امام کے پیچھے قراءت کے مسئلے میں امام مجاہد بن جبرؒ(م۱۰۴ھ) , امام ابن شہاب الزہریؒ(م۱۲۵ھ) , عبد اللہ بن عباس ؓ (م۶۸ھ) , کا مسلک
امام کے پیچھے قراءت کے مسئلے میں امام مجاہد (م۱۰۴ھ) , امام ابن شہاب الزہریؒ(م۱۲۵ھ) , عبد اللہ بن عباس ؓ (م۶۸ھ) , کا مسلک
امام کے پیچھے قراءت کے مسئلے میں امام مجاہد بن جبرؒ(م۱۰۴ھ) کا مسلک
ارشاد
الحق اثری صاحب نے امام مجاہد ؒ کی طرف منسوب ایک قول کو جزء القراءت للبخاری،کتاب القراءت للبیہقی،منصف
ابن ابی شیبہ وغیرہ سے نقل کیا کہ انہوں نے فرمایا : کہ جب امام کے پیچھے قراءت نہ
کی جائے،تو نماز کو دوبارہ پڑھا جائے۔ (توضیح الکلام : ص ۴۹۳)
الجواب :
ان تینوں
کتابوں میں روایت کی سند میں امام اللیث بن ابی سلیمؒ(م۱۴۸ھ) موجود ہے۔جو
کہ خود اثری صاحب کے نزدیک ضعیف ہے۔(اعلاء السنن فی المیزان : ص ۳۵۰)
لہذا ان
کی روایات سے استدلال مردود ہے۔
ان کے
متابع میں جو روایت اثری صاحب نے ذکر کی،اس میں ایسی کوئی بات نہیں،جس سے امام
مجاہد ؒ کا یہ مسلک ثابت ہوتا ہو کہ وہ
سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت
کے قائل ہے۔
بلکہ اس روایت میں یہ ہے کہ
قال ابو بکر ابن ابی شیۃ : حدثنا هشيم ، قال : أخبرنا حصين ، قال : صليت
إلى جنب عبيد الله بن عبد الله بن عتبة ، قال : فسمعته يقرأ خلف الإمام ، قال :
فلقيت مجاهدا فذكرت له ذلك ، قال : فقال مجاهد : سمعت عبد الله بن عمرو يقرأ خلف
الإمام
حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ) نے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہؒ(م۹۸ھ)
کے پہلو میں نماز پڑھی،تو انہوں نے عبیداللہ کو
امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا،تو حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ)
نے جب اس بات ذکر امام مجاہد ؒ سے کیا،تو امام مجاہدؒ نے کہا کہ میں عبداللہ بن
عمرو بن العاصؓ کو امام کے پیچھے قراءت کرتے سنا ۔(مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث
نمبر ۳۷۷۱)
لیکن مصنف عبد
الرزاق : حدیث نمبر ۲۷۷۵ میں ہے کہ
عبد الرزاق، عن
ابن عيينة، عن حصين بن عبد الرحمن قال: سمعت عبيد الله بن عبد الله بن عتبة يقرأ
في الظهر والعصر مع الإمام۔
یہی راوی حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ) کہتے
ہیں کہ میں نے عبیداللہ بن عبد اللہ بن عتبہؒ(م۹۸ھ) کو امام کے ساتھ ظہر
اور عصر میں قراءت کرتے ہوئے سنا۔
سنن کبری بیہقی کی روایت میں امام مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں
نے خود ابن عتبہ اور عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ دونوں کو امام کے پیچھے قراءت کرتے
ہوئےسنا۔(:ج۲: ص ۲۴۲،حدیث نمبر ۲۹۴۰)
ایک روایت میں امام مجاہد ؒ کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن
عمرو بن العاصؓ ظہر اور عصر میں قراءت کرتے سنا۔(مصنف عبد الرزاق : حدیث نمبر
۲۷۷۴)
مصنف ابن ابی شیبہ کی ایک اور روایت میں امام مجاہدؒ فرماتے
ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ ظہر میں سورہ مریم کی قراءت کرتے سنا۔(مصنف
ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۳۷۷۰)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ ان روایات کا تعلق صرف سری
نمازوں سے ہے۔ اورابن عتبہؒ (م۹۸ھ) کی قراءت، حصین بن عبد الرحمٰن الکوفیؒ(م۱۳۶ھ)
کا سوال ،مجاہد ؒ کا جواب اور عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کی قراءت بھی سری نمازوں
کے تعلق سے تھی۔
لہذا یہ روایت لیثؒ کی روایت کی تائد نہیں کرتی۔
مجاہد
ؒ کا صحیح مسلک :
صحیح روایات میں امام مجاہد ؒ(م۱۰۴ھ)
کا ارشاد موجود ہے کہ انہوں نے کہا کہ
آیت جب قراءت کی جائے،تو خاموش رہو، کا تعلق نماز سے ہے۔یعنی امام کے پیچھے قراءت
کے وقت خاموش رہنا ہے۔(تفسیر ابن جریر
:ج۱۳: ص ۳۴۹)،
ایک اورروایت میں امام مجاہد ؒ نے کہا
(جس کا خلاصہ یہ ہے کہ) نماز میں امام کے قراءت کرتے وقت اور جمعہ کے دن ،خطبے
کے وقت خاموشی واجب ہے۔(تفسیر ابن ابی
حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶،وفی اسنادہ جابر الجعفی وہو ضعیف کمافی
تقریب لکن یقویہ بالمتابع،انظر تفسیر ابن
جریر
:ج۱۳: ص ۳۴۹)،
اس سے معلوم ہوا کہ امام مجاہدؒ کا
مسلک امام کے پیچھے خاموش رہنے کا ہے۔
اثری صاحب کی روایت کے راوی لیث بن
ابی سلیم کی ہی ایک اور روایت ہے کہ
وقال
عبد الرزاق، عن الثوري، عن ليث، عن مجاهد أنه كره إذا مر الإمام بآية خوف أو بآية
رحمة أن يقول أحد من خلفه شيئا، قال: السكوت
جب امام آیت خوف
یا آیت رحمت کی تلاوت کریں تو مقتدیوں میں کسی ایک آدمی کاایک حرف بھی کہنے کو،
امام مجاہدؒ نے مکروہ قرار دیا ہے اور کہا کہ امام کے پیچھے خاموش رہو۔(تفسیر
عبدالرزاق بحوالہ تفسیر ابن کثیر : ج۳: ص ۵۳۸)
امام ابن شہاب
الزہریؒ(م۱۲۵ھ) کا مسلک
امام
ابن شہاب الزہریؒ(م۱۲۵ھ) جہری نمازوں امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں
تھے۔چنانچہ ابن جریر الطبریؒ(م۳۱۰ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثني
المثنى قال: حدثنا سويد قال: أخبرنا ابن المبارك، عن يونس، عن الزهري قال: لا يقرأ
مَن وراء الإمام فيما يجهر به من القراءة، تكفيهم قراءة الإمام وإن لم يُسْمِعهم
صوته، ولكنهم يقرءون فيما لم يجهر به سرًّا في أنفسهم. ولا يصلح لأحد خلفه أن يقرأ
معه فيما يجهر به سرًّا ولا علانية. قال الله: (وإذا قرئ القرآن فاستمعوا له
وأنصتوا لعلكم ترحمون)
امام
زہری ؒ کہتے ہیں کہ امام کے پیچھے جہری نمازوں میں مقتدی قراءت نہ کریں،امام
کا پڑھنا ہی مقتدیوں کےلئے کافی ہے،چاہے
وہ مقتدیوں کو کچھ بھی نہ سناتا ہو،مقتدیوں کو نہ تو جہر سے قراءت کرنا جائز ہے،
اور نہ آہستہ سے۔ہاں سری نمازوں میں وہ اپنے دل میں قراءت کرسکتا ہے اور جہری نمازوں میں اس لئے منع ہے
کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ وإذا قرئ القرآن فاستمعوا
له وأنصتوا لعلكم ترحمون ۔(تفسیر ابن جریر الطبری : ج۱۳: ص ۳۵۰)
اس روایت کے تمام روات
ثقہ ہیں۔(دیکھئے ص : ۲۰)
معلوم ہوا کہ امام زہریؒ
جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قراءت کے قائل نہیں تھے۔البتہ سری نمازوں میں اس کی
اجازت دیتے تھے۔لیکن اس میں بھی وجوب کے قائل نہیں تھے۔واللہ اعلم
قراءت خلف الامام کے سلسلے میں عبد اللہ بن عباس ؓ
(م۶۸ھ)کا مسلک
صحیح روایات کے مطابق ابن عباس ؓ امام کے پیچھے جہری نماز میں قراءت کے قائل نہیں تھے۔
دلیل نمبر ۱:
چنانچہ امام ابو جعفر الطحاویؒ(م۳۲۱ھ) کہتے ہیں کہ
حدثنا
ابن أبي داود، قال: ثنا أبو صالح الحراني، قال: ثنا حماد بن سلمة، عن أبي جمرة،
قال: قلت لابن عباس أقرأ والإمام بين يدي. فقال: «لا»
ابو جمرہ ؒ(م۱۲۸ھ)کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس ؓ سے پوچھا کہ جب امام میرے
سامنے ہو،تو کیا میں قراءت کروں،تو ابن عباس ؓ نے کہا : کہ نہیں،مت کرو۔(شرح
معانی الآثار : ج۱: ص ۲۲۰،حدیث نمبر ۱۳۱۶)[1]
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام طحاوی
ؒ کی توثیق گزرچکی۔
(۲) ابو
اسحاق،ابراہیم بن ابی داود البرلسی ؒ(م۲۷۰ھ)،ثقہ،ثبت ،حافظ الحدیث ہیں۔(سیر
:ج ۱۳: ص ۳۹۳)
(۳) ابو صالح
عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۴۱۳۶)
(۴) حماد بن
سلمہؒ(م۱۶۷ھ) صحیح مسلم اورسنن اربع
کے راوی اور ثقہ،عابد ہیں۔(تقریب : رقم۱۴۹۹)
نوٹ :
محدثین
کا کہنا ہے کہ حماد بن سلمہؒ کا آخری عمر میں حافظہ متغیر ہوگیا تھا۔ (ایضاً)،لیکن
حماد بن سلمہ سے ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) نے ان کے حافظہ
متغیر ہونے سے پہلےروایت لی ہے۔چنانچہ حافظ ذہبیؒ
ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ کے ترجمہ میں کہتے ہیں کہ
سار به أبوه وهو طفل، فنشأ بالبصرة، وتفقه، وكتب العلم، ثم رجع إلى
مصر مع والده
ابو صالح
عبدالغفار بن داود الحرانیؒ کے والد ان کو (بصرہ) لے گئے،جب کہ وہ بچے تھے،پھر ابو صالح ؒ نے بصرہ میں پرورش
پائی،دین کی سمجھ حاصل کی،علم کو لکھا،پھر اپنے والد کے ساتھ مصر واپس آگئے۔
اس کےچند
سطور کے بعد حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)
خود لکھتے ہیں کہ
قدم مصر مع أبيه في سنة إحدى وستين
ابو صالح
اپنے والد کے ساتھ (۱۶۱ھ) میں مصر آئے۔(سیر :ج۱۰: ص ۴۳۹) نیز امام
ابن یونس المصری ؒ(م۳۴۷ھ) نے بھی یہی بات کہی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۵:
ص ۶۲۲)
جب کہ
حماد بن سلمہؒ کی وفات (م۱۶۷ھ) میں ہوئی ہے۔اور محدثین کا کہنا ہے کہ حماد بن سلمہؒ کا ’’آخری
عمر میں حافظہ متغیر ‘‘ ہوگیا تھا۔ (تقریب،تہذیب التہذیب)، ثابت ہوا کہ
ابو صالح عبدالغفار بن داود الحرانیؒ(م۲۲۴ھ) نے حماد بن سلمہ سے ان کے حافظہ
متغیر ہونے سے پہلےسماع کیا۔
لہذا اس
روایت میں حماد بن سلمہؒ (م۱۶۷ھ) ثقہ ہیں اور ان پر حافظہ متغیر ہونے
الزام باطل و مردود ہے۔
(۵) ابو
جمرہ،نصر بن عمران البصریؒ(م۱۲۸ھ) صحیحین کے راوی اور ثقہ،مضبوط ہیں۔(تقریب
: رقم ۷۱۲۲)
(۶) عبد اللہ
بن عباس ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس روایت کی سند صحیح ہے۔
دلیل نمبر ۲ :
امام ابو محمد، عبد الرحمٰن ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۷ھ)
فرماتے ہیں کہ
حدثنا
أبي، ثنا النفيلي، ثنا مسكين بن بكير، ثنا ثابت بن عجلان، عن سعيد بن جبير، عن ابن
عباس، قال: " إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ
إِلَّا يوم جمعة، أو في صلاة مكتوبة أو يوم أضحى أو يوم فطر في قوله: {وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا}
ابن عباس
ؓ کہتے ہیں کہ آیت وإذا
قرئ القرآن فاستمعوا له وأنصتوا کے
مطابق ،مومن کے لئے فرض نماز میں،جمعہ ،عید الفطر اور عید الاضحی کے
دنوں میں (خطبے کے وقت) خاموش رہنا کے سوا کوئی گنجائش نہیں ہے۔(تفسیرا بن ابی
حاتم : ج۵: ص ۱۶۴۶، الدر المنثور :ج۳: ص ۶۳۷،قراءت خلف الامام للبیہقی : ص۱۰۸)[2]
سند کے روات کی تحقیق :
(۱) امام
ابو محمد، عبد الرحمٰن ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۷ھ) اور
(۲) امام ابو
حاتم محمد بن ادریسؒ(م۲۷۷ھ) مشہورثقہ ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہیں۔
(۳) عبد اللہ بن
محمد،ابو جعفر النفیلیؒ(م۲۳۴ھ) صحیح بخاری کے راوی اور ثقہ ،حافظ الحدیث
ہیں۔(تقریب : رقم ۳۵۹۴)
(۴) مسکین بن
بکیرؒ(م۱۹۸ھ) صحیحین کے راوی اور صدوق
ہیں۔(تقریب : رقم ۶۶۱۵،الکاشف)
(۵) ثابت بن
عجلان ؒ صحیح بخاری کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۸۲۲)
(۶) سعید بن
جبیرؒ(م۹۵ھ) مشہورثقہ،ثبت ائمہ
مفسرین میں سے ہیں۔(تقریب : رقم ۲۲۷۸)
(۷) عبد اللہ بن
عباس ؓ مشہور صحابی رسول ﷺ ہیں۔(تقریب)
معلوم ہوا کہ اس کی سند حسن ہے۔
ان دونوں روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن عباس ؓ امام کے
پیچھے قراءت کے قائل نہیں تھے۔
اثری صاحب کے پیش کردہ روایات کے جوابات :
پہلی دلیل :
اثری
صاحب نے پہلی روایت عیزار بن حریث ؒ سے حوالے سے ذکر کی کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا :
کہ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھو۔(توضیح الکلام : ص ۴۶۱)
الجواب :
اس روایت
کا تعلق سری نماز سے ہے،چنانچہ ثقہ،ثبت ،حافظ الحدیث امام طحاوی ؒ (م۳۲۱ھ)
کہتے ہیں کہ
حدثنا
علي بن شيبة , قال: ثنا يزيد بن هارون قال: أنا إسماعيل بن أبي خالد عن العيزار بن
حريث عن ابن عباس رضي الله عنهما , قال: اقرأ خلف الإمام بفاتحة الكتاب في الظهر
والعصر
ابن عباس
ؓ نے فرمایا : کہ ظہر اور عصر میں امام کے پیچھے
سورہ فاتحہ پڑھو۔(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۰۶،حدیث نمبر ۱۲۱۹)
عیزار بن حریث ؒ کی اس روایت میں ظہر اور عصر کا ذکر
ہے۔لہذا یہ روایت سری نماز کے تعلق سے ہے۔
دوسری دلیل :
دوسری
روایت اثری صاحب کتاب القراءت للبیہقی کے
حوالے سے ذکر کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓ نے فرمایا : کہ امام کے پیچھے پڑھو خواہ وہ
بلند آواز سے پڑھ رہا ہو یا آہستہ ۔(توضیح
الکلام : ص۴۶۷)
الجواب :
کتاب
القراءت للبیہقی میں اس روایت کی ۲ سندیں
موجود ہے۔ان دونوں سندوں کے دفاع میں خود اثری صاحب کہتے ہیں کہ اور (پہلی سند میں) عقبہ بن عبد اللہ اصم اگرچہ
ضعیف ہے،لیکن لیث (بن ابی سیلم) اس کا متابع موجود ہے۔(توضیح الکلام : ص ۴۶۶-۴۶۷)
مگر یہاں
مسئلہ صرف ان ۲ حضرات کی روایت کا نہیں ہے۔بلکہ عقبہ بن عبد اللہ اصمؒ اور لیث
بن ابی سلیمؒ کی روایت ثقہ حضرات حماد بن
سلمہؒ(م۱۶۷ھ)،اور ثابت بن عجلان ؒ
کی روایات کے بھی خلاف ہے۔جن میں ابن عباس ؓ نے امام کے پیچھے قراءت سے منع
کیا ہے۔
لہذا
یہاں مخالفت ثقات کی وجہ سے عقبہ بن عبد اللہ اصمؒ اور لیث بن ابی سلیمؒ کی روایات
کا اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔
تیسری دلیل :
تیسری
روایت کو اثری صاحب نے نقل کیا کہ ابن عباس ؓ نے کہا کہ کوئی نماز قراءت کے بغیر
نہ پڑھو۔اگر چہ تم فاتحہ ہی پڑھو۔
الجواب :
اس روایت کا تعلق مقتدی
سے نہیں ہے۔خود غیر مقلد عالم زبیر علی زئی کہتے ہیں کہ ہر خاص دلیل ہر عام دلیل پر مقدم ہوتی ہے۔(تور العینین :
ص ۵۸) اور خاص روایات میں ابن عباس ؓ نے مقتدی کو امام کے پیچھے قراءت
کرنے سے روکا ہے۔دیکھئے ص : ۳۸،
لہذا اس روایت
کا مقتدی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
خلاصہ :
عبد اللہ
بن عباس ؓ (م۶۸ھ) جہری نمازوں قراءت کے قائل نہیں تھے۔البتہ سری نمازوں
میں تھے۔
کیا
عبد اللہ بن مسعود ؓ امام پیچھے قراءت کے قائل تھے ؟؟
بعض ائمہ نےان روایات ’’ يكفيك ذلك
الإمام‘‘،’’ أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام‘‘
کو
صرف جہری نماز پر محمول کیا ہے، ان کا
کہنا ہے کہ سری نمازوں ابن مسعودؓ سے قراءت کرنے کی روایات مروی ہے۔لیکن یہ بات قابل غور ہے کیونکہ
(۱) مذکورہ
بالا تمام روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ابن
مسعود ؓ امام کے پیچھے مطلق قراءت کے قائل نہیں تھے۔نہ سری میں اور نہ ہی
جہری میں۔جیسا کہ روایات کے الفاظ ’’ يكفيك ذلك الإمام‘‘،’’ أن عبد الله بن مسعود لم يقرأ خلف الإمام‘‘ صاف
طور سے مطلق قراءت کے منع پر دلالت کرتے ہیں۔
پھر
روایت ’’ أن عبد الله بن مسعود كان لا يقرأ خلف الإمام
فيما جهر فيه، وفيما يخافت فيه ‘‘ صریح ہے کہ ابن
مسعودؓ نہ جہری نماز میں امام کے پیچھے قراءت کرتے تھے اور نہ سری میں۔
بلکہ طبرانی کی ایک روایت میں الفاظ ہے ’’ كان لا يقرأ
خلف الإمام وكان إبراهيم يأخذ به ‘‘ کہ قراءت خلف الاما م کے سلسلے
میں ابراھیم نخعیؒ نے ابن مسعود ؓ کا
قول لیا ہے۔ ابراھیم نخعی ؒ کا
مسلک سری اور جہری دونوں نمازوں میں عدم
قراءت کا ہے۔(کتاب الآثار ابو یوسف :
ص ۲۴،مصنف ابن ابی شیبہ وغیرہ) لہذا معلوم ہوا کہ یہ روایات مطلق قراءت
سے منع کرتی ہے۔
(۲) ابراھیم
نخعیؒ کے بارے میں امام دارقطنی ؒ (م۳۸۵ھ)
کہتے ہیں کہ ’’ إبراهيم النخعي
هو أعلم الناس بعبد الله وبرأيه وبفتياه ‘‘ ابرھیم نخعی ؒ
وہ لوگوں میں سب سے زیادہ ابن مسعود ؓ کی
اقوال اور فتاوی کو جاننے والے تھے۔(سنن دارقطنی : ج۴: ص ۲۲۶، حدیث نمبر ۳۳۶۵)، حافظ ذہبیؒ کہتے
ہیں کہ ’’ وَكَانَ بَصِيْراً بِعِلْمِ
ابْنِ مَسْعُوْدٍ ‘‘ ابرھیم ابن مسعود ؓ کے علم کے ماہر تھے۔(سیر
: ج۴: ص ۵۲۱)، لہذا ابن مسعود ؓ کے سلسلےمیں ابراھیم نخعی ؒ کا قول دوسرے ائمہ
پر حجت ہوگا، اور یہ گزرچکا کہ وہ ابن
مسعود کے تعلق سے یہ واضح کرتے تھے کہ وہ
سری اور جہری دونوں نمازوں میں امام کے پیچھے عدم قراءت کے قائل تھے۔(دیکھئے ص : ۲۷)
(۳) عبد
اللہ بن مسعود ؓ کے تمام اصحاب سری اور جہری نمازوں میں امام کے پیچھے
ام القرآن یا کسی دوسری صورت کے ایک
حرف کی بھی قراءت کے قائل نہیں
تھے۔(دیکھئے ص :۲۲-۲۷) یہ بھی قوی
دلیل ہے کہ ابن مسعود ؓ کا مسلک
مطلق عدم قراءت کا تھا۔
(۴) سری
نمازوں میں ابن مسعودؓ سے قراءت کرنے کی تمام کی تمام روایات ضعیف یا غیر واضح ہونے کے ساتھ ساتھ ثقہ ،حفاظ کی مطلق عدم قراءت کی
روایات کے خلاف بھی ہے۔ تفصیل
ملاحظہ فرمائے
- اثری صاحب نے پہلی روایت
شریک عن اشعث کی سند سے پیش فرمائی
اور کہا کہ اس کی سند صحیح ہے۔(توضیح
الکلام : ص ۴۴۱)،
الجواب
:
اشعث
ؒ کی یہی روایت شعبہ ؒ نے بیان کیا ہے ،امام طحاوی ؒ کہتے ہیں کہ ’’ حدثنا أبو بكرة , وابن
مرزوق , قالا: ثنا أبو داود , قال: ثنا شعبة , عن أشعث بن أبي الشعثاء قال: سمعت
أبا مريم الأسدي يقول: «سمعت ابن مسعود رضي الله عنه يقرأ في الظهر
‘‘۔(شرح معانی الآثار : ج۱: ص ۲۱۰)، اس روایت میں ’’خلف الامام ‘‘
کے الفاظ نہیں ہے۔جو شریکؒ کی روایت میں ہے۔ معلوم ہوا کہ روایت میں ’’خلف الامام ‘‘ کے الفاظ نقل کرنے میں شریک ؒ منفرد ہے،اور شیخ الالبانی
ؒ کہتے ہیں کہ ’’ لا يحتج به إذا تفرد، ولا سيما إذا خالف غيره من الثقات الحفاظ
‘‘ شریک جب کسی روایت میں منفرد ہوتے ہے،تو
ان سے احتجاج نہیں کیا جائےگا، تو جب ثقہ،حافظ کی مخالفت کریں،تو وہ کس طرح
حجت ہوسکتے ہیں۔(اصل صفۃ الصلاۃ :ج۲ : ص ۷۱۶)، شیخ ابو اسحاق
الحوینی اثری صاحب بھی کہتے ہیں کہ ’’ شريك كان
سيىء الحفظ. وسيىء الحفظ لا يحتج به إذا انفرد، فكيف إذا خالف
‘‘۔(نزول الرکبۃ
: ص ۳۱)،
قریب قریب یہی بات شیخ مقبل کے شاگرد شیخ
ابو عبیدۃ عبد الرحمٰن الزاوی نے بھی کہی ہے۔(فتح الودود : ص ۱۲)
الغرض
شریکؒ اس روایت میں منفرد بھی ہے اور انہوں نے شعبہؒ کی مخالفت بھی
کی ہے ۔نیز ان کا کوئی ثقہ متابع بھی نہیں
ہے۔اور شریک کا تفرد کا دفاع کرتے ہوئے اثری صاحب
نے بھی شعبہ ؒ کی روایت ذکر کی۔مگر اس
پر توجہ نہیں دی کہ اس روایت
میں شریک ؒ نے دراصل شعبہؒ کی مخالفت کی ہے۔
یا
شاید موصوف نے اس تفرد اور مخالفت کو اصول
’’حدیث یفسر بعضہ بعضا ‘‘
سے دور کرنے کی کوشش کرہے ہے۔مگر اثری صاحب یہی اصول حضرت عبادۃ ؓ کی ’’لا
صلاۃ۔۔۔۔‘‘ والی روایت کے بارے میں بھول گئے۔
خلاصہ
یہ روایت مخالفت کی وجہ سے ضعیف ہے۔
- دوسری روایت اثری صاحب نے لیثؒ کی سند سے پیش کی ۔(ایضاً)
جواب
:
خود اثری صاحب نے صراحت کی کہ یہ
روایت محض متابعات کے طور پیش کررہے ہیں۔(ایضا
: ص ۴۴۴)،مگر یہاں مسئلہ متابعات کا
نہیں ، بلکہ مخالفت کا ہے۔ غیر مقلدین حضرات جواب عنایت فرمائے کہ کیا لیث بن ابی سلیمؒ مخالفت کی صورت میں مقبول ہونگے ،کیونکہ
ثقہ،حفاظ نے ابن مسعودؓ سے مطلق قراءت
نہ کرنا نقل کیا ہے،جیسا کہ گزرچکا،
- تیسری روایت اثری صاحب نے’’ مومل
بن اسماعیل نا سفیان عن ابی اسحاق ‘‘کی سند سے ذکر کی۔(ایضاً : ص ۴۴۷)
جواب
:
اس روایت میں ابو اسحاقؒ اور
سفیان ثوریؒ کی تدلیس [جو کہ غیر مقلدین کے نزدیک مضر
ہے] اور
مومل کے ضعف کے علاو ہ ایک اہم علت یہ ہے کہ مومل بن اسماعیل اس روایت میں ’’ فإن أحدكم تكون معه السورة فيقرأها
, فإذا فرغ ركع من قبل أن يركع الإمام , فلا تسابقوا قراءكم
‘‘ الفاظ میں منفرد ہے اور دوسرے ثقہ
حفاظ مثلاً زہیرؒ،ابو الاحوصؒ ،معمرؒ وغیرہ نے نے یہ روایت ابو اسحاقؒ سے نقل
کی،لیکن اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہے۔(المعجم الکبیر للطبرانی : ج۹: ص
۲۷۵،مصنف ابن ابی شیبہ : حدیث نمبر ۷۲۲۱)،لہذا یہ الفاظ ہی مشکوک ہے،جس کو
اثری صاحب متابعات میں پیش کیا ہے۔نیز مخالفت تو اپنی جگہ باقی ہے۔
- ایک روایت اثری صاحب نے یہ پیش کی
کہ جس میں علقمہ کا بیان ہے کہ ’’ صليت إلى جنب عبد الله
, فلم أعلم أنه يقرأ حتى جهر بهذه الآية {وقل رب زدني علما}
‘‘ میں ابن مسعود ؓ کے پہلو میں نماز پڑھی،مجھے پتا نہیں چلا کہ آپؓ قراءت کررہے ہے، یہاں تک کہ آپؓ نے
’’ وقل رب زدني علما
‘‘ زور سے پڑھا،
الجواب
:
اس
روایت میں کئی احتمالات ہیں۔
۱- اس روایت میں امام کے پیچھے پڑھنے کا ذکر نہیں،اس کے جواب میں موصوف
اثری نے پھر اس اصول’’حدیث
یفسر بعضہ بعضا ‘‘
کو ذکر کیا ہے۔ حالانکہ وضاحت کی گئی کہ شریکؒ اور موملؒ کی نفس روایت کے الفاظ ہی میں مخالفت ہے۔اور لیث
کی روایت بھی ان ثقہ ،حفاظ کے خلاف ہے۔ جس میں قراءت کا ممانعت وارد ہے۔لہذا ان روایت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
۲- ممکن ہے کہ انہوں نے یہ رکوع یا سجدہ
میں پڑھی ہو۔
۲- یا
ابن مسعودؓ نے یہ کلمات بطور دعا پڑھی ہو۔
الغرض جب احتمالات موجود ہے،تو
استدلال باطل ہوجاتا ہے۔جیسا کہ خود اثری صاحب نے کہا ہے۔(توضیح الکلام : ص۸۳۲)،
خلاصہ ابن مسعودؓ سری اور جہری نمازوں میں
قراءت کے قائل نہیں تھے۔واللہ اعلم
[1] شرح معانی الآثار کے مطبوعہ نسخے میں ابو جمرہ کے بجائے ابو حمزہ
لکھا ہے۔جو کہ غلط اور کاتب کی غلطی کا نتیجہ ہے۔صحیح ابو جمرہ ہے،جو کہ ابن عباس
ؓ کے شاگرد اور حماد بن سلمہ ؒ کے استاذ ہیں۔
[2] تفسیر ابن ابی
حاتم کے مطبوع نسخہ میں کاتب کی غلطی کی وجہ سے
’’
إن المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ إِلَّا
يوم جمعة
‘‘ کے بجائے ’’ إن
المؤمن في سعة من الاستماع إِلَي يوم جمعة ‘‘ آگیا ہے۔لیکن
امام سیوطیؒ نے یہی روایت کو جب ابن ابی حاتم ؒ کی تفسیر سے نقل کیا تو ’’ إن
المؤمن في سعة من الاستماع إِلَيْهِ إِلَّا يوم
جمعة
‘‘ کے الفاظ نقل کیا ہے۔لہذا قارئین سے گزارش ہے کہ اسے بات کو نوٹ کرلیں۔
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر14
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں