نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غایۃ الامانی مقدمۃ الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی

 

غایۃ الامانی

مقدمۃ  

الفضل الربانی  فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں



تفسیر اور علوم القرآن میں  مقام :

(۱)       حافظ الحدیث،امام قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲؁ھ) نے  معلی بن منصور ؒ(م۲۱۱؁ھ) سے کہا :

’’ ألزمه فإنه أعلم الناس ‘‘

محمد بن الحسن ؒ کو لازم پکڑو! اس لئے  کہ وہ  أعلم الناس ہیں (یعنی وہ  لوگوں میں سب سے زیادہ  قرآن و حدیث کو جاننے والے ہیں) ۔(فضائل ابی حنیفہ لابن ابی العوام : ص۳۵۳)

(۲)       امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے کہا :

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد کأنہ علیہ نُزل ‘‘

میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو امام محمدؒ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو، (امام محمدؒ قرآن کا علم اتنا زیادہ رکھتے تھے کہ) گویا قرآن اترا ہی آپ پر ہے۔دیکھئے (ص : ۱۰۷)

(۳)      مشہور ثقہ،امام ابو عبید ،قاسم بن سلام ؒ ۲۲۴؁ھ) نے کہا :

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ کر کتاب اللہ (قرآن کریم) کا عالم ہو۔ دیکھئے (ص : ۱۰۶)

(۴)      حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴؁ھ) نے کہا :

            ’’ وكان محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘

            امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) تمام علوم الاسلامیہ میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)

(۵)      امام ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے کہا کہ :

’’یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی مالک‘‘ 

امام محمدؒنے امام مالک بن انس اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ  (کتاب و سنت کے) علم اور فقہ کے سمندر تھے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی (مضبوط) تھے۔ (لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)

معلوم ہوا کہ تفسیر اور علوم القرآن میں  بھی امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ)  امام تھے۔

ذہانت اور حفظ میں مقام :

(۱)       قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲؁ھ) نے  امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کے حافظہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا : کہ

’’ هكذا يكون الحفظ ‘‘

حافظہ اسی طرح (قوی) ہونا جائیے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۵۹-۳۶۰)

(۲)       امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) نے کہا :

’’وما رأیت مبدنا قط اذکیٰ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی بھی جسیم شخص امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ ذہین نہیں دیکھا۔ دیکھئے  (ص :۱۱۶)

(۳)      حافظ الشام،امام ابو القاسم  ثقۃ  الدین ابن عساکرؒ(م۵۷۱؁ھ)   نے  امام محمدؒ  کو  ضابط قرار دیا  ہے۔دیکھئے  (ص :۱۴۹)

(۴)      حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) نے کہا :  

’’وکان من اذکیاء العالم‘‘

امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین لوگوں میں سے تھے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ۵۰)

-          نیز  ایک اور مقام پر کہا  کہ

’’وکان مع تبحرہ فی الفقہ یضرب بذکائہ المثل‘‘

آپ فقہ میں تبحر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذکاوت (ذہانت) میں بھی ضرب المثل تھے۔(سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴)

-          ایک جگہ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) لکھتے ہیں کہ

’’وکان رحمۃ اللہ آیۃ فی الذکاء، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘  

امام محمدؒ ، دانائی  میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، سردار اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔  (تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۴،۹۵۵)

(۵)      امام صلاح الدین صفدیؒ۷۶۴؁ھ) کہتے ہیں کہ

’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘ 

امام محمدؒ ، امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔دیکھئے  (ص :۱۶۲)

(۶)       حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۲؁ھ) نے کہا :

’’وکان من اذکیاء العالم‘‘

امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین لوگوں میں سے تھے۔(اتحاف السالک : ص۱۷۸)

(۷)      حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں:

’’وکان من افراد الدھر فی الذکاء‘‘

امام محمدؒ اپنے زمانے کے چندذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔  (الایثار مع کتاب الآثار۲۳۳)

(۸)      امام یوسف بن تغریؒ(م۸۷۴؁ھ) نے کہا :

            ’’ الفقيه العلامة شيخ الإسلام وأحد العلماء الأعلام مفتى العراقين ۔۔۔۔۔ وكان إماماً فقيهاً محدثاً مجتهداً ذكياً، انتهت إليه رياسة العلم في زمانه بعد موت أبي يوسف‘‘۔(النجوم الزاھرۃ : ج۲: ص ۱۳۰-۱۳۱)

معقولات میں مقام  :

(۱)       امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) نے کہا  کہ

’’ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن‘‘

میں نے  امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) سے زیادہ عقلمند کسی کو نہیں دیکھا۔

-          ایک اور روایت میں کہا    کہ

’’مارأیت اعقل ولا ازھد ولا أفقه ولا اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘

             میں نے کوئی شخص عقل مندی ، پرہیزگاری،فقاہت، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ جیسا نہیں دیکھا۔

(۲)       مشہورشیخ،الواعظ الکبیر  یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ۵۵۰؁ھ) فرماتے ہیں کہ

’’وکتب الحدیث ، وکان فقیھا عالما شھما نبیلا‘‘ 

امام محمدؒ نے حدیث لکھی، اور آپ فقیہ ، عالم سمجھ دار، اور معزز شخص تھے۔(منازل الائمۃ الاربعۃ :ص۸۸)

 (۳)      حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴؁ھ) نے کہا :

            ’’ وكان محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘

            امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) تمام علوم میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)

 (۴)      حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے کہا :

’’وکان رحمۃ اللہ آیۃ فی الذکاء، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘  

امام محمدؒ ، دانائی  میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، بزرگ اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔ دیکھئے  (ص :۱۵۵)

فصاحت و بلاغت میں مقام :

(۱)       امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے کہا :

’’لو اشاء ان اقول ان القرآن نزل بلغۃ محمد بن الحسن لقلتہٗ لفصاحتہٖ‘‘

اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ قرآن امام محمد بن حسنؒ کی لغت (زبان) میں اُترا ہے تو آپ کی فصاحت کی وجہ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں۔

-          نیز فرماتے ہیں:

’’کان محمد بن الحسن الشیبانی اذا اخذ فی المسألۃ کأنہ قرآن ینزل علیہ لا یقدم حرفا ولایؤخر‘‘

امام محمد بن حسن شیبانیؒ جب کوئی مسئلہ بیان کرتے (تو اس کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے کہ) گویا قرآن اُن پراُتررہا ہے، آپ نہ کوئی حرف آگے کرتے اور نہ کسی حرف کو پیچھے کرتے۔

-          یہ بھی کہتے ہیں کہ

’’ما رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، کنت اذا رأیتہٗ یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔ دیکھئے (ص : ۱۱۷-۱۱۸)

(۲)       ثقہ،امام العربیہ،مبردؒ(م۲۸۵؁ھ) نے کہا :

            ’’ كان فصيحا ‘‘

            امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) فصیح تھے۔(الفصول : ج۱: ص ۸۵)

(۳)      مؤرخ اسلام علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) نے کہا :

’’وکان افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

            آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں اُتراہے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱)

(۴)      حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴؁ھ) نے کہا :

            ’’ وكان محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘

            امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) تمام علوم الاسلامیہ میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)

(۵)      حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے کہا :

’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘ 

امام محمدؒ ، امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴)

(۶)       امام صلاح الدین صفدیؒ۷۶۴؁ھ) کہتے ہیں کہ

’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘ 

امام محمدؒ ، امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔ دیکھئے  (ص :۱۶۲)

(۷)      امام ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) آپ کے متعلق ارقام فرماتے ہیں:

’’فکان فصیحا بلیغا‘‘ 

امام محمدؒ فصیح اور بلیغ شخص تھے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۱)

(۸)      نامور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان ۱۳۰۷؁ھ) نے کہا :

’’وکان افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

            آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں اُتراہے۔ (التاج المکلل:ص۸۰)

اللغۃ العربیۃ،علم نحو، اور حساب  میں مقام :

 (۱)       امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ) نے کہا :

’’ما رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، کنت اذا رأیتہٗ یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔دیکھئے (ص : ۱۱۸)

(۲)       امام اخفش نحویؒ(م۲۱۵؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’وما وضع شئی لشئی قط یوافق ذلک الا کتاب محمد بن الحسن فی الایمان فانہ وافق کلام الناس‘‘   

کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی دوسری چیز کے لئے وضع کی گئی ہو، اور وہ اس کے موافق بھی ہو، سوائے امام محمد بن حسنؒ کی تصنیف ’’کتاب الایمان‘‘ کے کہ وہ لوگوں کی کلام کے موافق ہے۔

(۳)     حافظ ابوسعد سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) نے امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ :

’’ومحمد ابصر الناس بالعربیۃ‘‘ 

امام محمدؒ لغتِ عربیہ میں سب لوگوں سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)

 (۴)      مشہور نحوی ،ثقہ،امام احمد بن یحیی،ثعلبؒ(م۲۹۲؁ھ) کہتے ہیں کہ

            ’’ محمد بن الحسن حجة في اللغة ‘‘

            محمد بن الحسن لغت میں حجت ہیں۔(الفصول : ج۱: ص ۸۵)

(۵)      امام ابو بکر جصاص الرازیؒ(م۳۷۰؁ھ) نے کہا : کہ

            ’’ محمد بن الحسن حجة فيما يحكيه في اللغة ‘‘

            لغت کے سلسلے میں امام محمدؒ  حجت ہیں۔(الفصول : ج۱: ص ۸۴)

(۶)       مشہور صدوق لغوی،نحوی ، امام  ابوعلی الفارسیؒ(م۳۷۷؁ھ)

’’ فکان یتعجب من تغلغل واضع ھذا الکتب فی النحو‘‘

            بھی اس کتاب ’’الجامع الکبیر‘‘ کے مصنف (امام محمدؒ) کی علمِ نحو میں مہارت پر حیران ہوگئے۔ (بلوغ الامانی۶۳)

(۷)      امام ابو السمعانیؒ(م۵۶۲؁ھ)  نے کہا :

’’صاحب فقہ وادب‘‘

امام محمد ؒ  صاحب فقہ اور صاحب ادب ہیں۔ (الانساب : ج۳: ص ۷۰)

 (۸)      امام ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) آپ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’ولہٗ فی مصنفاتہ المسائل المشکلۃ خصوصاً المتعلقۃ بالعربیۃ‘‘

امام محمدؒ کی کتابوں میں مشکل مسائل ہیں، خصوصاً جو مسائل عربی زبان کے متعلق ہیں۔

(۹)       حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’ومحمد اعلمھم بالعربیۃ والحساب‘‘

امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں امام محمدؒ لغت عربیہ اور فنِ حساب کے سب سے بڑے عالم تھے۔

(۱۰)     ثقہ ،ثبت ،حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) نے کہا :

’’وکان ایضا مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب والفطنۃ‘‘

            امام محمدؒ (حدیث وفقہ کی طرح) علوم عربیہ، نحو، حساب اور فطانت میں بھی فوقیت رکھتے تھے۔

(۱۱)      ثقہ،حافظ الحدیث ،امام قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹؁ھ) نے  بھی کہا :

’’وکان مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب ‘‘

            امام محمدؒ علوم عربیہ، نحو، اور حساب میں فوقیت رکھتے تھے۔(تاج التراجم : ص ۲۳۷)

(۱۲)     شیخ عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد۱۳۸۶؁ھ) نے بھی امام محمدؒ کو فن حساب اور دقیق مسائل بیان کرنے میں ماہر تسلیم کیاہے۔

اور آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’المسائل الحسابیۃ الدقیقۃ التی ضخم بھا محمد کتبہ‘‘ 

امام محمدؒ نے اپنی کتابوں کو حساب کے دقیق مسائل سے بھر دیا ہے۔

عبادت اور تقوی میں مقام :

(۱)       امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ)  کا

’’ان محمدا کان حزبہٗ فی کل یوم ولیلۃ ثلث القرآن‘‘

            دن اور  رات  میں  ثلث قرآن (دس پارے ) پڑھنے کا معمول تھا۔دیکھئے (ص: ۱۲۱)

(۲)       امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ) نے کہا :

’’مارأیت ازھد ولا اورع من محمد بن الحسن‘‘

 میں نے کوئی شخص پرہیزگاری،اور تقویٰ میں امام محمد بن حسنؒ  جیسا نہیں دیکھا۔دیکھئے (ص:۱۲۷)

-          آپ کے تلامذہ امام محمد بن سماعہؒ ۲۳۳؁ھ) اور امام عیسیٰ بن ابانؒ ۳۲۱) وغیرہ کی نماز کا حسن بہت مشہور ہے، اورصدوق راوی بکر العمیؒ کہتے ہیں کہ :

’’انما اخذ محمدبن سماعۃ وعیسیٰ بن ابان حسن الصلاۃ من محمد بن الحسن رضی اللہ عنہ‘‘

(۳)      امام محمد بن سماعہؒ(م۲۳۳؁ھ)  اور

(۴)      امام عیسیٰ بن ابانؒ(م۲۲۱؁ھ) نے اپنی نماز کا حسن امام محمد بن حسنؒ(م۱۸۹؁ھ) سے سیکھا تھا۔ دیکھئے (ص:۱۲۰)

(۵)      حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۶؁ھ) نے کہا :

            ’’ وكان لمحمَّد في مسجد الكوفةِ حلقةٌ وهو ابنُ عشرين سنة. وكان حسنَ الصلاةِ كثيرَ الخشوع، يقرأ القرآنَ في ثلاثة أيَّام، مشغولًا بنفسه عن مخالطة الناس، حافظًا لوقته، مستغرقَ الزمانِ في تصانيف الكتبِ وشرحها ‘‘

             کوفہ کی مسجد میں امام محمدؒ کا ایک حلقہ تھا جبکہ آپ کی عمر صرف ۲۰ سال تھی ، آپ خشوع کے ساتھ بہت اچھی نماز پڑھتے، تین روز میں قرآن کریم ختم فرماتے، لوگوں سے میل جول کے بجائے اپنے آپ میں مشغول رہتے، اپنے وقت کی حفاظت فرماتے،سارا وقت کتابوں کی تصنیف اور ان کی شرح میں گھرا رہتا۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)

(۶)       حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)نے کہا :

            ’’ وكان رحمه الله تعالى آية في الذكاء، ذا عقل تام، وسؤدد، وكثرة تلاوة للقرآن‘‘

امام محمدؒ  پر اللہ  رحم کریں ، وہ بزرگ اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔ دیکھئے (ص:۱۵۵)

            اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹؁ھ) اپنے ذات میں بے مثال عالم،مفسر،محدث،فقیہ،نحوی،لغوی،ذکی،بلیغ،زاہد،عابد اور ثقہ،حجت،ضابط اور مضبوط حافظ الحدیث ہیں۔ واللہ اعلم

            اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں اعلی  مقام عطا فرمائے اور ہم  سب کو بھی اپنے اپنے وقت پر حسن خاتمہ نصیب فرمائے اور ہمارا حشر اپنے نیک ،صالح بندوں کے ساتھ فرمائے۔۔آمین

نذیر الدین قاسمی

حیدرآباد (دکن)

         ۲۶/۹/۲۰۱۹

۲۶ محرم  ،۱۴۴۰ہجری

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...