نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں

 

 

الفضل الربانی فی حیاۃ  الامام محمد بن الحسن الشیبانی

امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں

                  -حافظ ظہور احمد الحسینی  حفظہ اللہ

ترتیب و حاشیہ:  مولانا نذیر الدین قاسمی

نحمدہ ونصلی ونسلم علی رسولہ الکریم ، اما بعد :

امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) فقہ کے عظیم سپوت اور حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے ہیں، آپ کا یہ بہت بڑا کارنامہ ہے کہ آپ نے فقہ حنفی (جوشروع سے اب تک اہلِ اسلام کی اکثریت کا دستورِ عمل اور پرسنل لاء ہے) کو کتابی صورت میں لکھ کر پوری دنیا کو اس سے روشناس کرایا۔

آپ کے ذاتی حالات:

حضرت امام محمدؒ کے خاندان کا تعلق دمشق (شام) کے علاقہ ’’الغوطہ‘‘ کے وسط میں واقع قصبہ ’’حرستا‘‘ سے تھا، پھر آپ کے والد شام سے ہجرت کرکے عراق آگئے،اور عراق کے شہر  ’’واسط‘‘  میں سکونت اختیار کرلی، امام محمدؒ کی پیدائش یہیں ’’واسط‘‘ میں ہوئی، اور پھر آپ کوفہ تشریف لے گئے ، اوروہیں آپ کی نشو ونما ہوئی۔

امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) امام ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، امام ذہبیؒ۷۴۸؁ھ) اور امام ابن ناصرالدین (م؎۸۴۰؁ھ) وغیرہ علماء آپ کے حالات میں لکھتے ہیں:

اصلہ من قریۃ دمشق فی وسط الغوطۃ اسمھا حرستا، وقدم ابوہ من الشام الی العراق، واقام بواسط فولدہ بھا محمد المذکور ونشأ بالکوفۃ۔

’’امام محمدؒ کا اصل تعلق دمشق میں  ’’وسط غوطہ‘‘ میں واقع ایک قصبہ جس کا نام ’’حرستا‘‘ ہے ، سے ہے، آپ کے والد شام سے عراق آکر ’’واسط ‘‘ میں مقیم ہوگئے تھے، اور یہیں ان کے ہاں امام محمدؒ مذکور کی ولادت ہوئی،اور آپ کوفہ میں پروان چڑھے‘‘۔( کتاب الانساب:ج۳۱۶۶، وفیات الاعیان :ج۲: ص۳۲۱، مناقب ابی حنیفہ و صاحبہ :ص:۵۰، اتحاف السالک براۃ الموطا عن مالک :ص۱۷۶)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) کی تصریح کے مطابق آپ کے خاندان کا اصلی تعلق دمشق سے بھی پہلے ’’جزیرہ‘‘ سے تھا۔  (الطبقات الکبریٰ:ج۷: ص۲۴۲)

آپ کی ولادت صحیح قول کے مطابق ۱۳۲؁ھ میں ہوئی، جیسا کہ امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) امام شمس الدین ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ)، امام ناصرالدین الدمشقی ؒ ۸۴۰؁ھ) امام ابن کثیرؒ۷۷۴؁ھ) اور دیگر کئی محدثین نے تصریح کی ہے۔  (طبقات الکبری:ج۷: ص۲۴۲،مناقب ابی حنیفہ وصاحبیہ :ص۵۰، اتحاف السالک : ص : ۱۷۶، البدایہ والنھایہ:ص۱۹۶،ج۷)

امام محمدؒ کی زندگی کا زیادہ تر حصہ درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں گذرا، اور کچھ عرصہ کیلئے آپ دریائے فرات کے کنارے آباد ایک مشہور شہر ’’رقّہ‘‘ کے قاضی بھی رہے ،لیکن جلد ہی اس سے سبکدوش ہوکر بغدادمنتقل ہوگئے اور دوبارہ ہمہ تن اپنے علمی مشاغل میں مصروف رہنے لگے، خلیفہ ہارون رشیدؒ ۱۹۳؁ھ) آپ کے علم اور فضل وکمال کا بہت زیادہ معترف تھے، اور جب سفر میں جاتے تو اکثر آپ کو اپنے ساتھ رکھتے۔

 ۱۸۹؁ھ  میں جب وہ ایران کے مشہور علمی شہر ’’رے‘‘ گئے تو آپ کو اور مشہور نحوی عالم امام کسائی ۱۸۹؁ھ) کوبھی اپنے ساتھ لے گئے، اور اتفاق سے ان دونوں جبالِ علم نے وہیں ایک ہی روز انتقال کیا، خلیفہ کو اس کا بہت صدمہ ہوا ، اور ان دونوں کو دفن کرنے کے بعد کہنے لگے:

’’دفنت الیوم اللغۃ والفقہ جمیعا بالری‘‘

آج کے دن میں نے لغت عربیہ اور فقہ دونوں کو ’’ رے‘‘ میں دفن کردیا ہے۔ (تاریخ بغداد: ۲؍۱۷۸، اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ:ص۱۳۲،۱۳۳)[1]

خلیفہ ہارون الرشید کے درباریوں میں سے ایک مشہور ادیب و شاعر ابو محمد الیزیدیؒ نے امام محمد ؒ کی وفات پر ایک طویل مرثیہ لکھا جس کا ایک شعر یہ ہے:

وقلت اذا ما الخطب اشکل من لنا

بایضاحہ یوما وانت فقید

’’میں نے کہا: آج جب تو نہ رہا تو ہمارے لئے مشکلات حل کرنے والا کہاں سے آئے گا۔‘‘  (ایضاً)[2]

علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) اور امام عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے بہ سندِ متصل نقل کیا ہے کہ امام محمدؒ جو کہ ابدال میں سے تھے، فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمدؒ کو آپ کی وفات کے بعد خواب میں دیکھا ، اور آپ سے پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے؟

آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے جنت میں داخل کردیاہے،اور مجھ سے فرمایا کہ میں نے تجھے علم کا برتن اس لئے نہیں بنایا تھا کہ تجھے عذاب دوں۔

میں نے پوچھا کہ :  امام ابو یوسفؒ کا کیا بنا ہے؟  آپ نے فرمایا : وہ (جنت میں ) مجھ سے ایک طبقہ اوپر ہیں۔

میں نے پوچھا کہ: امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ کیا ہوا ؟  آپ نے فرمایا:  فوق ابی یوسف بطبقات۔ 

وہ تو (جنت میں)امام ابو یوسفؒ سے بھی کئی طبقے (درجے) اوپر ہیں۔  (ایضاً)[3]

عہد طلب علمی:

آپ کی نشوونما چونکہ کوفہ جیسے عظیم شہر میں ہوئی جو اس وقت ’’معدن العلم والفقہ‘‘ تھا، اور جس کا علمی پایہ پوری اسلامی دنیا میں مشہورتھا، اور پھر تحصیلِ علم کا شوق وجذبہ بچپن سے آپ میں موجزن تھا، اس لئے یہ ناممکن تھا کہ آپ اس علمی ماحول سے متأثر ہوئے بغیر رہ جاتے، چنانچہ آپ اپنی کم عمری سے ہی علم (خصوصاً حدیث و فقہ) کی تحصیل میں لگ گئے۔

علامہ خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل خود آپ کا اپنا بیان نقل کیا ہے کہ:

ترک ابی ثلاثین الف درھم، فانفقت خمسۃ عشر الفاً علی النحو والشعر، وخمسۃ عشرالفاً علی الحدیث والفقہ۔

میرے والد نے (ترکہ میں میرے لئے ) تیس ہزار درہم چھوڑے تھے، میں نے ان میں سے پندرہ ہزار درہم نحو اور شعر وشاعری سیکھنے میں لگا دیئے، اور باقی پندرہ ہزار حدیث اور فقہ کی تحصیل میں خرچ کردئیے۔ (تاریخ بغداد:ج۲: ص۱۷۰)[4]

آپ نے حدیث وغیرہ علوم کی تحصیل میں اپنے وقت کے اکابر ائمہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کئے، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) آپ کے حالات میں لکھتے ہیں:

’’وطلب الحدیث ولقی جماعۃ من اعلام الائمۃ‘‘

امام محمدؒ نے حدیث حاصل کی، اور اس کی طلب میں ائمہ اعلام سے ملاقات کی۔

(وفیات الاعیان:ج ۲۳۲۱،  الوافی بالوفیات:ج۲۳۳۲)

آپ کوجیسے ائمہ اعلام اور جلیل القدر اساتذہ و مشائخ سے تلمذ کا شرف حاصل ہے ایسے ہی آپ کا یہ اعزاز بھی ہے کہ آپ کے اساتذہ ومشائخ میں ایک بڑی تعداد حضرات تابعین کی بھی ہے۔

محدث کبیر امام حاکم نیشاپوریؒ (م۴۰۵؁ھ) آپ کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’وقد ادرک جماعۃ من التابعین‘‘

آپ نے تابعین کی ایک جماعت کو پایا ہے۔  (معرفۃ علوم الحدیث:ص۱۹۳)

آپ نے تابعین کی اس جماعت سے فقہ وغیرہ علوم کی تحصیل کے علاوہ روایتِ حدیث بھی کی ہے ، جس کی وجہ سے آپ کی سندِ حدیث اپنے معاصرین میں سب سے عالی ہوگئی ہے۔

امام اعظم ابوحنیفہؒ سے شرفِ تلمذ:

امام موصوف نے جن ائمہ اعلام سے اخذِعلم کیا ، ان میں سرِ فہرست حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کی ذاتِ گرامی ہے۔

حضرت امام صاحبؒ چونکہ تمام دینی علوم بالخصوص فقہ اور حدیث کے جامع تھے اسلئے امام محمدؒ نے آپ سے ان دونوں علوم میں کمال حاصل کیا۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’ولازم ابا حنیفۃ وحمل عنہ الفقہ والحدیث‘‘

آپ نے امام ابوحنیفہؒ کی صحبت کو لازم پکڑا اور ان سے فقہ اور حدیث کو حاصل کیا۔

(تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱)

نیز حافظؒ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:

’’وتفقہ بابی حنیفۃ وسمع منہ‘‘

آپ نے امام ابوحنیفہؒ سے فقہ کی تعلیم پائی اور ان سے حدیث کا سماع کیا۔

(الآثار بمعرفۃ الآثار، طبع مع کتاب الآثار:ص۲۳۲)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) آپ کے متعلق لکھتے ہیں:

’’وجالس ابا حنیفہ وسمع منہ ونظر فی الرأی‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کی مجالست اختیار کی، اور ان سے حدیث کی سماعت کی، اور رائے (فقہ) میں کمال حاصل کیا ۔(الطبقات الکبریٰ:ج۷۲۴۲)

امام ابن قتیبہؒ ۲۷۶؁ھ) نے بھی آپ کے تذکرے میں لکھا ہے کہ :

’’وطلب الحدیث وسمع… وجالس ابا حنیفۃ وسمع منہ‘‘

امام محمدؒ نے حدیث طلب کی اور اس کا سماع کیا، نیز آپ نے امام ابوحنیفہؒ کی مجالست اختیار کی، اور آپ سے بھی حدیث کا سماع کیا۔(المعارف:ص۵۰۰)

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) لکھتے ہیں :

’’وروی عن ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہ سے روایت کی ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ج۹۱۳۴)

نیز امام ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور ان کے شاگرد علامہ صفدیؒ (م۷۶۴؁ھ) نے آپ کے حالات میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’سمع ابا حنیفۃ واخذ عنہ بعض کتب الفقہ‘‘ 

آپ نے امام ابوحنیفہؒ سے حدیث کا سماع کیا، اور ان سے فقہ کی بعض کتب پڑھیں۔

(تاریخ الاسلام:ج۴۹۵۴،الوافی:ج۲۳۳۲)

حافظ ابوسعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) آپ کو امام صاحبؒ کے تلمیذ قرار دیتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

’’وصاحب ابی حنیفۃ وتلوہ‘‘

آپ صاحب ابی حنیفہؒ اور ان کے پیرو و جانشین ہیں۔ (کتاب الانساب :۳؍۱۶۶)

امام ابویوسفؒ سے تکمیلِ علم:

امام محمدؒ کو صرف دو سال حضرت امام اعظمؒ سے استفادہ کا موقع مل سکا، اگرچہ اس قلیل عرصہ میں بھی آپ نے اپنی خداداد صلاحیتوں اور حضرت امام صاحبؒ جیسے ماہر اور قابلِ فخر استاذ کی صحبت کی بدولت بہت کچھ حاصل کر لیاتھا، لیکن مزید علم حاصل کرنے کے شوق میں آپ نے امام صاحبؒ کی وفات(م۱۵۰؁ھ) کے بعد ان کے سب سے بڑے شاگرد امام ابویوسفؒ ۱۸۲؁ھ) کی مجالست اختیار کی اور ان سے دینی علوم کی تکمیل کی۔

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’وحضر مجلس ابی حنیفۃ سنتین ثم تفقہ علیٰ ابی یوسف صاحب ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ دو سال امام ابوحنیفہؒ کی مجلس میں حاضر رہے، پھر (امام صاحبؒ کی وفات کے بعد) آپ نے امام ابویوسفؒ صاحب ابی حنیفہؒ سے فقہ کی تعلیم حاصل کی۔

(وفیات الاعیان:ج۲۳۲۱، اتحاف السالک :ص۱۷۶)

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) آپ کے مناقب میں ارقام فرماتے ہیں:

وکتب شیئا من العلم عن ابی حنیفۃ، ثم لازم ابا یوسف من بعدہ حتی برع فی الفقہ۔

آپ نے امام ابویوسفؒ (کی مجالست) کو لازم پکڑا یہاں تک کہ فقہ میں مکمل عبور حاصل کرلیا۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

          ایک اور مقام پر لکھتے ہیں کہ:

’’واخذ عن ابی حنیفۃ بعض الفقہ، وتمم الفقہ علی القاضی ابی یوسف‘‘ 

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ سے کچھ فقہ حاصل کیا، اور اس کی تکمیل قاضی ابویوسفؒ سے کی۔ (سیراعلام النبلاء:ج۹۱۳۴)

امام ابویوسفؒ سے اگرچہ بڑے بڑے نامور اور بلند مرتبت محدثین وفقہا ء نے حدیث اور فقہ کی تحصیل کی، اور آپ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں، لیکن ان میں سب سے زیادہ فقیہ، اور سب سے زیادہ جلیل القدر جو شخص قرار پائے وہ امام محمدؒ ہیں۔

چنانچہ حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) ، امام حماد بن سلیمانؒ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’وانتشر اصحاب ابی یوسف فی الآفاق، وافقھھم محمدبن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں، ان میں سب سے زیادہ فقیہ امام محمد بن حسنؒ ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء :۵؍۲۳۶)

نیز امام ذہبیؒ نے امام یوسفؒ کے مناقب میں جہاں ان کے تلامذہ میں امام یحیٰ بن معینؒ، امام احمد بن حنبلؒ، اور امام علی بن الجعدؒجیسے نابغہ روزگار محدثین کو شمار کیا ہے، وہاں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’واجل اصحابہ محمد بن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ میں سے زیادہ جلیل القدر شاگرد امام محمد بن حسنؒ ہیں۔

(مناقب ابی حنیفۃ۳۹)

گویا حافظ ذہبیؒ جیسے مؤرخ اسلام اور محدث ناقد کی نظر میں امام محمدؒ کا مقام فقہ اور جلالتِ شان میں  امام ابویوسفؒ کے دیگر تمام تلامذہ (امام ابن معینؒ، امام احمدؒ وغیرہ) سے زیادہ ہے۔

مزید برآں امام موصوف کا یہ بھی بہت بڑا اعزاز ہے کہ آپ امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے مذہب کے سب سے بڑے راوی سمجھے جاتے ہیں ، اورآپ ہی نے ان دونوں حضرات کے مذاہب کو مضبوط دلائل سے مستحکم کیاہے۔

شیخ الاسلام امام ابن عبدالبر المالکیؒ ۴۶۳؁ھ) آپ کے متعلق تصریح کرتے ہیں:

’’ولازم اباحنیفۃ ثم ابا یوسف بعدہ، وھو راویۃ ابی حنیفۃ وابی یوسف القائم بمذھبھما‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ (کی مجلس ) کو ، اورپھر امام ا بویوسفؒ(کی مجلس) کو لازم پکڑا، اور آپ امام ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے (مذہب کے) بڑے راوی ہیں، اور ان کے مذہب کو قائم (مضبوط) کرنے والے ہیں۔(الانتقاء:ص۱۷۴)

کوفہ کے دیگر ائمہ سے اخذِ علم:

آپ نے امام اعظمؒ اور امام ابویوسفؒ کے علاوہ کوفہ کے دیگر کئی نامور اور جلیل المرتبت ائمہ سے بھی اخذ علم کیا، علامہ خطیب بغدادیؒ ، اورحافظ ذہبیؒ وغیرہ محدثین کی تصریح کے مطابق آپ کے بعض مشہور اساتذہ یہ ہیں:

امام سفیان ثوریؒ ، امام مالک بن مغولؒ، امام مسعربن کدامؒ، امام زفر بن ہذیلؒ، امام یونس بن ابی اسحاقؒ، امام قاسم بن معینؒ ، امام داؤد طائیؒ، وغیرہم ، رحمہم اللہ تعالیٰ۔

(تاریخِ بغداد:ج۲۱۶۹، مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰، بلوغ الامالی:ص۷)

امام مالکؒ (م۱۷۹؁ھ) سے مؤطا اور دیگر احادیث کا سماع:

حضرت امام محمدؒ، ائمہ کوفہ سے تحصیلِ علم کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے اور وہاں کے ائمہ اجلہ خصوصاً امام دارالہجرت حضرت مالک بن انسؒ( م۱۷۹؁ھ) سے استفادہ کرنے لگے، آپ تین سال امام مالکؒ کی خدمت میں رہے، اور ان سے ان کی ’’مؤطا‘‘ اور دیگر احادیث کا سماع کیا۔

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) فرماتے ہیں:

’’وسمع… مالک بن انس ولازم مالکا مدۃ‘‘ 

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے بھی حدیث کا سماع کیا، اور ایک عرصہ تک ان کے ساتھ رہے۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) آپ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

’’وکان اقام عندہ ثلاث سنین أو شبھا بثلاث سنین‘‘

امام محمدؒ ، امام مالکؒ کے پاس پورے تین سال، یا تین سال کے قریب رہے۔

(اتحاف السالک: ص۱۷۷)

نیز حافظ موصوفؒ نے بحوالہ قاضی عیاضؒ لکھاہے:

’’ومحمد قد سمع المؤطا من مالک وسمع علیہ کثیرا‘‘

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مؤطا اور بکثرت احادیث کا سماع کیا۔(ایضا:ص۲۶۲)

ایک اور جگہ حافظ ابن ناصرالدینؒ تصریح کرتے ہیں کہ:

’’واخذ عن مالک الموطا وغیرہ من الاحادیث لفظا وعرضا‘‘

آپ نے امام مالکؒ سے ’’مؤطا‘‘ اور ان کی دیگر احادیث لفظاً (یعنی امام مالکؒ سے سن کر) اور عرضاً (یعنی امام مالکؒ کو ان کی احادیث سناکر) دونوں طریقوں سے حاصل کیں۔ (ایضا ً ص: ۱۷۶)

محدثین میں روایتِ حدیث کے طریقے رائج تھے، ایک لفظاً کہ محدث خود اپنے طلبہ کو احادیث سنائے، اور دوسرا طریقہ ’’عرض علی المحدث‘‘ کہ طلبہ محدث کی لکھی ہوئی احادیث کو پڑھ کر سنائیں۔

امام مالکؒ کے ہاں یہ دوسرا طریقہ ’’عرض علی المحدث‘‘رائج تھا، اور وہ خود بہت ہی کم طلبہ کو حدیث سناتے تھے، لیکن امام محمدؒ کا امام مالکؒ کی نظر میں عظیم المرتبت ہونے اور آپ سے ان کی محبت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ امام مالکؒ نے اپنی عادت سے ہٹ کر آپ کو خود اپنی زبانی سات سو احادیث سنائیں۔

چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) امام شافعیؒ سے نقل کرتے  ہیں کہ:

قال لی محمد بن الحسن: اقمت علی مالک ثلاث سنین، وسمعت من لفظہ سبع مائۃ حدیث، قلت: وکان مالک لا یحدث من لفظہ الا نادراً۔

امام محمد بن حسنؒ نے مجھ سے فرمایا کہ میں تین سال امام مالکؒ کے پاس رہا، اورخود ان کے الفا ظ سے سات سو احادیث کی سماعت کی۔[5] میں (حافظ بن حجرؒ ) کہتا ہوں کہ امام مالکؒ اپنے الفاظ سے بہت کم احادیث بیان کرتے تھے۔ (الایثار مع کتاب الآثار۲۳۳)

نیزحافظؒ  لکھتے ہیں:

’’فلولا طول اقامۃ محمد عندہ وتمکنہ منہ ماحصل لہ عنہ ھذا ‘‘

اگر امام محمدؒ امام مالکؒ کے پاس زیادہ عرصہ نہ رہے ہوتے ، اور ان سے آپ کا اچھا تعلق نہ ہوتا تو آپ کو ان سے یہ چیز نہیں مل سکتی تھی۔(تعجیل المنفعۃ۳۶۱-۳۶۲)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے آپ کو امام عبدالرحمن بن مہدیؒ وغیرہ جیسے امام مالکؒ کے کبارِ تلامذہ میں شمار کیا ہے، اور آپ کو امام شافعیؒ ( جو امام مالکؒ کے مشہور شاگرد ہیں) پر ترجیح دی ہے، چنانچہ امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) نے ایک حدیث کی سند کے متعلق فرمایا ہے کہ امام مالکؒ نے اس کو بیان کرتے ہوئے غلطی کی ہے اور سند میں انہوں نے مجاہد کے نام کا اضافہ غلطی سے کر دیا ہے، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ، امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

’’قدرواہ عن مالک؛ باثبات مجاھد، ابراھیم بن طھمان، وابن وھب، وعبدالرحمن بن مھدی، ومحمد بن الحسن الفقیہ، وسماع ھولاء منہ قدیم‘‘

امام مالکؒ سے مجاہدؒ کے اثبات کے ساتھ ، ابراہیم بن طہمانؒ ، ابن وہبؒ، عبدالرحمن بن مہدیؒ، اور محمدبن حسن فقیہؒ نے روایت کیا ہے، اور ان حضرات کا (امام شافعیؒ کے مقابلے میں ) امام مالکؒ سے سماع قدیم ہے۔

یعنی یہ چار حضرات (امام محمدؒ سمیت) امام مالکؒ کے قدیم شاگردہیں، اور ان کی روایت کو امام شافعیؒ کی روایت پر ترجیح ہے۔ (سیراعلام النبلاء: ترجمہ عبدالکریم الجزریؒ)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کا ’’مؤطا‘‘ کے راویوں میں ایک نمایاں مقام:

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے ان کی مشہور تصنیف حدیث ’’مؤطا‘‘ کو سُن کر آگے اس کو روایت بھی کیا ہے، اور آپ کا شمار ’’مؤطا‘‘ کے مشہور اور بڑے راویوں میں ہوتا ہے، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے امام محمدؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ:

’’وقال بن عدی فی کاملہ سمع محمد المؤطا من مالک‘‘ 

امام ابن عدیؒ۳۶۵؁ھ) نے اپنی کتاب ’’الکامل‘‘ میں لکھا ہے کہ امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مؤطا کا سماع کیا تھا۔(تاریخ الاسلام: ۳؍۹۵۴)

محدث کبیر امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) لکھتے ہیں:

’’ومحمد بن الحسن الشیبانی ممن روی المؤطا عن مالک‘‘

امام محمد بن حسن الشیانیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے امام مالکؒ سے مؤطا کو روایت کیا ہے۔

(معرفۃ علوم الحدیث:ص۹۳)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) آپ کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’وقد جمع حدیثہ عن مالک واورد فیہ مایخالفہ فیہ ، وھو المؤطا المسموع من طریقہ‘‘۔ 

امام محمدؒ نے امام مالکؒ سے مروی احادیث کو جمع کیا، اور ان کے ساتھ جو اختلاف کیا وہ بھی ذکر کیا، اور اسی مجموعہ کا نام ’’مؤطا‘‘ ہے ، جو امام محمدؒ کے طریق سے مسموع (سنا جاتا) ہے۔(تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۲)

حافظ ابن ناصرالدینؒ(م۸۴۲؁ھ) نے امام محمدؒ کو’’مؤطا‘‘ کے مشہور راویوں میں شمار کرکے آپ کا شاندار ترجمہ لکھاہے، اور آپ کے روایت کردہ ’’نسخۂ مؤطا‘‘ کے تعارف میں تصریح کی ہے کہ:

’’والمؤطا الذی یعرف بمؤطا محمد بن الحسن: ھو کتاب اختلاف محمد بن الحسن ومالک بن انس، وھو تسعۃ اجزاء ، انبأنا بہ جماعۃ‘‘ 

وہ مؤطا جو کہ ’’مؤطا محمد بن حسن‘‘ سے مشہور ہے ، یہ وہ کتا ب ہے جو امام محمدبن حسنؒ اور امام مالک بن انسؒ کے اختلافا ت پر مشتمل ہے ، اور اس کے نواجزاء (حصے) ہیں ، ہمیں محدثین کی ایک جماعت نے اس کی روایت کی ہے۔(اتحاف السالک برواۃ المؤطا عن مالک۱۷۸؍۱۷۹)

امام محمدؒ کے روایت کردہ نسخۂ مؤطا کی محدثین میں مقبولیت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ’’مؤطا‘‘ کے بیس سے زائد نسخے ہیں، لیکن آج صرف اس کے دو نسخے مشہور و متداول ہیں ، ایک امام یحییٰ بن یحییٰ کا نسخہ، اور دوسرا امام محمدؒ کا نسخہ۔

امام محمدؒ کا دیگر بلادِ اسلامیہ کے ائمہ سے استفادہ:

امام محمدؒ کی وسعت و کثرت علم کی یہ بیّن دلیل ہے کہ آپ نے تقریبا تمام مشہور بلادِ اسلامیہ مثلاً کوفہ، بصرہ، مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، شام ، خراسان ، اور واسط وغیرہ کے اجلہ اہل علم سے استفادہ کیا، اور ان سے حدیث کی سند لی، کوفہ سے تعلق رکھنے والے آپ کے مشہور اساتذہ کاتذکرہ گزر چکا ہے۔

مدینہ منورہ کے اہلِ علم میں سے آپ نے امام مالکؒ کے علاوہ محمد بن عبدالرحمن  بن ابی ذئبؒ، عبدالرحمن ابن ابی الزنادؒ، خارجہ بن عبداللہ ، محمد بن ہلالؒ ، عیسیٰ بن ابی عیسیٰ الخیاط اور داؤدبن قیسؒ وغیرہم سے بھی اخذ علم کیا ۔ (بلوغ الامانی:ص۸)

مکہ مکرمہ کے جن اہلِ علم سے آپ نے استفادہ کیا ان میں شیخ المحدثین امام سفیان بن عُیینہؒ ، زمعہ بن صالحؒ، اسماعیل بن عبدالملکؒ، طلحہ بن عمروؒ، سیف بن سلیمانؒ، ابراہیم بن یزید اُمویؒ، زکریا بن اسحقؒ اور عبداللہ بن عبدالرحمن الطائفیؒ وغیرہ زیادہ قابلِ ذکرہیں۔ (ایضاً:ص۸)

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) کی تصریح کے مطابق آپ نے مکہ مکرمہ کے سب سے مشہور محدث و فقیہ اور صحاحِ ستہ کے مرکزی راوی امام ابن جُریج مکیؒ ۱۵۰؁ھ) سے بھی درسِ حدیث لیاتھا۔

(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

بصرہ جو آپ کے شہر کوفہ کے قریب واقع ہے اور کوفہ کی طرح اس کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا، آپ نے یہاں کے علماء سے بھی کافی استفادہ کیا، چنانچہ آپ کے بصری اساتذہ میں سے عبدالعزیز بن ربیع بصریؒ ، ہشام بن ابی عبداللہ، ربیع بن صبیحؒ، ابوحرہ واصل بن عبدالرحمنؒ، سعید بن ابی عروہؒ اسماعیل بن ابراہیمؒ اور مبارک بن فُضالہؒ وغیرہ زیادہ مشہور ہیں۔  (بلوغ الامانی:ص۸)

ملک شام سے تعلق رکھنے والے آپ کے مشائخ میں سرِ فہرست امام اوزاعیؒ ۱۵۷؁ھ) ہیں جو کہ اہلِ شام کے امام اور مجتہد عظیم ہیں ،اور شام وغیرہ کے علاقوں میں کئی سوسال تک ان کی تقلید ہوتی رہی، آپ نے اُن سے علم فقہ میں استفادہ کرنے کے علاوہ ان سے حدیث کی بھی روایت کی ہے ، جیسا کہ امام ابن سعدؒ (م۲۳۰؁ھ) نے تصریح کی ہے۔  (الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

امام اوزاعیؒ ۱۵۷؁ھ) کے علاوہ آپ  نے شام کے دیگر محدثین و فقہاء مثلاً محمد بن راشد مکحولیؒ ، اسماعیل بن عیاشؒ اور ثور بن یزیدؒ وغیرہ کے سامنے بھی زانوئے تلمذ تہہ کئے ہیں۔ (بلوغ الامانی:ص۸،از امام زاہد الکوثریؒ)

خراسان سے تعلق رکھنے والے امام عبداللہ بن مبارکؒ۱۸۱؁ھ) جو محدثین میں ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے مشہور تھے، یہ بھی آپ کے مشائخ میں سے ہیں۔ (ایضاً)

اور ’’واسط‘‘ کے کئی چیدہ چیدہ اہلِ علم سے بھی آپ نے اخذ علم کیا ، جن میں مشہور محدث اور امام فن الرجال شعبہ بن حجاجؒ (یہ بھی امام ابن المبارکؒ کی طرح  ’’امیر المؤمنین فی الحدیث‘‘ کے لقب سے پکارے جاتے ہیں)،عباد بن عوامؒ اور ابومالک بن عبدالملک نخعیؒ بھی شامل ہیں۔(ایضا)

غرض یہ کہ آپ تمام مشہور بلاد اسلامیہ کے علوم کے جامع تھے۔

مسند درس و تدریس:

امام محمدؒماہر اساتذہ کی زیرتربیت اور اپنی ذہانت اور محنت کی وجہ سے بہت جلد علوم دینیہ کی تحصیل فرمالی، اور نہایت کم عمری میں ہی مسندِ درس وتدریس پر فائز ہوگئے۔

علامہ خطیب بغدادیؒ نے اپنی سندکے ساتھ امام اعظمؒ (م۱۵۰؁ھ)کے جلیل القدر پوتے امام اسماعیل ابن حماد بن ابی حنیفہؒ (م۲۱۲؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ:

’’کان محمد بن الحسن لہ مجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ‘‘    

امام محمدبن حسنؒ کی مسجدِ کوفہ میں مجلس درس لگتی تھی، جب آپ کی عمر صرف بیس سال تھی۔

(تاریخ بغداد:ج۲: ص۱۷۰)[6]

اما م ابو سعد السمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) آپ کے تعارف میں ارقام فرماتے ہیں:

’’انہ کان یجلس فی مسجد الکوفۃ وھو ابن عشرین سنۃ‘‘

امام محمدؒ جب کوفہ کی مسجد میں درس کے لئے بیٹھے تو اس وقت آپ کی عمر صرف بیس سال تھی۔

(کتاب الانساب:۳؍۱۶۶)

آپ کچھ عرصہ کوفہ میں مسندِ درس کو آباد کرتے رہے، پھر بغداد تشریف لے گئے اور وہاں درس وتدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) آپ کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’وقدم بغداد ونزلھا واختلف الیہ الناس ، وسمعوا منہ الحدیث والرأی‘‘

امام محمدؒ بغداد آکر وہاں آبادہوگئے، اور لوگ آپ کے پاس آنے لگے اور آپ سے حدیث اور رائے (فقہ) کا سماع کرنے لگے۔(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۲)

علامہ ابن الندیمؒ ۳۸۵؁ھ)نے بھی آپ کے متعلق تصریح کی ہے کہ:

’’وقدم بغداد ونزلھا ، وسمع منہ الحدیث واخذ عنہ الرأی‘‘

امام محمدؒ بغداد تشریف لائے تووہیں مقیم ہوگئے، چنانچہ وہاں آپ سے حدیث کا سماع کیا گیا، اور رائے(فقہ) کا علم حاصل کیا گیا۔ (کتاب الفھرست۲۵۷)

آپ کے درس سے بڑے بڑے نامور اور بکثرت لوگ فیض یاب ہوئے ہیں، اور جس طرح آپ سے حدیث کا درس لینے والوں میں نابغۂ روزگار محدثین ہیں اسی طرح آپ سے فقہ حاصل کرنے والوں میں بھی بلند پایہ ائمہ ومجتہدین ہیں۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’وتفقہ بہ ائمۃ‘‘

امام محمدؒ سے کئی ائمہ نے فقاہت سیکھی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ:ص۵۰)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ)کے بعض نامور تلامذہ کا تعارف :

اللہ تبارک وتعالیٰ نے امام محمدؒ کو جہاں دیگر کمالات سے نوازا، وہاں آپ کو درس وتدریس میں بھی انتہائی مقبولیت اور اعلیٰ درجہ کی مہارت سے سرفراز فرمایا، چنانچہ آپ نے جب تدریس کا آغاز کیا توتھوڑے عرصہ میں ہی آپ کے درس کا شہرہ پورے عالمِ اسلام میں پھیل گیا، اور دور دراز سے تشنگانِ علم آکر آپ کے چشمہ علم سے سیراب ہونے لگے، آپ سے دینی علوم خصوصاً حدیث اور فقہ کی تعلیم پانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ ان سب کا احاطہ یہاں مشکل ہے ، ہم بطور ’’گلے از گلزارے‘‘ آپ کے صرف ان چند مشہور تلامذہ کا تعارف پیش کرتے ہیں ، جن کی دینی خدمات تاریخ اسلام کا سنہری باب ہے۔

 

(۱)       امام محمد بن ادریس الشافعیؒ ۲۰۴؁ھ) :

حضرت امام شافعیؒ جو دوسری صدی کے مجدد، عظیم الشان مجتہد، ائمہ اربعہ میں تیسرے بڑے امام ، اور حدیث و فقہ کے بلند پایہ سپوت ہیں، امام موصوف نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کی فقہ کو امام محمدؒ سے حاصل کیا، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) نے امام شافعیؒ کے مناقب میں تصریح کی ہے:

’’وانھت ریاسہ الفقہ بالعراق الیٰ ابی حنیفۃ ، فاخذ عن صاحبہ محمد بن الحسن حمل حِمل لیس فیھا شئی الا وقد سمعہ علیہ‘‘

عراق میں فقہ کی ریاست امام ابوحنیفہؒ پر آکر ختم تھی، امام شافعیؒ نے آپ کی فقہ کو آپ کے شاگرد امام محمد بن حسنؒ سے اخذکیا، اور امام شافعیؒ نے ان سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا، اور اس علم میں سے کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس کا انہوں نے امام محمدؒ سے سماع نہ کیا ہو۔(توالی التاسیس:ص۷۳)

امام شافعیؒ نے اگرچہ متعدد ائمہ سے اخذ علم کیالیکن ان میں سب سے زیادہ جن سے انہوں نے استفادہ کیا ، وہ امام محمد بن حسنؒ ہیں، اور اس کا اقرار خود امام شافعیؒ نے بھی کیا ہے۔

’’قول الشافعی : حملت عن محمد وقر بختی صحیح، رواہ ابن ابی حاتم، قال حدثنا الربیع، قال سمعت الشافعی یقول حملت عن محمد بن الحسن حمل بختی لیس علیہ الا سماعی‘‘ 

امام شافعیؒ کا یہ قول کہ ’’ میں نے امام محمدؒسے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا‘‘ ان سے صحیح ثابت ہے ، چنانچہ امام ابن ابی حاتم روایت کرتے ہیں کہ ہم سے امام ربیعؒ (تلمیذ الشافعیؒ) نے بیان کیا کہ میں نے خود امام شافعیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے امام محمد بن حسنؒ سے ایک بارِ اونٹ کے برابر علم حاصل کیا کہ جس کو میں نے (آپ سے اکیلے) سماع کیا تھا۔(بلوغ الامانی:ص۲۲)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کایہ اپنا بیان ہے کہ :

’’وکتب عن محمد بن الحسن الفقیہ وقر بختی‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسن فقیہؒ سے ایک بارِ اونٹ کے برابر علم حاصل کیا۔(البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۶)

نیزامام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’اخذ عنہ الشافعی فاکثر جدا‘‘

امام شافعیؒ نے آپ سے بہت زیادہ علم حاصل کیا ہے۔( سیراعلام النبلاء: ۹؍۱۳۴)

حافظ ابنِ کثیرؒ ۷۷۴؁ھ) آپ کے ترجمہ میں ارقام فرماتے ہیں:

’’وسکن بغداد وحدث بھا وکتب عنہ الشافعی حین قدمھا فی سنۃ اربع وثمانین ومائۃ‘‘ 

آپ نے بغداد میں سکونت اختیارکر لی تھی، اور وہاں آپ حدیث کا درس دیا کرتے تھے امام شافعیؒ جب  ۱۸۴؁ھ میں بغداد آئے تھے تو آپ سے انہوں نے حدیث لکھی تھی۔(البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۶)

نیز حافظ ابن کثیرؒ (م۷۷۴؁ھ)  موصوف امام شافعی ؒکے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’واکرمہ محمد بن الحسن وکتب عنہ الشافعی وقر بعیر‘‘

امام محمد بن حسنؒ نے امام شافعیؒ کا اکرام کیا تھا، اور امام شافعیؒ نے آپ سے ایک بارِ شُتر کے برابر علم لکھا تھا۔ (ایضا :۷؍۳۵۵)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) فرماتے ہیں:

’’روی عنہ الامام الشافعی ولازمہ وانتفع بہٖ‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے روایت کی ہے، اور انہوں نے آپ (کی صحبت )کولازم پکڑا ہے، اورآپ سے وہ نفع مند ہوئے ہیں۔(الجواھر المضیہ:۲؍۴۲)

حافظ ابن عبدالہادی حنبلیؒ ۷۴۴؁ھ) نے امام محمدؒ کے تعارف میں لکھاہے :

’’احد شیوخ الامام الشافعی‘‘

کہ آپ امام شافعیؒ کے شیوخ میں سے ایک ہیں۔(مناقب الائمۃ الاربعۃ:ص۶۰)

نیز دیگر متعدد محدثین مثلاً حافظ ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ)،علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ)،علامہ سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ)،حافظ ابن جوزیؒ (م۵۹۷؁ھ)، حافظ عبد الکریم  بن محمد ،ابو قاسم  الرافعی  القزوینیؒ(م۶۲۳؁ھ)، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، علامہ ابن الاثیرؒ۶۳۰؁ھ) ، علامہ ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ)، علامہ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) اور علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) وغیرہ نے بھی تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے اخذِ علم کیا تھا، اور انہوں نے آپ سے فقہ اور حدیث کی روایت کی ہے۔  (دیکھئے ، الانتفاء :ص۹۷، تاریخ بغداد:۲؍۱۶۹، کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،المنتظم  لابن الجوزی :    ۹/ ۱۷۳،التدوین للرافعی :۱/ ۲۵۱، وفیات الاعیان:۲؍۳۲، اللباب:۲؍۳۵، تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱، شذرات الذھب:۱؍۳۲)

امام شافعیؒ کی’’ مسند ‘‘ میں بھی امام محمدؒکم از کم سات  احادیث موجود ہیں۔ (دیکھئے: مسند الشافعیؒ: ص۳۳۸،۳۴۳،۳۴۴،۳۸۴) اور کتاب الام میں بھی   امام محمد ؒ سے روایات لی ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ)نے بھی تصریح کی ہے کہ:

امام شافعیؒ کی مسند میں ان کی امام محمدؒ سے روایت کردہ احادیث موجود ہیں۔ (تعجیل المنفعۃ:ص۳۶۱)

مولانا شمس الحق عظیم آبادی غیر مقلد ۱۳۲۹؁ھ) اس مسند کی ایک حدیث کے متعلق لکھتے ہیں:

’’رواہ الشافعی فی مسندہ عن محمد بن الحسن عن ابی یوسف القاضی عن ھشام بن عروۃ عن ابیہ…‘‘

اس حدیث کو امام شافعیؒ نے اپنی ’’مسند‘‘ میں امام محمد بن حسنؒ سے روایت کیا ہے، اور وہ اس کو امام ابویوسف قاضیؒ سے ، وہ ہشام بن عروہؒ سے ، اور وہ اس کو اپنے والد عروہؒ سے روایت کرتے ہیں۔

(التعلیق المغنی:۲؍۲۷۳)

روایتِ حدیث کے علاوہ امام شافعیؒ   آپ  ؒکی فقہ سے بھی بہت بہرہ مند ہوئے ہیں،ا ور اسی لئے محدث،ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ان کو امام محمد ؒ سے فقہ حاصل کرنے والوں میں  سب  سے زیادہ فقیہ قراردیاہے۔چنانچہ ذہبیؒ،امام حماد بن ابی سلیمانؒ (م۱۲۰؁ھ) کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :

’’وافقہ اصحاب محمد، ابو عبداللہ الشافعی‘‘

امام محمدبن حسنؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ فقیہ امام ابو عبداللہ الشافعیؒ ہیں۔(سیراعلام النبلاء:۵؍۳۴)

علاوہ ازیں حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ) نے بھی امام شافعیؒ کے متعلق یہ تسلیم کیا ہے کہ :

’’فاجتمع بمحمد بن الحسن وکتب کُتبہ‘‘  

امام شافعیؒ نے امام محمدؒ کے ساتھ مجالست کی تھی، اور آپ سے آپ کی کتابیں لکھی تھیں۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۵۰)

نیز موصوف حافظ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸؁ھ)  ، امام ابو یوسفؒ کی کتاب  ’’اختلاف ابی حنیفۃ وابن ابی لیلیٰ‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’واخذہ عنہ محمد بن الحسن ، ونقلہ الشافعی عن محمد بن الحسن‘‘ 

امام ابویوسفؒ سے اس کتاب کو امام محمدبن حسنؒ نے لیا، اور امام محمدؒ سے اس کو امام شافعیؒ نے روایت کیا ہے۔ (ایضاً :ج۲۰: ص۱۴۹)

شیخ عبدالرحمن الیمانی المعلمیؒ غیرمقلد ۱۳۸۶؁ھ) بھی اس حقیقت کا اقرار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’فالحق ان الشافعی سمع بعض الکتب من محمد علیٰ سبیل الروایۃ‘‘

حق بات یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے آپ کی بعض کتب کو روایت کے طریقے کے مطابق سنا تھا۔(التنکیل:۱؍۴۲۱)

مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ غیر مقلد ۱۳۸۷؁ھ) نے بھی اقرار کیا ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے استفادہ کیا ہے۔  (دیکھئے : تحریکِ آزادی فکر: ص۸۶)[7]

امام محمدؒ نے امام شافعیؒ کو تعلیم دینے کے علاوہ اُن پر دیگر بھی بڑے احسانات کئے ہیں، چنانچہ محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اپنی تاریخ میں فرماتے ہیں:

’’وکان کثیر البر بالامام الشافعیؒ فی قضاء دیونہ ، والانفاق علیہ من مالہ وإعارۃ الکتب‘‘

امام محمدؒ نے امام شافعیؒ کے ساتھ بڑے احسانا ت کئے ہیں ، اُن کے قرضے ادا کئے، اُن پر مال خرچ کیا، اور اُن کو عاریۃً کتابیں عطا کیں۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۳،۳۲۴)

جب امام شافعیؒ بغداد میں بعض شرپسندوں کی سازش سے خلیفہ ہارون الرشید کے عتاب میں آگئے تھے، اور قریب تھا کہ خلیفہ اُن کو قتل کروا دیتا، لیکن امام محمدؒ (جو اُس وقت خلیفہ کے انتہائی مقربین میں سے تھے) اللہ کی طرف سے غیبی مدد بن کر اُن کی امداد کے لئے بیچ میں آگئے ، اور خلیفہ کے سامنے ان کی صفائی پیش کرکے اُن کو اپنی ضمانت سے خلیفہ سے چھڑوالیا، اس طرح امام شافعیؒ قتل ہونے سے بچ گئے۔

مؤرخ اسلام علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’فیجب علی کل شافعی الیٰ یوم القیامۃ ان یعرف ھذا لمحمد بن الحسن ویدعو لہ بالمغفرۃ‘‘

یومِ قیامت تک آنے والے ہر شافعی المذہب شخص پر واجب ہے کہ وہ امام محمدبن الحسنؒ کے اس احسان کو پہچانے، اور آپ کی مغفرت کے لئے دعا کرے۔(ایضاً)

امام شافعیؒ سے منسوب ’’رحلۃ الشافعی‘‘ کی حقیقت:

لیکن صد افسوس کہ بعض متعصب لوگوں نے امام محمدؒ کے اس احسان کا شکریہ ادا کرنے کے بجائے اُلٹا امام شافعیؒ کے نام سے ایک جھوٹا سفر نامہ (رحلۃ الشافعی) گڑھ کر امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ پر یہ جھوٹا الزام لگادیا کہ ان دونوں حضرات نے امام شافعیؒ کے قتل کی سازش کی تھی، اور خلیفہ کو ان کے قتل پر اُبھارا تھا، اس طرح اس فرضی سفرنامے میں انہوں نے اور طرح طرح کے جھوٹ امام شافعیؒ اور امام محمدؒ کی طرف منسوب کئے ہیں۔

علامہ ابن العمادؒ (م۱۰۸۹؁ھ)  بحوالہ محدث ابن الفراتؒ(م۸۰۷؁ھ)  ان لوگوں کی تردید میں لکھتے ہیں:

’’وقد ذکر بعض الشافعیۃ ان محمد بن الحسن وشی بالامام الشافعی الی الخلیفۃ بانہ یدعی انہ یصلح للخلافۃ وکذا ابویوسف رحمھما للہ، وھذا بھتان وافتراء علیھما، والعجب منھم کیف نسبوا ھذا الیھما مع علمھم بان ھذا لا یلیق بالعلماء ولا یقبلہ عقل عاقل‘‘

بعض شافعیوں نے ذکر کیا ہے کہ امام محمدبن حسنؒ اوراسی طرح امام ابویوسفؒ نے بھی خلیفہ (ہارون الرشید) سے شکایت کی تھی کہ امام شافعیؒ نے دعویٰ کیا ہے کہ میں خلیفہ بننے کا اہل ہوں، حالانکہ یہ ان دونوں اماموں پر محض بہتان اور افتراء ہے، اُن لوگوں پر تعجب ہے کہ انہوں نے کس طرح یہ بات ان کی طرف منسوب کردی ، حالانکہ اُن کو معلوم ہے کہ یہ چیز علماء کے لائق نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی عقل مند اس کو قبول کرسکتاہے۔ (ایضاً)

حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ)،حافظ ابن کثیرؒ ۷۷۴؁ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) وغیرہ محدثین نے بھی امام محمدؒ اور امام ابویوسفؒ پر اِن الزامات کی پرزور تردید کی ہے، اور امام شافعیؒ کی طرف منسوب اُن سفر ناموں کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیا ہے۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۵۰، البدایہ والنھایہ:۷؍۱۷۳، توالی التاسیس:ص ۱۳۱، ۱۳۲)

امام محمدزاہد الکوثریؒ ۱۳۷۱؁ھ) نے بڑی عرق ریزی سے اُن سفرناموں کی ایک ایک جزئی کی خوب نقاب کشائی کی ہے۔  (دیکھئے : بلوغ الامانی:ص۲۸ تا ۳۵)، جزاہ اللہ عنا احسن الجزاء۔  [8]

 

 (۲)      امام احمد بن حنبلؒ ۲۴۱؁ھ) :

امام احمدؒ حدیث اور فقہ کے ارکان میں شمار ہوتے ہیں اور ائمہ متبوعین میں امام شافعیؒ کے بعد اُن ہی کا مقام و مرتبہ ہے۔

یہ عظیم المرتبت امام بھی امام محمد بن حسنؒ سے استفادہ کرنے والوں میں سے ہیں۔

علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل امام احمدؒ کے صاحبزادے امام عبداللہ بن احمدؒ ۲۹۰؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ:

’’کتب ابی عن ابی یوسف ومحمد ثلاثہ قماطر، قلت لہ کان ینظر فیھا، قال کان ربما ینظر فیھا‘‘

میرے والد (امام احمدؒ) نے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدبن حسنؒ سے تین قماطیر (بڑے تھیلے) علم کے لکھے تھے، (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے امام عبداللہ سے پوچھا کہ: کیا آپ کے والد اُن کا مطالعہ بھی کرتے تھے؟  انہوں نے فرمایا: ہاں، بسااوقات اُن کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔  (تاریخ بغداد:۳؍۲۲۵)

شیخ عبدالرحمن الیمانی المعلمیؒ غیرمقلد ۱۳۸۶؁ھ) اس قول کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’فالظاھر انہ کتب عنھما مما یرویانہ من الآثار‘‘

اس قول سے ظاہر یہی ہے کہ امام احمدؒ نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ سے ان دونوں کی احادیث لکھی تھیں۔(التکنیل۱۱۶۵)

نیز ایک اور روایت میں امام احمد بن حنبلؒ سے پوچھا گیا کہ آپ نے یہ دقیق مسائل کہاں سے حاصل کئے ہیں ؟  تو انہوں فرمایا:

’’من کتب محمد بن الحسن‘‘

کہ امام محمد بن حسنؒ کی کتابوں سے ۔    (تاریخ بغداد:ج۲: ص ۱۷۴،طبع بیروت)[9]

اس طرح امام محمدؒ کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوا کہ ائمہ اربعہ میں سے دو اماموں (ابوحنیفہؒ و مالکؒ) سے آپ نے علم حاصل کیا، جب کہ ان میں سے دو اماموں (شافعیؒ و احمدؒ) نے آپ سے علم حاصل کیا۔

ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔

(۳)     امام اسد بن فراتؒ ۲۱۳؁ھ) :

امام موصوف ایک بلند پایہ فقیہ ، جلیل القدر محدث، عظیم مجاہد، اور فاتح صقلیہ (افریقہ) ہیں، نیز ان کا شمار امام مالکؒ اور صاحبین (امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ) کے کبارِ تلامذہ میں ہوتا ہے۔

یہ   ۱۴۲؁ھ میں نجران میں پیدا ہوئے، جب دو سال کے تھے تو ان کے والد ان کو لے کر قیروان آگئے، پھروہاں سے یہ ’’تونس‘‘ چلے گئے اور وہاں تحصیل علم میں مشغول ہوگئے، مزید دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے انہوں نے مدینہ منورہ، اور عراق (کوفہ وغیرہ) کا سفر کیا، اور امام مالکؒ اور امام محمدؒ وغیرہ مشائخ سے فقہ اور حدیث کا درس لیا۔

حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’اختلف الیٰ علی بن زیاد التونسی بتونس، فلزمہ وتفقہ بہٖ ثم رحل الی المشرق وسمع من مالک بن انس ’’مؤطا‘‘ وغیرہ، ثم رحل الی العراق، فاخذ عن ابی یوسف ومحمد ابن الحسن وابی بکر بن عیاش وغیرہم‘‘

امام ابن الفراتؒ تونس میں علی ابن زیاد تونسیؒ کے پاس تشریف لے گئے ، اور ان کی مجلس میں باقاعدگی سے شریک ہوکر ان سے فقہ حاصل کیا، پھر انہوں نے مشرق (مدینہ منورہ) کی طرف سفر کیا، اور امام مالکؒ سے ان کی ’’مؤطا‘‘ اور دیگر احادیث کا سماع کیا، اور پھر یہ عراق (کوفہ) چلے گئے اور امام ابو یوسفؒ ، امام محمدبن حسنؒ اور امام ابوبکر بن عیاشؒ وغیرہ سے علم حاصل کرنے لگے۔ (اتحاف السالک: ص۲۶۲)

جب یہ امام مالکؒ کے پاس مقیم تھے تو دورانِ سبق یہ ان سے فقہ کے متعلق بڑے سوالات کرتے تھے، ایک مرتبہ امام مالکؒ نے تنگ آکر ان سے کہہ دیا:

’’ان احببت الرأی فعلیک بالعراق‘‘

اگر تو رائے (فقہ) پسند کرتاہے، تو پھر عراق چلا جا۔

امام ابن الفراتؒ یہ سن کر کوفہ آگئے، اور امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ خصوصاً امام محمد بن حسنؒ سے فقہ حاصل کرنے لگے۔  (معالم الایمان فی تاریخ القیروان:۲؍۴-۱۶، بلوغ الامانی:ص۱۴)

علامہ زاہد الکوثریؒ بحوالہ ’’معالم الایمان فی تاریخ القیروان‘‘ لکھتے ہیں:

’’فسمع اسد بن الفرات بالعراق من اصحاب ابی حنیفۃ وتفقہ علیھم: منھم ابویوسف القاضی، واسد بن عمرو البجلی، ومحمد بن الحسن وغیرھم من فقھاء العراق وکان اکثر اختلافہ الیٰ محمد بن الحسن‘‘

امام اسد بن فراتؒ(م۲۱۳؁ھ) نے عراق میں امام ابو حنیفہؒ کے جن تلامذہ سے حدیث کا سماع کیا ، اور ان سے فقہ کی تعلیم پائی ان میں امام ابویوسف قاضیؒ، امام اسد ابن عمرو البجلیؒ، اور امام محمد بن حسنؒ وغیرہ شامل ہیں، اور ان کی اکثر آمدورفت امام محمد بن حسنؒ کے پاس رہتی تھی۔(بلوغ الامانی:ص۱۵)

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) نے اُن پر خاص توجہ دی اور ان کو حدیث و فقہ کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ مالی طور پر بھی ان کی امداد کرتے رہے، یہاں تک کہ انہوں نے فقہ میں مکمل عبور حاصل کرلیا،پھر یہ مصر چلے گئے اور وہاں اُن کی ملاقات امام مالکؒ کے تلامذہ خصوصاً ان کے شاگرد کبیر امام عبدالرحمن ابن قاسمؒ ۱۹۹؁ھ) سے ہوئی ، اور انہوں نے امام محمدؒ سے دورانِ سبق جو فقہ حنفی کی فروعات (جزئیات) لکھی تھیں ان ہی کی طرز پر انہوں امام ابن القاسمؒ سے سوالات کرکے فقہ مالکی کی فروعات لکھیں جو کہ : ’’مسائل اسدیہ‘‘ سے مشہور ہوئیں، اورپھر یہی ’’مسائل اسدیہ‘‘ آگے جاکر فقہ مالکی کی تدوین (یعنی فقہ مالکی کی بنیادی کتاب ’’المدونۃ للسحنون‘‘ کی بنیاد بنے۔

مشہور محدث امام ابو زُرعہ رازیؒ ۲۶۴؁ھ) سے ان کے شاگرد حافظ ابوعثمان البرزعیؒ ۲۹۲؁ھ)نے پوچھا کہ : 

یہ مسائل اسدیہ کیا ہیں ؟  

انہوں نے جواب دیا:

کان رجل من اھل المغرب یقال لہ اسد، رحل الیٰ محمد بن الحسن، فسألہ عن ھذہ المسائل، ثم قدم مصر فاذا عبداللہ بن وھب فسألہ أن یسألہ عن تلک المسائل، فماکان عندہ فیھا عن مالک اجابہٗ، ومالم یکن عندہ قاس علیٰ مالک فلم یفعل، فأتیٰ عبدالرحمن بن القاسم فتوسع لہ ، فأجابہٗ علی ھذا۔

اہل مغرب میں سے ایک آدمی تھے جن کو اسد (بن فرات) کہا جاتا ہے ، انہوں نے امام محمد بن حسنؒ کے پاس جاکر آپ سے ان مسائل (کے جوابات) پوچھے تھے، پھر یہ مصرآگئے ،اور یہاں انہوں نے امام عبداللہ بن وہبؒ (تلمیذ امام مالکؒ ) سے ان مسائل کے متعلق پوچھا، ان کے پاس ان سوالات میں سے جن کے متعلق امام مالکؒ  سے کچھ منقول تھا ان کے جوابات امام مالکؒ کے حوالے سے دے دئیے، اور جن سوالات کے متعلق ان کے پاس امام مالکؒ سے کچھ نہیں لکھا ہوا تھا، ان کے جوابات انہوں نے جب امام مالکؒ کے دوسرے اقوال پر قیاس کر کے دئیے تو امام ابن الفراتؒ نے ان کو لکھنے سے انکار کر دیا، اور (امام مالکؒ کے بڑے شاگرد) امام عبدالرحمن بن قاسمؒ کے پاس گئے، وہ ان کے ساتھ بڑی کشادگی سے پیش آئے اور ان کے سب سوالات کے جوابات ان کو امام محمدؒ کی طرز پر دئیے۔  (سوالات البرزعی لأبی زُرعہ الرازی: ص۲۴۹،۲۵۰، اتحاف السالک:ص۲۶۴)

امام ابو زُرعہؒ (م۲۶۴؁ھ)کے مذکورہ قول کو امام ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۷؁ھ) نے بھی ان سے نقل کیا ہے۔ (الجرح والتعدیل:۵؍۲۷۹)

ٍعلامہ زاہد الکوثریؒ ۱۳۷۱؁ھ) نے ’’نیل الابتھاج بتطیریز الدیباج‘‘ کے حوالے سے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’وھذہ اسدیۃ ھی اصل مدونۃ سحنون اصلح ابن القاسم منھا اشیاء علی ید سحنون‘‘ 

یہ مسائل اسدیہ ہی امام سحنونؒ کی ’’مدونہ‘‘ کی اصل ہیں، امام ابن القاسمؒ نے ان میں سے بعض مسائل کی اصلاح (اپنے شاگرد) امام سحنونؒ کے ہاتھ سے کروائی تھی۔(بلوغ الامانی:ص۱)

حافظ ابن تیمیہؒ ۷۲۸؁ھ) نے بھی ’’مدونہ‘‘ کی اصل اہلِ عراق (یعنی امام محمدؒ) کی فروعات ِ مسائل کو قرار دیا ہے۔(مجموع الفتاویٰ:۲۰؍۱۴۹۔۱۵۰)

واضح رہے کہ فقہ مالکی کی سب سے بنیادی اور بااعتماد کتاب ’’المدونہ‘‘ ہی ہے کہ جس کی اصل امام محمدؒ کے وہ مسائل ہیں جن کو آپ سے امام اسد بن فراتؒ نے لکھا تھا۔

گویا فقہ مالکی کے مسائل کی تدوین بھی امام محمدؒ اور آپ کے شاگرد امام ابن الفراتؒ کے مرہونِ منت ہے، امام ابن الفراتؒ کا یہ بھی بہت بڑا کارنامہ ہے کہ انہوں نے بیک وقت فقہ حنفی اور فقہ مالکی کو دَیارِ مغرب میں متعارف کروایا، اور آخر عمر میں یہ فقہ حنفی کی ہی صرف نشر واشاعت کرتے رہے، جس سے فقہ حنفی  افریقہ ، اور مغرب میں اندلس (اسپین) تک پھیل گیا، اور ۴۰۰ ہجری تک یہاں فقہ حنفی کا غلبہ رہا، اور یہاں کے رہنے والوں کی اکثریت فقہ حنفی سے ہی وابستہ رہی۔ (بلوغ الا مانی:ص ۱۷، للامام الکوثریؒ، ابوحنیفہ، حیاتہ وعصرہ، آراؤہ وفقہہ، ص:۴۰۳، للشیخ ابی زھرہؒ)

(۴)     امام یحییٰ ابن معینؒ  ۲۳۳؁ھ) :

امام یحییٰ ایک یگانہ روزگار محدث اور فن جرح وتعدیل کے مایہ ناز سپوت ہیں۔ مولانا عبدالرحمن مبارکپوری صاحبؒ غیر مقلد نے لکھا ہے کہ: امام الجرح والتعدیل یحییٰ ابن معینؒ جن کی نسبت امام احمد بن حنبلؒ فرماتے ہیں:

’’کل حدیث لا یعرفہ یحییٰ فلیس بحدیث‘‘

یعنی جس حدیث کو یحییٰ بن معینؒ نہ پہچانیں وہ حدیث ہی نہیں ہے۔ (تحقیق الکلام:۲؍۸۷)

آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ حدیث اور فن جرح و تعدیل کے یہ عالی المرتبت امام نہ صرف یہ کہ فقہ حنفی سے وابستہ تھے بلکہ ان کا شمار کٹر حنفیوں میں ہوتاہے۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ان کے متعلق تصریح کرتے ہیں:

’’ان ابن معین کان من الحنفیۃ الغلاۃ فی مذھبہٖ وان کا محدثا‘‘

امام یحییٰ بن معینؒ اُن حنفیوں میں سے ہیں جو اپنے مذہب (فقہ حنفی) میں غالی ہیں، اگرچہ یہ محدث ہیں۔(الرواۃ الثقاۃ المتکلم فیھم فیما لا یوجب ردھم: ص۷)

نیز ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) امام موصوف کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’قد کان ابو زکریاؒ حنفیاً فی الفروع‘‘ 

بے شک امام ابوزکریا (یحییٰ بن معینؒ ) فروعی مسائل میں حنفی تھے۔(سیر اعلام النبلاء:ت:۱۲۲۵)

موصوف نے فقہ حنفی کی تعلیم امام اعظم ابوحنیفہ کے متعدد تلامذہ سے لی تھی، جن میں سے امام محمدبن حسنؒ بھی ہیں، چنانچہ انہوں نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب ’’الجامع الصغیر‘‘ امام محمدؒ سے پڑھی تھی۔

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) امام محمدؒ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’وکتب عنہ یحییٰ بن معین الجامع الصغیر‘‘ 

آپ سے امام یحییٰ بن معینؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھی تھی۔(الجواھر المضیہ:۲؍۴۳)

نیز علامہ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بہ سند متصل خود امام ابن معینؒ کا اپنا یہ بیان نقل کیا ہے کہ:

’’کتبت الجامع الصغیر عن محمد بن الحسن‘‘

میں نے ’’الجامع الصغیر‘‘ خود امام محمد بن حسنؒ سے لکھی تھی۔  (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[10]

 (۵)  امام احمد بن حفص بخاری المعروف بہ ابو حفص کبیرؒ ۲۱۷؁ھ) :

موصوف اپنے نام سے زیادہ اپنی کنیت ’’ابوحفص‘‘ سے مشہور ہیں، ان کے صاحبزادے امام محمد بن احمد بن حفصؒ ۲۶۴؁ھ) کی بھی ایک کنیت چونکہ ’’ابوحفص‘‘ ہے ، اور وہ بھی اپنی اس کنیت سے زیادہ پہچانے جاتے ہیں، اس لئے ان دونوں میں فرق کرنے کے لئے باپ کو ’’ابوحفص کبیر‘‘ اور بیٹے کو ’’ ابوحفص صغیر‘‘  کہا جاتا ہے۔ (الفوائد البھیۃ: ص ۱۸)

امام ابو حفص کبیر کئی سال امام محمدؒ کی صحبت میں رہ کر ان سے تفقہ حاصل کرتے رہے، اور ان کا شمار آپ کے کبارِ تلامذہ میں ہوتا ہے۔

حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’ارتحل وصحب محمد بن الحسن مدّۃ، وبرع فی الرأی، وسمع من وکیع بن الجراح، وابی اسامۃ، وھذہ الطبقۃ‘‘ 

امام ابو حفص کبیرؒ نے طلب علم میں رحلت سفر باندھا اور کئی سال امام محمدؒ کی صحبت میں رہ کر رائے (فقہ) میں عبور حاصل کیا ،اور وکیع ابن الجراحؒ ، ابواسامہؒ اور اس طبقہ کے دیگر محدثین سے حدیث کا سماع کیا۔(سیر اعلام النبلاء:۱۰؍۱۵۷)

نیز ذہبیؒ نے ان کے ترجمے کا آغاز ان القاب سے کیا ہے:

’’احمد بن حفص الفقیہ العلامۃ، شیخ ماوراء النھر، ابو حفص البخاری الحنفی، فقیہ المشرق ، ووالد العلامۃ شیخ الحنفیۃ ابی عبداللہ محمد بن احمد بن حفص الفقیہ‘‘ ۔ (ایضاً)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ نے ان کے صاحبزادے امام ابو حفص صغیرؒ کے ترجمے میں لکھا ہے کہ :

’’وکا ن ابوہ من کبار تلامذۃ محمد بن الحسن، انتھت الیہ رئاسۃ الاصحاب ببخاری، والی ابنہٖ ابی عبداللہ ھذا، وتفقہ علیہ ائمۃ‘‘ 

ان کے والد (ابوحفص کبیرؒ) امام محمد بن حسنؒ کے کبارِ تلامذہ میں سے تھے ، اور بخارا میں ’’اصحاب ابی حنیفہ‘‘ کی ریاست ان پر اور ان کے صاحبزادے ابو عبداللہ (یعنی ابو حفص صغیر) پر ختم تھی، اور امام ابوحفص کبیرؒ کے پاس کئی ائمہ نے فقہ کی تعلیم حاصل کی ہے۔(ایضاً:۱۲؍۶۱۷)

حافظ ذہبیؒ اور حافظ سخاویؒ نے ’’بخارا‘‘ کے تعارف میں یہاں کے جن چند بڑے اور مشہور ائمہ (امام بخاریؒ ، صاحب الصحیح وغیرہ) کا ذکرکیا ہے ، ان میں انہوں نے امام ابو حفص کبیرؒ کو بھی شمار کیا ہے۔ (الامصارذوات الآثار للذھبیؒ۹۰، اعلان بالتوبیخ للسخاویؒ:ص۱۴۲ )

مولانا حنیف ندویؒ غیر مقلد لکھتے ہیں : بخارا میں عیسیٰ بن موسیٰ غنجار، احمد بن حفص الفقیہ       (ابو حفص کبیرؒ) محمد بن سلام الکندی، اور عبدبن محمد السندی، جیسی شخصیتیں کتاب و سنت کے فروغ کا باعث بنیں۔

(مطالعۃ الحدیث۶۱)

’’مارواء النہر‘‘ کے علاقوں (بخارا وغیرہ) میں ان سے حدیث اور فقہ حنفی کی تعلیم پانے والوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ بخارا وغیرہ کا پورا پورا گاؤں ان کے تلامذہ سے بھر ا ہواتھا۔

حافظ ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) اور حافظ ابن الاثیرؒ ۶۳۰؁ھ) ’’بخارا‘‘ کے مضافات میں ایک گاؤں ’’خراجر‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں :

’’کان منھا جماعۃ من الفقھا ء، تلمذوا لابی حفص الکبیر‘‘ ۔

یہاں فقہاء کی ایک پوری جماعت تھی جو سب کے سب امام ابو حفص کبیرؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۳۸، اللباب فی تہذیب الانساب:۱؍۲۸۹)

اسی طرح حافظ سمعانیؒ نے بخارا کے گاؤں ’’خیزا خزا‘‘ کے متعلق لکھا ہے کہ :

’’خلقا من اصحاب ابی حفص الکبیر لا یحصون‘‘

یہاں امام ابو حفص کبیرؒ کے تلامذہ کی اتنی خلقت تھی کہ جن کا شمار نہیں ہوسکتا۔

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) حافظ سمعانیؒ کے مذکورہ قول کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں :

’’وھذا فی قریۃ من قریٰ بخارا‘‘ 

یہ تو صرف بخارا کے ایک گاؤں کا ذکر ہے۔(الجواھر المضیۃ:۱؍۳)

 یعنی بخارا کے ایک گاؤں میں ان کے تلامذہ اتنے زیادہ تھے کہ ان کا شمار نہیں ہوسکتا ، تو باقی ’’بخارا‘‘ اور ’’ ماوراء النہر‘‘ کے دیگر علاقوں میں ان کے تلامذہ کی کثرت کا کیا حال ہوگا؟

در اصل یہ سارا فیض امام محمد بن حسنؒ کا تھا، اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ آپ کا علمی فیض کہاں کہاں اور کس کثرت سے پھیلا ہے؟

امام بخاریؒ ’’صاحب الصحیح‘‘ بھی امام ابوحفص کبیرؒ کے تلامذہ میں سے ہیں، اور امام بخاریؒ اور ان کے خاندان کے امام موصف کے ساتھ ذاتی مراسم بھی تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) نے ان کو امام بخاریؒ کے مشائخ میں شمار کیا ہے۔ (ھدی الساری مقدمہ فتح الباری: ص۶۶۷)

علامہ خطیب بغدایؒ نے اپنی سند کے ساتھ خود امام بخاریؒ کی زبانی نقل کیا ہے کہ میں ابوحفص کبیرؒ کے پاس ’’جامع سفیان ثوریؒ‘‘ کا سماع اپنے والد کی کتاب میں کر رہا تھا کہ وہ ایک حرف سے گزرے جو میری کتاب میں نہیں تھا، میں نے اس کے متعلق ان سے مراجعت کی پھر انہوں نے وہی پڑھا، میں نے دوبارہ مراجعت کی لیکن پھر بھی انہوں نے وہی پڑھا، میں نے جب تیسری دفعہ مراجعت کی تو وہ کچھ خاموش ہوگئے اور میرے متعلق پوچھنے لگے ،کہ یہ کون ہے؟  لوگوں نے کہا: یہ اسمٰعیل بن ابراہیم بن بزدویہ کا بیٹا ہے، فرمانے لگے: اس نے صحیح کہا ہے، اور پھر فرمایا:

’’واحفظوا  فان ھذا یوماً یصیر رجلا‘‘ 

یاد رکھو !  یہ لڑکا ایک دن مردِ میدان  بنے گا۔(تاریخ بغداد: ۳؍۱۱، ترجمہ امام بخاریؒ)

حافظ ابن حجرؒ نے امام ابو حفصؒ سے امام بخاریؒ کے متعلق یہ الفاظ نقل کئے ہیں:

’’ھذا یکون لہٗ صیت‘‘

کہ اس کا شُہرہ ہوگا۔(ھدی الساری:ص۶۶۷)

امام بخاریؒ کے والد اسمٰعیل ؒ سے امام ابو حفص کبیرؒ کے بڑے گہرے مراسم تھے، جب اسمٰعیلؒ کی وفات ہور ہی تھی، تو امام موصوف اس وقت بھی ان کے پاس موجود تھے، اور اس وقت اسمٰعیلؒ نے ان سے کہا تھا کہ:

’’لا اعلم من مالی درھما من حرام ولا درھما من شبھۃ‘‘ 

میں اپنے مال میں نہ کوئی درہم حرام کا پاتا ہوں اور نہ شبہے کا ۔(ایضا:ص۶۶۷)

امام اسمعیلؒ کی وفات کے بعد بھی ان دونوں خاندانوں کے درمیان یہ مراسم برقرار رہے ، اور امام ابوحفص ؒ امام بخاریؒ کے پاس بڑے بڑے تحائف بھیجتے رہتے تھے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) نے نقل کیا ہے کہ ایک دفعہ امام ابوحفص کبیرؒ نے امام بخاریؒ کو اس قدر مالِ تجارت بھیجا کہ جس کو بعض تاجروں نے امام بخاریؒ سے پانچ ہزار درہم نفع سے خریدا، دوسرے بعض تاجروں نے ان سے دس ہزار درہم منافع سے یہ مال خریدنا چاہا لیکن امام بخاریؒ نے ان کی اس پیش کش کو یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ کل میں بعض تاجروں پر اس مال کو پانچ ہزار درہم منافع سے بیچنے کی نیت کر چکا ہوں، لہٰذا اب میں اپنی نیت کو بدلنا نہیں چاہتا۔  (ایضاً :ص۶۶۵)

اسی طرح امام ابو حفص کبیرؒ کے صاحبزادے امام ابوحفص صغیرؒ ۲۶۴؁ھ) امام بخاریؒ کے ساتھ کئی سال طلبِ حدیث میں رفیق اور ہم سفر رہے۔

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ان کے ترجمے میں لکھتے ہیں:

’’ووافق البخاری فی الطلب مدۃ‘‘

یہ طلبِ حدیث میں کئی عرصہ تک امام بخاریؒ کے رفیق رہے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء:۱۲؍۶۱۷)

امام ابوحفص کبیرؒ اور امام ابوحفص صغیرؒ کے بعد بھی بڑے عرصے تک ان کا خاندان علمی اور دنیاوی ریاست پر متمکن رہا۔

امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) نے ’’ تاریخ نیشاپور‘‘ میں امام ابوحفص کے پرپوتے امام محمد بن احمد بن خاقان الرئیس بن ابوحفص کبیرؒ ۳۷۳؁ھ) کے ترجمہ میں تصریح کی ہے:

’’وکانت الفتوی والریاسۃ فی بیوتھم من وقت محمد بن الحسن‘‘

امام محمد بن حسنؒ کے زمانے سے لے کر اب تک فتویٰ اور ریاست (حکومت) امام ابوحفص ہی کے خاندان میں چلے آرہے ہیں۔ (تاریخ نیشاپور،طبقہ شیوخ الحاکم ص:۳۶۵ ، الجواھر المضیۃ: ۳؍۲۱)

(۶)      امام خلف بن ایوب بلخیؒ  ۲۱۵؁ھ) :

امام بلخیؒ ایک جلیل القدر محدث وفقیہ ، اور اپنے زمانے کے کبارومشہور اولیاء اللہ میں سے ہیں، ان کے علمی مرتبے کو جاننے کے لئے صرف اتنا کافی ہے کہ امام یحییٰ بن معینؒ ، امام احمد بن حنبلؒ ، اور ابو حاتم رازیؒ وغیرہ جیسے اساطین علم ان کے تلامذہ میں سے ہیں، حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے ان کے ترجمے کا آغاز ’’ الا مام المحدث الفقیہ، مفتی المشرق، الحنفی الزاھد،  اور  ’’عالم اہل بلخ‘‘  جیسے عظیم القاب سے کیا ہے۔ (سیر اعلام النبلاء:ص۹؍۵۴۱)

نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) ان کو ’’مفتی اہل بلخ‘‘ قرار دیتے ہیں، اور ان کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وکان زاھد قدوۃ، روی عنہ یحییٰ بن معین والکبار‘‘ 

یہ خود بھی پرہیز گار تھے ،اور پرہیز گاروں کے لئے نمونہ بھی تھے، امام یحییٰ بن معینؒ اور دیگر کبارِ محدثین نے ان سے روایت حدیث کی ہے۔(العبر:۱؍۲۸۹)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) نے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، اور امام حاکم نیشاپوریؒ ۴۰۵؁ھ) کا یہ بیان ان کے بارے میں نقل کیا ہے کہ:

’’کان مفتی بلخ وزاھدھا، زارہ صاحب بلخ فاعرض عنہ‘‘

یہ بلخ کے مفتی اور زاہد تھے، سلطان بلخ ان کی زیارت کے لئے آیا تو انہوں نے اس سے منہ پھیر لیا۔ (الکاشف:۱؍۲۳۷)

امام ابن حبانؒ ۳۵۴؁ھ) نے ان کو’’ثقات ‘‘ (ثقہ رایوں) میں شمار کیا ہے۔ (تہذیب التہذیب:۳؍۹۰)

امام خلیلیؒ ۴۴۶؁ھ) ان کے متعلق تصریح کرتے ہیں کہ:

’’صدوق مشھور، کان یوصف بالستور والصلاح والزھد، وکان فقیھا علی رأی الکوفیین‘‘  

یہ حدیث میں نہایت راست باز و مشہور اور پاکدامنی ، نیکی اور زہد وتقویٰ سے موصوف تھے، اوراہلِ کوفہ(احناف) کی رائے پر فقیہ تھے۔(کتاب الارشاد فی معرفۃ علماء المحدثین: ص:۴۴۲)

نیز امام خلیلیؒ ان کو ثقہ اور زاہد قرار دیتے ہیں۔ (ایضا:ص۸۰)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) نے ان کے بارے میں تصریح کی ہے کہ :

’’کان من اصحاب محمد و زفر‘‘ 

یہ امام محمد بن حسنؒ اور امام زفربن ہذیلؒ کے تلامذہ میں سے تھے۔(الجواھر المضیۃ: ۱؍۲۳۱، تاج التراجم:ص۲۷)

اسی طرح حافظ قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

امام خلفؒ نے حدیث و فقہ کی تعلیم امام ابویوسفؒ امام محمدؒ اور امام زفرؒ وغیرہ اصحاب ابی حنیفہؒ سے حاصل کی تھی، اور زہد امام ابراہیم بن ادہمؒ (تلمیذ امام اعظمؒ) سے سیکھا تھا۔ (الجواھرالمضیۃ: ۱؍۲۳۱،۲۳۲)

(۷)     امام محمد بن سماعۃ التمیمیؒ (م۲۳۳؁ھ) :

امام ابن سماعہؒ بھی فقہ و حدیث کے عظیم المرتبت امام ہیں، اور ان کا شمار امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ کے ان تلامذہ میں ہوتا ہے ، جو ثقہ حفاظ حدیث میں سے ہیں، علامہ خطیب بغدادیؒ۴۶۳؁ھ) اپنے استاذ امام ابوعبداللہ صمیریؒ ۴۳۶؁ھ) کے حوالے سے لکھتے ہیں:

’’ومن اصحاب ابی یوسف و محمد جمیعا ابو عبداللہ محمد بن سماعۃ وھو من الحفاظ الثقات‘‘

امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ کے مشترکہ تلامذہ میں سے ایک ابو عبداللہ محمد بن سماعہؒ بھی ہیں جو کہ حفاظ حدیث اور ثقہ محدثین میں شمار ہوتے ہیں۔ (تاریخ بغداد: ۲؍۴۰۲)

امام یحییٰ بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’لوکان اصحاب الحدیث یصدقون فی الحدیث کما یصدق محمد بن سماعۃ فی الرأی کانوا علی نھایۃ‘‘

اگر اصحابِ حدیث  (محدثین) حدیث میں اس طرح سچے ہوں جیسے محمد بن سماعہؒ رائے (فقہ) میں سچے ہیں تووہ (کامیابی کے ) انتہائی درجہ کو پالیں۔(تاریخ بغداد: ۲؍۴۰۳)

امام ابن سماعہؒ ۲۳۳؁ھ) کا جب انتقال ہو ا تو امام ابن معینؒ ۲۳۳؁ھ) نے فرمایا:

’’الیوم مات ریحانۃ العلم من اھل الرأی‘‘ 

آج اہلِ رائے (فقہاء) میں سے ’’ریحانۃ العلم‘‘ (علم کے پھول) کا انتقال ہوگیا۔(الجواھر المضیہ:۲؍۵۹)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)  ان کو ’’علامۃ‘‘ اور ’’صاحب ابی یوسفؒ ومحمدؒ‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (سیراعلام النبلاء:۱۰؍۶۴۶)

نیز ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’تفقہ علی ابی یوسف ومحمد…… وکان وردہ فی الیوم واللیلۃ مأتی رکعۃ‘‘

انہوں نے امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ سے فقہ حاصل کیا تھا، … اور دن رات میں دو سورکعت (نفل) پڑھنے کا ان کا معمول تھا۔(العبر:۱؍۲۸۹)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ (م۸۵۲؁ھ) نے ان کو روایت حدیث میں ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے۔   (تقریب التہذیب:۲؍۸۲)               

امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ)کے دیگر بعض تلامذہ:

مذکورہ بالا ائمہ کے علاوہ کئی دیگر نامور محدثین اور فقہاء نے بھی آپ سے استفادہ کیا ہے، مثلاً ابوعبید قاسم بن سلامؒ ، ہشام بن عبیداللہ رازی، علی بن مسلم بن طوسیؒ، عمرو بن ابی عمروؒ، یحییٰ بن صالح ابو حاطیؒ، معلی بن منصور رازیؒ ، علی بن معبدؒ، ابو بکربن ابی مقاتلؒ محمد بن مقاتل رازیؒ ، موسیٰ بن نصررازیؒ، شدادبن حکیم بلخیؒ ، حسین بن حرب رقیؒ،ا بن جبلہؒ،  ابو العباس حمیدؒ ، ابو التوبہ ربیع بن نافعؒ، عبیداللہ بن ابی حنیفہ دبوسیؒ، ابوبرید عمرو بن الجرمیؒ، مصعب بن عبداللہ زبیریؒ ، ایوب بن حسن نیساپوریؒ، علی بن صبیحؒ، عقیل بن عنبسہؒ، علی بن مہران، عمرو بن مہیرؒ، یحییٰ بن اکثمؒ، ابو عبدالرحمن مؤدبؒ، علی بن حسن رازیؒ، ابو جعفر احمد بن محمد بن مہران نسویؒ (راوی السیر الکبیر عنہ) ابوبکر ابراہیم بن رستم مروزیؒ (راوی النوادر عنہ)، عیسیٰ ابن ابانؒ (راوی الحجۃ علی اھل المدینۃ وغیرہ) شعیب بن سلیمان کسانیؒ (راوی الکیسانیات عنہ) ، ابو زکریا یحییٰ بن صالح وحاظی حمصیؒ وغیرہ۔ (دیکھئے:  مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰، الجواھر المضیۃ :۲؍۴۳، بلوغ الامانی۱۰۹)

آخر میں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ امام محمدؒ کے کئی تلامذہ ایسے بھی ہیں جو امام بخاریؒ صاحب الصحیح کے کبارِ اساتذہ ومشائخ میں سے ہیں، مثلاً علی بن مسلم طوسیؒ ۲۵۳؁ھ)، (تاریخ بغداد:۲؍۱۶۹)، معلی بن منصورؒ ۲۱۱؁ھ)،(تہذیب التہذیب:۵؍۴۹۸)، امام یحییٰ بن معینؒ ۲۳۳؁ھ)،(تاریخ بغداد:۳؍۱۷۳)،ابو حفص کبیرؒ ۲۱۷؁ھ)،(سیر اعلام النبلاء :۱۰؍۱۵۷، ھد ی الساری مقدمۃ فتح الباری:ص۶۶۷)، علی بن ہاشم بغدادیؒ،(تہذیب التہذیب:۴؍۲۴۷)، یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ ۲۲۲؁ھ)،(ایضا:۶؍۱۴۶، تذکرۃ الحفاظ: ۱؍۲۹۹)، محمد بن سلام سلمیؒ ۲۲۵؁ھ)،(الاکمال:۴؍۴۰۵)، اور محمد بن مقاتل مروزیؒ ۲۱۱؁ھ) وغیرہ۔ (تہذیب التہذیب:۵؍۲۹۹)

امام محمدؒ کا فقہی مقام :

جس شخص نے امام اعظم ابوحنیفہؒ ، امام ابویوسفؒ ، امام مالکؒ ، امام اوزاعیؒ ، اور امام ابن جُریج ؒ وغیرہ جیسے ائمہ کبار اور مجتہدین عظام سے فقہ کا درس لیا ہو، اور خود جس شخص کے درس سے پڑھ کر امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ اور امام اسد بن فراتؒ وغیرہ جیسے ائمہ فقیہ  اور مجتہد بنے ہوں ، اس شخص کے فقہ میں بلند پایہ اور عظیم الشان ہونے میں کیا شک و شبہ ہوسکتاہے؟

چنانچہ اسی وجہ سے امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت…أفقہ… من محمد بن الحسن‘‘

میں نے امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ فقیہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔  (مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)[11]

حافظ سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) اور حافظ عبدالکریم قزوینیؒ ۶۲۳؁ھ) نے نقل کیا ہے کہ ایک شخص نے امام شافعیؒ سے کوئی مسئلہ پوچھا، انہوں نے جب وہ مسئلہ اس کو بتلایا تو وہ ان سے کہنے لگا: آپ نے اس مسئلہ میں فقہاء کی مخالفت کی ہے ، اس پر امام شافعیؒ نے اس کو جواب دیا:

’’وھل رأیت فقیھا قط؟  اللھم الا ان یکون رأیت محمدبن الحسن، فانہ کا یملأ العین والقلب‘‘ 

کیا تو نے کبھی کسی فقیہ کو دیکھا بھی ہے؟  ہاں !  اگر  تو نے محمد بن حسنؒ کو دیکھا ہو، اس لئے کہ  وہ (اپنے فقہی رعب سے) آنکھوں اور دل کو بھر دیتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،۱۶۷، التدوین فی اخبار قزوین :۱؍۲۵۲)[12]

امام احمد بن حنبلؒ کا یہ بیان پہلے گزر چکا ہے کہ میں نے دقیق (باریک) مسائل امام محمدؒ کی کتابوں سے لئے ہیں۔

امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ)کے شاگرد کبیر امام مزنیؒ ۲۶۴؁ھ) آپ کے بارے میں فرماتے ہیں:

’’اکثرھم تفریعا‘‘

اہل عراق میں سے امام محمدؒ فقہی مسائل کی جزئیات کرنے میں سب سے زیادہ ماہر ہیں۔(تاریخ بغداد:۱۴؍۲۴۹)[13]

امام یحییٰ بن صالحؒ اور امام شافعیؒ سے منقول ہے کہ ان دونوں نے فرمایا:

فی نفسہ  امام محمد ؒ، امام مالکؒ سے بھی زیادہ مضبوط  فقیہ ہیں۔(ایضاً:۲؍۱۷۶، شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)[14]

حافظ ابن عبدالہادی حنبلیؒ ۷۴۴؁ھ)، حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۰؁ھ) آپ کو ’’فقیہ العراق‘‘ قرار دیتے ہیں۔   (مناقب الائمۃ الاربعۃ: ص۶۰، سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴، اتحاف السالک :ص۱۸۰)

نیز حافظ ذہبیؒ آپ کو ’’فقیہ العصر‘‘ اور  ’’رأس فی الفقہ‘‘ (فقہ میں سردار) بھی کہتے ہیں۔ (العبر:۱؍۲۲۴، تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۵۷)

اور آپ کے بارے میں حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) لکھتے ہیں:

’’وکان من بحور العلم والفقہ‘‘ 

امام محمدؒ علم اور فقہ کے سمندر تھے۔(لسان المیزان :۵؍۱۲۷)

اسی طرح حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ (م۸۴۲؁ھ) نے یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’انتھت الیٰ محمد بن الحسن الرئاسۃ فی الفقہ بالعراق بعد موت ابی یوسف‘‘

عراق میں امام ابویوسفؒ کی وفات کے بعد فقہ کی سربراہی امام محمدبن حسنؒ پر ختم تھی۔

(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ:ص۵۰، اتحاف السالک:ص۱۷۷)

نیز ذہبیؒ نے آپ کو مجتہد قرار دیا ہے۔  (تاریخ الاسلام:۴؍۹۵۵)

امام صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) اور ابنِ تغری بردیؒ ۸۷۴؁ھ) بھی کھلے لفظوں میں آپ کے مجتہد ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔  (الوافی بالوفیات:۲؍۲۴۷، النجوم الزھرۃ:۲؍۱۶۴)

حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے امام حماد بن ابی سلیمانؒ کے ترجمہ میں لکھا ہے کہ:

’’فافقہ اھل الکوفۃ علیؓ، وابن مسعودؓ، وافقہ اصحابھما علقمۃ، وافقہ اصحابہ ابراھیم النخعی، وافقہ اصحاب ابراھیم حماد، وافقہ اصحاب حماد ابوحنیفۃ، وافقہ اصحابہ ابویوسف، وانتشر اصحاب ابی یوسف فی الآفاق، وافقھم محمد بن الحسن‘‘

اہل کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ حضرت علیؓ، اورحضرت عبداللہ بن مسعودؓ ہیں، ان دونوں کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ حضرت علقمہؒ ہیں، اور ان کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ حضرت ابراہیم نخعیؒ ہیں، حضرت ابراہیم نخعیؒ کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام حمادؒ ہیں، امام حمادؒ کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام ابوحنیفہؒ ہیں ، اور ان کے تلامذہ میں سب سے بڑے فقیہ امام ابویوسفؒ ہیں، اور امام ابویوسفؒ کے تلامذہ پوری دنیا میں پھیلے ہیں لیکن ان میں سب سے بڑے فقیہ امام محمد بن حسن شیبانیؒ ہیں۔(سیر اعلام النبلاء:۵؍۲۳۶)

امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کی فقہ کو دنیا میں پھیلانے کا سہرا امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ)  کے سر ہے:

واضح رہے کہ امام موصوف نے اگر چہ تمام مشہور فقہاء سے علمی فیض حاصل کیا، اور تقریباً سب مشہور بلاد اسلامیہ کے فقہاء سے براہِ راست ان کی فقہ حاصل کی ، مثلاً اہلِ عراق کی فقہ کو امام ابوحنیفہؒ ، اور امام ابویوسفؒ وغیرہ سے ، اہلِ مدینہ کی فقہ کو امام مالکؒ وغیرہ سے ، اہلِ مکہ کی فقہ کو امام ابن جُریجؒ وغیرہ سے ، اور اہلِ شام کی فقہ کو امام اوزاعیؒ  وغیرہ سے اخذ کرکے ان پر مکمل عبور حاصل کیا تھا، لیکن آپ کی وابستگی جس فقہ سے رہی ، اور آپ نے اپنی پوری زندگی جس فقہ کی نشر واشاعت میں صرف کی وہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کی فقہ ہے۔

چنانچہ اسی وجہ سے آپ ’’صاحب ابی حنیفۃ‘‘ اور  ’’ تلو ابی حنیفۃ‘‘ (امام ابوحنیفہؒ کے پیرو وجانشین) کہلائے، جیسا کہ حافظ سمعانیؒ کے حوالے سے گزرچکا ہے۔

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور حافظ عبدالقادر قرشیؒ (م۷۷۵؁) آپ کے بارے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’نشر علم ابی حنیفۃ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابو حنیفۃؒ کے علم کو (دنیامیں) پھیلایا ہے۔(وفیات الاعیان :۲؍۳۲۱،الجواھر المضیۃ:۲؍۴۲)

علامہ یحییٰ بن ابراہیم سلماسیؒ ۵۵۰؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’ومحمد بن الحسن ھذا ھو الذی ظھر علی یدیہ مذھب ابی حنیفۃ بما صنف والف فی ذلک‘‘۔

امام محمد بن حسنؒ وہ شخص ہین کہ جن کے ہاتھوں سے امام ابوحنیفہؒ کا مذہب (دنیا میں) پھیلا ہے، کیونکہ انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کے مذہب میں کتب تصنیف کی ہیں۔  (منازل الائمہ الاربعۃ۷۹)

علامہ عبدالحیٔ لکھنویؒ ۱۳۰۴؁ھ) رقم طراز ہیں:

’’وھو الذی نشر علم ابی حنیفۃ، وانما ظھر علم ابی حنیفۃ بتصانیفہ‘‘

امام محمدؒ نے امام ابوحنیفہؒ کے علم کو پھیلایا ہے، اور امام ابوحنیفہؒ کا علم امام محمدؒ کی کتابوں کے ذریعہ سے ظاہر ہوا ہے۔(الفوائد البھیۃ۱۶۳)



[1] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرنا أحمد بن علي بن الحسين التوزي قال أنبأنا القاضي أبو عمر أحمد بن محمد بن موسى بن محمد المعروف بابن العلاف قال نبأنا أبو عمر الزاهد قال سمعت أحمد بن يحيى يقول توفي الكسائي ومحمد بن الحسن في يوم واحد. فقال الرشيد دفنت اليوم اللغة والفقه۔

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے:

(۱)         حافظ المشرق، امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) مشہور ثقہ ،امام اور حافظ الحدیث  ہیں۔(تاریخ الاسلام )

(۲)         احمد بن علی  بن الحسین التوزیؒ (م۴۴۲؁ھ) صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۴۲۳)

(۳)        احمد بن محمد بن موسی  بن محمد المعروف ابن العلاف ؒ(م۳۹۰؁ھ) بھی ثقہ راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۷۷).

(۴)        ابو عمر زاھد  سے مراد  محمد بن عبد الواحد غلام ثعلب ؒ (م۳۴۵؁ھ) ہیں اور وہ  صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۸: ص ۴۴۴)

نوٹ :

              دار الکتب  العلمیۃ،بیروت والے نسخہ میں ابو عمر زاھد   کے بجائے ابو عمرو زاھد  لکھا ہے جو کہ کاتب کی غلطی  ہے،کیونکہ ابن العلاف ؒ(م۳۹۰؁ھ)  کے اساتذہ   میں  ابو عمر زاھد صاحب ثعلب  کا ذکر ملتا ہے ۔(تاریخ  بغداد : ج۶ : ص۲۶۹،ط دار الکتب  العلمیۃ،بیروت)  اور شیخ بشار العواد معروف کے نسخے میں بھی ابو عمر زاھد   ہی لکھا ہے۔( تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳)

 لہذا صحیح ابو عمر زاھد  صاحب ثعلب ہی ہے۔

(۵)        احمد بن یحیی سے مراد  احمد بن یحیی بن یزید ،ابو العباس الشیبانی النحوی،امام ثعلبؒ (م۲۹۱؁ھ) ہے جو ثقہ،امام اور حجت ہیں۔

( کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۱۳۲).

(۶)         خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) بھی صدوق  ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

معلوم ہوا کہ اس روایت کے تمام راوی ثقہ یا صدوق ہیں اور یہ حسن  مرسل ہے کیونکہ امام ثعلبؒ (م ۲۰۱؁ھ)و (م۲۹۱؁ھ) کی ملاقات  خلیفہ ہارون الرشیدؒ (م۱۹۳؁ھ)  سے ثابت نہیں ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۶: ص۹۰۰،سیراعلام النبلاء :ج۹: ص ۲۸۶) 

اس طرح  امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے بھی مشہور نحوی ،امام ،حافظ  ابراہیم  بن محمد بن عرفہ،ابو عبد اللہ  نفطویہؒ (م۳۲۳؁ھ)  [صدوق]  سے مرسلاً یہی بات نقل کی ہے۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص ۱۳۳)۔

چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) فرماتے ہیں :

أخبرنَا المرزباني قَالَ ثَنَا إِبْرَاهِيم بن مُحَمَّد بن عَرَفَة النَّحْوِيّ قَالَ مَاتَ مُحَمَّد بن الْحسن وَالْكسَائِيّ بِالريِّ سنة تسع وَثَمَانِينَ وَمِائَة فَقَالَ الرشيد دفنت الْفِقْه والعربية بِالريِّ۔

اس سند کے روات کی تفصیل یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) صدوق ،امام ہیں۔(تاریخ بغداد:ج۸: ص ۶۳۴،ت بشار، تاج التراجم للقاسم  :  ص ۱۶۳)

(۲)       محمد بن عمران بن  موسی ،ابو عبد اللہ  المرزبانی ؒ (م۳۸۴؁ھ) بھی صدوق ومتقن  ہیں۔(المغنی  : ج۲: ص ۶۲۰،سیر : ج۱۶: ص ۴۴۷، تاریخ بغداد:ج۴: ص ۲۲۷،ت بشار،انباء الرواۃ  : ج۳ : ص ۱۸۰،الدرالثمین: ص۱۲۳،التاریخ المعتبر لعبد الرحمٰن  بن محمد المقدسی : ج۳: ص۱۷۷،مرآۃ الزمان لسبط ابن جوزی : ج۱۸ : ص ۷۹،قلادۃ النحر  للحضرمی : ج۳: ص ۲۵۵)

(۳)        امام ،حافظ  ابراہیم  بن محمد بن عرفہ،ابو عبد اللہ  نفطویہؒ(م۳۲۳؁ھ)  بھی صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد:ج۷: ص ۹۳،ت بشار)

(۴)        خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) بھی صدوق  ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

معلوم ہوا کہ اس کی سند بھی حسن  مرسل ہے۔

              امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے ایک اور سند متصل ذکر کی ہے :

         أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرىء قال ثنا القاضي أبو بكر مكرم قال ثنا أحمد بن عبيد الله الثقفي قال ثنا أبو خازم عبد الحميد بن عبد العزيز قال حدثني بكر بن خلف العمي قال حدثني محمد بن سماعة قال حدثني محمد بن الحسن الفقيه قال أبو خازم وهو مولى لبني يبان وأصلهم من قرية بين فلسطين والرملة أعرفها وأعرف قوما من أهلها ثم انتقلوا إلى الكوفة قال لما أشخصني الرشيد ليقلدني القضاء بالشام وردت مدينة السلام فلقيت أبا يوسف وهو الذي سماني وأشار بي فقلت له من حقي عليك ولزومي لك وتصييري لك أستاذا وإماما أن تعفيني عن هذا الأمر فقال لي أنا راكب معك إلى يحيى بن خالد فأكلمه فركب معي إلى يحيى بن خالد فلما دخلنا عليه زال له يحيى عن مصلاه فقعد معه عليه وقعدت بباب البيت فسمعته يقول له هذا محمد بن الحسن ومن حاله كذا ومن حاله كيت وكيت يصفني وذكر امتناعي عليه فقال له يحيى ما تقول فيه قال أقول إنكم إن أعفيتموه لم تجدوا مثله فلما سمع يحيى كلامه لم يلتفت إلي ما أقول وأمضى أمري فلما ورد الرشيد الرقة أحضرت فدخلت إليه أنا والحسن بن زياد اللؤلؤي وأبو البختري وهب بن وهب فأخرج إلينا الأمان الذي كتب ليحيى ابن عبد الله بن الحسن فدفع إلي فقرأته وقد علمت الأمر الذي أحضرنا له فمثلت بين أن أظهر شيئا إن كان يتعلق به فيه فأوجده السبيل إلى قتل الرجل أو أترك الطعن عليه مع ما أعلم أنه ينالني من موجدة الرشيد فآثرت أمر الله والدار الآخرة فقلت هذا أمان مؤكد لا حيلة في نقضه فانتزع الصك من يدي ودفع إلى اللؤلؤي فقرأه وقال كلمة ضعيفة لا أدري سمعت أو لم تسمع هذا أمان فانتزع من يده ودفع إلى أبي البختري فقرأه ثم قال ما أرجيه ولا أرضاه هذا رجل سوء قد شق العصا وسفك دماء المسلمين وفعل وفعل فلا أمان له ثم ضرب بيده إلى خفه وأنا أراه واستخرج سكينا فشق الكتاب بنصفين ثم دفعه إلى الخادم ثم التفت إلى الرشيد فقال اقتله ودمه في عنقي قال فقمنا من المجلس وأتاني رسول الرشيد أن لا أفتي أحدا ولا أحكم فلم أزل على ذلك إلى أن أرادت أم جعفر أن تقف وقفا فوجهت إلي في ذلك فعرفتها أني قد نهيت عن الفتيا فكلمت الرشيد فأذن لي قال محمد بن الحسن فكنت وكل من في دار الرشيد يتعجب من أبي البختري وهو حاكم وفتياه بما أفتى به وتقلده دم رجل من المسلمين ثم من حمله في خفه سكينا قال ولم يقتل الرشيد يحيى في ذلك الوقت وإنما مات في الحبس بعد مدة قال محمد بن سماعة في حديثه ثم قرب الرشيد محمد بن الحسن بعد ذلك وتقدم عنده وولاه قضاء القضاة وحمله معه إلى الري فتوفى هو والكسائي بها في يوم واحد فقال الرشيد دفنت الفقه والنحو بالري قال بكر العمى في حديثه إن محمد بن الحسن لما أفتى بصحة الأمان وأفتى أبو البختري بنقضه وأطلق له دمه قال له يحيى يا أمير المؤمنين يفتيك محمد بن الحسن وموضعه من الفقه موضعه بصحة أماني ويفتيك هذا ينقضه وما لهذا والفتيا وإنما كان أبوه طبالا بالمدينة۔

              اس طویل  روایت  میں  محمد بن سماعہ ؒ(م۲۳۳؁ھ) کہتے  ہیں کہ امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) اور امام کسائیؒ (م۱۸۹؁ھ)  کی وفات پر خلیفہ ہارون الرشیدؒ (م۱۹۳؁ھ) نے کہا   کہ  رئے میں (آج)  فقہ اور نحو دفن ہوگئی۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص ۱۳۰-۱۳۱)

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ) ثقہ ،امام  ہیں۔(سیر :ج۱۶: ص۴۸۲)

(۳)        مکرم بن احمدالبغدادی القاضیؒ (م۳۴۵؁ھ) بھی ثقہ محدث ہیں۔(سیر : ج۱۵: ص ۵۱۷)

(۴)        احمد بن عبید اللہ بن محمد بن عمار،ابو االعباس  الثقفیؒ (م۳۱۴؁ھ) کے بارے میں ابن الرومی (م۲۸۳؁ھ) کہتے ہیں کہ : ’’هذا أبو العباس ابن عمار له موضع من الرواية والأدب ‘‘ یہ ابو  العباس ابن عمارکا  ادب اور  روایت میں ایک مقام ہے۔ (معجم الادباء  للحموی : ج۱: ص ۳۶۶) اس  سے ان کا صدوق ہونا ظاہر ہے۔

(۵)        امام ابو خازم  ،عبد الحمید بن عبد العزیز السکونیؒ (م۲۹۲؁ھ) بھی  مشہور قاضی  اور ثقہ،ذکی ہیں۔(سیر :ج۱۳:ص۵۳۹)

(۶)         بکر بن محمدالعمیؒ بھی صدوق ہیں،ان کے بار ے میں فقیہ تقی الدین الغزیؒ (م۱۰۱۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كان من أعيان الأئمة علماً وعملاً ‘‘ وہ علم اور عمل کے اعتبار سے بڑے ائمہ میں سے ہیں ۔(الطبقات السنیۃ للغزی : ص ۱۹۵)

نوٹ :

            أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری کے مطبوعہ نسخے  میں بکر بن محمد العمیؒ کے بجائے  بکر بن خلف العمیؒ لکھا ہے جو کہ کاتب غلطی ہے،کیونکہ امام ابو خازم  ،عبد الحمید بن عبد العزیز السکونیؒ (م۲۹۲؁ھ) کے اساتذہ  میں ،اور محمد بن سماعہ، ابو عبد اللہ الکوفیؒ (م۲۳۳؁ھ) کے شاگردوں میں جس بکر العمی  ؒکاذکر ہے وہ ابن محمد العمیؒ ہے نہ کہ ابن خلف العمی، (الجواهر المضية في طبقات الحنفية:ج۱: ص ۱۷۳، الفوائد البهية في تراجم الحنفية:ص۵۵، الطبقات السنیۃ للغزی : ص ۱۹۵)  

لہذا  صحیح بکر بن محمد العمیؒ ہے۔ واللہ اعلم

(۷)        محمد بن سماعہ، ابو عبد اللہ الکوفیؒ(م۲۳۳؁ھ) ثقہ،حافظ ہیں۔(تہذیب الکمال : ج۲۵: ص ۳۱۷)

(۸)       خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) کی  توثیق گزرچکی۔(تاریخ الاسلام : ج۴ : ص ۱۲۲۳)

خلاصہ یہ کہ  مذکورہ روایت حسن ہے اور  خلیفہ ھارون الرشید ؒ(م۱۹۳؁ھ) سے ثابت ہے۔ واللہ اعلم

[2] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

              أخبرنا أبو نعيم الأصبهاني الحافظ قال نبأنا أبو طلحة تمام بن محمد بن علي الأزدي بالبصرة قال أنشدنا القاضي محمد بن أحمد بن أبي حازم قال أنشدنا الرياشي قال أنشدنا اليزيدي لنفسه يرثى محمد بن الحسن والكسائي، وكانا خرجا مع الرشيد إلى الري فماتا بها في يوم واحد:

أسيت على قاضي القضاة محمد ... فأذويت دمعي والعيون هجود

وقلت إذا ما الخطب أشكل من لنا ... بإيضاحه يوما وأنت فقيد

              اس روایت میں موجود ابو طلحہ تمام بن محمد راوی کی توثیق نہیں مل سکی لیکن اسکی ایک اور حسن سند آئی ہے،چنانچہ امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ:

أخبرنا أبو عبيد الله محمد بن عمران بن موسى المرزباني قال أنبا الصولي قال ثنا السكري قال أنشدني إسماعيل بن أبي محمد اليزيدي لأبيه يرثي محمد بن الحسن والكسائي رضي الله عنهما:

(تصرمت الدنيا فليس له خلود ... وما قد ترى من بهجة سيبيد)

(لكل امرىء منا من الموت منهل ... فليس إلا عليه ورود)

(ألم تر شيبا شاملا ينذر البلى ... وإن الشباب الغض ليس يعود)

(سيأتيك ما أفنى القرون التي مضت ... فكن مستعدا فالفناء عتيد)

(أسيت على قاضي القضاة محمد ... فأذريت دمعي والفؤاد عميد)

(فقلت إذا ما أشكل الخطب من لنا ... بإيضاحه يوما وأنت فقيد وأوجعني موت الكسائي بعده ... وكادت بي الأرض الفضاء تميد)۔ ( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری :ص۱۳۲-۱۳۳)

اس سند کے راویوں کی تفصیل یہ ہیں :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) اور

(۲)       محمد بن عمران بن  موسی ،ابو عبد اللہ  المرزبانی ؒ (م۳۸۴؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۳)        الصولی ؒ سے مراد محمد بن یحیی ،ابوبکر الصولیؒ (م۳۳۵؁ھ) ہے۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری: ص۷۰) 

اور وہ صدوق ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۶۹۶)

(۴)        الحسن بن الحسین  بن عبد اللہ ،ابو سعید السکری النحویؒ (م۲۷۵؁ھ)  ثقہ اور مقری القرآن ہیں۔( تاریخ الاسلام : ج۶: ص ۵۳۵)

(۵)        اسماعیل بن ابی محمد  یحیی بن مبارک الیزیدیؒ کے بارے میں امام جمال الدین ابو الحسن علی بن یوسف القفطیؒ (م۶۴۶؁ھ) کہتے ہیں  کہ ’’ كان فاضلا كإخوته، عالما بالعربية، خبيرا بأخبار الشعراء ‘‘ وہ اپنے بھائی کی طرح فاضل،عربی کے عالم،شاعروں کے اخباری تھے۔(إنباه الرواة على أنباه النحاة:ج۱:ص۲۴۸)، امام  یاقوت الحمویؒ (م۶۲۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ وكان إسماعيل أحد الأدباء الرواة الفضلاء ‘‘ اسماعیل ادیب (اور) فاضل راویوں میں سے تھے۔(معجم الادباء : ج۲ : ص ۷۳۷)  اس سے ان  کاصدوق ہونا ظاہر ہے۔واللہ اعلم

(۶)         ابو محمد یحیی بن مبارک الیزیدیؒ (م۲۰۲؁ھ) ثقہ اور حجت ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۵ : ص ۲۲۶)

معلوم ہوا کہ اس سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق  اور روایت حسن ہے۔واللہ اعلم

[3] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۸،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

أخبرنا علي بن أبي علي قال نا طلحة بن محمد قال حدثني مكرم بن أحمد القاضي قال نا أحمد بن محمد بن المغلس قال نا سليمان بن أبي شيخ قال حدثني ابن أبي رجاء القاضي قال سمعت محمويه- وكنا نعده من الأبدال- قال رأيت محمد ابن الحسن في المنام فقلت: يا أبا عبد الله إلام صرت؟ قال قال لي: إني لم أجعلك وعاء للعلم وأنا أريد أن أعذبك، قلت فما فعل أبو يوسف؟ قال فوقي. قلت فما فعل أبو حنيفة؟ قال فوق أبي يوسف بطبقات۔

اس کی سند میں احمد بن محمد بن المغلسؒ(م۳۰۸؁ھ)  پر کلام ہے،لیکن یہ واقعہ صحیح اور  مقبول ہے، اس لئے کہ اس واقعہ کی حسن سند موجود ہے، چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) ہی فرماتے ہیں کہ :

               أخبرنا عمر بن إبراهيم قال ثنا مكرم قال ثنا محمد بن عبد السلام قال حدثني سليمان بن داود بن كثير الباهلي وعبد الوهاب بن عيسى قالا ثنا محمد بن أبي رجاء القاضي قال سمعت أبي قال رأيت محمد بن الحسن في المنام فقلت ما صنع بك ربك قال أدخلني الجنة وقال لي لم أصيرك وعاءا للعمل وأنا أريد أن أعذبك قال قلت فأبو يوسف قال ذاك فوقي أو فوقنا بدرجة قال قلت فأبو حنيفة قال ذاك في أعلى عليين۔( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص۱۳۳)

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہے :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ) اور

(۳)        مکرم القاضیؒ (م۳۴۰؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔ (دیکھئے ص :۳۹)

(۴)        محمد بن عبد السلام سے مراد محمد بن عبد السلام بن عثمان  بن سہل ،ابوبکر الفزاری الدمشقیؒ(م۳۱۷؁ھ) ہے۔

دیکھئے:اخبار ابی حنیفہ للصیمری : ص ۴۰، تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۳۳۱،تاریخ دمشق  لابن عساکر : ج۵۴: ص ۱۱۸،

اور حافظ مشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) نے ان کو ’’معدل ‘‘ قراردیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۳: ص ۶۸۷،ت بشار، مقالات ارشاد الحق اثری :ج:۲ص۲۶۸-۲۶۹)

لہذا محمد بن عبد السلام بن عثمان  بن سہل ،ابوبکر الفزاری الدمشقیؒ(م۳۱۷؁ھ) صدوق ہیں۔

(۵)        سلیمان بن داود بن کثیر الباہلیؒ (م۳۱۴؁ھ)  صدوق محدث ہیں۔(سیر : ج۱۴: ص ۴۸۲) ان کے متابع میں موجود عبد الوھاب بن عیسیؒ (م۳۱۹؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۳۵۶)

(۶)         محمد بن احمد ابی رجاء  الجوزجانی ؒ (م۲۸۵؁ھ) کے بارے میں امام،حافظ عبد القادر القرشیؒ (م۷۷۵؁ھ) نے کہا : ’’ قَاضِي نيسابور تفقه عَليّ أبي سُلَيْمَان الْجوزجَاني صَاحب مُحَمَّد بن الْحسن ‘‘ یہ نیساپور کے قاضی تھے اورامام محمد ؒ کے خاص شاگرد ابو سلیمان الجوزجانی ؒ  سے فقہ پڑھی۔(الجواهر المضية في طبقات الحنفية: ج۲: ص۲۹) امام حاکمؒ (م۴۰۵؁ھ) نے بھی ان کو قاضی القضاۃ قرار دیا ہے۔(تلخیص تاریخ نیساپور: ص۸۸) پس  یہ ان کی ایک دینی شہرت ہوئی جو کہ ان کے صدوق ہونے کے لئے کافی ہے۔(اضواء المصابیح : ص ۲۵۱، تقریب النووی : ص ۴۸، المقنع لابن الملقن : ص ۲۴۵، البحر المحیط للزرکشی : ج ۲: ص۱۶۸)

(۷)      ابو رجاء ؒ  کے بارے میں محمد بن شجاعؒ(م۲۶۶؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كَانَ مِنَ الْعِبَادَةِ وَالصَّلاحِ بِمَكَانٍ ‘‘ عبادت اور صلاح میں ان کا ایک مقام تھا  ۔(الانتقاء  لابن عبد البر : ص۱۴۵)، لہذا یہ راوی بھی صدوق ہے۔

              الغرض یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[4] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۰،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۲ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

         أخبرنا علي بن أبي علي المعدل قال أنبأنا طلحة بن محمد بن جعفر قال أخبرني أبو عروبة في كتابه إلي قال حدثني عمرو بن أبي عمرو قال: قال محمد بن الحسن: ترك أبي ثلاثين ألف درهم، فأنفقت خمسة عشر ألفا على النحو والشعر، وخمسة عشر ألفا على الحديث والفقة۔

              اس کی سند میں علی بن ابی علی سے مراد  قاضی علی   بن المحسن،ابو القاسم التنوخیؒ(م۴۴۷؁ھ) صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۷: ص ۲۳۳)،  طلحہ بن محمد الشاھد (م۳۸۰؁ھ) پر کلام ہے،لیکن راجح قول میں وہ صدوق ہیں۔ان کی توثیق اگلے شمارے میں آئے گی،ابو عروبۃ اور عمرو بن ابی عمرو ؒ کی توثیق کے لئے دیکھئے  مجلہ الاجماع : ش۴: ص۳۲۔

لہذا یہ سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں، نیز  اس واقعہ کی ایک اور حسن سند موجود ہے، چنانچہ  امام ابو عبداللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) فرماتے ہیں کہ:

         أخبرنا أحمد بن محمد الصيرفي قال ثنا أحمد بن محمد المنصوري قال ثنا ابن كأس النخعي قال ثنا أبو عروبة الحراني قال ثنا عمرو بن أبي عمرو قال قال محمد بن الحسن خلف أبي ثلاثين ألفا درهم فأنفقت خمسة عشر ألفا على النحو والشعر وخمسة عشر ألفا على الحديث والفقه۔

( أخبار أبي حنيفة وأصحابه للصیمری : ص۱۲۹)

اس سند کے روات کی تفصیل یہ ہیں :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         احمد بن محمد بن علی،ابو عبد اللہ الصیرفی  المعروف ابن الآبنوسیؒ (م۳۹۴؁ھ) صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد : ج۶: ص ۲۳۱،ت بشار)

(۳)        احمد بن محمد المنصوری،ابو العباس  التمیمی ؒ بھی صدوق،فقیہ ہیں۔(الروض الباسم : ج۱ : ص ۳۰۰)

(۴)        امام ابن کاس النخعی ؒ(م۳۲۴؁ھ) بھی ثقہ ،امام ہیں۔(ارشاد القاصی والدانی : ص ۴۳۹)

(۵)        امام  الحسین  بن محمد،ابو  عروبہ الحرانیؒ(م۳۱۸؁ھ) اور

(۶)         عمرو بن ابی عمروؒ کی توثیق کے لئے دیکھئے  مجلہ الاجماع : ش۴ : ص ۳۲۔

معلوم ہوا کہ  اس سند کے بھی تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں اور سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[5] علی زئی کا امام محمدؒ کے ایک قول پر اعتراض کی حقیقت:

حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے اس قول پر یہ اعتراض کیاہے کہ علامہ خطیب بغدادیؒ نے اس قول کی دو سندیں لکھی ہیں ، پہلی سند  صحیح ہے، لیکن اس کا انہوں نے متن نہیں لکھا ، اور دوسری سند جس کا نہوں نے متن لکھا ہے وہ صحیح نہیں ہے ، (محصلہ الحدیث:س۵ص۱۳، حاشیہ۲) لیکن علی زئی کا یہ اعتراض علم حدیث سے ان کے تہی دامن ہونے کی دلیل ہے، ورنہ علم حدیث کے بنیادی طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہے کہ جس قول کے ساتھ دو سندیں مذکور ہوں اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ قول دو سندوں کے ساتھ منقول ہے، اور ان دونوں سندوں کا متن ایک جیسا ہی ہے۔جس جماعت میں زبیر علی زئی جیسے علم حدیث سے تہی دامن لوگ محدث اور شیخ الحدیث کی کرسی پر براجمان ہوں اس جماعت کا اللہ ہی حافظ ہے۔

[6] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۱،طبع دار الکتب  العلمیہ،بیروت ، اورتاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار عواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۳ پر موجود ہے۔ اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرني أبو الوليد الدربندي قال نا محمد بن أبي بكر الوراق ببخارى قال نا محمد بن أحمد بن حبان قال نا أحمد بن عبد الواحد بن رفيد قال سمعت أبا عصمة سعد بن معاذ يقول سمعت إسماعيل بن حماد بن أبي حنيفة يقول كان محمد ابن الحسن له مجلس في مسجد الكوفة وهو ابن عشرين سنة۔

اس سند کے روات کی تحقیق یہ ہیں :

(۱)         حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام ابو الولید،حسن بن محمد الدربندیؒ(م۴۵۶؁ھ) صدوق،حافظ الحدیث ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۳: ص ۳۹۲)

(۳)        حافظ ابو عبد اللہ،محمد بن ابی بکر الْغُنْجَار (م۴۱۲؁ھ) بھی ثقہ  اور ائمہ حدیث  میں سے ہیں۔(تاریخ الاسلام: ج۹: ص ۲۰۶، المنتخب من كتاب السياق لتاريخ نيسابور : ص۴۶)

(۴)        محمد بن احمد بن  حبان سے مراد صدوق راوی ،محمد بن احمد بن عمر بن حبان،ابو عمرو بخاریؒ ہیں۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ص۳۱۳)

نوٹ :

              تاریخ بغداد کے مطبوعہ نسخوں میں محمد بن احمد بن حبان کے بجائے محمد بن احمد بن حرب آگیا ہے،جو کہ کاتب کی غلطی ہے،کیونکہ ابو احمد بن عبد الواحد بن رفید کے شاگردوں  اور حافظ ابو عبد اللہ،محمد بن ابی بکر الْغُنْجَارکے اساتذہ میں جس محمد بن احمد  کا ذکر ہے،وہ محمد بن احمد بن حبان ہے،نہ کہ محمد بن احمد بن حرب۔(الرّوض الباسم في تراجم شيوخ الحاكم: ص۳۱۳)

لہذا  صحیح محمد بن احمد بن حبان ہے۔واللہ اعلم

(۵)        احمد بن عبد الواحد بن رفیدؒ  کی کنیت ابو بکر ہے،لیکن وہ ابو احمد کی کنیت سے مشہور ہیں۔(کتاب الانساب  للسمعانی : ج۱۳: ص ۱۹۶) اور امام مزیؒ(م۷۴۲؁ھ) کے نزدیک آپؒ میں کوئی حرج نہیں ہے۔(تہذیب الکمال : ج۲۵: ص ۳۴۳،ج۱:ص۱۵۳،تاریخ بغداد : ج۶: ص ۳۴۶،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت )

(۶)         ابو عصمہ،سعد بن معاذ المروزیؒ بھی صدوق ہیں۔

              امام،حافظ ابو القاسم اللالكائي (م۴۱۸؁ھ) نے ان کو علماء بلخ میں شمار کیا ہے۔( شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة:ج۲: ص ۳۴۰)، امام ابو بکر بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) نے ان کی روایت بوجہ استدلال صحیح قرار دیا ہے۔(الاعتقاد للبیہقی : ص ۱۶۲-۱۶۳) اور کسی روایت کی تصحیح و تحسین اس کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲)

              لہذا ابو عصمہ،سعد بن معاذ المروزیؒ بھی صدوق ہیں۔

(۷)        اسماعیل بن حماد بن ابی حنیفہؒ (م۲۱۲؁ھ) بھی صدوق ہیں۔(مجلہ الاجماع :ش۱۲: ص ۲۳ )

لہذا یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

[7]  امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ پر علی زئی کی ہٹ دھرمی:

مذکورہ بالاتحقیق اور ٹھوس حوالوں سے الحمد للہ یہ ثابت ہوچکا ہے  کہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کو شرفِ تلمذ حاصل ہے، اور امام شافعیؒ نے آپ سے بہت زیادہ استفادہ کیاہے، مگر ایک نام نہاد ، محقق حافظ زبیر علی زئی نے ان سب حقائق سے دانستہ چشم پوشی کرتے ہوئے محض حافظ ابن تیمیہؒ کے ایک شاذ قول کے بَل بوتے امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ سے انکار کر دیا، چنانچہ لکھتے ہیں:  ’’ایک رافضی نے کہا کہ (امام ) شافعیؒ نے محمد بن الحسنؒ سے پڑھا ہے، تو اس کی تردید کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں کہ:  ’’ان ھذا لیس کذلک،  بل جالسہ وعرف طریقتہ وناظرہ،  واول من اظھر الخلاف لمحمد بن الحسن والردعلیہ الشافعی…… ‘‘ ایسی بات نہیں بلکہ (امام شافعی ؒ) ان کے پاس بیٹھے ہیں، اس کا طریقہ پہچاناہے ، اور اس سے مناظرہ کیاہے، سب سے پہلے محمد بن الحسن سے اختلاف اور اس کا رد امام شافعیؒ نے کیا ہے، (منھاج السنۃ النبویۃ : ج۴ص۱۴۳، ) ایک غالی دیوبندی نے شیخ الاسلام کا رد لکھا ہے۔ لیکن یہ مردود ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۲،۱۳)

علی زئی اس عبارت سے یہ تأثر دے رہے ہیں کہ امام محمدؒ سے اما م شافعیؒ کے تلمذ کے قائل صرف رافضی ہیں ، حالانکہ بحوالہ گذر چکا ہے، کہ خود امام شافعیؒ سمیت متعدد محدثین نے امام شافعیؒ کے امام محمدؒ سے تلمذ کی تصریح کی ہے۔(دیکھئے ص : )

 کیا یہ سب حضرات بھی علی زئی کی نظر میں رافضی ہیں؟

نیز امام شافعیؒ کی ’’مسند‘‘ میں بھی امام محمدؒ سے کئی احادیث مروی ہیں ، اور ان میں ایک حدیث کی سند بحوالہ مولانا عظیم آبادیؒ غیر مقلد ہم نقل بھی کرچکے ہیں،اس شہادت کا زبیر علی زئی  اور اہل حدیث کیا کریں گے۔

              اور پھر حافظ ابن تیمیہؒ کے دو حوالے بھی ہم ذکر کر چکے ہیں ، جن میں انہوں نے بھی امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے آپ سے استفادہ کرنے کا اقرار کیاہے۔

              اب علی زئی صاحب کی دیانت داری ملاحظہ کریں کہ خود امام شافعیؒ بھی امام محمدؒ سے اپنے تلمذ کا اقرار کر رہے ہیں، اور دیگر محدثین اور علمائے غیر مقلدین بھی اس کی تصریح کر رہے ہیں، حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸؁ھ) بھی دوسری جگہ امام شافعیؒ  کا امام محمدؒ کے شاگرد ہونے کی تصدیق کر رہے ہیں، اور سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ خودامام شافعیؒ کی مسند میں بھی امام محمدؒ سے مروی احادیث موجود ہیں، لیکن یہ سب حوالہ جات تو علی زئی کی نظر میں مردود ٹھہر رہے ہیں، اور حافظ ابن تیمیہؒ کا ایک شاذ قول ہی ان کے ہاں معتبر قرار دیا جارہا ہے۔

بریں عقل و دانش بباید گریست

              اور پھر علی زئی نے حافظ ابن تیمیہؒ کا یہ حوالہ نقل کرنے میں بھی دجل و تلبیس کا مظاہرہ کیا ہے، اور ان کی پوری عبارت نقل نہیں کی ، کیونکہ اس سے علی زئی کے اپنے موقف پر زد پڑتی تھی، وہ اس طرح کہ جس رافضی کی حافظ ابن تیمیہؒ نے تردید کی ہے اس نے نہ صرف یہ کہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ کا ذکر کیا ہے بلکہ اس نے امام شافعیؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ کا بھی ذکر کیا تھا، اور حافظ نے اس کی ان دونوں باتوں کی تردید کی ہے۔ (جوخلاف تحقیق ہے) چنانچہ حافظ موصوف کی جو عبارت علی زئی نے ذکر کی ہے، اس سے آگے ان کی عبارت یوں ہے:

              ’’وکذالک احمدبن حنبل لم یقرأ علی الشافعی لکن جالسہ کما جالس الشافعی محمد بن الحسن، واستفاد کل منھما من صاحبہ ‘‘۔ (منھاج السنۃ: ۴؍۱۴۳)

              (امام شافعیؒ نے جیسے امام محمدؒ سے نہیں پڑھا) اسی طرح امام احمد ابن حنبلؒ نے بھی امام شافعیؒ سے نہیں پڑھا، بلکہ صرف ان کے پاس بیٹھے ہیں جیسا کہ امام شافعیؒ ، امام محمد بن الحسنؒ کے پاس بیٹھے تھے، اور ان دونوں میں سے ہر ایک نے اپنے ساتھی سے استفادہ کیا ہے۔

              علی زئی صاحب نے حافظ موصوف کی یہ عبارت اس لئے چھوڑ دی ہے کیونکہ اس میں امام شافعیؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ کی بھی نفی ہے، جب کہ علی زئی امام شافعیؒ کو امام احمدؒ کے استاذ تسلیم کرتے ہیں، چنانچہ لکھتے ہیں: ابو حاتم رازیؒ نے امام احمد کو علم حدیث میں ان کے استاذ امام شافعیؒ پر ترجیح دی ہے۔  (الحدیث:ش۲۵،ص۳۹)

یہ ہے علی زئی کا انصاف !  کہ حافظ ابن تیمیہؒ کی آدھی بات ان کے ہاں مقبول ہے ، اور آدھی بات مردود ، گویا

میٹھا میٹھا ہپ

کڑوا کڑوا تھو

خلاصہ امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے عدم تلمذ پر زبیر علی زئی  اور اہل حدیث حضرات کی ہٹ دھرمی باطل اور مردود ہے۔

[8] پاک وہند کے بعض غیرمقلدین امام شافعیؒ کی طرف منسوب اِن مَن گھڑت سفرناموں کو شائع کرتے ہیں، اور ان کو امام محمدؒ اور امام شافعیؒ کے درمیان مخالفت اور دشمنی ثابت کرنے کے لئے بطور استدلال پیش کرتے ہیں، یہاں تک کہ غیر مقلدین کے استاذ العلماء مولانا محمد گوندلویؒ غیر مقلد نے ایسے ہی ایک جھوٹے سفر نامے کے چند اقتباسات نقل کرکے امام محمدؒ سے امام شافعیؒ کے تلمذ کو محض افسانہ قرار دے دیا۔ (التحقیق الراسخ:ص۱۸۶)  انا للہ ……

یہ ہے اُن کے استاذ العلماء کا حال تو پھر اندازہ لگا لیں کہ اُن کے جُہلاء کا کیا حال ہوگا؟

قیاس کن ز گلستان من بہار را

[9]  امام محمدؒ سے امام احمدؒ کے تلمذ پر علی زئی کی نکتہ چینی کی حقیقت:

اعتراض :  

علی زئی امام احمدؒ کے مذکورہ بالا قول پر اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  اس روایت کے راوی ابو بکر القراطیسی کی توثیق نامعلوم ہے ، اور دوسرے  یہ کہ اس کا تعلق روایت حدیث سے نہیں ہے۔ (الحدیث: ش۷،ص۱۸)

جواب  :

اولاً:       یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۴،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۷۳ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ :

حَدَّثَنِي الخلال، قَالَ: حدثنا علي بن عمرو، أن علي بن محمد النخعي حدثهم، قَالَ: حدثنا أبو بكر القراطيسي، قَالَ: حدثنا إبراهيم الحربي، قَالَ: سألت أحمد بن حنبل، قلت: هذه المسائل الدقائق من أين لك، قَالَ: من كتب محمد بن الحسن۔

اس سند میں امام  علی بن محمد ابن کاس النخعیؒ (م۳۲۴؁ھ) کے استاذ  ابو بکر القراطیسیؒ  پر زبیر علی ئی نے اعتراض کیا  ہے کہ  ان کی توثیق نا معلوم ہے،لیکن   حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مناقب : ص۸۶،دیکھئے ص :۱۵۶)

اور کسی روایت  کی تصحیح و تحسین اس روایت  کے ہر ہر راوی کی توثیق  ہوتی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲) لہذا اس روایت میں ابو بکر القراطیسیؒ، حافظ ذہبیؒ کے نزدیک  صدوق ہیں،نیزپچھلی روایت سے  بھی،امام احمد کا امام محمد سے روایت لینا ثابت ہوتا ہے۔

الغرض ہر لحاظ سے علی زئی کا اعتراض  باطل ہے۔

ثانیاً:       اس قول کے صحیح ہونے کے لئے یہی دلیل کافی ہے ہے کہ مؤرخِ اسلام حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تاریخ میں اس قول کو نقل کرکے اس پر کوئی جرح وقدح نہیں کی۔  (البدایہ والنھایہ:۷؍۱۹۷) اور غیر مقلدین کے امام العصر مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ نے امام ابن کثیرؒ کے بارے میں تصریح کی ہے کہ ان کی عام روش یہی ہے کہ وہ قابلِ جرح روایت پر جرح ظاہر کردیتے ہیں۔  (سیرت المصطفیٰ ﷺ:۱۸۳)  بنا بریں امام ابن کثیرؒ کا اس قول کو نقل کرنے کے بعد جرح سے سکوت کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے نزدیک اس قول کی سند صحیح ہے، لہٰذا اس قول کی سند کے راوی ’’القراطیسی‘‘ کو مجہول کہنا غلط ہے۔

ثالثاًً:     اگر اس کی توثیق معلوم نہ بھی ہو تو پھر بھی کوئی مضر نہیں کیونکہ علی زئی کے انتہائی ممدوح مولانا محمد گوندویؒ غیر مقلد (جن کو علی زئی نے ’’شیخ الاسلام، حجۃ الاسلام، شیخ القرآن والحدیث، الامام التقہ، المتقن الحجہ، المحدث الفقیہ، الاصولی‘‘ قرار دیا ہے،الکوکب الدریۃ:ص۷) نے ایک راوی جس کی توثیق نامعلوم ہے ، کے بارے میں لکھتے ہیں :

              مگر عدم علم سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ مجہول ہو۔  (خیرالکلام:ص۲۴۸)

              نیزوہ لکھتے ہیں علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں: صحیحین (صحیح بخاری صحیح مسلم) کےرُوات (راویوں) میں بہت سے ایسے ہیں جن کی توثیق صراحتاً کسی سے ثابت نہیں ہے۔  (ایضاً:ص۱۶۹)

              اسی طرح انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ علامہ عراقی فرماتے ہیں جو محدث مجروح نہ ہو وہ آنحضرت ﷺ کے اس قول کہ (اس علم کے اٹھانے والے عادل ہوں گے) عادل ٹھہرے گا۔ (ایضاً:ص۱۶۸)

علی زئی کے اس انتہائی ممدوح کے مذکورہ اقتباسات سے واضح ہوگیا کہ کسی راوی کی توثیق معلوم نہ ہونا مضر نہیں ہے ، بشرطیکہ وہ مجروح نہ ہو، اور ابوبکر قراطیسیؒ کا مجروح ہونا ثابت نہیں ہے، ورنہ علی زئی حوالہ پیش کریں، اور پھر اس کی مذکورہ روایت کی تائید پہلی روایت سے بھی ہورہی ہے ، جس میں امام احمدؒ کا امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ سے دو قناطیر علم لکھنے کا ذکر ہے ، اور وہ روایت بالکل صحیح ہے ، لہٰذا متابعت کی صورت میں یہ روایت بھی قابلِ حجت ہے۔

              رہا علی زئی کا یہ کہنا کہ اس قول کا روایتِ حدیث سے تعلق نہیں ہے ، تو جواباً عرض ہے کہ اس پر زبیر علی زئی  کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے۔

              اور اگر اس قول کا تعلق روایتِ حدیث سے نہ بھی ہو بلکہ فقہی مسائل سے ہو تو پھر بھی کوئی حرج نہیں ، کیونکہ امام احمدؒ کے پہلے قول کا تعلق تو ضرور روایت حدیث سے ہےکیونکہ شیخ معلمیؒ غیر مقلد (جن کو علی زئی صاحب: ’’ذہبی عصر حقا‘‘ قرار دیتے ہیں۔ (نور العینین:ص۱۱۹) کی تصریح گزرچکی ہے کہ امام احمدؒ کے امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ سے تین قناطیر لکھنے کا ظاہری مطلب یہی ہے کہ امام احمدؒ نے ان دونوں سے ان کی مروی احادیث لکھی تھیں، لہٰذا امام احمدؒ کے پہلے قول سے یہ ثابت ہورہا ہے کہ امام محمدؒ اُن کے نزدیک روایتِ حدیث میں بااعتماد تھے، اور دوسرے قول سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے ہاں آپ فقہ میں بھی قابلِ حجت اور قابلِ استدلال تھے، اور امام احمدؒ نے فقہ اور حدیث دونوں علوم میں آپ سے فائدہ اٹھایا ہے۔  وھذا ھو مطلوبنا۔

         نیز حافظ قاسم بن قطلوبغا ؒ  نے تصریح کی ہے کہ امام احمد ؒ نے امام محمدؒ سے ان کی کتب سنیں اور ان کو روایت بھی کیا ہے۔دیکھئے (ص:۱۳۱) اور امام محمد ؒ کے کتب  مثلاً کتاب الآثار،موطا،کتاب الاصل المعروف بالمبسوط،جامع الصغیر وغیرہ میں مرفوع وموقوف اور مقطوع احادیث موجود ہیں۔

              لہذا ہر  لحاظ سے زئی صاحب کا اعتراض باطل ومردود ہے۔

[10] امام محمدؒ سے امام ابن معینؒ(م۲۳۳؁ھ) کے تلمذ پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              معترض زبیر علی زئی نے یہ تسلیم کیا ہے کہ مذکورہ قول کی سند امام یحییٰ بن معینؒ تک صحیح ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۴ج۱) لیکن آگے اپنی عادت کے موافق اس قول پر یہ نکتہ چینی کردی کہ ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھنے کے بعد امام یحییٰ بن معینؒ کس نتیجے پر پہنچے اس کا تذکرہ عباس الدوری کی تاریخ میں ہے ۔

              قال یحییٰ بن معین: محمد بن الحسن الشیبانی لیس بشئی۔  (تاریخ ابن معین روایۃ الدوری:۱۷۷۰) یعنی محمد بن الحسن الشیبانیؒ کچھ چیز نہیں ہے ۔  (الحدیث:ش۷، ص۱۴)

              جواب:    امام ابن معین کے اس قول: ’’لیس بشئی‘‘ کا جائزہ تو ہم ان شاء اللہ امام محمدؒ کے خلاف منقول جرح کے جواب میں لیں گے ،کہ یہ کلمہ جرح ہے بھی یا نہیں ،اور اس کا کیا مطلب ہے۔

              لیکن حافظ  ابن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) خود کہتے ہیں کہ :

            ’’ ليس الحافظ عندنا إِلا مَن كان في كتابه حَدثنا، فيقول: حَدثنا، فإذا لم يكن في كتابه حَدثنا وقال: حَدثنا، فليس بشيءٍ ‘‘

              ہمارے نزدیک حافظ وہی شخص ہے جس کی کتاب میں ’’حدثنا‘‘ موجود ہے ،پھر وہ خود بھی حدثنا کہتا ہے۔لیکن جب  اس کی کتاب میں ’’حدثنا‘‘ نہیں اور وہ حدثنا کہتا ہے، تو وہ لیس بشئ ہے۔(تاریخ یحیی بن معین   بروایت ابن محرز : ج۲ : ص ۵۳)

              معلوم ہوا کہ امام یحیی بن معینؒ   اپنی اس شرط کی  وجہ سے   راوی کے بارے میں  لیس بشئ کہتے تھے،اور امام محمد ؒ کی جامع الصغیر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کتاب میں حدثنا موجود نہیں ہے۔دیکھئے  (جامع الصغیر : ص ۷۱)،اسی وجہ سے ان ہوں نے امام محمد ؒ کو  لیس بشئ  کہا ۔

مگر امام  محمد ؒ نے صراحت فرمائی کہ ’’ ما سمعت منها الا جامع الصغير ‘‘ میں نےامام   ابو یوسفؒ سے جامع الصغیر سنی ہے۔ ( تاریخ یحیی بن معین   بروایت ابن محرز : ج۲ : ص ۱۵۵)، یہی وجہ ہے کہ امام یحیی بن معین ؒ نے ان سے روایت لی ہے،جیسا کہ اوپر  حوالہ نقل کیا گیا،اور کتاب میں ’’حدثنا‘‘ نہیں ہونے کی وجہ سے ان کو  لیس بشئ بھی کہا ۔

خلاصہ یہ کہ  یہاں  اس صورت میں یہ کوئی کلمہ جرح نہیں ہے،بلکہ ابن معین ؒ کی خاص  اصطلاح،ان کے منہج  کی طرف اشارہ ہے۔

              لہذا زبیر علی زئی صاحب کا  اس جملے کو جرح پر محمول کرنا باطل و مردود ہے۔

              نیز  یہ بات تو مسلم ہے کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے الجامع الصغیر لکھی، اور الجامع الصغیر میں حدیث رسول اللہ ﷺ اور امام ابو حنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کی کئی  مقطوع احادیث موجود ہیں۔دیکھئے   (جامع الصغیر : ص ۱۳۱،۹۹،۷۱)

              لہذا ثابت ہوا کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے احادیث تحریر فرمائیں ،اورروایات لکھی ہیں۔

غالباً یہی وجہ ہے کہ  حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) وغیرہ محدثین نے تصریح کی ہے کہ امام یحیی بن معینؒ نے امام محمدؒ سے روایات لکھی ہیں۔(مناقب ابی حنیفہ وصاحبہ:ص۵۰، تاج التراجم :ص۱۵۹)

[11] یہ قول صحیح سند کے ساتھ ثابت  ہے۔ دیکھئے ص :۱۲۷  ۔

[12] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۶ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

              أَخْبَرَنَا علي بن أبي علي، قَالَ: أخبرنا طلحة بن محمد بن جعفر، قَالَ: حَدَّثَنِي أبو الحسن محمد بن إبراهيم بن حبيش البغوي، قَالَ: حَدَّثَنِي جعفر بن ياسين، قَالَ: سمعت الربيع بن سليمان يقول وقف رجل على الشافعي فسأله عن مسألة فأجابه، فقال له الرجل: يا أبا عبد الله حالفك الفقهاء، فقال له الشافعي: وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن، وَقَالَ ابن حبيش: حَدَّثَنِي جعفر بن ياسين، قَالَ: كنت عند المزني فوقف عليه رجل فسأله عن أهل العراق،

 فقال: له ما تقول في أبي حنيفة؟ قَالَ سيدهم.

قَالَ: فأبو يوسف؟ قَالَ: أتبعهم للحديث.

قَالَ: فمحمد بن الحسن؟ قَالَ أكثرهم: تفريعا.

قَالَ فزفر؟ قَالَ: أحدهم قياسا.

              اس کی سند میں علی بن ابی علی ؒ(م۴۴۷؁ھ) اورطلحہ بن محمد الشاھد (م۳۸۰؁ھ) کی توثیق  کے لئے دیکھئے  (ص:۴۴)

طلحہ بن محمد بن جعفر ؒ (م۳۸۰؁ھ) کے شیخ  ابو الحسن محمد بن ابراھیم بن حبیش البغویؒ (۳۳۸؁ھ) پر کلام  ہے،لیکن  ان کو  حافظ المشرق،امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)،ثقہ راوی عبد اللہ بن علی بن حمویہ ؒ وغیرہ نے معدل قرار دیا ہے۔(تاریخ بغداد : ج۱: ص ۴۲۶ ،۴۲۷)،جو کہ کلمہ توثیق میں سے ہے۔(دیکھئے ص :۴۳) اور حافظ ذہبیؒ نے ان کی اس روایت کو حسن قرار دیا ہے۔(مناقب : ص ۸۱،تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۵)  نیز ان پر جرح  ’’ لم يكن بالقوي ‘‘ صرف ان کے اعلی درجہ کی ثقاہت کی نفی ،اور راوی کے صدوق ہونے  پر دلالت کرتا ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا کہنا ہے۔(توضیح الکلام : ص ۱۶۹،انوار البدر : ص ۷۱)  لہذا  وہ صدوق ہیں۔

اور چونکہ حافظ ذہبیؒ نے اس روایت کو حسن قرار دیا ہے،جیساکہ گزرچکا،   اس وجہ سے، جعفر بن یاسینؒ بھی صدوق ہیں، خلاصہ  یہ کہ یہ روا یت حسن ہے۔واللہ اعلم

نیز اس روایت کے  کئی معنوی متابعات موجود ہیں۔

متابع نمبر ۱:

امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)  فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت…أفقہ… من محمد بن الحسن‘‘

میں نے امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ فقیہ کوئی شخص نہیں دیکھا۔  ( مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)، اس کی سند صحیح ہے۔ تفصیل کے لئے دیکھئے  ص :۱۲۷۔

ظاہرہے  جب کوئی  فقہ میں بے مثال ہوگا،تو اس کو دیکھ کراور اس کا کلام سن کر  آنکھوں کو اطمینان ہوگااور دل کو خوشی ہوگی۔

متابع نمبر ۲ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              حدثني محمد بن عبد الله بن جعفر بالشام, قال: حدثني أحمد بن علي المدائني بمصر, قال: حدثنا الربيع بن سليمان, قال: سمعت الشافعي يقول: ما تكلم أحدٌ في الرأي إلا وهو عيالٌ على أهل العراق, وما رأيت مثل محمد بن الحسن۔

         جو شخص بھی فقہ سے تعلق رکھتا ہے وہ اہل عراق کا محتاج ہے، اور میں نے محمد بن الحسن جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ج۱: ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) مشہور محدث،امام اور  ثبت حافظ الحدیث ہیں۔(سیر : ج۱۶: ص ۲۹۹،تاریخ الاسلام : ج۸: ص ۴۹۶،۲۱۸،شذرات الذہب : ج۴: ص ۳۳۷: ج۲: ص ۹۶)

(۲)         ان کے شیخ  محمد بن عبد اللہ بن جعفر  ابو الحسین  الرازیؒ  (م۳۴۷؁ھ) بھی مشہور ثقہ، حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۸۵۷)

(۳)        احمد بن علی  ،ابو علی  المدائنیؒ(م۳۲۷؁ھ) بھی صدوق ہیں۔(ارشاد القاصی والدانی : ص ۱۳۸)

(۴)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)

معلوم ہوا کہ یہ سند حسن ہے۔واللہ اعلم

متابع نمبر ۳ :

              امام ابوبکرالبیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا أبو جعفر: محمد بن أحمد بن جعفر الخطيب القِرْمِيسيني، قال: حدثنا أبو القاسم: علي بن أحمد بن راشد الدّینَوَرَى، حدثنا عبد الله بن حَمْدَان الحافظ، قال: سمعت الربيع، يقول: سمعت الشافعي، يقول: ما رأت عيناي  مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء في زمانه مثله

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا :  میری دونوں انکھوں نے محمد بن الحسن ؒ جیسا نہیں دیکھا، اورنہ   عورتوں نے ان جیسا ان کے زمانے میں  پیدا کیا۔ (مناقب الشافعی  : ج۱ : ص ۱۶۱)،

سند کی تحقیق :

(۱)         ابو بکر البیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۱۰ : ص ۹۵)

(۲)         محمد بن احمد بن جعفر ،ابو جعفر القرمیسینی ؒ صدوق اور شافعی  فقیہ ہیں۔(السلسبیل النقی : ص۵۳۵،المتفق و المفترق    : ج۲: ص ۹۲۲)

(۳)        علی بن احمد بن علی بن راشد العجلی الدینوری ؒ کی روایت  کو امام ابو بکر البیہقیؒ  (م۴۵۸؁ھ) نے بوجہ احتجاج  (استدلال)صحیح قرار دیا ہے۔(المتفق و المفترق  للخطیب  : ج۲: ص ۹۲۲،تاریخ دمشق : ج۶: ص ۵۵،مناقب الشافعی للبیہقی  : ج۱ : ص ۱۶۱،فتاوی نذیریہ   : ج۳ : ص ۳۱۶) اور کسی روایت کی تحسین و تصحیح اس  روایت کے ہر ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے،جیسا کہ غیر مقلدین کا اصول ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص۲)

لہذا علی بن احمد بن علی بن راشد الدینوریؒ صدوق ہیں۔

(۴)        ابو محمد عبد اللہ بن محمد بن وھب بن حمدان  ؒ(م۳۰۸؁ھ) مشہور حافظ حدیث ہیں، انکے بارے میں ائمہ کا اختلاف ہےبعض نے جرح کی ہے،

امام ابن عدیؒ (م۳۶۵؁؁ھ) کہتے ہیں کہ  ایک قوم نے ان کو قبول کیا اور ان کو صدوق قرار دیا ہے۔امام ابو زرعہ الرازیؒ(م۲۶۴؁ھ)  ان سے   مذاکرہ  کرتے کرتے  عاجز آجاتےتھے۔امام ابو علی  النیساپوریؒ (م۳۴۹؁ھ) کہتے ہیں کہ وہ صاحب حدیث اور حافظ تھے،امام حاکمؒ (م۴۰۵؁ھ)، امام خطیب بغدادیؒ(م۴۶۳؁ھ)، حافظ ضیاء الدین مقدسیؒ(م۶۴۳؁ھ) وغیرہ نے ان کی حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ (المستدرک للحاکم : ج۲ : ص ۵۷۱،حدیث نمبر ۳۹۴۰،الفقيه و المتفقه للخطیب : ج۱: ص ۴۴۵،الاحادیث الامختارۃ : ج۵: ص ۲۰۷) ، امام ابو بکر الاسماعیلیؒ (م۳۷۱؁ھ) نے بھی ان کو صدوق قرار دیا ہے۔(لسان المیزان : ج۴: ص ۵۷۳،تاریخ دمشق : ج۳۲: ص ۳۷۴)،اور حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ:

 ’’ وَمَا عَرَفتُ لَهُ مَتْناً يُتَّهَمُ بِهِ فَأَذْكُرَهُ، أَمَّا فِي تَرْكِيْبِ الإِسْنَادِ، فَلَعَلَّهُ ‘‘

ان سے مروی کوئی بھی ایسا متن تو مجھے نہیں ملا جس کی وجہ سے ان پر تہمت لگائی جائے ،تاکہ میں  اسے ذکر کروں ،  لیکن جہاں تک  سند کو بدلنے کی  بات تو شاہد ان ہونے کیا ہوں، [واللہ اعلم] ۔ (سیر :ج۱۴: ص ۴۰۱)

معلوم ہوا کہ ائمہ کی ایک جماعت کے نزدیک ابن وہب الحافظ صدوق ہیں اور ان پر  صرف سند کی ترکیب کا الزام ہے، لیکن چونکہ اس روایت کو انکے علاوہ الربیع بن سلیمان ؒ (م۲۷۴؁ھ) سےثقہ راوی  احمد بن علی  ،ابو علی  المدائنیؒ(م۳۲۷؁ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔(دیکھئے متابع نمبر ۲)  لہذا اس روایت میں وہ صدوق اور مقبول ہیں۔

(۵)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)

معلوم ہوا کہ اس کی سند بھی حسن ہے۔

متابع نمبر ۴ :

              امام  ابو الحسن الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

            أخبرني أبو نعيم عبد الملك بن محمد بن عدي بجرجان, ومحمد بن يحيى بن آدم خادم المزني بمصر, عن الربيع بن سليمان, قال: سمعت الشافعي يقول: ما رأيت أحداً يسئل مسألةً فيها نظر إلا رأيت الكراهة في وجهه إلا محمد بن الحسن۔

              امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن الحسن  ؒ کے علاوہ  کوئی ایسا فقیہ نہیں دیکھا کہ جس سے کوئی  قابل غور (یا)  مشکل  مسئلہ  پوچھا گیا اور  اس کا چہرہ متغیر نہ ہوا  ہو۔(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         امام ابو نعیم  عبد الملک  بن محمد بن عدیؒ (م۳۲۳؁ھ) ثقہ،حافظ اور فقیہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۶: ص ۴۶۶،ارشاد القاصی والدانی : ص ۴۰۱) ان کے متابع میں محمد بن یحیی بن آدم المصری بھی  صدوق ہیں۔(الکامل لابن عدی : ج۱: ص۱۰۰،ج۱: ص۷۹،نیز دیکھئے  انوار البدر : ص۲۲۵)

(۳)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

              معلوم ہوا کہ اس کی سند صحیح ہے۔ واللہ اعلم

متابع نمبر ۵ :

              امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے کہا  :

            حدثنا أبو إسحاق النيسابوري المعروف بالبيع قال ثنا محمد بن يعقوب الأصم قال ثنا الربيع بن سليمان قال كتب الشافعي إلى محمد بن الحسن وقد طلب منه كتبه لينسخها فأخرها عنه فكتب إليه قل لمن لم تر عين من رآه مثله۔۔۔۔۔۔

امام  شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں : کہدو ان سے جن کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے ان  جیسا  نہیں دیکھا۔ (اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ : ۱۲۷)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔(دیکھئے ص :۳۷ )

(۲)         ابراھیم بن محمد بن علی  ،ابو اسحاق النیساپوریؒ  بھی صدوق   ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۹: ص ۱۶۳،السلسبیل النقی : ص۱۸۳)

(۳)        محمد بن یعقوب  النیساپوری الاصمؒ (م۳۴۶؁ھ) ثقہ،حافظ اور اہل مشرق کے امام ہیں۔(الروض الباسم : ج۲ : ص ۱۲۸۱)

(۴)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

الغرض اس کی سند   بھی حسن ہے۔

خلاصہ یہ کہ دوسری روایات سے ثابت ہے کہ امام محمد ؒ اپنے آپ میں بے مثل اور لاجواب  امام اور فقیہ تھے،جس کی وجہ سے یہ  ’’فانہ کان یملأ العین والقلب ‘‘ والی روایت  متن  کے لحاظ سے بھی  صحیح ہے۔

[13] اس کی تحقیق گزرچکی،دیکھئے ص :۹۰۔

[14] امام یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ (م۲۲۲؁ھ) کا قول  تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے،اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

كتب إلي أبو محمد عبد الرحمن بن عثمان الدمشقي يذكر: أن خيثمة بن سليمان القرشي أخبرهم، قَالَ: أخبرنا سليمان بن عبد الحميد البهراني، قَالَ: سمعت يحيى بن صالح، يقول: قَالَ لي ابن أكثم: قد رأيت مالكا وسمعت منه ورافقت محمد بن الحسن فأيهما كان أفقة؟ فقلت: محمد بن الحسن فيما يأخذه لنفسه أفقه من مالك۔

سند کی تحقیق :

(۱)         حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         ابو محمد  عبد الرحمٰن بن عثمان الدمشقیؒ (م۴۲۰؁ھ) ثقہ،امام ہیں۔(الدلیل المغنی  : ص۲۲۳)

(۳)        خیثمہ بن سلیمان القرشیؒ (م۳۴۳؁ھ) مشہور ثقہ راوی ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۷۷۸)

(۴)        سلیمان بن عبد الحمید البھرانی ؒ (م۲۷۴؁ھ)   سنن ابو داود کے راوی اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۲۵۸۴)

(۵)        امام یحییٰ بن صالح الوحاظیؒ (م۲۲۲؁ھ) ،ثقہ ،کبار ائمہ فقہاء اور محدثین میں سے ہے۔امام بخاریؒ (م۲۵۶؁ھ)،امام مسلمؒ (م۲۶۱؁ھ)  کے استاذ ہیں  ، حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)  ان کو  امام،حافظ،فقیہ،عالم، حمص کے محدث اور فقیہ  ،ثقہ اور حجت قرار دیا  ہے۔(تذکرۃ الحفاظ : ج۱: ص ۲۹۹،الرواۃ الثقات  للذہبی : ص ۱۹۴،العبر :ج۱: ص ۳۰۳،المغنی : ج۲: ص ۷۳۷،سیر : ج۱۰: ص ۴۵۳)نیز حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)نے ان ائمہ جرح و تعدیل  میں شمار کیا ہے۔(ذكر من يعتمد قوله في الجرح والتعديل: ص ۱۸۳)

لہذا یہ سند حسن ہے۔ واللہ اعلم

نوٹ :      امام شافعی ؒ کے اس  قول کی سند نہیں ملی۔


ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...