘
( خیر الکلام
صفحہ ۴۷،ناشر: مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ ، سن اشاعت: جنوری ؍۲۰۰۲ء )
گوندلوی صاحب دوسری جگہ لکھتے
ہیں:
’’ دوسرے طبقہ کے مدلسین کے متعلق حافظ ابن حجر نے لکھا ہے
:ائمہ حدیث نے ان کی تدلیس برداشت کی ہے ۔ اور ان کی حدیث صحیح سمجھی ہے کیوں کہ
یہ لوگ امام تھے اور تدلیس کم کرتے تھے جیسے امام ثوری ہیں یا صرف ثقہ سے تدلیس
کرتے تھے جیسے ابن عیینہ ہیں۔ طبقات المدلسین ص ۲۔‘‘
( خیر الکلام
صفحہ ۲۱۴،ناشر: مکتبہ نعمانیہ گوجرانوالہ ، سن اشاعت: جنوری ؍۲۰۰۲ء )
شیخ محمد خبیب اثری نے امام ابن حبان رحمہ اللہ
کے متعلق لکھا:
’’ ان کے ہاں جو مدلس
صرف ثقہ راوی سے تدلیس کرتا ہے، اس کی روایت سماع کی
تصریح کے بغیر بھی قبول کی جائے
گی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں:ایسا مدلس جس کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ صرف ثقہ
ہی سے تدلیس کرتا ہے تو اس کی روایت عدم صراحت سماع کے باوجود قبول کی جائے گی ۔
دنیا میں صرف سفیان بن عیینہ ایسے راوی ہیں، جو ثقہ متقن سے تدلیس کرتے ہیں ۔
سفیان بن عیینہ کی کوئی حدیث ایسی نہیں ہے ، جس میں وہ تدلیس کریں اور اسی حدیث
میں ان کے اپنے جیسے ثقہ راوی سے سماع کی وضاحت موجود ہوتی ہے ۔ (مقدمہ صحیح ابن
حبان :۱؍۹۰ ، الاحسان )‘‘
(مقالاتِ اثریہ
صفحہ ۲۰۸)
(۱۰)امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا
اثر
رَوَی الْاِمَامُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ
مُحَمَّدٌ ابْنُ الْحَسَنِ الشَّیْبَانِیُّ بَابُ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَاَتَہٗ
قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا ...طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا قَبْلَ
اَن یُّدْخِلَ بِھَا ...۔لَا یَنْکِحُھَا حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ قَالَ
مُحَمَّدٌ وَبِھٰذَا نَاخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَالْعَامَّۃِ مِنْ
فُقَھَائِنَا اَنَّہٗ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا جَمِیْعًا فَوَقَعْنَ عَلَیْھَا
جَمِیْعًا مَعًا۔
(مؤطااما م محمد :۱؍۱۹۶)
ترجمہ: جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے
چھوڑے تو وہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا یہاں تک وہ عورت دوسرے خاوند سے شادی کرلے۔
محمد نے کہا اسی بات کو ہم لیتے ہیں اور یہی ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول
ہے کہ اس نے تین طلاقیں اکھٹی دیں تو وہ سب ایک ساتھ میں واقع ہو جائیں گی۔
تحقیق السند
(۱)امام محمد
بن حسن شیبانی ، یہ مشہور جلیل القدر فقیہ ، امام ثقہ و صدوق ، شیخ الاسلام ہیں ۔
( تاریخ الاسلام : ۲؍۳۵۸، النجوم الزاہرۃ :
۲؍۱۳۰، تاریخ بغداد : ۲؍۵۶۱)
(۲)امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی مشہور امام ہیں ترمذی اور نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ
ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ :۱؍۱۷۶، سیر اعلام النبلاء:
۶؍۳۹۰، تہذیب الکمال للمزی: ۹؍۴۱۷،تہذیب لابن حجر
:۱۰؍۴۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر : ۱؍۵۶۳)
فائدہ ـ:۱
امام محمد رحمہ اللہ کی ثقاہت اور ان کامقام
غیرمقلدین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ عبد الرحمن معلمی (م:
۱۳۸۶ھ) لکھتے ہیں:
’’ وَاَنَّ
مُحَمَّدًا کَانَ مَع مَکَانَتِہٖ مِنَ الْفِقْہِ وَالسُّنَنِ وَالْمَنْزَلَۃِ
مَنَ الدَّوْلَۃِ وَکَثْترَۃِ الْاِتِّبَاعِ عَلٰی غَایَۃٍ مِّنَ الْاِنْصَافِ فِی
الْبَحْثِ وَالنَّظْرِ۔ ‘‘
( التنکیل :۱؍۴۲۳)
ترجمہ: امام محمدکو
فقہ اور سنت میں ایک مقام حاصل تھا ، نیز آپ حکومت کے ہاں قدرو منزلت اور بکثرت
اپنے پیرو کار بھی رکھتے تھے ۔ لیکن اس سب کے باوجود بحث و نظر میں آپ انتہائی
درجہ کے انصاف پسند تھے ۔
معلمی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ فَاَمَّا
مُحَمَّدُبْنُ الْحَسَنُ فَھُوَ اَجَلُّ وَاَفْضَلُ مِمَّا یَتَرَءَ یُ ۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ :
۱؍۴۹۲)
ترجمہ: امام محمد بن حسن کا
انتہاء جلیل القدر اور افضل ہونا شک و شبہ سے بالا ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے
شیخ معلمی کو ’’ ذہبی عصر حقا ‘‘ کا لقب درجہ دیا ہے ۔
علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقی (م
: ۱۳۳۲ھ) امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کی بابت لکھتے ہیں:
’’ فَقَدْ
لَیَّنَھُمَا اَھْلُ الْحَدِیْثِ کَمَا تَرٰی فِیْ ’’ مِیْزَانِ الْاِعْتِدَالِِ‘‘
وَلَعُمْرِیْ لَمْ یُنْصِفُوْھُمَا، وَھُمَا الْبَحْرَانِ الزَّاخِرَانِ
،وَآثَارُھُمَا تَشْھَدُ بِسِعَۃِ عِلْمِھِمَا وَتَبَحُّرِھِمَا بَلْ
بِتَقَدُّمِھِمَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنَ الْحُفَّاظِ ،وَنَاھِیْکَ ’’کِتَابُ
الْخِرَاجِ ‘‘ لِاَبِیْ یُوْسُفَ وَمُؤَطَّا لِلْاِمَامِ مُحَِمَّدٍ۔‘‘
( الجرح و التعدیل صفحہ ۳۱ ،طبع مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
ترجمہ: اما م ابو یوسف اور امام محمد کو (بعض )محدثین نے
کمزور قرار دیا ہے جیسا کہ آپ نے ’’میزان الاعتدال ‘‘ میں دیکھا ہے ،میری عمر
(عطاء کرنے والے )کی قسم ! ان محدثین نے ان دونوں اماموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا
حالاں کہ یہ دونوں علم کے موجزن سمندر ہیں، اور ان کے آثار (روایات ) ان کی وسعت
علم اور ان کے تبحر علمی پر گواہ ہیں ۔ ، بلکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ دونوں
حضرات اکثر حفاظ ِ حدیث پہ فوقیت رکھتے ہیں، آپ کو ( ان دونوں کے علمی مرتبے کو
پہنچاننے کے لیے ) امام ابویوسف کی ’’ کتاب الخراج ‘‘اور امام محمد کی ’’مؤطا ‘‘
ہی کافی ہیں۔
شیخ ناصرالدین البانی نے امام
محمد کی روایت کردہ حدیث کی سند کے متعلق لکھا:
’’ فَھَذَا سَنَدٌحَسَنٌ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ ۔‘‘
( ارواء الغلیل
:ٔ۳۳۶۳)
ترجمہ: اس حدیث کی سند ان شاء
اللہ حسن ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی نے شیخ البانی کو
’’امام المحدثین ‘‘ کہا ہے ۔
( حاشیہ :عبادات میں بدعات صفحہ
۱۲۸)
نامور غیرمقلد نواب صدیق حسن خان نے
بھی اپنی کتاب ’’ التاج المکلل ‘‘ میں امام محمد کے علمی مقام اور آپ کی تصانیف کی بڑی
تعریف کی ہے ۔دیکھئے التاج المکلل من جواھر مآثر
الطراز الآخر والاول ۔ (صفحہ۸۰)
واضح رہے کہ نواب صاحب کی یہ کتاب علم ِ حدیث
میں مہارت رکھنے والے اہل علم کے تذکرے پر مشتمل ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس کتاب
کے مقدمہ میں تصریح کی ہے ۔
مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی (م:
۱۳۷۵ھ ) اپنی کتاب ’’ علمائے اسلام ‘‘ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تذکرے میں
لکھتے ہیں:
’’ آپ سے بہت لوگوں نے فیض حاصل کیا اور آپ کے شاگرد امامت
کے بلند رتبوں تک پہنچے۔ چنانچہ ان میں سے امام ابویوسف قاضی القضاۃ ، اور امام
محمد، امام عبد اللہ بن مبارک اور زفر وغیرہم جلیل الشان امام آپ کے علمی کمالات
کے نمونے تھے ۔‘‘
(دو ماہی مجلہ
’’ ’ زمزم ‘‘ غازی پوری ج: ۸ ، ش ۳، ص ۱۵)
مولانا محمد اسماعیل سلفی (م: ۱۳۸۷ھ)
سابق امیر جمعیت اہلِ حدیث پاکستان نے امام ابو یوسف اور امام محمد کو امام بخاری
وغیرہ کبار ائمہ حدیث کے ساتھ شمار کرتے ہوئے لکھا:
’’ ائمہ حدیث بخاری، مسلم ، ابو داود ، ترمذی، ابن خزیمہ،
ابن جریر طبری ، ابو عبد الرحمن اوزاعی ، ابو یوسف ، محمد یہ سب اہلِ حدیث کے
مجتہد ہیں۔ ‘‘
(تحریک آزادی فکر صفحہ ۴۹۰)
نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں:
’’ امام محمد تو اکابر ائمہ سنت
(میں سے ) ہیں۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ ۸۰)
مولانا عطاء اللہ حنیف نے امام ابو یوسف اور آپ
کو ائمہ سلف میں شمار کرتے ہیں ، اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ:
’’ یہ دونوں امام ابوحنیفہ ؒ کے
قابل شاگرد تھے ۔‘‘
( حاشیہ حیات حضرت امام ابوحنیفہ صفحہ ۳۲۸)
امام محمد رحمہ اللہ کی توثیق کے
مذکورہ بالاحوالے بندہ نے حافظ ظہور احمد الحسینی دام ظلہ کی کتاب ’’ تلامذہ امام
اعظم ابوحنیفہ ‘‘سے نقل کئے ہیں۔
فائدہ:۲
یہاں سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
کا تذکرہ تابعی ہونے کی حیثیت سے آیا ہے۔ ان کی تابعیت پر حافظ ظہور احمد الحسینی
دام ظلہ کی کتاب ’’ امام ابوحنیفہ ؒ کی تابعیت ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
متعدد
غیرمقلدین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کا اعتراف کیا ہے مثلاً:
مولانا بد یع الدین راشدی ۔ (تنقیدِ سدیدصفحہ ۲۷۸،۳۵۴)
مولانا امین اللہ پشاوری ۔ (حقیقۃ
التقلید صفحہ ۴۲،۶۷،
۱۶۳)
مولانا عبد الغفار محمدی ۔ (۳۵۰ سوالات صفحہ۲۹۳، ۳۱۲، ۴۰۷)
مولانا عبد المنان نورپوری ۔ (مکالمات ِ نور پوری صفحہ ۵۳۴)
مولانا عبد المجید سوہدری ۔ (سیرۃ ِ ثنائی صفحہ ۵۶)
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی۔ (حاشیہ حیات امام ابوحنیفہ صفحہ۱۲۱)
مزید حوالہ جات بندہ کی زیر ترتیب
کتاب ’’ غیرمقلدین کا امام ابوحنیفہ ؒ کو خراجِ تحسین ‘‘ میں درج ہیں ۔یہ کتاب
مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے والحمد للہ۔
(جاری)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں