خد مات ِ البا نی ، غیر مقلدین کی زبانی
(ماخوذ: مجلہ راہ ہدایت 25 )
مفتی رب نواز
صاحب حفظہ اللہ ، احمد پور شرقیہ
حدیث کے رد و
قبول میں من مانیاں
شیخ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں :
’’ معلوم ہو ا کہ
البا نی صاحب کسی طبقا تی تقسیم مد لسین کے قائل نہیں تھے بلکہ وہ اپنی مرضی کے
بعض مد لسین کی معنعن روایات کو صحیح اور مرضی کے خلاف بعض مد لسین ( یا ابر یا ء
من التد لیس ) کی معنعن روایات کو ضعیف قرار دیتے تھے ۔اس سلسلے میں ان کا کوئی
اُصول یا قاعدہ نہیں تھا۔‘‘
( علمی مقالات جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)
شیخ ابو الا شبال شا غف غیر
مقلد ، البا نی کے متعلق لکھتے ہیں :
’ ’ تصحیح و تضعیف
کا اصول بھی ان کے نز دیک من مانا تھا کوئی مسلمہ اصول نہیں تھا ۔ اور یہی وجہ ہے
کہ کسی حدیث کو ایک جگہ ضعیف قرار دیا تو دوسری جگہ اس کی تصحیح کر دی کسی جگہ کسی
راوی کو ثقہ قرار دیا تو دوسری جگہ ضعیف اور اس کی بے شما ر مثالیں ان کی تحریروں
میں مل سکتی ہیں‘‘
( مقالا ت ِ شا
غف صفحہ ۲۶۷)
سنن اربعہ پر طبع آزمائی
علامہ
البا نی نے سنن اربعہ کے دو دو حصے کر دیئے جو صحیح نسائی ۔ضعیف نسائی، صحیح تر
مذی ،ضعیف ترمذی۔ صحیح ابو داود ، ضعیف ابو داو د اور صحیح ابن ماجہ ، ضعیف ابن
ماجہ کے نام سے شائع ہیں ۔ ضعاف کے مجمو عہ میں ایک انداز ہ کے مطا بق قریباًتین
ہزار حدیثوں کو شامل کیا ۔ البانی کی ا س جسارت پر خود ان کے اپنے بھی کچھ نہ کچھ
لکھنے پہ مجبور ہو گئے ۔ابو الا شبال شا غف صاحب غیر مقلد نے لکھا:
’’ شیخ البا نی نے بخاری و مسلم کی بعض روایتوں کو
سلسلہ ضعیفہ اور مو ضوعہ میں درج کر
دیا۔ بقیہ کتب ستہ میں سے ۴ کو دو حصو ں میں تقسیم
کر کے صحیح اور ضعیف کے نام سے اسناد حذف کر کے شائع کر ادیا ۔ جہلا ء نے سمجھ لیا
کہ آج تک اس ٹکر کا کوئی محدث گزرا ہی نہیں، لہٰذ ا کسی حدیث کو صحیح ماننے کے لیے
شیخ البا نی کی تصحیح لازمی ہے ‘‘
( مقالاتِ شاغف ص ۳۶۳)
تقویۃ
الا یما ن او ڈانوہ ماموں کا نجن کے بز رگ اور غیر مقلدین کے ’’ فضیلہ الشیخ حضرت
مولانا حافظ ‘‘ محمد امین لکھتے ہیں :
’’ کچھ عر صہ سے اہل حدیث یا محدثین کے نام پر ایک نیا
انداز ِ فکر متعارف کرو ایا جا رہا ہے ۔ جسے اہل ظاہر یا خوارج کا اند از فکر کہا
جا سکتا ہے ۔ جس میں اعتدال نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ انتہا پسند انہ رویہ اختیار
کیا جا تا ہے ۔ تشد د کو پسند ید ہ خیال کیا جاتا ہے بعض متشد دین محد ثین کے اصول
جنہیں جمہور محدثین نے تر ک کر دیا تھا دو بارہ نافذ کیے جا رہے ہیں معتبر احاد یث
کو سند میں معمولی ضعف کی وجہ سے غیر معتبر قرار دے کر ان پر عمل کرنے کو نا جا ئز
قرار دیا جا رہاہے جب کہ جمہور محدثین نے ان احادیث کو شو اہد اور قبولیت کی وجہ
سے حسن قرار دے کر قابلِ عمل قرار دیا تھا صحاح ستہ میں اس قسم کی احادیث کی عظیم
مقدار کو با قا عدہ ’’ ضعاف ‘‘ کے عنوان سے الگ جمع کر دیا گیا ہے اور عوام الناس
کو ان پر عمل نہ کرنے کی تلقین کی جارہی ہے، حالانکہ اصول ِ حدیث کے لحاظ سے متا
خر محدثین کی تصحیح و تضعیف معتبر نہیں ۔‘‘
( نما ز کے بعددعا ئے اجتما عی صفحہ ۱۲۰)
مسلمہ کتب حدیث پر خنجر آزمائی
ابو الا شبال
شاغف بہاری غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’
کاش البانی صاحب ... مسلمہ کتب احا دیث پر نقد و تنقید سے پر ہیز کر تے تو ان کے
حق میں بھی اچھا ہوتا اور دوسروں کے حق میں بھی لیکن تنقید کا تیر کمان سے نکل چکا
ہے جس نے دوسروں کو توز خمی کیا ہی خود تیر چلانے والا بھی زخمی ہوا‘‘
(مقالاتِ شاغف
صفحہ ۳۲۲)
مر دود قاعد ہ کا سہارا
ایک
روایت کا مفہوم ہے کہ سجد وں سے فراغت پر جب رکعت کے لیے اٹھیں تو آٹا گوندھنے کی
طرح مٹھی بند کر کے اٹھیں ۔ زبیر علی زئی صاحب غیر مقلداس روایت کی تحقیق میں
لکھتے ہیں۔
’’ ابو اسحاق
الحربی کی روایت مذکورہ کا ایک راوی ہیثم بن عمران الدمشقی ہے ۔ جسے ابن حبان کے
علاوہ کسی نے بھی ثقہ قرار نہیں دیا۔ لہٰذا یہ راوی مجہول الحال ہے حدیث کے عام
طالب عالموں کوبھی معلوم ہے کہ مجہول الحال کی منفرد روایت ضعیف ہوتی ہے... ہیثم
بن عمر ان کی توثیق ثابت کرنے کے لیے شیخ البانی رحمہ اللہ نے جو قاعدہ بنا یا ہے
وہ کئی وجہ سے مردودہے مثلاً:……‘‘
(توضیح الا حکام جلد ۱ صفحہ ۳۸۲)
ثقہ راویوں کو مجہول قرار دینا
شیخ زبیر علی زئی لکھتے ہیں :
’’ شیخؒ البا نی پر تعجب ہے کہ عجلی ، ابن حبان ، ابن خزیمہ
، تر مذی، اور حاکم کی توثیق کے با وجود مر جانہ مذکورہ کو مجہولہ سمجھتے تھے ۔ ‘‘
(توضیح الا حکام
جلد ۱ صفحہ ۲۶۲)
علی زئی صاحب ، ابن ماجہ کی ایک روایت کے متعلق
لکھتے ہیں :
’’ اس روایت کے
راوی مو ثربن عفا زہ ثقہ تھے، انہیں امام عجلی ، حافظ ابن حبا ن اور حاکم وغیر ھم
نے ثقہ قرار دیا ہے، لہٰذا شیخ البانی رحمہ اللہ کا انہیں مجہول قرار دینا غلط ہے۔
ــ‘‘
( علمی مقالات
جلد ۳ صفحہ ۴۴۰)
حدیث پر ہاتھ صاف
شیخ زبیر علی زئی غیر مقلد لکھتے ہیں :
’’
شیخ محمد نا صر الدین الالبانی رحمہ اللہ کا تد لیس کے بارے میں عجیب و غریب مو قف
تھا... بلکہ شیخ البانی نے ابو قلابہ کی معنعن
حدیث پر ہاتھ صاف کر لیا ۔ البانی نے کہا : اس کی سند ابو
قلابہ کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف
ہے اور وہ تد لیس کے ساتھ مذکور ہے...‘‘
( علمی مقالا ت جلد ۳ صفحہ ۳۱۷)
افسانے کی بنیاد پر جر ح
شیخ ابو الا شبال شا غف غیر مقلد لکھتے ہیں:
’’ گویا البانی
صاحب نے جو اختلاط کی بنیاد پر اس کی اسناد کو ضعیف قرار دیا وہ صرف افسانوی حد تک
ہے ۔ اس کی کوئی صحیح بنیاد نہیں، لہٰذا ان کی تقلید کر نے والے بے عقل ثابت
ہوئے‘‘
( مقالاتِ شاغف صفحہ ۲۶۹)
تنبیہ: البانی کی
تقلید کرنے والے نام نہاد اہلِ حدیث ہیں جیسا کہ خود شا غف صاحب کی زبانی آگے آرہا
ہے ۔
بغیر تحقیق کے جرح
شا غف صاحب
ہی لکھتے ہیں :
’’ شیخ البانی نے
محض اپنے سے قبل والے بعض علما ء کی باتوں پر اعتماد کر تے ہوئے اس حدیث کو مد رج
قرار دے کر سلسلہ احادیث ضعیفہ و مو ضو عہ میں لکھ دیا ۔ تحقیق سے اس کا کوئی تعلق
نہیں ۔‘‘
( مقالا ت شا غف صفحہ ۳۶۵)
شا
غف صاحب یہ بتا دیتے تو اچھا ہوتا کہ بغیر تحقیق کے محض پہلو ں پر اعتماد کر تے
ہوئے جر ح کرنا تقلید کہلائے گا یا کچھ اور؟
البا نی کی بات کو ’’ حر ف آخر ‘‘ کا درجہ دینا
غیر مقلد ین کے اعتراف کے مطابق البانی حدیث میں
من مانیا ں کرتے ہیں ۔ مگر افسوس ان کے حلقہ کے لوگ ان کی بات کو ’’ حر ف آخر ‘‘
قرار دیتے ہوئے ان کی تقلید کر تے ہیں ۔
چنانچہ شا غف
صاحب لکھتے ہیں:
’’
آج کل جما عت اہلحدیث کی ایک ایسی کھیپ تیار ہو چکی ہے جو نا صر الد ین البا نی کی
تقلید کو واجب سمجھتی ہے اور جو کچھ نا صرالدین البانی نے لکھ دیا ان کے نز دیک حر
فِ آخر کی حیثیت سے من وعن قابلِ قبول ہے۔ ‘‘
( مقالا ت شا غف صفحہ ۲۶۶)
زبیر علی زئی صاحب لکھتے ہیں :
’’
شیخ ابن باز کا یہ قول اہلِ حدیث اور شیخ البا نی کے اند ھا دھند مؤ ید ین کے خلا
ف پیش کیا گیا۔‘‘
(علمی مقالا ت جلد ۴ صفحہ ۲۴۴)
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں