مسئلہ تین طلاق پر مدلل و مفصل بحث
( 25 ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت)
مفتی رب نواز حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ (قسط:۵)
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اثر
رَوَی الْاِمَامُ الْمُحَدِّثُ الْفَقِیْہُ
مُحَمَّدٌ ابْنُ الْحَسَنِ الشَّیْبَانِیُّ بَابُ الرَّجُلِ یُطَلِّقُ امْرَاَتَہٗ
قَبْلَ اَنْ یَّدْخُلَ بِھَا ...طَلَّقَ الرَّجُلُ امْرَاَتَہٗ ثَلَاثًا قَبْلَ
اَن یُّدْخِلَ بِھَا ...۔لَا یَنْکِحُھَا حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہٗ قَالَ
مُحَمَّدٌ وَبِھٰذَا نَاخُذُ وَھُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ وَالْعَامَّۃِ مِنْ
فُقَھَائِنَا اَنَّہٗ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا جَمِیْعًا فَوَقَعْنَ عَلَیْھَا
جَمِیْعًا مَعًا۔
(مؤطااما م محمد :۱؍۱۹۶)
ترجمہ: جب آدمی اپنی بیوی کو دخول سے پہلے تین طلاقیں دے
چھوڑے تو وہ اس سے نکاح نہیں کر سکتا یہاں تک وہ عورت دوسرے خاوند سے شادی کرلے۔
محمد نے کہا اسی بات کو ہم لیتے ہیں اور یہی ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا قول
ہے کہ اس نے تین طلاقیں اکھٹی دیں تو وہ سب ایک ساتھ میں واقع ہو جائیں گی۔
تحقیق السند
(۱)امام محمد
بن حسن شیبانی ، یہ مشہور جلیل القدر فقیہ ، امام ثقہ و صدوق ، شیخ الاسلام ہیں ۔
( تاریخ الاسلام : ۲؍۳۵۸، النجوم الزاہرۃ :
۲؍۱۳۰، تاریخ بغداد : ۲؍۵۶۱)
(۲)امام
ابوحنیفہ رحمہ اللہ تابعی مشہور امام ہیں ترمذی اور نسائی کے راوی ہیں اور ثقہ
ہیں۔
( تذکرۃ الحفاظ :۱؍۱۷۶، سیر اعلام النبلاء:
۶؍۳۹۰، تہذیب الکمال للمزی: ۹؍۴۱۷،تہذیب لابن حجر
:۱۰؍۴۴۹، تقریب التہذیب لابن حجر : ۱؍۵۶۳)
فائدہ ـ:۱
امام محمد رحمہ اللہ کی ثقاہت اور ان کامقام
غیرمقلدین کی زبانی ملاحظہ فرمائیں۔
شیخ عبد الرحمن معلمی (م:
۱۳۸۶ھ) لکھتے ہیں:
’’ وَاَنَّ
مُحَمَّدًا کَانَ مَع مَکَانَتِہٖ مِنَ الْفِقْہِ وَالسُّنَنِ وَالْمَنْزَلَۃِ
مَنَ الدَّوْلَۃِ وَکَثْترَۃِ الْاِتِّبَاعِ عَلٰی غَایَۃٍ مِّنَ الْاِنْصَافِ فِی
الْبَحْثِ وَالنَّظْرِ۔ ‘‘
( التنکیل :۱؍۴۲۳)
ترجمہ: امام محمدکو
فقہ اور سنت میں ایک مقام حاصل تھا ، نیز آپ حکومت کے ہاں قدرو منزلت اور بکثرت
اپنے پیرو کار بھی رکھتے تھے ۔ لیکن اس سب کے باوجود بحث و نظر میں آپ انتہائی
درجہ کے انصاف پسند تھے ۔
معلمی صاحب مزید لکھتے ہیں:
’’ فَاَمَّا
مُحَمَّدُبْنُ الْحَسَنُ فَھُوَ اَجَلُّ وَاَفْضَلُ مِمَّا یَتَرَءَ یُ ۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ :
۱؍۴۹۲)
ترجمہ: امام محمد بن حسن کا
انتہاء جلیل القدر اور افضل ہونا شک و شبہ سے بالا ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی غیرمقلد نے
شیخ معلمی کو ’’ ذہبی عصر حقا ‘‘ کا لقب درجہ دیا ہے ۔
علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقی (م
: ۱۳۳۲ھ) امام ابو یوسف رحمہ اللہ اور امام محمد رحمہ اللہ کی بابت لکھتے ہیں:
’’ فَقَدْ
لَیَّنَھُمَا اَھْلُ الْحَدِیْثِ کَمَا تَرٰی فِیْ ’’ مِیْزَانِ الْاِعْتِدَالِِ‘‘
وَلَعُمْرِیْ لَمْ یُنْصِفُوْھُمَا، وَھُمَا الْبَحْرَانِ الزَّاخِرَانِ
،وَآثَارُھُمَا تَشْھَدُ بِسِعَۃِ عِلْمِھِمَا وَتَبَحُّرِھِمَا بَلْ
بِتَقَدُّمِھِمَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنَ الْحُفَّاظِ ،وَنَاھِیْکَ ’’کِتَابُ
الْخِرَاجِ ‘‘ لِاَبِیْ یُوْسُفَ وَمُؤَطَّا لِلْاِمَامِ مُحَِمَّدٍ۔‘‘
( الجرح و التعدیل صفحہ ۳۱ ،طبع مؤسسۃ الرسالۃ بیروت)
ترجمہ: اما م ابو یوسف اور امام محمد کو (بعض )محدثین نے
کمزور قرار دیا ہے جیسا کہ آپ نے ’’میزان الاعتدال ‘‘ میں دیکھا ہے ،میری عمر
(عطاء کرنے والے )کی قسم ! ان محدثین نے ان دونوں اماموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا
حالاں کہ یہ دونوں علم کے موجزن سمندر ہیں، اور ان کے آثار (روایات ) ان کی وسعت
علم اور ان کے تبحر علمی پر گواہ ہیں ۔ ، بلکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ دونوں
حضرات اکثر حفاظ ِ حدیث پہ فوقیت رکھتے ہیں، آپ کو ( ان دونوں کے علمی مرتبے کو
پہنچاننے کے لیے ) امام ابویوسف کی ’’ کتاب الخراج ‘‘اور امام محمد کی ’’مؤطا ‘‘
ہی کافی ہیں۔
شیخ ناصرالدین البانی نے امام
محمد کی روایت کردہ حدیث کی سند کے متعلق لکھا:
’’ فَھَذَا سَنَدٌحَسَنٌ اِنْ شَاءَ اللّٰہُ ۔‘‘
( ارواء الغلیل
:ٔ۳۳۶۳)
ترجمہ: اس حدیث کی سند ان شاء
اللہ حسن ہے ۔
شیخ زبیر علی زئی نے شیخ البانی کو
’’امام المحدثین ‘‘ کہا ہے ۔
( حاشیہ :عبادات میں بدعات صفحہ
۱۲۸)
نامور غیرمقلد نواب صدیق حسن خان نے
بھی اپنی کتاب ’’ التاج المکلل ‘‘ میں امام محمد کے علمی مقام اور آپ کی تصانیف کی بڑی
تعریف کی ہے ۔دیکھئے التاج المکلل من جواھر مآثر
الطراز الآخر والاول ۔ (صفحہ۸۰)
واضح رہے کہ نواب صاحب کی یہ کتاب علم ِ حدیث
میں مہارت رکھنے والے اہل علم کے تذکرے پر مشتمل ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس کتاب
کے مقدمہ میں تصریح کی ہے ۔
مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی (م:
۱۳۷۵ھ ) اپنی کتاب ’’ علمائے اسلام ‘‘ میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تذکرے میں
لکھتے ہیں:
’’ آپ سے بہت لوگوں نے فیض حاصل کیا اور آپ کے شاگرد امامت
کے بلند رتبوں تک پہنچے۔ چنانچہ ان میں سے امام ابویوسف قاضی القضاۃ ، اور امام
محمد، امام عبد اللہ بن مبارک اور زفر وغیرہم جلیل الشان امام آپ کے علمی کمالات
کے نمونے تھے ۔‘‘
(دو ماہی مجلہ
’’ ’ زمزم ‘‘ غازی پوری ج: ۸ ، ش ۳، ص ۱۵)
مولانا محمد اسماعیل سلفی (م: ۱۳۸۷ھ)
سابق امیر جمعیت اہلِ حدیث پاکستان نے امام ابو یوسف اور امام محمد کو امام بخاری
وغیرہ کبار ائمہ حدیث کے ساتھ شمار کرتے ہوئے لکھا:
’’ ائمہ حدیث بخاری، مسلم ، ابو داود ، ترمذی، ابن خزیمہ،
ابن جریر طبری ، ابو عبد الرحمن اوزاعی ، ابو یوسف ، محمد یہ سب اہلِ حدیث کے
مجتہد ہیں۔ ‘‘
(تحریک آزادی فکر صفحہ ۴۹۰)
نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں:
’’ امام محمد تو اکابر ائمہ سنت
(میں سے ) ہیں۔ ‘‘
(حوالہ مذکورہ صفحہ ۸۰)
مولانا عطاء اللہ حنیف نے امام ابو یوسف اور آپ
کو ائمہ سلف میں شمار کرتے ہیں ، اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ:
’’ یہ دونوں امام ابوحنیفہ ؒ کے
قابل شاگرد تھے ۔‘‘
( حاشیہ حیات حضرت امام ابوحنیفہ صفحہ ۳۲۸)
امام محمد رحمہ اللہ کی توثیق کے
مذکورہ بالاحوالے بندہ نے حافظ ظہور احمد الحسینی دام ظلہ کی کتاب ’’ تلامذہ امام
اعظم ابوحنیفہ ‘‘سے نقل کئے ہیں۔
فائدہ:۲
یہاں سیدنا امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ
کا تذکرہ تابعی ہونے کی حیثیت سے آیا ہے۔ ان کی تابعیت پر حافظ ظہور احمد الحسینی
دام ظلہ کی کتاب ’’ امام ابوحنیفہ ؒ کی تابعیت ‘‘ کا مطالعہ کریں۔
متعدد
غیرمقلدین نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے تابعی ہونے کا اعتراف کیا ہے مثلاً:
مولانا بد یع الدین راشدی ۔ (تنقیدِ سدیدصفحہ ۲۷۸،۳۵۴)
مولانا امین اللہ پشاوری ۔ (حقیقۃ
التقلید صفحہ ۴۲،۶۷،
۱۶۳)
مولانا عبد الغفار محمدی ۔ (۳۵۰ سوالات صفحہ۲۹۳، ۳۱۲، ۴۰۷)
مولانا عبد المنان نورپوری ۔ (مکالمات ِ نور پوری صفحہ ۵۳۴)
مولانا عبد المجید سوہدری ۔ (سیرۃ ِ ثنائی صفحہ ۵۶)
مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی۔ (حاشیہ حیات امام ابوحنیفہ صفحہ۱۲۱)
مزید حوالہ جات بندہ کی زیر ترتیب
کتاب ’’ غیرمقلدین کا امام ابوحنیفہ ؒ کو خراجِ تحسین ‘‘ میں درج ہیں ۔یہ کتاب
مجلہ الفتحیہ احمد پور شرقیہ میں قسط وار شائع ہو رہی ہے والحمد للہ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں