نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

الفضل الربانی فی حیاۃ الامام محمد بن الحسن الشیبانی امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں

 


الفضل الربانی فی حیاۃ  الامام محمد بن الحسن الشیبانی

امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا مقام و مرتبہ ائمہ و علماء کی نظر میں

                  -حافظ ظہور احمد الحسینی  حفظہ اللہ

ترتیب و حاشیہ:  مولانا نذیر الدین قاسمی



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

آپؒ کا محدثانہ مقام :

آپ کی زیادہ شہرت اگر چہ فقیہ اور مجتہد کی حیثیت سے ہوئی، لیکن اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں کہ آپ فقہ کی طرح حدیث میں بھی بلند مرتبت تھے، اور آپ نے دیگر علوم کی طرح علمِ حدیث حاصل کرنے میں بھی خاص توجہ دی تھی اور اس میں مکمل عبور حاصل کیا تھا، چنانچہ ماقبل میں آپ کا اپنا یہ بیان گزر چکا ہے کہ:

میرے والد نے ترکہ میں میرے لئے جو تیس ہزار درہم چھوڑے تھے ان میں  سے میں نے پندرہ ہزار درہم فقہ اور حدیث کی تحصیل میں صَرف کئے ، اور باقی پندرہ ہزار درہم نحو اور شعر وشاعری سیکھنے میں لگادئیے۔

امام محمد بن سعدؒ ۲۳۰؁ھ) او ر محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) نے آپکے بارے میں تصریح کی ہے کہ

’’وطلب الحدیث وسمع سماعاً کثیراً‘‘

امام محمدؒ نے حدیث حاصل کی، اور کثرت سے احادیث کا سماع کیا۔

(الطبقات الکبریٰ:۷؍۲۴۸، شذرات الذھب:۱؍۳۲۲)

حافظ ابن عبدالبر مالکیؒ ۴۶۳؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’کتب عن مالک کثیراً من حدیثہ وعن الثوری وغیرھما‘‘

امام محمدؒ نے امام مالکؒ ، امام سفیان ثوریؒ اوردیگر محدثین سے بکثرت احادیث لکھی تھیں۔ (الانتفاء:ص۱۷۴)

آپ کے ’’عہد طلب علمی‘‘ کے تذکرے میں علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور علامہ صلاح الدین صفدیؒ ۷۶۴؁ھ) کے حوالے سے گذر چکا ہے کہ آپ نے باقاعدہ علمِ حدیث حاصل کیا تھا، اور طلب حدیث میں کئی ائمہ اعلام سے ملاقاتیں کی تھیں۔[1]

آپ کے محدث ہونے کی اس سے بڑھ کر اور دلیل کیا ہوگی کہ مؤرخِ اسلام، اور محدث ناقد حافظ شمس الدین ذہبیؒ نے آپ کو محدثین کے طبقے میں شمار کیا ہے۔  (المعین فی طبقات المحدثین:ص۶۱)

اورآپ کے بارے میں یہ تصریح بھی کی ہے کہ:

’’وسمع کثیراً‘‘

کہ آپ کثیر السماع محدث تھے۔ (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ: ص۵۰)

امام ابن تغری بردیؒ (۸۷۴؁ھ) بھی آپ کے محدث ہونے کی تصریح کرتے ہیں۔  (النجوم الزاھرۃ:۲؍۱۶۴)

اور پھر آپ نے جیسے خود اپنے مشائخ حدیث سے بکثرت احادیث کا سماع کیا تھا، اسی طرح آپ نے اپنے تلامذہ کو بھی بہت زیادہ احادیث کا سماع کرایا، اور آپ کے تلامذہ نے آپ سے بڑی کثرت سے احادیث سنی ہیں۔ مثلاً آپ کے ایک شاگرد اسمٰعیل بن توبہ ثقفیؒ ۲۴۷؁ھ) جو امام ابو حاتم رازیؒ وغیرہ نامور حفاظِ حدیث کے استاذ ہیںِ ان کے بارے میں امام ابویعلیٰ خلیلیؒ ۴۴۶؁ھ) نے تصریح کی ہے کہ:

’’وسمع الکثیر من محمد بن الحسن الشیبانی صاحب ابی حنیفۃ‘‘

            انہوں نے امام محمد بن حسنؒ صاحب ابی حنیفہؒ سے بکثرت احادیث کا سماع کیا تھا۔ (الارشاد فی معرفۃ علماء الحدیث۲۹۵)

امام دارِ قطنیؒ ۳۸۵؁ھ) اور امام ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ) جیسے نامور محدثین آپ کو حافظ الحدیث قرار دیتے ہیں، اور امام عبدالکریم شہرستانیؒ ۵۴۸؁ھ) آپ کو ائمہ حدیث میں شمار کرتے ہیں، ان تینوں حضرات کے حوالے ان شاء اللہ تعالیٰ آگے کتاب میں آرہے ہیں۔[2]

مولانا محمد اسماعیل سلفیؒ غیرمقلد ۱۳۸۷؁ھ) آپ کو امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ کے ساتھ ذکر کرکے ان سب کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

یہ ائمہ بھی اہل حدیث تھے، ان کے علوم سے اہلِ حدیث کو فائدہ پہنچا۔  (تحریکِ آزدی فکر:ص ۳۳۴)

نیز مولانا سلفیؒ آپ کو امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ وغیرہ جیسے کبارِ محدثین کے زمرہ میں شمار کرتے ہوئے آپ کے ائمہ حدیث میں سے ہونے کی صاف تصریح کرتے ہیں۔ (ایضا:ص۴۹۰)

اسی طرح مولانا عبدالسلام مبارکپوریؒ غیر مقلد ۱۳۴۳؁) نے بھی آپ کو ، اور امام اعظم ابوحنیفہؒ ، وامام ابویوسفؒ کو فقہائے حدیث میں شمار کیا ہے، اور ان لوگوں کی تردید کی ہے، جو ان تینوں حضرات کو فقہائے اہلِ رائے میں ذکر کرتے ہیں۔ (سیرۃ البخاری:ص:۳۴۲)

احناف کے خلاف تعصب و عناد میں سر تا پا غرق غیر مقلد حافظ زبیر علی زئی نے بھی اس سب تعصب وعناد کے باوجود امام محمدؒ کا محدثین اور ائمہ حدیث میں سے ہونا تسلیم کیا ہے۔   (نورالعینین:ص۶۳، تعدادِ رکعات قیام رمضان:ص۱۳، وغیرہ)

والفضل ما شھدت بہ الاعداء

 

دیگر علوم وفنون میں آپ کا مقام:

فقہ وحدیث کے علاوہ دیگر علوم وفنون مثلاً لغت عربیہ، نحو، حساب، اور شعر وشاعری وغیرہ میں بھی آپ کو مکمل دسترس حاصل تھی۔

علامہ سِبط ابن الجوزیؒ ۶۵۴؁ھ) نے اپنی تاریخ ’’مرآۃ الزمان‘‘ میں لکھا ہے کہ:

’’قال علماء السیر: کان محمد بن الحسن اماماً ، حجۃ فی جمیع العلوم‘‘۔

علمائے سیر (مؤرخین) فرماتے ہیں کہ امام محمد بن حسنؒ تمام علوم میں امام اور حجت کا درجہ رکھتے تھے۔(بلوغ الامانی:۵۹)

حافظ عبدالقادر قرشیؒ ۷۷۵؁ھ) آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’وکان ایضا مقدما فی علم العربیۃ، والنحو، والحساب والفطنۃ‘‘

            امام محمدؒ (حدیث وفقہ کی طرح) علوم عربیہ، نحو، حساب اور فطانت میں بھی فوقیت رکھتے تھے۔ (الجواھر المضیہ:۲؍۴۴)

حافظ ابوسعد سمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) نے امام احمد بن حنبلؒ (م۲۴۱؁ھ) سے نقل کیا ہے کہ :

’’ومحمد ابصر الناس بالعربیۃ‘‘ 

امام محمدؒ لغتِ عربیہ میں سب لوگوں سے زیادہ بصیرت رکھتے تھے۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)

نیز امام سمعانیؒ نے آپ کے شاگرد امام ہشام بن عبداللہ رازیؒ کے ترجمہ میں آپ کو ’’صاحب فقہ وادب‘‘ سے ملقب کیا ہے۔  (ایضا:۳؍۷۰)

حافظ ابن تیمیہؒ (م۷۲۸؁ھ) ارقام فرماتے ہیں:

’’ومحمد اعلمھم بالعربیۃ والحساب‘‘

امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں امام محمدؒ لغت عربیہ اور فنِ حساب کے سب سے بڑے عالم تھے۔(مجموع الفتاوی:۲۰؍۱۴۹)

علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) آپ کے ترجمہ میں تصریح کرتے ہیں کہ:

’’ولہٗ فی مصنفاتہ المسائل المشکلۃ خصوصاً المتعلقۃ بالعربیۃ‘‘

امام محمدؒ کی کتابوں میں مشکل مسائل ہیں، خصوصاً جو مسائل عربی زبان کے متعلق ہیں۔(وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱)

امام ابوبکر الجصاص رازیؒ ۳۷۰؁ھ) ’’الجامع الکبیر‘‘ کی شرح میں ارقام فرماتے ہیں:

’’کنت اقرأ بعض مسائل من الجامع الکبیر علی بعض المبرزین فی النحو (یعنی اباعلی الفارسی) فکان یتعجب من تغلغل واضع ھذا الکتب فی النحو‘‘

            میں ’’الجامع الکبیر‘‘ (تصنیف امام محمد بن حسنؒ) کے بعض مسائل کو علمِ نحو کے ایک بہت بڑے ماہر یعنی ابوعلی الفارسی (جو مشہور امام النحور گزرے ہیں، ناقل)کے پاس پڑھ رہا تھا تو وہ بھی اس کتاب کے مصنف (امام محمدؒ) کی علمِ نحو میں مہارت پر حیران ہوگئے۔(بلوغ الامانی۶۳)

اسی طرح امام اخفش نحویؒ(م۲۱۵؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’وما وضع شئی لشئی قط یوافق ذلک الا کتاب محمد بن الحسن فی الایمان فانہ وافق کلام الناس‘‘   

کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو کسی دوسری چیز کے لئے وضع کی گئی ہو، اور وہ اس کے موافق بھی ہو، سوائے امام محمد بن حسنؒ کی تصنیف ’’کتاب الایمان‘‘ کے کہ وہ لوگوں کی کلام کے موافق ہے۔ (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ للذھبیؒ۵۱)[3]

شیخ عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد۱۳۸۶؁ھ) نے بھی امام محمدؒ کو فن حساب اور دقیق مسائل بیان کرنے میں ماہر تسلیم کیاہے۔  (التنکیل:۱؍۱۶۶)

اور آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’المسائل الحسابیۃ الدقیقۃ التی ضخم بھا محمد کتبہ‘‘ 

امام محمدؒ نے اپنی کتابوں کو حساب کے دقیق مسائل سے بھر دیا ہے۔(ایضا:۱؍۱۶۷)

علاوہ ازیں آپ قرآن کریم کے بھی بہت بڑے عالم تھے، چنانچہ امام ابو عبیدؒ ۲۲۴؁ھ) جو ایک جلیل القدر امام ہیں، فرماتے تھے:

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ کر کتاب اللہ (قرآن کریم) کا عالم ہو۔ (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲)[4]

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) فرمایا کرتے تھے:

’’مارأیت اعلم بکتاب اللہ من محمد کأنہ علیہ نُزل ‘‘

میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا جو امام محمدؒ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہو، (امام محمدؒ قرآن کا علم اتنا زیادہ رکھتے تھے کہ) گویا قرآن اترا ہی آپ پر ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذھبی۵۱)[5]

الغرض: امام عالی شان تمام علوم میں ماہر اور باکمال تھے۔

امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) کی ذہانت اور فصاحت وبلاغت:

امام موصوف تمام علوم میں یکتائے روزگار تھے، اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے کم عمری میں ہی یہ تمام علمی کمالات حاصل کر لئے تھے، اس لئے آپ کا شمار ذہین ترین لوگوں میں ہوتا ہے، آپ کے شاگرد رشید امام شافعیؒ فرمایا کرتے تھے:

’’وما رأیت مبدنا قط اذکیٰ من محمد بن الحسن‘‘

میں نے کوئی بھی جسیم شخص امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ ذہین نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[6]

حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ ابن ناصرالدینؒ ۸۴۲؁ھ) دونوں اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ:

’’وکان من اذکیاء العالم‘‘

امام محمدؒ دنیا کے ذکی ترین لوگوں میں سے تھے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ۵۰، اتحاف السالک : ص۱۷۸)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) لکھتے ہیں:

’’وکان من افراد الدھر فی الذکاء‘‘

امام محمدؒ اپنے زمانے کے چندذہین ترین لوگوں میں سے ایک تھے۔  (الایثار مع کتاب الآثار۲۳۳)

علاوہ ازیں اللہ نے آپ کو علم اور ذہانت کے ساتھ ساتھ فصاحت وبلاغت سے بھی خوب نوازا تھا، اور آپ انتہائی فصیح وبلیغ شخص تھے۔

حضرت امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کا قول ہے کہ:

’’لو اشاء ان اقول ان القرآن نزل بلغۃ محمد بن الحسن لقلتہٗ لفصاحتہٖ‘‘

اگر میں یہ کہنا چاہوں کہ قرآن امام محمد بن حسنؒ کی لغت (زبان) میں اُترا ہے تو آپ کی فصاحت کی وجہ سے میں یہ کہہ سکتا ہوں۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲،۱۷۳، نیز دیکھئے اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ للصمیریؒ : ص۱۲۸،۱۲۹)[7]

نیز فرماتے ہیں:

’’کان محمد بن الحسن الشیبانی اذا اخذ فی المسألۃ کأنہ قرآن ینزل علیہ لا یقدم حرفا ولایؤخر‘‘

امام محمد بن حسن شیبانیؒ جب کوئی مسئلہ بیان کرتے (تو اس کو اس خوبصورتی سے پیش کرتے کہ) گویا قرآن اُن پراُتررہا ہے، آپ نہ کوئی حرف آگے کرتے اور نہ کسی حرف کو پیچھے کرتے۔(ایضاً)

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) یہ بھی فرماتے تھے:

’’ما رأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، کنت اذا رأیتہٗ یقرأ کأن القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ نرم مزاج نہیں دیکھا، اور نہ ہی آپ سے زیادہ فصیح کوئی شخص دیکھا ہے، میں جب آپ کو قرآن پڑھتے ہوئے دیکھتا تو مجھے یوں محسوس ہوتا کہ گویا قرآن آپ کی لغت میں اُترا ہے۔(ایضاً) [8]

مؤرخ اسلام علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ) اور نامور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان ۱۳۰۷؁ھ) آپ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

’’وکان افصح الناس، وکان اذا تکلم خیل لسامعہٖ ان القرآن نزل بلغتہٖ‘‘

            آپ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، آپ جب بات کرتے تو سامع (سننے والے) کو یوں محسوس ہوتا تھا کہ قرآن کریم آپ کی لغت میں اُتراہے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۲۱، التاج المکلل:ص۸۰)

علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) آپ کے متعلق ارقام فرماتے ہیں:

’’فکان فصیحا بلیغا‘‘ 

امام محمدؒ فصیح اور بلیغ شخص تھے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۱)

آپ ؒ   کی عبادت اور کثرت تلاوت:

آدمی کے لئے علم اسی وقت نفع مند ہے، جب آدمی عملی کی زندگی اس کے علم کے مطابق ہو، امام محمد بن حسنؒ کا شمار بھی ان ہی اہلِ علم میں ہوتا ہے، جو اپنے علم پر پوری طرح عمل پیرا تھے، چنانچہ آپ اعلیٰ درجہ کے عبادت گزار تھے، اور آپ کی عبادت کا حسن ہر طرف مشہور تھا، اور پھرآپ کا یہ حسن عبادت آپ کے تلامذہ میں بھی منتقل ہوا، مثلاً آپ کے تلامذہ امام محمد بن سماعہؒ ۲۳۳؁ھ) اور امام عیسیٰ بن ابانؒ ۳۲۱) وغیرہ کی نماز کا حسن بہت مشہور ہے، انہوں نے اپنی نماز میں یہ حسن اپنے استاذ مکرم امام محمدؒ سے ہی اخذ کیا ہے۔

چنانچہ امام ابو عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے بہ سند متصل امام بکر العمیؒ سے نقل کیا ہے کہ:

’’انما اخذ محمدبن سماعۃ وعیسیٰ بن ابان حسن الصلاۃ من محمد بن الحسن رضی اللہ عنہ‘‘

امام محمد بن سماعہؒ اور امام عیسیٰ بن ابانؒ نے اپنی نماز کا حسن امام محمد بن حسنؒ سے سیکھا تھا۔ (اخبار ابی حنیفۃواصحابہ:ص۱۳۳)[9]

نیز آپ اپنی بے پناہ مصروفیات کے باوجود تلاوتِ قرآن کے ساتھ بھی انتہائی شغف رکھتے تھے، امام طحاویؒ ۳۲۱؁ھ) نے آپ کے بعض تلامذہ سے روایت کیا ہے کہ:

’’ان محمدا کان حزبہٗ فی کل یوم ولیلۃ ثلث القرآن‘‘

            امام محمد ؒ  کا دن رات  میں  ثلث قرآن (دس پارے ) پڑھنے کا معمول تھا۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ:ص۵۹)[10]

آپ ؒ کا حسن وجمال:

آپ جیسے باطنی خوبیوں اور کمالات (علم ، ذہانت وغیرہ) میں یگانہ روزگار تھے، ایسے ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری حسن وجمال سے بھی خوب نوازا تھا۔

علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے بحوالہ علامہ ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) لکھا ہے:

’’وکان من اجمل النا س واحسنھم ، قال ابوحنیفۃ لوالدہ حین حملہ احلق شعر ولدک والبسہ الخلقان من الثیاب لا یفتنن بہ من رآہ، قال محمد: فحلق والدی شعری، والبسنی الخلقان فزدت عند الحلق جمالا، وقال الشافعیؒ : اول مارأیت محمداً وقد اجتمع الناس علیہ نظرت الیہ فکان من احسن الناس وجھا، ثم نظرت الیٰ جبینہٖ فکأنہ عاج، ثم نظرت الیٰ لباسہ فکان من احسن الناس لباسا، ثم سألتہ عن مسئلۃ فیھا خلاف فقوی مذھبہ ومر فیہ کالسَّھم‘‘

            امام محمدؒ لوگوںمیں انتہائی جمیل او سب سے زیادہ خوبصورت تھے، آپ کے والد جب آپ کو پہلی دفعہ امام ابوحنیفہؒ کے پاس تحصیلِ علم کے لئے لے گئے تو امام صاحبؒ نے ان سے فرمایا کہ آپ اپنے بیٹے کے بال منڈوا دیں، اور اس کو دو پرانے کپڑے پہنادیں تاکہ اس کو دیکھنے والا کہیں کسی فتنے میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ میرے والد نے اس پر میرے بال منڈوا دئیے، اور مجھے دو پرانے کپڑے پہنا دئیے، لیکن سر منڈانے سے میرا حُسن پہلے سے دو بالا ہوگیا، امام شافعیؒ کا قول ہے کہ امام محمدؒ سے جب میری پہلی دفعہ ملاقات ہوئی تو اس وقت لوگ آپ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تھے، میں نے جب آپ کی طرف دیکھا تو آپ کا چہرہ سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت تھا، پھر میں نے آپ کی پیشانی کی طرف دیکھا تو وہ انتہائی روشن اور چمک دار تھی، پھر میں نے آپ کے لباس کی طرف دیکھا تو آپ کا لباس سب لوگوں سے زیادہ اچھا تھا، اور پھر میں نے آپ سے ایک اختلافی مسئلہ پوچھا تو آپ نے (اس مسئلہ کے متعلق) اپنے مذہب کو (دلائل سے) مضبوط کیا، اور اس میں تیر کی طرح نکل گئے۔ (شذرات الذھب:۱؍۳۲۲)

محدثین سے امام محمدؒ (م۱۸۹  ؁ھ )  کی توثیق :

ماقبل محدثین کے حوالے سے گزر چکا ہے کہ فقہ حنفی جو شروع سے لے کر اب تک اُمت مسلمہ کی اکثریت کا دستور عمل (Personal Law) رہا ہے، اس کا مدار امام محمدؒ کی کتابوں پر ہے، اور آپ ہی نے امام ابوحنیفۃؒ کی فقہ کو قید تحریر میں لاکر اس کو پوری دنیا میں پھیلایا، اور پھر امت کی طرف سے اس کو تلقّی بالقبول حاصل ہوا، جو کہ امت مسلمہ کا آپ کی نقل وروایت پر اعتماد کی بیّن دلیل ہے، لہٰذا جس شخص کی نقل اور روایت پر امت کا اس قدر اعتماد ہو اس کی ثقاہت و عدالت پر کسی کی گواہی نقل کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، لیکن افسوس  !  اس کے باوجود بعض عاقبت نااندیش اُن اسلاف امت پر تنقید کر کے اپنی عاقبت  برباد کر رہے ہیں، اس لئے ہم امام موصوف کے ناقدین کی تسلی کے لئے محدثین سے آپ کی توثیق پیش کرتے ہیں۔

آپ کی توثیق سے متعلق محدثین کے اقوال:

محدثین کی ایک بڑی تعداد نے آپ کی توثیق کی ہے، ہم یہاں بطور ’’گلے از گلزارے‘‘ ان میں سے بعض نامور محدثین کے آپ کی توثیق سے متعلق اقوال ہدیہ ناظرین کر رہے ہیں؛

(۱)     امام محمد بن ادریس الشافعیؒ  ۲۰۴؁ھ) :

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) جو بیک وقت محدثین اور فقہاء دونوں طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں، اور ان کو امام محمدؒ سے شرف تلمذ بھی حاصل ہے،جس کی وجہ سے ان کو امام موصوف کی شخصیت کو قریب سےدیکھنے کا موقع ملا ہے، لہٰذا آپ کے بارے میں ان کی گواہی دیگر محدثین پر مقدم ہے۔

پہلے تفصیل سے گزر چکا ہے کہ امام شافعیؒ۲۰۴؁ھ)نے امام محمدؒ ۱۸۹ ؁ھ) سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، اور انہوں نے آپ سے تفقہ حاصل کرنے کے علاوہ آپ سے احادیث بھی روایت کی ہیں، اور ان میں سے آپ کی بعض احادیث امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کی ’’مسند‘‘ میں بھی موجود ہیں۔

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے نہ صرف یہ کہ آپ سے احادیث روایت کی ہیں، بلکہ آپ کی احادیث کو قابلِ حُجّت بھی سمجھا ہے، چنانچہ محدثِ ناقدحافظ شمس الدین ذہبیؒ (م۱۸۹؁ھ) نے تصریح کی ہے کہ:

’’واما الشافعیؒ فاحتج بمحمد بن الحسن فی الحدیث‘‘ 

امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے حدیث میں امام محمد بن حسنؒ سے حجت پکڑی ہے۔(مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ۵۵، تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۶)

اسی طرح امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) نے صراحتاً بھی آپ کو روایتِ حدیث میں صدوق قرار دیا ہے، چنانچہ وہ ایک روایت سے استدلال کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

’’اخبرنا محمد بن الحسن أو غیرہ من اھل الصدق فی الحدیث، أو ھما…۔‘‘

ہم سے حدیث میں صدوق محمد بن حسنؒ یا کسی اور صدوق شخص نے یا دونوں نے حدیث بیان کی ہے ……۔ (کتاب الأم:۳؍۳۲۰، باب الخلاف فی الحجر، مسند الامام الشافعیؒ:ص۳۸۲)

امام شافعیؒ نے آپ کی احادیث سے احتجاج کرنے ، اور آپ کو ’’صدوق فی الحدیث‘‘ قرار دینے کے علاوہ آپ کی بڑی تعریف بھی کی ہے، اور ان سے آپ کی تعریف و توثیق میں اتنے زیادہ اقوال منقول ہیں کہ اہلِ علم نے ان کو متواتر (جوروایت کی سب سے اعلیٰ قسم ہے) کا درجہ دیا ہے۔

امام ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اپنی تاریخ میں لکھتے ہیں:

’’وکان الشافعیؒ یثنی علی محمد بن الحسن، ویفضلہ، وقد تواتر عنہ بالفاظ مختلفۃ‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو تسلیم کیا ہے، امام شافعیؒ سے بالتواتر آپ کی تعریف اور فضیلت میں مختلف الفاظ منقول ہیں۔ (بحوالہ شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)

حافظ الدنیا امام ابن حجر عسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) آپ کے تذکرے میں ارقام فرماتے ہیں:

’’وکان الشافعی یعظمہ فی العلم‘‘

امام شافعیؒ نے علم (حدیث وغیرہ) میں امام محمدؒ کی عظمتِ شان کو تسلیم کیا ہے۔  (تعجیل المنفعۃ۴۰۹)

شیخ الاسلام ، حافظ المغرب ابن عبدالبر المالکیؒ ۴۶۳؁ھ) نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ :

’’وکان الشافعی یثنی علی محمد بن الحسن ویفضلہ، ویقول: مارأیت قط سمینا اعقل منہ، قال وکان افصح الناس، کان اذا تکلم خیل الیٰ سامعہ ان القرآن نزل بلغتہ، وقال الشافعی: کتبت عن محمد بن الحسن وقر بعیر‘‘

امام شافعیؒ نے امام محمد بن حسنؒ کی تعریف کی ہے، اور آپ کی فضیلت کو بیان کیا ہے ، امام شافعیؒ فرماتے تھے میں نے کبھی بھی کوئی جسیم شخص امام محمدؒ سے زیادہ عقل مند نہیں دیکھا، اور فرمایا کہ امام محمدؒ لوگوں میں سب سے زیادہ فصیح تھے، جب آپ بات کرتےتو سننے والے کو یوں محسوس ہوتا کہ قرآن آپ ہی کی زبان میں اترا ہے، امام شافعیؒ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ میں نے امام محمد بن حسنؒ سے ایک بارِ شُتر کے برابر علم لکھا تھا۔ (الانتفاء:ص:۱۷۴،۱۷۵)

نیز امام ابن عبدالبرؒ۴۶۳؁ھ)  لکھتے ہیں:

’’وللشافعی فی اول قدمۃ قدمھا علیہ کتب بھا الیہ‘‘

قل لمن لم تر عین من رآہ مثلہ             ٭        ان لم یکن قد رآہ قد رأی من قبلہ

العلم یأبی اھلہ ان یمنعوہ أھلہ      ٭        لعلہ یبذلہٗ لاھلہ لعلہ 

امام شافعیؒ کی جب پہلی دفعہ امام محمدؒ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے آپ کی طرف یہ اشعار لکھ کر بھیجے۔

(ترجمہ اشعار) :     اس شخص کو کہہ دو کہ جس کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے اس کا مثل نہیں دیکھا، اور جس نے اس کو دیکھ لیا اس نے اس سے پہلے لوگوں کو بھی دیکھ لیا۔ (یعنی امام محمدؒ فقید المثال اور اپنے اکابر کے نمونہ ہیں) علم اہلِ علم کو اس سے روکتا ہے کہ وہ علم کو اس کے مستحقین تک پہنچنے سے روکے ، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ مستحقِ علم بھی آگے دیگر مستحقِ علم تک اس علم کو پہنچا دے۔(ایضاً: نیز دیکھئے اخبارابی حنیفۃ واصحابہ للاما م الصمیری : ص۱۲۷،۱۲۸)

          نیز حافظ ابن تیمیہ ؒ(م۷۲۸؁ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)،حافظ ابن عبد الہادیؒ(م۷۴۴؁ھ)،حافظ عبد القادر القرشیؒ (م۷۷۵؁ھ)،حافظ ابن کثیرؒ(م۷۷۴؁ھ)، حافظ ابن عبدالبرؒ ۴۶۳؁ھ)،حافظ خطیب بغدادیؒ ۴۶۳؁ھ)، امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ)،حافظ ا بن الجوزیؒ (م۵۹۷؁ھ)،حافظ ابو القاسم  عبد لکریم الرافعی ؒ (م۶۲۳؁ھ)،امام ابن خلکانؒ ۶۸۱؁ھ)، حافظ ابن الاثیرؒ۶۳۰؁ھ) ، محدث ابن الفراتؒ ۸۰۷؁ھ) اور امام ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) وغیرہ نے بھی تصریح کی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمدؒ سے اخذِ علم کیا تھا، اور انہوں نے آپ سے فقہ اور حدیث کی روایت کی ہے اور امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کی بعض احادیث امام شافعیؒ ۲۰۴؁ھ) کی ’’مسند‘‘ میں بھی موجود ہیں۔  (دیکھئے ص : ۶۳)

            اور امام  ابو عبد اللہ الشافعیؒ(م۲۰۴؁ٗ؁ھ) صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں،جیسا کہ غیر مقلدین کا مذہب ہے۔ (الاتحاف النبیل : ج۲ : ص ۱۱۱)

            معلوم ہوا کہ امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ)  امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں۔

امام ابن عبدالبرؒ نے امام شافعیؒ سے امام محمدؒ کی توصیف میں جو بعض اقوال نقل کئے ہیں ان کے علاوہ بھی امام شافعیؒ سے بکثرت اقوال منقول ہیں۔

مثلاً علامہ خطیب بغدادیؒ نے بہ سند متصل امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا:

’’امن الناس علي فی الفقہ محمد بن الحسن‘‘ 

فقہ (سکھانے ) میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان امام محمدبن حسنؒ کا ہے۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۳)[11]

امام ابو القاسم علی بن محمد بن کاس نخعیؒ ۳۲۴؁ھ) امام شافعیؒ سے ناقل ہیں کہ :

’’مارأیت اعقل ولا ازھد ولا أفقه ولا اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘

 میں نے کوئی شخص عقل مندی ، پرہیزگاری،فقاہت ، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ نہیں دیکھا۔  (مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ للذھبیؒ۵۵)[12]

امام ابو عبداللہ الصمیریؒ (م۴۳۶؁ھ) امام شافعیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ:

’’مارأیت رجلا اعلم بالحلال والحرام والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن‘‘ 

میں نے کوئی شخص ایسا نہیں دیکھا جو حلال وحرام اور (احادیث میں) ناسخ ومنسوخ کو امام محمد بن حسنؒ سے زیادہ جانتا تھا۔(اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ؛ص۱۲۸)

محدث ابن الفراتؒ(م۸۰۷؁ھ) نے امام شافعیؒ سے نقل کیا ہے کہ:

’’ولولاہ ما انفتق لی من العلم ماانتفتق‘‘ 

اگر امام محمدؒ نہ ہوتے تو علم میں میری اتنی رسائی نہ ہوتی جتنی (آپ کی وجہ سے ) ہوئی ہے۔(شذرات الذھب:۱؍۳۲۳)

(۲)    امام احمد بن حنبلؒ  ۲۴۱؁ھ) :

امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ)کے بعد جس شخص کا علمی مقام ہے وہ امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ) ہیں، اور علم حدیث میں ان کا جو پایہ ہے وہ تو کسی تعارف کا محتاج ہی نہیں، بلکہ بعض اہلِ علم نے تو علمِ حدیث میں ان کو امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) پر بھی فوقیت دی ہے۔  واللہ اعلم۔

امام موصوف کے مختصر ترجمہ میں گزر چکا ہے کہ یہ بھی ان لوگوں میں سے ہیں، جو امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کے علمی خوشہ چین ہیں،اور وہاں یہ بھی گزرا ہے کہ انہوں نے دقیق مسائل امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) کی کتابوں سے لئے تھے،  نیز انہوں نے آپ ؒسے اور امام ابویوسفؒ(م۱۸۳؁ھ) سے تین صندوق علم کے بھی لکھے تھے، اور اس قول کے ذیل میں ہم شیخ عبدالرحمن المعلمیؒ غیر مقلد کا حوالہ نقل کر چکے ہیں کہ اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام احمدؒ نے ان دونوں سے ان کی احادیث لکھی تھیں۔(دیکھئے ص :۷۰ )

اس لحاظ سے امام محمدؒ (م۱۸۹؁ھ) بھی امام احمدؒ کے فقہ اور حدیث میں استاذ بنتے ہیں، اور حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے بحوالہ امام ہیثمیؒ اور امام ابو العربؒ لکھا ہے کہ:

امام احمدؒ کے تمام اساتذہ ثقہ ہیں، اور وہ صرف ثقہ سے ہی روایت کرتے ہیں۔   (الحدیث:ش۲۱: ص۲۲، بحوالہ مجمع الزوائد:۱؍۸۰، تھذیب التھذیب:۹؍۱۱۴)

معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) ثقہ ہیں۔

حافظ الحدیث ،امام قاسم بن قطلوبغاؒ(م۸۷۹؁ھ) نے کہا :

’’ وروی أحمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ عن محمد بن الحسن رحمہ اللہ تعالیٰ کتبہ المشھورۃ وشارکہ فی سماعھا أبو سلیمان الجوزجانی رحمہ اللہ تعالیٰ ، والمعلی بن منصور رحمہ اللہ تعالیٰ مع جماعۃ من العلماء الأعیان ما لا یحصون عدّا ‘‘

امام احمد بن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ)،امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) سے ان کی مشہور کتابیں لکھی، اور امام محمدؒ(م۱۸۹؁ھ) سے سماع کرنے میں امام احمد بن حنبل ؒ(م۲۴۱؁ھ)  کے ساتھ  ابو سلیمان الجوزجانیؒ ،معلی بن منصورؒ(م۲۱۱؁ھ) اور کبار علماء کی لاتعداد  جماعت   شریک تھی۔(کتاب مناقب الامام اعظم و اصحابہ للقاسم ،مخطوطہ (ترکی): ص ۵۲)

بنا بریں امام احمدؒ نے آپ کی بڑی تعریف کی ہے، اور آپ کی علمی عظمتِ شان کو خوب سراہا ہے، چنانچہ امام ابو سعد سمعانیؒ ۵۶۲؁ھ) نے ان سے نقل کیا ہے کہ:

’’اذا کان فی المسئلۃ قول ثلاثۃ لم تسع مخالفتھم فقلت من ھم؟ قال ابوحنیفۃ وابویوسف و محمد بن الحسن‘‘

جب کسی مسئلہ میں تین حضرات کا قول مل جائے تو پھر ان کی مخالفت جائز نہیں ہے، راوی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا وہ تین حضرات کون ہیں؟ فرمایا: امام ابوحنیفہؒ، امام ابویوسفؒ، اور امام محمدبن حسنؒ۔(کتاب الانساب:۳؍۱۶۷)

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ(م۸۵۲؁ھ) امام محمدؒ کے تذکرے میں رقم طراز ہیں:

’’وعظمہ احمدوالشافعی‘‘ 

امام احمدبن حنبلؒ(م۲۴۱؁ھ) اور امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) آپ کی تعظیم کرتے تھے۔(الایثار مع کتاب الآثار:ص۲۳۳)

نیزایک اور کتاب میں حافظ ؒ  لکھتے ہیں:

’’وکان الشافعی یعظمہ فی العلم وکذالک احمد‘‘

امام شافعیؒ اور اسی طرح امام احمدؒ بھی امام محمدؒ کا علم (حدیث وغیرہ) میں عظیم الشان ہونا تسلیم کرتے ہیں۔ (تعجیل المنفعۃ: ص۴۰۹)

(۳)    امام یحییٰ بن معینؒ  ۲۳۳؁ھ) :

امام الجرح والتعدیل اور علم حدیث کے مایہ ناز سپوت امام یحییٰ بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ) نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، چنانچہ امام محمدؒ کے تلامذہ کے تعارف  میں امام ابن معینؒ کا اپنا بیان گزرا ہے کہ میں نے خود امام محمدؒ سے آپ کی تصنیف ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھی تھی۔[13]

اسی طرح محدثین میں سے حافظ ذہبیؒ ۷۴۸؁ھ) اور حافظ قاسم بن قطلوبغاؒ ۸۷۹؁ھ) کے حوالے سے یہ بھی گذر چکا ہے کہ امام ابن معینؒ نے امام محمدؒ سے روایت حدیث بھی کی ہے۔(دیکھئے ص : ۸۰)

لہٰذا امام ابن معینؒ کا آپ سے ’’الجامع الصغیر‘‘ لکھنا اور آپ سے حدیث کی روایت کرنا ہی سب سے بڑی دلیل ہے کہ آپ ان کے نزدیک ثقہ ہیں۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) ’’سعدان بن سعد اللیثی‘‘  کے ترجمہ میں لکھتے ہیں:

’’روی عنہ یحییٰ بن معین، قلت: ویکفیہ روایۃ ابن معین عنہ‘‘                      

امام یحییٰ بن معینؒ نے ان سے حدیث کی روایت کی ہے، میں (حافظ ابن حجرؒ) کہتاہوں کہ ان کے (ثقہ ہونے) کے لئے امام ابن معینؒ کا ان سے روایت کرنا ہی کافی ہے۔(لسان المیزان:۳؍۱۹)

بنا بریں امام محمدؒ کے ثقہ ہونے کے لئے بھی اتنا کافی ہے کہ امام ابن معینؒ نے ان سے روایت کی ہے۔

 

 

(۴)    امام علی بن المدینیؒ  ۲۳۴؁ھ) :

امام موصوف بھی امام ابن معینؒ کی طرح حدیث اور فن جرح وتعدیل کے ارکان میں شمار ہوتے ہیں، نیز وہ امام بخاریؒ کے کبارِ اساتذہ میں سے ہیں۔

امام بخاریؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے سوائے امام ابن المدینیؒ کے اپنے آپ کو کسی کے سامنے کمتر نہیں سمجھا۔   (تذکرۃ الحفاظ:۲؍۱۴)

یہ عظیم المرتبت امام بھی امام محمدؒ کی توثیق کرنے والوں میں شامل ہیں، چنانچہ علامہ خطیب بغدادیؒ وغیرہ محدثین نے بہ سند اُن کے صاحبزادے عبداللہ بن علی بن المدینیؒ سے نقل کیا ہے کہ میں نے اپنے والد سے امام محمدؒ کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا:

’’محمد بن الحسن صدوق‘‘

امام محمد بن حسنؒ صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد:۲؍۱۷۸)[14]

 (۵)    امام احمد بن کامل القاضیؒ  ۳۵۰؁ھ) :

یہ امام محمد بن جریرطَبریؒ کے اصحاب میں سے ہیں،جبکہ ان کے تلامذہ میں امام دارقطنیؒ ، اور امام حاکمؒ وغیرہ جیسے نامور محدثین بھی ہیں، علامہ خطیب بغدادیؒ نے ان کو احکام شرعیہ، علوم قرآن ، نحو، شعر، تاریخ، اور تاریخ محدثین کے علماء میں سے قرار دیا ہے، اور ان کے بارے میں اپنے استاذ علامہ ابو الحسن بن زرقویہؒ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

’’لم تری عینای مثلہ‘‘

میری آنکھوں نے ان جیسا شخص نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد:۵؍۱۲۰)

حافظ ذہبیؒ ان کو  ’’مِن بحور العلم‘‘ (علم کے سمندر) کہتے ہیں، اور ان کے ترجمے کا آغاز:   الشیخ ، الامام، العلامۃ اور  الحافظ جیسے القاب سے کرتے ہیں۔   (سیر اعلام النبلاء:۱۵؍۵۴۴)

امام موصوف نے امام محمدؒ کی شخصیت اور آپ کے فضل وکمال کی بڑی تعریف کی ہے، چنانچہ امام ابو عبداللہ الصمیریؒ ۴۳۶؁ھ) نے اپنے استاذ امام محمد بن عمران المرزبانیؒ سے نقل کیاہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے امام احمد بن کامل القاضیؒ بیان کیا کہ:

امام ابو عبداللہ محمد بن حسنؒ صاحب ابی حنیفۃ (م۱۸۹؁ھ)  بنو شیبان قبیلہ کے مولیٰ تھے، آپ فضل وکمال کے ساتھ موصوف تھے، اور آپ حدیث اور فقہ کو کثرت سے روایت کرنے ، اور حلال و حرام کے علوم میں مختلف کتابیں تصنیف کرنے میں بہت بڑا مقام رکھتے تھے، اور آپ کے تلامذہ (امام شافعیؒ ، امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ) آپ کی بڑی تعظیم کرتے تھے۔(اخبار ابی حنیفۃ  و اصحابہ : ص ۱۲۵)

اس بیان میں امام احمد بن کاملؒ (م۳۵۰؁ھ) نے امام محمدؒ کی بڑی تعریف کی ہے، او ر اس میں انہوں نے آپ کی شخصیت ، آپ کے محدثانہ و فقہی مقام، اورآپ کی تصانیف کی اس اعلیٰ پیرائے میں تعریف کی ہے کہ اتنے مختصر الفاظ میں اس سے بہتر اور جامع تعریف تقریباً محال ہے۔  [15]

 (۶)    امام ابوالحسن الدار قطنیؒ  (۳۸۵؁ھ) :

امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) جو بقول حافظ ذہبیؒ : الامام ، شیخ الاسلام، حافظ الزمان، اور الحافظ الشہیر تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۳۲)

امام موصوف باوجود علم حدیث میں بلند پایہ مقام رکھنے کے امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے اصحاب کے بارے میں متعنت ہیں،لیکن اس سب کے باوجود انہوں نے امام محمدؒ کی بڑی توثیق و تعریف کی ہے، چنانچہ ان کے شاگرد امام ابو بکر برقانیؒ ۴۲۵؁ھ) نے ان سے نقل کی ہے کہ انہوں نے امام محمدؒ کے بارے میں فرمایا:

’’وعندی لا یستحق الترک‘‘

            امام محمدؒ میرے نزدیک  (روایت حدیث میں ) ترک کر دینے کے مستحق نہیں ہیں، یعنی آپ مقبول الروایت ہیں۔(سوالات البرقانی للدارقطنی:ص۱۳۱، تاریخ بغداد:۲؍۱۷۷)[16]

نیز امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) نے اپنی کتاب ’’غرائب حدیث مالک‘‘ میں آپ کو ثقہ حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے، چنانچہ محدث جلیل امام زیلعیؒ ۷۶۲؁ھ) نے امام موصوف کی مذکورہ کتاب سے ایک حدیث کے متعلق ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:

’’حدیث بہٖ عشرون نفرا من الثقات الحفاظ منھم محمدبن الحسن الشیبانی، ویحییٰ بن سعید القطان، وعبداللہ بن المبارک، وعبدالرحمن بن مھدی وابن وھب وغیرھم‘‘  

اس حدیث کو (امام مالک سے) بیس عدد ثقہ حفاظ حدیث نے بیان کیا ہے جن میں سے امام محمد بن حسن شیبانیؒ ، امام یحییٰ بن سعید القطانؒ ، امام عبداللہ بن مبارکؒ، امام عبدالرحمن بن مہدیؒ، اور امام ابن وہبؒ وغیرہ شامل ہیں۔  (نصب الرایۃ:ص۱؍۴۰۸،۴۰۹)[17]

اندازہ کریں کہ امام دار قطنیؒ (م۳۸۵؁ھ) جیسے محدث امام محمدؒ کو کس پایہ کے ثقہ حفاظ حدیث (امام عبداللہ بن مبارکؒ ، امام یحییٰ قطانؒ، اور امام ابن مہدیؒ وغیرہ) کے زُمرے میں شمار کر رہے ہیںِ اور پھر ان میں سے بھی آپ کو انہوں نے سرِ فہرست ذکر کر کے گویا یوں کہہ دیا ہے:

میری انتہائی نگارش یہی ہے

تیرے نا م سے ابتدا کر رہا ہوں

(۷)    امام ابو عبداللہ الحاکم نیشاپوریؒ  ۴۰۵؁ھ) :

امام حاکمؒ جو بقول حافظ ذہبیؒ :  الحافظ الکبیر، اور امام المحدثین تھے۔ (تذکرۃ الحفاظ:۳؍۱۶۲)، انہوں نے اپنی مشہور تصنیف حدیث ’’المستدرک ‘‘ میں امام محمدؒ کی احادیث کی تخریج کی ہے، اور آپ سے حجت پکڑی ہے۔

نیز امام موصوف نے آپ کی سند حدیث کو ’’صحیح الاسناد‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، چنانچہ وہ ایک حدیث جس کو انہوں امام ربیع سے ، انہوں نے امام شافعیؒ سے، انہوں نے امام محمدؒ سے ، انہوں نے امام ابویوسفؒ ، انہوں نے عبداللہ بن دینارؒ سے  اور انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت کیا ہے ،  کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’ھذا حدیث صحیح الاسناد‘‘ ۔(المستدرک علی الصحیحین :۴؍۳۷۹،ح۷۹۹۰)

معلوم ہوا کہ امام محمدؒ سمیت اس روایت کے سارے راوی امام حاکمؒ کے نزدیک ’’صحیح الاسناد‘‘ اور ثقہ ہیں۔  [18]

(۸)    امام ابو بکر احمدبن الحسین البیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) :

امام بیہقیؒ (م۴۵۸؁ھ) جو کہ مشہور صاحب التصانیف محدث ہیں، حافظ ذہبیؒ ان کے ترجمے کا آغاز :  الامام، الحافظ ، العلامہ، شیخ اور صاحب التصانیف کے القاب سے کرتے ہیں۔  (تذکرۃ الحفاظ:۴؍۲۱۹)

امام موصوف نے اپنی کتب حدیث میں امام محمدؒ سے کئی احادیث روایت کی ہیں، چنانچہ آپ کی ایک حدیث کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

’’وانما یصح عن الشعبی والروایۃ فیہ عن ابن عباس علی ما حکی محمد بن الحسن‘‘ 

اس مسئلہ میں امام شعبیؒ ، اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت صحیح ہے، جیسا کہ امام محمد بن حسنؒ نے بیان کیاہے۔ (السنن الکبری:۸؍۱۰۴)

اس بیان میں امام بیہقیؒ نے امام محمدؒ کی روایت کو صراحتاً صحیح کہا ہے۔                      

اور حافظ زیبر علی زئی غیر مقلدنے لکھا ہے کہ:

کسی سند کو صحیح کہنے کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس سند کا ہر راوی صحیح کہنے والے کے نزدیک ثقہ یاصدوق ہے۔  (القول المتین:ص۲۱)

نیز انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ :

محدثین کا حدیث کو حسن یا صحیح قرار دینا، ان کی طرف سے اس حدیث کے ہر راوی کی توثیق ہوتی ہے۔  (نصرالباری:ص۱۸)

لہٰذا امام بیہقیؒ جیسے محدث کا امام محمدبن حسن الشیبانیؒ کی روایت کو صحیح کہنا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپؒ ان کے نزدیک ثقہ یا صدوق ہیں۔[19]

(۹)     امام یوسف بن عبداللہ المعروف بہ ابن عبدالبرؒ (م۴۶۳؁ھ) :

امام ابن عبدالبرؒ کی علمی شخصیت سے کون شخص ناواقف ہوگا؟  حافظ ذہبیؒ جیسے محدث ناقد ان کو شیخ الاسلام اور حافظ المغرب کے القاب سے یادکرتے ہیں، اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں کہ:

یہ حدیث کے حفظ اور اس کی پختگی میں اپنے تمام اہلِ زمانہ کے سردار تھے۔  (تذکرۃ الحفاظ :۳؍۲۱۷)

موصوف نے اپنی مایہ ناز تصنیف ’’الانتقاء فی فضائل الثلاثہ الائمۃ الفقہاء‘‘  جس میں انہوں نے امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور ان تینوں ائمہ کے مشہور تلامذہ کے فضائل ومناقب لکھے ہیں، اس میں انہوں نے امام اعظم ابوحنیفہؒ کے تلامذہ کے تعارف میں امام محمدؒ کا بھی بڑا شاندار ترجمہ لکھا ہے، اور اس ترجمہ میں انہوں نے امام شافعیؒ وغیرہ سے آپ کی توثیق نقل کرنے کے علاوہ خود بھی آپ کی ان الفاظ میں توثیق کی ہے :

’’کان فقیھاعالما کتب عن مالک کثیرا من حدیثہ وعن الثوری وغیرھما‘‘

امام محمدؒ فقیہ، اور (حدیث وغیرہ) کے عالم تھے، اور آپ نے امام مالکؒ اور امام سفیان ثوریؒ اور دیگر محدثین سے بکثرت احادیث لکھی تھیں۔  (الانتفاء:ص۱۷۴)

اسی طرح موصوف نے امام شافعیؒ کے ترجمے میں آپ کو ان کے مشائخ میں شمار کرتے  ہوئے بڑے عمدہ الفاظ میں آپ کا تعارف کر ایا ہے۔  (ایضاً ص:۶۹)

نیز امام موصوف نے امام محمدؒ کو حفاظ حدیث میں شمار کیا ہے، چنانچہ انہوں نے رفعِ یدین سے متعلق امام مالکؒ کی ایک حدیث کی بابت ان کے تلامذہ میں پائے جانے والے اختلاف کو ذکر کیا، اور ان دونوں قسم کے تلامذہ کے ناموں کو بھی گنایا، جن میں انہوں نے امام محمدؒ کے نام کو بھی ذکر کیا ، اورآخر میں ان سب کے متعلق تصریح کی ہے کہ:

’’لان جماعۃ حفاظا، رووا عنہ الوجھین جمیعاً‘‘

کہ (امام محمدؒ سمیت) حفاظ کی جماعت نے امام مالکؒ سے دونوں طرح سے یہ حدیث روایت کی ہے۔(التمہید:۴؍۱۴۰،۱۴۱)

 

(۱۰)   امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ (م۵۵۰؁ھ) :

امام سلماسیؒ جو ایک جلیل القدر محدث اور امام ابن عساکرؒ اور امام ابن الجوزیؒ وغیرہ جیسے مشہور محدثین کے استاذ ہیں، انہوں نے ائمہ اربعہ کے مناقب میں ایک کتاب ’’منازل الائمۃ الاربعۃ‘‘  کے نام سے لکھی ہے ، اس میں وہ امام اعظم ابوحنیفہؒ کے تذکرہ میں امام محمدؒ کو آپ کے تلامذہ میں شمار کرنے کے بعد ان کے تعارف میں لکھتے ہیں:

’’وکتب الحدیث ، وکان فقیھا عالما شھما نبیلا‘‘ 

امام محمدؒ نے حدیث لکھی،اور آپ فقیہ،عالم سمجھدار،اور معزز شخص تھے۔(منازل الائمۃ الاربعۃ: ص ۸۸)[20]

(۱۱)    امام عبدالکریم شہرستانیؒ   ۵۴۸؁ھ) :

یہ علمِ کلام کے مشہور و معروف امام ہیں، علامہ ابن خلکانؒ ۶۸۱)، ان کو :  امام، مبرز، فقیہ، متکلم اور واعظ کے القاب سے یاد کرتے ہیں۔  (شذرات الذھب:۴؍۱۴۹)

مولانا ابراہیم سیالکوٹیؒ ، اور مولانا اسمٰعیل سلفیؒ وغیرہ غیر مقلدین نے بھی ان کی بڑی تعریف کی ہے۔  (تاریخ اہلِ حدیث:ص۸۷، تحریکِ آزادی فکر:ص۱۴۱)

امام موصوف نے امام محمدؒ اور آپ کے اساتذہ امام اعظم ابو حنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ وغیرہ کو ان ائمہ اہل سنت میں شمار کیا ہے کہ جن پر لوگوں نے عقیدہ ارجاء کا بے بنیاد الزام لگایا ہے ، اور پھر انہوں نے اس الزام کی حقیقت کو اچھی طرح سے طشت ازبام کیا ہے، اور ان کے بارے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ:

’’وھولاء کلھم ائمۃ الحدیث‘‘  ۔

یہ سب کے سب حدیث کے امام ہیں۔ (الملل والنحل:۱؍۱۱۶)

(۱۲)   امام ابوسعد عبدالکریم السمعانیؒ (م۵۶۲؁ھ) :

امام سمعانیؒ حدیث، تاریخ،اور انساب وغیرہ علوم کے اجلہ ائمہ میں سے ہیں، حافظ ذہبیؒ نے ان کو :  الحافظ ، البارع ، العلامۃ،  تاج الاسلام ، اور صاحب التصانیف قرار دیا ہے۔ (تذکرۃ :۴؍۱۷۸۵)

موصوف نے اپنی مشہور کتاب ’’کتاب الانساب‘‘ میں مادہ  ’’الشیبانی‘‘ کے ذیل میں امام محمدؒ کا شاندار اور مبسوط ترجمہ لکھاہے، اس ترجمہ میں انہوں نے خود بھی آپ کی تعریف کی ہے، اور دیگر متعدد ائمہ سے بھی آپ کے بارے میں توثیقی و توصیفی اقوال نقل کئے ہیں۔

اسی طر ح انہوں نے مادہ ’’الشہید‘‘ کے ذیل میں امام ابوالفضل الحاکم الحنفیؒ کے ترجمہ میں آپ کو ’’الامام الربانی‘‘ قرار دیا ہے، چنانچہ امام حاکمؒ کی کتاب ’’مختصر الکافی‘‘ کے تعارف میں لکھتے ہیں:

اختصر کتاب ’’الکافی‘‘ الذی صنفہ الامام الربانی محمد بن الحسن الشیبانی۔

انہوں نے ’’ کتاب الکافی‘‘ کا اختصار کیا، جس کو امام ربانی محمد بن حسن الشیبانیؒ نے تصنیف کیا تھا۔  (کتاب الانساب:۳؍۱۶۶،۱۶۷)

’’ربانی‘‘ محدثین کے ہاں اُس شخص کو کہا جاتا ہے،جو وسیع العلم ،اور دیانت دار ہو، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانیؒ ۸۵۲؁ھ) ’’الربانی‘‘کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’وینسب ھذہ النسبۃ من یوصف بسعۃ العلم والدیانۃ‘‘

اس نسبت کے ساتھ وہ آدمی منسوب ہوتا ہے جو وسعت علم اور دیانت داری کے ساتھ موصوف ہو۔ (تبصیر المنتبہ:۲؍۶۲۲)

اس سے واضح ہوگیا کہ امام سمعانیؒ کے نزدیک امام محمدؒ وسعت علم اور دیانت داری کے امام ہیں، اور یہ اعلیٰ درجہ کی توثیق ہے۔

(۱۳)   امام علی بن انجب المعروف بہ ’’ابن الساعی‘‘  ۶۷۴؁ھ)  :

امام ابن الساعیؒ جو کہ بقول حافظ ذہبیؒ :  الشیخ، الامام، العلامۃ، الاخباری اور مؤرخ الزمان تھے، (سیراعلام النبلاء: ۲۴؍۲۹۳)  نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، چنانچہ وہ آپ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: امام عالم ، کبیر القدر، شائع الذکر۔  (الدر الثمین فی اسماء المصنفین۱۵۹)

(۱۴)   امام محمد بن احمد بن عبدالہادی المقدسیؒ  ۷۴۴؁ھ) :

یہ امام ابن عبدالہادی سے مشہور ہیں،اور ان کا شمار حدیث اور فن جرح و تعدیل کے جلیل القدر ائمہ میں ہوتا ہے ، حافظ ابن کثیرؒ نے ان کا تعارف :  ’’الشیخ ، الامام، العالم، العلامۃ، الناقد، اور  البارع‘‘ جیسے عظیم القاب سے کرایا ہے۔  (البدایہ والنہایہ:۹؍۴۶۵)

انہوں نے ائمہ اربعہ (امام اعظم ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، اور امام احمدؒ) کے مناقب میں ایک شاندار کتاب ’’مناقب الائمۃ الاربعۃ‘‘ کے نام سے لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے امام اعظمؒ کے تلامذہ کے بیان میں امام محمدؒ کا تعارف کر اتے ہوئے لکھا ہے:

’’والقاضی الامام العلامۃ فقیہ العراق ابو عبداللہ محمد بن الحسن الشیبانی احد شیوخ الامام الشافعی‘‘۔(مناقب الائمۃ الاربعۃ:ص۶۰) 

زبیر علی زئی غیرمقلد ایک راوی کے متعلق حافظ ذہبیؒ سے ’’الامام الفقیہ‘‘ کے الفاظ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

اس کا مقام صدوق کا مقام ہے۔   (الحدیث:ش۷، ص۱۳)

اب جس راوی کے متعلق صرف ’’الامام‘‘ اور ’’الفقیہ‘‘ کہاجائے ، اس کا مقام بقول علی زئی صدوق ہے، تو پھرامام محمدؒ کا مقام صدوق سےبھی بڑھ کر(یعنی آپ کو ثقہ)ہونا چاہئے، کیونکہ آپ کو امام ابن عبدالہادیؒ۷۴۴؁ھ) نے ’’الامام ‘‘ اور ’’فقیہ العراق ‘‘کہنے کے ساتھ ساتھ ’’العلامہ‘‘ بھی کہا ہے۔

(۱۵)   امام جمال الدین عبداللہ بن یوسف زیلعیؒ (م۷۶۲؁ھ) :

امام زیلعیؒ ایک متبحر اور بالاتفاق ثقہ محدث ہیں، انہوں نے کتاب الآثار بروایت امام محمد بن حسنؒ کے ایک اثر کے بارے میں لکھا ہے:

’’اثر جید‘‘

کہ اس اثر کی سند جید ہے۔ (نصب الرایہ:۳؍۲۴۰)

جب کہ خود علی زئی کے نزدیک جس راوی کی سند کو جید کہا جائے وہ اس کے ثقہ ہونے کی دلیل ہے۔   (الحدیث:۴۷؍۱۹)

(۱۶)   امام ابن حزم ظاہریؒ (م۴۵۶؁ھ) :

امام ابن حزمؒ فقہ ظاہر ی کے امام اور مشہور عالم ہیں، غیر مقلدین کے ہاں یہ بڑے مستند سمجھے جاتے ہیں، اور وہ امام محمدؒ کی روایت پر اعتماد کرتے ہیں، چنانچہ ایک مسئلہ کی تحقیق میں انہوں نے امام ابوحنیفہؒ کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:

’’والمحفوظ عن ابی حنیفۃ ھو ما ذکرہ محمد بن الحسن فی الجامع الصغیر‘‘ 

امام ابوحنیفہؒ سے محفوظ روایت وہ ہے جو امام محمدؒ نے ’’الجامع الصغیر‘‘ میں آپ سے نقل کی ہے۔ (المحلیٰ:ص۸؍۱۲۴)

اور خود زبیر علی زئی نے تصریح کی ہے کہ محدثین کا کسی راوی کی روایت کو محفوظ قرار دینا ان کی طرف سے اس راوی کی توثیق کی دلیل ہے۔  (القول المتین ۲۶)

(۱۷)   امام شمس الدین محمدبن احمد الذہبیؒ  ۷۴۸؁ھ) :

امام ذہبیؒ تمام علوم حدیث خصوصاً فن جرح وتعدیل کے بلندمرتبت سپوت ہیں،مولانا عبدالرحمن مبارکپوریؒ ۱۳۵۲؁ھ) غیر مقلد نے امام موصوف کا تعارف کراتے ہوئے کہا ہے کہ :

’’ھو من استقراء التام فی نقد الرجال‘‘ 

یعنی حافظ ذہبیؒ ان لوگوں میں سے ہیں جو رجال (راویان حدیث) کے پرکھنے میں کامل استقراء والے ہیں۔  (تحقیق الکلام:۲؍۱۴۳)

امام موصوف نے اپنی کتب رجال میں مختلف الفاظ  میں امام محمدؒ کے فقہی اور محدثانہ مقام کی زبردست تعریف کی ہے، چنانچہ ماقبل گزر چکا ہے کہ امام ذہبیؒ نے آپ کو فقیہ العصر ، فقیہ العراق، رأس فی الفقہ،  (فقہ میں سردار )اور امام ابویوسفؒ کے بعد عراق کے سب سے بڑے فقیہ قرار دیا ہے۔(دیکھئے ص:۴۹،۹۷)

نیز یہ بھی گذرا کہ انہوں نے آپ کو دنیا کے ذہین ترین لوگوں میں شمار کیا ہے، اور آپ کا محدث ہونا تسلیم کرتے ہوئے آپ کو محدثین کے طبقات پر مشتمل اپنی کتاب ’’المعین فی طبقات المحدثین‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ (دیکھئے ص :۱۰۱ )

 اور دوسری جگہ آپ کے بارے میں یہ تصریح  کہ ہے کہ آپ نے بکثر احادیث سن رکھی تھی۔ (دیکھئے ص : ۱۰۱)

اسی طرح امام ذہبیؒ نے امام ابویوسفؒ کے مناقب میں جہاں ان کے تلامذہ میں امام یحییٰ بن معینؒ، امام احمد بن حنبلؒ ، امام علی بن الجعدؒ وغیرہ جیسے یگانہ روزگار محدثین کو شمار کیا ہے، وہاں آپ کو بھی ان کے تلامذہ میں شمار کرتے ہوئے آپ کے متعلق یہ الفاظ لکھے ہیں کہ:

’’واجل اصحابہ محمد بن الحسن‘‘

امام ابویوسفؒ کے تلامذہ میں سب سے زیادہ جلیل القدر امام محمد بن حسنؒ ہیں۔ (دیکھئے ص :۴۹ )

یہ سب امام ذہبیؒ کی وہ تصریحات ہیں ، جن کو ہم مختلف عنوانات کے ذیل میں ذکر کر آئے ہیں، ان تصریحات کے علاوہ بھی امام ذہبیؒ نے اپنے متعدد الفاظ میں امام محمدؒ کی توثیق و توصیف کی ہے۔

مثلاً لکھتے ہیں:

محمد بن الحسن بن فرقد، العلامۃ ، فقیہ العراق۔  (سیر اعلام النبلاء:۹؍۱۳۴)

اسی طرح انہوں نے آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ:

’’وکان مع تبحرہ فی الفقہ یضرب بذکائہ المثل‘‘

آپ فقہ میں تبحر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی ذکاوت (ذہانت) میں بھی ضرب المثل تھے۔(ایضاً) 

نیز ذہبیؒ ارقام فرماتے ہیں:

’’ ونال من الجاه والحشمة مالا مزيد عليه ‘‘ 

امام محمدؒ نے وہ عزت اور شان وشوکت پائی ہے کہ اس سے زیادہ ناممکن ہے۔ (مناقب:ص۸۰)

ذہبیؒ نے آپ کے بارے میں یہ تصریح بھی کی ہے کہ آپ :  الفقیہ، العلامہ، مفتی العرقیین،اور احد الاعلام تھے۔ (تاریخ الاسلام: ۴؍۹۵۴،۹۵۵)

اسی طرح انہوں نے آپ کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ :  امام اور مجتہد تھے، اور آپ کا شمار انتہائی ذہین اور فصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔  (ایضاً)، اور وہ آپ کے متعلق یہ بھی لکھتے ہیں  کہ :

’’وکان رحمہ اللہ آیۃ فی الذکاء ، ذاعقل تام، وسودد، وکثرۃ تلاوۃ القرآن‘‘  

امام محمدؒ ، دانائی  میں ایک نشانی تھے، اور آپ انتہائی عقل مند، سردار، قرآن مجید کی تلاوت کثر ت سے کر نے والے تھے۔ (ایضاً)

امام موصوف نے آپ کے بارے میں یہ بھی تصریح کی ہے کہ :

’’یروی عن مالک بن انس وغیرہ، وکان من بحورالعلم والفقہ قویا فی مالک‘‘ 

امام محمدؒنے امام مالک بن انسؒ اور دیگر محدثین سے روایت حدیث کی ہے، اور آپ علم (حدیث وغیرہ) اور فقہ کے سمندر تھے، اور امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی (مضبوط) تھے۔ (لسان المیزان:۵؍۱۲۷،۱۲۸)

امام ذہبیؒ نے اپنے اس بیان میں امام محمدؒ کو علم (جس میں علمِ حدیث بھی شامل ہے) اور فقہ (یعنی فقاہت حدیث) کے سمندر قرار دے رہے ہیں، جو کہ آپ کی ایک بہت بڑی توثیق ہے، اس کے ساتھ امام موصوف نے یہ بھی تصریح کردی ہے کہ آپ نے امام مالکؒ سے جو احادیث روایت کی ہیں اس میں آپ قوی ہیں، اب جب کہ امام محمدؒ ، امام مالکؒ سے روایت کرنے میں قوی ہیں کہ جن کے ساتھ آپ کا تعلق صرف تلمذ کا ہی رہا ہے ، تو اس سے آپ کا امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ سے روایت کرنے میں قوی ہونا بطریقِ اولیٰ ثابت ہوگیا، کیونکہ ان دونوں سے آپ کا تعلق تلمذ ہی کانہیں تھا، بلکہ آپ نے ان دونوں کے علوم کی نشرو اشاعت میں اپنی پوری زندگی صرف کی ہے۔[21]

علاوہ ازیں حافظ ذہبیؒ نے آپ کے مناقب وفضائل میں مستقل ایک جزء لکھا ہے، اس میں انہوں نے بسط کے ساتھ آپ کے فضائل و مناقب بیان کئے ہیں، اسی طرح امام ذہبیؒ نے امام اعظم ابوحنیفہؒ اور امام ابویوسفؒ کے مناقب میں بھی علیحدہ علیحدہ جزء لکھے ہیں، اور یہ تینوں اجزاء ’’مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ ابی یوسف ومحمد بن الحسن‘‘ کے نام سے مستقل ایک رسالہ کی صورت میں یکجا ہیں، یہ رسالہ حضرت مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کے زیر اہتمام اور محقق العصر امام محمد زاہد الکوثریؒ کے تحقیقی حاشیے کے ساتھ مطبوعہ ہے، اور قابلِ دید ہے۔  [22]

 (۱۸)   امام جمال الدین ابن تغری بردیؒ  ۸۷۴؁ھ) :

امام موصوف ایک جلیل المرتبت مؤرخ اور ’’النجوم الزاھرۃ‘‘ وغیرہ بلند پایہ کتب کے مصنف  ہیں۔ (ان کے حالات کیلئے دیکھئے: شذرات الذھب:۷؍۳۱۷) انہوں نے بھی امام محمدؒ کی بڑے عمدہ الفاظ میں توثیق کی ہے، چنانچہ موصوف نے آپ کے بارے میں : الفقیہ، العلامہ، شیخ الاسلام، احدالعلماء الاعلام، اور مفتی العراقیین، کہہ کر آپ کے ترجمہ کا آغاز کیاہے، نیز انہوں نے آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

’’وکان اماما فقیھا محدثا مجتھدا ذکیا، انتھت الیہ ریاسۃ العلم فی زمانہ بعد موت ابی یوسف‘‘ 

امام محمدؒ ، امام ، فقیہ، محدث، مجتہد اور ذکی تھے، امام ابویوسفؒ کی وفات کے بعد اس زمانے میں علم کی ریاست امام محمدؒ پر ختم تھی۔(النجوم الزاھرۃ:۲؍۱۶۴)

(۱۹)   امام نورالدین ہیثمیؒ  ۸۰۷؁ھ) :

امام ہیثمیؒ (م۸۰۷؁ھ) ایک بلند پایہ محدث اور حافظ ابن حجر عسقلانیؒ وغیرہ جیسے نامور حفاظ حدیث کے استاذ ہیں۔

حافظ ہیثمیؒ (م۸۰۷؁ھ)  امام محمد ؒ کی ایک  روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:

’’رواہ الطبرانی فی الاوسط والکبیر، واسناد الکبیر حسن‘‘

اس حدیث کو طبرانی نے ’’المعجم الاوسط‘‘ اور ’’المعجم الکبیر‘‘ میں روایت کیا ہے،اور المعجم الکبیر کی سند حسن ہے۔ (مجمع الزوائد:۶؍۱۴۲)

امام ہیثمیؒ ’’المعجم الکبیر‘‘ کی جس حدیث کی سند کو حسن قرار دے رہے ہیں، اس سند کے ایک راوی امام محمدبن حسنؒ بھی ہیں۔  (المعجم الکبیر:۷؍۱۰۱)

معلوم ہوا کہ امام ہیثمیؒ کے نزدیک امام محمدؒ حسن الحدیث اور صدوق ہیں۔  [23]

 (۲۰)  امام صلاح الدین صفدیؒ  ۷۶۴؁ھ) :

امام صفدیؒ ایک نامور محدث ہیں، حافظ ذہبیؒ جو اُن کے استاذ ہیں، وہ بھی ان کے محدثانہ مقام کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔  (دیکھئے: معجم محدثی الذھبی: ص۶۷)

امام موصوف نے اپنی تاریخ میں امام محمدؒ کا بڑا شاندار ترجمہ لکھا ہے ، جس میں انہوں نے آپ کے علمی مقام اور آپ کی کتب کی بڑی تعریف کی ہے، مثلاً وہ آپ کے بارے میں لکھتے ہیں:

’’وکان امام مجتھدا من الاذکیاء الفصحاء‘‘ 

امام محمدؒ ، امام اور مجتہد تھے،اور آپ کا شمار ذہین اورفصیح لوگوں میں ہوتا ہے۔ (الوافی بالوفیات : ۲؍۲۴۷)

(۲۱)   امام محي الدین عبدالقادر القرشیؒ  ۷۷۵؁ھ) :

امام قرشیؒ ایک پختہ کار حافظ الحدیث اور نامور حنفی فقیہ ہیں، ان کے علمی فخر کے لئے یہی کافی ہے کہ حافظ زین الدین عراقیؒ (استاذ کبیر، حافظ ابن حجرؒ) وغیرہ جیسے کبارِ حفاظ حدیث ان کے تلامذہ حدیث میں سے ہیں۔

حافظ ابو الفضل ابن فہد مکیؒ ان کو حفاظ حدیث میں شمار کرتے ہوئے ان کا تعارف:  الامام ، العلامۃ، اور الحافظ کے القاب سے شروع کرتے ہیں، اور ان کے بارے میں تصریح کرتے ہیں:

’’وسمع منہ الحفاظ والفضلاء ‘‘۔

امام قرشیؒ سے حفاظِ حدیث اور فضلاء محدثین نے سماعِ حدیث کیاہے۔  (ذیول تذکرۃ الحفاظ: ۵؍۱۰۵)

امام موصوف نے ’’طبقاتِ حنیفہ‘‘ میں امام محمدؒ کا مبسوط و شاندار ترجمہ لکھا ہے، جس کا آغاز ان لفظوں میں ہے: الامام صاحب الامام……۔

پھر اس کے ذیل میں متعدد ائمہ اجلہ سے آپ کی توثیق و توصیف نقل کی ہے، اورخود بھی آپ کے علم کی بڑی تعریف کی ہے۔  (دیکھئے :الجواھر المضیہ:۲؍۴۲،۴۴)

 

 

(۲۲)  امام شمس الدین محمدبن عبدالرحیم مصری المعروف بہ ’’ابن الفرات‘‘ (م۸۰۷؁ھ) :

امام ابن الفراتؒ ایک بلند پایہ محدث اور جلیل القدر مؤرخ ہیں، علامہ ابن العماد حنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے ان کی بڑی تعریف کی ہے، اور ان کی تصنیف کردہ تاریخ کو کثیر الفائدہ قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے اپنی تاریخ ’’انباء العمر‘‘ میں زیادہ تر مواد امام ابن الفرات کی تاریخ سے ہی لیا ہے، اور حافظ موصوف نے تصریح کی ہے کہ یہ ایک بہت بڑی تاریخ ہے۔  (کشف الظنون:۱؍۲۷۹)

یہ عظیم الصفات بزرگ بھی امام محمد بن حسنؒ کی زبردست توثیق کرتے ہیں، چنانچہ انہوں نے اپنی تاریخ میں امام عالی شان کا مبسوط اور شاندار ترجمہ لکھا ہے، جس کا آغاز ان الفاظ سے کیا ہے:

’’محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی الامام الربانی صاحب ابی حنیفۃ…‘‘

اور آپ کے بارے میں لکھا ہے کہ :

’’وطلب الحدیث وسمع سماعا کثیراً وجالس اباحنیفۃ وسمع منہ ونظر فی الرأی وغلب علیہ وعرف بہٖ…‘‘

آپ نے حدیث حاصل کی ، اور کثرت سے اس کا سماع کیا، نیز آپ ابوحنیفہؒ کی مجلس علمی میں بیٹھے اور ان سے حدیث کی سماعت کی اور رائے (فقہ) میں مہارت حاصل کی، اور یہ فقاہت آپ پر غالب آئی ، اور آپ اسی کے ساتھ مشہور ہوئے۔

پھر انہوں نے تفصیل کے ساتھ امام شافعیؒ اور امام ابوعبیدؒ وغیرہ ائمہ سے آپ کی توثیق وتوصیف نقل کی ہے، جس کا خلاصہ علامہ ابن العمادؒ نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے۔  (شذرات الذھب: ۱؍۳۲۲؍۳۲۳)

 

(۲۳)  امام محمد بن ابوبکر المعروف بابن ناصرالدینؒ (م۸۴۰؁ھ) :

امام ابن ناصرالدینؒ دمشق کے ایک جلیل القدر محدث ، اور بلند مرتبت حافظ الحدیث ہیں، علامہ ابن العمادحنبلیؒ ۱۰۸۹؁ھ) نے ان کو ’’حافظ الشام بلا منازع‘‘ قرار دیا ہے۔  (شذرات الذھب:۷؍۲۴۴)

موصوف کثیر التصانیف ہیں، اور ان کی ایک مشہور کتاب ’’اتحاف السالک برواۃ المؤطا عن الامام مالک‘‘ ہے، جس میں انہوں نے مؤطا کے مشہور راویوں کے حالات لکھے ہیں۔

اس کتاب میں انہوں نے امام محمد بن حسنؒ (جو کہ مؤطا کے ایک راوی ہیں) کا بھی ترجمہ لکھا ہے، جس میں انہوں نے آپ کے علم ، آپ کی فقاہت اور ذکاوت ، اور آپ کی تصانیف کی بڑی تعریف کی ہے، اور آپ کی تعریف میں دیگر اہلِ علم کے اقوال بھی نقل کئے ہیں۔  (اتحاف السالک:ص۱۷۶  تا۱۸۰)

(۲۴)  امام ابن حجر العسقلانیؒ  ۸۵۲؁ھ) :

امام ابن حجرؒ جو علم حدیث اور فن اسماء الرجال کی انتہائی مشہور شخصیت ہیں، حافظ سیوطیؒ نے ان کا تذکرہ :  شیخ الاسلام، امام الحفاظ فی زمانہ، حافظ الدیار المصریہ، اور حافظ الدنیا کے القاب سے شروع کیا ہے۔  (طبقات الحفاظ: ص۵۵۲)

امام موصوف کے ہاں امام محمدؒ کے محدثانہ مقام کی عظمت اور رفعت کا اندازہ اس سے لگائیں کہ انہوں نے امام محمدؒ کے روایت کر دہ نسخہ  ’’کتاب الآثار‘‘  (تصنیف امام اعظم ابوحنیفہؒ) کے رُوات پر مستقل ایک کتاب لکھی ہے، جس کا نام ’’الایثار بمعرفۃ رُواۃ الآثار‘‘ ہے، یہ کتاب علیحدہ بھی دستیاب ہے،  اور کتاب الآثار کے ساتھ بھی چھپ چکی ہے۔

امام موصوف نے اپنی اس کتاب کی وجہ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فان بعض الاخوان التمس منی الکلام علیٰ رواۃ ’’کتاب الآثار‘‘ للامام ابی عبداللہ محمدبن الحسن الشیبانیِ التی رواھا عن الامام ابی حنیفۃ……

بعض بھائیوں نے مجھ سے التماس کیا کہ میں ’’کتاب الآثار‘‘ جس کو امام ابوعبداللہ محمدبن حسن ؒنے امام ابوحنیفہؒ سے روایت کیا ہے، کے رُوات پر کلام کروں…(الاثیار بمعرفۃ الآثار: ص۲۱۷)

اسی طرح انہوں نے اپنی دوسری کتاب ’’تعجیل المنفعۃ بزوائد رجال ائمۃ الاربعۃ‘‘ میں بھی اس نسخہ کے رُوات پر بحث کی ہے جیسا کہ خود انہوں نے اس کی تصریح کی ہے۔(تعجیل المنعفۃ۲۰)

نیز امام موصوف نے ’’الایثار‘‘ میں امام محمدؒ کا شاندار ترجمہ لکھا ہے جس میں وہ آپ کے ذاتی اور طلب علمی کے حالات بیان کرنے کے بعد ارقام فرماتے ہیں:

’’وقال ابن المنذر:  سمعت المزنی یقول: سمعت الشافعی یقول: مارأیت سمینا اخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأیت افصح منہ، وقال وغیرہ عن الشافعیؒ : حملت عن محمد بن الحسن حمل حمل العلم، قال عبداللہ بن علی بن المدینی عن ابیہ صدوق، وقال الدارقطنی: لا یترک، وتکلم فیہ یحیی بن معین، فیما حکاہ معاویۃ بن صالح، وعظمہ احمد والشافعی قبلہ، وکان من افراد الدھر فی الذکاء، وعظمت منزلتہ عند الرشید، ولما مات وھو معہ وکذالک الکسائی بالری، قال: دفنت الفقہ والعربیۃ بالری‘‘

امام ابن المنذرؒ فرماتے ہیں کہ میں نے امام مُزنیؒ سے سنا ہے کہ میں نے امام شافعیؒ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کوئی جسیم شخص امام محمدبن حسنؒ سے زیادہ نرم مزاج نہیں دیکھا، اور نہ میں نے آپ سے زیادہ کوئی فصیح شخص دیکھا ہے، امام مزنیؒ کے علاوہ امام شافعیؒ کے دیگر تلامذہ نے ان سے نقل کیا ہے کہ میں نے امام محمدؒ سے ایک اونٹ کے بوجھ کے برابر علم حاصل کیا ہے، عبداللہ بن علی بن مدینیؒ اپنے  والد (امام علی بن مدینیؒ ) سے نقل کرتے ہیں کہ امام محمدؒ (روایت حدیث میں) صدوق (نہایت راست باز) ہیں، امام دارقطنیؒ نے فرمایا کہ: آپ متروک نہیں ہیں، امام یحییٰ بن معینؒ نے اگر چہ آپ میں کلام کیا ہے، جیسا کہ معاویہ بن صالح نے ان سے روایت کیا ہے، لیکن امام احمدبن حنبلؒ او رامام شافعیؒ ، امام ابن معینؒ ،سے پہلے امام محمدؒ کی عظمت کو تسلیم کر چکے ہیں، (لہٰذا ابن معینؒ کی جرح مردود ہے) ۔ اور آپ ذکاوت میں زمانے کے چند گنے چنے افراد میں سے تھے، اور (خلیفہ) ہارون الرشید کے ہاں آپ کی بہت زیادہ قدرو منزلت تھی، جب آپ کی وفات ہوئی اس وقت خلیفہ آپ کے ساتھ تھے، اسی طرح کسائیؒ نحوی بھی آپ کے ساتھ تھے، (اور انہوں نے بھی اسی دن انتقال فرمایا) تو خلیفہ نے کہا: میں نے فقہ اور لغت عربیہ کو ’’رے‘‘ میں دفن کر دیا ہے۔ (الایثار مع کتا ب الآثار:ص۲۳۳،۲۳۴)

علاوہ ازیں امام ابن حجرؒ نے آپ کی نقل پر اعتماد کرتے ہوئے ’’کتاب الآثار‘‘ (جس کو امام اعظم ابوحنیفہؒ سے روایت کرنے والوں میں سے آپ بھی ہیں) کو بالجزم امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف قرار دیا ہے۔

چنانچہ امام موصوف لکھتے ہیں:

’’والموجود من حدیث ابی حنیفۃ مفردا، انما ھو کتاب الآثار التی رواھا محمد بن الحسن عنہ‘‘ 

امام ابوحنیفہؒ کی حدیث میں مستقل تصنیف ’’کتاب الآثار‘‘ ہے،جس کو امام محمد بن حسنؒ نے ان سے روایت کیا ہے۔ (تعجیل المنفعہ:ص۱۹)

اور حافظ زبیر علی زئی غیر مقلد نے یہ اُصول بیان کیا ہے کہ محدثین کا کسی کتاب کو بالجزم اس کے مصنف کی تصنیف قرار دینا اس کتاب کے ہر راوی کی توثیق کو مستلزم ہے، چنانچہ علی زئی محمود بن اسحق الخزاعیؒ  (جس نے امام بخاریؒ سے ’’جزء رفع الیدین‘‘ اور ’’جزء قراء ۃ خلف الامام‘‘ روایت کرنے کا دعویٰ کیا ہے، اور خود اس کی توثیق کسی محدث سے صراحتاً ثابت نہیں ہے) کے بارے میں لکھتے ہیں:

ائمہ کا جزء رفع الیدین کو بطور جزم بخاری کی تصنیف قرار دینا اس کی توثیق ہے۔   (نورالعینین:ص۵۳، حاشیہ)

علی زئی کے اس اصول کے پیشِ نظر بھی امام محمدؒ کا امام ابن حجرؒ کے نزدیک ثقہ ہونا ثابت ہورہاہے، کیونکہ آپ کے روایت کردہ نسخہ ’’کتاب الآثار‘‘ کو امام ابن حجرؒ نے بالجزم امام ابوحنیفہؒ کی تصنیف قرار دیا ہے۔ والحمدللہ علیٰ ذلک۔

علاوہ ازیں صاحبِ ہدایہ امام،فقیہ ابو الحسن مرغینانیؒ (م۵۹۳؁ھ) کے قول’’  وقد صح ان النبیﷺ عاد یھودیا  بجوارہ‘‘ کہ  یہ حدیث صحیح ہے کہ نبی ﷺ نے اپنے ایک پڑوسی یہودی کی عیادت فرمائی تھی) کے ذیل میں حافظ ابن حجرؒ نے بطورِ دلیل امام محمدؒ کی کتاب الآثار سے یہ حدیث نقل کی ہے۔  (الدرایہ:۲؍۲۳۸)

اس سے معلوم ہوا کہ حافظ موصوف کے نزدیک امام محمدؒ کی روایت صحیح ہے، اسی طرح حافظ موصوف نے آپ کی ایک روایت کو ’’محفوظ‘‘ اور ایک روایت کو صواب (درست) قرار دیا ہے۔ (ایضاً :۲؍۲۰۰،۲۳۶)

نیز حافظ ابن حجرؒ نے اپنی شرح بخاری ’’فتح الباری ‘‘ میں امام محمدؒ کی کتب (کتاب الآثار اور مؤطا وغیرہ) سے متعدد احادیث نقل کی ہیں، اور ان کی کوئی جرح نہیں کی، جیساکہ امام محمدؒ کی تصانیف کے تعارف میں آرہا ہے، اور خود زبیر علی زئی نے لکھا ہے کہ حافظ ابن حجرؒ ’’فتح الباری‘‘ میں جس حدیث کو نقل کر کے اس پر سکوت کریں اور جرح نہ کریں وہ ان کے نزدیک کم از کم حسن ضرور ہوتی ہے۔  (نورالعینین:ص۱۷۱)

لہٰذا حافظ ابن حجرؒ کا ’’فتح الباری‘‘ میں امام محمدؒ کی احادیث پر سکوت کرنا بھی ایک دلیل ہے کہ آپ ان کے نزدیک ثقہ اور حسن الحدیث ہیں۔

(۲۵)  امام محمد بن یوسف صالحی دمشقی  ۹۴۳؁ھ) :

امام صالحیؒ جو کہ امام سیوطیؒ کے مایہ ناز شاگرد ، جلیل القدر محدث، بلندپایہ مؤرخ اور ’’سیرت الشامیہ‘‘ وغیرہ کتب نافعہ کے مصنف ہیں، قطب ربانی امام شعرانیؒ ۹۷۳؁ھ)

ان کا تعارف درج ذیل القاب سے کراتے ہیں:

’’الاخ الصالح العالم الزاھد، الشیخ ، المتمسک بالسنۃ المحمدیہ ، مفننا فی العلوم‘‘۔  (شذرات الذھب:۸؍۲۵۰)

انہوں نے حضرت امام اعظم ابوحنیفہؒ کے مناقب میں ایک بڑی محققانہ کتاب بنام  ’’عقود الجمان فی سیرۃ الامام الاعظم ابی حنیفۃ النعمان‘‘ لکھی ہے، اس کتاب میں وہ ایک مسئلہ کی تحقیق میں ارقام فرماتے ہیں:

’’ان الثقاۃ الائمۃ من اصحاب الامام ابی حنیفۃ لم ینقلوا عنہ شیئا من ذلک کالامام ابی یوسف ، والامام محمد بن الحسن، فیما جمعاہ من حدیثہ‘‘ 

بے شک امام ابوحنیفہؒ کے تلامذہ میں سے ثقہ ائمہ، جیسا کہ امام ابویوسفؒ اور امام محمد بن حسنؒ ہیں، انہوں نے آپ کی احادیث کے جو مجموعے تیار کئے ہیں ، ان میں انہوں نے آپ سے ایسی کوئی بات نقل نہیں کی۔ (عقود الجمان:ص۶۲)

اس بیان میں خاتمۃ الحفاظ امام صالحیؒ نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو صراحتاً ائمہ ثقات میں شمار کیا ہے ، جو کہ امام موصوف کی طرف سے ان دونوں حضرات کی زبردست توثیق ہے۔

 

 

(۲۶)  امام شمس الدین محمد بن عبدالرحمن ابن الغزی شافعیؒ   ۱۱۶۷) :

امام ابن الغزیؒ ایک بلند مرتبت محدث ہیں، امام محمد بن خلیل مرادیؒ (م۱۲۰۵؁ھ) نے ان کے علم اور محدثانہ مقام کی بہت تعریف کی ہے۔  (دیکھئے : سلک الدرر:۴؍۵۴)

امام موصوف کے نزدیک بھی امام محمدؒ ثقہ ہیں، چنانچہ وہ آپ کے ترجمہ کا آغاز :   الامام ، الحبر، البحر، المجتہد، الحنفی، صاحب المؤلفات الکثیرۃ وغیرہ جیسے عظیم القاب سے کرتے ہیں۔  (دیوان الاسلام:۴؍۱۳۶)

علمائے غیر مقلدین سے امام محمدؒ کی توثیق :

ائمہ حدیث اور اربابِ جرح وتعدیل کے جمِ غفیر کے علاوہ خود غیرمقلدین کے اکابرین نے بھی امام محمد بن حسنؒ کے محدثانہ مقام کی توثیق وتعریف کی ہے۔

ذیل میں ان میں سے چند نامور اہلِ علم کے اقوال ملاحظہ کریں۔

(۱)       شیخ عبدالرحمن الیمانیؒ المعلمیؒ   ۱۳۸۶؁ھ) جن کو علی زئی نے ’’ذہبی عصر حقا‘‘ قرار دیا ہے۔ (نورالعینین:ص۱۱۹) ارقام فرماتے ہیں:

’’وان محمدا کان مع مکانتہ من الفقہ والسنن والمنزلۃ من الدولۃ وکثرۃ الاتباع علی غایۃ من الانصاف فی البحث والنظر‘‘

امام محمدؒ کو فقہ اور سنت (حدیث) میں ایک مقام حاصل تھا، نیز آپ حکومت کے ہاں قدر ومنزلت اور بکثرت اپنے پیروکار بھی رکھتے تھے، لیکن اس سب کے باوجود بحث ونظر میں آپ انتہائی درجہ کے انصاف پسند تھے۔  (التنکیل۴۲۳)

نیز لکھتے ہیں؛

’’فاما محمد بن الحسن فھو اجل وافضل مما یتراء ی ھنا‘‘ 

امام محمدؒ کا انتہائی جلیل القدر اور افضل ہونا شک وشبہ سے بالا تر ہے۔(ایضا:۱؍۴۹۲)

(۲)       علامہ جمال الدین القاسمی الدمشقیؒ ۱۳۳۲؁ھ)امام ابویوسفؒ اور آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں:

’’فقد لینھما اھل الحدیث، کما تری فی ’’میزان الاعتدال‘‘ ولعمری لم ینصفوھما، وھما البحران الزاخران، وآثارھما تشھد بسعۃ علمھما، وتبحرھما، بل بتقدمھما، علیٰ کثیر من الحفاظ، وناھیک ’’کتاب الخراج‘‘ لابی یوسف ومؤطا الامام محمدؒ ‘‘ 

امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو (بعض ) محدثین نے کمزور قرار دیا ہے، جیسا کہ آپ نے ’’میزان الاعتدال‘‘ میں دیکھاہے ، میری عمر (عطا کرنے والے ) کی قسم ! ان محدثین نے ان دونوں اماموں کے ساتھ انصاف نہیں کیا، حالانکہ یہ دونوں علم کے موجزن سمندر ہیں، اور ان کے آثار (روایات) ان کی وسعت علم اور ان کے تبحر علمی پر گواہ ہیں، بلکہ اس بات پر شاہد ہیں کہ یہ دونوں حضرات اکثر حفاظ حدیث پرفوقیت رکھتے ہیں، آپ کو (ان دونوں کے علمی مرتبے کو پہچاننے کے لئے) امام ابویوسفؒ کی ’’کتاب الخراج‘‘ اور امام محمدؒ کی ’’مؤطا‘‘  ہی کافی ہے۔(الجرح والتعدیل:ص۳۱، طبع مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

(۳)      عصرحاصر کےمشہور غیر مقلد عالم شیخ ناصرالدین البانیؒ (جوبقول علی زئی : محدث العصر اور امام المحدثین تھے، عبادات میں بدعات:ص۱۲۸)بھی امام محمدؒ کو ثقہ سمجھتے ہیں، چنانچہ موصوف نے امام محمدؒ کی روایت کردہ ایک حدیث کے متعلق لکھا ہے:

’’فھذا سند حسن ان شاء اللہ ‘‘

اس حدیث کی سند ان شاء اللہ حسن ہے۔(ارواء الغلیل:۷؍۳۳۶)

(۵)      نامور غیر مقلد نواب صدیق حسن خانؒ نے بھی اپنی کتاب ’’التاج المکلل‘‘ میں امام محمدؒ کے علمی مقام اور آپ کی تصانیف کی بڑی تعریف کی ہے۔ (دیکھئے: التاج المکلل: من جواھر مآثر الطراز الآخر والاول:ص۸۰)

واضح رہے کہ نواب صاحبؒ کی یہ کتاب علم حدیث میں مہارت رکھنے والے اہلِ علم کے تذکرے پر مشتمل ہے ، جیسا کہ خود انہوں نے اس کتاب کے مقدمہ میں تصریح کی ہے۔

(۶)       مولانامحمدابراہیم سیالکوٹیؒ ۱۳۷۵؁ھ)اپنی کتاب’’علمائے اسلام‘‘میں امام ابوحنیفہؒ کے تذکرے میں لکھتے ہیں:

آپ سے بہت لوگوں نے فیض علم حاصل کیا، اورآپ کے شاگردامامت کے بلند رتبوں تک پہنچے، چنانچہ ان میں سے امام ابویوسفؒ قاضی القضات، اور امام محمدؒ اور امام عبداللہ بن مبارکؒ اور امام زُفرؒ وغیرہم جلیل الشان امام  آپ کے علمی کمالات کے نمونے تھے۔  (دوماہی مجلہ ’’زمزم‘‘ غازیپور:ج۸ش۳ص۱۵)

(۷)      مولانا محمد اسمٰعیل سلفیؒ ۱۳۸۷؁ھ) سابق امیر جماعت اہل حدیث پاکستان نے امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ کو امام بخاریؒ وغیرہ کبارِ ائمہ حدیث کے ساتھ شمار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

ائمہ حدیث بخاری، مسلم ، ابوداؤود، ترمذی، ابن خزیمہ، ابن جریز طبری، ابو عبدالرحمن اوزاعیؒ ، ابویوسف، محمد، یہ سب اہل حدیث کے مجتہد ہیں۔  (تحریک آزادی فکر:ص۴۹۰)

نیز مولانا موصوف لکھتے ہیں:

امام محمدؒ تو اکابر ائمہ سنت (میں سے) ہیں۔  (ایضا:ص۸۶)

(۸)      مولانا عطاء اللہ حنیفؒ غیر مقلد امام ابویوسفؒ اور امام محمدؒ  کوا ئمہ سلف میں شمار کرتے ہیں، اور یہ تصریح کرتے ہیں کہ:

یہ دونوں امام ابوحنیفہؒ کے قابل شاگرد تھے۔  (حاشیہ حیات امام ابوحنیفہ:ص۲۲۸)

زبیر علی زئی اور موجودہ بعض  اہل حدیث   کی ضد اور ہٹ دھرمی:

قارئین ! آپ نے تفصیل کے ساتھ ملاحظہ کر لیا کہ محدثین اور ارباب جرح وتعدیل کے ایک جم غفیر نے امام محمدؒ کے عظیم محدثانہ مقام کو سراہا ہے، اور ان حضرات نے بڑے پرزور الفاظ میں آپ کی ثقاہت اور آپ کے ’’صدوق فی الحدیث‘‘ ہونے پر گواہی دی ہے، اسی طرح خود غیر مقلدین کے اپنے اکابرین بھی علم حدیث میں آپ کی عظمت شان کو تسلیم کرتے ہیں، لیکن اس سب کے باوجود حافظ زبیر علی زئی غیر مقلدانہ ضد اور ہٹ دھرمی پر اڑے ہوئے ہیں کہ:

کسی امام سے محمد بن الحسن مذکور کی توثیق صراحتاً ثابت نہیں ہے، امام ابن المدینی، امام شافعی اور دیگر علماء سے مروی ایک ایسی روایت بھی ثابت نہیں ہے، جس میں محمد بن الحسنؒ کو ثقہ یا صدوق لکھا گیا ہو۔ (الحدیث:ش۷، ص۱۹)

سچ ہے:

اگر آنکھیں ہیں بند تو پھردن بھی رات ہے

اس میں بھلا قصور ہے کیا آفتاب کا !!



[1] دیکھئے ص :۴۵ ۔

[2] دیکھئے ص : ۱۶-۱۷۔

[3] حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے یہ روایت  امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ)  کی کتاب سے بالسند یوں نقل کی ہے کہ:

              الطحاوي، نا محمد بن شاذان، سمعت الأخفش النحوي، يقول: «ما وضع شيء لشيء قط يوافق ذلك، إلا كتاب محمد بن الحسن في الإيمان، فإنه وافق كلام الناس۔(مناقب الامام ابوحنیفۃ للذہبی : ص ۸۲،۱۹،۳۷)

کیونکہ  طحاوی ؒ(م۳۲۱؁ھ) نے امام ابوحنیفہؒ (م۱۵۰؁ھ) کے مناقب پر کتاب لکھی ہے۔(الجواھر والدرر للسخاوی، عقد الجمان : ص ۶۹)

سند کی تحقیق :

(۱)                امام طحاوی ؒ   مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ثبت محدث ہیں۔(تاریخ الاسلام)

(۲)         محمد بن شاذان الجوھریؒ(م۲۸۶؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تقریب : رقم ۵۹۵۰)

(۳)        سعید بن مسعدۃ،ابو الحسن بصری ،الاخفش الاوسطؒ (م۲۱۵؁ھ) مشہور امام النحووالعربیۃ اور صدوق ہیں۔(سیر اعلام النبلاء : ج۱۰: ص ۲۰۶، دیوان الاسلام : ج۱: ص ۴۸،شذرات الذہب : ج۳: ص ۷۳)

              لہذا یہ سند حسن ہے۔

نیز ثقہ،ثبت،امام ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) نے اپنے شیخ ،امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ) سے یہی روایت نقل کی ہے۔

(فضائل أبي حنيفة وأخباره ومناقبه:ص۳۵۱)

[4] یہ روایت تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے۔اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ:

              أخبرنا علي بن أبي علي قال أنبأنا طلحة بن محمد: قال حدثني مكرم بن أحمد قال نا أحمد بن عطية قال سمعت أبا عبيد يقول: ما رأيت أعلم بكتاب الله من محمد بن الحسن۔

         اس کی سند میں موجود  احمد بن محمد بن المغلسؒ(م۳۰۸؁ھ) پر ائمہ نے جرح کیا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۱۲۹)

              مگر متناً یہ روایت درست معلوم ہوتی ہے،کیونکہ امام ،حافظ ابو عبید قاسم بن سلامؒ (۲۲۴؁ھ) نے کئی مقامات پر  کتاب و سنت کی تشریح  امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹؁ھ) سے پوچھی ہے۔دیکھئے  غریب الحدیث لابی عبید:ت  محمد عبد المعید خان : ج۱: ص ۳۱،۷۹،۱۰۲،۳۳۵،ج۲: ص۲،۲۲،۷۲،۱۴۳،۱۵۴،۱۷۵،۲۳۸،وغیرہ)

              اور ظاہر سی بات ہے کہ ایک عالم اپنے سے زیادہ  جاننے والے سےہی  سوال پوچھتا ہے،امام ابو عیسی الترمذیؒ (م۲۷۹؁ھ) نے اپنی کتاب السنن اور علل میں امام بخاریؒ (م۲۵۶؁ھ) اور امام ابو محمد الدرامیؒ(م۲۵۵؁ھ) سے  حدیث کے تعلق سے سوالات اسی وجہ سے کئے ہیں، کیونکہ امام ترمذیؒ کے نزدیک یہ حضرات حدیث کے میدان میں   ’’اعلم‘‘ تھے۔امام عباس الدوریؒ (م۲۷۱؁ھ)،امام ابو سعید الدارمی ؒ(م۲۸۰؁ھ) وغیرہ ائمہ نے  امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳ ؁ھ) سے رجال اور علل  کے تعلق سے  اسی وجہ سے سوالات کئی ہیں،کیونکہ ان کے نزدیک امام یحیی بن معینؒ (م۲۳۳؁ھ)  ’’اعلم‘‘ تھے۔پس یہی معاملہ امام ،حافظ ابو عبید قاسم بن سلامؒ (۲۲۴؁ھ)  اور  امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کا بھی ہے۔لہذا اس خارجی قرینہ  کی وجہ سے یہ روایت متناً درست ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبی ؒ نے  یہ روایت کو حسن کہا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴) واللہ اعلم

[5] یہ روایت مکمل  سند کے ساتھ  فضائل ابی حنیفۃ اخبارہ و مناقبہ لابن ابی العوام  : ص ۳۵۰ پر موجود ہے۔ چنانچہ امام،حافظ ،قاضی  ابو القاسم ابن ابی العوامؒ (م۳۳۵؁ھ) کہتے ہیں کہ:

          سمعت أحمد بن محمد بن سلامة يقول: سمعت أبي يقول: سمعت إدريس بن يوسف القراطيسي يقول: سمعت الشافعي محمد بن إدريس يقول: ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل۔

         اس سند میں امام احمد بن محمد بن سلامۃ  المعروف ابو جعفر الطحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) کے والد اور ادریس بن یوسف القراطیسیؒ کا ترجمہ اگرچہ نہیں ملا،لیکن حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے اپنی کتاب مناقب میں موجود امام محمد ؒ کے  ترجمہ کو حسن، یعنی ان میں موجود روایات کو حسن کہا ہے۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۴) لہذا ابو جعفر الطحاویؒ (م۳۲۱؁ھ) کے والد اور  ادریس بن یوسف القراطیسیؒ  دونوں بھی حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک صدوق ہیں۔

              اور یہ روایت حسن ہے۔واللہ اعلم  نیز دیکھئے  (اخبار ابی حنیفۃ  و اصحابہ : ص ۱۲۸)

 اور اس روایت کے کئی متابعات و شواھد  موجود ہیں۔

متابع نمبر ۱ :

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ:

              وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن

کیا تو نے کبھی کسی فقیہ کو دیکھا بھی ہے؟  ہاں !  اگر  تو نے محمد بن حسنؒ کو دیکھا ہو، اس لئے کہ  وہ (اپنے فقہی رعب سے) آنکھوں اور دل کو بھر دیتے تھے۔

اگے کہتے ہیں کہ میں نے کبھی  کسی  فربہ جسم آدمی  کو محمد بن الحسن  سے زیادہ  ذہین نہیں دیکھا۔ (تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۶ )

متابع نمبر ۲:

امام شافعیؒ(م۲۰۴؁ھ)  فرمایا کرتے تھے:

میں نے کوئی شخص عقلمندی ، پرہیزگاری،فقاہت ، تقویٰ اور اچھی گفتگو کرنے میں امام محمد بن حسنؒ سے بڑھ نہیں دیکھا ۔   ( مناقب ابی حنیفۃو صاحبہ ص:۵۵)

ظاہرہے  جب کوئی  بے مثال ہوگا،تو اس کو دیکھ کراور اس کا کلام سن کر  آنکھوں کو  ٹھنڈک اور دل کو خوشی ہوگی۔

متابع نمبر ۳ :

         امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن جیسا کسی کو نہیں دیکھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ج۱: ص ۷۸)

متابع نمبر ۴ :

              امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) نے فرمایا :  میری آنکھوں نے محمد بن الحسن ؒ جیسا نہیں دیکھا، اور  عورتوں نے ان جیساان کے زمانے میں  پیدا نہیں کیا۔(مناقب الشافعی للبیہقی   : ج۱ : ص ۱۶۱)،

متابع نمبر ۵ :

              امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ)  کہتے ہیں کہ میں نے محمد بن الحسن  ؒ کے علاوہ  کوئی ایسا فقیہ نہیں دیکھا کہ جس سے کوئی  قابل غور(یا) مشکل  مسئلہ  پوچھا گیا اور  اس کا چہرہ متغیر نہ ہوا  ہو۔(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

متابع نمبر ۶ :

            امام  شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ  کہدو امام محمد بن حسن ؒ سے،جن کو دیکھنے والوں کی آنکھ نے ان جیسا  نہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفۃ و اصحابہ : ص ۱۲۷)

              یہ تمام سندیں حسن ہیں۔ دیکھئے  ص : ۹۱

متابع  نمبر ۷ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              أخبرني محمد بن يحيى المصري خادم المزني، أن الربيع بن سليمان أخبرهم، قال: سمعت الشافعي يقول: حملت عن محمد بن الحسن [حمل] بختي ليس عليه إلا سماعي۔

            امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ)  کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن ؒ سے  ایک  بختی اوٹ کے بقدر علم  حاصل کیا ،جس کو میں نے  خود ان سے سنا تھا۔ (مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         ابو بکر محمد بن یحیی بن آدم المصری بھی  صدوق یا ثقہ ہیں۔دیکھئے (مناقب الشافعی للآبری : ص ۶۷،الکامل لابن عدی : ج۱ : ص ۱۰۰،۷۹)

(۳)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ)  کی توثیق بھی گزرچکی۔

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

نوٹ :

              یہ روایت  صحیح سند کے ساتھ   امام ابن ابی حاتمؒ (م۳۲۹؁ھ) کی کتاب ’’آداب الشافعی  و مناقبہ‘‘ میں موجود ہے۔(دیکھئے ص : ۲۶) نیز یہ  اور اگلی روایت  صاف دلالت کرتی ہے کہ امام شافعیؒ نے امام محمد بن الحسن ؒ سے روایت لی ہے۔

متابع نمبر ۸:

امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا عمر بن إبراهيم المقرىء قال ثنا مكرم قال أنبأ الطحاوي قال ثنا أحمد ابن داود بن موسى قال سمعت حرملة قال سمعت الشافعي يقول ما رأيت أحدا قط إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته إلا محمد بن الحسن فأنه كان إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته ولقد كتبت عنه حمل بعير ذَکَرٍ وإنما قلت ذكر لأنه بلغني أنه يحمل أكثر مما تحمل الأنثى

         میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ جب وہ بات کرے تو مجھے ایسا لگے کہ قرآن اس کی زبان میں نازل ہوا ہے، سوائے محمد بن الحسن کے، اس لئے کہ جب وہ بات کرتے تھے تو مجھے ایسا لگتا کہ قرآن ان کی زبان میں نازل ہوا ہے، میں نے ان سے ایک نر اونٹ کے وزن اٹھانے کے بقدر علم لکھا ہے، اور میں نے نر اونٹ اس لئے کہا کیوں کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ وہ مادہ (اونٹنی) سے زیادہ بوجھ اٹھاتا ہے۔۔(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ : ص۱۲۸،نیز دیکھئے  مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۸، تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

سند کی تحقیق :  

(۱)         امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ (م۴۳۶؁ھ)

(۲)         امام عمر بن ابراھیم،ابو حفص  الکتانیؒ (م۳۹۰؁ھ)

(۳)        مکرم القاضیؒ (م۳۴۰؁ھ)  اور

(۴)        امام طحاویؒ (م۳۲۱؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

(۵)        احمد بن داود بن  موسی المکیؒ  (م۲۸۲؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۳۳۳)

(۶)         حرملہ بن یحیی المصریؒ (م۲۴۴؁ھ)  صحیح مسلم کے راوی  اور صدوق ہیں۔(تقریب : رقم ۱۱۷۵)

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

نوٹ :

              اس روایت سے فضائل ابی حنیفۃ اخبارہ و مناقبہ لابن ابی العوام    والی روایت  ’’ ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل ‘‘ کی واضح  تائید ہوتی ہے۔ واللہ اعلم

متابع نمبر ۹ :

امام ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے کہا :

              وقرئ على مكحول بساحل الشام بمدينة بيروت وأنا أسمع، أنه سمع إبراهيم بن خرزاذ أخا عثمان بن خرزاذ أظن أنه قال: سمعت حرملة يقول: سمعت الشافعي يقول: ((كتبت عن محمد بن الحسن وقر حمل))

              امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد بن الحسن سے ایک اوٹ پر لادے جانے کے بقدر (روایات  اور علم کی کتابیں) لکھی ہے۔

(مناقب الشافعی للآبری : ص ۷۶)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو الحسن محمد بن الحسین الآبریؒ (م۳۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         مکحول سے مراد  ابو عبد الرحمٰن  محمد بن  عبد اللہ بن عبد السلام  مکحول البیروتیؒ(م۳۲۱؁ھ) ہیں۔( مناقب الشافعی للآبری :ص ۱۰۰) اور وہ  مشہور ثقہ اور مضبوط راوی ہیں۔(ّارشاد القاصی والدانی : ص ۵۸۱)

(۳)        ابراھیم بن خرزاذ کی روایت کو امام ابو عوانہؒ (م۳۱۶؁ھ) نے صحیح ابی عوانہ میں نقل کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ : ج۱۰: ص ۳۳۱،ج۱۳: ص ۳۲۸،ج۱۸: ص ۳۲۰،۳۴۷،۴۵۷،وغیرہ)

              لہذا وہ بھی امام ابو عوانہؒ (م۳۱۶؁ھ) کے نزدیک کم از کم   صدوق ہیں۔

(۴)         حرملہ بن یحیی المصریؒ (م۲۴۴؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔

لہذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر ۱۰ :

امام  ابن ابی حاتم ؒ(م۳۲۹؁ھ) نے کہا :

قال: حدثني أبو بشر بن أحمد بن حماد الدولابي نزيل مصر، ثنا أبو بكر بن إدريس يعني كاتب الحميدي، قال: سمعت عبد الله بن الزبير بن عيسى القرشي الحميدي، قال: قال الشافعي:۔۔۔۔۔ وكان محمد بن الحسن، جيد المنزلة، فاختلفت إليه، وقلت: هذا أشبه لي من طريق العلم، فلزمته، وكتبت كتبه، وعرفت قولهم، وكان إذا قام ناظرت أصحابه۔

              امام شافعی ؒ(م۲۰۴؁ھ) نے کہا : کہ امام محمد بن الحسن ؒ  (م۱۸۹؁ھ) کا علمی مقام بہت خوب تھا ،   لہذا میں آپ کے پاس جاتا رہا ، میں نے کہا : حصول علم کیلئےیہ میرےلئے زیادہ مناسب ہے، پس میں نے آپ کو لازم پکڑا ، آپ کی کتابیں لکھ لیں، اور ان کا قول سمجھ لیا ، اور جب آپ (مجلس سے ) اٹھتے تو آپ کے شاگردوں سے میں مناظرہ کرتا۔( آداب الشافعی  و مناقبہ لابن ابی حاتم :  ۲۶)

سند کی تحقیق :

(۱)         امام ابو عبد الرحمٰن ابن ابی حاتمؒ(م۳۲۹؁ھ) مشہور ثقہ،حافظ الحدیث اور ائمہ جرح و تعدیل میں سے ہے۔

(۲)         امام،حافظ ابو بشر الدولابیؒ(م۳۱۰؁ھ) کی توثیق  گزرچکی،دیکھئے (دوماہی مجلہ الاجماع : ش ۴ : ص ۲)

(۳)        ابوبکر ،محمد بن ادریس بن عمر المکی، وراق الحمیدیؒ  بھی صدوق ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۸ : ص ۱۶۷)

(۴)        امام عبد اللہ بن زبیر الحمیدیؒ (م۲۱۹؁ھ) مشہور ثقہ، امام اور حافظ الحدیث ہیں۔(تقریب : رقم ۳۳۲۰)

لہذا یہ سند بھی حسن ہے۔

وضاحت :

              اس روایت میں امام شافعیؒ نے دین میں امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کے بلند مقام اورحیثیت کی شہادت دی ہے،جس سے ان کے نزدیک امام  محمد ؒ  کا  معتبر ہونا صاف  ظاہر ہے۔

متابع نمبر ۱۱:

حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے کہا :

              أخبرنا رضوان بن محمد الدينوري قال سمعت الحسين بن جعفر العنزي بالري يقول سمعت أبا بكر بن المنذر يقول سمعت المزني يقول سمعت الشافعي يقول: ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأيت أفصح منه، كنت إذا رأيته يقرأ كأن القرآن نزل بلغته

              میں نے کسی فربہ بدن کو محمد بن الحسن سے زیادہ نرم دل نہیں دیکھا، اورنہ آپ سےزیادہ کسی کو فصیح دیکھا ، جب میں آپ کو پڑھتے ہوئے دیکھتا تو (یوں محسوس کرتا) گویا قرآن آپ کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

سند کی تحقیق :

(۱)         حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔

(۲)         رضوان بن محمد الدینوریؒ (م۴۲۶؁ھ) صدوق ہیں۔(تاریخ بغداد : ج۹: ص ۴۳۱، طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت)

(۳)        الحسین بن جعفر العنزیؒ (م۳۹۸؁ھ) ثقہ،امام اورفقیہ ہیں۔(الروض الباسم : ج۱: ص ۴۴۲)

(۴)        ابو بکر ابن المنذر ؒ(م۳۱۹؁ھ) مشہور ثقہ،مجتہد اور حافظ الحدیث ہیں۔(لسان المیزان: ج۶: ص ۴۸۲)

(۵)        الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ)  کی توثیق بھی گزرچکی۔

لہذا یہ سند حسن ہے۔

متابع نمبر ۱۲:

حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے کہا :

حدثني الحسن بن محمد بن الحسن الخلال قال أنبأنا علي بن عمرو الحريري أن أبا القاسم علي بن محمد بن كاس النخعي حدثهم قال نبأنا أحمد بن حماد بن سفيان قال سمعت الربيع بن سليمان قال سمعت الشافعي يقول: ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن.

              امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ میں امام محمد ؒ سے زیادہ عقلمند کسی کو نہیں دیکھا۔(تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ )

              اس روایت کے تمام روات ثقہ ہیں۔ جس کی تفصیل کتب  اسماء الرجال میں موجود ہے۔

              اسی سند کے ساتھ، حافظ المشرق ،امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) نے امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) ایک اور قول ذکر کیا ہے  کہ ’’ أمن الناس علي في الفقه محمد بن الحسن ‘‘فقہ (سکھانے ) میں سب سے زیادہ مجھ پر احسان امام محمدبن حسنؒ کا ہے۔ (تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۳،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۷)

            اسی طرح ایک اور  روایت میں امام شافعیؒ  (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ لم يزل محمد بن الحسن عندي عظيما جليلا‘‘  امام محمد بن الحسنؒ  میرے نزدیک برابر ایک عظیم اور جلیل القدر انسان تھے۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۱۷،نیز دیکھئے متابع نمبر ۱۰)

              ایک اور جگہ امام محمد بن ادریس ؒ(م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ كنت لا أدْري أحداً آنَسُ به إلا محمد بن الحسن، وكُنْت أَميلُ إليه؛ للفقه ‘‘  میں کسی کو نہیں جانتا تھا جن سے مجھے انس ہو سوائے امام محمد بن الحسنؒ کے اور میں فقہ کی وجہ سے آپ کی طرف مائل تھا۔ (مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۱۳، نیز دیکھئے ص : ۱۰۸)

              ایک جگہ امام شافعیؒؒ(م۲۰۴؁ھ)   کا ارشاد ہے کہ ’’ ما رأيت رجلا أعلم بالحرام والحلال والعلل والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن ‘‘ کہ میں نے  امام محمدؒ سے زیادہ حلال  اور حرام،علل اور ناسخ اور منسوخ کو جاننے والانہیں دیکھا۔(اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ : ص ۱۲۸، نیز دیکھئےص : ۱۲۷)

              اخیر کی ۳ روایات جو ہم نے اختصار کے ساتھ ذکر کی ہے کہ ان  روایات کی سندوں میں ضعف ہے ،لیکن متناً وہ روایات صحیح معلوم  ہوتی ہیں اس لئے کہ ان  کے شواہد موجود ہیں،جن کی طرف اشارہ ہم نے ان روایات کے حوالوں کے ساتھ کردیا ہے۔

لہذا ان  روایات کو غیر ثابت قرار دینا  بیکار ہے۔

خلاصہ یہ کہ امام شافعیؒ ،امام محمد ؒ کے اعلیٰ مقام اور عظمت کے قائل ہیں،اور ان سے روایات بھی لی ہیں، نیزامام محمد ؒ ان کے نزدیک صدوق  بھی  ہیں،جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔دیکھئے ص :۱۲۴۔

ایک آخری وضاحت :

              امام محمد ؒ کی مدح میں وارد امام شافعیؒ کے بعض اقوال کو ائمہ شافعیہ نے اصحاب الرأی کے درمیان محمول کیا ہے،مثلاً    امام شافعیؒ (م۲۰۴؁ھ) نے کہا : کہ ’’ ما كلمت أَسْوَدَ الرأس أعقل من محمد بن الحسن ‘‘ میں نے کالے سر والوں میں امام محمد بن الحسنؒ سے زیادہ  عقلمند  سے بات نہیں کی۔(مناقب الشافعی للبیہقی : ج۱: ص ۱۵۸، واسنادہ صحیح)ائمہ شافعیہؒ کہتے ہیں کہ یہاں درصل امام شافعیؒ کی مراد یہ ہے کہ میں نے اصحاب الرأی میں  امام محمد بن الحسنؒ سے زیادہ  عقلمند  سے بات نہیں کی۔

              اسی طرح  اور دوسرے بعض اقوال  ’’ ما رأيت مثل محمد بن الحسن ‘‘ اور ’’ ما رأت عيناي مثل محمد بن الحسن، ولم تلد النساء في زمانه مثله ‘‘ میں بھی یہی تاویل کی گئی،لیکن  حقیقت  یہ ہے کہ امام شافعیؒ نے یہ باتیں علی الاطلاق کہی ہیں ،کیونکہ ایک روایت دوسری روایت کی وضاحت کرتی ہے۔(دین الحق از ابو صہیب داود ارشد: ج۱ : ص ۶۶۹) اور ان کے دوسرے اقوال  صریح طور پر اطلاق پر دلالت کرتے ہیں ۔

              ’’ ما رأيت سمينا أخف روحا من محمد بن الحسن، وما رأيت أفصح منه، كنت إذا رأيته يقرأ كأن القرآن نزل بلغته ‘‘

’’ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ، جَيِّدَ الْمَنْزِلَةِ ‘‘

’’ ما رأيت أحدا قط إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته إلا محمد بن الحسن فأنه كان إذا تكلم رأيت القرآن نزل بلغته ولقد كتبت عنه حمل بعير ذلك وإنما قلت ذكر لأنه بلغني أنه يحمل أكثر مما تحمل الأنثى‘‘

’’ وهل رأيت فقيها قط؟ اللهم إلا أن تكون رأيت محمد بن الحسن فإنه كان يملأ العين والقلب، وما رأيت مبدنا قط أذكى من محمد بن الحسن ‘‘

’’ ما رأيت أعقل من محمد بن الحسن ‘‘

’’ ما رأيت أعلم بكتاب الله عز وجل من محمد بن الحسن، كأنه عليه نزل ‘‘

’’ قال كتب الشافعي إلى محمد بن الحسن وقد طلب منه كتبه لينسخها فأخرها عنه فكتب إليه قل لمن لم تر عين من رآه مثله ‘‘

’’ ما رأيت أحداً يسئل مسألةً فيها نظر إلا رأيت الكراهة في وجهه إلا محمد بن الحسن ‘‘

’’مارأیت اعقل ولا ازھد ولا أفقه ولا اورع ولا احسن نطقا وایراداً من محمد بن الحسن‘‘

’’ ما رأيت رجلا أعلم بالحرام والحلال والعلل والناسخ والمنسوخ من محمد بن الحسن ‘‘

’’امن الناس علی فی الفقہ محمد بن الحسن‘‘ 

لہذا صحیح اور راجح یہی ہے کہ امام شافعیؒ  کے  یہ اقوال علی الاطلاق ہیں اور ائمہ شافعیہ رحم اللہ علیھم کی تاویل بے دلیل ہے ۔ واللہ اعلم

[6] یہ روایت حسن درجہ کی ہے،جس کی تفصیل گزرچکی۔دیکھئے ص :۹۰ ۔

[7] یہ روایت  تاریخ  بغداد : ج۲ : ص۱۷۲،طبع دار الکتب  العلمیۃ،بیروت ، اور تاریخ بغداد  بتحقیق شیخ بشار العواد معروف : ج۲ : ص ۵۶۵ پر موجود ہے۔ اس کی سند یوں  ہے،حافظ المشرق امام خطیب بغدادی ؒ (م۴۶۳؁ھ) کہتے ہیں کہ

              حدثنا أبو طالب يحيى بن علي بن الطيب العجلي بحلوان، قال: أخبرنا أبو بكر ابن المقرئ بأصبهان، قال: حدثنا أبو عمارة حمزة بن علي المصري، قال: سمعت الربيع بن سليمان، يقول: سمعت الشافعي، يقول: لو أشاء أن أقول إن القرآن نزل بلغة محمد بن الحسن، لقلته لفصاحته۔

              لیکن حافظ ابو الحسن الآبریؒ(م۳۶۳؁ھ) نے اس روایت کو اور بھی مختصر سند سے بیان کیا ہے،وہ کہتے ہیں کہ

اخبرني الزبير بن عبد الواحد بحمص, قال: حدثني أبو عمارة بمصر, قال: سمعت الربيع بن سليمان يقول: سمعت الشافعي يقول: لو أشاء أن أقول: نزل القرآن بلغة محمد بن الحسن من فصاحته۔(مناقب الشافعی للابری : ص۷۸)

            اس سند کے تمام روات ثقہ یا صدوق ہیں۔ حافظ ابو الحسن الابریؒ(م۳۶۳؁ھ)  کی توثیق گزرچکی۔زبیر  بن عبد الواحد  الاسدبادیؒ(م۳۴۷؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(تاریخ الاسلام : ج۷: ص ۸۵۰)،ابو عمارۃ علی بن حمزہ مصریؒ(م۳۰۷؁ھ) کے حالات تاریخ مصر لابن یونس :ج۱: ص ۱۳۷ پر موجود ہیں۔اور  ان کی روایت کو حافظ ذہبی ؒ نے حسن کہا ۔(مناقب ابو حنیفہ : ص ۸۰) لہذا وہ بھی صدوق ہیں۔

              خلاصہ یہ کہ حافظ الآبریؒ کی یہ روایت حسن ہے۔

              اسی طرح یہ روایت  اخبار ابی حنیفہ للصیمری اور تاریخ بغداد للخطیب  میں دیگر سندوں کے ساتھ موجود ہے،جس کی تفصیل  ص : ۱۱۰-۱۱۲ پر موجود ہے۔

[8] یہ روایت حسن ہے، دیکھئے ص :۱۱۲ ۔

امام محمدؒ کی فصاحت پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

            امام شافعیؒ سے امام محمدؒ کی فصاحت کے متعلق متعدد روایات منقول ہیں، صرف علامہ خطیب بغدادیؒ کی تاریخ میں تین مختلف اسناد کے ساتھ ان سے امام محمدؒ کا فصیح ہونا منقول ہے، ان تینوں اسناد کے متون ہم نے اوپر درج کر دئیے ہیں، اسی طرح علامہ خطیب بغدادیؒ کے استاذ امام صیمریؒ  کی کتاب ’’اخبار ابی حنیفۃ واصحابہ‘‘ میں بھی امام شافعیؒ سے دو مختلف اسناد کے ساتھ امام محمدؒ کی فصاحت کی تعریف مروی ہے، اسی طرح دیگر کتب میں بھی مختلف اسناد کے ساتھ امام شافعیؒ سے یہ روایت کیا گیا ہے ، اور پھر دیگر اہلِ علم نے بھی امام محمدؒ کا فصیح ہونا تسلیم کیاہے، لیکن اس سب کے باوجود زبیر علی زئی کا تجاہلِ عارفانہ ملاحظہ کریں کہ وہ دانستہ اس قول کی ان سب اسناد سے صَرفِ نظر کرتے ہوئے ’’تاریخِ بغداد‘‘ سے اس کی محض ایک سند کولے کر اس قول کو مشکوک ثابت کرنے کی سعی ٔ نامراد کر رہے ہیں۔ (دیکھئے: الحدیث:ش۷،ص۱۳، حاشیہ :۳)

ایں چہ بوالعجبی است

            اور پھر لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت صحیح بھی ثابت ہوجائے تو اس کا تعلق نہ جرح سے اورنہ تعدیل سے، فصاحت اور چیز ہے، اور عدالت وثقاہت اور چیزہے ۔ (ایضاً)، لیکن سوال یہ ہے کہ کس نے اس قول کو بطورِ توثیق پیش کیاہے؟ کہ جناب کو اس صحیح السند قول کو مشکوک ثابت کرنے کی زحمت اٹھانا پڑی، اور اس کی وجہ سے آپ اس قدر آگ بگولہ ہورہے ہیں؟  علی زئی صاحب جیسے لوگ (جو علم اور فصاحت دونوں سے عاری ہیں) ایسی باتوں کو کیا سمجھ سکتے ہیں کہ جب کسی شخص کو علم کے ساتھ فصاحت سے بھی نوازا جائے تو وہ اس کے لئے بہت بڑا اعزاز اور کمال ہوتا ہے؟

[9] یہ روایت  اخبار ابی حنیفہ و اصحابہ  : ص ۱۳۳ پر موجود ہے۔چنانچہ امام ابو عبد اللہ الصیمریؒ(م۴۳۶؁ھ) کہتے ہیں کہ

              أخبرنا عبد الله بن محمد الحلواني قال ثنا مكرم قال ثنا محمد بن عبد السلام عن أبي خازم القاضي قال سمعت بكرا العمي يقول إنما أخذ محمد بن سماعة وعيسى بن أبان حسن الصلاة من محمد بن الحسن رضي الله عنه

                        اس کی سند کے تمام روات کی توثیق گزرچکی۔دیکھئے (ص:۴۳)،  لیکن عبد اللہ بن محمد ،ابو القاسم الشاہدؒ(م۳۸۷؁ھ) پر کلام ہے،لیکن ان پر اس روایت میں کلام باطل و مردود ہے۔کیونکہ ان سے پہلے ثقہ،ثبت،حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(م۳۳۵؁ھ) نے یہ روایت صحیح سند کے ساتھ   بیان کردی تھی،چنانچہ  فضائل ابی حنیفہ میں ہے کہ

              قال ابن ابی العوام قال أبو جعفر: وسمعت أبا خازم القاضي يقول: سمعت بكراً العمي يقول: إنما أخذ ابن سماعة وعيسى بن أبان حسن الصلاة من محمد بن الحسن۔(ص: ۳۷۰)

              اس روایت میں امام ابو جعفر الطحاوی ؒ(م۳۲۱؁ھ) نے محمد بن عبد السلام الدمشقیؒ (م۳۱۷؁ھ) کی متابعات کردی ہے۔روات کی تفصیل کے لئے دیکھئے ص : ۳۹، لہذا یہ روایت صحیح ہے۔

[10] حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے یہ روایت  امام طحاویؒ(م۳۲۱؁ھ)  کی کتاب سے بالسند یوں نقل کی ہے کہ

              قال الطحاوي: سمعت أحمد بن أبي عمران يحكي، عن بعض أصحاب محمد بن الحسن، أن محمدا كان حزبه في كل يوم وليلة ثلث القرآن۔(مناقب الامام ابوحنیفۃ للذہبی : ص ۹۴،۱۹،۳۷)

روات کی تفصیل :

امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی توثیق گزرچکی۔احمد بن ابی عمران الفقیہؒ(م۲۸۸؁ھ) بھی ثقہ ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۲: ص ۱۱۲)،امام ابن ابی عمران کے وہ شیوخ،جو امام محمد ؒ کے تلامذہ  ہیں،ان میں کوئی بھی راوی ضعیف نہیں ملا ہے۔شاید اسی وجہ سے حافظ ذہبیؒ نے اس روایت کو حسن کہا ہے۔(مناقب : ص ۹۴)  واللہ اعلم

اس روایت کو امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی سند سے ،حافظ ابو القاسم ابن ابی العوامؒ(۳۳۵؁ھ) نے بھی روایت کیا ہے۔(فضائل ابی حنیفہ : ص ۳۶۸)

[11] اس روایت کے تمام روات ثقہ اور سند صحیح ہے۔(دیکھئے ص:۱۳۳ )

[12] حافظ ذہبیؒ اس قول کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ : یہ قول منکر (انوکھا) ہے۔علامہ زاہد الکوثریؒ اس پر نقد کرتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:

              ’’لاوجہ لقول الذھبی ھذا ، لأن ابن کاس ثقۃ، واحمد بن حماد بن سفیان وثقہٗ الخطیب۔ (۴؍۱۲۴)  علی تعنتہٖ، وقال الدار قطنی: لابأس بہٖ، ولم یقل فیہ جرح وللخبر شواھد عدیدۃ فلایکون کلام الذھبی متمشیا مع قواعد النقد‘‘

              حافظ ذہبیؒ کے اس قول کی کوئی وجہ نہیں بنتی ، کیونکہ امام ابن کاس (جو اس قول کے ناقل ہیں) ثقہ ہیں، (اسی طرح ان کے استاذ) احمد بن حماد بن سفیان کو علامہ خطیب بغدادیؒ نے باوجود اپنے تعنت (مخالفین کے بارے میں تشدد) کے ان کو ثقہ قرار دیا ہے، اور امام دار قطنیؒ  ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ان میں کوئی خرابی نہیں ہے، نیز ان کے متعلق کوئی جرح منقول نہیں ہے، اور اس خبر کے متعدد شواہد بھی ہیں، لہٰذا حافظ ذہبیؒ کا یہ کلام جرح کے قواعد کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں رکھتا۔(حاشیۃ مناقب ابی حنیفۃ وصاحبہ۵۵)

تنبیہ:      

زبیر علی زئی نے علامہ کوثریؒ کے اس مذکورہ جواب کا رد کرتے ہوئے لکھا ہے:

یہ روایت دو وجہ سے مردود ہے:

 (۱)          ابن کاس النخعی تک سند نامعلوم ہے۔

(۲)          حافظ ذہبیؒ نے اس قول کو منکر قرار دیا ہے۔

اور یہ ظاہر ہے کہ راوی اپنی روایت کو دوسروں کے بہ نسبت زیادہ جانتا ہے، لہٰذا کوثری کا ذہبیؒ پر ردّ   مردود ہے۔  (الحدیث:ش۵۵:ص۳۲)

جواب:

              علامہ خطیب بغدادیؒ وغیرہ محدثین نے ان سے امام ابوحنیفہؒ اور آپ کے تلامذہ کے فضائل سے متعلق متعدد اقوال بہ سندِ متصل نقل کئے ہیں، مثلاً امام شافعیؒ کے مذکورہ قول کے شروع کے الفاظ ’’مارأیت اعقل من محمد بن الحسن‘‘ کو علامہ خطیب ؒ نے امام ابن کأسؒ سے بہ متصل نقل کیا ہے، (تاریخ بغداد:۲؍۱۷۲)،ڈاکٹر اکرم ضیاء العمری نے تاریخ بغداد میں خطیب بغدادی نے  جن جن کتب سے اقوال نقل کیا ہے۔ان  سب کو اپنی کتاب  ’’موارد الخطیب فی تاریخ بغداد ‘‘ میں جمع کیا ہے۔

              موصوف  اسی کتاب کے ص ۱۸۳ پر لکھتے ہیں(جس کا خلاصہ یہ ہے) کہ خطیب ؒ نے ۶۰ مقامات پر ابن کاس النخعیؒ سے روایات نقل کی ہیں جو کہ(عامۃً)  امام  ابو حنیفہ ؒ  کے مناقب  کے تعلق  سے ہیں اور اخیر میں کہتے ہیں کہ شاید ابن کاس النخعیؒ نے امام ابو حنیفہ ؒ کے مناقب پر کتاب لکھی ہے، جہاں سے خطیب نے ان روایات کو نقل کیا ہے۔

لیکن  حافظ محمد بن یوسف الصالحی ؒ (م۹۴۲؁ھ) نے واضح کیا کہ امام ابن کأسؒ(م۳۲۴؁ھ) نے امام ابو حنیفہؒ کے مناقب میں ’’تحفۃ السلطان  فی مناقب النعمان‘‘ کے نام سے بہترین کتاب لکھی ہے۔ (الجواھر الدررللسخاوی  : ج۳: ص ۱۲۵۵،عقود الجمان، ص۴۹، کشف الظنون :ج۲: ص ۱۸۳۸وغیرہ)  لہذا حافظ ذہبیؒ  نے امام شافعیؒ کا مذکورہ قول امام ابن کاسؒ کی کتاب سے نقل ہے۔

ا س پر مزید دلائل یہ ہیں  کہ امام ذہبیؒ  نے ثقہ، امام ،قاضی ابوبکر ابن ابی العوام ؒ  (م۳۳۵؁ھ) کی  حوالے سے روایت ذکر کی ہے۔تو صراحت فرمائی کہ یہ روایت ان کی کتاب میں موجود ہے۔(مناقب : ص ۱۶)، اسی طرح  محمد بن حماد بن المبارک المصیصی  ؒ مولی بنی ھاشم سے روایات ذکر کی ،توصراحت فرمائی کہ  یہ روایات ان کی کتاب سیرۃ ابی حنیفہ  سے ذکرکی   گئی ہے۔(مناقب : ص ۲۳)  اور حافظ ذہبیؒ نے  امام طحاوی ؒ (م۳۲۱؁ھ) کی کتاب سے بھی  امام صاحب ؒ اور صاحبین  کے مناقب ذکر کئے  ہیں،چنانچہ ایک مقام پر  امام طحاوی ؒ کی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،حافظ ذہبیؒ  کہتے ہیں کہ ’’روى نحوها الطحاوي بإسناد آخر إلى الليث ‘‘۔(مناقب : ص۳۷،نیز دیکھئے ص : ۱۹)  پس اسی منہج سے واضح ہوتا ہے کہ ابن کاس سے  روایات   ذہبیؒ نے ان کی کتاب  لی ہے۔ واللہ اعلم،

خود زبیر علی زئی   نے بھی  علامہ عبدالحق اشبیلیؒ کے امام ابن مغیثؒ سے نقل کردہ قول کے بارے میں لکھا ہے کہ:

ظن غالب یہی ہے کہ یہ قول ان (ابن مغیث) کی کتاب  ’’المجتہدین‘‘ میں مذکور ہوگا۔ (امین اکاڑوی کا تعاقب:ص۳۴)

کاش یہاں ابن کاس کی روایت میں بھی  زبیر علی زئی صاحب ایسے ہی فیصلے کردیتے ، تومسلک پرستی   کا عدم ثبوت  مل جاتا  ، ویسے زبیر علی زئی کی تسلی کیلئے یہ بھی عرض ہے کہ حافظ ذہبیؒ کی امام ابن کاسؒ تک سند متصل ہے، اور انہوں نے کئی جگہوں پر امام ابن کاسؒ کے اقوال کو اپنی سند سے نقل کیا ہے، مثلاً امام اعظم ابوحنیفہؒ کے ترجمہ میں وہ امام ابن کاسؒ سے ایک قول کو نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’اخبرنا ابن علان کتابۃ، انبانا الکندی، انبانا الفراز، انبانا الخطیب ، انبانا الخلال ، انبانا علی بن عمرو الحریری، حدثنا علی بن محمد بن کاس النخعی…‘‘ (سیراعلام النبلاء:۶؍۳۹۱،۳۹۲) 

اس سند میں مذکور یہ سب مشہور راوی ہیں۔(دیکھئے بالترتیب: معجم شیوخ الذھبی: ص۶۱۷، سیر اعلام النبلاء:۲۲؍۳۴، کتاب الانساب:۴؍۴۹، سیر اعلام النبلاء:۱۸؍۲۷۰، تاریخ بغداد:۷؍۴۳۷، ایضاً، ۱۲؍۲۸)

لہٰذا علی زئی کا اس قول کی سند پر اعتراض فضول ہے۔

رہا   حافظ ذہبیؒ  کا اس قول کو منکر کہنا ،تو ان کی پوری عبارت اس طرح ہے :

قلت: لم يرو هذا عن الربيع، إلا أحمد بن حماد، وهو قول منكر

میں کہتا ہو کہ  اس قول کو ربیع  ؒ سے احمد بن حماد بن سفیان  نے ہی نقل کیا ہے اور یہ قول منکر ہے۔(مناقب : ص ۸۷) اس  سے معلوم ہوا کہ  چونکہ اس قول کو ربیع سے روایت کرنے والے صرف  احمد بن حماد  بن سفیان ہی ہیں۔اس لئے حافظ ذہبیؒ نے اس قول  کو منکر قرار دیا ہے۔یعنی یہاں پر منکر بمعنی  تفرد ہے۔اور امام ابن کاس النخعیؒ(م۳۲۴؁ھ) ثقہ،فقیہ اور امام ہیں۔(ارشاد القاصی وا لدانی : ص ۴۳۹)، ۱حمد بن محمد بن سفیان الکوفیؒ (م۲۹۷؁ھ)  بھی ثقہ راوی ہیں۔(کتاب الثقات للقاسم : ج۱: ص ۳۲۶)، اور الربیع بن سلیمان، ابو محمد المصریؒ (م۲۷۴؁ھ) سنن ابو داود اور سنن نسائی کے راوی اور ثقہ ،فقیہ اور حافظ   ہیں۔(تقریب : رقم ۱۸۹۴)، کیا ثقہ کا تفرد  بھی اہل حدیث حضرات کے نزدیک  ضعیف  و مردود ہے ؟؟

جبکہ خود اہل حدیث  کے نزدیک ثقہ کا تفرد روایت کے صحت کے منافی نہیں ہے۔(مسنون رکعات تروایح  از کفایت اللہ سنابلی : ص ۲۱-۲۳،توضیح الکلام : ص۱۷۰،۱۷۱،۴۵۴)

 اور  زبیر علی زئی صاحب کہتے ہیں کہ  اگر زیادت بیان کرنے والا  ثقہ ہو تو قول راجح میں یہ زیادت مقبول ہوتی ہے۔ بشرطیکہ اس میں ثقہ راویوں یا اوثق کی ایسی مخالفت نہ ہو جس میں تطبیق نہ ہو۔ آگے  موصوف کہتے ہیں کہ یہ بات ہمارے  علم میں ہے کہ بعض محدثینِ کرام اور اکابر علماء  ثقہ راوی کی زیادت کو مخالفت قرار دیتے تھے،مگر راجح یہی ہے  کہ اسے مخالفت   قرار دینا مرجوح ہے اور ثقہ راوی کی زیادت اگر ثقات و اوثق کےمخالف و منافی نہ ہو تو مطلقاً مقبول ہے،چاہے سند میں ہو یا متن میں۔(الاعتصام :ش۴۶: ص۲۳،۲۱تا ۲۷ نومبر ۲۰۰۸) نیز ایک اور مقام  پر مسند احمد میں موجود اپنی سینے پر ہاتھ  باندھنے والی روایت کے بارے میں زبیر صاحب  لکھتے ہیں کہ  اس روایت میں علی صدرہ کا  اضافہ صرف مسند احمد میں ہے اور دوسری کتابوں مثلاً سنن ترمذی،سنن ابن ماجہ اور سنن دارقطنی وغیرہ میں یہ اضافہ نہیں ہے تو کیا  اس زیادت کو رد کردیا جائےگا ؟؟ (الاعتصام : ش ۴۷: ص ۱۲،۲۸ تومبر تا ۴ دسمبر ۲۰۰۸)

خلاصہ یہ اعتراض باطل و مردود ہے۔

[13] اس قول  پر زبیر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت کے لئے  دیکھئے ص : ۷۸ ۔

[14] امام علی بن مدینیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              زبیر علی زئی غیر مقلد نے امام علی بن مدینی کے اس قول کی سند پر یہ اعتراض کیا ہے کہ اس کے راوی عبداللہ بن علی بن المدینیؒ کی توثیق نامعلوم ہے۔ (الحدیث:ش۷،ص۱۶، حاشیہ:۷) جس کا جواب   مجلہ الاجماع :  ش۶: ص ۶۱ میں دیا جاچکا ہے۔ 

لہذا  اس شکل میں عبداللہ بن علی بن المدینیؒ  مقبول ہے اور  زبیر علی زئی صاحب کا اعتراض مردود ہے۔

کس کا یقین کیجئے کس کا یقین نہ کیجئے

لائے ہیں لوگ بزم یار سے خبر الگ الگ

 

[15] احمدبن کاملؒ (م۳۵۰؁ھ) کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

علی زئی نے اس قول کی سند پر اعتراض کرتے ہوئے لکھاہے کہ : اس کا راوی ابو عبید اللہ محمدبن عمران المرزبانی ہے ، جس کے بارے میں عتیقیؒ نے کہا: وہ ثقہ تھا، ازہری نے کہا: وہ ثقہ نہیں تھا، اور کہا: ہمارے نزدیک کذب بیانی نہیں کرتا تھا، ابو عبیداللہ بن الکاتب نے کہا: میں نے اس کا ایک معاملہ دیکھا ہے جس سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ کذاب تھا، محمد بن ابی الفوارس نے کہا: اس میں اعتزال اور تشیع تھا۔(دیکھئے: تاریخ بغداد: ۳؍۱۳۵) جمہور کی جرح سے معلوم ہوا کہ مرزبانی مذکور ضعیف راوی ہے۔  (الحدیث:ش۵۵۳۳)

جواب  :  

علی زئی کا یہ دعویٰ کہ مرزبانیؒ پر جمہور نے جرح کی ہے، یہ سفید جھوٹ ہے، اس لئے کہ علی زئی نے اس کے خلاف جن تین حضرات سے جرح نقل کی ہے ، ان میں سے محمد بن ابی الفوراس کی جرح مرزبانی کے عقیدہ سے متعلق ہے، اور خود علی زئی نے تسلیم کیا کہ ایسی جرح راوی کی صحتِ روایت کے خلاف نہیں ہے۔(نور العینین : ص ۶۳) جبکہ ان کے بالمقابل کئی محدثین نے مرزبانی کی توثیق کی ہے۔

(۱)         امام ابو الحسن العتیقی ؒ(م۴۴۱؁ھ) نے مرزبانی کو ثقہ قرار دیا ہے جیسا کہ خود علی زئی نے بحوالہ تاریخِ بغداد نقل کیا ہے۔

(۲)         علامہ خطیب ؒ(م۴۶۳؁ھ) نے ابو عبیداللہ بن الکاتب سے منسوب جرح کے رد میں لکھا ہے

’’قلت لیس حال ابی عبیداللہ عندنا الکذب‘‘

میں (علامہ خطیبؒ) کہتاہوں ابوعبیداللہ (محمد بن عمران مرزبانی) ہمارے نزدیک جھوٹے نہیں ہیں۔(تاریخ بغداد:۳؍۳۵۳)

(۳)        امام ابن خلکانؒ(م۶۸۱؁ھ) نے مرزبانیؒ کے ترجمہ میں تصریح کی ہے کہ ’’وکان ثقۃ فی الحدیث ‘‘ کہ مرزبانی حدیث میں ثقہ تھے۔ (وفیات الاعیان:۲؍۳۹۷ )

(۴)        امام ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ)  نے مرزبانیؒ کو ’’صدوق‘‘ قرار دیا ہے۔ (المغنی فی الضعفاء :۲؍۳۵۶)

(۵)        امام ابن الاھدلؒ(م۱۰۳۵؁ھ) بھی اپنی ’’تاریخ‘‘ میں مرزبانیؒ کو ’’ثقۃ فی الروایۃ‘‘ قرار دیتے ہیں۔  (شذرات الذھب:ج۴: ص ۴۴۵،ج۲: ص ۱۱۳)

(۶)         امام ابن الجوزیؒ مرزبانیؒ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ’’ لم یکن من الکذابین‘‘  یہ جھوٹے لوگوں میں سے نہیں ہے۔ (البدایہ والنھایۃ:۱۸؍۷)

(۷)        امام صلاح الدین الصفدیؒ (م۷۶۴؁ھ)بھی مرزبانی ؒ  کو ثقہ قرار ریتے ہیں ۔(الوافی  بالوفیات :ج۴: ص ۱۶۶ )

.(۸)       حافظ سبط ابن الجوزیؒ(م۶۵۴؁ھ) کہتے ہیں کہ ’’ اتَّفقوا على أنَّه لم يكن كذَّابًا ‘‘ محدثین اس پر متفق ہے کہ وہ کذاب نہیں ہیں۔ (مراۃ الزمان : ج۱۸ : ص ۷۹)

(۹)         امام ابو محمد الیافعیؒ(م۷۶۸؁ھ) نے بھی ثقہ کہا ہے۔(مراۃ الجنان : ج۲: ص ۳۱۴)

(۱۰)       امام ابو عبد اللہ،یاقوت  الحمویؒ(م۶۲۶؁ھ) نے بھی ان کو ثقہ کہا  ہیں۔(معجم الادباء : ج۶: ص ۲۵۸۲)

(۱۱)        امام مجير الدين العليميؒ(م۹۲۸؁ھ) نے ثقہ کہا ۔ (التاريخ المعتبر: ج۳: ص ۱۷۷)

(۱۲)       نواب صدیق حسن خانؒ(م۱۳۰۷؁ھ)  غیر مقلد نے بھی ان کو ثقہ کہا ۔(التاج المکلل: ص ۱۱۳)

(۱۳)       امام ابو محمد الھجرانیؒ(م۹۴۷؁ھ)نے ثقہ کہا ۔(قلادۃ النحر : ج۳: ص ۲۵۵)

اسی طرح امام ابو علی الفارسیؒ(م۳۷۷؁ھ)، حافظ ابن الاثیرؒ(م۶۳۰؁ھ)،حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ)،امام  ابو الحسن القفطیؒ(م۶۴۶؁ھ)، ابو المعالی ابن الغزی ؒ(م۱۱۶۷؁ھ)  وغیرہ نے بھی آپؒ کی ثناء و تعریف فرمائی ہے۔(الکامل فی التاریخ : ج۷: ص ۴۶۶،سیر:ج۱۶: ص ۴۴۷،انباہ الرواۃ : ج۳: ص ۱۸۰،دیوان الاسلام : ج۴: ص ۲۲۱)

              لہذا زبیر علی زئی کا  یہ دعوی کرنا کہ مرزبانی  پر جمہور  نے  جرح کی ہے۔یہ ان کے دیگر اکاذیب کی طرح  ایک صریح کذب ہے۔

[16] امام دار قطنیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

              علی زئی جیسے متعصب غیر مقلدین یہ ہرگز برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی محدث ائمہ احناف میں سے کسی امام کی توثیق کرے، اور اگر کسی محدث سے کسی حنفی امام کی توثیق ثابت ہوجائے تو پھر یہ لوگ اس توثیق کو رکیک تاویلوں سے ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں، چنانچہ علی زئی نے امام دار قطنیؒ سے مذکورہ توثیقی قول کی سند کو صحیح تسلیم کرلینے کے باوجود اس کو یہ کہہ کر ٹالنے کی کوشش کی ہے کہ:

امام دار قطنیؒ کے نزدیک کسی شخص کا متروک نہ ہونا اس کی دلیل نہیں ہے کہ وہ دوسرے محدثین کے نزدیک بھی متروک نہیں ہے۔  (الحدیث:ش۷،ص۱۶،حاشیہ:۶)یہ ہے علی زئی کا انصاف ! کہ اگر امام دارقطنیؒ کا کوئی حوالہ احناف کے خلاف آئے تو پھر وہ جلیل القدر معتدل امام ہیں ،اور اگر ان کا کوئی حوالہ احناف کے حق میں ہو تو پھر وہ محدثین کی صف سے ہی خارج ہوجا تے ہیں، اور ان کی توثیق کی کوئی وقعت نہیں رہتی۔  انا للہ  ……

خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا خرد

جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے

              اور پھر امام دار قطنیؒ اپنی اس توثیق میں منفرد نہیں ہیں، بلکہ کئی محدثین نے بھی امام محمدؒ کی توثیق کی ہے، ان میں سے بعض کے توثیقی اقوال گزر چکے ہیں، اور بعض کے آگے آرہے ہیں ، لہٰذا علی زئی کی مذکورہ تاویل باطل ہے۔

              اور بالفرض اگر امام دار قطنیؒ امام محمدؒ کی توثیق کرنے میں منفرد بھی ہوں تو کم از کم علی زئی کو یہ تو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہے کہ امام محمدؒ امام دار قطنیؒ کے نزدیک ثقہ اور مقبول روایت ہیں، لیکن علی زئی اس بات کو بھی تسلیم کر لینے کے لئے تیار نہیں ہیں، چنانچہ ایک دوسری جگہ ہے امام محمدؒ کے بارے میں لکھتے ہیں:

اس کی توثیق کسی معتبر محدث سے ثابت نہیں ہے۔  (حاشیہ :جزء رفع الیدین:ص۲۴) گویا علی زئی کی نظر میں امام دار قطنیؒ معتبر محدث نہیں ہیں۔

بریں عقل و دانش بباید گریست

[17] امام زیلعیؒ کے امام دار قطنیؒ سے نقل کردہ قول پر علی زئی کی بے چینی :

زبیر علی زئی نے یہاں بھی اپنی عادت کے موافق امام دارقطنیؒ کے اس ایک مستند اور مضبوط حوالے کو قبول کرنے کے بجائے، الٹا امام زیلعیؒ جیسے محدث جلیل پر یہ بے بنیاد الزام لگادیا کہ انہوں نے امام دار قطنیؒ کے اس قول کو اپنی کتاب ’’نصب الرایہ‘‘ میں کانٹ چھانٹ کر کےنقل کیا ہے، چنانچہ لکھتے ہیں:

’’نصب الرایہ للزیلعی‘‘ میں امام دار قطنی کی کتاب ’’غرائب مالک‘‘ سے ایک قول کانٹ چھانٹ کر کے نقل کیا گیا ہے، جب تک اصل کتاب ’’غرائب مالک‘‘ یا اس سے منقول پوری عبارت نہ دیکھی جائے،  اس متبور (ادھ کٹے) قول سے استدلال صحیح نہیں ہے، زاہد الکوثری صاحب وغیرہ، اس متبور و مقطوع قول پر بغلیں بجا بجا کر خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں۔  (الحدیث:ش۷۱۹)

نیز ایک جگہ کہتے ہیں :اصل کتاب  غرائب مالک موجود نہیں ہے،تا کہ زیلعی  کے دعوی کی تصدیق کی جاسکے۔(مقالات : ج۲: ص ۳۵۵)

جواب:  

اولاً         حافظ جمال الدین ابو محمد عبد اللہ بن یوسف الزیلعیؒ(م۷۶۲؁ھ) کی مختصر توثیق و ثناء درج ذیل ہیں:

(۱)         امام جمال الدین ،یوسف بن تغریؒ(م۸۷۴؁ھ) نے کہا :

’’الشيخ الإمام البارع المحدّث العلامة۔۔۔۔۔۔۔۔۔وكان- رحمه الله- فاضلا بارعا في الفقه والأصول والحديث والنحو والعربية وغير ذلك‘‘۔(النجوم الزاھرۃ:ج۱۱: ص ۱۰)

(۲)         امام زین الدین الملطیؒ(م۹۲۰؁ھ) نے کہا :

              ’’ وكان عالما محدّثا  فاضلا ‘‘۔(نیل الامل: ج۱ :ص ۳۲۴)

(۳)        حافظ ابن فہد المکیؒ(م۸۷۱؁ھ) نے کہا :

’’ الفقية الإمام الحافظ ۔۔۔۔۔تفقه وبرع وأدام النظر والاشتغال وطلب الحديث واعتنى به فانتقى وخرج وألف وجمع ‘‘۔ (لحظ الالحاظ : ص ۸۸)

(۴)        حافظ سیوطیؒ(م۹۱۱؁ھ) نے کہا :

              ’’ الإِمَام الْفَاضِل الْمُحدث الْمُفِيد ‘‘۔(ذیل طبقات الحفاظ للسیوطی  : ص۵۳۵)

(۵)        ابو المعالی ابن الغزیؒ(م۱۱۶۷؁ھ) نے کہا :

              ’’ الإمام الحبر الفقيه ‘‘۔(دیوان الاسلام : ج۲: ص ۳۸۷)

          خلاصہ یہ کہ حافظ زیلعیؒ(م۷۶۲؁ھ) مشہور حافظ الحدیث اور صدوق محدث ہیں۔(اضواء المصابیح : ۲۵۱)، لہذا ان کی نقل،صحیحین کے روات کی طرح صحیح و قابل اعتماد ہیں اور علی زئی کا اعتراض کہ ’’اصل کتاب  غرائب مالک موجود نہیں ہےتا کہ زیلعی  کے دعوی کی تصدیق کی جاسکے ‘‘ باطل و مردود ہے۔

اور تمام متاخرین محدثین (حافظ ابن حجرؒ وغیرہ) کی تحقیقات کا یہ ایک بڑا ماخذ ہے، اسی طرح غیر مقلدین کی شروحات حدیث بھی اس کتاب کے مستدلات سے بھری ہوئی ہیں، مثلاً مشہور غیر مقلد عالم مولانا شمس الحق ڈیانویؒ کی ’’ التعلیق المغنیٰ علیٰ متن الدارقطنی‘‘ زیادہ تر اسی ’’ نصب الرایہ‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا اقرار مولانا ارشاد الحق اثری غیر مقلد نے بھی کیا ہے، چنانچہ موصوف لکھتے ہیں: اہلِ علم جانتے ہیں کہ محدث ڈیانویؒ ’’التعلیق المغنی‘‘ میں اکثر و بیشتر ’’نصب الرایہ‘‘ سے نقل کرتے ہیں۔ (تنقیح الکلام:ص۲۳۷) خود علی زئی نے امام زیلعیؒ  کے علمی مقام اور ان کی اس کتاب کی شہرت کو تسلیم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ : ابو محمد عبداللہ بن یوسف الحنفی الزیلعیؒ مشہور حنفی عالم ہیں، ان کی کتاب ’’نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ‘‘  کا نام زبان زد عام ہے۔  (نورالعینین:ص۵۱)

دوم        امام زیلعیؒ نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ سے ان کا مذکورہ قول نقل کیا جو کہ بالکل صاف ہے،ا ور اس میں ادنیٰ سابھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس میں کوئی قطع وبُرید ہوئی ہے، لیکن علی زئی کی ہٹ دھرمی ملاحظہ کریں کہ انہوں نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ دیکھی تک نہیں ہے، لیکن پھر بھی امام زیلعیؒ پر بلاثبوت یہ تہمت لگا رہے ہیں کہ انہوں اس قول میں کانٹ چھانٹ کی ہے۔  فیا للعجب

یہ اندازِ جنوں اچھا نکالا

لیا پہچان گو دیکھا نہ بھالا

سوم         پھر علی زئی کے دوغلا پن کی حد ہے کہ یہاں امام زیلعیؒ نے امام دار قطنیؒ کی ’’غرائب مالک‘‘ سے جو حوالہ نقل کیا ہے ، وہ تو علی زئی کی نظر میں غیرمعتبر ہے ، کیونکہ وہ ان کے موقف کے خلاف ہے ، لیکن جب امام زیلعیؒ کا اسی ’’غرائب مالک‘‘ سے نقل کردہ حوالہ علی زئی کے حق میں ہو تو پھر وہ آنکھیں بند کرکے اس کو قبول کر لیتے ہیں۔

چنانچہ ایک حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں: شیخ الاسلام امام دارقطنیؒ نے ایک کتاب’’ غرائب مالک‘‘ لکھی ہے، اس کتاب میں انہوں نے ہر قسم کی ( موضوع و باطل وغیرہ بھی) روایات اکٹھی کی ہیں، مگر وہ( یعنی خلافیات للبیہقی کی ترک رفع کی ابن عمر کی مرفوع روایت)اس کتاب میں مغلطائی کنجری کی روایات نہیں لائے، ملاحظہ ہو ’’نصب الرایہ للزیلعی: ج۱، ص۴۰۴‘‘ ۔۔  (نورالعینین:ص۵۱)

اسی طرح کی دوغلی پالیسی کی حرکت  موصوف علی زئی نےایک اور جگہ بھی کی ہے۔(مجلہ الاجماع : ش ۳: ص ۱۳۳)

قارئین:آپ نے ملاحظہ کر لیا کہ علی زئی صاحب کیسی دوغلی پالیسی پر گامزن ہیں کہ امام زیلعیؒ کی نقل میں جب اپنا کوئی فائدہ نظر آئے تو فوراً اس کو قبول کر لیتے ہیں، اور جب ان کی نقل سے ان کے موقف پر زد پڑتی ہو تو پھر لچر قسم کے بہانوں سے اس کو رد کر دیتے ہیں، اور نام ہے اہلِ حدیث۔

پھر یہ لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکنے کی بجائے علامہ زاہد الکوثریؒ وغیرہ جیسے اہل علم پر طنز کرتے ہیں کہ ’’ وہ اس متبور قول پر بغلیں بجا بجا کو خوشی کا اظہار کرتے رہے ہیں‘‘ لیکن ان کو یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ملتی کہ علامہ زاہد الکوثریؒ وغیرہ تو ایک حقیقت کا اظہار کرکے خوش ہو رہے ہیں جو کہ بجا ہے، لیکن آپ لوگ تو اس حقیقت سے انکار کر کے اپنی جہالت اور ہٹ دھرمی کا ماتم کر رہے ہیں۔

[18] اور امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) مقدمہ المستدرک علی الصحیحین میں کہتے ہیں کہ :

              أنا أستعين الله على إخراج أحاديث رواتها ثقات۔

            میں   اللہ سے مدد چاہتا ہو،ثقہ  روات کی احادیث کے اخراج  کے سلسلے میں۔(المستدرک :ج۱: ص ۴۲)،

معلوم ہوا کہ امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) نے ثقات کی روایت  اپنی کتاب میں  نقل کی ہے۔لہذا امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) بھی  امام حاکم ؒ (م۴۰۵؁ھ) کے نزدیک ثقہ ہیں۔

              نیز امام حاکمؒ نے امام محمد ؒ (م۱۸۹؁ھ) کو ’’ فهذه صفة أتباع التابعين إذ جعلهم النبي صلى الله عليه وسلم خير الناس بعد الصحابة والتابعين المنتخبين، وهم الطبقة الثالثة بعد النبي صلى الله عليه وسلم، وفيهم جماعة من أئمة المسلمين، وفقهاء الأمصار ‘‘ میں شمار کیا ہے۔ (معرفۃ  علوم الحدیث للحاکم : ص۴۶)

              لہذا امام محمد ؒ(م۱۸۹؁ھ) امام حاکمؒ کے نزدیک ثقہ،فقیہ ،اور ائمہ المسلمین ہیں۔

امام حاکمؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت :

زبیر علی زئی نے اپنی عادت سے مجبور ہوکر امام حاکمؒ کی توثیق پر اعتراض کر دیا کہ حافظ ذہبیؒ نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں امام حاکمؒ کا ( امام محمدؒ کی روایت کی سند کو صحیح الاسناد کہنے پر) رد کرتے ہوئے کہا:   قلت بالدبوس، میں نے کہا: ڈنڈے کے زد پر۔  معلوم ہوا کہ یہ تصحیح ذہبیؒ کے نزدیک مردود ہے۔  (الحدیث:۵۴؍۱۲،۵۵؍۳۴)

جواب:   

علی زئی کا یہ اعتراض کئی وجوہ سے باطل ہے:

(۱)         حافظ ذہبیؒ کا امام حاکمؒ کی تصحیح کو رد کرنا امام حاکمؒ کی تصحیح پر نظرانداز نہیں ہوتا، اس لئے کہ امام حاکمؒ ، حافظ ذہبی ؒ سے مقدم بھی ہیں، اور خود زبیر علی زئی نے دار قطنیؒ اور خطیب بغدادیؒ کے اقوال میں موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان دونوں (خطیب، دارقطنی) کے اقوال میں متقدم واوثق ہونے کی وجہ سے دار قطنی کے قول کو ہی ترجیح حاصل ہے۔  (الحدیث:۱۷؍۱۹)

نیز علی زئی نے لکھا ہے: متأخرین کا متقدمین کے مقابلے میں کوئی اعتبار نہیں ہے۔ (القول المتین:ص۲۳) ان تصریحات کے باوجود علی زئی کا امام حاکمؒ کی تصحیح کو حافظ ذہبیؒ کے قول کی وجہ سے رد کردینا انصاف و دیانت کا خون کرنے کے مترادف ہے۔

(۲)         حافظ ذہبیؒ نے اپنی کتا ب ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں مذکورہ حدیث کے تمام راویوں کی دیگر احادیث کو صحیح قرار دیا ہے، مثلاً ’’الربیع عن الشافعی‘‘ کی سند سے مروی کم از کم دو احادیث کو انہوں نے صحیح کہا ہے۔(دیکھئے رقم الحدیث: ۲۸۱۴، ۳۲۵۴) امام محمد بن حسنؒ کی ایک روایت پر بھی انہوں نے تلخیص میں سکوت کیا ہے۔  (رقم الحدیث:۵۹۷۸)  جو کہ باقرار غیر مقلدین حافظ ذہبیؒ کے نزدیک اس حدیث کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔(فتاویٰ اہل حدیث:۱؍۶۳۵) امام ابویوسفؒ کی کم از کم چار روایات کو انہوں نے صحیح کہا۔  (رقم الحدیث:۲۱۸۴،۳۶۸۹،۳۹۱۸،۷۷۸۳)  ا سی طرح عبداللہ بن دینارؒ کی کم از کم ایک حدیث کی انہوں نے تصحیح کی ۔  (رقم الحدیث:۱۷۹۳)

نیز حافظ ذہبیؒ نے اپنی کتب( سیر اعلام النبلاء وغیرہ) میں ان سب حضرات کی توثیق و توصیف کی ہے، اور خود معترض زبیر علی زئی ایک روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے لکھا ہے کہ امام بخاریؒ ، امام ابو حاتمؒ اور امام ذہبیؒ نے اس روایت کو غیر محفوظ وغیرہ قرار دیا ہے، تو عرض ہے کہ یہ جرح غیر مفسر ہے، جبکہ اس حدیث کے تمام راوی امام بخاریؒ ، امام ابوحاتمؒ، اور امام بیہقیؒ کے نزدیک ثقہ ہیں، تو اسے کس دلیل کی بنیاد پر غیر محفوظ قرا ر دیا جاسکتا ہے۔(مسئلہ فاتحہ خلف الامام:۲۲)

بنا بریں جب مذکورہ حدیث جس کی تصحیح کو امام ذہبیؒ نے رد کیا ہے، کے تمام راوی امام ذہبیؒ کے نزدیک صحیح الحدیث اور ثقہ ہیں، تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر اس حدیث کی تصحیح کو رد کیا جاسکتاہے؟

واضح رہے کہ اس حدیث کی سند پر جو اعتراض کیا گیا ہے، اس کی وجہ اس سند کے راویوں کا ضعیف ہونا نہیں ہے، بلکہ اعتراض کی وجہ یہ ہے کہ اس کی سند میں امام ابویوسفؒ اور عبداللہ بن دینارؒ کے درمیان عبیداللہ بن عمر کا واسطہ گر گیاہے، امام بیہقیؒ جو ایک کٹّر اور متعصب شافعی محدث ہیں، انہوں نے بھی یہ اقرار کیا ہے کہ یہ واسطہ امام شافعیؒ سے گراہے، کیونکہ انہوں نے جب اس حدیث کو زبانی بیان کیاتو وہ سند میں عبیداللہ بن عمر کا نا م لینا بھول گئے، اور اس کی حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے دلیل یہ بیان کی ہے کہ امام ابن حبانؒ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں امام بشر بن ولیدؒ کے واسطے سے امام ابویوسفؒ سے یہ حدیث نقل کی ہے، اور اس میں یہ واسطہ موجود ہے، اسی طرح محمد بن حسنؒ نے بھی اپنی کتاب ’’کتاب الولاء‘‘ میں اس حدیث کی سند میں امام ابو یوسفؒ اور عبداللہ بن دینارؒ کے درمیان عبیداللہ بن عمرؒ کانام لیاہے، اس سے معلوم ہوا کہ امام شافعیؒ سے یہ واسطہ ذکر کرتے ہوئے چوک ہوئی ہے۔  (دیکھئے: تلخیص الحبیرللحافظ ابن حجرؒ:۴؍۲۱۴،)

لہٰذا اگر اس سند میں غلطی ہے تو اس کے ذمہ دار اما شافعیؒ ہیں نہ کہ امام محمدؒ واما م ابویوسفؒ لہٰذا علی زئی کا امام محمدؒ پر اعتراض فضول ہے۔

(۳)        امام حاکم کی تصحیح، ذہبیؒ کے موقف کے خلاف ہو یا جمہور کے جیساکہ علی زئی کا دعویٰ ہے ،لیکن یہ بات تو حتمی ہے کہ کم از کم  امام  حاکمؒ کے نزدیک امام محمدؒ ثقہ ہیں، لہٰذا اس سے علی زئی کا یہ دعویٰ تو باطل ہوجاتا ہے کہ امام محمدؒ کی توثیق کسی محدث سے ثابت نہیں ہے۔

 

[19] نیز امام بیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) نے ان کو   ’’أَئِمَّة الْمُسْلِمِينَ‘‘  اور ’’من أكابر فقهاء الأمصار‘‘  میں شمار کیا ہے۔(کتاب الاسماء و الصفات : ص۵۸۵،۶۱۰،المدخل  للبیہقی : ج۲: ص ۵۸۹،ت عوامہ)

              لہذا امام ابوبکر البیہقیؒ(م۴۵۸؁ھ) کے نزدیک بھی امام محمد ؒ(م۱۸۹؁ھ) صدوق،فقیہ ہیں۔

[20] امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ۵۵۰؁ھ) کی کتاب کے بارے میں حافظ ابن عساکرؒ(م۵۷۱؁ھ) کہتے ہیں کہ  اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (تاریخ ابن عساکر : ج۶۴: ص ۴۵)، یعنی اس کتاب میں امام یحییٰ بن ابراہیم السلماسیؒ۵۵۰؁ھ)  نے جو کچھ باتیں اورروایت لکھی  ہے،اس میں اور اس کے روات میں، حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱؁ھ) کے نزدیک  کوئی حرج نہیں ہے۔

              اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱؁ھ) کے نزدیک   اس کتاب  کے ارشادات ،روایات  اور ائمہ ثلاثہ کے ساتھ ساتھ،امام ابو حنیفہؒ، امام یو سف اور امام محمدؒ  میں بھی کوئی حرج نہیں ہے،کیونکہ اس کتاب میں  امام ابو حنیفہؒ، امام یو سف اور امام محمدؒ   وغیرہ سے روایات موجود  ہیں۔(منازل : ص۱۷۰،۱۶۵،۱۷۹)

              نیزابن عساکرؒ نے امام محمدؒ کو( ضابطون)  ضبط کرنے والوں  میں بھی شمار کیا ہے۔( بحوالہ اتحاف السالک لابن ناصرالدین : ص ۶۴،ت نشات بن کمال المصری)

[21] حافظ ذہبیؒ کی توثیق پر زبیر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت :

زبیر علی زئی امام ذہبیؒ کے مذکورہ بالابیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حافظ ذہبیؒ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ (امام محمدبن حسنؒ ) شیبانی مذکور اگر امام مالکؒ کے علاوہ دوسرے لوگوں (مثلاً:امام ابوحنیفہ) سے روایت کرے تو وہ (ذہبی کے نزدیک بھی) غیر قوی یعنی ضعیف ہے۔ (الحدیث:ش۱۷،ص۱۱)

الجواب :

زبیر علی زئی صاحب کا  یہ تبصرہ باطل و مردود ہے۔ کیونکہ حافظ ذہبیؒ(م۷۴۸؁ھ) نے محمد بن الحسن کی غیر مالک  والی روایت کو حسن کہا ہے۔چنانچہ حافظ ذہبیؒ (م۷۴۸؁ھ) کہتے ہیں کہ:

أخبرنا علي بن أحمد الحافظ وغيره، قالوا: أنا الحسين بن أبي بكر الحنبلي ح وأنا أحمد بن عبد المنعم القزويني، أنا محمد بن سعيد الصوفي، أنا طاهر بن محمد المقدسي، أنا مكي بن منصور، أنا أحمد بن الحسن القاضي، ثنا محمد بن يعقوب، أنا الربيع بن سليمان، أنا محمد بن إدريس الشافعي، أنا محمد بن الحسن، أنا قيس بن الربيع، عن أبان بن تغلب، عن الحسن بن ميمون، عن عبد الله بن عبد الله مولى بني هاشم، عن أبي الجنوب الأسدي، قال: قال علي رضي الله عنه: «من كان له ذمتنا فدمه كدمنا، وديته كديتنا» ،

ويحكى عن محمد بن الحسن ذكاء مفرط، وعقل تام، وسودد، وكثرة تلاوة ۔(مناقب للذہبی : ص ۹۳-۹۴)

اس روایت  میں محمد بن الحسن الشیبانیؒ(م۱۸۹؁ھ) نے قیس بن الربیعؒ (م۱۶۷؁ھ)سے روایت کیا ہے،اور  خود حافظ ذہبیؒ نے اپنے اس  ترجمہ  کے بارے میں  کہا کہ ’’ وقد أفردت له ترجمة حسنة في جزء ‘‘۔(تاریخ الاسلام : ج۴: ص ۹۵۵)  یعنی  اس ترجمہ کی تمام روایات اور ارشادات حافظ ؒ کے نزدیک حسن  ہیں۔

لہذا یہ روایت کو بھی حافظ ذہبی نے حسن کہا ہے،جس سے معلوم ہوا کہ  ان کے نزدیک محمد بن الحسن کی غیر مالک  والی روایت میں قوی اور صدوق ہیں ۔واللہ اعلم

نیز  اس روایت میں امام شافعی ؒ (م۲۰۴؁ھ) کہتے ہیں کہ  ’’ محمد بن الحسن ذكاء مفرط، وعقل تام، وسودد، وكثرة  تلاوة‘‘  امام محمد ؒ کے بارے میں انتہائی ذکاوت ، اعلیٰ درجہ کی عقلمندی ، (علمی ) سیادت ، اور کثرت تلاوت بیان کرتے ۔

مزید حافظ ذہبیؒ نے ’’تلخیص المستدرک‘‘ میں امام محمدؒ کی ایک روایت جو امام مالکؒ کے بجائے ابومحنف سے ہے ، پر سکوت کیا ہے، جو کہ باقرارِ غیر مقلدین اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت امام ذہبیؒ کے نزدیک صحیح ہے۔(دیکھئے ص : )

یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ حافظ ذہبیؒ کے ہاں امام محمدؒ غیر مالک میں بھی ثقہ ہیں۔

نیز حافظ ذہبیؒ نے امام صاحب ؒ کو ’’الأئمۃ المھدیین‘‘ میں بھی شمار کیا ہے۔(العرش للذہبی : ج۲: ص۲،۲۴۹)

اور پھر علی زئی کا دہرا معیار ملاحظہ کریں کہ وہ یہاں تو امام محمدؒ کے خلاف اس کلام کا یہ مطلب بیان کر رہے ہیں، لیکن دوسری جگہ اپنے ایک پسندیدہ راوی کے بارے میں انہوں نے اس طرح کے کلام کا مطلب اس کے برعکس بیان کیا ہے،

چنانچہ ایک راوی یحییٰ بن سلیم کے بارے میں امام بخاریؒ فرماتے ہیں:  ’’ماحدث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح‘‘  اس کلام کا مطلب علی زئی کے اصول ( جو کہ انہوں نے امام محمدؒ کے خلاف اختراع کیا ہے)  یہی بنتا ہے کہ  اگر یحییٰ بن سلیم سے امام حمیدیؒ کے علاوہ کوئی اور شخص روایت کرے تو پھر اس کی حدیث ضعیف ہے، شیخ البانی غیر مقلد نے اس کا یہی مطلب بیان کیا ہے،

لیکن علی زئیؒ اس پر ان کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اور اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب وہ استنباط ہے، جو شیخ البانیؒ نے امام بخاریؒ کے قول:  ’’ماحدیث الحمیدی عن یحییٰ بن سلیم فھو صحیح ‘‘ سے  نکالا ہے کہ اگر غیر حمیدی اس (یحییٰ بن سلیم) سے روایت کرے تو وہ (امام بخاری کے نزدیک) ضعیف ہے، اسے مفہومِ مخالف کہتے ہیں، دلیل صریح کے مقابلے میں مفہومِ مخالف و مبہم وغیر واضح دلائل سب مردودہوتے ہیں۔  (الحدیث:ش۱۶،ص۲۳)

اب امام ذہبیؒ کا امام محمدؒ کے بارے میں کلام اور امام بخاریؒ کا یحییٰ بن سلیم کے بارے میں کلام کے الفاظ اور ان دونوں کے مفہوم تقریباً ایک جیسے ہیں، لیکن علی زئی کے دوغلےپن کی انتہاء ہے کہ یحییٰ بن سلیم کے حق میں جس اصول کو وہ مفہومِ مخالف اور مبہم کہہ کر رد کر رہے ہیں، اسی اصول کے بل بوتے وہ امام محمدؒ کو (غیر مالک میں) ضعیف ثابت کر رہے ہیں۔ 

تیری زلف میں ٹھہری تو حسن کہلائی

وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی

 

[22] امام ذہبیؒ کی تصنیف مناقب ابی حنیفۃ وصاحبیہ  پر علی زئی کی بے چینی:

حافظ ذہبیؒ نے امام محمدؒ کے مناقب میں جو مستقل ایک جزء لکھا ہے ، اس سے چونکہ آپ کی بڑی فضیلت اور منقبت ظاہر ہورہی ہے ، جو کہ حافظ زبیر علی زئی جیسے متعصب غیر مقلد کے لئے انتہائی تکلیف کا باعث ہے ، اس لئے انہوں  نے اس جزء پر طعنہ زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

حافظ ذہبیؒ نے (محمدبن حسنؒ) الشیبانی پر ایک جزء لکھا ہے  مگر، ’’تذکرۃ الحفاظ‘‘ میں اس (محمد بن حسنؒ) کا بطور ترجمہ ذکر نہیں کیا، جبکہ ’’دیوان الضعفاء (۳۶۵۶)‘‘ اور  ’’المغنی فی الضعفاء (۵۴۰۶)‘‘  میں اس کا ذکر ضرور کیا ہے۔ (الحدیث:ش۷ص۱۶،حاشیہ:۱)

علی زئی کے طنز  کا جواب یہ ہے کہ صرف راوی پر کلام یا ائمہ کا راوی کو ضعفاء میں شمار کرنے کی وجہ سے بھی، ذہبیؒ  المغنی فی الضعفاء میں راوی کا ذکر کرتے ہے۔جیسا کہ ان کی عبار ت سے واضح ہے۔

چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ وَقد جمعت فِي كتابي هَذَا أمما لَا يُحصونَ فَهُوَ مغن عَن مطالعة كتب كَثِيرَة فِي الضُّعَفَاء فَإِنِّي أدخلت فِيهِ إِلَّا من ذهلت عَنهُ الضُّعَفَاء لِابْنِ معِين وللبخاري وَأبي زرْعَة وَأبي حَاتِم وَالنَّسَائِيّ وَابْن خُزَيْمَة والعقيلي وَابْن عدي وَابْن حبَان وَالدَّارَقُطْنِيّ والدولابي والحاكمين والخطيب وَابْن الْجَوْزِيّ وزدت على هَؤُلَاءِ ملتقطات من أَمَاكِن متفرقات ‘‘۔(المغنی : ص۴-۵)

یہی وجہ ہے کہ حافظ ذہبیؒ نے اس کتاب میں کئی ثقہ روات  مثلاً مکحولؒ،فلیح بن سلیمانؒ وغیرہ کو بھی ذکر کیا ہے۔

اور دیوان الضعفاء دراصل ابن جوزی ؒ کی کتاب کا اختصار ہےجس کی وجہ سے اس میں امام محمد ؒ کا نام  آیا ہے۔(مجلہ الاجماع : ش۲: ص ۸۷)

لہذا ان وجوہات کی وجہ سے ان کتابوں میں امام محمد ؒ کا ذکر  آنے سے،ان کا حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک ضعیف ہونا لازم نہیں ہوتا،بلکہ وہ  حافظ ذہبی ؒ کے نزدیک صدوق،امام، فقیہ ہیں،جیسا کہ ان کی توثیق و ثناء سے ظاہر ہے۔واللہ اعلم

[23] امام ہیثمیؒ کی توثیق پر علی زئی کے اعتراض کی حقیقت:

زبیر علی زئی سے جب امام ہیثمیؒ کا امام محمدؒ کی توثیق کرنا برداشت نہ ہوسکا تو انہوں نے امام موصوف کی توثیق کے خلاف یہ شوشہ چھوڑ دیا کہ عرض ہے کہ اسی صفحے پر ہیثمیؒ نے محمد بن اسحٰق کی روایت بیان کرکے ’’ورجالہ ثقات‘‘ کہہ کر انہیں ثقہ قرار دیا ہے، آپ لوگوں کو اس سے کیوں چڑ ہے؟

دوم          یہ کہ حافظ ہیثمیؒ متاخرین میں سے ہیں، اور ان کی یہ تحسین جمہور محدثین اور اکابرعلماء کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔   (الحدیث:۵۵؍۲۶)

جواب:    علی زئی کے اس اعتراض کی دونوں شقیں باطل اور ان کی جہالت اور عصبیت پر دال ہیں۔

(۱)         حافظ ہیثمیؒ نے مجمع الزوائد (۶؍۱۴۲) میں محمد بن اسحق کی جس روایت کے راویوں کو ثقہ کہا ہے، وہ تاریخ اور مغازی سے متعلق ہے ، اور تاریخ اور مغازی میں تو محمدبن اسحق ثقہ اور حجت بلکہ امام ہیں، لیکن احکام اور حلال وحرام کی احادیث میں وہ ضعیف ہے، چنانچہ خود علی زئی نے امام احمدبن حنبلؒ سے نقل کیا ہے کہ محمدبن اسحق کی مغازی وغیرہ سے متعلق احادیث لکھنی چاہیے، لیکن حلال وحرام کا مسئلہ ہوتو پھر نہیں۔  (دیکھئے : الحدیث:۴؍۵، حاشیہ)

لہٰذا علی زئی کا یہاں امام محمدؒ کی توثیق کے ساتھ محمدبن اسحق کی توثیق کا موازنہ کرنا خود ان کے اپنے طے شدہ اصول کی روشنی میں بھی باطل ہے۔

نیز خود علی زئی کے ایک ممدوح شیخ عمرو بن عبد المنعم نے محمدبن اسحق کی ایک روایت کو اس کے تفرد کی وجہ سے منکر کہا ہے،علی زئی نےشیخ موصوف سے اس پر کوئی اختلاف نہیں کیا، بلکہ شیخ کی اس عبارت پر حاشیہ میں ان کے موقف کی تائید کی ہے۔ (حاشیہ عبادات میں بدعات:ص۱۳۶)

اب علی زئی کو کیا چڑ ہے کہ وہ محمد بن اسحق کی حدیث کو منکر قرار دے رہے ہیں؟

اور پھر علی زئی کا احناف پر یہ طنز کرنا بھی غلط ہے کہ وہ امام ہیثمیؒ کی امام محمدؒ کے حق میں تو تسلیم کرتے ہیں ،اور ابن اسحق کے حق میں نہیں، اس لئے کہ خود علی زئی نے اپنے اسی مضمون میں یہ لکھا ہے کہ یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں کہ ہر محدث کی ہر بات ضرور بالضرور واجب القبول ہوتی ہے۔ (الحدیث:۵۵؍۲۵)

دروغ گو راحافظہ نباشد

(۲)         علی زئی کاامام ہیثمیؒ کو متاخرین میں سے قرار دے کر ان کی توثیق کو رد کرنا بھی خود ان کی اپنی تصریح سے متصادم ہے، چنانچہ انہوں نے اپنے اسی مضمون میں یہ تصریح کی ہے کہ :  جارح (جرح کرنے والے) یا معدل (تعدیل کرنے والے) اور مجروح یا مؤثق کے درمیان اتحادِ زمانہ یا معاصرت نہیں بلکہ کوئی بھی ثقہ وعارف الاسباب امام جرح وتعدیل کر سکتا ہے، اگر چہ وہ مجروح و موثق کی وفات سے بہت بعد میں پیداہوا ہو،اس جرح وتعدیل کی بنیاد راوی کی روایات اور محدثین کرام کی گواہیاں ہیں، نہ کہ اس سے ملاقات ضروری ہے۔ (الحدیث:۵۵؍۲۷)

دروغ گو را حافظ نباشد

اور پھر علی زئی کا امام ہیثمیؒ کی توثیق کو جمہور محدثین کے بالمقابل قرار دینا بھی غلط ہے، اس لئے کہ انہوں نے امام محمدؒ کے خلاف دس علماء سے جرح (جس  کی حقیقت  ہم آگے واضح کررہے ہیں) نقل کی ہے، جب کہ ہم نے الحمد للہ امام محمدؒ کے حق میں ۲۰ سے زائد محدثین سے توثیق نقل کی ہے۔



ماخوذ : الاجماع شمارہ نمبر13

پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز

سکین اور دیگر مضامین کیلئے دیکھیں مجلہ الاجماع  جو ہماری موبائل ایپ "دفاع احناف لائبریری" میں موجود ہیں، نیز اس ایپ میں رد غیر مقلدیت و سلفیت پر (1000) ایک ہزار سے زائد گرانقدر PDF کتب  ہیں

تبصرے

Popular Posts

*حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین , باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا حدیث نمبر: 1086 , 1027

 *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ اور ترک رفع یدین*   تحریر : مفتی مجاہد صاحب فاضل مدرسہ عربیہ رائیونڈ پیشکش : النعمان سوشل میڈیا سروسز غیر مقلدین حضرات حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کے حوالے سے رفع الیدین کے ثبوت میں بعض سادہ لوح مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک شوشہ یہ بھی چھوڑتے ہیں کہ وہ نو ہجری میں ایمان لائے لہذا جو کچھ انہوں نے نوہجری میں دیکھا وہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اخری اور دائمی عمل ہے *حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ سے سجدوں کی رفع الیدین کا ثبوت*   «سنن النسائي» (2/ 359): «‌‌126 - باب رفع اليدين للسُّجود 1085 - أخبرنا محمدُ بنُ المُثَنَّى قال: حَدَّثَنَا ابن أبي عَديٍّ، عن شعبة، عن ‌قَتَادة، ‌عن ‌نَصْرِ بن عاصم عن مالكِ بن الحُوَيْرِث، أنَّه رأى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رفع يديه في صلاته؛ إذا ركع، وإذا رفع رأسه من الرُّكوع، وإذا سجد، وإذا رفع رأسه من سُجوده، حتَّى يُحاذِيَ بهما فُروعَ أُذُنَيه»  سنن نسائی کتاب: نماز شروع کرنے سے متعلق احادیث باب: سجدہ کرنے کے وقت رفع الیدین کرنا  حدیث نمبر: 1086 ترجمہ: مالک بن حویر...

مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ )

  مسئلہ ترک رفع یدین (حدیث ابن مسعود ؓ کی سند پر اعتراضات کا جائزہ ) مفتی رب نواز حفظہ اللہ، مدیر اعلی مجلہ  الفتحیہ  احمدپور شرقیہ                                                         (ماخوذ: مجلہ راہ  ہدایت)    حدیث:           حدثنا ھناد نا وکیع عن سفیان عن عاصم بن کلیب عن عبد الرحمن بن الاسود عن علقمۃ قال قال عبد اللہ بن مسعود الا اصلیْ بِکُمْ صلوۃ رسُوْل اللّٰہِ صلّی اللّٰہُ علیْہِ وسلّم فصلی فلمْ یرْفعْ یدیْہِ اِلّا فِیْ اوَّل مرَّۃٍ قال وفِی الْبابِ عنْ برا ءِ بْن عازِبٍ قالَ ابُوْعِیْسی حدِیْثُ ابْنُ مسْعُوْدٍ حدِیْثٌ حسنٌ وبہ یقُوْلُ غیْرُ واحِدٍ مِّنْ اصْحابِ النَّبی صلّی اللّہُ علیْہِ وسلم والتابعِیْن وھُوقوْلُ سُفْیَان واھْل الْکوْفۃِ۔   ( سنن ترمذی :۱؍۵۹، دو...

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟

امیر المومنین فی الحدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ پر کیوں جرح کی ؟ جواب: 1) امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خلاف ، امام بخاری رحمہ اللہ کی جو جروحات ہیں اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ ہیکہ ان کو امام ابو حنیفہ کے بارے میں ضعیف ، من گھڑت اور بے بنیاد روایات ہی پہنچی تھیں جیسا کہ ہم تفصیل بیان کریں گیں کہ کیسے محدث اعظم امام بخاری رحمہ اللہ نے امام اعظم رحمہ اللہ پر جرح کی جو خود امام بخاری اور محدثین عظام کے اصولوں کے مطابق غلط تھیں۔ مثلا  1) امام بخاری کا شیخ نعیم بن حماد ہے ، جس کے بارے میں محدثین نے صراحت کی ہیکہ یہ شخص امام ابو حنیفہ کے خلاف جھوٹی روایات گھڑتا تھا۔ أبو الفتح الأزدي : كان ممن يضع الحديث في تقوية السنة وحكايات مزورة في ثلب النعمان كلها كذب ( تھذیب التھذیب 4/412 ) نعیم بن حماد کی جہاں توثیق ہے وہاں اس پر جروحات بھی ہیں۔  أبو حاتم بن حبان البستي : ربما أخطأ ووهم أبو دواد السجستاني : لينه أبو زرعة الدمشقي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو زرعة الرازي : يصل أحاديث يوقفها الناس أبو سعيد بن يونس المصري : يفهم الحديث، روى أحاديث مناكيرعن الثقات أب...