غایۃ الامانی
مقدمۃ
الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی
ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13
پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز
سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب ہیں
تفسیر اور علوم القرآن میں مقام :
(۱) حافظ الحدیث،امام قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲ھ) نے معلی بن منصور ؒ(م۲۱۱ھ)
سے کہا :
’’ ألزمه
فإنه أعلم الناس ‘‘
محمد بن الحسن ؒ کو لازم پکڑو! اس لئے کہ وہ أعلم
الناس ہیں (یعنی وہ لوگوں میں سب سے زیادہ قرآن و حدیث کو جاننے والے ہیں) ۔(فضائل
ابی حنیفہ لابن ابی العوام : ص۳۵۳)
(۲) امام شافعیؒ
(م۲۰۴ھ)
نے کہا :
’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد کأنہ علیہ نُزل ‘‘
میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں
دیکھا جو امام محمدؒ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو، (امام محمدؒ قرآن کا علم
اتنا زیادہ رکھتے تھے کہ) گویا قرآن اترا ہی آپ پر ہے۔دیکھئے (ص : ۱۰۷)
(۳) مشہور
ثقہ،امام ابو عبید ،قاسم بن سلام ؒ (م۲۲۴ھ)
نے کہا :
’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد بن الحسن‘‘
میں نے کوئی ایسا شخص نہیں
دیکھا جو امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ کر کتاب اللہ (قرآن کریم) کا عالم ہو۔ دیکھئے (ص
: ۱۰۶)
(۴) حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴ھ) نے کہا
:
’’ وكان
محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) تمام
علوم الاسلامیہ میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)
(۵) امام ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)
نے کہا کہ :
’’یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی
مالک‘‘
امام محمدؒنے امام مالک بن
انس اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ (کتاب و سنت کے) علم اور فقہ کے سمندر تھے، اور امام
مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی (مضبوط) تھے۔ (لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)
معلوم
ہوا کہ تفسیر اور علوم القرآن میں بھی
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) امام تھے۔
ذہانت
اور حفظ میں مقام :
(۱) قاضی ابو یوسفؒ(م۱۸۲ھ) نے
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) کے حافظہ کی تعریف کرتے ہوئے کہا : کہ
’’ هكذا يكون الحفظ ‘‘
حافظہ اسی طرح (قوی) ہونا جائیے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص
۳۵۹-۳۶۰)
(۲) امام شافعیؒ
(م۲۰۴ھ) نے کہا :
’’وما رأیت مبدنا قط اذکیٰ من محمد بن الحسن‘‘
میں نے کوئی بھی جسیم شخص
امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ ذہین نہیں دیکھا۔ دیکھئے (ص :۱۱۶)
(۳) حافظ الشام،امام ابو القاسم ثقۃ الدین ابن عساکرؒ(م۵۷۱ھ) نے
امام محمدؒ کو ضابط
قرار دیا
ہے۔دیکھئے (ص :۱۴۹)
(۴) حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)
نے کہا :
’’وکان
من اذکیاء العالم‘‘
امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین
لوگوں میں سے تھے۔(مناقب ابی حنیفۃ
وصاحبیہ:ص۵۰)
- نیز ایک اور مقام پر کہا کہ
’’وکان مع تبحرہ فی الفقہ یضرب بذکائہ المثل‘‘
آپ فقہ میں تبحر رکھنے کے
ساتھ ساتھ اپنی ذکاوت (ذہانت) میں بھی ضرب المثل تھے۔(سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴)
- ایک
جگہ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) لکھتے ہیں کہ
’’وکان
رحمۃ اللہ آیۃ فی الذکاء، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘
امام محمدؒ ، دانائی میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، سردار
اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔ (تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۴،۹۵۵)
(۵) امام صلاح
الدین صفدیؒ (م۷۶۴ھ)
کہتے ہیں کہ
’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘
امام محمدؒ ، امام اور مجتہد
تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں
ہوتا ہے۔دیکھئے (ص :۱۶۲)
(۶) حافظ ابن
ناصرالدینؒ (م۸۴۲ھ)
نے کہا :
’’وکان
من اذکیاء العالم‘‘
امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین
لوگوں میں سے تھے۔(اتحاف السالک : ص۱۷۸)
(۷) حافظ ابن
حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲ھ)
لکھتے ہیں:
’’وکان من افراد الدھر فی الذکاء‘‘
امام محمدؒ اپنے زمانے کے
چندذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔ (الایثار
مع کتاب الآثار :ص۲۳۳)
(۸) امام
یوسف بن تغریؒ(م۸۷۴ھ) نے کہا :
’’ الفقيه
العلامة شيخ الإسلام وأحد العلماء الأعلام مفتى العراقين
۔۔۔۔۔ وكان إماماً فقيهاً محدثاً مجتهداً ذكياً،
انتهت إليه رياسة العلم في زمانه بعد موت أبي يوسف‘‘۔(النجوم
الزاھرۃ : ج۲: ص ۱۳۰-۱۳۱)
معقولات
میں مقام :
(۱) امام شافعیؒ
(م۲۰۴ھ) نے کہا کہ
’’ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن‘‘
میں
نے امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) سے زیادہ
عقلمند کسی کو نہیں دیکھا۔
- ایک اور روایت میں کہا کہ
’’مارأیت
اعقل ولا ازھد ولا
أفقه ولا
اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘
میں نے کوئی شخص عقل
مندی ، پرہیزگاری،فقاہت، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ جیسا
نہیں دیکھا۔
(۲) مشہورشیخ،الواعظ
الکبیر یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ (م۵۵۰ھ) فرماتے
ہیں کہ
’’وکتب الحدیث ، وکان فقیھا عالما شھما نبیلا‘‘
امام
محمدؒ نے حدیث لکھی، اور آپ فقیہ ، عالم سمجھ دار، اور معزز شخص تھے۔(منازل الائمۃ
الاربعۃ :ص۸۸)
(۳) حافظ
سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴ھ) نے کہا :
’’ وكان
محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘
امام محمد ؒ (م۱۸۹ھ) تمام
علوم میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)
(۴) حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے کہا :
’’وکان
رحمۃ اللہ آیۃ فی الذکاء، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘
امام محمدؒ ، دانائی میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، بزرگ
اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔ دیکھئے (ص :۱۵۵)
فصاحت
و بلاغت میں مقام :
(۱) امام شافعیؒ
(م۲۰۴ھ)
نے کہا :
’’لو اشاء ان اقول ان القرآن نزل بلغۃ محمد بن الحسن لقلتہٗ
لفصاحتہٖ‘‘
اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ
قرآن امام محمد بن حسنؒ کی لغت (زبان) میں اُترا ہے تو آپ کی فصاحت کی وجہ سے میں
یہ کہہ سکتا ہوں۔
- نیز
فرماتے ہیں:
’’کان محمد بن الحسن الشیبانی اذا اخذ فی المسألۃ کأنہ قرآن
ینزل علیہ لا یقدم حرفا ولایؤخر‘‘
امام محمد بن حسن شیبانیؒ
جب کوئی مسئلہ بیان کرتے (تو اس کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے کہ) گویا قرآن اُن پراُتررہا
ہے، آپ نہ کوئی حرف آگے کرتے اور نہ کسی حرف کو پیچھے کرتے۔
- یہ
بھی کہتے ہیں کہ
’’ما رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ،
کنت اذا رأیتہٗ یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘
میں نے کوئی جسیم شخص امام
محمدبن حسنؒ سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح
کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا
کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔ دیکھئے (ص : ۱۱۷-۱۱۸)
(۲) ثقہ،امام
العربیہ،مبردؒ(م۲۸۵ھ) نے کہا :
’’ كان فصيحا ‘‘
امام
محمد ؒ (م۱۸۹ھ) فصیح تھے۔(الفصول : ج۱: ص ۸۵)
(۳) مؤرخ
اسلام علامہ ابن خلکانؒ (م۶۸۱ھ)
نے کہا :
’’وکان افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل
بلغتہٖ‘‘
آپ لوگوں
میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا
تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں اُتراہے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱)
(۴) حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴ھ) نے کہا
:
’’ وكان
محمَّدٌ إمامًا في جميع العلوم ‘‘
امام
محمد ؒ (م۱۸۹ھ) تمام علوم الاسلامیہ میں امام تھے۔(مرآۃ الزمان : ج۱۳:
ص ۱۳۰)
(۵) حافظ
ذہبیؒ (م۷۴۸ھ) نے کہا :
’’وکان
امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘
امام محمدؒ ، امام اور مجتہد
تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں
ہوتا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴)
(۶) امام صلاح
الدین صفدیؒ (م۷۶۴ھ)
کہتے ہیں کہ
’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘
امام محمدؒ ، امام اور مجتہد
تھے، اور آپ کا شمار ذہین اور فصیح لوگوں میں
ہوتا ہے۔ دیکھئے (ص :۱۶۲)
(۷) امام ابن
العماد حنبلیؒ (م۱۰۸۹ھ)
آپ کے متعلق ارقام فرماتے ہیں:
’’فکان فصیحا بلیغا‘‘
امام محمدؒ فصیح اور بلیغ
شخص تھے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۱)
(۸) نامور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان (م۱۳۰۷ھ)
نے کہا :
’’وکان
افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل بلغتہٖ‘‘
آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ
جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں
اُتراہے۔ (التاج المکلل:ص۸۰)
اللغۃ العربیۃ،علم نحو، اور حساب میں مقام :
(۱) امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) نے کہا :
’’ما
رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، کنت اذا رأیتہٗ
یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘
میں نے کوئی جسیم شخص امام
محمدبن حسنؒ سے زیادہ ہلکی چال چلنے والا نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح
کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا
کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔دیکھئے (ص : ۱۱۸)
(۲) امام اخفش
نحویؒ(م۲۱۵ھ) فرمایا کرتے تھے:
’’وما وضع شئی لشئی قط یوافق ذلک الا کتاب محمد بن الحسن فی
الایمان فانہ وافق کلام الناس‘‘
کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی دوسری چیز کے لئے وضع کی گئی
ہو، اور وہ اس کے موافق بھی ہو، سوائے امام محمد بن حسنؒ کی تصنیف ’’کتاب الایمان‘‘
کے کہ وہ لوگوں کی کلام کے موافق ہے۔
(۳) حافظ
ابوسعد سمعانیؒ (م۵۶۲ھ) نے امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱ھ) سے نقل کیا
ہے کہ :
’’ومحمد ابصر الناس بالعربیۃ‘‘
امام محمدؒ لغتِ عربیہ میں
سب لوگوں سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)
(۴) مشہور نحوی ،ثقہ،امام احمد بن یحیی،ثعلبؒ(م۲۹۲ھ)
کہتے ہیں کہ
’’ محمد بن
الحسن حجة في اللغة ‘‘
محمد بن
الحسن لغت میں حجت ہیں۔(الفصول : ج۱: ص ۸۵)
(۵) امام ابو
بکر جصاص الرازیؒ(م۳۷۰ھ) نے کہا : کہ
’’ محمد بن
الحسن حجة فيما يحكيه في اللغة ‘‘
لغت کے
سلسلے میں امام محمدؒ حجت ہیں۔(الفصول
: ج۱: ص ۸۴)
(۶) مشہور صدوق
لغوی،نحوی ، امام ابوعلی
الفارسیؒ(م۳۷۷ھ)
’’ فکان یتعجب من تغلغل واضع ھذا الکتب فی النحو‘‘
بھی اس
کتاب ’’الجامع الکبیر‘‘
کے مصنف (امام محمدؒ) کی علمِ نحو میں مہارت پر حیران ہوگئے۔ (بلوغ
الامانی:ص۶۳)
(۷) امام
ابو السمعانیؒ(م۵۶۲ھ) نے کہا :
’’صاحب
فقہ وادب‘‘
امام محمد ؒ صاحب فقہ اور صاحب ادب ہیں۔ (الانساب : ج۳:
ص ۷۰)
(۸) امام ابن خلکانؒ (م۶۸۱ھ)
آپ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:
’’ولہٗ فی مصنفاتہ المسائل المشکلۃ خصوصاً المتعلقۃ بالعربیۃ‘‘
امام محمدؒ کی کتابوں میں
مشکل مسائل ہیں، خصوصاً جو مسائل عربی زبان کے متعلق ہیں۔
(۹) حافظ
ابن تیمیہؒ (م۷۲۸ھ) ارقام فرماتے ہیں:
’’ومحمد اعلمھم بالعربیۃ والحساب‘‘
امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ
میں امام محمدؒ لغت عربیہ اور فنِ حساب کے سب سے بڑے عالم تھے۔
(۱۰) ثقہ
،ثبت ،حافظ عبدالقادر قرشیؒ (م۷۷۵ھ)
نے کہا :
’’وکان ایضا مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب والفطنۃ‘‘
امام
محمدؒ (حدیث وفقہ کی طرح) علوم عربیہ، نحو، حساب اور فطانت میں بھی فوقیت رکھتے تھے۔
(۱۱) ثقہ،حافظ
الحدیث ،امام قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹ھ) نے
بھی کہا :
’’وکان
مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب ‘‘
امام
محمدؒ علوم عربیہ، نحو، اور حساب میں فوقیت رکھتے تھے۔(تاج التراجم : ص ۲۳۷)
(۱۲) شیخ
عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد(م۱۳۸۶ھ)
نے بھی امام محمدؒ کو فن حساب اور دقیق مسائل بیان کرنے میں ماہر تسلیم کیاہے۔
اور آپ کے بارے میں یہ بھی
لکھا ہے کہ:
’’المسائل الحسابیۃ الدقیقۃ التی ضخم بھا محمد کتبہ‘‘
امام محمدؒ نے اپنی کتابوں
کو حساب کے دقیق مسائل سے بھر دیا ہے۔
عبادت
اور تقوی میں مقام :
(۱) امام محمدؒ(م۱۸۹ھ) کا
’’ان
محمدا کان حزبہٗ فی کل یوم ولیلۃ ثلث القرآن‘‘
دن اور رات
میں ثلث قرآن (دس پارے )
پڑھنے کا معمول تھا۔دیکھئے (ص: ۱۲۱)
(۲) امام شافعیؒ(م۲۰۴ھ) نے کہا :
’’مارأیت
ازھد ولا
اورع من محمد بن الحسن‘‘
میں نے کوئی شخص پرہیزگاری،اور
تقویٰ میں امام محمد بن حسنؒ جیسا نہیں دیکھا۔دیکھئے
(ص:۱۲۷)
- آپ کے
تلامذہ امام محمد بن سماعہؒ (م۲۳۳ھ)
اور امام عیسیٰ بن ابانؒ (م۳۲۱) وغیرہ کی نماز کا حسن بہت
مشہور ہے، اورصدوق راوی بکر العمیؒ کہتے ہیں کہ :
’’انما اخذ محمدبن سماعۃ وعیسیٰ بن ابان حسن الصلاۃ من محمد بن
الحسن رضی اللہ عنہ‘‘
(۳) امام محمد
بن سماعہؒ(م۲۳۳ھ) اور
(۴) امام عیسیٰ
بن ابانؒ(م۲۲۱ھ) نے اپنی نماز کا حسن امام محمد بن حسنؒ(م۱۸۹ھ) سے
سیکھا تھا۔ دیکھئے (ص:۱۲۰)
(۵) حافظ
سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۶ھ) نے کہا :
’’ وكان لمحمَّد في مسجد
الكوفةِ حلقةٌ وهو ابنُ عشرين سنة. وكان حسنَ الصلاةِ كثيرَ الخشوع، يقرأ القرآنَ
في ثلاثة أيَّام، مشغولًا بنفسه عن مخالطة الناس، حافظًا لوقته، مستغرقَ الزمانِ
في تصانيف الكتبِ وشرحها ‘‘
کوفہ کی مسجد میں امام محمدؒ کا ایک حلقہ تھا
جبکہ آپ کی عمر صرف ۲۰ سال تھی ، آپ خشوع کے ساتھ بہت اچھی نماز پڑھتے، تین روز
میں قرآن کریم ختم فرماتے، لوگوں سے میل جول کے بجائے اپنے آپ میں مشغول رہتے،
اپنے وقت کی حفاظت فرماتے،سارا وقت کتابوں کی تصنیف اور ان کی شرح میں گھرا رہتا۔(مرآۃ
الزمان : ج۱۳: ص ۱۳۰)
(۶) حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸ھ)نے کہا :
’’ وكان رحمه
الله تعالى آية في الذكاء، ذا عقل تام، وسؤدد، وكثرة تلاوة للقرآن‘‘
امام محمدؒ پر اللہ
رحم کریں ، وہ بزرگ اور قرآن مجید کی تلاوت کثرت سے کر نے والے تھے۔ دیکھئے
(ص:۱۵۵)
اس پوری تفصیل سے معلوم ہوا کہ امام
محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹ھ) اپنے ذات میں بے مثال
عالم،مفسر،محدث،فقیہ،نحوی،لغوی،ذکی،بلیغ،زاہد،عابد اور ثقہ،حجت،ضابط اور مضبوط
حافظ الحدیث ہیں۔ واللہ اعلم
اللہ تعالی ان کو جنت الفردوس میں
اعلی مقام عطا فرمائے اور ہم سب کو بھی اپنے اپنے وقت پر حسن خاتمہ نصیب
فرمائے اور ہمارا حشر اپنے نیک ،صالح بندوں کے ساتھ فرمائے۔۔آمین
نذیر الدین قاسمی
حیدرآباد (دکن)
۲۶/۹/۲۰۱۹
۲۶ محرم ،۱۴۴۰ہجری
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں