مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
سیدنا عبد اللہ بن عمرو ابن عاص
رضی اللہ عنہ کا فتویٰ
شیخ محمدیحی
عارفی غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’عبد اللہ بن عمرو بن العاص غیر مدخولہ کی یکجائی تین
طلاقوں کوتین ہی قرار دیتے تھے جیسا کہ ان سے منقول ایک فتوی کے الفاظ یہ ہیں : ’’
اَلْوَاحِدُۃُ تُبِیْنُھَا وَّالثَّلَاثُ تَحَرِّمُھَا
حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ ۔‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ:۳۳۵)
عارفی صاحب اس پر تبصرہ کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
’’ احناف کے ہاں غیر مدخولہ کی تین طلاقیں ایک شمار ہوتی ہے
اور مذکورہ بالا فتویٰ بھی غیر مدخولہ کے بارے میں ہے جو احناف کے مسلک کے صریح
مخالف ہے ۔ ‘‘
( حوالہ مذکورہ )
احناف کے ہاں غیرمدخولہ کی تین طلاقیں ہر حال
میں ایک نہیں بلکہ اس میں تفصیل ہے ۔
مولانا داود
ارشد غیرمقلد لکھتے ہیں:
’’ فقہ حنفی میں غیر مدخولہ کے متعلق دو موقف پائے جاتے ہیں
پہلا موقف جس میں مرد تین بار علیحدہ علیحدہ طلاق کا لفظ بولتا ہے ، دوسرا موقف جس
میں مرد تینوں طلاقیں یکدم بولتا ہے ،پہلی صورت میں طلاق صرف ایک ہی رجعی ہوگی جب
کہ دوسری صورت میں تینوں ہی واقع ہو جائیں گی۔ ‘‘
( دین الحق
:۲؍۶۶۲)
عارفی صاحب بقلم خود لکھتے ہیں:
’’ احناف کا موقف یہ ہے کہ غیر مدخولہ کی دو حالتیں (ہیں )
اگر طلاق لفظ طالق ثلاثا سے (ہو ) تو تینوں واقع اور اگر متفرق الفاظ سے (ہو) تو
ایک واقع اور مدخولہ پر ہر حال میں تینوں طلاقیں واقع ہوں گی۔ ‘‘
( تحفۂ احناف صفحہ:۳۴۷)
عارفی صاحب نے تسلیم کیا ہے کہ احناف کے ہاں ثلاثا کے لفظ سے دی جانے والی طلاقیں غیرمدخولہ کے حق میں بھی تین ہیں اور سیدنا عبد اللہ عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے الفاظ جو عارفی صاحب نے نقل کئے ہیں اس میں الثلاثکا لفظ موجود ہے یعنی ان کے نزدیک ثلاث کے لفظ سے دی جانے والی طلاقیں تین ہیں لہذا یہ فتوی احناف کے موافق ہے ، خلاف نہیں ہے ۔ البتہ غیرمقلدین کے خلاف ضرور ہے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں