قربانی کا
حکم
متکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن صاحب دامت برکاتہم العالیہ (مأخوذ از وعظ و نصیحت جلد:۶)
اہل السنّۃ
والجماعۃ احناف کے نزدیک قربانی واجب ہے۔
امام فخر
الدین ابو محمد عثمان بن علی الزیلعی الحنفی رحمہ اللہ ( المتوفى: ۷۴۳ھ) فرماتے
ہیں
تَجِبْ عَلَى حُرٍ مُسْلِمٍ مُّقِيمٍ موسِرٍ عَنْ نَفْسِهِ لَا عَنْ طِفْلِہٖ
شَاةٌ أَو سُبُعُ بَدَنَةٍ يَوْمَ النَّحْرِ إِلَى آخِرِ أَيَّامِهِ.
(تبيين
الحقائق للزيلعي ، كتاب الاضحية)
ترجمہ: دس ذوالحجہ سے لے کر
قربانی کے آخری ایام (یعنی بارہ ذوالحجہ ) تک ہر اس آدمی پر جو آزاد، مسلمان، مقیم
اور صاحب نصاب ہو اس پر ایک بکری یا ایک بڑے جانور کے ساتویں حصے کی قربانی کرنا
واجب ہے ، ( یہ وجوب اسی پر ہو گا) اس کے بچوں کی طرف سے نہ ہو گا۔
امام ابو بکر
احمد الرازی الجصاص رحمہ اللہ ( المتوفى: ۳۷۰ھ) سورۃ الکوثر کی آیت نمبر ۲ کی
تفسیر میں فرماتے ہیں:
قَالَ الْحَسَنُ رَحِمَهُ اللهُ : صَلوةُ يَوْمِ النَّحْرِ وَنَحْرُ الْبَدَنِ
. قَالَ أَبُو بَكْرٍ : هذا التَّأْوِيلُ يَتَضَمَّنُ مَعْنَيَيْنِ أَحَدُهُمَا
إِيجَابُ صَلوةِ الْأَضْحَى وَالثَّانِي وُجُوبُ الأضْحِيَّةِ.
(احکام
القرآن للجصاص، تحت سورة الكوثر)
ترجمہ : حضرت حسن بصری رحمہ
اللہ (ت ۱۱۰ھ) نے فرمایا کہ مذکورہ آیت میں جو نماز کا ذکر ہے تو اس سے مراد عید
کی نماز ہے اور وَانْحَرْ سے قربانی مراد ہے۔ امام ابو بکر (احمد الجصاص رحمہ اللہ
ت ۳۷۰ھ) فرماتے ہیں کہ اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: پہلی بات یہ ہے کہ عید
(الاضحیٰ) کی نماز واجب ہے اور دوسری بات یہ کہ قربانی واجب ہے۔
مشہور مفسر
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ (ت ۱۲۲۵ھ) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے
ہیں:
قَالَ عِكْرَمَةُ وَعَطَا وَقَتَادَةُ : {فَصَلِّ لِرَبِّكَ} صَلوةَ الْعِيدِ
يَوْمَ النَّحْرِ {وَانْحَرْ} نُسُكَكَ ، فَعَلٰى هَذَا يَثْبُتُ بِهِ وُجُوبُ
صَلوةِ الْعِيدِ وَالْأَضْحِيَّةِ.
(التفسير
المظهري : ج ۱۰، ص ۳۵۳)
ترجمہ : حضرت عکرمہ ، حضرت عطاء
اور حضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ {فَصَلِّ
لِرَبِّكَ} سے مراد یہ
ہے کہ قربانی کے دن نماز عید ادا کرو اور {وَانْحَرْ} سے مراد یہ
ہے کہ قربانی کرو! اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نمازِ عید اور قربانی دونوں واجب ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحٍ فَلَا
يَقْرَبَنَ مُصَلًّانَا.
(سنن ابن
ماجه : باب الاضاحی ھی واجبة ام لا)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص کو قربانی کی وسعت
حاصل ہو اور قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے۔
وسعت کے باوجود قربانی نہ کرنے پر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور وعید ترک واجب پر ہوتی ہے۔
چنانچہ امام عثمان بن علی زیعی الحنفی رحمہ اللہ (ت ۷۴۳ھ) حدیث سے استدلال کرتے
ہوئے لکھتے ہیں:
وَمِثْلُ هَذَا الْوَعِيدِ لَا يُلْحَقُ بِتَرْكِ غَيْرِ الْوَاجِبِ.
(تبيين
الحقائق للزيلعي : ج ۶ ص ۲ كتاب الاضحية)
ترجمہ : اس قسم کی وعید؛ غیر
واجب کو چھوڑنے پر نہیں ہوتی (بلکہ واجب کو چھوڑنے پر ہوتی ہے) معلوم ہوا قربانی
واجب ہے۔
عَنْ جُنْدَبَ بْنِ سُفْيَانَ الْبَجَلِي رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ
شَهِدْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ النَّحْرِ فَقَالَ :
مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلوةِ فَلْيُعِدُ مَكَانَهَا أُخْرَى وَمَنْ لَّمْ
يَذْبَحْ فَلْيَذْبَحْ.
(صحیح البخاری، باب من ذبح قبل الصلوة اعاد)
ترجمہ: حضرت جندب بن سفیان بجلی
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عید الاضحیٰ
کے دن حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے (
قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (
عید کی نماز سے پہلے ) ذبح نہیں کیا تو اسے چاہئے کہ (عید کی نماز کے بعد ) ذبح
کرے۔
اس میں آپ علیہ السلام نے عید سے پہلے قربانی
کرنے کی صورت میں قربانی دوبارہ لوٹانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی
واجب ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں