نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , سیدناعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

 


 مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث 

  ( 25 ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)

مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ                                                                       (قسط:۵)


سیدناعبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ

مؤطا مالک میں ہے :

            ’’ ایک شخص عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا میں نے اپنی عورت کو دو سو طلاق دیں ۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا : لوگوں نے تجھ سے کیاکہا وہ بولا مجھ سے یہ کہا کہ عورت تیری تجھ سے بائن ہو گئی۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا سچ ہے جو شخص طلاق دے گا اللہ کے حکم کے موافق تو اللہ نے اس کی صورت بیان کر دی اور جو گڑ بڑکرے گا تاکہ ہم کو مصیبت اُٹھانا پڑے۔ وہ لوگ سچ کہتے ہیں عورت تیری تجھ سے جد اہو گئی ۔ ‘‘

( مؤطا مالک ترجمہ وحیدا لزمان )

 حافظ عمران ایوب لاہوری صاحب اس کی تخریج میں لکھتے ہیں:

’’ تحقیق : شیخ سلیم ہلالی اور شیخ احمد علی سلیمان نے اس کی سند کو صحیح کہا ہے ۔ ‘‘

 (مترجم مؤطا امام مالک : کتاب الطلاق ، باب ما جآ ء فی البتۃصفحہ ۵۶۹)

علامہ عبد الرشید عراقی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ حافظ ابن حبان ؒ ( م ۳۵۴ھ) فرماتے ہیں : امام مالک ؒ فقہائے مدینہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے رواۃ کے متعلق تحقیق سے کام لیا اور روایت حدیث میں جو ثقہ نہ ہوں ان کی روایت سے اعراض کیا ۔ وہ صحیح روایت کے علاوہ نہ کوئی روایت نقل کرتے ہیں اور نہ کسی غیر ثقہ سے حدیث بیان کرتے ہیں ۔ ‘‘

( کاروان ِ حدیث صفحہ ۳۵)

پھرعراقی صاحب نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے حوالہ سے لکھا:

            ’’ محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کتاب کی تمام روایات مالکؒ اور ان کے موافقین کی رائے میں صحیح ہیں۔ اور دوسروں کی رائے بھی اس سلسلہ میں یہی ہے کہ موطا کی مرسل و منقطع روایات کی سند دوسرے طرق سے متصل ہے ۔ پس اس میں کوئی شبہ نہ رہا کہ اس اعتبار سے وہ سب صحیح ہیں ۔ ‘‘     

 ( کاروان حدیث صفحہ ۳۷)

 علامہ وحید الزمان غیرمقلد نے مؤطامالک وغیرہ چند کتب کاتذکرہ کرکے کہاـ:

            ’’جن مفسدوں کا قول ان کتابوں کے خلاف ہو، ان کا قول انہی کے منہ پر پھینک ماریں۔‘‘

 ( رفع العاجۃ عن سنن ابن ماجۃ : ۳؍۳۹۱،مہتاب کمپنی لاہور )

            حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ حَدَّثَنَا اَبُوْمُعَاوِیَۃَ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اَتَاہٌ رَجُلٌ فَقَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ امْرَاَتِیْ تِسْعَۃً وَّتِسْعِیْنَ مَرَّۃً قَالَ فَمَا قَالُوْا لَکَ؟قَالَ قَالُوْا قَدْ حَرُمَتْ عَلَیْکَ قَالَ فَقَالَ عَبْدُ اللّٰہِ لَقَدْ اَرَادُوْا اَنْ یُبْقُوْا عَلَیْکَ بَانَتْ مَنْکَ بِثَلَاثٍ وَّسَائِرُھُنَّ عُدْوَانٌ ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۱، ح ۱۸۰۸۶ باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد)

            ترجمہ: ہمیں ابو بکرنے بیان کیا ،کہا ہمیں ابو معاویہ نے بیان کیا ، وہ اعمش سے ، وہ ابراہیم سے ، وہ عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہا : ایک آدمی ان کے پاس آیا ۔ کہا: میں نے اپنی بیوی کو ننانوے طلاقیں دی ہیں۔ فرمایا : لوگوں نے آپ سے کیا کہا؟عرض کیا: لوگوں نے کہا : وہ آپ پر حرام ہو چکی ۔ فرمایا : ان لوگوں نے آپ کے ساتھ نرمی کا ارادہ کیا ہے۔وہ تین طلاقوں کی وجہ سے تجھ سے جدا ہو گئی اور باقی طلاقیں سرکشی اور ظلم ہیں ۔

شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:

’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘

( حاشیہ صفحہ مذکورہ )

            حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ حَدَّثَنَاحَفْصٌ عَنِ الْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ مِائَۃَ تَطْلِیْقَۃٍ قَالَ حَرَّمَتْھَا ثَلَاثٌ وَسَبْعَۃٌ وَّ سَبْعُوْنَ عُدْوَانٌ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۱، ح ۱۸۰۸۷ باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد)

            ترجمہ: ابوبکرنے ہمیں بیان کیا، کہا ہمیں حفص نے بیان کیا۔ وہ اعمش سے، وہ ابر اہیم سے،وہ علقمہ سے، وہ عبد اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ ان سے ایک آدمی کے بارے میں پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دی تھیں فرمایا: اسے تین طلاقوں نے حرام کر دیا ہے اور ستانوے طلاقیں ظلم و سرکشی ہیں ۔

شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:

’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘

( حاشیہ صفحہ مذکورہ )

            حَدَّثَنَا اَبُوْبَکْرٍ قَالَ حَدَّثَنَاوَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ مَنْصُوْرٍ وَالْاَعْمَشِ عَنْ اِبْرَاھِیْمَ عَنْ عَلْقَمَۃَ قَالَ جَآءَ رَجُلٌ اِلٰی عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ اِنِّیْ طَلَّقْتُ امْرَاَتِیْ مَائَۃً فَقَالَ بَانَتْ مِنْکَ بِثَلَاثٍ وَسَائِرُھُنَّ مَعْصِیَۃٌ۔

(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۱، ح ۱۸۰۸۸ باب فی الرجل یطلق امراتہ مائۃ او الفا فی قول واحد)

             ترجمہ: ہمیں ابو بکر نے بیان کیا، کہا ہمیں وکیع نے بیان کیا ،وہ سفیان سے ، وہ منصور اور اعمش سے ، وہ ابراہیم سے ، وہ علقمہ سے ۔ انہوں نے کہا: ایک آدمی عبد اللہ کے پاس آیا کہا: میں نے اپنی بیوی کو سوطلاقیں دی ہیں ۔ فرمایا : وہ تین طلاقوں کی وجہ سے تجھ سے جدا ہوگئی اور ساری

طلاقیں گناہ ہیں ۔

شیخ ابو محمد اسامہ بن ابراہیم نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:

’’اسنادہ صحیح، اس کی سند صحیح ہے ‘‘

( حاشیہ صفحہ مذکورہ )

مولانا عبد الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’اسی طرح ایک اور صاحب اپنی بیوی کو دو سو طلاقیں دے کر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس فتویٰ پوچھنے تشریف لائے تھے۔ انہیں بھی آپ رضی اللہ عنہ نے یہی جواب [کہ بیوی جدا ہوگئی (ناقل )]دیا تھا ۔ موطا امام مالک ، کتاب الطلاق ‘‘

 (ایک مجلس کی تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ ۷۲ )

رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ہم معترف ہیں کہ بعض روایات میں ابن مسعود سے منقول ہے کہ ایک وقت کی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں ۔‘‘

( تنویرالآفاق صفحہ ۱۶۳)

 ابو الاقبال سلفی صاحب غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ابن مسعود ؓ سے سیاست ِ فاروقی کے پیشِ نظر دوسرا فتوی بھی مروی ہے ۔‘‘            

(مذہب حنفی کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۹)

شیخ یحی عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:

            ’’ ابن مسعود رضی اللہ عنہ غیر مدخولہ عورت کی تین طلاقوں کو بھی تین ہی قرار دیتے تھے جیسا کہ دیوبندی امام سر فراز صفدر دیوبند ی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فتویٰ نقل کرکے لکھتے ہیں اور ’’ طحاوی ‘‘ (۲؍۳۰) میں غیر مدخول بہا کے لفظ بھی ہیں۔ ( عمدۃ الاثات ، ص : ۷۳)جب کہ احناف کے ہاں غیر مدخولہ کو تین طلاق دی جائیں تو وہ پہلی سے جدا ہوجائے گی دوسری اور تیسری طلاق واقع نہیں ہوگی۔ ‘‘ 

(تحفۂ احناف صفحہ ۳۲۸)

            تنبیہ: غیر مدخولہ کو دی جانے والی تین طلاقوں کے الفاظ کو دیکھا جاتا ہے ان الفاظ کے مدنظر کبھی تین ہوتی ہیں اور کبھی ایک جیسا کہ مولانا داود ارشد غیرمقلد اور خود عارفی صاحب کی زبانی آگے ’’سیدنا عبد اللہ بن عمرو ابن عاص رضی اللہ عنہ کا فتویٰ‘‘ کے تحت آ رہا ہے لہٰذا یہ کہنا کہ یہ فتویٰ احناف کے خلاف ہے بلاوجہ خوش فہمی ہے۔ احناف کے بارے میں تو جو کہنا تھا کہہ دیا ۔ ساتھ ہی یہ بھی بتا دیتے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعور رضی اللہ عنہ کا مذکورہ فتوی غیرمقلدین کے خلاف ہے یا نہیں ؟

            حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تین طلاقوں کو تین ہی کہتے تھے جیسا کہ اوپر نقل ہو چکا ہے۔یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں ۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

            ’’ وَصَحَّ عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ الْقَوْلُ بِاللِّزَامِ وَ صَحَّ عَنْہُ التَّوَقُّفُ۔ ‘‘ ابن مسعود سے تین طلاقوں کے لازم کر دینے کا قول صحیح ہے۔ اور ان سے توقف کا قول بھی صحیح ہے۔

  ( زاد المعاد : ۴؍۶۲)

            توقف والی بات قابل تامل ہے خود حافظ ابن قیم رحمہ اللہ بلا شک کہہ کر سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تین طلاقوں کے تین ہونے کو منسوب کیاہے ۔


تبصرے

Popular Posts

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ   نے   امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب:  اسلامی تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ و علم میں ایسی بے مثال شخصیت تھے جن کی عظمت اور مقام پر محدثین و فقہاء کا بڑا طبقہ متفق ہے۔ تاہم بعض وجوہات کی بنا پر بعد کے ادوار میں چند محدثین بالخصوص امام بخاری رحمہ اللہ سے امام ابو حنیفہ پر جرح منقول ہوئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر وہ کیا اسباب تھے جن کی وجہ سے امام الحدیث جیسے جلیل القدر عالم، امام اعظم جیسے فقیہ ملت پر کلام کرتے نظر آتے ہیں؟ تحقیق سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ تک امام ابو حنیفہ کے بارے میں زیادہ تر وہی روایات پہنچیں جو ضعیف، منقطع یا من گھڑت تھیں، اور یہ روایات اکثر ایسے متعصب یا کمزور رواة سے منقول تھیں جنہیں خود ائمہ حدیث نے ناقابلِ اعتماد قرار دیا ہے۔ یہی جھوٹی حکایات اور کمزور اساتذہ کی صحبت امام بخاری کے ذہن میں منفی تاثر پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ اس مضمون میں ہم انہی اسباب کو تفصیل سے بیان کریں گے تاکہ یہ حقیقت واضح ہو سکے کہ امام ابو حنیفہ پر ا...