مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
باب نمبر:۳
تابعین کا مسلک
ابو حمزہ عبد
الخالق صدیقی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ تابعین عظام رحمہم اللہ
کا گروہ بھی قابلِ اقتداء ہے کیوں کہ وہ خیرالقرون میں شامل ہیں اور انہوں نے علم
بالواسطہ صحابہ کرام سے سیکھا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پروردہ آغوشِ رسالت
تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک ہے : ﴿خیرکم قرنی ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم ﴾تم میں سے بہتر لوگ میرے زمانے
کے ہیں ، (یعنی صحابہ کرام ) پھر وہ لوگ جوان کے بعد آئیں گے (یعنی تابعین ) پھر
وہ لوگ جو اس کے بعد آئیں گے۔ (یعنی تابعین ) ‘‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۳۱،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
ابو حمزہ صاحب نے آگے لکھا:
’’ قارئین کرام! تابعین عظام رحمہم اللہ
نے علوم نبوت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے حاصل کیا تھا، اور جو کچھ صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم نے انہیں بتلایا ، وہ اُس پر عمل پیرا رہے ۔‘‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۳۴،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
حکیم محمد اشرف سندھوغیرمقلد نے
لکھا:
’’صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین رحمہم اللہ کا درجہ ہے
لہذا اُن کے ارشادات ملاحظہ فرمائیے۔‘‘
( اکمل البیان
فی شرح حدیث نجد قرن الشیطان صفحہ۳۳،دار الاشاعت اشرفیہ سندھو بلوکی ضلع قصور )
تابعین کی بابت مذکورہ تاثرات پڑھنے
کے بعد جانیے کہ تابعین عظام ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین
ہی مانتے تھے ۔جیسا کہ بہت سے علماء کرام نے بیان کیا بلکہ خود متعدد غیرمقلدین نے
بھی تسلیم کیا کہ تابعین کا یہی مسلک تھا۔
امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت سعید
بن جبیر ، عطاء بن ابی رباح ، مجاہد، عکرمہ، عمرو بن دینار، مالک بن الحویرث ،
محمد بن ایاس بن بکیر اور معاویہ بن ابی عیاش الانصاری ، تمام ( ثقہ و مشہور )
راوی حضرت ابن عباس سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار
دیا ہے۔
( سنن الکبری للبیہقی :۷؍۲۳۸)
حافظ ابن قیم
رحمہ اللہ نے مسئلہ تین طلاق پر مذاہب بیان کرتے ہوئے لکھا:
’’ پہلا مذہب یہ ہے کہ تینوں ہی واقع ہو جائیں گی ، حضرات
ائمہ اربعہ ،جمہور تابعین اور اکثریت سے حضرات صحابہ کرام کا یہی قول اور مسلک ہے
۔‘‘
( زاد المعاد
:۴؍۵۴ بحوالہ عمدۃ الآثاث صفحہ ۳۱)
قاضی محمد بن شوکانی (المتوفی ۱۲۵۰ھ) غیرمقلد
کہتے ہیں:
جمہور تابعین اور حضرات صحابہ کرام کی اکثریت اور ائمہ
مذاہب اربعہ اور اہل بیت کا ایک طائفہ جن میں حضرت امیر المومنین علی بن ابی طالب
بھی ہیں یہی مذہب ہے کہ تینوں طلاقیں واقع ہو جاتی ہیں۔
( نیل الاوطار : ۶؍۲۴۵،بحوالہ عمدۃ الاثاث صفحہ ۳۷)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا
تین کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ان کے فرمان کی وجہ سے عموماً صحابہ و تابعین نے یہی
فتویٰ دینا شروع کر دیا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی
۵؍۲۹۴)
امین صاحب نے اعتراف کرلیاکہ عام
صحابہ و تابعین کا یہی فتویٰ تھاکہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ۔
خرم شہزاد
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’بے شمار تابعین سے ترک رفع یدین اور امام کے پیچھے سورہ
فاتحہ نہ پڑھنا ،فجر کی دو سنت (صلوۃ الفجرکی جماعۃ کے ہوتے ہوئے) پڑھ کر صلوۃ فجر
کی جماعۃ میں شامل ہونا، اور ایک ہی مجلس میں اکٹھی تین طلاقیں دینے سے طلاق کا
واقع ہو جانا، اور سجدوں میں رفع یدین کرنا وغیرہ بھی صحیح ثابت ہیں۔ ‘‘
( کیا خصی جانور کی قربانی سنت ہے ؟ صفحہ ۳۳)
خرم شہزادصاحب غیرمقلد ہونے کے ساتھ
ساتھ مشہور غیرمقلد حافظ زبیر علی زئی کے شاگرد ہیں جیسا کہ انہوں نے خود ہی شاگرد
ہونے کا اعتراف کیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’ راقم الحروف کے استاذِ محترم محدث العصر شیخ الحدیث حافظ
زبیر علی زئی رحمہ اللہ۔ ‘‘
( کیا خصی جانور
کی قربانی سنت ہے ؟ صفحہ ۴۴)
مولانا عبد القادر حصاروی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو اہلِ حدیث ایک ہی رجعی طلاق قر
ار دیتے ہیں ...لیکن جمہور صحابہ ،تابعین اور ائمہ اربعہ کایہ مذہب بتلایا جاتا ہے
کہ وہ اس طلاق کو طلاق بائنہ مغلظہ کہتے ہیں اور عورت کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ‘‘
( شرعی داڑھی صفحہ ۸۳، شائع کردہ مکتبہ دار الحدیث راجو
وال )
تنبیہ:
حضرت علامہ عبد الغفار ذہبی رحمہ اللہ نے اپنا ایک قلمی مضمون عنایت فرمایا جس میں
تین طلاقوں کے تین ہونے پر تابعین کے اقوال و فتاوی ہیں۔ ذیل میں وہ مضمون نقل کیا
جاتا ہے۔ اللہ انہیں بہترین جزا عطاکرے، آمین۔ اس باب میں مجھے کچھ لکھنا ہوا تو
فائدہ کے عنوان سے لکھوں گاان شاء اللہ، جس سے امتیاز ہوگا کہ فائدہ کے عنوان والی
عبارت میری ہے ۔ اتنی تمہید کے بعد اب ہم کچھ تابعین کے فتاوی و اقوال نقل کرتے
ہیں وباللہ التوفیق۔
(۱)سیدنا امام ابراہیم نخعی
رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ
الْمُحَدِّثُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ عَنِ الثَّوْرِیِّ عَنِ الْحَسَنَ وَ عَنْ اَبِیْ
مَعْشَرٍ عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ اِذَا طَلَّقَ الرِّجُلُ ثَلاثًا وَّ لَمْ
یَدْخُلْ فَقَدْ بَانَتْ مِنْہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ وَاِنْ قَالَ
اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ اَنْتِ طَالِقٌ فَقَدْ بَانَتْ بِالْاُوْلٰی
وَلَیْسَتِ الثِّنَتَانِ بِشَیْ ءٍ قَالَ السَّفْیَانُ وَھَوَالَّذِیْ نَاخُذُ
بِہٖ۔
( مصنف عبد الرزاق :۶؍۳۳۴رقم: ۱۱۰۶۸، ومن طریق آخر صفحہ ۳۳۶رقم
۱۱۰۸۲ واسنادہ صحیح )
یہ اثر سنن سعید بن منصور :
۱؍۲۶۵، ۲۶۶اور مصنف ابن ابی شیبہ : ۴؍۱۹ میں بھی ہے ۔
ترجمہ: ابراہیم نے کہا: جس وقت آدمی نے تین طلاقیں دی ہوں
جب کہ ہم بستری نہ کی ہو۔ تو وہ عورت اس سے جدا ہو گئی یہاں تک کہ وہ دوسرے خاوند
سے نکاح کرے۔ اور اگر اس نے کہا : تو طلاق ولی ہے، تو طلاق ولی ہے، تو طلاق ولی
ہے۔ تو پہلی طلاق کے ساتھ جدائی ہوجائے گی اور دوسروں دو طلاقیں کچھ نہیں ہوں گی۔
سفیان نے کہا اسی بات کو ہم لیتے ہیں۔
تحقیق السند
سند کے رواۃ
کی توثیق درج ذیل ہے ۔
(۱)امام عبد
الرزاق رحمہ اللہ صحیح بخاری و صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ للذھبی : ۱؍۲۶۶، سیر اعلام
النبلاء للذھبی : ۸؍ ۲۴۷)
(۲)سفیان
ثوری یہ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں ۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۱؍۲۲۷و تذکرۃ الحفاظ
للذھبی : ۱؍۱۵۱)
(۳)حسن بن
عبید اللہ الثقفی یہ صحیح مسلم و سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ صالح اور فقیہ
راوی ہیں۔
( تہذیب الکمال للمزی :۶؍۱۹۹، سیر
اعلام النبلاء للذھبی :۶؍۲۷۸)
(۴)ابو معشر
یہ صحیح مسلم ،ابوداود ، ترمذی اور نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ ، صالح، متقن اور
فقیہ راوی ہیں۔
( الثقات
للعجلی:۱؍۱۶۸،
تہذیب الکمال: ۹؍۵۰۴)
(۵)ابراہیم
نخعی رحمہ اللہ بخاری، مسلم اور سنن اربعہ کے راوی ہیں اور ثقہ ہیں۔
( تہذیب الاسماء للنووی : ۸؍۱۰۴،تذکرۃ الحفاظ
للذھبی : ۱؍۵۹)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں