مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل
بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
خلفائے راشدین کا مسلک
ویسے تو سارے صحابہ کرام امت کے لئے
رہبر و رہنما ہیں مگر ان میں سے خلفائے راشدین : سیدنا ابوبکر، سیدنا عمر، سیدنا
عثمان اور سیدنا علی رضی اللہ عنہم کی اتباع کرنے کی خاص کر تاکید آئی ہے۔ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :
عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ
الرَّاشِدِیْنَ ،میری سنت
اور خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا تم پر لازم ہے ۔
(ابو داود
۲؍۲۷۹، ترمذی۲؍۹۲، ابن ماجہ ۱؍۵بحوالہ مقدمہ رسالہ تراویح ۱۳)
مولانا محمد
حسین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ ایک طویل حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا : عَلَیْکُمْ بِسُنَّتِیْ وَسُنَّۃِ الْخُلَفَآءِ
الرَّاشِدِیْنَ الْمَھْدِیِّیْنَ تَمَسَّکُوْا بِھَا وَ عَضُّوْا عَلَیْھَا
بِالنَّوَاجِذِ،تم پر میری
سنت کو اختیار کرنا اور خلفاء راشدین جو ہدایت پر ہیں کی سنت کو اختیار کرنا لازم
ہے۔ اس سنت کو مضبوطی سے پکڑنا اور داڑھوں کے ساتھ تھامے رکھنا ...معلوم ہوا کہ
خلفائے راشدین کی سنت کی اتباع بھی لازم اور ضروری ہے اور ان کی اتباع در اصل رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ہے کیوں کہ خلفاء راشدین نبی صلی اللہ علیہ وسلم
کی سنت ہی کی اتباع کرتے ہیں۔ ‘‘
( احادیث ِ
متعارضہ اور اُن کا حل صفحہ ۱۱، ادارہ تحفظ حدیث فاؤنڈیشن)
ابو حمزہ عبد
الخالق صدیقی غیرمقلد نے عَلَیْکُمْ
بِسُنَّتِی الخ حدیث درج
کرنے کے بعد لکھا:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث مبارکہ کی
روشنی میں خلفاء راشدین ، خلفاء اربعہ ، سیدنا ابو صدیق ، عمر ، عثمان اور عمر[
سیدنا عمررضی اللہ عنہ کا نام پہلے درج ہو چکا۔یہاں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام
آناچاہیے تھا( ناقل )]رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرنا فرض ہے ۔ ‘ ‘
( نماز مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم صفحہ ۳۲۰،ناشر : مرکز تعاونی دعوت والارشاد )
چوں
کہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنے کی خاص کر تاکید ہے اس لیے صحابہ کرام میں سے
سب سے پہلے حضرات خلفائے راشدین کے فتاویٰ نقل کرتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا
فیصلہ
حَدَّثَنَااَبُوْبَکْرٍقَالَ
حَدَّثَنَا عَلِیُّ بْنُ مُسْھِرٍعَنْ شَقِیْقِ ابْنِ اَبِیْ عَبْدِ اللّٰہِ عَنْ
اَنَسٍ قَالَ کَانَ عُمَرُ اِذَا اُتِیَ بَرَجُلٍ قَدْ طَلَّقَ امْرَاَتَہٗ
ثَلَاثًا فِیْ مَجْلِسٍ اَوْجَعَہٗ ضَرْبًا وَفَرَّقَ بَیْنَھُمَا۔
(مصنف ابن ابی شیبہ :۶؍۳۳۰،
ح۱۸۰۷۸باب مَنْ کَرِہَ اَنْ یُّطَلِّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہٗ
ثَلَاثًا فِیْ مَقْعَدٍ وَّاحِدً وَّاَجَازَ ذٰلَکَ عَلَیْہِ ،تخریج:شیخ
ابو محمد اسامہ بن ابراہیم )
ترجمہ
:انس سے روایت ہے کہ جب عمر کے پاس ایسا آدمی لایا جاتا جس نے اپنی عورت کوایک ہی
مجلس میں تین طلاقیں دے رکھی ہوتیں تو وہ اسے مارتے اور خاوند و بیوی دونوں میں
جدائی کرا دیتے ۔
صاحب ِ تخریج
نے اس حدیث کی تخریج میں لکھا:
’’ اِسْنَادُہٗ
لَابَاسَ بِہٖٖ، اس کی سند
میں کوئی حرج نہیں ۔
(حوالہ مذکورہ )
مولانا عبد
المتین میمن غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’صحیح مسلم شریف میں حضرت عمر ؓ کے بارے میں آتا ہے کہ
انہوں نے تین طلاق کو تین ہی جاری کر دیا ۔‘‘ ( حدیث خیر و شر صفحہ۱۵۵، مکتبہ
الفہیم مؤ ناتھ بھنجن یوپی ، تعلیق و تحشیہ مولانا عبد اللطیف اثری،سن اشاعت: جون
؍۲۰۱۳ء )
حافظ صلاح الدین یوسف غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ذہن میں یہ بات آئی کہ کیوں نہ
تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا نفاذ کر دیاجائے تاکہ اس سخت اقدام سے لوگوں کو
کچھ تنبیہ ہو اور کثرت سے بیک وقت تین طلاقیں دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔‘‘
(ایک مجلس میں
تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل صفحہ ۴۵)
صلاح الدین صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے تیسرے سال میں،
جب دیکھا کہ لوگ کثرت سے طلاقیں دینے لگے ہیں ، تو لوگوں کو اس سے باز رکھنے کے
لیے تعزیزی اقدام کے طور پر ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین طلاقیں ہی شمار کرنے
کاحکم دیا ۔ ‘‘
( طلاق ، خلع
اور حلالہ صفحہ۶۸ ، ناشر : مکتبہ ضیاء الحدیث لاہور )
مولانا عبدا لرحمن کیلانی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک
مجلس کی تین طلاق کو تین ہی نافذ کر دیا۔ ‘‘
( ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ ۷۴)
کیلانی صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک مجلس کی تین طلاق کو آپ
رضی اللہ عنہ نے تین ہی شمار کرنے کا قانون نافذ کر دیا ‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۱)
کیلانی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں یہ جرم بکثرت وقوع
پذیر ہونے لگا تو آپ رضی اللہ عنہ ایسے شخص کی تین طلاق شمار کرنے کے علاوہ اسے
بدنی سزا بھی دیتے۔‘‘
(ایک مجلس کی
تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل صفحہ۱۰۴)
رئیس محمد ندوی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر بن خطاب فاروقِ اعظم نے اس معاملہ میں بعض لوگوں
کی بے راہ روی دیکھ کر ایک وقت کی تین طلاقوں کو تین قرار دئیے جانے کے قانون کو
نافذ کر دیا۔ ‘‘
( تنویر الآفاق
صفحہ ۱۰۶)
مولاناثناء اللہ امرتسری
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت
عمر ؓ نے لوگوں کو روکنے کے لیے یہ حکم جاری کر دیا کہ جو کوئی تین طلاقیں دے گا
تین ہی شمار ہوں گی ۔‘‘
( اہلِ حدیث کا مذہب صفحہ ۱۰۰)
مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’
حضرت عمر رضی الہ عنہ نے اپنی خلافت میں گو اس کے خلاف فتویٰ دیا اور تین طلاقوں
کو قائم رکھا ۔‘‘
( شرح بخاری داود راز :۷؍۳۳)
علامہ وحید الزمان غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر نے لوگوں کو سزا دینے کے لئے یہ فتوی دیا کہ
تینوں طلاق پڑ جاویں گی ۔ ‘‘
( رفع العجاجۃ
عن سنن ابن ماجۃ : ۲؍۱۰۹)
حافظ محمد اسحاق زاہد غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ تین طلاقوں کو تین شمار کرنے کا
حکم ایک خلیفہ راشد نے جاری کیا ‘‘
( اہلِ حدیث اور
علمائے حرمین کا اتفاق رائے صفحہ ۶۷)
شیخ مختار احمد ندوی غیرمقلد
(ناظم جمعیت اہلِ حدیث بمبئی)نے سید نا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا:
’’ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین قرار دے کر عورت کو بائنہ
قرار دیتے تھے۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ سرکاری حکم نامے کے ذریعہ یہ بات
مشتہر کرا دی کہ جو شخص بھی بیک زبان تین طلاقیں دے گا وہ تین شمار ہوں گی اور
ایسا کرنے والے پر وہ بُری سختی کرتے تھے ۔‘‘
( مجموعہ مقالات
دربارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ۸۹ ، ناشر: نعمانی کتب خانہ اردو بازار لاہور )
مختار صاحب نے آگے لکھا:
’’ آپ نے ایسی[ ایک مجلس کی ( ناقل ) تین طلاقوں کو تین
قرار دینے کا حکم نافذ فرمایا۔‘‘
( مجموعہ مقالات
ِ علمیہ در بارہ ایک مجلس کی تین طلاق صفحہ ۹۰)
حافظ محمد امین غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
اپنے دَورِ خلافت میں بطورِ سزا تین کو تین ہی نافذ کر دیا ۔ ‘‘
(حاشیہ نسائی
۵؍۲۹۴)
مولانا محب اللہ شاہ راشدی
غیرمقلد نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا:
’’انہوں نے ایک
مجلس کی طلاقِ ثلاثہ کو تین قرار دیا ... ‘‘
( مقالات ِ
راشدیہ :۱؍۲۵۲)
راشدی صاحب آگے لکھتے ہیں:
’’ جب لوگوں نے اس سنت کے خلاف دھڑا دھڑ ایک ہی مجلس میں
تین طلاقیں دینی شروع کر دیں تو حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس سنت کی خلاف
ورزی کرنے والے لوگوں کو باز رکھنے کے لیے یہ حکم نافذ کر دیا کہ چلو جب تم سنت کے
خلاف کرنے سے باز نہیں تو ہم بھی ان ایک مجلس کی تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیتے
ہیں۔ ‘‘
( مقالات ِ راشدیہ :۱؍۲۵۲)
مولانا داود ارشد غیرمقلدلکھتے
ہیں:
’’حدیث میں یہ الفاظ صاف موجود ہیں :مَنْ تَعَجَّلَ اِنَاۃَ اللّٰہِ فِی الطَّلَاقِ اَلْزَمْنَاہُ اِیَّاہُ (شرح معانی
الاثار ص ۳۶ ج ۲)یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو مخاطب کرکے
فرمایا کہ جو کوئی معاملہ طلاق کے اندر اللہ تعالیٰ کی عنایت فرمودہ مہلت سے رو
گردانی کرتے ہوئے عجلت سے ساری طلاقیں بیک وقت دے گا تو ہم اس کی ان طلاقوں کو اس
پر لازم کر دیں گے ۔‘‘
(دین الحق
:۲؍۶۶۵)
کچھ غیرمقلدین نے سیدنا عبد اللہ بن
عمر رضی اللہ عنہ کے عمل کی بنیاد پہ فتویٰ دیا کہ داڑھی کا مٹھی سے زائد بڑھا ہوا
حصہ کاٹا جا سکتا ہے۔ حافظ عبد المنان نور پوری غیرمقلد نے اس کی تردید کرتے ہوئے
کہاقابلِ اتباع صحابی کی بیان کردہ حدیث ہے ، نہ کہ صحابی کا اپنا عمل۔ اسی بات کو
آگے بڑھاتے ہوئے نور پوری صاحب نے طلاق ِ ثلاثہ کے متعلق سیدنا عمر رضی اللہ عنہ
کا فرمان نقل کیا :
’’یہ جلد بازی سے کام لیتے ہیں
۔لہٰذا ہم تینوں ہی ان پر نافذ کر دیتے ہیں ۔‘ ‘
( داڑھی کی شرعی
حیثیت صفحہ۲۸)
نور پوری صاحب آگے کہتے ہیں:
’’اور پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نافذ کر دیں کیا یہ
بات ان کی دلیل ہے ؟جب کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ صحابی بھی ہیں ۔ خلفائے راشدین
میں سے بھی ہیں ۔ اور پھر عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے والد محترم بھی ہیں ۔
کیا دلیل بنتے ہیں؟ جس مرضی اہلِ حدیث سے جا کر مسئلہ پوچھوکہ تین طلاقیں ایک ہی
مجلس میں یک مشت دی ہوئی ہوں، تینوں ہو جاتی ہیں؟ تو تمام علماء یہی کہتے ہیں کہ
نہیں۔ ایک ہوگی۔ جب کہ ہمارے دوسرے بھائی ابن خطاب رضی اللہ عنہ کے اس قول سے
فائدہ اُٹھاتے ہوئے تینوں کے نافذ ہونے کا فتویٰ دیتے ہیں۔ پھر کیوں نہیں تسلیم
کرتے؟ جب کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اس روایت کے راوی بھی ہیں سوچو اور غور کرو
۔آخر انصاف بھی کچھ چیز ہے۔ ‘‘
(داڑھی کی شرعی
حیثیت صفحہ ۲۸)
شیخ یحیٰ عارفی غیرمقلد لکھتے
ہیں:
’’ سیدنا انس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ناقل ہیں کہ غیر
مدخول بہا کی تین طلاق تین ہیں۔ (دیکھئے سنن الکبری البیہقی :۷؍۳۳۴)‘‘
( تحفۂ احناف
صفحہ:۳۳۶)
غیرمدخولہ کو ایک ہی کلمہ سے تین طلاقیں دی گئی
ہوں توتین واقع ہوتی ہیں جیسا کہ آگے سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ
کے اثر کے تحت یہ بات آرہی ہے ان شاء اللہ۔
غیرمقلدین کے ’’مناظر اسلام ، محترم ،
مولانا،مفتی ‘‘ اللہ بخش ملتانی لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تین اکٹھی طلاقوں سے
روکنے کے لیے فرمایا: اِنَّ النَّاسَ قَدِ
اسْتَعْجَلُوْا فِیْ اَمْرٍ کَانَتْ لَھُمْ فِیْہِ اِنَاۃٌ‘‘یعنی لوگوں نے اس کام میں جس
میں مہلت تھی جلدی کی ۔ یعنی تین متفرقہ کی بجائے تین اکٹھی دینے لگ گئے۔ ’’ فَلَوْ اَمْضَیْنَاہُ ‘‘ کاش ہم تین کو تین
ہی نافذ کریں تو لوگ اکٹھی دینے سے باز آ جائیں ۔ ’’ فَاَمْضَاہُ ‘‘ تو پھر تین کو نافذ کر دیا ۔
‘‘
(نظر ثانی احسن
الابحاث صفحہ ۱۱)
حکیم محمد صفدر عثمانی
غیرمقلدنے مولانا میر محمد ابراہیم سیالکوٹی غیرمقلد کے متعلق لکھا:
’’ میر صاحب خود اسی پرچہ کے صفحہ نمبر ۶کالم نمبر۱ میں
فرماتے ہیں عمرؓ نے صرف یہ کیا ہے کہ اس کے ایک ہی دفعہ تین طلاق دینے پر تین طلاق
ہی کا حکم جاری کردیا ۔ ‘‘
( احسن الابحاث
صفحہ۲۶)
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمر ؓ کے زمانے میں ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں
دینے کا رجحان بہت بڑھ گیا تو حضرت عمر ؓ نے صحابہ کرام سے مشورہ کیا کہ ایسے شخص
کی کیا سزا تجویز کرنی چاہیے جو ایک ہی وقت میں تین طلاقیں دیتا ہے جب کہ شریعت نے
سختی سے اس سے منع فرمایا ہے ۔ صحابہ کرام کی باہمی مشاورت سے یہ طے پایا کہ کہ
ایسے شخص کی سزا یہ ہے کہ اس پر تین طلاقیں قانوناً نافذ کر دی جائیں ۔‘‘
(مکالمہ صفحہ
۱۶۷ ، ناشر: دار الفکر الاسلامی ، طبع اول : جنوری ؍۲۰۱۸ء )
ڈاکٹر صاحب کی اس عبارت میں یہ بھی
اعتراف ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی مشاورت سے تین طلاقوں کا
نفاذ کیا ۔
پروفیسر مسعود عالم فلاحی
غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فقہ
الواقع یا ضرورت کے تحت تین طلاق کو تین نافذ کیا تھا۔‘‘
(حلالہ سنٹر ز
اورخواتین کی عصمت دری صفحہ ۱۱۷)
ابو الاقبال سلفی صاحب غیرمقلد
لکھتے ہیں:
’’ حضرت عمرؓ نے فرمایا : لوگوں نے اس کام میں جس میں ان کے
لیے آسانی تھی عجلت شروع کردی ہے ۔ اس لیے اچھا ہے کہ انہیں سب کو ان پر جاری کر
دیا جائے چنانچہ جاری کر دیں۔ ‘‘
(مذہب حنفی
کادینِ اسلام سے اختلاف صفحہ ۸۶)
غیرمقلدین کے فتاویٰ میں لکھا ہے :
’’حضرت عمر ؓ کے زمانے میں اللہ کی کتاب سے مذاق کیا جانے
لگا، اکٹھی تین طلاقیں ہونے لگیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو حضرت عمرؓ سے سزا دلوائی
کہ انہوں نے تین اکٹھی طلاقوں کو تین ہی شمار کرکے اس کی بیوی کو اس سے علیحدہ کر
دیا ۔ ‘‘
( فتاویٰ نذیریہ : ۳؍۴۶)
مولانا محمد حنیف ندوی غیرمقلد
نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق لکھا:
’’ فیصلہ صادر فرمادیا کہ آئندہ یہ تین طلاقیں قطعی بینونت
و علیحدگی کا موجب ہوں گی اور رجوع کا حق نہیں دیا جائے گا۔ ‘‘
( مسئلہ اجتہاد صفحہ ۱۶۷)
غیرمقلدین
نے یہاں یہ عذر بھی تراشا ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تین طلاق کو تین قرار دینے
پہ بعد
میں نادم ہو
گئے تھے مگر ان کی طرف منسوب یہ بات ثابت نہیں ، حافظ زبیر علی زئی غیرمقلد،مولانا
عبد الرحمن کیلانی غیرمقلداور خرم شہزاد غیرمقلد نے بھی اسے غیرثابت تسلیم کیا ہے
۔ جیسا کہ باب نمبر : ۱۵ میں باحوالہ مذکورہوگا ان شاء اللہ۔مزید یہ کہ اس روایت
کا مطلب کیا ہے اور غیرمقلدین اس سے کیا کشید کرتے ہیں ؟ یہ بھی آئندہ صفحات میں
تحریر کرنے کا ارادہ ہے وباللہ التوفیق ۔
ایک شبہ اور اس کا ازالہ
سیدنا
عمر رضی اللہ عنہ کے تین طلاق کے نافذ کر دینے کے فیصلے کو غیرمقلدین شریعت محمدی
کے خلاف محض سیاسی قرار دے کر کہتے ہیں ہم فاروقی نہیں کہ ان کے فیصلہ کو مانیں ۔
عرض ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا
یہ فیصلہ شرعی ہی تھا جیسا کہ فریق ثانی کے علماء نے برملا اعتراف کیا ہے ۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اس مسئلہ پر بحث کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’ فَلَمَّا
رَکِبَ النَّاسُ الْاَحْمُوْقَۃَ (اِلٰی اَنْ قَالَ ) اَجْرَی اللّٰہُ عَلٰی
لِسَانِ الْخَلِیْفَۃِ الرَّاشِدِ وَا لصَّحَابَۃِ مَعَہٗ شَرْعًا وَّقَدْرًا
اِلْزَامَھُمْ بِذٰلِکَ وَاِنْفَاذَہٗ عَلَیْھِمْ ۔‘‘
(اعلام الموقعین ۲؍۲۷)
جب لوگوں نے حماقت کا ارتکاب شروع کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے
خلیفہ راشد [سیدنا عمر رضی اللہ عنہ (ناقل)] اور ان کے ساتھ صحابہ کرام کی زبانوں
پر از روئے شرع اور تقدیر تین طلاقوں کو ان پرجاری اور نافذ کردیا ۔
حافظ
ابن قیم رحمہ اللہ کی اس عبارت میں مذکور ’’ شَرْعًا، از روئے شرع ‘‘کی تصریح سے
ثابت ہوا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا تین طلاقوں کے تین ہونے کو نافذ اور جاری
کرنا حکم شرعی ہی تھا، نہ کہ سیاسی۔ اور سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو صحابہ
کرام نے بھی تسلیم کیا۔باقی رہی یہ بات کہ وہ کتنے صحابہ تھے ؟ مولانا شرف الدین
دہلوی صاحب کی تصریح کے مطابق تمام صحابہ کرام ہیں جیسا کہ فتاویٰ ثنائیہ کے حوالہ
سے ہماری اسی کتاب میں مذکورہے۔ نیز غیرمقلدین کے ’’امام العصر ‘‘ مولانامحمد
ابراہیم سیالکوٹی صاحب نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے فیصلہ کو شرعی قرار دیا اور
اس کے سیاسی ہونے کی مدلل انداز میں تردید فرما دی ہے ۔ ان کی عبارت ہماری اسی
کتاب کے باب نمبر :۹ میں مذکورہے ۔
ابو
عدنان مولانا منیر قمر غیرمقلد نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے تین طلاقوں کے
نفاذسمیت ان کے فیصلوں کو دینی اعتبار سے مفیدقرار دیا جیسا کہ ان کی کتاب ’’ جشن
میلاد یوم وفات پر ؟ ایک تحقیق ، ایک تجزیہ صفحہ ۲۸ ، ناشر توحید پبلیکیشنز بنگلور
ہند ‘‘ کے حوالہ سے باب ...میں مذکور ہوگا ان شاء اللہ ۔
مولانا داود راز غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ اجلہ صحابہ جیسے حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق اور
عثمان غنی رضی اللہ عنہم وغیرہ ہیں ان سے تو کوئی ایسی بات منقول نہیں ہے جو شرع
کے خلاف ہو۔ وحیدی ۔‘‘
( شرح بخاری
داود راز :۶؍۹۱)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں