مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما , اہلِ بیت کا فتوی , صحابہ کرام کے موقف پر کچھ مزید حوالے , صحابہ کرام کا اجماع
مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ
عنہما
بعض لوگ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ وہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیتے تھے مگر
مولانا داود ارشد غیرمقلد نے صاف لکھ دیا کہ ان کی طرف منسوب تین کو ایک قرار دینے
کی روایتیں ضعیف ہیں چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ ہمیں اعتراف ہے کہ قصہ ابن عمر رضی اللہ عنہ میں مروی
صحیح حدیث میں صرف ایک ہی طلاق کا ذِکر ہے ، اور جن میں (تین )طلاقوں کا ذکر ہے وہ
روایات ضعیف ہیں ۔‘‘
( دین الحق :
۲؍۶۶۶)
اہلِ بیت کا فتوی
قاضی شوکانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
ترجمہ:’’ جمہور تابعین اور حضرات صحابہ کرام کی اکثریت اور
ائمہ مذاہب اربعہ اور اہلِ بیت بھی ہیں یہی مذہب ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی
ہیں ۔‘‘
( نیل الاوطار :۶؍۲۴۵)
صحابہ کرام کے موقف پر کچھ مزید
حوالے
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’بہر حال دوسرا مسلک ایک کلمہ سے تین طلاق کے واقع ہونے کا
ہے اس میں لوگوں نے اختلا ف کیا ہے ، اور اس میں چار مذہب ہیں پہلا مذہب یہ ہے کہ
تینوں واقع ہو جائیں گی ، حضرات ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین ؒ اور اکثریت سے صحابہ
کرام ؒ کا یہی قول اور مسلک ہے۔ ‘‘
( زاد المعاد
۴؍۵۴بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۲)
مولانا عبد القادر حصاروی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو اہلِ حدیث ایک ہی رجعی طلاق قر
ار دیتے ہیں ...لیکن جمہور صحابہ ،تابعین اور ائمہ اربعہ کایہ مذہب بتلایا جاتا ہے
کہ وہ اس طلاق کو طلاق بائنہ مغلظہ کہتے ہیں اور عورت کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
( شرعی داڑھی صفحہ ۸۳، شائع کردہ مکتبہ دار الحدیث راجو
وال )
غیرمقلدین صحیح مسلم کی حدیث ابن عباس رضی اللہ
عنہ کے متعلق کہتے ہیں کہ اس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہونے کا مسئلہ
بیان ہوا ہے۔ اس کے متعلق مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے لکھا:
’’ عموماً صحابہ کا عمل اس کے
برعکس ہے ۔‘‘
( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بعض[بلکہ سب ( ناقل)] صحابہ رضی اللہ عنہم ایک مجلس کی
تین طلاقوں کے وقوع
کے قائل رہے۔ ‘‘
(ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ: ۵۲)
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد
(ناظم جمعیت الِ حدیث بمبئی) لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ ہے کہ حضرت عمرؓ رضی اللہ عنہ کے اس حکم نامہ پر
عام صحابہ ؓ و تابعین نے محض سکوت اختیار کیا تھا ۔ اس کا یہ مطلب تھا کہ وہ حضرات
خلیفہ کو امت کی اپنی مصلحت و مفاد کا مجاز سمجھتے تھے۔‘‘
( مجموعہ مقالات دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۹۳ ،
ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
مختار صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ عام صحابہ ؓ نے جو حضرت عمرؓ کے ساتھ مدینہ منورہ میں
موجود تھے، آپ کے اس اجتہاد پر سکوت اختیار کیا ۔‘‘
( مقالات علمیہ در بارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ ۹۴)
جب کسی صحابی کے فتوی پر دوسرے صحابہ
کرام سکوت اختیار کریں۔ شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد کے بقول وہ صحابہ کرام کا اجماعی
مسئلہ ہوتا ہے۔چنانچہ وہ ایک مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’ چوں کہ صحابہ ...کے زمانے میں ان کا مخالف ظاہر نہیں
ہوا، لہٰذا اس پر اجماع ہے۔ ‘‘
( توضیح الاحکام
:۱؍۲۲۱)
علی زئی صاحب دوسری جگہ لکھتے
ہیں:
’’ اس کے خلاف کسی صحابی سے کچھ
ثابت نہیں،لہذا یہ اجماع ہے۔‘‘
( علمی مقالات :۶؍۳۴۹)
صحابہ کرام کا اجماع
باب :۱ کی ابتداء میں فتاویٰ ثنائیہ :
۲؍۲۱۹ کے حوالے سے مولانا شرف الدین دہلوی غیرمقلد کی عبارت تحریر ہو چکی ہے کہ
تین طلاقوں کے تین ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ اس طرح کا اعتراف شیخ زبیر علی
زئی غیرمقلد نے بھی کیاہے ۔
علی زئی صاحب نے امام شریح رحمہ اللہ کے فتوی
’’اکھٹی تین طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں ‘‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے لکھا:
’’قُلْتُ :وَصَحَّ بِنَحْوِ
الْمَعْنٰی عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَّغَیْرِہٖ مَنَ الصَّحَابَۃِ رَضِیَ اللّٰہُ
عَنْھُمْ اَجْمَعِیْنَ ، وَلَا یُعْرَفُ لَھُمْ مُخَالِفٌ فِیْ ٓاِیْقَاعِ
الثَّلَاثَ جَمِیْعًا فَھٰذَا اِجْمَاعٌ ۔
( حاشیہ جزء علی بن محمد الحمیری :۳۷تحت حدیث : ۴۳)
میں
کہتا ہوں : اور اسی طرح کا مفہوم ابن عباس وغیرہ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین سے
صحیح سند سے ثابت ہے اکھٹی تین طلاقوں کے وقوع کے بارے میں ان کا کوئی مخالف معلوم
نہیں،لہذا ایہ اجماعی مسئلہ ہے ۔
علی زئی یہ بھی لکھ چکے کہ اجماع کی حیثیت حدیث
سے زیادہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے تاویل مختلف الحدیث :۱۷۶سے امام ابن قتیبہ رحمہ اللہ
سے نقل کیا ہے:
’’ ہمارے نزدیک روایت سے زیادہ، اجماع سے حق ثابت ہوتا ہے ،
کیوں حدیث پر سہو اور غفلت کا اعتراض ہو سکتا ہے، شبہات، تاویلات اور ناسخ منسوخ
کا احتمال ہوتا ہے اور یہ بھی ( کہا جا سکتا ہے ) کہ ثقہ نے غیر ثقہ سے لیا تھا
... اور اجماع ان باتوں سے محفوظ ہے۔ ‘‘
( علمی مقالات :
۵؍۹۶)
علی زئی کی ایک اور عبارت بھی
پڑھی لیں ۔وہ لکھتے ہیں :
’’ بات صحابی کی مانی جائے گی نہ کہ بعد میں آنے والے شخص
کی، جس کاقول و فعل بلکہ اس کی پوری ذات کسی صحابی کے قدموں کی خاک کے برابر بھی
نہیں ہے ۔ ‘‘
( نور العینین
صفحہ ۳۰۷ طبع ۲۰۰۶ء)
علی زئی نے اعتراف کیا کہ صحابہ کرام
تین طلاقوں کو تین کہتے ہیں اور یہ بھی اعلان کر دیاکہ صحابہ کرام کے مقابلہ میں
بعد والوں کی بات نہیں مانی جائے گی کیوں کہ بعد والے لوگ کسی صحابی کے قدموں کی
خاک کے برابر بھی نہیں۔
حافظ صلاح
الدین یوسف غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اِقدام کا پس منظر چوں کہ صحابہ
ٔ کرام کے علم میں تھا ، اس
لیے اس وقت صحابۂ کرام رضی اللہ
عنہم نے بھی سکوت اختیار فرمایا۔‘‘
(ایک مجلس میں
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ۴۶ )
حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’چوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو معلوم تھا،اس لئے
انہوں نے بھی اس [سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ (ناقل ) ]پر خاموشی اختیار کی
۔‘‘
( اہلِ حدیث اور
علمائے حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۶۶)
امام ابن عبد البر رحمہ اللہ
لکھتے ہیں:
’’ فَھُؤُلَاءِ
الصَّحَابَۃُ کُلُّھُمْ قَائِلُوْنَ وَابْنُ عَبَّاسٍ، ابن عباس سمیت سب صحابہ کرام
اکٹھی تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں۔
( الاستذکار :۶؍۱۷۸)
اجماع صحابہ کی مخالفت کو اسلام
کی روح قرار دینے کی جسارت
بعض غیرمقلدین عجیب کش مکش کا شکار
ہیں انہیں یہ تسلیم ہے کہ تین طلاق کے تین ہونے پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ جب یہ
مان لیا تو اگلا سوال اٹھنا تھا کہ تم کیوں اس اجماع کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو ؟
تو اس کے جواب میں جسارت کر ڈالی کہ چوں کہ اجماعِ صحابہ کی مخالفت مضر نہیں،اس
لیے اس کے برعکس موقف اپنانا درست بلکہ یہ اسلام کی روح ہے۔
چنانچہ
پروفیسر قاضی مقبول احمد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اجماع صحابہ بعض معاملات میں
حجت نہیں ہے ایسا اجماع وقتی قانون کی وجہ سے تھا مثلاً...
حضرت عمر ؓ نے ام ولد لونڈی کی
بیع کی ممانعت کر دی ۔ تین طلاقوں کو نافذ کر دیا۔ شراب نوشی کی سزا چالیس سے
بڑھاکر اسی کوڑے کر دی۔ یہ اور اس کے قسم کے قانونی اجتہادات پر ایک عہد میں صحابہ
کا اجماع ہوا جو صرف وقتی قانونی اجماع تھا ۔ اس اجماع کے خلاف قانون سازی ہو سکتی
ہے ۔ ان کا یہ اجماع ایک وقتی مصلحت اور ضرورت کے تحت تھا۔ ہر خلیفہ اور ہر حکومت
اپنی ضرورت مصلحت کے مطابق قانون سازی کر سکتی ہے، یہی اسلام کی روح ہے۔ تعزیراتی
سزاؤں
میں صحابہ کا اجماع حجت نہیں
ہے۔‘‘
( اسلام اور اجتہاد صفحہ ۴۸، مکتبہ قدوسیہ لاہور )
پروفیسر صاحب نے اس عبارت میں اجماع
صحابہ کرام کی مخالفت کو نہ صرف جائز قرار دیا بلکہ اسے ’’ اسلام کی روح ‘‘ تک کہہ
دیا ۔افسوس !!
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں