مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث , امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک , امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک, امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک , امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا مسلک
مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
باب نمبر:۴
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا
مسلک
امام محمد رحمہ اللہ نے سیدنا عمر رضی
اللہ عنہ کا غیرمدخولہ بیوی کے بارے میں اکٹھی تین طلاقوں کا فیصلہ نقل کرکے لکھا:
’’ بِھٰذَا
نَاْخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَالْعَامِّۃِ مِنْ فَقَھَائِنَا
لِاَنَّہُ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا جَمِیْعًا فَوَقَعْنَ عَلَیْھَا جَمِیْعًا مَعًا
وَلَوْ فَرَّقَھُنَّ وَقَعَتِ الْاُوْلٰی خَاصَّۃً لِاَنَّھَا بَانَتْ
بِالْاُوْلٰی قَبْلَ اَنْ یَّتَکَلَّمَ بَالثَّانِیَۃِ وَلَاعِدَّۃَ عَلَیْھَا۔
ترجمہ: ہم اسی کو لیتے ہیں اور ابوحنیفہ اور ہمارے عام
فقہاء کا یہی مذہب ہے کیوں کہ اس آدمی نے غیرمدخولہ بیوی کو بیک کلمہ تین طلاقیں
دی ہیں پس یہ تین طلاقیں اس پراکٹھی واقع ہو جائیں گی اور اگر تین طلاقیں جدا جد
کرکے دے تو وہ فقط پہلی طلاق واقع ہوگی کیوں کہ وہ عورت دوسری دو طلاقوں کے تلفظ
سے پہلے پہلی طلاق کے ساتھ جدا ہو جاتی ہے ۔ ( اور دوسری تیسری طلاق کے تلفظ کے
وقت وہ محل طلاق نہیں ) اور اس عورت پر عدت نہیں ہے ۔
( مؤطا امام محمد صفحہ ۲۶۳)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تین طلاق کو
تین سمجھتے تھے ، یہ بات کتاب الآثار میں بھی ہے ۔
( کتاب الآثار بروایۃ الامام محمد صفحہ ۱۲۰،۱۲۲)
درج ذیل غیرمقلد علماء نے امام محمد رحمہ اللہ
کی توثیق و تعریف لکھی ۔
شیخ عبد
الرحمن معلمی ۔ ( التنکیل : ۱؍۴۲۳...۴۹۲)
علامہ جمال
الدین قاسمی ۔ ( الجرح و التعدیل صفحہ ۳۱)
شیخ البانی ۔ (
ارواء الغلیل :۷؍۳۳۶)
مولانا میر
محمد ابراہیم سیالکوٹی ۔ ( علمائے
اسلام بحوالہ دوماہی زمزم غازی پورج:۸، ش ۳، ص ۱۵ )
مولانا محمد
اسماعیل سلفی ۔ ( تحریک آزادی فکر صفحہ
۸۶، ۴۹۰)
مولانا عطاء
اللہ حنیف ۔ ( حاشیہ حیات حضرت امام
ابو حنیفہ صفحہ ۳۲۸)
ان سب کی عبارات حضرت مولانا حافظ
ظہور احمد الحسینی دام ظلہ نے اپنی کتاب ’’ تلامذہ امام اعظم ابو حنیفہ کا محدثانہ
مقام صفحہ ۳۶۰ تا ۳۶۱میں نقل کر دی ہیں ۔بندہ نے اسی کتاب کے باب: ’’تابعین کا
مسلک ‘‘ والے باب میں اصل عبارات لکھ دی ہیں۔
مولانا عبد
الرحمن کیلانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام ابوحنیفہ ؒ نے بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ
کے مطابق فتویٰ دیا جو یہ تھا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں پڑ جاتی ہیں ۔‘‘
( آئینہ پرویزیت
صفحہ ۷۷۸، طبع مکتبۃ السلام )
امام مالک رحمہ اللہ کا مسلک
مؤطا مالک میں ہے کہ کسی نے غیرمدخولہ بیوی کو
تین طلاقیں دیں ۔وہاں الفاظ ’’ طَلَّقَ
امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا لَمْ یَدْخُلْ بِھَا ‘ ‘ہیں ۔یہ مسئلہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے پیش کیاگیا :
’’
فَقَالَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ الْوَاحِدَۃُ تُبِیْنُھَا
والثَّلَاثَۃُ تُحَرِّمُھَا حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَقَالَ ابْنُ
عَبَّاسٍ مَثْلُ ذٰلِکَ قَالَ مَالِکٌ وَعلٰی ذَلِکَ الْاَمْرُ عِنْدَنَا۔
(مؤطا مالک )
ترجمہ: تو ابوہریرہ نے فرمایا ایک طلاق ( غیر مدخولہ ) عورت
کو شوہر سے جدا کر دیتی ہے اور تین طلاقیں اس کو حرام کر دیتی ہیں یہاں تک وہ
دوسرے مرد سے نکاح کرے اور ابن عباس نے بھی اسی طرح فرمایا۔ مالک نے کہا : ہمارے
نزدیک بھی معاملہ اسی طرح ہے۔
علامہ وحید
الزمان غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’ کہا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اگر کوئی شخص کہے اپنی
عورت کو تو خلیہ ہے یا بریہ ہے تو تین طلاق پڑ جائیں گی اگر اس عورت سے صحبت کر
چکا ہے اور جو صحبت نہیں کی، اس کی نیت کے موافق پڑے گی ۔‘‘
( شرح مؤطا مالک صفحہ ۳۸۲)
امام شافعی رحمہ اللہ کا مسلک
امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ اِذَا قَالَ
الرَّجُلُ لِامْرَاَتِہٖ الَّتِیْ لَمْ یُدْخِلْ بِھَا اَنْتَ طَالِقٌ ثَلَاثًا
فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْہِ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ۔
( کتاب الام :۵؍۱۸۳)
ترجمہ: جب آدمی اپنی غیر مدخولہ بیوی سے کہے ’’ تجھے تین
طلاقیں ہیں ‘‘ پکی بات ہے کہ وہ اس پر حرام ہو گئی جب تک دوسرے آدمی سے نکاح نہ
کرے ۔
امام شافعی
رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’ وَلَوْقَالَ
لِلْمَرْاَۃِ غَیْرِ الْمَدْخُوْلِ بِھَا اَنْتِ طَالِقٌ ثَلَاثًا ...وَقَعْنَ
مَعاً حِیْنَ تَکَلَّمَ ...وَھٰکَذَا لَوْکَانَتْ مَدْخُوْلاً بِھَا۔
( کتاب الام :۵؍۱۸۳)
ترجمہ: اور اگر شوہر نے اپنی غیر مدخولہ بیوی کو کہا ’ ’
تجھے تین طلاقیں ہیں‘‘ تو تکلم کرتے ہی وہ واقع ہو جائیں گی ۔اور اسی طرح تینوں
واقع ہو جائیں گی اگر بیوی مدخولہ ہو۔
شیخ یحیٰ
عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام شافعی رحمہ اللہ : کے نزدیک عورت مدخولہ ہو یا غیر
مدخولہ اس کو دی گئی یکبارگی تین طلاق ہر حال (بِاَیِّ اَلْفَاظٍ کَانَتْ ) تینوں واقع ہو جاتی ہیں اور تینوں کا وقوع سنت ہے ۔ ‘‘
( تحفۂ احناف
صفحہ۳۴۸)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا
مسلک
امام احمد بن
حنبل رحمہ اللہ کے شاگرد کہتے ہیں:
’’سَاَلْتُہٗ عَنْ رَجُلٍ
طَلَّقَ ثَلَاثًا وَھُوَیَنْوِیْ وَاحِدَۃً قَالَ ھِیَ ثَلَاثٌ۔‘‘( مسائل
الامام احمد بن حنبل روایۃ ابن ابی الفضل صالح :۱؍۴۶۱)
ترجمہ: میں نے اُن سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا جس نے تین
طلاقیں دیں جب کہ وہ نیت ایک کی کرتا ہے فرمایا: یہ تین ہوں گی ۔
’’ قُلْتُ
طَلَّقَ وَھُوَیَنْوِی ثَلَاثًا قَالَ ھِیَ وَاحِدَۃٌ قَالَ اِنَّماَ النِّیَّۃُ
فِیْمَا خَفِیَ وَلَیْسَ فِیْمَا ظَھَرَ ۔‘‘
( مسائل الامام احمد بن حنبل روایۃ ابن ابی الفضل صالح
:۱؍۴۶۱، مسئلہ : ۴۷۷)
ترجمہ: میں نے کہا
:آدمی نے (ایک ) طلاق دی جب کہ وہ نیت تین کی کرتا ہے فرمایا: یہ ایک ہے فرمایا:
نیت تو مخفی بات میں معلوم کی جاتی ہے ، نہ کہ اس بات میں جو ظاہر ہو۔
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے بیٹے عبد اللہ
کہتے ہیں :
’’ وَقَالَ
اَبِیْ وَاِذَا قَالَ قَدْ طَلَّقْتُکُنَّ ثَلَاثًا فَقَدْ وَقَعَ عَلَیْھِنَّ
کُلُّھُنَّ ثَلَاثًا ثَلَاثًا۔
( مسائل احمد بن
حنبل :۱؍۳۷۲ )
ترجمہ: میرے باپ نے کہا جب آدمی متعدد بیویوں کو
کہے ’’ میں نے تمہیں تین طلاقیں دیں ‘‘ تو ان سب پر تین تین طلاقیں واقع ہو جائیں
گی ۔
شیخ امین اللہ پشاوری غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ امام احمد بن حنبل ؒ جو سنت کو جمع کرنے اور اس پر تمسک
کرنے کے لحاظ سے دیگر تمام ائمہ پر فوقیت و فضیلت رکھتے ہیں اور جن کی احتیاط کا
یہ عالم ہے کہ وہ احادیث میں کتب و ابواب لکھنے میں بھی کراہت سمجھتے ہیں کیوں کہ
اس کا تعلق مصنف کی رائے و تصرف سے ہوتا ہے۔‘‘
( فتاوی الدین
الخالص :۱؍۱۰)
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ بقول
پشاوری صاحب رائے کے اس قدر مخالف تھے کہ کتب حدیث میں باب قائم کرنا بھی مکروہ
جانتے تھے تو تین طلاق کو تین کہنے میں بھی یقینا انہوں نے رائے کی بجائے حدیث ہی
کو قبول کیا ہوگا ۔
مولانا عطاء
اللہ حنیف بھوجیانی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے معمولات و فتاویٰ
کی بنیاد عام طور پر حدیث و اثر پرہوتی ہے ۔ ‘‘
( آثار حنیف
بھوجیانی :۱؍۱۳۳، المکتبۃ السلفیۃ شیش محل روڈ لاہور)
حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ نے تسلیم کیاہے کہ ائمہ اربعہ کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں
تین ہی واقع ہوتی ہیں۔ ( زاد المعاد :۴؍۵۴ بحوالہ عمدۃ الآثاث صفحہ ۳۱)
غیرمقلدین کی گواہیاں کہ ’’
ائمہ اربعہ تین طلاقوں کو تین مانتے ہیں ‘‘
مولانا عبد
اللہ روپڑی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ائمہ اربعہ ؒ اور جمہور تین طلاق واقعہ ہونے کے قائل
کیوں ہوئے؟ بڑی وجہ اس کی یہی ہے کہ روای حدیث ابن عباس ؓ کا فتویٰ ہے۔ ‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث ۱؍۵۰۴)
روپڑی صاحب دوسرے مقام پر لکھتے
ہیں:
’’ اگر تین کی تعداد ایک مجلس میں یا متفرق طور پر پوری
ہوگئی تو ائمہؒ اربعہ کے نزدیک وہ عورت حرام ہو چکی ہے جب تک دوسری جگہ نکاح پڑھ
کر دوسرا خاوند ہمبستری نہ کرلے پہلے کے لئے حلال نہیں ۔‘‘
( فتاویٰ اہلِ حدیث ۲؍۴۹۵)
امیر یمانی محمد بن اسماعیل(
وفات: ۱۱۷۲ھ)کہتے ہیں:
’’ اہلِ مذاہب اس امر پر متفق ہیں کہ لگاتار جو تین طلاقیں
دی جاتی ہیں تو وہ تین ہی ہوتی ہیں۔
( سبل السلام :۳؍۲۱۵)
یمانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ فقہاء اربعہ اور جمہور سلف و
خلف کا یہی مسلک ہے ۔ ‘‘
( سبل السلام :۲؍۲۱۴)
یمانی مذکور کو غیرمقلدین اپنا
ہم مسلک اہلِ حدیث کہا کرتے ہیں ۔
خواجہ محمد قاسم غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ مثلاً طلاق ثلاثہ کو لے لیجئے ائمہ اربعہ اور امام بخاری
تک اس کے قائل ہیں مگر ہم قائل نہیں۔‘‘
( تعویذ اور دم صفحہ ۱۷)
مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ جمہور علماء و ائمہ اربعہ کا تو یہ قول ہے کہ تین طلاقیں
پڑ جائیں گی۔‘‘
( شرح بخاری داود راز :۷؍۳۳)
مولانا عبد القادر حصاروی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ائمہ اربعہ کایہ مذہب بتلایا جاتا ہے کہ وہ اس کو طلاق
طلاق بائنہ مغلظہ کہتے ہیں اور عورت کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
( شرعی داڑھی صفحہ ۸۳، شائع کردہ مکتبہ دار الحدیث راجو
وال )
مولانا محمد الیاس اثری غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ احناف ، شوافع، موالک اور حنابلہ وغیرہ سب کا خیال ہے کہ
ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی ہیں ۔‘‘
( تقریظ احسن الابحاث صفحہ ۸)
اثری صاحب ’’وغیرہ‘‘ کا مصداق
بتا کر تعین کر دیتے تو اچھا ہوتا۔
حکیم محمد اشرف سندھو غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ مسلک اہلِ حدیث کے مسائل میں صرف دو ایک ہی ایسے مسئلے
ہیں جو کہ ظاہر حدیث کی بناء پر مذاہب اربعہ کے مسائل سے مختلف ہیں مثلاً مدرک
رکوع کو دوبارہ رکعت پڑھنا اور ایک وقت کی تین طلاق کو صرف ایک طلاق ماننا ۔‘‘
( تاریخ
التقلید صفحہ ۱۶۰)
غیرمقلدین
کے صرف دو مسائل مذاہب اربعہ سے مختلف ہیں والے دعویٰ سے ہمارا اتفاق نہیں۔ البتہ
یہ بات یقینا درست ہے کہ مسئلہ تین طلاق میں ان کی رائے مذاہب اربعہ کے خلاف ہے۔
مولانا ارشاد الحق اثری غیرمقلد نے
صحیح مسلم کی تین طلاق سے متعلقہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے
ہیں:
’’ نہ ائمہ اربعہ کا مشہور
روایت کے مطابق اس پر عمل ہے۔ ‘‘( پرویزی تشکیک کا علمی محاسبہ صفحہ ۹۶)
مولانا عبد التواب ملتانی
غیرمقلد لکھتے ہیں :
’’ رہا یہ امر کہ یکجا تین طلاق کا حکم کیا ہے سو جمہور
علماء و ائمہ اربعہ اس پر ہیں کہ تینوں طلاق پڑ جاتی ہیں۔ ‘‘
( شرح بلوغ المرام اردو صفحہ۳۴۸)
رانا شفیق الرحمن خان پسروری
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ چاروں امام متفق ہیں کہ طلاق بدعت واقع ہو جاتی ہے۔ ‘‘
( حلالہ کی شرعی حیثیت صفحہ۹،الفلاح پبلی کیشنز لاہور )
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں